خواب اور حقیقت

صلاح الدین شبیر

جماعت اسلامی ہندکی تشکیل کو 75سال مکمل ہورہے ہیں، اس مناسبت سے طے کیا گیا کہ اس تین چوتھائی صدی کے سینے میں جوبہت سی حسین تحریکی یادیں پوشیدہ ہیں، ان کی جستجو کی جائے، تاکہ نئی نسل کو ان سے ہمت اور حوصلہ ملے۔ جماعت اسلامی ہند کے افراد میں معروف معنی میں کرامتیں تو نہیں پائی جاتی تھیں، جو کچھ بھی رہا وہ محنت، عزیمت، صبر اور قربانی کی شکل میں تھا۔ یہی وہ کرامتیں تھیں جنھیں اللہ کے یہاں قبولیت حاصل ہوئی تو یہ تحریک پھیلتی رہی۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ملک کےمختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے اہل قلم اپنی معلومات کی بنیاد پر اس طرح کے عزم و عزیمت سے بھرپور تذکرے قلم بند کریں اور چند ماہ یہ سلسلہ جاری رہے۔ اس سلسلے کا یہ پہلا مضمون شہر گیا (بہار) سے تعلق رکھنے والے تحریکی بزرگ محترم صلاح الدین شبیر صاحب کا ہے، جو اس وقت جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری ہیں۔ (ادارہ)

 

کسی موجود نظام کے تحت جینا اور کسی خیالی نظام کا خواب دیکھنا دونوں ہی صورتیں آسان ہیں۔ پہلی صورت میں حقیقت واقعی سے نباہ کرنے کا ہنر چاہیے اور دوسری صورت میں مثالیت پسندی میں گم رہنے کی فراغت چاہیے۔ لیکن تبدیلی کی تحریک خواب کو حقیقت میں ڈھالنے اور موجود کو مطلوب میں بدلنے کی جدوجہد کا نام ہے۔ یہ فریضہ یقین و جذبہ بھی چاہتا ہے اور منصوبہ بند عملی اقدام کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ چناں چہ تحریک اسلامی نے اپنے کارکنوں کو اسی رخ پر گامزن کرنے کی راہ و منزل متعین کی۔ تحریک اسلامی نے افراد کو نئے نظام کا خواب بھی دکھایا تاکہ شوق جستجو انھیں تازہ دم رکھے اور موجودہ نظام کی خرابیاں بھی اجاگر کیں تاکہ تبدیلی کا جذبہ انھیں سرگرم عمل رکھے۔ اس طرح تحریک نے کارکنوں کو اصول پسندی اور عملیت پسندی دونوں کے تقاضوں کو برتنے کا سلیقہ سکھانے اور اپنی سرگرمیوں میں اعتدال و توازن قائم رکھنے کا رجحان پیدا کرنے کی کوشش کی۔ خواب اور حقیقت کے درمیان متوازن رویہ اختیار کرنا اور ہر دم اسے برتنا ایک کٹھن چڑھائی ہے جس پر چڑھتے ہوئے کارکن لڑکھڑاتے بھی ہیں، سنبھلتے بھی ہیں اور سنبھل کر آگے کا سفر جاری رکھتے ہیں۔ آئیے تحریک اسلامی کے کچھ معروف، کچھ گمنام کارکنوں کی زندگی میں خواب اور حقیقت کے اس دھنک رنگ کی کارفرمائی دیکھیں۔

بات ہے 1968 کی۔ شیرگھاٹی رجسٹری آفس کے کھپریل کیمپس کے باہر اسٹیمپ Vendors کی گمٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ انھیں کے آس پاس پیپل کے درخت کے نیچے ایک بڑے میاں پرانی کتابیں اور رسالے چادر پر پھیلا کر فروخت کیا کرتے تھے۔ ایک بوسیدہ سے رسالے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں پیش کیے گئے پھل اور اس واقعہ میں درج لفظ متکأ کی انوکھی تحقیق پیش کی گئی تھی۔ انوکھی اس معنی میں کہ روایتی تشریح سے ہٹ کر تھی۔ رسالہ تھا “زندگی” اور مضمون نگار تھے مولانا عبدالباری۔ یہ تو کئی برسوں بعد پتہ چلا کہ وہ رسالہ جماعت اسلامی ہند کا ترجمان تھا اور مولانا عبدالباری صاحب اس جماعت کے رکن، الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے اور مختلف تنظیمی امور خاص کر اجتماعات اور ریلیف کے کاموں کی منصوبہ بندی میں مہارت رکھنے والے سرگرم و خوش مزاج شخص تھے۔ اپنے زمانے کے وہ بہترین فٹ بالر بھی تھے۔ وہ صرف فیلڈ ورکر نہ تھے بلکہ جو کام بھی تحریک نے دے دیا اس میں جی جان سے لگ جانے والے کارکن تھے۔ ایک زمانے میں انھیں جماعت اسلامی حلقہ بہار کی تاریخ مرتب کرنے کا پراجکٹ دیا گیا تو مہینوں صوبے کا دورہ کرکے پرانے اور نئے رفقاء کی یادوں کو کرید، کھنگال کر معلومات کا خزینہ جمع کرتے رہے اور سال بھر کی محنت سے کام پورا کر لیا۔ آدیباسی علاقے میں دعوتی کام کے لیے ان کی تہذیب و ثقافت پر اردو میں ایک ایسی کتاب کی ضرورت محسوس ہوئی جو تحریک کی ضرورت کے لحاظ سے مرتب کی جائے تو یہ کام بھی انھیں ہی تفویض کیا گیا۔ چناں چہ مختلف لائیبریریاں بھی کھنگالیں اور ان قبائل کا مشاہدہ بھی کیا۔ بڑی عرق ریزی سے انھوں نے دیے گئے تحقیقی کام کو پورا کیا۔

عبد الباری صاحب بڑے صبر و حوصلہ کے آدمی تھے۔ ہنستی مسکراتی شخصیت اور راضی بہ رضائے الہی کے پیکر۔1982 میں گیا شہر کے گاندھی میدان میں جماعت اسلامی کا آل بہار اجتماع تھا۔ عبدالباری صاحب اجتماع کی پلاننگ سے لے کر اسے عملی شکل دینے تک کے سارے کاموں میں دن رات مشغول رہتے اور شام کو ملت اسپتال کیمپس واپس آکر اپنے سینے پر رستے زخم کی ڈریسنگ کرواتے۔ ڈاکٹر قمر الحسن خاں خود سے ڈریسنگ کرتے اور ہم لوگوں سے علیحدگی میں کہتے کہ انھیں کینسر کا زخم ہے، بتائیے گا نہیں۔ ایک دن ہم لوگوں کے تشویش زدہ چہرے کو دیکھتے ہوئے عبدالباری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا: آپ لوگ فکر نہ کریں، کیا ڈاکٹر صاحب نے آپ لوگوں کو کینسر کے بارے میں کہہ دیا ہے۔ ارے بھئی کینسر بھی بہت سارے امراض کی طرح ایک مرض ہے، موت نہیں ہے۔ موت تو جب آنی ہوگی اس کے بغیر بھی آ جائے گی۔ یوں اس کے بعد بھی وہ ایک لمبی مدت تک کینسر کے زخم کو اپنے سینے پر تمغۂ آزمائش کی طرح سجائے تحریکی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ہنستے مسکراتے سر گرم عمل رہے۔ کیا لوگ تھے وہ بھی کہ ان کے خواب نے سینے کے زخم کو بھی ان کے لیے پھول بنا دیا تھا اور درد و ٹیس بھی تحریکی دھن کے سامنے ماند پڑ جاتی تھی۔

بات ہو رہی تھی اس خواب کی جو تحریک اسلامی کا لٹریچر پڑھنے کے بعد لوگ اپنی آنکھوں میں سجائے بستی بستی شہر شہر سرگرداں رہتے۔ یہ خواب حقیقت کب بنے گا معلوم نہ تھا لیکن حقیقت بنے گا ضرور اس کا یقین تھا۔ اس سے بھی زیادہ یقین اس بات پر تھا کہ ان کی سعی و جہد اپنے رب کی خوشنودی کے لیے ہے اس لیے ضرور مقبول بارگاہ ہوگی۔ مولانا یعقوب گھولائی صاحب نے بتایا کہ تحریک اسلامی کے لٹریچر کی فراہمی میں ایک صاحب بہت چاق و چوبند تھے۔ وہ صاحب لمبا سفر طے کرکے میرے گاؤں پہنچے۔ مولانا مودودی کی چند کتابیں مجھے مطالعہ کے لیے دیں اور کہا کہ ایک ماہ بعد وہ پھر آئیں گے اور پہلی کتابیں لے کر دوسری کتابیں دے جائیں گے۔ چناں چہ یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا۔ پھر وہ صاحب شاید اپنے وطن بہار چلے گئے۔ وہ صاحب تھے مولانا عبدالرحمان کامی۔

عبدالرحمان کامی صاحب کی نمایاں سرگرمی تھی گھومتے پھرتے لٹریچر دینا، واپس لینا اور نیا لٹریچر دینا۔ جماعت اسلامی کے سرگرم رکن تھے اور رانچی کے قریب کامتا کے رہنے والے تھے۔ کامتا کی نسبت سے لوگ انھیں مولانا کامی کہہ کر پکارتے تھے۔ طرز زندگی دہقانی تھا اور دو ٹوک انداز گفتگو۔ کامی صاحب گاہے گاہے ہفتہ عشرہ دورہ کا پروگرام بناتے، ایک تھیلے میں بھنا ہوا چنا اور ستو اور دوسرے تھیلے میں جماعت کا لٹریچر لیے جنگل جھاڑ سے گزرتے رانچی کے گرد و نواح میں گاؤں گاؤں جاتے۔ بھوک لگی تو چنا یا ستو کھا کر پانی پی لیا اور پھر نکل کھڑے ہوئے کسی اور گاؤں کی طرف۔ دینی تعلیم کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنے گاؤں میں ایک مدرسہ قائم کیا۔ مدرسہ تو چھوٹا سا تھا اور ان کی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بھی تھا لیکن رانچی کے ذمہ داران کے سامنے اس کی توسیع کا منصوبہ ایسا پیش کیا جیسے وہ اس مدرسہ کو اسلامی یونیورسٹی بنا کر دم لیں گے۔ خواب اور حوصلہ جب ساتھ ہو تو شوق پرواز آسمان سے کمتر بلندی پسند نہیں کرتی۔ بہرحال ان کی بھاگ دوڑ اور مدرسہ کی سرگرمیاں بارآور ہوتی گئیں اور جگہ جگہ تحریک اسلامی کے کارکن تیار ہوتے چلے گئے، وہ بھی اس علاقے میں جس کے بارے میں مولانا آزاد کا تجربہ تھا کہ سادہ لوح مسلمان پیری مریدی کے نظام میں ایسے جکڑے ہوئے تھے کہ نہ انھیں دین کی بنیادی باتوں کا علم تھا اور نہ ہی تحصیل علم کا شوق تھا۔ چناں چہ مولانا آزاد نے 1918 کے آس پاس رانچی میں نظر بندی کے دوران جمعہ کے خطبوں اور ایک تعلیمی ادارہ کے ذریعے بیداری لانے کی کوشش کی۔ چالیس پچاس سال بعد اسی علاقے میں مولانا کامی صاحب بستی بستی جنگل جنگل لوگوں میں دینی بیداری کی مہم میں مصروف کار رہے۔ مولانا مودودی کے لٹریچر نے جو خواب دکھایا تھا اس سے لوگوں کو آشنا کرنے کے لیے کامی صاحب جیسے نہ جانے کتنے لوگ ملک کے طول و عرض میں نگر نگر ڈگر ڈگر کی خاک چھانتے پھرے۔

مولانا کامی صاحب جیسے اور بھی کئی لوگ تھے جنھیں حسنین سید صاحب، دربھنگہ کی ہم نشینی نے سیماب پا بنا کر دور و نزدیک کی آبادیوں کا چکر لگاتے رہنے اور تحریک کا خواب سناتے رہنے کا ولولہ بخشا تھا۔

حسنین سید صاحب نے مردان کار کی تلاش میں بہار اور آسام کے نہ جانے کتنے علاقوں کی خاک چھانی اور تب جاکر مٹھی بھر افراد کار میسر آئے جو اپنے اپنے علاقوں میں مانند چراغ روشنی بکھیرتے رہے۔ حسنین صاحب تحریک اسلامی کے قافلے میں شامل ہونے والے سابقون اولون میں سے تھے۔ ان سے جب بھی ملاقات ہوتی وہ علامہ اقبال کے ایک دو اشعار سناتے، تحریک اسلامی کے نصب العین پر مختلف ڈھنگ سے کچھ باتیں سمجھاتے اور باطل کی غلامی سے چھٹکارے کی تلقین کرتے۔ ان کا یہ انداز دعوت عام لوگوں کے درمیان بھی تھا اور تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان بھی۔ چناں چہ ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب جو ان کے استاد بھی تھے، جب گورنر بہار بن کر آئے تو انھوں نے اپنے اس شاگرد کو تلاش کرکے بلوایا۔ حسنین صاحب بڑے ادب سے ملے اور ایک شعر پڑھ کر تحریکی لٹریچر کا تحفہ پیش کیا۔ شعر کا مطلب کچھ اس طرح تھا کہ آپ نے تو شاہی اختیار کر لی اب وہاں ہم جیسے گداؤں کا کیا کام۔ استاد محترم نے بھی برجستہ ایک شعر پڑھتے ہوئے انھیں اپنے کام میں لگے رہنے کی تلقین فرمائی۔ حسنین سید صاحب نے ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک بار انھوں نے ان کی بیگم صاحبہ کو لٹریچر دیتے ہوئے کہا کہ آپ تنہا جنت میں جانے کی تیاری کیجیے گا؟ ہمارے استاد محترم کو بھی اپنی دعاؤں میں شامل رکھا کیجیے۔ کہنے لگیں کہ ذاکر صاحب تمھاری بڑی قدر کرتے ہیں، ملتے ملاتے رہا کرو۔ چناں چہ جب ذاکر صاحب صدر جمہوریہ ہند بنے تو ملنے گئے اور مولانا نعیم صدیقی کی کتاب محسن انسانیت پیش کی۔ ذاکر صاحب نے سراہتے ہوئے کہا کہ ہاں، میں یہ کتاب دیکھنا چاہتا تھا۔ حسنین صاحب کو جب بھی شادی کے موقع پر دعوت ملتی تو شرکت کی پوری کوشش کرتے اور بغیر تحفہ کے شریک نہ ہوتے۔ لیکن ان کا تحفہ ہوتا ایک پیکٹ جس میں کوئی تحریکی کتاب ہوتی۔

جب کبھی اور جس کسی سے ملتے جماعت کی دعوت، تبدیلی کا پروگرام اور مولانا مودودی کا تذکرہ احیائے دین کے حوالے سے پیش کیا کرتے۔ پھر دو ٹوک انداز میں کہتے: کب تک طوفان کا نظارا ساحل سے کرتے رہئے گا؟ حسنین سید صاحب کی ہر ملاقات، ہر بات، تقریب میں شرکت، سفر ہو یا حضر سب کا ایجنڈا بس ایک تھا، نہ تذبذب نہ سکوت، بس ایک بات کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم ہو، اللہ کے بندے اپنے رب کی طرف پلٹیں، طاغوت کی غلامی سے نجات حاصل کریں اور آخری بات دو ٹوک انداز میں کہ اس کام کے لیے جماعت اسلامی میں شامل ہو جائیے۔ حسنین صاحب نے مولانا مودودی کے لٹریچر سے جو خواب اپنے دل و دماغ میں بسایا اسے پوری زندگی خواب کی ہی طرح بانٹتے پھرے۔ یکسو، مخلص اور سادہ دل لوگ تھے جو گزر گئے اور نئے قافلے بنا گئے۔

بات ہے 1967 کی۔ ایک کم پڑھے لکھے دیہاتی شخص تھے سیف الدین خاں۔ میرے گاؤں کے پاس کی ایک قریبی بستی پنڈول کے رہنے والے۔ یہ گاؤں اس علاقے میں پٹھانوں کی پہلی آبادی تھی جہاں سے لوگ نسل در نسل پھیل کر کئی بستیاں بساتے چلے گئے۔ وہ اپنے تھیلے میں تحریکی لٹریچر لے کر نکلتے اور کھیتوں میں کام کرنے والے غیر مسلم ہلواہوں (کھیت میں ہل چلانے والوں) کے ساتھ بیٹھ کر انھیں تحریکی لٹریچر سناتے۔ علاقے کے لوگ مذاق اڑاتے کہ سیفو پگلا ہو گیا ہے۔ بھلا اسلام بتانے چلا ہے ہندو کسان، مزدور کو۔ لیکن وہ تھے بالکل سادہ آدمی اور دھن کے پکے۔ ذرا برا نہ مناتے اور اپنے کام میں لگے رہتے۔ علاقے میں رشتہ داریاں تھیں۔ شادی ہو یا میت، پہنچ جاتے اور جہاں لوگوں کو بیٹھے دیکھا پہنچ کر جماعت اسلامی، مولانا مودودی کا تذکرہ شروع کر دیتے۔ خیر ان سے لٹریچر تو کوئی نہ لیتا لیکن لوگ کچھ باتیں سن لیتے۔ دھیرے دھیرے کئی بستیوں میں نوجوان طلبہ ان سے مانوس ہوتے چلے گئے۔ 1977 میں جب ہم کئی ساتھیوں نے ایک ساتھ حلقۂ طلبہ میں شمولیت اختیار کی اور بستی بستی، گاؤں گاؤں پروگرام کرنے لگے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ انھیں محسوس ہوا کہ وہ جس خواب کے پیچھے تنہا بھاگ رہے تھے اب وہ خواب علاقے میں چرچا کا موضوع بنتا جا رہا ہے۔ تحریک اسلامی نے صرف تعلیم یافتہ لوگوں میں ہی نہیں بلکہ ایسے کتنے ہی کم پڑھے دیہاتی لوگوں میں بھی ایک نئے شعور، نئے خواب کی جوت جگائی۔

میٹرک کے بعد ہم لوگ حصول تعلیم کے لیے گیا شہر آگئے۔ اسی زمانے میں ایک کتابچہ نظر سے گزرا “شہادت حق”۔ الٹ پلٹ کر دیکھا تو اس میں امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر ہی نہ تھا۔ تعجب ہوا کہ یہ کیسی کتاب ہے جس میں شہادت امام کا تذکرہ ہی نہیں اور نام ہے شہادت حق۔ جنھوں نے یہ کتابچہ پڑھنے کو دیا تھا وہ تو اشتراکیت کی طرف بڑھ گئے اور سی پی ایم کے دانش ور طبقے میں شمار ہوتے ہیں اور میں اتفاقی ربط و تعلق کی بنا پر تحریک اسلامی سے وابستہ ہوتا چلا گیا۔

‘‘شہادت حق’’ وہ کتابچہ ہے جس کو ایک معمولی پڑھے لکھے رکن جماعت انیس الرحمان خاں نے از بر یاد کر لیا تھا۔ جہان آباد کے گاؤں دیہات میں ان کی وہ تقریر بہت مقبول ہوتی تھی جس میں وہ بڑی روانی کے ساتھ شہادت حق کو خطیبانہ لہجے میں پیش کیا کرتے۔ ان کی تقریر سے بہت سارے لوگ متاثر ہوئے۔ بعد میں اس کتاب کے مضامین کو غور سے پڑھنے پر اندازہ ہوا کہ مولانا مودودی نے جس مؤثر انداز میں اعتدال و توازن کے ساتھ مسلمانوں کو قولی اور عملی شہادت کا فریضہ سمجھایا، اور جماعت اور الجماعة، امیر جماعت اور امیر المومنین، جماعت اسلامی اور امت مسلمہ کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے وہ تحریک اسلامی کو راہ اعتدال پر رکھنے کے لیے کافی ہے۔ یہ کتابچہ تحریک اسلامی کے کارکنوں کو اس افراط و تفریط سے محفوظ رکھتا ہے جو عام طور پر لوگوں کو ادعائیت پسندی کے نتیجے میں صرف اپنی جماعت کو برسرحق سمجھنے اور دوسری جماعتوں کے خلاف تنگ نظری کی طرف مائل کرتی ہے۔

یتیم خانہ اسلامیہ، چیرکی میں ایک دل نواز شخصیت تھی حافظ ہاشم صاحب کی۔ جب وہ تحریک کے رکن بنے تو بہت جوش و جذبہ اور والہانہ پن کے ساتھ ہر آنے جانے والے سے مولانا مودودی کے کارناموں کا تذکرہ کرتے۔ لٹریچر پڑھ کر مولانا مودودی کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ اپنے بیٹے کا تعارف مودودی کے لاحقہ کے ساتھ کرواتے۔ علاقے کے لوگ کہتے کہ حافظ صاحب وہابی ہوگئے ہیں۔ لیکن حافظ صاحب تھے اتنے خلیق کہ ہر آنے والے کو چھوٹی سی مٹی کی پیالی میں چائے پلاتے اور بعض کو پان بھی پیش کرتے۔ ان کے اس رویے سے لوگ شخصی طور پر ان سے مانوس ہوتے چلے گئے۔ 1977 میں ایمرجنسی کے بعد پٹنہ انجمن اسلامیہ ہال میں مولانا سید حامد حسین صاحب کا خطاب تھا۔ حافظ صاحب اپنے بڑے سے تھیلے میں چادر تکیہ لیے گیا پہنچے اور کچھ نوجوانوں کو ساتھ لے کر پٹنہ پہنچے۔ حامد حسین صاحب کی خطابت تو مشہور تھی۔ اسٹائل اور آواز کا زیر و بم مسحور کن تھا۔ واپس لوٹتے ہوئے حافظ صاحب بار بار دہراتے کہ ہمارا شیر گرج رہا تھا، ہے پوری دنیا میں ان کے مقابلے کا کوئی مقرر، ارے دانش ور ہے دانش ور۔ اپنے قائد کی شخصیت، گفتگو، تقریر سے سرشار و مسحور حافظ صاحب واپس لوٹے تو جس سے ملتے حامد حسین صاحب کی گفتگو کم اور انداز گفتگو کا تذکرہ زیادہ کرتے۔ بات یہ تھی کہ حافظ صاحب جیسے کارکن اپنے قائدین سے مل کر یا انھیں سن کر اپنے اندر نئی توانائی، جذبہ اور خود اعتمادی کا احساس پروان چڑھایا کرتے اور دوسروں پر اس کے ذریعے اثر انداز ہوا کرتے تھے۔

وہ دور تھا اپنے قائدین کی خوبیوں کو magnifying نگاہ سے دیکھنے، ان کی خوبیوں کو بیان کرنے کا۔ اس کی وجہ سے کچھ کر گزرنے، آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ ملتا تھا۔ بعد کے ادوار میں حقیقت پسندی سے آگے بڑھ کر منفی تنقید نے تخفیف پسندی کا رجحان پیدا کیا تو بعض لوگ minimising عینک سے تحریکی قائدین کی حیثیت متعین کرنے لگے۔ اگر پہلے رویے سے مبالغہ آمیز خود اعتمادی کی آبیاری ہو رہی تھی تو دوسرے انداز نگاہ نے حقیقی خوبیوں کو بھی دھندلا کر دیا۔ راستہ درمیانی تھا، پتہ نہیں کتنے لوگ اس راہ کو اختیار کر پائے اور خود انھیں جو کچھ کرنا تھا کتنا کچھ کر پائے۔

مولانا یعقوب گھولائی صاحب سے پہلی ملاقات جگدل، مغربی بنگال میں ایس آئی او کے ریاستی اجتماع کے موقع پر 1984 میں ہوئی۔ تقریر شروع ہوئی۔ ایک تو بنگالی زبان کی انقلابیت اس پر مولانا کی بے پناہ خطابت، کئی گھنٹوں کی تقریر مجمع پورے انہماک سے سنتا رہا۔ مولانا کی پیدائش نومبر 1912 میں ہوئی۔ ان کا تعلق پیری مریدی والے گھرانے سے تھا۔ انھوں نے فضیلت اور دورۂ بخاری شریف کے بعد انٹرنس (ہائیر سیکنڈری) کیا۔ جب انھیں مسند پیری تفویض ہوئی تو وہ جوان تھے۔ بنگال اور آسام کے حلقۂ مریداں کا دورہ کرتے۔ جہاں گاڑی، ٹم ٹم سے جانے کا راستہ نہ ہوتا وہاں لوگ ڈولی کہار بھیجتے جس پر لیٹ کر وہ مریدوں کے گاؤں پہنچتے۔ مختلف علاقوں میں انھوں نے بے شمار جلسوں میں تقریریں کیں۔ اس زمانے میں ہر تقریر کے بعد کچھ رقم بطور نذرانہ ملا کرتی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس رقم کو وہ مدرسہ اور اسکول کے قیام پر خرچ کرتے رہے۔ چناں چہ اسی آمدنی سے انھوں نے پانچ ہائی اسکول اور مدرسہ قائم کیا۔ لیکن ان جلسوں اور تقریروں کے باوجود ان کے اندر ایک کشمکش برپا تھی کہ کیا اسی کا نام تبلیغ دین ہے؟ 1958 میں وہ تبلیغی جماعت سے متاثر ہوئے۔ انھیں شروع سے ہی مطالعہ کا شوق تھا اور وہ ایشیاٹک سوسائٹی کے باضابطہ ممبر تھے۔ کتابوں کے لیے وہ کلکتہ جاتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ سلطان ٹیپو مسجد میں عصر کی نماز ادا کرنے گئے۔ مسجد میں دورے پر تبلیغی جماعت کا ایک وفد آیا ہوا تھا۔ ان لوگوں نے حسب پروگرام لوگوں سے چلہ کا وقت مانگا۔ انھوں نے بھی تین دن کا وقت دے دیا۔ مسجد میں قیام کے دوران خالی اوقات میں انھیں کتاب کی طلب ہوتی۔ اس وفد میں مشرقی پاکستان سے بھی ایک صاحب شامل تھے۔ ان کا نام ڈاکٹر ثناءاللہ تھا۔ ڈاکٹر ثناءاللہ صاحب چٹاگانگ سے تشریف لائے تھے اور وہ ہائی کورٹ میں بیرسٹر تھے۔ صبح کی نماز کے بعد گھولائی صاحب ایک طرف خاموش بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ خاموش کیوں بیٹھے ہیں؟ گھولائی صاحب بولے: میں مطالعہ کرنے کا عادی ہوں۔ یہاں اس کی سہولت نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس ایک چھوٹا سا بکس تھا جس میں کچھ کتابیں تھیں۔ ان کی بات سن کر ڈاکٹر صاحب کا چہرہ دمک اٹھا اور مسکرا کر بولے: میرے پاس چند کتابیں ہیں، انھیں بغور پڑھیے۔ انھوں نے چند کتابیں دیں: اسلام کا نظریۂ سیاسی، دین حق، اور قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں۔ انھوں نے لپک کر ان کتابوں کو لیا اور دیوار سے ٹیک لگا کر مطالعہ میں مصروف ہو گئے۔ پہلی کتاب ’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی۔ گھولائی صاحب کے بقول: ‘‘کتاب کیا تھی 440 وولٹ کا جھٹکا تھی’’۔ انھوں نے بتایا کہ مولانا مودودی کا لٹریچر پڑھ کر میری تقریر کا انداز بدل گیا لیکن دوروں اور جلسوں کا سلسلہ جاری رہا۔

گھولائی صاحب نے کھوئے کھوئے انداز میں بتایا: ایک شخص تھے حافظ عبد التواب صاحب۔ وہ کلکتہ میں جماعت اسلامی کے امیر تھے۔ ایک بار میں نے انھیں کلکتہ کی ایک مسجد میں درس قرآن دیتے ہوئے دیکھا۔ نورانی چہرہ اور پر سوز درس قرآن نے مجھے متاثر کیا۔ کچھ دنوں بعد ایک خواب دیکھا۔ مکہ مکرمہ کے آس پاس کوئی پہاڑی ہے۔ میں اس پہاڑی کے دامن میں کھڑا ہوں۔ کچھ بلندی پر نبی کریم ﷺ کھڑے ہیں اور ان کے ایک جانب ایک اور صاحب دست بستہ کھڑے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اپنے پاس کھڑے شخص کے کندھے یا سر پر رکھا۔ میں دیکھ کر بیتابانہ آپ کی جانب گرتے پڑتے بڑھا اور قریب پہنچ کر نظر اٹھائی تو دوسرے شخص کا چہرہ دیکھ کر میں چونک گیا کہ یہ تو وہی صاحب ہیں جن کا درس میں نے کچھ دن قبل سنا تھا۔ اس طرح مولانا یعقوب گھولائی صاحب کی رہ نمائی ایک حقیقت نما خواب نے کی اور تحریک اسلامی میں شمولیت کے لیے ان کا سینہ کھل گیا۔ جماعت میں شمولیت کے بعد ان کے خلاف بھی فتوی بازی شروع ہوئی اور وہی گاؤں جہاں کے لوگ ان کے عقیدت مند تھے جب انھوں نے مسجد میں درس قرآن کا اعلان کیا تو کوئی نہ رکا اور کئی مہینے اس حال میں بیتے کہ وہی درس دیتے اور وہی سامع ہوتے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے۔ کیسے کیسے مرحلے آتے ہیں خوابوں کی تعبیر ڈھونڈھنے والوں کی زندگی میں!

حلقۂ طلبہ اسلامی بہار سے وابستہ نوجوانوں میں اس خواب کو یقین میں بدلنے کا کام ڈاکٹر ضیاء الہدی صاحب کیا کرتے تھے۔ بہت سارے نوجوان تھے جنھوں نے 1960 تا 1980 کی دہائیوں میں ڈاکٹر ضیاءالہدی صاحب کی مجلسوں اور صحبتوں کے طفیل تحریک اسلامی کے خواب کو یقین کی آنکھوں سے دیکھا۔ ان کی ظاہری نورانی وجاہت، ان کی خود اختیارانہ درویشی اور ان کی پرکشش نکتہ رس گفتگو کا تاثر اب تک لوگوں کے دل و دماغ میں باقی ہے۔

اقامت دین کے خواب کی تعبیر پر گفتگو کرتے ہوئے ایک بار ڈاکٹر ضیاء الہدی صاحب نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صبح کی سپیدی سے پہلے اچانک اندھیرا بڑھ جاتا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ صبح ہونے والی ہے۔ مزید فرمایا کہ نئے اسلامی نظام کی صبح اگر اچانک آگئی اور اس وقت آپ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل نہ ہوئے جو نئے نظام کو چلانے کے لیے ضروری ہیں تو اسلامی نظام پر سے لوگوں کا بھروسا ہی اٹھ جائے گا۔ اس دنیا میں نااہلی کا مداوا محض پرخلوص کوشش سے نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کی گفتگو سن کر نوجوانوں کا ایک طرف تو خواب کے حقیقت بننے پر یقین تازہ ہو جاتا اور دوسری طرف نئے نظام کے لیے مطلوبہ صلاحیت پیدا کرنے کی لگن بڑھ جاتی۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس اس لگن کو عملی اور ادارہ جاتی شکل دینے کی کوئی ٹھوس صورت نہ تھی۔ حالاں کہ انھوں نے اس سلسلے میں ایک خاکہ نئے نظام تعلیم کے عنوان سے اپنی ایک تقریر میں پیش کیا تھا۔ بنیادی نکتہ یہ تھا کہ تعلیم کو ماضی رخی (past-oriented) کے بجائے مستقبل رخی (future-oriented) بنانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ نظام تعلیم ماضی آگاہ بناتا ہے مستقبل شناس نہیں بناتا۔ جو لوگ اپنی کوشش سے مستقبل شناسی کی طرف متوجہ ہوں وہی علم کو آگے کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ بہر حال وہ ایک مجمل خاکہ تھا جس کی تفصیل بھی ضروری تھی اور جسے روبعمل لانے کے لیے با صلاحیت افرادی قوت اور مالی وسائل کی بھی ضرورت تھی۔

بہار کے انتہائی فعال اور مقامی سطح پر وسیع سماجی اثر و نفوذ رکھنے والے چند کارکنوں میں سے ایک تھے قمر الدین خاں صاحب۔ معمولی پڑھے لکھے کاشتکار اور ٹیکسی ڈرائیور۔ پتہ نہیں کس کے ذریعے تحریک اسلامی کے کارکن بنے۔ 1960 کی دہائی میں گیا شہر کو اپنی تحریکی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جہاں پہلے سے بھی چند کارکن اسی کام میں لگے ہوئے تھے۔ لیکن گیا شہر میں جماعت اسلامی کی پہچان معدودے چند افراد تک محدود تھی اور دیہی علاقوں میں تو کوئی جاننے والا بھی نہ تھا سوائے شیرگھاٹی کے قریب کی بستی میں موجود دو ارکان کے۔ قمرالدین خان عوامی آدمی تھے اس لیے تحریک کا کام بھی عوامی مہم جوئی کے انداز میں شروع کیا۔ مرکز شہر میں ڈاکٹر مطیع اللہ صاحب کے مطب کی بالائی منزل کرایہ پر لی، لاؤڈ اسپیکر نصب کیا اور فجر اور عشاء بعد تفہیم القرآن کا مطالعہ پیش کرنے لگے۔ بالکل سامنے کی مسجد میں تبلیغی جماعت کا مرکز تھا اور ایک جانب بڑی مسجد تھی دیوبندی حلقے کی۔ صبح سویرے نماز بعد آس پاس کے چند لوگوں کو ساتھ لیتے اور ہوٹل میں چائے نوشی کرتے ہوئے تحریک اسلامی کی دعوت اور اس کی سرگرمیوں پر گفتگو کرتے۔ اس کے بعد سارا دن کبھی رکشہ والوں، کبھی دکانداروں، کبھی علمائے دین، کبھی کالج، اسکول کے ٹیچروں اور کبھی وکالت خانہ میں وکیلوں سے ملاقاتیں کرتے، تحریک اسلامی کے فکر و پروگرام پر گفتگو کرتے اور کسی کو لٹریچر دیتے، کسی کو سماجی فلاحی کاموں میں تعاون پر آمادہ کرتے۔ چند ایک سے دوستی کرتے اور ساتھ لیے محلوں کی طرف ملاقات کے لیے نکل جاتے۔ شہر کا کوئی معاملہ ہو وہ وہاں موجود نظر آتے۔ طبیعت میں بذلہ سنجی بھی تھی، اس لیے ہر مجلس، ہر محفل میں خوشگواری کی فضا قائم رکھتے۔ جعفر بھائی بتاتے ہیں کہ پہلی بار جب گیا ضلع میں ہونے والے حلقہ طلبہ اسلامی کے تربیتی اجتماع میں وہ شریک ہوئے تو اپنا تعارف کراتےہوئے جعفر بھائی نے کہا کہ پہلے میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں جایا کرتا تھا۔ قمرالدین خاں صاحب میری طرف دیکھتے ہوئے برجستہ بولے: اچھا، تو آپ via ہیں۔ بعد کے دنوں میں رفقائے جماعت سے جب میرا تعارف کرواتے تو یہ بھی کہتے کہ یہ via ہیں۔

کچھ دنوں بعد دفتر کے ساتھ دیہی علاقوں سے آنے والے طلبہ کے لیے قیام و طعام کا نظم بھی قائم کر دیا۔ اپنے گھر سے غلہ اناج لاتے اور مفت طعام کا نظم کرتے۔ رقم کی ضرورت ہوتی تو شہر کے مخیر احباب سے بھی تعاون لیتے اور اپنی کاشت کی کچھ زمین بیچ کر دفتر، طعام گاہ اور تحریکی سرگرمیوں پر خرچ کرتے۔ ان کا دفتر بیک وقت مرکز نشریات بھی تھا، طلبہ کا ہاسٹل بھی تھا اور مسافر خانہ بھی جہاں دیہی علاقے سے علاج معالجہ یا شادی بیاہ کی خریداری کے لیے آنے والوں یا مقدمہ لڑنے والوں کا گھنٹہ دو گھنٹہ پڑاؤ ہوتا یا کبھی کبھی رات کا قیام و طعام بھی ہوتا۔ اس طرح لوگ تحریک سے مانوس ہوتے جاتے۔ چند برسوں میں ہی انھوں نے گیا شہر کے ہر طبقے میں تحریک اسلامی کے اثرات اتنے وسیع کر دیے کہ آج تک ان کے دور کی پیدا کردہ سماجی قوت کا اثر محسوس ہوتا ہے جسے بعد میں آنے والوں نے بھی برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ اب تو ان کے دور کے چند لوگ ہی باقی رہ گئے ہیں ورنہ ان کے انتقال کے بعد 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں خاص و عام ہر طبقے میں لوگ ان کی گوناں گوں سرگرمیوں اور ہر کام میں ان کی عوامی پہل کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور اور معمولی پڑھے لکھے شخص کے اندر تحریک نے جو فکری خود اعتمادی پیدا کر دی تھی اس کی وجہ سے وہ ڈاکٹروں، وکلاء اور اساتذہ کے درمیان مقبول رہے۔ لیکن تحریک کی اس سماجی ساکھ کے پیچھے اخلاق و معاملات میں ان کی صاف ستھری زندگی اور عوامی معاملات و مسائل میں ان کی بے غرضانہ اور فعال شرکت تھی۔

جب مثالی بستی کا منصوبہ سامنے آیا تو انھوں نے اپنے گاؤں کو خصوصی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ میرے علم میں بہار اور جھارکھنڈ میں چند گاؤں ایسے ہیں جہاں تقریباً ہر خاندان تحریک اسلامی سے شعوری طور پر وابستہ رہا ہے۔ گیا ضلع میں ایک مشہور گاؤں ہے سہدیو کھاپ، قمرالدین خاں اسی گاؤں کے رہنے والے تھے۔ آج بھی وہاں کی اکثریت، روایتی طور پر ہی سہی، تحریک سے وابستہ ہے۔ اس وسیع تر سماجی تبدیلی کے نقیب تھے قمرالدین خاں صاحب جن کی برسوں کی محنت نے تقریباً پوری آبادی کو تحریک اسلامی سے وابستہ کر دیا تھا اور جو لوگ تحریک سے وابستہ نہ بھی ہوئے وہ ان کے اخلاق و کردار کے گرویدہ تھے۔ اس گاؤں میں درس قرآن کا حلقہ قائم ہوا، اجتماعی نظم زکوة و عشر کا اہتمام ہوتا رہا، درسگاہ قائم ہوئی، خواتین کے اجتماعات ہوتے رہے، کئی خاندانوں نے اپنے بچوں کو چتر پور کی درسگاہ اسلامی اور بعد میں جامعة الفلاح میں داخل کیا، جماعت کے اجتماعات ہوتے رہے، اور ان ساری سرگرمیوں کے نتیجے میں گرچہ قمرالدین خاں کی سر توڑ کوشش کے باوجود مثالی بستی بنانے کا خواب تو پورا نہ ہوا لیکن عام طور پر پوری بستی نے روایتی مذہبی رسوم سے کنارہ کشی اختیار کر لی، بعض سماجی خرابیاں بھی دور ہوئیں، دینی تعلیم کا چرچا عام ہوا اور اسلامی اقدار بھی فروغ پائیں۔ گیا ضلع کی پٹھان آبادی میں یہ گاؤں وہابیوں کا گاؤں کہا جاتا تھا۔ اس گاؤں میں تحریکی لٹریچر کا مطالعہ ہر پڑھے لکھے شخص نے کر رکھا تھا اور جو پڑھے لکھے نہ تھے وہ بھی گفتگو اور تقریریں سن کر اقامت دین، اسلامی نظام حیات، احیائے دین، اسلامی اجتماعیت، شورائی نظام جیسے بنیادی تحریکی تصورات سے واقف تھے۔ شعوری سطح پر تحریکی فکر کی آبیاری کا کام قمرالدین خاں صاحب نے اس تندہی سے کیا تھا کہ وہاں کے لوگ آج بھی بس انھیں جیسے کی تلاش میں رہتے ہیں۔

دربھنگہ درسگاہ اسلامی کے کیمپس میں آل بہار اجتماع ارکان تھا۔ یہ بات ہے شاید 1987 کی۔ امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی، قیم جماعت مولانا افضل حسین، اور مولانا انعام الرحمان خاں، امیر حلقہ مدھیہ پردیش تشریف لائے تھے۔ اس اجتماع میں فرقہ پرستی کے موضوع پر ڈاکٹر احمد سجاد صاحب، رانچی کی ایک تقریر بھی تھی۔ انھوں نے فرقہ پرستی کے موضوع پر شرح و بسط کے ساتھ نکتہ در نکتہ گفتگو کی۔ وقفہ کے دوران مولانا انعام الرحمان خاں نے ان کے سامنے جرح کے انداز میں کچھ سوالات اٹھائے۔ دونوں بزرگوں کا الیکشنی سیاست پر ایک دوسرے کے بالکل مخالف نقطۂ نظر تھا جس کا سایہ باہمی مکالموں پر پڑنا لازم تھا۔ مولانا نے اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے فرمایا: سجاد صاحب! آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی فاشزم سے مستعار ہے۔ فاشزم کا نظریہ دو ٹانگوں پر کھڑا کیا گیا تھا: جرمن آریائی نسل کی برتری اور یہودی قوم سے نفرت۔ ٹھیک اسی طرح آر ایس ایس کا نظریہ دو ٹانگوں پر کھڑا ہے: ہندو قوم کی برتری اور مسلم قوم سے نفرت۔ اب بتائیے اگر مسلمان مطالباتی سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں، جو قومی کشمکش کا سبب بنتی ہے، تو کیا مسلم منافرت کی بیساکھی باقی رہ پائے گی؟ پھر کیا ایک ٹانگ پر آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی بہت دنوں تک کھڑی رہ سکے گی؟ گفتگو کے بعد مکالمہ و مباحثہ، اپنے اپنے دلائل سے ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش اور پھر اختلاف رائے کے ساتھ دوست دارانہ تعلق۔ اسی تحریکی کلچر کے طفیل: باہم دگر تھے مختلف، چلتے رہے وہ ساتھ ساتھ۔

امیر حلقہ بہار انیس الدین احمد صاحب بااثر امرائے حلقہ میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی دو باتیں لوگ اکثر بیان کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ انھوں نے ذاتی مطالعہ سے جدید و قدیم علوم میں اتنا درک حاصل کر لیا تھا کہ مختلف شعبوں کے اہل علم کے درمیان خود اعتمادی کے ساتھ شریک مکالمہ ہو سکیں۔ چناں چہ پٹنہ اور دیگر شہروں کے اہل علم کے درمیان ان کا ایک حلقہ قائم ہو گیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ وہ فلائنگ دورہ کے قائل نہ تھے۔ جس علاقے، شہر میں جاتے وہاں جم کر قیام کرتے، رفقائے تحریک، یونیورسٹی اور مدارس کے اہل علم اور سماجی، سیاسی اور صاحب ثروت افراد سے ملاقاتیں کرتے اور اکثر شام میں دنیا جہان کے موضوعات پر مجلسیں سجاتے۔ ان کے اس انداز دورہ کی وجہ سے ہر علاقے میں جماعت کا حلقہ بھی وسیع تر ہوا، ادارے بھی وجود میں آئے اور بحیثیت تحریکی قائد ان کی سماجی پہچان بھی بنی۔

جب 1964-65 کے دوران راورکیلا اور دیگر علاقوں میں فسادات کی لہر چلی تو قریبی ریاست ہونے کی بنا پر امیر حلقہ بہار انیس الدین صاحب نے ریلیف کے لیے بہار کے کارکنوں کی ٹیم تشکیل دی۔ پروفیسر سہیل احمد خاں بتاتے تھے کہ کن کن خطرات و مشکلات سے گزر کر امیر حلقہ نے اڑیسہ کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ وسائل کم تھے لیکن منصوبہ بندی کے ساتھ اور کارکنوں پر کم سے کم خرچ کرکے جماعت نے بڑے پیمانے پر متاثرین کو مدد پہنچائی۔ اس زمانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سہیل صاحب نے بتایا کہ پٹنہ یونیورسٹی کے عالمی شہرت یافتہ تاریخ کے پروفیسر سید حسن عسکری، جو شیعہ تھے، ایک روز دفتر حلقہ تشریف لائے۔ انھوں نے ایک کپڑے کی پوٹلی امیر حلقہ کے سامنے رکھ دی۔ انیس الدین صاحب نے پوچھا یہ کیا ہے؟ کہا آپ لوگ جس طرح ریلیف کا کام کر رہے ہیں، مجھے آپ ہی لوگوں پر اعتماد ہے کہ میری اعانت مستحقین تک صحیح طور سے پہنچے گی۔ امیر حلقہ نے پوٹلی کھولی تو اس میں سونے کے زیورات تھے۔ عسکری صاحب نے بتایا کہ بیٹی کی شادی کے لیے بنوائے تھے لیکن اس وقت اس کا سب سے بہتر مصرف جماعت کا ریلیف ورک ہے، بیٹی کا زیور بعد میں بنوا لوں گا۔ سماجی ساکھ تحریک اسلامی کی سب سے قیمتی پونجی ہے۔ وسیع سماجی تعلقات اور سماجی سطح پر اخلاقی ساکھ تحریکی قائدین کو مقبول خاص و عام بناتی رہی ہے۔

کئی لوگوں کو کہتے سنا کہ مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی فطری قائد ہیں اور ہر مسئلے کی جزئیات پر نگاہ رکھتے ہیں۔ پروفیسر عبدالمغنی صاحب، جو خود بھی پوری زندگی قائدانہ طور اطوار کے ساتھ سرگرم عمل رہے اور علامہ اقبال کی شاعرانہ خودی کا پیکر بن کر پورے طمطراق سے زندگی بسر کی، کہا کرتے تھے کہ میں تو مولانا ابواللیث صاحب کی بصیرت کا قائل ہوں اور جب بھی دہلی جاتا ہوں ان سے ملاقات کے لیے مرکز ضرور جاتا ہوں۔ بلاشبہ مولانا ابواللیث صاحب نے اپنی قائدانہ صلاحیت اور شان فقر و غنا سے تحریک اسلامی کی کئی نسلوں کو متاثر کیا۔ ایک خاص بات ان کی یہ تھی کہ وہ افراد جماعت کو نام کے ساتھ یاد رکھتے۔ یہی صلاحیت مولانا سراج الحسن صاحب میں بھی بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔ ضروری نہیں کہ یہ صلاحیت ہر قائد میں پائی جائے لیکن ہے یہ بڑی خوبی۔ ایک مرتبہ مولانا ابواللیث صاحب کلکتہ سے بذریعہ ٹرین دہلی واپس لوٹ رہے تھے۔ گیا جماعت کے رفقا کو خبر دی گئی کہ مولانا کی ٹرین رات دس بجے کے قریب گیا جنکشن پہنچے گی۔ گیا کے رفقائے جماعت مولانا سے ملنے پہنچ گئے۔ مولانا کی ٹرین رکی، گیا کے رفقاء کی نام بنام خیریت پوچھی۔ اچانک انھوں نے پوچھا شفیع صاحب کیسے ہیں؟ ہم تو خیر جماعت کے پرانے لوگوں سے اتنا واقف نہ تھے لیکن دوسرے لوگ بھی حیص بیص میں رہے کہ کون شفیع صاحب؟ مولانا نے کہا ارے بھئی، وہی شفیع جو گیا ہی کے اطراف کے رہنے والے ہیں۔ اچانک لوگوں کو یاد آیا : اچھا شفیع صاحب ڈہری آن سون والے، ہاں وہ اچھے ہیں۔ مولانا نے تائید فرمائی ہاں وہی شفیع، جماعت کے پرانے اور مخلص رکن ہیں۔ شفیع صاحب جیسے گمنام رکن کو یاد رکھنا اور وہ بھی اپنی امارت سے سبکدوشی کے تقریباً ایک دہائی وقفہ کے بعد، واقعی ایک غیر معمولی بات ہے۔ شفیع صاحب میں خاص بات کیا تھی؟ نہ مقرر، نہ صاحب قلم، ڈہری آن سون جیسے چھوٹے سے شہر تک محدود۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ ریٹائرمنٹ پر ملنے والی ساری رقم لے کر حلقہ آفس پہنچے کہ جماعت اس رقم کو اپنی ضرورت پر خرچ کرے۔ بہت سمجھا بجھا کر کچھ رقم لی گئی اور انھیں واپس بھیجا گیا۔ پوری زندگی اپنی محدود صلاحیت اور محدود آمدنی تحریک اسلامی پر نچھاور کرتے رہے۔ یہ کرشمہ ہے اس خواب کا جو جاگتی آنکھوں سے انھیں تحریکی لٹریچر میں نظر آیا اور قلب و روح میں جا گزیں ہو گیا۔

ایک رکن تھے ولی محمد صاحب۔ سیتامڑھی (بہار) کے رہنے والے۔ مجھ سے تو ان کی بزرگی کے زمانے میں ملاقات ہوئی۔ بڑے پرجوش، سرگرم اور مخلص کارکن تھے وہ۔ جعفر بھائی نے بتایا کہ وہ اکثر تجارت کے سلسلے میں بڑی رقم لے کر دہلی آتے تو مرکز جماعت، چتلی قبر میں ہی قیام کرتے کہ رقم محفوظ رہے۔ ایک بار مرکز پہنچے تو قیم جماعت شیخ محمد یوسف صاحب نے کہا کہ مجلس شوری کے اجلاس کی وجہ سے قیام کی گنجائش نہیں ہے۔ سہ روزہ دعوت میں کیا آپ نے اعلان نہیں دیکھا؟ خیر چار و ناچار وہ آس پاس کے ہوٹل، لاج کی تلاش میں نکلے اور ایک بیڈ لے لیا۔ اسی دوران کسی نے امیر جماعت مولانا ابواللیث صاحب سے ولی محمد صاحب کے آنے اور واپس ہونے کا تذکرہ کیا۔ ابواللیث صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا: ارے بھئی، ولی محمد کے پاس رقم ہوگی اسی لیے یہاں ٹھہرنے پر اصرار کیا ہوگا۔ قیم صاحب کہاں ہیں، بلائیں انھیں، بلائیں۔ جب قیم جماعت شیخ یوسف صاحب کو امیر جماعت کا عندیہ معلوم ہوا تو وہ خود ہی ولی محمد صاحب کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ تلاش بسیار کے بعد وہ انھیں ڈھونڈھ پائے اور بتایا کہ امیر جماعت نے آپ کو مرکز بلایا ہے۔ ولی محمد صاحب کہتے تھے کہ میں زار و قطار رو پڑا اپنے امیر مولانا ابواللیث صاحب کی اس توجہ اور کرم فرمائی پر اور اپنے قیم محمد یوسف صاحب کی از خود تلاش گردانی اور مشقت پر۔ بھلا میرے جیسا دورافتادہ علاقے میں رہنے والا معمولی رکن اور امیر و قیم کی ایسی فکر مندی۔ ولی محمد صاحب سوز دروں کے آدمی تھے جسے تحریکی تصورات نے جلا بخشی تھی اور قائدین کے رویوں نے پختہ تر کیا تھا۔ اور یہ سب کچھ فطری اور برجستہ طور پر ہوا تھا، کسی تکلف، کسی تصنع کے بغیر۔

یہ تو بس چند مثالیں ہیں جن کا تذکرہ ہمارے تحریکی جذبے کو تازگی دیتا ہے۔ ورنہ ملک کے طول و عرض میں نہ جانے ایسے کتنے رہروان شوق ہو گزرے ہیں جنھوں نے ہزاروں لاکھوں دلوں میں اقامت دین کی جوت جگائی اور تعمیر جہاں کا ولولہ پیدا کیا۔ اور آج بھی نہ جانے کتنے مردان کار ملک کے گوشے گوشے میں اسی راہ پر گامزن ہیں جو صبر آزما بھی ہے اور پر خار بھی۔ سفر کی طوالت و صعوبت ان رہروان شوق کے قدموں کو بوجھل نہ کرے اور جادۂ منزل پر ہر گام ہر موڑ نئی آگہی، نئی بصیرت سے ہم کنار کرے، جو خواب کو حقیقت بنانے میں معاون ثابت ہو۔ مثالیت پسندی ہمارے خواب کو سراب نہ بنا دے اور واقعیت پسندی ہمارے خواب کو دھندلا نہ کر دے، اس کا شعور ضروری ہے۔ و ما توفیقی الا باللہ۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2023

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau