ایک قفقازی خاتون کی ایمان افروز داستان

سمیہ رمضان احمد

ایک عرب ملک میں خواتین کا اجلاس ہورہا تھا جس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین شریک تھیں۔انہی میں ایک خاتون ایسی بھی تھی جس کے خدوخال سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ کوئی عرب عورت نہیںہے۔ میری نگاہ اس پر ٹک گئی۔وہ فصیح عربی نہ سہی، لیکن اہل زبان کی طرح روانی سے بول رہی تھی۔میں نے اسے سلام کیا اور اپنا سرسری تعارف کرایا۔اس نے بھی اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ اس کا تعلق روس کے اس علاقہ سے ہے جہاں پر قفقاز کی پہاڑیاں واقع ہیں۔ اس کے بعدمیں مجمع میں دوسری خواتین سے تعارف حاصل کرنے لگی۔ لیکن میری نگاہیں مستقل طور پر اس کا تعاقب کرتی رہیں اور میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی رہی کہ میںاس سے باتیں کروں۔ اسی میں پورا دن گزر گیا۔

ہوٹل ( جہاں میرا قیام تھا)، پہنچنے کے بعدمیرے ذہن میں دن بھر کی کارگزاری گھومنے لگی۔اس وقت بھی یہ چہرہ میرے سامنے آیا تو میں اس کے بارے میں سوچنے لگی: ’’یہ عورت کون  ہے؟ اور یہ یہاں کیوں آئی ہے؟‘‘ میں اسی سوچ میں گم تھی کہ دروازے پر ہلکی سی دستک سنائی دی۔میرے قدم تیزی سے دروازے کی طرف بڑھے اور میرے ہاتھوں نے دروازہ کھول دیا۔ میری نگاہوں کے سامنے وہی مسکراتا ہوا چہرہ تھا، جس کے متعلق میں سوچ رہی تھی۔اس نے اندر آنے کی اجازت چاہی اورمیں نے بلاتاخیر اس کا خیر مقدم کیا ۔وہ اس طرح آئی تھی جیسے میں نے اس سے پہلے سے وعد ہ کر رکھا ہو اور اسی کے آنے کا انتظار کرتی رہی ہوں۔وہ تیزی سے اندر داخل ہوئی اور عشاء کی نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی۔پھر قبلے کی طرف رخ کرکے نماز شروع کردی۔اس دوران میرا ذہن سوالات کی آماجگاہ بنا رہا۔جانماز سمیٹنے کے بعد وہ میرے سامنے ایک صوفے پر بیٹھ گئی اورکہنا شروع کیا: ’’آپ کا کمرہ تلاش کرنے میں مجھے زیادہ محنت کرنی نہیں پڑی۔‘‘ اتنا سنتے ہی اس کے بولتے ہی مجھے اس کا نام اور اس کے ملک کا نام یاد آگیا۔ ہمارے درمیان تعارف کا تبادلہ ہوا لیکن میرا دل مزید کچھ جاننا چاہتا تھا۔

روداد کا آغاز

اس نے کہا: ’’میرا تعلق اصلاً روس کے قفقازی مسلمانوں سے ہے۔میرے گھر کے لوگ مسلمان تھے ، بلکہ میرے اجداد اور خود میرے والدکا شمار بھی علماء میں ہوتا تھا۔ ایک دن میرے دادا ، پردادااور ہر اس شخص کو جو عالم کی حیثیت سے معروف تھا، شہید کر دیا گیا ۔میرے دادا اور پردادا نے وہ تمام کتابیں ، جن کے ذریعے سے وہ لوگوں کو تعلیم دیا کرتے تھے ، گھر کے اندر ایک گنبدنما کمرے میں چھپا دی تھیں۔ایک زمانہ وہ آیا کہ گائوں کے اندر صرف میرے والد ایک واحد عالم دین تھے۔ لیکن ان کا کام صرف اتنا ہی تھا کہ شادی و طلاق کے مسائل حل کریں، رمضان اور عید کے چاند کی آمد سے لوگوں کو باخبر کردیں۔اس سے آگے بڑھ کر وہ اسلام کی کسی تعلیم کا ذکرہم سے یعنی اپنی اولاد تک سے بھی کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔کیوں کہ ایسی صورت میں خدشہ تھا کہ ہم پکڑ لیے جائیںگے۔ کچھ عرصے بعد میرے والد کا بھی انتقال ہوگیا اور ہم پانچ یتیم بچے اپنی والدہ کے زیر سایہ زندہ رہ گئے۔ میری والدہ ہمیں اسی گنبد نما کمرے کے اندر لے گئیں جو عام لوگوں، بلکہ مسلمانوں کی نظروں سے بھی پوشیدہ تھا۔ وہاں ہمیں انھوں نے نماز سکھانے کے علاوہ سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص یاد کرائی اور سختی سے منع کر دیا کہ ہم کھلے عام کسی کے سامنے نماز نہ پڑھیں۔والدہ ہمیں عربوں کے قصے سنایا کرتی تھیںاور ہمیں بتاتی تھیں کہ عرب ہمارے لیے تاریک و سیاہ رات میں سورج کی مانند ہے۔ اور واقعی ایک ظالم حکومت نے ہمارے اوپر تاریکی کا پردہ ڈال کر ہمیں ساری دنیا سے کاٹ دیا تھا۔ دس سال تک ہمیں یہ نہیں معلوم ہو پایا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔

یونیورسٹی میں داخلہ

اپنی ثانوی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد میں نے روس کی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ سوویت یونین کا زوال ہو رہا تھا۔میرا لباس کالج کی باقی تمام لڑکیوں کے لباس سے مختلف ہوتا تھا۔وہ جو لباس پہنتی تھیں اس میں بے حیائی ہوتی تھی جب کہ میرا لباس باحیا اور سنجیدہ ہوتا تھا۔اس سلسلے میں مجھ پر ہر طرف سے تنقید کی جاتی تھی، پھر بھی میں نے اس لباس کو ترک نہیں کیا۔میں یونیورسٹی میں لڑکیوں کے لیے مخصوص ہاسٹل میں دو روسی لڑکیوں کے ساتھ رہتی تھی۔پہلی بار جب میرا ان سے سامنا ہوا تو مجھے ایک بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ میں نماز کیسے پڑھوں؟ظاہر ہے ،میرایہ خیال غلط تھا کہ روس آزاد ملک ہے اور یہاں ہرانسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جیسا چاہے عقیدہ رکھے اور اپنی عبادات پر بلا کسی تنگی کے عمل کرے۔میری یہ سوچ حقیقت واقعہ سے کوسوں دور تھی۔کیوں کہ محض میرے نماز کا آغاز کرتے ہی اور اللہ اکبر کہتے ہی ان دونوں روسی طالبات کا احتجاج شروع ہو جاتا تھا۔ ان میں سے ایک طالبہ تومیرے نماز شروع کرتے ہی ٹیلی ویژن یا ریڈیو چلانے لگتی تھی۔آخرکار ایک دن مجھ سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوسکا۔نماز مکمل کرنے کے بعد میں نے انھیں دھمکا دیا کہ اگر ان کا یہ رویہ برقرار رہا تو انجام اچھا نہیں ہوگا۔ اس سے انھیں قفقازیوں کی سختی اور حمیت کا بھی اندازہ ہوگیا۔نتیجۃً انھوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔لیکن نماز فجر اسی کمرے میں پڑھنے کی اجاز ت دینے سے انھوںنے صاف طور پر انکار کر دیا۔چنانچہ فجر کی نماز کے لیے میں عمارت کی چھت پر چلی جاتی تھی اور برف باری میں نماز پڑھتی تھی ۔ نماز کے دوران میرے چاروں طرف برف جمع ہو جاتی تھی۔خوب سارے کپڑے پہن لینے کے بعد بھی جان لیوا سردی کااحساس ہوتا تھا ، اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ نماز سے فارغ ہونے تک میں برف سے ڈھک چکی ہوتی تھی۔

مسجد کا سراغ

کئی دن گزر گئے۔ آخرکار بلڈنگ کی نگراں کو میری حالت پر رحم آگیا اور اس نے مجھے مسلمانوں کی ایک مسجدکے بارے میں بتایا۔ مجھے اس کی بات پر یقین نہیں ہو رہا تھا ۔ اس نے ایک کاغذ پر مسجد کا پتہ لکھا اور میری مٹھی میںدبا دیا۔میں نے اگلے دن کا انتظار نہیں کیا، بلکہ اسی دن مسجد کی جانب چل پڑی۔مسجد دور تھی، لیکن میں نے اس دوری کو محسوس نہیں کیا کیوں کہ میرے شوق نے اس دوری کو سمیٹ کر رکھ دیا تھا۔میں مسجد پہنچی تو اچانک میرے سامنے وہی نگراں خاتون تھی۔ اس نے مجھے ’السلام علیکم‘ کہا۔ میں نے اس کے دونوں کندھوں کو پکڑتے ہوئے (حیرت سے) پوچھا: ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟!‘ ‘ اس نے اثبات میں جواب دیا اور مجھے مسجد کے اندلے گئی۔میں مسجد کے اندر داخل ہوئی تو سخت حیران تھی، کیوں کہ وہاں نماز باجماعت ہو رہی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟! کیوں کہ میں اپنی زندگی میں پہلی بار نماز باجماعت دیکھ رہی تھی۔نمازی چند بزرگ خواتین تھیں جن کی عمر میری والدہ کی عمر سے بھی زیادہ تھی۔ میں نے تنہا نماز پڑھی۔ نماز مکمل کرلینے کے بعد میں نے دوروشن چہروں والی لڑکیوں کو جو کہ میری ہم عمرتھیں، اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا:’’تم نے جماعت کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟‘‘ میں نے معصومیت سے جواب دیا کہ مجھے جماعت سے نماز پڑھنا نہیں آتا۔

تعارف

دونوں نے اپنا تعارف کرایا۔ یہ میرے لیے سرپرائز تھا کہ یہ دونوں لڑکیاں بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھتی تھیں، بلکہ اسی کالج میں تھیں جس سے میرا تعلق تھا۔ان لڑکیوں کا تعلق عرب ممالک سے تھا۔ایک کویت کی اور دوسری تیونس کی رہنے والی تھی۔انھوں نے ڈھیلا ڈھالا ساتر لباس پہن رکھا تھا اور اوپر سے ایک کپڑا ڈال رکھا تھا جس نے ان کے جسم کے اوپری حصے کو ڈھک رکھا تھا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ ان کا تعلق عرب ممالک سے ہے، میں خوشی کے مارے رونے لگی۔’’کیا آپ کو سورہ یٰسین کے بارے میں معلوم ہے؟‘‘ میں نے ان سے سوال کیا۔ ہم لوگ تو یہ سورہ صرف مرنے والے کے اوپر پڑھا کرتے تھے۔انھوں نے جواب دیا: ’’ہاں ہم اس سورہ کو جانتے ہیں اور ہمیں یاد بھی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی میں نے الگ الگ دونوں کو اپنے سینے سے چمٹایا اور میری آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ میں نے ان دونوں سے اپنے دل کی گہرائیوں سے، جس کے آثار میرے چہرے کے خد وخال اور حرکات وسکنات سے ظاہر تھے، کہا: اللہ کی قسم، کیا آپ لوگ مجھے اس سورہ یسین کے بارے میں کچھ بتائیں گی؟! ان میں سے ایک نے انتہائی سکون سے جواب دیا: ’’یہ سورت قصوں اور واقعات کا مجموعہ ہے۔ ان قصوں میں ہمارے لیے بڑی نصیحت اور سبق ہے، جن سے انسان اپنی زندگی میں فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا: ’’ممکن ہو تو تم ہمارے مکان تک چلو۔ میں اور میری یہ بہن ایک ہی مکان میں رہتے ہیں۔ وہاں چل کر ہم تمھیں اس سورت کے بارے میں تفصیل سے بتائیں گے۔‘‘پورے راستے میرے کان ان کی طرف لگے رہے،  بلکہ میں اپنے تمام حواس کے ساتھ ان کی طرف متوجہ رہی تاکہ سورہ یسین کے بارے میں وہ جو کچھ مجھے بتا رہی ہیں ، میں سن لوں اورمحض پلک جھپکنے پر بھی کوئی چیز سننے اور جاننے سے رہ نہ جائے۔سورہ یٰسین کا ذکر گویا مجھے آسمان کی بلندیوں پر لے گیا۔ ہم مکان پر پہنچ گئے۔ پھر عصر کی نماز کا وقت ہوا تو میں نے ان سے باجماعت نماز پڑھنے کا طریقہ سیکھا اور زندگی میں پہلی بار ان کے ساتھ نماز باجماعت پڑھی۔اس کے بعد میں نے ان سے اس وعدے پر رخصت لی کہ آئندہ ہفتہ وار چھٹی کے دن ان سے پھرملاقات ہوگی۔اس ایک ہفتے کے دوران میں وہ تمام سوالات لکھ لیا کرتی جو ان سے پوچھنا چاہتی تھی۔

پہلا جھٹکا

ہماری دوستی اسی طرح چلتی رہی، کیوںکہ وہ دونوں میری زندگی اور میرے مستقبل کی نمائندہ بن چکی تھیں۔ایک دن کویتی بہن کو بیماری کی وجہ سے کویت واپس جانا پڑ گیا۔ یہ میرے لیے پہلا جھٹکا تھا۔ تمام لوگوں کی حیرت وپریشانی کے درمیان اس نے کالج کو خیرباد کہا۔ اور اب تیونسی بہن کے علاوہ میراکوئی ساتھی نہیں تھا۔ موسم گرم ہو چکا تھا۔ ہوا میں گرمی کی شدت بڑھ گئی تھی۔ اس حالت میں بھی وہ اپنا (ساتر) لباس پہننے پر مصر تھی۔ میں اس سے کہتی تھی کہ موسم گرم ہے اور اس لباس کی وجہ سے تمھارے جسم سے پسینے کی بو آنے لگے گی۔ اس نے پریشان ہو کر کہا: ’’کیا تم نے کبھی میرے جسم سے پسینے کی بدبو محسوس کی ہے؟‘‘ میں نے کہا: نہیں۔پھر اس نے ناپسندیدگی کے ساتھ وضاحت کی، گویا وہ اس راز سے پردہ نہ اٹھانا چاہتی ہو۔ اس نے کہا کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور آیت حجاب پڑھ کر سنائی: وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰي جُيُوْبِہِنَّ۝۰۠ (النور: ۳۱) ’’اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں الا یہ کہ جو خود سے ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں ڈال لیا کریں۔‘‘میرے دماغ میں جیسے آتش فشاں پھوٹ پڑا ہو۔میں اس پر برس پڑی۔ تم نے مجھے اس آیت سے بے خبر کیسے رہنے دیا، مجھے اس کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟۔ اس کے بعد میں نے فوراً ویسا ہی لباس سلوایاجس کے بارے میں اس نے وضاحت کی کہ یہ اسلامی لباس ہے۔

خبر بجلی بن کر گری

اسلامی و شرعی لباس زیب تن کیے ہوئے ابھی مجھے چند روز بھی نہیں گزرے تھے کہ ایک دن میری اسی تیونسی سہیلی کا فون آیا: ’’میں یہاں سے روانہ ہونے سے پہلے تم سے ملنا چاہتی ہوں۔کیوں کہ مجھے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ہے اور اب میں جانے کی تیاری کر رہی ہوں۔‘‘ یہ خبرمجھ پر بجلی بن کر گری۔میں نے فوراً بھاگنا شروع کر دیا۔ میں اس سے ملنے کے لیے بے قرار ہوگئی ۔ میں نے دوڑنا شروع کیا اور اس طرح بھاگ رہی تھی جیسے انسان اس وقت بھاگتا ہے جب کوئی ظالم اس کا پیچھا کر رہا ہو۔ میری آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگی تھی۔ بھاگتے ہوئے میں اس کے مکان پر پہنچی۔ دروازہ کھولااور اس کی گود میں جا گری۔ وہ رو رہی تھی اور میں بھی دہاڑیں مار کر رو رہی تھی۔پھر اس نے حسب عادت مجھے دلاسا دیا اور بولی: ’’ہم جب روس تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئے تھے تو یہاں کی حکومت نے ہم سے اس معاہدے پر دستخط لیے تھے کہ ہم یہاں روس کے لوگوں سے میل جول نہیں کریں گے۔لیکن جب ہم نے تمھیں دیکھا کہ تم مسلمان ہو اور اسلام کے بارے میں بس برائے نام ہی جانتی ہو تو میں نے اور میری دوست نے یہ طے کر لیا تھا کہ انجام چاہے کچھ بھی ہو، ہم تمھاری مدد کریں گے۔کوئی بات نہیں ،ہم رومانیا یا یوکرین چلے جائیں گے۔ لیکن سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اب وہ لوگ تم تک نہ پہنچ جائیں،کیوں کہ تم نے قانون توڑا ہے۔ وہ لوگ لازماً تمھارا پیچھا کریں گے۔میں نے حیرت سے کہا: ’’کون سا قانون؟‘‘ اس نے کہا: ’’تمھارے ملک کا قانون تمھیں غیر ملکیوں سے ملنے جلنے کی اجازت نہیں دیتا۔میں نے قانون کو کوئی اہمیت نہیں دی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان دونوں سے متعارف ہونے سے پہلے تک میں اس قانون سے واقف نہیں تھی۔میں اس کے ساتھ ایرپورٹ تک گئی۔ مجھے اس وقت نہ کسی کی پروا تھی اور نہ ہی کسی کا ڈر ۔میں ایرپورٹ کے اندر بیٹھی رہی اور میری حالت ایسی تھی جیسے میں کسی کے مرنے کا غم منا رہی ہوں ۔ میں خود کو رونے سے نہیں روک پارہی تھی، بلکہ میں زور زور سے ہچکیاں لے رہی تھی۔میرے جسم سے روح پرواز کر چکی تھی۔ اس وقت میری کیفیت اور میرا احساس یہی تھا۔ میں وہاں سے لوٹی تو غمگین، اداس اوراندر سے ٹوٹی ہوئی تھی۔مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ موسم بہار کی چھٹیاں کیسے گزر گئیں۔

 گھرکا سکون

اب میرے لیے گھر کی رونق میں واپس جانا ضروری تھا تاکہ میری زندگی میں وہ لطف واپس آ سکے جس کو میں کھو چکی تھی۔ چنانچہ میں اپنے وطن چلی گئی جہاں میرے اہل خانہ رہتے تھے۔جب انھوں نے مجھے اسلامی کپڑوں میں دیکھا تو سب کی توجہ اس کی طرف مبذول ہو گئی۔ میرا بجھا ہوا چہرہ، جسمانی وزن میں کمی کسی کو نظر نہیں آئی۔ دنیا اپنی جگہ ٹھہر گئی گویا میں نے ان کے ماتھے پر کلنک لگا دیا ہے۔میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ بیٹھی اور ان کو ساری بات سمجھائی۔انھیں مجھ سے ہمدردی تو ہوئی لیکن وہ میرے سلسلے میں انٹیلی جینس کے افراد اور تحقیقات کے خدشے کو لے کر پریشان تھے۔بعد میں میری بہن اور والدہ کے علاوہ سبھی کو مجھ سے ہمدردی ہوگئی۔یہ اللہ کی رحمت ہی تھی کہ ہمارے گھر ہماری ایک عزیز خاتون آئیں اور انھوں نے ہمارے گھر کے اندرپیدا ہوجانے والے کھنچائو کو کم کرنے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے میری والدہ پر زور ڈالا کہ میں ان کے ساتھ ان کے وطن چلی جائوں اور وہاں ان کی بچیوں کو قرآن سکھائوں۔اس میں خیر کا  ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن کی صحیح تلاوت سیکھنے کاموقع عنایت کر دیا اور یہ موقع بھی دیا کہ میں قرآن کا اکثر حصہ حفظ کر لوں۔دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ میں نے ان دونوں عرب لڑکیوں سے جو کچھ سیکھا تھا وہ سب کچھ میں ان بچیوں کو سکھاتی تھی۔ اس پر ان کی طرف سے انتہائی حیرت کا اظہار ہوتا تھا ۔

یونیورسٹی کی طرف واپسی

چھٹیاں بڑی تیزی سے گزر گئیں اور میں نے دوبارہ اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیا۔لیکن اس بارمیں نے محسوس کیا کہ کچھ لوگ ہروقت میرے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔میں جس جگہ بھی جاتی ہوں یہ لوگ میرا پیچھا کرتے ہیں۔میں یہ جاننے کے لیے کہ میرا پیچھا کرنے والے کون ہیں، میٹرو میں بیٹھنے کا ارادہ ترک کر دیتی۔ چنانچہ میٹرو کے چلے جانے کے بعد وہ میرے ساتھ اسٹیشن پر ہی کھڑے ہوئے دکھائی دیتے۔  یہ معاملہ میرے ساتھ کئی بار پیش آیا۔ ایک دن میں میٹرو ٹرین میں چڑھی تو یہ لوگ بھی اس میں داخل ہوگئے۔جیسے ہی میٹرو کے چلنے کا اعلان ہوا میں اس میں سے کود پڑی۔ میں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ چلتی ہوئی میٹرو کے شیشوں سے چپکے ہوئے تھے اور آنکھیںمیرا تعاقب کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ واقعی میرا پیچھا کیا جا رہا ہے۔مجھے ڈر ہو ا کہ کہیں گرفتار نہ کر لی جائوں اور مجھ پر جاسوسی کا الزام نہ عائد کر دیا جائے، یا مجھے پاگل نہ قرار دیا جائے یا کوئی اور جھوٹا الزام مجھ پر عائد کر دیا جائے۔اور ممکن ہے اس کے بعد وہ مجھے کسی کنویں میں پھینک دیں اور گرفتاری کا نام دے دیں ۔چنانچہ میں نے تعلیم ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں سفر کر کے انھی خاتون کے گھر گئی جن کے یہاں رہ کر میں نے قرآن سیکھا اور یا دکیا تھا۔اس گھرکے سربراہ پولیس میں کام کرتے تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ میری تصویر تمام پولیس والوں کو تقسیم  کر دی گئی ہے اور میری تلاش جاری ہے۔ان کے لڑکے نے مجھے مشورہ دیا کہ میں فوراً اپنے گھر والوں کے پاس پہنچوں۔ میرے سفر کا سامان تیار کر دیا گیا اور وہ لوگ مجھے میرے گائوں کے کنارے تک چھوڑ کر چلے گئے۔میں اپنے گھر پہنچی اور جیسا کہ مجھے اندازہ تھا، بے وقت میرے گھر پہنچنے پر گھر کے لوگ پریشان اور خوف زدہ ہوگئے۔میں نے انھیں پوری کہانی سنائی۔

شادی

کچھ دنوں کے بعد ایک شیخ ،جو کہ ہمیں قرآن پڑھایاکرتے تھے، میرے بھائی سے ملنے کے لیے آئے اور انھیں ایک خط دیا جو ایک عرب نوجوان کے پاس سے آیا تھا۔ یہ عرب نوجوان اسی یونیورسٹی کے انجینیرنگ کالج میں پڑھتا تھا۔اس خط میں لکھا تھا: ’’پولیس جس قفقازی لڑکی کو تلاش کر رہی ہے، میں اس سے شادی کرکے اسے اپنے وطن لے جانے کے لیے تیار ہوں تاکہ اسے( پولیس کے چنگل) سے بچا سکوں۔بس آپ مجھے یہ بتا دیں کہ وہ لڑکی کون ہے؟ کیا آپ اس کی اور اس کے اہل خانہ کی تصدیق کرتے ہیں؟‘‘پھر انھوں نے میرے بھائی سے کہا:’’میں نے تم سب کی تصدیق کر دی ہے۔ اس نوجوان کے بارے میںتحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ باشرع اور اسلامی ذہن کا نوجوان ہے ، اس کی زندگی کسی بھی قسم کے غبار سے پاک ہے۔ تمھاری کیا رائے ہے؟‘‘ میرے بھائی میرے کمرے میں آئے تو ان کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو رہا تھااور وہ کہہ رہے تھے کہ تم اس نوجوان کو کیسے جانتی ہو؟ اس کو تمھارے بارے میں کیسے معلوم ہوا؟ میں نے قسم کھا کر انھیں یقین دلایا کہ میں اپنے عہد پر قائم ہوں، اور اس نوجوان اور میرے درمیان کبھی کوئی رابطہ نہیں ہواہے۔البتہ میں نے ان دونوں عرب لڑکیوں کا ذکر کیا کہ وہ دونوں آپس میں باتیں کیا کرتی تھیں کہ وہ لڑکا کسی عرب ملک کا رہنے والا ہے، باشرع ہے، صاف ستھرے کردار کا مالک ہے۔میں نے بھائی سے کہا کہ وہ یہ ساری باتیں شیخ کے سامنے کہیں۔ شیخ نے میری کہی ہوئی تمام باتوں کی تائید کی اور یہ بتایا کہ نوجوان نے لڑکی کی(یعنی میری) صرف تصویر دیکھی ہے۔ میرے بھائی نے اس معاملے میں غور وفکر کے لیے مہلت چاہی۔ شیخ نے انھیں سمجھایا کہ اسلام میں نسل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔پھر بھائی نے میری رائے طلب کی۔ میں غور وفکر کرتی رہی اور استخارے کا جو طریقہ میں نے سیکھا تھا ، وہ بھی کیا۔بالآخر میں نے ا س عرب نوجوان سے شادی کا فیصلہ کر لیا ۔ میری شادی پر ہر شخص حیرت زدہ تھا، کیوں کہ ہمارے یہاں شادیاں صرف آپس میں ہی کی جاتی ہیں۔

روس سے باہر قدم

اپنے شوہر کے ساتھ جب میںان کے وطن گئی تو پہلی بار میں نے روس سے باہر قدم رکھا تھا۔ شادی کے ابتدائی دنوں میں مجھے بہت پریشانیاں اٹھانی پڑیں۔ کیوں کہ میرے شوہر کے اہل خانہ ،اور ہم سب ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔انتہائی سخت گرمی میں بھی سارا دن مجھے پردہ کرکے  رہنا پڑتا تھا کیوں کہ گھر کے اندر شوہر کے ایک بڑے بھائی بھی رہتے تھے۔ اس کی وجہ سے میرے جسم پر گرمی دانے نکل آئے۔ غسل خانہ بھی ڈرائونے قسم کا تھا۔ میں جس طرح کے مطبخ (کچن)کی عادی تھی، اس کے حساب سے یہاں کا مطبخ بھی تکلیف دہ تھا۔دراصل میرے شوہراور ان کے گھر والے ایک معمولی سے گائوں کے اندرچھوٹے سے مکان میں رہتے تھے۔ دن بھر تھکا دینے والا کام کرنے کے بعد مجھے اپنی ساس کا ہاتھ بھی بٹانا پڑتا تھا۔ میں گھر کی چھت پرجاکر رویا کرتی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی۔ کیوں کہ میں نے اپنا ملک ، اپنا وطن اسی کے لیے چھوڑا تھا۔اللہ

کی ذات بڑی پاک اور اعلی ہے کہ یہ تکلیف دہ ایام بڑی تیزی سے گزر گئے اور میرے لیے ایک گھر الگ سے خاص ہو گیا جس میں گھر کی تمام ضروریات کا سامان موجود تھا۔اللہ نے اپنے رزق کے دروازے بھی کھول دیے۔ اس کے بعد ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کا زوال ہو گیا تو میں روس واپس آگئی اور اپنی تعلیم مکمل کی۔ اللہ کی مدد و نصرت کے طفیل ہر چیز مجھے میسر ہوگئی ہے۔ میرے سسرالی  وطن میں روسی نسل کے جو مسلمان رہتے ہیں ، میں ہر ہفتے ان سے ملاقات کرتی ہوں اور اسلام کی جن تعلیمات سے وہ ناواقف ہیں ، انھیں سکھاتی ہوں۔اپنی روداد سنانے کے بعد اس نے میری طرف دیکھا اور کہا:’’ میں نے سوچا کہ محبت ومودت کے جذبے کے ساتھ آپ کو اپنی داستان سنائوں۔ ‘‘ اب میری باری تھی کہ میں اس سے اس بات کی اجازت لوں کہ قفقاز کی پہاڑیوں کے دامن میں رہنے والے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی یہ داستان آپ لوگوں کو سنائوں۔ شاید اس طرح ہم قریب سے جان سکیں گے کہ اپنے دین کو جاننے کے لیے وہ کیا کیا تکلیفیں جھیل رہے ہیں اور اس راہ میں ان کے ساتھ کیا مشکلات پیش آرہی ہیں۔اللہ کرے ان کی کوششیں بار آور ہوں اور آخرت میں انھیں اس کا بہترین اجر نصیب ہو۔ (المجتمع، اپریل ۲۰۱۴ء)

مشمولہ: شمارہ جون 2014

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau