مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں مسجد کا رو ل نہایت اہم رہا ہے۔لیکن موجودہ دور میں وہ نماز کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔نماز کی اجتماعی سطح پر ادائی مسجد کا بنیادی رول ہے۔ لیکن یہ کل اور آخری رول نہیں ہے۔ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ رسولﷺ اور اصحاب رسولﷺ کی زندگی میں مسجد دینی، سماجی اور سیاسی تمام قسم کی مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کا مرکز ہوتی تھی۔اسی وجہ سے عہد وسطیٰ کے حکم راںجمعہ و جماعت کے قیام کی ذمے داری خود نبھاتے تھے کہ اپنے آپ کو مسجد سے دوررکھ کر وہ اقتدا ر سے قریب نہیں رہ سکتے تھے۔بعد میں اس صورت حال میں تبدیلی آئی۔لیکن یہ روایت برقراررہی کہ حکومت کے قانونی سطح پر اعتبارکے لیے ،نئے سکے کے اجرا کے ساتھ،متعلقہ حکم راں کے نام کا خطبہ جمعہ میں پڑھا جانا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ دینی اور دنیوی تعلیم کی تفریق کے بغیرتعلیمی سر گرمیوں کا اصل مرکز مسجد تھی۔ سبھی لوگ واقف ہیںکہ جامع ازہر پہلے ایک مسجد ہی تھی جو بعد میں جامعہ میں تبدیل ہوگئی۔ اس سے مسجد کے مسلم سماج پر اثرات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔اس کے اثرات کے کم ہونے کی وجہ سے مسلم سماج کو بڑانقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ مسلمانوں میںسماجی اصلاح کی تحریکوں کے کامیاب نہ ہوپا نے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔موجودہ دور میں تبلیغی جماعت کو اپنے مقصد میں ملنے والی کامیابی میں سب سے اہم کردار مسجد کا ہی ہے۔
نماز کی ادائی کے علاوہ مسجد کا سب سے اہم کام مسلمانوںکے اندرا جتماعیت کا قیام اور اسے پائیدار بنانا ہے لیکن اِس کے برعکس آج بہت سی مسجدیں مسلکی کش مکش کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں۔پاکستان میں صورت حال نہایت ابتر ہے۔ہندستان میںفرقہ وارانہ جھگڑوں میں مسجدکے ملوث ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔رسول اللہﷺ کی حدیث ہے کہ ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھو۔ اس کا بنیادی مقصد مسلم اجتماعیت کو بحال رکھنا ہے۔ لیکن بسااوقات صر ف دوسرے فرقے کی مسجد میں داخل ہوجانے کی وجہ سے اسے دھلوالیا جاتا ہے۔ دوسرے فرقے کے خلاف دھواں دھار تقریریں ہوتی ہیں، جن سے سماج متحد ہونے کی بجائے مزید منتشر ہوکر رہ جاتا ہے۔اس مظہر میں کسی ایک فرقے اور جماعت کی تخصیص نہیں ہے۔مسلکی جھگڑوںکے علاوہ بعض جگہ مسجدیں محض سیاست کا اکھاڑا بن کر رہ گئی ہیں۔خواہ ملی سیاست ہو یا قومی اور جمہوری سیاست۔ائمہ کی ایسی متعدد انجمنیں اور تنظیمیں ہیںجن کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ اتنے ہزار یا اتنے لاکھ کی تعداد میں مساجد اور ان کے ائمہ وابستہ ہیں ۔اگر یہ دعویٰ کاغذی نہیں،تو یہ سوال اہم ہے کہ آخر مساجد اور ائمہ کے اتنے بڑے وفاقوں کا مسلم سماج کوکیا فائدہ حاصل ہورہا ہے؟ان کا کیا اثر اس پر مرتب ہورہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مساجد کے اس طرح کے وفاقوں کی شدید ضرورت ہے ۔اس شرط کے ساتھ کہ ان کا مقصد دینی اور سماجی سطح پر مسلمانوںکی اصلاح اوران میں بیداری پیدا کرنا ہو۔ہوا یہ ہے کہ مخلص اورصاحب فکر طبقے نے اس پہلو پر توجہ نہیں دی۔ چناں چہ اس کام کو ایسے لوگ لے اڑے جن کے مقاصد عام مسلمانوںکی فلاح و بہبود سے تعلق نہیں رکھتے۔
اس وقت لوگو ں کی توجہ مدارس کے کردار کو وسیع و متنوع کرنے پر مرکوز ہے ۔ یہ بلاشبہ اہم ہے۔ لیکن کئی حیثیتوں سے مسجد کی اپنی انفرادیت ہے ،جو مدرسے کو حاصل نہیں ہے۔ مسجد سے ہر طبقے کے لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ دولت مند ،غریب، تعلیم یافتہ، غیرتعلیم یافتہ اورمختلف افکارو رجحانات رکھنے والے افراد۔ مسجد ان سب کی نمائندگی کرتی ہے۔ جب کہ مدرسہ ان سب کی نمائندگی نہیں کرتا۔کیوں کہ جمعے میں ہی سہی، لیکن دو ایک فی صد کے اسثتنا کے ساتھ، مسلمانوں کی اکثریت مسجد میں حاضر ہوتی ہے ۔اس اعتبار سے مسجد کی آواز براہ راست مسلمانوں کے ہر گھر میں پہنچتی ہے ۔جب کہ مدارس کا رخ کرنے والے مسلمانوں کا تناسب صرف چار فی صد ہے جس میں غالب اکثریت غریب خاندانوں کے افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔
اس لحاظ سے اگر مسجد کومسلم سماج سے مطلوب سطح پر جوڑ دیا جائے تو اس کا فائدہ لا محدود ہے۔ اس سے مسلمانوں کی فکر سازی اور سماج کی اصلاح ﴿عملًا دونوںایک دوسرے سے وابستہ ہیں﴾دونوں کا کام لیا جاسکتا ہے۔ مسجد کی انتظامیہ اس کا اور امام صحیح شعور سے بہرہ ور ہوتو مسجد ایک فکر ساز ادارے ﴿تھنک ٹینک ﴾کا کام کرسکتی ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ مسجد کے حاضرین و سامعین میں ہر طبقے اور ہر صلاحیت کے مخلص وسنجیدہ لوگ شامل ہیں۔مسجد کے ذریعے سماجی اصلاح کے مختلف پروگرام بنائے اور روبہ عمل لائے جاسکتے ہیں ۔ایک نہایت آسان اورمؤثر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک علاقے یاضلع کی تمام یا اکثر بڑی مسجدوںکے ائمہ ایک متعین مدت کے دوران مجموعی طور پر ایک ہی موضوع کو مستقل خطاب کا عنوان بنا کر عوام کی ذہن سازی کی کوشش کریں ۔چند ہفتوں بعد پھر اسی طرح ان سے کسی دوسرے موضوع کو مشترکہ طور پر خطاب کا عنوان بنانے کی درخواست کی جائے۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ان موضوعات پر ضروری اور اہم لٹریچر انہیں فراہم کیا جائے ۔یہ کام باضابطہ کسی ادارے کو کرنا چاہیے۔ائمہ کی انجمنوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
موجودہ دور میںخطبہ جمعہ کا کردار رسمی ہوچکا ہے۔اس حوالے سے ہمارے ذہنی جمود کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اب بھی ہماری بہت سی مسجدوں میںالسلطان ظِلُّ اللہِ فی الارض کہاجاتاہے۔ خطبہ مخاطب کی اپنی زبان میں ہونا چاہیے۔ بہت سے اہل حدیث علما اس پر عامل ہیں۔﴿جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے علماء اور خطبا بھی اس کا اہتمام کرتے ہیں﴾۔ عبدا للہ بن باز مر حوم کا فتوی اس پر بہت پہلے آچکا ہے۔ ہندستان کے بہت سے اہم حنفی علما﴿مثلا:سید سلیمان ندوی ،مناظر احسن گیلانی،مولانا منت اللہ رحمانی وغیرہ﴾ اس کے قائل رہے ہیں۔لیکن عجیب بات ہے کہ بہت سے احباب خطبے کو دوسری زبان میں صحیح نہیں سمجھتے۔ حالاں کہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ رسول و اصحاب رسول کے پیش نظر خطبے کا مقصد محض حصول برکت نہیں بلکہ حصول فہم دین بھی تھا۔
مسجد کے کردار کو وسیع کرنے کے لیے ایک ضروری کام مسجد وں میں خواتین کے داخلے کا نظم کرنا ہے۔مختلف اسلامی ملکوں میں دونوںصنفوں کے لیے مساجد کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔اس نظام کے ساتھ کہ عورتوں کے لیے داخل ہونے کا دروازہ﴿انٹرنس﴾ اور منزل دونوں علاحدہ رہتے ہیں۔ہند وپاک میں اہل حدیث اور کہیں کہیں جماعت اسلامی سے متاثر حلقوں میں بھی اس پر عمل ہوتا ہے۔ اس طرح گھر سے باہربازاروں اوردوسرے مقامات پر موجودخواتین اپنی نماز ضائع کرنے سے بچ جاتی ہیں ۔نیز یہاں حاضری سے ان کو دینی فکرکی غذابھی حاصل ہوتی رہتی ہے۔گھروں میں بیٹھنے والی خواتین کی بڑی تعداد کی دینی حس اور سماجی شعور پر ٹی وی کے سستے تفریحی پروگراموں نے قبضہ جما لیا ہے۔
مساجد کا بہت کچھ رول مدارس کے حصے میں چلا گیا ۔یہ غلط بھی نہیں۔البتہ خصو صا ہندو پاک میں مجموعی طور پر اہل مدارس کے وژن میں کمی، جس کا اقبال نے شدت کے ساتھ شکوہ کیا ہے،کی وجہ سے مسلم سماج پر مدارس کے اثرات محدود ہوکر رہ گئے یا دوسرے لفظوں میں اہل مدارس کی بڑ ی تعدادزمانے کے تقاضوں کے مطابق مسلم سماج کی رہنمائی سے قاصر رہی۔ اپنی تمام تر اہمیت وافادیت کے باوجود یہ امر تقریبا مسلم ہے کہ مدارس میں تدریس و خواند گی کا عمل ایک مشینی انداز کاکام بن کر رہ گیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوںکی فکری ساخت اور سماجی ڈھانچے میں تبدیلی لانا ان کے ایجنڈے سے خارج سا ہوگیاہے۔ سوال یہ ہے کہ ماضی کے طرز پرکیا یہ ممکن نہیں ہے کہ مسجد کوصرف نماز تک محدود نہ رکھ کر اسے دینی لحاظ سے مختلف طرح کی تعمیری سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے؟مغربی ممالک میں بہت سے مدارس حالیہ عرصے میں کھلے ہیں اور وہ انفرادی سطح پر کام کر رہے ہیں۔لیکن جہاں تک مسجدکا معاملہ ہے تواس کا تصور بہت ہمہ گیر ہے۔اس کے تحت عام طور پر اسلامی اسکول،لائبریری نشر واشاعت کے ادارے وابستہ ہوتے ہیں۔نیز دعوتی اور رفاہی نوعیت کے بہت سے کام کیے جاتے ہیں۔
موجودہ دور میں کیا ہم اس پہلو پر غور کرسکتے ہیں کہ تعلیمی ،سماجی ،رفاہی اداروںکی منصوبہ بندی مساجد کے تحت کی جائے؟ مساجد کے تحت رفاہی انجمنیں، معیاری اسکو ل، کالج، شفاخانے ،خواتین کے تربیتی مراکز اور نشر و اشاعت کے اہم ادارے قائم کیے جائیں۔ مساجد کا نظم و نسق سماج کے عام لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسجد کے تقدس و پاکیزگی کی بنا پر لوگ زیادہ مخلص ہوتے ہیں اور زیادہ بڑھ چڑھ کر مسجد پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ الحمد للہ اس ابتر دور میں بھی مسجد کے عنوان سے کرپشن کے واقعات سننے میں نہیں آتے۔اس لیے مسجد سے کسی بھی قسم کا اقدا م زیادہ مضبوطی اور فوائد کی ضمانت رکھتا ہے۔
مسجد کاسماجی کردار وسیع ہوگا توامامت کے ادارے کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوگا اور مسجد کے امام کو ’دو رکعت کا امام‘سمجھنے والے لوگوںکے عمومی رویے میں بھی تبدیلی آئے گی۔اس کا ایک لازمی نتیجہ اس شکل میںبھی سامنے آئے گا کہ مسجد کی طرف فضلاے مدارس کے باصلاحیت اور زرخیز فکر رکھنے والے لوگ بھی رخ کر پائیں گے جن سے عوام کی دینی و سماجی لحاظ سے حسب حال ذہن سازی ہوسکے گی۔ اس طرح ایک ترقی یافتہ اور قابل قدر خوبیوں کے حامل مسلم سماج کی تشکیل میں وہ اہم رول ادا کرسکیں گے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2011