سماجی و سیاسی اصلاح کی دینی اساس

ہمارے ملک کا معاشرہ متعدد اخلاقی کمزوریوں کا شکار ہے۔  خیانت و بددیانتی، اباحیت پسندی اور بے راہ روی، اوہام پرستی و تنگ نظری، حرص و ہوس اور مادہ پرستی جیسے سنگین امراض کے علاوہ کمزور افراد و طبقات پر ظلم و ستم اور اُن کا استحصال آج کے سماج کی عام روش ہے۔ سماج سے ہٹ کر سیاسی نظام پر نظر ڈالی جائے تب بھی اطمینان کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ سیاسی نظام میں ایسی بنیادی خرابیاں موجود ہیں، جنھوں نے اس کو خیروفلاح کے بجائے شر اور فساد کا خادم بنادیا ہے۔ غیر منصفانہ قوانین، غیر معتدل پالیسیاں، قانون کے نفاذ میں جانب داری، طاقتور عناصر کی قانون کی گرفت سے آزادی، حقوقِ انسانی کی پامالی اور جرائم پیشہ وسرمایہ دار طبقے کی مطلق العنانی موجودہ سیاسی نظام کی چند نمایاں خصوصیات ہیں۔ اس صورتحال میں امتِ مسلمہ کے اُس جز کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، جس کا وطن ہندوستان ہے۔ امتِ مسلمہ کی مجموعی حیثیت یہ ہے کہ اُس کو پورے انسانی معاشرے کی عام اصلاح کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ چنانچہ امت کا کوئی حصہ جو دنیا کے کسی خاص خطے میں رہتا ہو، اُس کو بالخصوص اُس خطے کے اندر اپنی اصلاحی کوششیں انجام دینی ہوں گی۔ یہ اُس کا فطری دائرہ کار ہے۔

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝              (آل عمران:۱۱۰)

’’تم (یعنی اُمتِ مسلمہ) سب اُمتوں سے بہتر ہو جو عالَم میں بھیجی گئی ہیں۔ تم اچھے کاموں کا حکم کرتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔ اگر یہ اہلِ کتاب ایمان لاتے تو ان کے حق میں بہتر تھا۔ اُن میں سے کچھ ایمان والے ہیں اور اکثر اُن میں نافرمان ہیں۔‘‘

بنیادی سوال

امتِ مسلمہ کے باشعور افراد جب عملاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا آغاز کرتے ہیں تو ایک اہم سوال اُن کے سامنے آتا ہے۔ وہ سوال درجِ ذیل ہے:

’’سماج اور سیاسی نظام کے سیاق میں مسلمانوں کی طرف سے کی جانے والی اصلاحی کوششوں (یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر مشتمل سرگرمیوں) اور دوسرے سیاسی یا نظریاتی گروہوں کی جانب سے کی جانے والی اسی طرز کی کوششوں میں کوئی بنیادی فرق ہے یا نہیں؟ اگر فرق ہے تو کیا ہے؟‘‘

کچھ لوگ اس طرح کے سوالوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ اُن کے نزدیک اصل اہمیت، میدانِ عمل میں انجام دی جانے والی سرگرمی کی ہے۔ رہی یہ بات کہ ’’اُس سرگرمی کی بنیاد کن تصورات و افکار پر ہے‘‘ تو ان کے خیال میں اس تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن سوچنے کا یہ انداز سطحی ہے اور اسلام کے حقیقت پسندانہ مزاج سے میل نہیں کھاتا۔ بلاشبہ اسلامی مزاج عملی سرگرمیوں کو بھی بڑی اہمیت دیتا ہے۔ لیکن اُن سرگرمیوں کی پشت پر کارفرما محرکات و خیالات کو بھی وہ کم اہم نہیں سمجھتا۔ بالخصوص جہاں تک نیت کا سوال ہے، کسی عمل کی قدروقیمت متعین کرنے میں نیت کا رول بنیادی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا مشہور ارشاد ہے: ’’بلاشبہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔‘‘

انسانی تصورات و خیالات ہی انسانی کاموں کی بنیاد ہیں اور اُن کا رخ متعین کرتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر یہ جاننا ضروری ہے کہ اہلِ ایمان کی جانب سے انجام دی جانے والی اصلاحی سرگرمیوں کی وہ امتیازی خصوصیت کیا ہے، جو اُن کوششوں کو دوسرے گروہوں کی کاوشوں سے ممتاز کرتی ہو۔ قرآن مجید میں مذکور اصلاحی مساعی کی مثالوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کی اصلاحی سعی کی اصل امتیازی خصوصیت اس کی ’’دینی اساس‘‘ ہے۔ بالفاظِ دیگر انبیاء علیہم السلام نے معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے کا جو کام انجام دیا وہ اُن کے مشن سے غیر متعلق کوئی کام نہ تھا، بلکہ اُن کے اصل فریضے ’’اقامتِ دین‘‘ کا ایک ناگزیر جز تھا۔ انبیاء کی پیروی کرتے ہوئے جو مخلص افراد، اصلاح کا عزم لے کر اٹھیں اُن کو اس امر کا اہتمام کرنا ہوگا کہ اُن کی اصلاحی سرگرمیاں دین کی بنیاد پر انجام پائیں۔

دینی اساس

جہاں تک متعین برائیوں کے مٹانے یا متعین بھلائیوں کو فروغ دینے کا معاملہ ہے، یہ کام سادہ انداز میں بھی انجام دیا جاسکتا ہے یعنی کسی نظریے کا حوالہ دیے بغیر محض فطرتِ انسانی کی خیرپسندی کو اپیل کرتے ہوئے بھلائیوں کی تلقین کی جاسکتی ہے اور بدی سے باز رہنے کی نصیحت کی جاسکتی ہے۔ اسلام اس طرزِ اصلاح کی نفی نہیں کرتا، البتہ یہ ظاہر ہے کہ یہ طرز، سماج میں رائج نسبتاً چھوٹی خرابیوں کی اصلاح میں تو کامیاب ہوسکتا ہے، اس لیے کہ وہ سماج میں عموماً اپنی گہری بنیادیں نہیں رکھتیں، لیکن بڑی خرابیاں اس طرح دور نہیں ہوسکتیں۔ سماج میں جو برائیاں بڑے پیمانے پر رائج ہوتی ہیں، اُن کو لوگ کسی نہ کسی نوعیت کا جواز فراہم کردیتے ہیں تاکہ بُرے کام کرتے وقت ضمیر کی ملامت سے بچاجاسکے۔ ایسی خرابیو ںکو مٹانے کے لیے محض تلقین کافی نہیں ہوتی، بلکہ برائیوں کے حق میں کیے جانے والے نظر فریب استدلال کی نفی بھی ضروری ہوتی ہے۔ یہ کام ایک پختہ و محکم نظریاتی اساس کے بغیرانجام نہیں دیا جاسکتا۔

انبیاء علیہم السلام اور اُن کے مخلص پیروؤں نے اپنے اپنے دور میں معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے کا جو کام انجام دیا، اُس کی اساس، انھوں نے دین کو بنایا۔ اِس دینی اساس کے چند اہم پہلو یہ ہیں:

(الف)     مصلح کی نیت کی درستگی

(ب)        مصلح کی حیثیت (پوزیشن) کا تعارف

(ج)         مخاطبین کے اندر جوابدہی کا احساس بیدار کرنا

(د)           بشارت

(ہ)           بدی کے لیے کیے جانے والے استدلال کی تردید

مندرجہ بالا پہلوؤں کی رعایت کے علاوہ انبیاء علیہم السلام کی کوششوں کا نمایاں وصف اُن کی محنت، لگن، سنجیدگی اور قربانی ہے۔ اس وصف کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے کہ سماج یا نظام میں کوئی حقیقی تغیر واقع ہوسکے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ بدی ناپائیدار ہوتی ہے لیکن اسی کے ساتھ یہ بات بھی صحیح ہے کہ اس شجرِ خبیث کی جڑیں— کمزور ہی سہی — لیکن بہرحال زمین میں پیوست ہوتی ہیں۔ چنانچہ محض تمناؤں سے بدی اپنی جڑ نہیں چھوڑا کرتی۔ اس جڑ کو زمین سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے مسلسل کوشش درکار ہوتی ہے۔ انبیاء کے پیروؤں کو اس کا ثبوت دینا ہوگا کہ وہ برائیوں کے استیصال کے سلسلے میں سنجیدہ ہیں تبھی یہ تو قع کی جاسکتی ہے کہ حقائق کی اس دنیا میں اُن کی کوششیں کامیاب ہوسکیں گی۔

مصلحین کی نیت

آج کے جمہوری نظامِ سیاست میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے عوامی مقبولیت درکار ہوتی ہے۔ عوام کو لبھانے کے لیے اقتدار کے طالب افراد اور گروہ جو کوشش کرتے ہیں اس کا ایک نمایاں جز سماج یا نظام میں موجود زیادتیوں اور مظالم کے خلاف ’’آواز اٹھانے‘‘ کا کام ہے۔ بظاہر یہ ایک بھلا کام ہے لیکن اس کے پیچھے جو محرک کام کرتا ہے وہ محض اقتدار طلبی کا محرک ہے۔ اس پست محرک کے سبب عموماً اُن سیاسی گروہوں کو مسائل کے فی الواقع حل ہوجانے سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ اُن کا مطمحِ نظر محض یہ ہوتا ہے کہ ان مسائل پر گفتگو چھیڑ کر اور مطالبات کرکے وہ اپنی عوامی مقبولیت میں اضافہ کرسکیں گے۔ بالفاظِ دیگر اقتدار کے طالب عناصر، عوامی پریشانیوں اور مسائل کو اپنے اقتدار کے لیے زینہ سمجھتے ہیں۔ اس اندازِ فکر کے بالکل برعکس اُن مخلص مصلحین کا سوچنے کا انداز ہوتا ہے، جو اقتدار یا عوامی مقبولیت کے بجائے اللہ کی رضا کے لیے کام کرتے ہیں۔

ان خدا ترس مصلحین کا اصل منشا یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کی خرابی دور ہوجائے اور فساد مٹ جائے۔ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے اس امر کی جانب متوجہ کیا ہے:

قَالَ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰي بَيِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَرَزَقَنِيْ مِنْہُ رِزْقًا حَسَـنًا۝۰ۭ وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْہٰىكُمْ عَنْہُ۝۰ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ۝۰ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللہِ۝۰ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْہِ اُنِيْبُ۝۸۸                  (ہود: ۸۸)

’’شعیب نے کہا: بھائیو! تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف ایک کھُلی شہادت  پر تھا اور پھر اُس نے مجھے اپنے ہاں سے اچھا رزق بھی عطا کیا (تو اُس کے بعد میں تمہاری گمراہیوں میں تمہارا شریکِ حال کیسے ہوسکتا ہوں؟) اور میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں، اُن کا خود ارتکاب کروں۔ میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے۔ اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کاسارا انحصار، اللہ کی توفیق پر ہے، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہرمعاملے میں اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔‘‘

شعیب علیہ السلام کے مندرجہ بالا ارشاد سے درجِ ذیل امور سامنے آتے ہیں:

(الف) انبیاء علیہم السلام جو اصلاح چاہتے ہیں، سب سے پہلے وہ خود اس پر عامل ہوتے ہیں۔ اُن کی دعوتِ اصلاح محض قولی نہیں بلکہ عملی بھی ہوتی ہے۔

(ب) اُن کا اصل منشا اصلاح ہوتا ہے۔ اصلاحی مہم کے پیچھے، مخلصانہ جذبہ اصلاح کے علاوہ کوئی اور محرکات نہیں ہوتے۔

(ج) انبیاء علیہم السلام اس امرِ واقعی کا احساس رکھتے ہیں کہ انھیں ہدایت اللہ نے دی ہے۔ اللہ کے اس احسان کا شکر وہ اس طرح ادا کرتے ہیں کہ اپنی قوم کی گمراہیوں میں اس کے شریکِ حال نہیں بنتے۔

(د) یہ واقعہ ہے کہ اصلاح کے کام کی، فساد زدہ عناصر کی جانب سے مخالفت ہوتی ہے۔  اس صورتحال میں خدا ترس مصلحین کا اصل انحصار، خدا کی تائید و توفیق پر ہوتا ہے۔

انبیاء کی اصلاحی کوششوں کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ وہ کارِ اصلاح کے لیے انسانوں سے کسی اجرکے طلبگار نہیں ہوتے۔ یہ بات اکثر انبیاء کے تذکرے میں قرآن مجید ہمارے سامنے لاتا ہے:

وَاِلٰي عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْدًا۝۰ۭ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۝۰ۭ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ۝۵۰ يٰقَوْمِ لَآ اَسْـــَٔـلُكُمْ عَلَيْہِ اَجْرًا۝۰ۭ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي الَّذِيْ فَطَرَنِيْ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۵۱             (ہود: ۵۰-۵۱)

’’اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے برادرانِ قوم! اللہ کی بندگی کرو، تمہارا کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے۔ تم نے محض جھوٹ گھڑ رکھے ہیں۔ اے برادرانِ قوم! اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا۔ میرا اجر تو اس کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے؟‘‘

انبیاء علیہم السلام جس طرح  انسانوں سے کسی اجر کے خواہاں نہیں ہوتے اسی طرح وہ مخالفین کی دھمکیوں سے بھی بے نیاز ہوتے ہیں۔

وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ نُوْحٍ۝۰ۘ اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖ يٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَّقَامِيْ وَتَذْكِيْرِيْ بِاٰيٰتِ اللہِ فَعَلَي اللہِ تَوَكَّلْتُ فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَكُمْ وَشُرَكَاۗءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّۃً ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُوْنِ۝۷۱                                 (یونس:۷۱)

’’ان کو نوح کا قصہ سناؤ۔ اس وقت کا قصہ جب اس نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’اے برادرانِ قوم! اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سُناسنا کر تمھیں غفلت سے بیدار کرنا، تمہارے لیے ناقابلِ برداشت ہوگیا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے۔ تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک متفقہ فیصلہ کرلو اور جو منصوبہ تمہارے پیش نظر ہو اس کو خوب سوچ سمجھ لو تاکہ اس کا کوئی پہلو تمہاری نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے ۔ پھر میرے خلاف اس کو عمل میں لے آؤ اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو۔‘‘

جو لوگ اصلاحِ معاشرہ کا کام انبیائی طرز پر کرنا چاہتے ہیں، ان کو چاہیے کہ محض اصلاحِ حال کو اپنا مقصود بنائیں، انسانوں سے کسی اجر کے طالب نہ ہوں اور اُن کی مخالفت اور دھمکیوں کے علی الرغم، اللہ کے بھروسے پر کام کیے جائیں ۔ اسی صورت میں وہ اللہ کی تائید کی توقع رکھ سکتے ہیں۔

مصلح کی حیثیت

انبیاء علیہم السلام اپنی اصلاحی مساعی کی ابتدا کرتے ہوئے اللہ کے پیغمبر کی حیثیت سے اپنا تعارف کراتے ہیں۔ مثال کے طور پر صالح علیہ السلام کے دعوتی مشن کا تذکرہ ہمیں قرآن مجید میں ملتا ہے:

اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۴۲ۚ اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ۝۱۴۳ۙ فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ۝۱۴۴ۚ                      (الشعراء: ۱۴۲-۱۴۴)

’’یاد کرو جب اُن کے (یعنی قومِ ثمود کے) بھائی صالح نے اُن سے کہا: کیا تم ڈرتے نہیں؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘

نبیوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جو اہلِ ایمان، دعوتِ حق کے لیے اٹھیں، ان کو بھی اپنا تعارف کرانا چاہیے کہ وہ ’’مسلم‘‘ (اللہ کے فرماں بردار) ہیں۔

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۳                  (حم السجدۃ: ۳۳)

’’اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘

سوال پیدا ہوتا ہے کہ مصلحین کی حیثیت کا یہ اعلان کیوں ضروری ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر سنجیدہ دعوتِ اصلاح، فطری طور پر نظامِ اطاعت میں تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے۔ مصلحین کا پیغام یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ جن مفسد افراد کی اطاعت کررہا ہے، ان کی اطاعت سے باز آجائے۔ اُن کے بجائے وہ اللہ کے رسولوں کی اطاعت اختیار کرلے۔ اگر نظامِ اطاعت میں تبدیلی کا یہ مطالبہ نہ کیا جائے اور معاشرے میں مفسد عناصر کی اطاعت بدستور جاری رہے تو بدی کومٹانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔

چنانچہ انبیائی اسوے کی روشنی میں کارِ اصلاح کے لیے دو کوششیں بیک وقت درکار ہوتی ہیں۔ ایک طرف یہ ضروری ہے کہ لوگوں کے اندر خیر کی طلب اور بدی سے نفرت پیدا کی جائے تاکہ معاشرے میں معروف کو فروغ حاصل ہو اور منکر مٹ سکے۔ دوسری طرف یہ لازم ہے کہ مفسدین کی اطاعت کے بجائے معاشرے کو اس پر آمادہ کیا جائے کہ وہ صالحین کی اطاعت کرے۔ گویا فکر و نظر کی اصلاح کے ساتھ ساتھ عملاً موجود نظامِ اطاعت کی اصلاح پر توجہ مرکوز کرنا بھی ضروری ہے۔ تبھی اصلاحی کوششیں نتیجہ خیز ہوسکتی ہیں۔

جوابدہی کا احساس

’’انسان منکرات سے کیوں بچے اور معروفات پر کیوں عمل پیرا ہو؟‘‘ یہ ایک اہم سوال ہے۔ انبیاء اس سوال کا جواب فراہم کرتے ہیں۔ یہ جواب ذیل کے نکات پر مشتمل ہے:

(الف)    منکر کو انسانی فطرت ناپسند کرتی ہے۔ اس لیے منکر سے بچنا، فطرت کا تقاضا ہے۔

(ب)        اللہ نے انسان کو ذمہ دار ہستی بنایا ہے۔ انسان کے مقامِ بلند کا تقاضا ہے کہ وہ منکر سے باز رہے۔

(ج)         اس دنیا کے بعد آخرت کا مرحلہ آنے والا ہے، جہاں انسان کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہوگا۔ آخرت میں اللہ کی گرفت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی برائیوں سے پرہیز کرے۔

درج بالا نکات کا تقابل اُس طرزِ گفتگو سے کیا جاسکتا ہے جو آج کل اُن لوگوں کے درمیان مقبول ہے، جو ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ’’ظلم وزیادتی کیوں نہ ہو؟‘‘ اس کے جواب میں اُن کی جانب سے درج ذیل باتیں کہی جاتی ہیں:

(الف)    ملک کو متحد رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں ظلم نہ ہو۔

(ب)        ظلم و زیادتی کی صورت میں مظلوم طبقات کے ردِ عمل کا اندیشہ ہے۔ اس لیے زیادتی سے باز رہنا چاہیے۔

(ج)        دستور و قانون یہ تقاضا کرتے ہیں کہ زیادتی نہ کی جائے۔

لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ سب جوابات بہت کمزور جوابات ہیں اور غلط طرزِ عمل سے انسانوں کو باز رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ چنانچہ جو مصلحین، فی الوقع منکرات کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اُن کو ایسے کمزور محرکات کا سہارا لینے کے بجائے انسانوںکے اندر احساسِ ذمہ داری اور احساسِ جوابدہی پیدا کرنا ہوگا، جو خدا اور آخرت پر ایمان سے وجود میں آتا ہے۔

منکرات سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فطرتِ انسانی سے استدلال کی ایک مثال بدکاری سے دور رہنے کی قرآنی ہدایت ہے:

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّہٗ كَانَ فَاحِشَۃً۝۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا۝۳۲ (بنی اسرائیل: ۳۲)

’’زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ ۔‘‘

منکر، چونکہ فطرتِ انسانی سے بغاوت ہے، اس لیے اُس کی ایک پہچان یہ ہے کہ انسانی معاشرے کی بڑی اکثریت اسے برا سمجھتی ہے۔ بعض برائیاں وہ ہیں کہ جب معاشرہ اصلاح یافتہ ہوتا ہے تو لوگ اُن سے یکسر ناواقف ہوتے ہیں۔ پھر بعض بدطینت لوگ اس برائی کا آغاز کردیتے ہیں۔ ایسی برائیوں کا خلافِ فطرت ہونا واضح ہے۔ لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو بے حیائی سے باز آنے کی تلقین کرتے ہوئے اس پہلو کی طرف توجہ دلائی:

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَكُمْ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ۝۸۰ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَہْوَۃً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ۝۰ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ۝۸۱                                                     (الاعراف: ۸۰-۸۱)

’’اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا۔ پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا: ’’کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو، جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟‘‘

منکر کے خلاف انبیائی استدلال کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ منکر سے بچنا انسان کے مقامِ بلند کا تقاضا ہے اور اللہ کے احسانات کا شکر بھی یہی ہے:

وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ وَّبَوَّاَكُمْ فِي الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُہُوْلِہَا قُصُوْرًا وَّتَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُيُوْتًا۝۰ۚ فَاذْكُرُوْٓا اٰلَاۗءَ اللہِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ۝۷۴  (الاعراف: ۷۴)

’’ (صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا)یاد کرو جب اللہ نے قومِ عاد کے بعد تم کو خلیفہ بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ آج اس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو۔ پس اس کے احسانات کو یاد کرو اور زمین میں فساد برپا نہ کرو۔‘‘

عرب کے جاہلی معاشرے کی چند نمایاں خرابیاں یہ تھیں :

(الف)  یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بُرا سلوک

(ب) نوزائیدہ بچیوں کا قتل اور

(ج) ناپ تول میں کمی۔

قرآن مجید نے ان برائیوں کی شدید مذمت کی ہے اور عالمِ آخرت کے حوالے سے کی ہے۔ اس نے پُرزور تلقین کی ہے کہ انسان آخرت کی جوابدہی کو یاد رکھے۔ درجِ ذیل آیات اس حقیقت پر روشنی ڈالتی ہیں:

اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ۝۱ۭ فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ۝۲ۙ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۝۳ۭ                                                (الماعون: ۱ -۳)

’’تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزاو سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا۔‘‘

وَاِذَا الْمَوْءٗدَۃُ سُىِٕلَتْ۝۸۠ۙ بِاَيِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ۝۹ۚ                 (التکویر: ۸،۹)

’’(اور روزِ حشر) جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟‘‘

وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ۝۱ۙ الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ۝۲ۙ وَاِذَا كَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ يُخْسِرُوْنَ۝۳ۭ اَلَا يَظُنُّ اُولٰۗىِٕكَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ۝۴ۙ لِيَوْمٍ عَظِيْمٍ۝۵ۙ يَّوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۶ۭ (المطففین: ۱-۶)

’’تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب اُن کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انھیں گھاٹا دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن یہ اٹھا کر لائے جانے والے ہیں؟ اس دن جب کہ سب لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔‘‘

بشارت

آخرت کی جوابدہی کا احساس تازہ کرنا، انبیائی خطاب کا ایک پہلو ہے۔ انبیاء اپنے مخاطبین کو بتاتے ہیں کہ اچھا طرزِ عمل، اللہ کے اجر اور فضل کا موجب ہے اور اس کے برعکس منکر پر عمل، انسان کو اللہ کے غضب اور سزا کا مستحق بناتا ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ تنبیہ اور بشارت کے ان دونوں پہلوؤں کا تعلق آخرت کے علاوہ، خود موجودہ دنیوی زندگی سے بھی ہے۔ انبیاء علیہم السلام نے اس حقیقت کی جانب  متوجہ کیا ہے:

وَيٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْہِ يُرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا وَّيَزِدْكُمْ قُوَّۃً اِلٰي قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِيْنَ۝۵۲ (ہود: ۵۲)

’’اور (ہود علیہ السلام نے کہا) اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو۔ وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔ مجرم بن کر (بندگی سے) منہ نہ پھیرو۔‘‘

جناب شبیر احمد عثمانی، اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ (اللہ تمہاری) مالی اور بدنی قوت بڑھائے گا، اولاد میں برکت دے گا، خوش حالی میں ترقی ہوگی اور مادی قوت کے ساتھ روحانی و ایمانی قوت کا اضافہ کردیا جائے گا۔ بشرطیکہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہوکر، اس کی اطاعت سے مجرموں کی طرح روگردانی نہ کرو۔‘‘

نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو تنبیہ کے پہلو بہ پہلو اچھے طرزِ عمل پر اللہ کے فضل و کرم کی بشارت دی:

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ غَفَّارًا۝۱۰ۙ يُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا۝۱۱ۙ وَّيُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّيَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْہٰرًا۝۱۲ۭ                           (نوح: ۱۰-۱۲)

’’ (نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا) میں نے (اپنی قوم سے ) کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاریں کردے گا۔‘‘

تنبیہ و بشارت، اصلاحی سعی کے دو ایسے پہلو ہیں، جو اس کوشش کے دینی مزاج کی عکاسی کرتے ہیں۔مندرجہ  بالا گفتگو سے جو نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں وہ درجِ ذیل ہیں:

(الف)    سماج اور سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے امتِ مسلمہ کی جانب سے جو کوشش کی جائے وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے طرز پر ہونی چاہیے۔

(ب)        معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے کا یہ کام دینی بنیادوں پر انجام دیا جانا چاہیے۔ دینی بنیادوں پر یہ مہم چلائی جائے تو وہ ’’دعوتِ اسلامی‘‘ سے ہم آہنگ ہوگی۔ اس کے برعکس اگر سماجی و سیاسی تغیر و اصلاح کے لیے کوشش، دینی اساس پر نہ ہو تو دعوتِ اسلامی سے اس کا کوئی جوڑ نہ ہوگا۔ اس صورت میں اندیشہ ہے کہ دینی بنیادوں سے بے تعلق ایسی کوششیں، اسلام کی دعوت کے بارے میں غلط فہمیوں کا باعث بن جائیں گی۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2013

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223