انسانوںکاعقلی اور فکری سرمایہ کسی کی ذاتی میراث نہیں۔ تہذیبوںکامیل جول اور ثقافتوں کے مابین تبادلہ ایک معروف حقیقت ہے۔ یقینا قومیں باہم ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
عربی تہذیب بھی تاریخ انسانی کی چند عظیم الشان تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ اس کی جڑیں ماضی کی گہرائیوں میں پیوستہ ہیں۔ عرب میں اسلام کی ابتداکے ساتھ ہی اس تہذیب کا بھی آغاز ہوا۔ اسلام کی آغوش میں یہ تہذیب پروان چڑھی۔ پھر جوں جوں اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوتا گیاقدیم تہذیبوں کی پروردہ قوموں کا ایک سیل رواں بھی اسلامی ریاست کا حصہ بنا، باہر سے آنے والی یہ قومیں اسلامی تہذیب میں یوں ضم ہوئیں کہ زبان و بیان تک کا فرق جاتا رہا اور عربی زبان ہی ان کے کے فکر و خیال کی ترجمان بن گئی ، وقت کے گزرنے کے ساتھ انھوں نے دین اسلام کو اس طرح اپنایا کہ ماضی کا ہر نقش مٹ گیا اور آباء و اجداد کا دین ماضی کی ایک یاد گار بن کر رہ گیا۔ عربی قوم اور باہر سے آنے والی ان قوموں کے درمیاں اگر کچھ فرق باقی رہا تو وہ صرف رنگ و نسل کا فرق تھا ۔
یہ بات ہمیشہ دہرائی گئی ہے اور دہرائی جاتی رہے گی کہ اسلامی تہذیب نے علوم و فنوں کے مختلف میدانوں میں نئے اضافے کیے اور ترقی کی نئی جہتیں تلاش کیں،لیکن اس کا سب سے بڑا کارنامہ وہ رابطہ ہے جو اس نے قدیم یونانی سرمایہ اور جدید لاطینی تہذیب کے درمیان قائم کیا۔ جس سے یورپ کو ایک نئی تہذیب کے قیام اور ایک نئے سرمایہ علم و فن کو پروان چڑھانے کا موقع ملا۔
لوگوں کو آج اس جدید تہذیب کا تو علم ہے لیکن وہ اس کے سرچشموں سے ناواقف ہیں، حالانکہ اس کے انگنت شواہد انسانی سرگرمی کے مختلف میدانوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ یہاں بر سبیل تذکرہ علم طب سے متعلق چند چیزوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے علوم و فنون کی دیگر اقسام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،
تاریخ کے ایک دورمیں یونانی فن طب عربوں کے یہاں آیا ،عربوں نے اس سرمایہ کی حفاظت کی اور اس سے استفادہ کرتے ہوئے اس میں گراں قدراضافے کیے اُس کی بہت سی خامیوں کو دوربھی کیا ، اور پھر عربی تہذیب و ثقافت سے فیض یاب یونانیوں کایہ فن عرب اطبا کی تالیفات اور تجربوں کے سہارے یوروپ تک پہنچا۔ یونانی فن طب کے اس تاریخی سفر کا اعتراف مستشرقین اور غیر مستشرقین سبھی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر نکلسن کی طویل گفتگوکا ایک اقتباس یہاں نقل کیا جاتا ہے ، وہ کہتے ہیں:
’’آج جو کچھ بھی جدید اکتشافات ہو رہے ہیں وہ یقینا ان عرب ماہرین فن کے مرہون منت ہیں جو عہد وسطی کی شمع فروزاں تھے جب کہ یورپ پر تاریکی چھائی ہوئی تھی‘‘۔
بارون کلارادی فو کہتے ہیں:
’’وہ علمی میراث جو اہل یونان نے چھوڑی تھی رومی اُس کا صحیح استعمال نہ کر سکے جبکہ عربوں نے اسے نہ صرف ترقی دی بلکہ اور زیادہ بہتر بناکر جدید دنیا کے حوالہ کیا۔ ‘‘
یورپین طبیب دی بور کہتے ہیں:
’’فن طب مردہ تھا جالینوس نے اسے حیات بخشی،فن طب بکھرا ہواتھا رازی نے اسکی شیرازہ بندی کی۔ ‘‘
ولیم اوزلراپنی کتابـ’’ـــ فن طب کی تاریخــ‘‘ میں لکھتا ہے:
عربوں نے یونانی قندیلوں سے اپنے چراغ روشن کیے،اور بارہویں صدی عیسوی تک یہ فن ان کے یہاں اس مقام کو پہنچ گیا تھا جس کی نظیر تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔
ولز کہتے ہیں:
’’عربوں نے زبردست ترقی کی تھی ، وہ یونان سے بھی آگے نکل گئے تھے۔ انھوں نے اعضاء کے وظائف اور علم صحت کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ طب میں ان کا علمی طریقہء کار بالکل جدیدطریقہء کار جیسا تھا۔ آج بھی ہم ان کی دریافت کی ہوئی بہت سی دوائوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے جراح سرجری کاعمل بھی انجام دیتے تھے۔ ‘‘
عربی فن طب کامورخ لکلرک کہتا ہے:
’’نویں صدی عیسوی مکمل بھی نہ ہوپائی تھی کہ عرب تمام یونانی علوم کے ماہرہو گئے اور بغداد تمام عالم میں عقلی وفکری سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ پھر بارہویں صدی عیسوی میں بغداد کے بجائے طلیطلہ اس مقام پر قابض ہو گیا۔ ‘‘
وہ مزید کہتا ہے:
’’تاریخ کے اسی دور میںعالم عربی کے دونوں سروں پر دو عظیم واقعات رونما ہوے، ایک تو صلیبی جنگییںجو لاکھوں یورپینس کو مشرق کھینچ لائیں دوسرے اندلس کے راستے عربی افکار و خیالات مغرب پہنچے۔ ‘‘
اسی طرح وہ مزید کہتا ہے:
’’طلیطلۃمیں فن طب پر عربی سے لاطینی میں ترجمہ کی ہوئی۹۰ کتابیں موجود تھیں جن میں سے چار بقراط کی ،۲۵جالینوس کی اور باقی مسلمان حکماء کی تصانیف تھیں۔ ‘‘
جومار جو نپولین کے مصر پر حملے کے دوران اس کے ہم راہ تھا کہتا ہے :
’’قاہرہ میں چھ سو سالوں کے دوران متعدد ایسے شفاخانے قائم کیے گئے جن میں عام مریضوں کے ساتھ ذہنی مریضوں کا بھی علاج کیا جاتا تھا، ان میں سے صرف ایک ہی شفا خانہ باقی رہا اور وہ قلاوون ہاسپیٹل کے نا م سے موسوم ہے۔ اس شفا خانہ پر کافی رقم خرچ کی گئی تھی۔ اس میں ہر مرض کا الگ وارڈ تھا، اور ہر وارڈ کا ایک مخصوص ڈاکٹر بھی ہوتا تھا، اس میں امیر و فقیر کا کوئی امتیازنہ تھا ،ہر کوئی علاج کے لئے جا سکتا تھا، ذہنی و نفسیاتی مریضوں کے لیے الگ سے ایک مخصوص وارڈ تھا۔ جہاں انھیں تنہا رکھا جاتا تھا اور موسیقی کے ساتھ نغمے سنائے جاتے تھے۔ ہاسپیٹل کے ساتھ ساتھ درسگاہ بھی ہوتی تھی جہاں فن طب اور فقہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ‘‘
برایس دافن کہتا ہے:
’’مریضوں کے ہال کو جاڑوں میں گرم رکھا جاتا تھا اور گرمیوں میں اتنے بڑے بڑے پنکھے لگا ئے جاتے تھے کہ ان کا ایک سرا ہال کے ایک جانب ہوتا تھااور دوسرا ہال کے وسرے جانب۔ ‘‘
رہا مغرب میں ہاسپٹلس کا حال تو ’’ماکس نوردو ا‘‘ اپنی کتاب میں لکھتا ہے:
’’یورپ میں اس وقت شفا خانوں کا حال یہ تھا کی ایک فرش پر مختلف امراض میں مبتلا بچے بوڑھے چار ، پانچ ، چھ کی تعداد میں پڑے رہتے تھے، مریضوں کو وقت بے وقت انتہائی کم مقدار میں کھانا دیا جاتا۔ عمارت میں کیڑوں مکوڑوں کی بہتات رہتی۔ مریضوں کے کمروں میں بدبو پھیلی رہتی۔ مردوں کی لاشیں چوبیسوں گھنٹے فرش پر پڑی رہتیں ، کیڑوں مکوڑوں اور مکھیوں کا ہر وقت ڈیرا رہتا۔ دماغی مریضوں کے کمرے آپریشن رومز سے متصل ہوتے تھے۔ ‘‘
جرمن طبیب ڈاکٹر میکس مایرہوف جن کا قاہرہ میں ۱۹۴۵ء میں انتقال ہوا کہتے ہیں:
’’اسلامی طب کا ماہ کامل یونان میں ڈوبنے والے سورج کی کرنوں سے روشنی لے کر تاریک زمانوں کے افق پر نمودار ہوا اوراس نے گھٹا ٹوپ تاریکیوں کے بیچ ایک نورانی بزم آراستہ کی۔ پھر یہیں رنگ برنگے ستاروں کی انجمن آرائی ہوئی پھر رات آہستہ آہتہ ڈھلنے لگی ، آفتاب کی کرنیں مدہم پڑنے لگیںاور ایک نئی صبح کی آمد کے ساتھ ہی ستاروں نے اپنی انجمن سمیٹ لی۔ تاہم نئی تہذیب کے جیب و دامن پر آج بھی اس تہذیب کے اثرات جا بجا نظر آتے ہیں۔ ‘‘
مذکورہ بالا اقوال کے لیے دیکھئے: ڈاکٹر محمد کامل حسین کے زیر نگرانی ڈاکٹرس کی ایک ٹیم کے ذریئے تیار کی گئی کتابـ’’الموجز فی تاریخ الطب والصیدلہ عند العرب‘‘ط: المنظمۃ العربیۃ للتربیۃ والثقافۃ ،العلوم، قاہرۃ۔ نیز دیکھئے: احمد حسنین القرنی کی کتاب قصۃ الطب عند العرب ، ابو لفتوح توانسی کی کتاب ’’ من اعلام الطب العربی‘‘ مطبعہ ،الدار القومیہ للطباعۃ والنشر، مصر ۱۹۶۶
جن مستشرقین نے یوروپی تہذیب پر اسلامی تہذیب کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے ان میں سب سے مشہور بلجکی نزاد امریکی جورج سارٹن(متوفی۱۹۵۶ء) ہے۔ مجلۃ المجمع العلمی دمشق ایک شمارہ میںجارج سارٹن کے متعلق لکھتا ہے:
ـ ’’ انھیں عربوں اور عربی زبان سے حقیقی محبت تھی۔ انھوں نے زمانہء قدیم پر عرب علماء کی فضیلت کو اجاگر کیا ۔ ان کی سب سے مشہور کتاب ـ ’’مقدمہء سائنس ــ‘‘ ہے جو انھوں نے انگریزی زبان میں تالیف کی اور پانچ جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ انھوں نے کتاب میں ایک حصہ عربوں کی سائنسی تاریخ کے لیے مخصوص کیا ہے۔ (دیکھئے : زرکلی: الاعلام ص: ۲؍۲۴۵ ، ط: ۲ قاہرۃ ۱۹۵۷ء ، اور نجیب العقیقی : المستشرقون، ص: ۱۰۰۶، مطبعہ دار المعارف ، مصر ط:۳ ، ۱۹۶۴ء، ط : ۴ ،۱۹۸۱ )
سارٹن کا قول ہے:
’’ عربوں نے دنیا کو جو علمی و فکری سرمایہ دیا بعض مؤرخین اس کی اہمیت کم کر نے کی کوشش کرتے ہیںاور دنیا کو یہ باور کراتے ہیںکہ عربوں نے محض قدیم علوم کی منتقلی کا عمل انجام دیا ہے ،اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے۔ یہ ایک غلط خیال ہے۔ یہ خود اپنے آپ میں ایک بہت بڑا کارنامہ ہے کہ عربوں نے یونانی حکمت کے خزانوں کی حفاظت کی اور اسے ہم تک منتقل کیا۔ اگر عربوں نے یہ کارنامہ انجام نہ دیا ہوتا تو انسانی تمدن کا کارواں آج صدیوں پیچھے ہوتا۔ ‘‘
سارٹن مزید کہتے ہیں:
’’عرب دنیا کے عظیم ترین معلم تھے۔ انہوںنے جن علوم کو بھی ہاتھ لگایا اس میں نہ صرف گرانقدر اضافہ کیا، بلکہ انھیں ارتقائی عمل کے ان مدارج تک پہنچایا جہاں انہیں ایک اعتبار حاصل ہو۔ ‘‘
خدا کے حکم سے گردش لیل و نہار جاری ہے۔ کسی کا اقتدار مٹتا ہے اور کوئی مسند نشین ہوتا ہے۔ ملک بنتے بھی ہیں اور سلطنتوں کا سقوط بھی ہوتاہے۔ کسی قوم کو عروج حاصل ہوتا ہے اور وہ دوسروں کو اپنا دست نگر بنانے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ ملت اسلامیہ مشرق و مغرب میںسخت ترین مصائب و مشکلات اور فتنوں کا شکار ہوتی رہی ہے۔ اس کے باوجوداگر یہ کہا جائے کہ ماضی کے فتنے ، ہنگامے اور طرح طرح کے مصائب و مشکلات کا ہجوم عرب قوم کو تہذیب و تمدن کی تعمیر اور علوم و فنون کی ترقی کے اپنے بنیادی مقصد سے کبھی غافل نہ کر سکاتو خلاف حقیقت نہ ہوگا۔ جو محققین فکر اسلامی کو دو زمانوں میں تقسیم کرتے ہیں یعنی ایک عروج کا زمانہ اور دوسرا زوال و انحطاط کا ، میرے خیال میں ان کی تقسیم اعتدال پر مبنی نہیں ہے کیونکہ اسلامی تاریخ کے مختلف زمانوں میں عربوں کی عقلی و فکری سرگرمیوں کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ دیکھ کر سخت حیرانی ہوگی کہ تقریبا ہر زمانہ میں شرق سے لے کر غرب تک عالم اسلام کے تمام گوشوں میں علماء ،طلبہ ، مصنفیں اور فلاسفہ کا ایک جم غفیر علمی و فکری سرگرمیوں میں مصروف رہا ہے۔ زمانوں کے الٹ پھیر، حکام کی تبدیلی اور مصائب و مشکلات کی آمد سے عربوں کی عقلی و فکری سرگرمیاں متاثر نہ ہوئیں اور نہ ان کی تیزی میں کمی آئی۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ چھٹی اور ساتویں صدی ہجری اسلامی تاریخ کی ایسی دو صدیاں ہیں جن میں ملت اسلامیۃ تاتاریوں اور صلیبیوں کے بد ترین حملوں کا شکار ہوئی اگر اللہ تعالی نے اس امت کی حفاظت نہ کی ہوتی اور اسلامی عقیدے کی روح میں بقا اور نشوو ارتقاء کے فطری جوہر نہ ودیعت کیے ہوتے تو شاید اس کا صفایہ ہی ہو جاتالیکن اس کے باوجود اگر ہم ان دو صدیوں میں پیدا ہونے والے علماء و مفکرین کی تعداد پر نظر ڈالیں تو حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔
مذکورہ بالا حقیقت کا جائزہ لینے کے لیے اگر اسلامی تاریخ کی کوئی ایک کتاب مثلا ابن العماد حنبلی (متوفی۱۰۸۹ھ) کی ـ’’شذرات الذہب فی اخبار من ذہب‘‘ لے لی جائے اور ان سنین میں علماء کی سرگرمیوں اور تصانیف کا جائزہ لیا جائے جن میں ملت اسلامیہ شدید فتنوں اور جنگ و جدال کا شکار رہی ہے تو یقینا وہی حقیقت سامنے آئے گی جس کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔
ذیل میں ہم ایک روایت ذکر کرتے ہیں جس سے ملت اسلامیۃ کی علمی و فکری سرگرمیوں کا اندازہ ہوگا۔
موفق الدین عبداللطیف بن یوسف بن محمد البغدادی(متوفی۶۲۹ھ) فرماتے ہیں:(موفق الدین البغدادی کثیر التصانیف علماء میں سے ہیں ، ان کی کتابیں حکمت ، نفسیات ، طب ، تاریخ ، جغرافیہ، سفرنامہ،نیز ادب اور لغت جیسے مختلف النوع علوم و فنون سے تعلق رکھتی ہیں۔ دیکھئے: طبقات الشافعیہ الکبری لابن السبکی، تحقیق عبد لفتاح محمد الحلو اور ڈاکٹر محمود محمد طناحی، ص: ۸؍۳۱۳ مطبعہ، عیسی بابی الحلبی قاہرۃ : ۱۹۶۴۔ نیز دیکھئے : الاعلام: ۴؍۶۱)
’’ میں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو بیت المقدس میں دیکھا ،میں نے دیکھا کہ وہ ایک عظیم بادشاہ ہیں۔ دل ان کی شخصیت سے مرعوب ، اورآنکھیں محبت سے لبریز ہو جاتی ہیں۔ وہ ہر ایک سے قریب اور ہر ایک ان سے مانوس ،ان کے ساتھی ان کی تقلید کرتے ہیں،اور ان کی طرح خیر کے کاموں میں سبقت کر نے کی کوشش کرتے ہیںجیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
و نزعنا ما فی صدورہم من غل
’’اور ہم نے ان کے دلوں سے ہر طرح کا کپٹ نکال دیا۔ ‘‘ (سورۃ الاعراف: ۴۳ اور سورۃ الحجر : ۴۷)
پہلی رات جب میں ان کی مجلس میں حاضر ہوا تو اسے اہل علم سے بھرا پایا ، لوگ علم کی مختلف اقسام پر گفتگو کر رہے تھے اور سلطان بغور ان کی باتوں کو سنتے اور گفتگو میں بھر پور حصہ لیتے ،فصیلوں کی تعمیر اور خندقوں کی کھدائی کے طریقہء کار پر گفتگو کرتے اور اس کی باریکیوں کو سمجھتے،بیت المقدس کی فصیلوں کی تعمیر اور اس کے گرد خندقوں کی کھدائی کی انھیں خاص فکر تھی، وہ اس کی بذات خود نگرانی کرتے۔ پتھر اپنے کندھوں پر اٹھاتے اور ہر امیر غریب کی مدد کرتے۔ طلوع آفتاب سے پہلے ہی وہ اس کام میں مصروف ہو جاتے اور ظہر تک مصروف رہتے پھر گھر واپس ہوتے چٹائی بچھاتے ،آرام کرتے اور عصر کے وقت سے دوبارہ مصروف کار ہو جاتے اور پھر رات کو چراغوں کی روشنی میں واپس ہوتے۔ رات کا بیشتر حصہ دن کے کاموں کی تیاری میں گزارتے ، حماسہ یاد کرتے تھے۔ اور ان کا خیال تھا کہ ہر فقیہ کو حماسہ یاد ہونی چاہئے‘‘۔
(طبقات الشافعیہ الکبری : ۷؍۳۴۳)
افواج اسلامی کا ایک قائد اسلامی تاریخ کے چند کامیاب ترین معرکوں میں سے ایک کی قیادت کر رہا ہے لیکن جنگ کی قیامت خیزیاں اسے علم کی مجلسوں اور علماء کے مذاکروں سے دور نہیں کر پارہی ہیں۔ (مذکورہ بالا گفتگو سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے ہمارے علماء گوشہ نشین نہیں رہا کرتے تھے بلکہ اکثر و بیشتر پوری پوری زندگی سرحدوں پردشمنوں کے ساتھ معرکہ آراء رہتے تھے۔ )
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قرآن یاد کرتے تھے اور فقہ شافعی کی کتاب ’’التنبیہ ‘‘اور شعر میں حماسہ یاد کرتے تھے، انھوں نے حدیث اسکندریہ میں حافظ ابو طاہر سلفی سے سنی تھی۔ ( ایضا: ۷؍۳۴۰)
اسی طرح صلیبیوں سے معرکہ آرائی انہیں عقیدہ کی اصلاح اور اقامت دین کے فریضہ سے غافل نہ کر سکی چنانچہ انھوں نے مصر میں فاطمیوں کی حکومت کا خاتمہ کیا ،پھر حق کی اشاعت و تبلیغ اور بدعتوں کے خاتمہ کا کارنامہ انجام دیا۔ (ایضا: ۷؍۳۴۲)
اسی طرح تاریخ کے مطالعہ کے دوران یہ حقیقت بھی سامنے آئے گی کہ عالم اسلام کا کوئی شہر اگر فتنوں کی بہتات یا جنگ و جدال کی کثرت کی وجہ سے علمی وفکری منظر نامہ سے غائب ہو جاتا تو یہ چیز عالم اسلام کے کسی اور شہر کو یہ موقع فراہم کرتی کہ وہ اس کا جانشین ہو اور علمی سفر کو آگے بڑھائے۔ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں جب بغداد اور اندلس پر مصیبت نازل ہو ئی تو شام اور مصر نے ان کی جگہ لی اور وہاں علمی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا۔
ہمارے علمی سرمائے کا ایک بڑا حصہ آج بھی دنیا کے عام و خاص کتب خانوں میں موجود ہے نیز ہمارا جو علمی سرمایہ ضائع ہوا ہے وہ جنگوں یا حوادث زمانہ سے زیادہ اپنوں کی غفلت سے ضائع ہوا ، روایت بیان کی جاتی ہے کہ تاتاریوں نے اسلامی کتبخانوں کو اس قدر تاراج کیا کہ نہر دجلہ کا پانی ان کی روشنائی سے سیاہ ہو گیا اس قصے میں جو مبالغہ ہے اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ علمائے متاخرین مثلا جلال الدین سیوطی (متوفی۹۱۱ھ) ، عبد القادر بغدادی صاحب خزانۃ الادب (متوفی ۱۰۰۹۳ھ)مرتضی زبیدی صاحب تاج العروس (متوفی ۱۲۰۵ھ) وغیرہ کی کتابوں میں متعدد ایسی کتابوں کے نام ملتے ہیں جن کو دنیا سمجھتی تھی کہ وہ اس فتنہ عظیم میں مٹ گئیں لیکن آج روز نئے مخطوطات کی دریافت کی صورت میں ان کاپتا چل رہا ہے۔ (معہد المخطوطات العربیہ قاہرہ میں اپنے کام کے دوران مجھے بہت سے ایسے مخطوطات کا علم ہوا)
آخر میں میں ان چند اہم ترین کتب کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جن میں اس عظیم سرمایہء علم و فن کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو تاریخ کے مختلف ادوار میں عالم اسلام کے علماء ،ادباء، مفکرین اور فنکاروں کی عظیم کوششوں کے نتیجے میں سامنے آیا۔ تاکہ ایک مبتدی قاری کو یہ معلوم ہوسکے کہ عربوں نے کتابوں کی صورت میں دنیا کو علم و فن اور دانائی وحکمت کا کس قدر قیمتی سرمایہ عطا کیا ہے۔
ابن ندیم (متوفی ۸۳۴ھ) کی کتابـــــــ’’ـ الفہرست ‘‘ جو فہرست ابن ندیم کے نام سے معروف ہے اس باب میں اولین کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح ابو بکر محمد بن خیر الاشبیلی(المتوفی ۵۷۵ھ) کی ـ’’فہرست‘‘ جو انھوں نے اپنے شیوخ سے روایت کی ہے اوراحمد بن مصطفی معروف بطاشکبری زادہ کی کتاب’’ مفتاح السعادۃ و مصباح دار السیادۃــ‘‘ اہم کتابیں ہیں، مصطفی بن عبداللہ معروف بحاجی خلیفہ(متوفی:۱۰۶۷)کی کتاب’’کشف الظنون عن آسامی الکتب والفنون ‘‘ علامہ زرکلی کے بقول اس سلسلے کی سب سے جامع اور انتہائی نفع بخش کتاب ہے نیز اسماعیل پاشا بغدادی کی کتاب ایضاح المکنون فی الذیل علی کشف الظنون‘‘ جو دراصل کشف الظنون کا تتمۃ ہے ایک مفید کتاب ہے۔ ایڈورڈ فینڈیک کی کتاب ’’اکتفاء القنوع بما ہو مطبوع‘‘اور یوسف الیان سرکیس(متوفی ۱۳۵۱ھ)کی کتاب ’’معجم المطبوعات العربیۃ و المعربۃ‘‘عمدہ کتابیں ہیں۔
فیکوینت فلیب دی طرازی (متوفی۱۳۷۵ھ) کی کتاب ’’خزائن الکتب العربیۃ فی الخافقینــ‘‘ ایک اہم کتاب ہے مؤلف نے اس کتاب میں دنیا کے تمام عربی کتب خانوں کی تعداد شمار کی ہے اور ان کی فہرست پیش کی ہے۔ چنانچہ مؤلف کے اندازے کے مطابق دنیا میں عربی کتب خانوں کی تعداد تقریبا (۱۵۰۰) ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: عبد السلام ہارون ، تحقیق النصوص و نشرہا ،ص: ۳۷ ، مطبعۃ المدنی ، ط:۲،قاہرۃ،۱۹۶۵ء)
مخطوطات اور مطبوعہ کتابوں کو ملاکر ان میں عربی کتابوں کی تعداد تقریباً۲۶۲ملین ہے۔ (یہ اعداد و شمار ۱۹۴۸ء تک کے ہیں جو کہ کتاب کا سن اشاعت ہیں۔ ظاہر ہے بعد میں ان اعداد و شمار میں بہت کچھ اضافہ ہوا ہے۔ دیکھئے: فواد سیزکین: تاریخ التراث العربی، ص:۱۱ٍٍٍٍٍٍٍٍٍ)
مذکورہ بالا کتابوں کی جامع اور انتہائی مفید کتاب مشہور جرمن مستشرق ـ’’کارل بروکلمان (متوفی۱۳۷۵ھ)ـ ‘‘ کی ـ’’تاریخ ادب عربی ـ‘‘ ہے جس میں ان تمام جگہوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں عربی مخطوطات موجود ہیں ۔
کارل بروکلمان کی کتاب پر ـمشہور مسلمان ترک محقق ’’پروفیسر فؤاد سیزکیں‘‘ نے ’’تاریخ التراث العربی‘‘ میں زبردست اضافہ کیا ہے کتاب کے متعدد اجزاء جرمن زبان میں شائع ہوئے ہیں اور اور سعودی عرب کی یونیورسٹی جامعۃ الامام اس کے ترجمے کا کام انجام دے رہی ہے۔ یہ کتاب جس وقت بتمام و کمال منظر عام پر آئے گی وہ یقینا اس سلسلے کا ایک نادر نمونہ ہوگی۔
یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ہمارا علمی و فنی سرمایہ اپنے سفر کے مختلف ادوار میں کسی نہ کسی طرح مغرب کی دسترس میں رہا ہے اس لیے مغرب کی اس سرمایہ سے وابستگی قدیم ہے۔ کبھی جنگوں نے اپنا کردار ادا کیا کبھی سفارتی ذرائع اس میں معاون ثابت ہوئے، غرض مغرب اور اسلام کے ما بین ثقافتی اور علمی تبادلہ پر گفتگو کی جائے تویقینا یہ ایک دلچسپ گفتگو ہوگی تاہم یہاں اس کا موقع نہیں البتہ جسے اس موضوع سے دلچسپی ہو وہ استاذ نجیب عقیقی کی کتاب ’’المستشرقون ‘‘ کا مطالعہ کرے ۔
مشمولہ: شمارہ جون 2015