نظام ارضی بنی آدم کے لیے ہے اور نبی آدم کی بقا کا دارو مدار مرد و عورت کے باہمی تعاون واشتراک پر ہے ۔ خالق کائنات نے ان کے اعضا و جوارح میں فرق رکھا ہے تاکہ مرد و عورت کے درمیان کشش کا جذبہ ان کے تعاون کوممکن بناسکے۔ خالق نے ان کو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزم بنا دیا اور دونوں کو بحیثیت انسان ہم پلہ و ہم درجہ قرار دیا۔ تاکہ حیات انسانی کی گاڑی توازن کے ساتھ چلتی رہے۔ مرد کو قدرت نے قوت و طاقت عنایت فرمائی تو عورت کو لطافت و نزاکت ۔ عورت اور مرد کے مزاج کے توازن کی مثال یہ ہے کہ آپ کسی بجلی پیدا کرنے والے کار خانے کی ساخت پر غور فرمائیں وہاں آہنی مشینیں بجلی پیدا کر رہی ہیں اور وہ مشین بند ہو جائیں تو بجلی کی پیدا وار بند ہو جائے گی۔ اس کے برعکس اگر آپ ایسے کار خانے کا جائزہ لیں جہاں آہنی مشیں بنائی جاتی ہیں تو آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ کثیف دھات کو بجلی جیسی لطیف چیزہی پگھلا کر مختلف سانچوں میں ڈھال دیتی ہے۔ اس طرح دو مختلف مادے مختلف نتائج بر آمد کرنے کے باوجود ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم نظر آتے ہیں۔
قوامیت
الرجال قوامون علی النساء
’’یعنی مرد عورتوں کے قوام ہیں‘‘ یعنی محافظ اور گارجین ہیں، عورتوں کی جسمانی ساخت اور فطرت میں جونرمی ہے اس کا تقا ضا یہ ہے کہ اسے مرد کی محافظت حاصل ہو۔ اور مرد کو یہ فوقیت اسی وقت تک ہے۔ جب وہ خدا کی مرضی کے مطابق قوامیت کے فرائض ادا کر رہا ہو ۔آج دنیا میں مرد و عورت دونوں ایک دوسرے پر برتری ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ لازمی امر ہے کہ فیصلہ کرنے میںوہ عدل و انصاف سے کام نہیں لیں گے۔ اس صورت میں تیسرے کو جج بنانا ہوگا جو تنازعہ کا ایمانداری کے ساتھ حل تلاش کرے ۔ یعنی خالق کائنات کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔اس نے اپنی قدرت کا ملہ سے مرد و عورت دونوں کو پیدا کیا ہے سب سے بہترفیصلہ کرنے والا خالق کائنات ہی ہوسکتا ہے۔ اس نوعیت کے متنازعہ امور کے فیصلہ کے لیے قرآن کی شکل میں اس نے کتاب ہدایت بھیجی ہے ایک جگہ ارشاد ربانی ہے۔
انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللہ (سورۃ نسا)
’ بیشک ہم نے آپ کے پاس ایک سچی کتاب قرآن نازل کی ہے تا کہ آپ لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں‘‘۔
دانش و رکہتے رہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں نا قص ہے یا یہ کہ انسان کی حیثیت میں مرد کو عورت پر مطلق فضیلت حاصل ہےلیکن قرآن ان باتوں کی تر دید کرتا ہے۔ قرآن کی نظر میں انسان مرد وعورت دونوں ہی کمزور پیدا کئے گئے ہیں دونوں کا علم قلیل ہے۔انسان جلد باز ہے متلون مزاجی ،بخل ، جھگڑا لوپن، بے انصافی اور نادانی اور ناشکری کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ اسلام میں مرد و عورت دونوں کے فرائض و حقوق کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ تاکہ روئے زمین پر ایک صالح معاشرہ کا قیام عمل میں آسکے۔ قرآن نے عورت و مرد دونوں کو اصل مقصد حیات کی طرف متوجہ کیا ہے، انہیں انسانیت کے احترام کا درس دیا ہے اسلام نے عورت کو اس کے حقوق سے روشنا س کر ایا اور معاشرے میں عورت کو بلند مقام عطا کیا۔ ماہر عمرانیات ایم عبد الرحمٰن خاں اپنی کتاب عورت انسانیت کے آئینے میں لکھتے ہیں۔’’افسوس تو اس بات کا ہے کہ عورت پر جس نے بھی نظر ڈالی مرد کی حیثیت سے ڈالی ہے، انسان کی حیثیت سے نہیں ڈالی اس پر جس نے بھی قلم اٹھایا ہے مرد کی حیثیت سے اٹھایا ہے انسان کی حیثیت سے نہیں اٹھایا ہے اور اسے موضوع بحث بناتے وقت اس کی نسوانیت کو پیش نظر رکھا ہے اس کی انسانیت کو نظر انداز کر دیا اس کو رقیب ظاہر کیا ہے رفیق نہیں ‘‘۔
انسانی حیثیت
قدرت نے تخلیقی مراحل میں عورت و مرد کے درمیان فرق نہیں کیا ۔ دونوں کا خمیرمٹی سے تیار کیا گیا ہے۔ دونوں کو ایک ہی جان اور ایک نسل سے پھیلا یا گیا ۔ دونوں نے رحم مادر میں نشور نما پائی ۔ دونوں ایک طرح کے مراحل سے گزرتے ہوئے ایک متعینہ مدت کے اندر دنیا میں نمودار ہوئے۔انسان دنیا میں قدم رکھتا ہے تو دنیا کی ہر آسائش اس کا استقبال کرتی ہے ۔ ارضی مخلوق انسان کے لیے مسخر ہے وہ انسان کی خدمت میں اپنے فرائض منصبی میں مصروف ہوجاتی ہے۔ پیدائش سے موت تک نظامِ قدرت مرد و عورت کی خدمت کرنے میں کوئی فرق و امتیازنہیں کرتا۔ کسی کو دوسرے پر ترجیح نہیںدیتا ۔ زمین دونوں کے لئے فرش کا کام دیتی اور غذا پیدا کرتی ہے۔ آسمان دونوں کے لئے چھت کا رول انجام دیتا ہے۔ ہوا ، پانی دونوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ سورج دونوں کو گرمی پہنچاتا ہے چاندفرحت بخشتا ہے ستارے دونوں کی رہنمائی کرتے ہیں موسم دونوں پر ایک ساتھ گزرتے ہیں۔ چرند اور پرند دونوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔جہاں تک عورت و مرد کی جسمانی ساخت کی بات ہےوہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ نظام ازدواج کے قیام کے لیے ایسا ہونا ضروری تھا۔ مرد کو چاہئے کہ زوجہ کو دل میں جگہ دے۔ ایسا نہ ہوکہ حسن و شباب سے استفادے کے لئے توبے قرار رہے اور جب اس کے حقوق کی ادائیگی کا وقت آئے یا اس کا شباب ڈھل جائے تو اسے بے کار قرار دے کر بیزاری کا اظہارکرے۔انسانی معاشرے میں عورت کا رول تعمیری ہے۔ جیلوں کے قیدیوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالئے ہر جگہ جیلوں میں اکثریت مردوں کی ہوتی ہے گرچہ عورتیں بھی ہوتی ہیں لیکن ان کاتناسب آٹے میں نمک کے برابر ہوتا ہے معاشرے کو عورت استحکام بخشتی ہے۔
دائرہ کار
انسانی معاشرے میں عورت کے رول کو اسلام نے تسلیم کیا عورتوں کو اختیار دیا کہ وہ شرعی حدود میں رہ کر تعلیم حاصل کریں تعلیم ایسی نہ ہو جو خدا سے برگشتہ کرے دین سے بیزار اور فرائض حیات سے غافل بنادے بلکہ ایسی تعلیم حاصل کرنی چاہئے جو دل میں خوف خدا پیدا کرے۔پر ہیز گاری ، ایمانداری ، صبرو قناعت، صداقت و دیانت، فیاضی و سخاوت، رحم دلی وہمدردی کی شمع روشن کرے۔ انسانی معاشرے میں عورت کے مثبت رول کیلئے عورتوں میں ان اوصاف کا ہونا ضروری ہے تب وہ صحیح معنوں میں تعمیر ملت کا فریضہ انجام دے سکیںگی۔اس طرح معصوم بچوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ نہایت اہم ہے بچپن میں بچوں کے اندر غور و فکر کا مادہ زیاد ہ نہیں ہوتا وہ اپنے گھر کے اندر جس قسم کا ماحول دیکھتے ہیں اس کے اثرات دل و دماغ میں جمالیتے ہیں۔ یہ اثرات زندگی بھر باقی رہتے ہیں اور وہی طرز تمدن اور معاشرت کی بنیاد ہوتے ہیں ان پر اجتماعی اخلاق و کردار کی تعمیر ہوتی ہے۔ جس طرح ابتدائی درسی تعلیم کیلئے ماہر اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح گھر کے اندر تعلیم وتربیت کے لئے ایسی مائوں کی ضرورت ہے جو لیاقت، فراست اور قابلیت کے ساتھ آغوش مادری کے مکتب کو چلا سکیں۔ عمدہ عادات اور خصائل حمیدہ کے ذریعے بچوں کے لیے نمونہ بن سکیں تا کہ وہ بڑے ہوکر خاندان ، قوم، ملک اور انسانیت کے لیے خیر کا باعث ہوسکیں۔
عورتوں کوتعلیم دلانے کی ضر ورت ہے تاکہ صحیح معنوں میں بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کی رفیق ثابت ہو سکیں ، ماں بن جانے کے بعد اپنی اولاد کی دانش و فراست کے ساتھ تعلیم وتربیت کر سکیں ۔ ان کے لیے اعلیٰ تعلیم کی بھی ضرورت ہے تاکہ بدلتے ہوئے زمانے میں عورت صحیح طریقے پر فرائض حیات کو ادا کر سکے اور انسانیت کی گاڑی کے دونوں پہئے ہم پلہ ہوکر قوت و طاقت کے ساتھ اسے چلا سکیں۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2019