نظریہ ارتقا :رد و قبول اور متبادل امکانات

(انواع اور انواع پذیری) (4)

ڈاکٹر محمد رضوان

ان سطور سے قبل حیاتیاتی سالمات سے ابتدائی خلیے کے ظہور کا تذکرہ آچکا ہے۔

تصور ارتقا اور نظریہ ارتقا دونوں میں یہ بیانیہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ حیات کا ڈاروینی تصور اس بات کا متقاضی ہے کہ حیات وہی ہے جو ڈاروینی ارتقا کرسکے۔ ایک بار اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ حیات کا تصور ڈاروینی ارتقا ہی کا رہین منت ہے تو بعد کے مراحل کی توجیہ آسان ہوجاتی ہے۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا جاچکا کہ حیات کا ارتقائی تصوربجائے خود بحث طلب ہے، اور حیات کے کئی متبادل بیانیوں سے سائنسی لٹریچر بھرا پڑاہے۔

خود حیات کے فلسفیانہ اور سائنسی نقطہ نظر خاصے معقول نظر آتے ہیں، ایسے میں ارتقائی تصور حیات کو بجائے خود کئی چیلنج درپیش ہیں۔ پھر بھی محققین کی ایک قابل لحاظ تعداد حیات کی اس ڈاروینی تعریف ہی کو راجح قرار دیتی ہے۔

اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ غالباً سب سے بڑی وجہ زندگی کی تعریف میں غیر محسوسات کا دخل ہے۔ جس زمانے میں ڈارون نے ارتقائی تصورات کو پیش کیا تھا، اس وقت میکانکی نظریہ حیات کے تصورات عوامی تخیل کا لاینفک حصہ تھے، لہذا ان کی اپیل زیادہ تھی۔ پھر بعد کے زمانے میں اگرچہ حیات کی تعریف کے بہت سے بیانیے تو وجود میں آئے، لیکن اس کے باوجود حیات کے ارتقائی تصور کو سائنسی حلقوں میں قبول حاصل ہوتا چلا گیا۔

البتہ اگر اب بھی زندگی اور اس کے مشمولات پر سنجیدہ مباحث کو دیکھا جائے تو وہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

خود نظریہ ارتقا میں حیات کے سادہ سے پیچیدہ ہونے کے اس بیانیے پر قابل لحاظ تنقیدیں موجود ہیں۔ اسی طرح حیات کے سادہ سے پیچیدہ ہونے کے اس بیانیے کا سب سے اہم نکتہ انواع کے ظہور کا ہے۔ پرلطف بات یہ ہے کہ سائنسی حلقوں میں انواع کی تعریف ہی پر اتفاق نہیں ۔ اور یہ اختلاف محض فروعی نوعیت کا نہیں ہے، بلکہ اصولی اور جوہری نوعیت کا بھی ہے۔ البتہ جس بات پر اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ ہر جان دار دوسرے جان دار سے جدا اور مختلف ہے، لیکن اس اختلاف کے باوجود ان میں خلیاتی سطح پر یکسانیت ہے۔

اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈارون کا تمام تر نظریہ ارتقاے انواع اور اس کے ظہور سے بحث کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ نوع کسے کہتے ہیں؟ کیوں کہ ڈارون کی مشہور زمانہ کتاب بنیادی طور پر انواع کے ظہور ہی سے متعلق ہے۔

ابتدا میں انواع کو ظاہری خصوصیات کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا تھا۔ بعد کے دور میں یہ تصور تبدیل ہونے لگا۔ اور موجودہ حالت یہ ہے کہ انواع کے پورے تصور ہی پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ انواع کے پورے تصور پر غیرمعمولی بحث وتمحیص ہونے کے باوجود اس تصور سے ہٹ کر کوئی نیا تصورِانواع سائنسی حلقوں میں پیش نہ کیا جاسکا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجوہ پر بھی سائنسی لٹریچر میں کوئی بات نہیں ملتی، بلکہ انواع کے اسی تصور کی تعبیرِ نو (ری انٹرپریٹیشن) تشکیل دی گئی، اور اسی سے کام چلایا جاتا رہا ہے۔

اب جدید حیاتیاتی ماہرین دو خیموں میں بٹنے لگے ہیں۔ ایک خیمہ کہتا ہے کہ ڈارون کا تصورِ نوع ناقص تھا اور موجودہ جینیاتی سائنس یکسر دوسرے قسم کے تصورِ نوع کی محتاج ہے۔ جدید تحقیقات اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ تصورِ نوع پر یکسر نئے سرے سے غورو فکر ہو، اور تصور ِارتقا میں اس کا مقام از سرِ نو متعین کیا جائے۔ واضح رہے کہ یہ خیمہ ڈارون کے تصور ِارتقا کے خلاف نہیں بلکہ اس کی یہ رائے انواع کے ظہور کے سلسلے میں ہے۔ اس کا اختلاف یہ ہے کہ انواع کیا ہے؟ ایک نوع سے دوسرے نوع میں فرق کن بنیادوں پر کیا جائے گا؟ نوع کی جدا جدا خصوصیات کے ظہور میں آنے کی کیا وجوہ ہیں؟ نوع میں پیچید گی کی وجوہ کیا ہیں؟ کیا محض جغرافیائی علیحدگی انواع میں مختلف صفات کے ظہور کا باعث ہے، یا دیگر عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں؟

تخلیق کے قائلین ان محققین کے اختلافات کو یوں پیش کرتے ہیںگویا یہ محققین تصور ارتقا کے مخالف ہوں اور مسلکِ تخلیق کے قائل ہو رہے ہوں، جبکہ حقیقت اس کے مغائر ہے۔ یہ محققین فطری انتخاب کو انواع کے ظہور میں آنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور تصورِ نوع اور اس کے ظہور میں آنے کے نسبتاً متبادل طریقوں پر بحث کرتے ہیں، جو کہ پورے تصورِ ارتقا کا کلیدی نکتہ ہے۔ جبکہ تخلیق کے قائلین کہتے ہیں کہ انواع بیک وقت وجود میں آئیں نہ کہ تدریج کے ساتھ۔

تخلیق کے عیسائی مویدین انواع کے بیک وقت وجود میں آنے والابیانیہ اختیار کرنے پر مجبوربھی ہیں، کیوں کہ بائبل کے تخلیقی بیانیے کی تطبیق اسی سے ہوسکتی ہے۔ بائبل میں تخلیق کے باب میں واضح طور پر لکھا ہے خدا نے مخصوص ایام میں مخصوص جان دار پیدا کیے۔

جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا کہ انواع کے تصور پر خود ڈارون کے زمانے ہی میں بحث شروع ہو چکی تھی(1)۔ ڈارون کے انواع کے تصور پر سب سے بڑا سوال ابتدائی دور میں جینیاتی سائنس کی ترقی نے لگایا اور اس کاسہرا تھیوڈوسیس ڈوب زینسکی (Theodosius Dobzhansky )کے سر ہے۔ یہ ایک روسی امریکی سائنس دان تھے اور ارتقائی حیاتیات کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ ان کے بقول فطری انتخاب کے ذریعے بہتر خصوصیات والے جان دار کا باقی رہ جانا ہر بار ممکن نہیں ہوتا بلکہ وہ جین جو بہتر خصوصیات کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں ان میں کمی بیشی بہت سے دیگر عوامل کے ذریعے بھی ہوتی ہے۔ انھوں نے پھول مکھی پر تجربہ کر کے ثابت کیا کہ ڈارون کے تصورِ نوع اور انواع کے ظہور میں آنے کے طریقے پر دوسرے عوامل بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں جو ہر وقت فطری انتخاب کے فریم میں فٹ ہوتے ہیں۔ مثلاً پھول مکھی میں موسم کے اعتبار سے جین میں تبدیلی ہوتی ہے، یہ تبدیلی بہت تیز رفتار ہوتی ہے۔ جبکہ ڈارون کے مطابق یہ تبدیلی بہت سست رفتار ہونی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ اس طرح کی تبدیلی ہر بار فٹنس کے اعتبار سے بہتری لائے ایسا ضروری نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ پھول مکھی جس میں مختلف جین تھے وہ افزائش نسل کے لیے بہتر ثابت ہوئی۔(2)

واضح رہے کہ ڈوب زینسکی فطری انتخاب کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ فطری انتخاب کی بنیادوں میں متبادلات کی وکالت کرتے ہیں۔ تاہم یہ وکالت ڈارون کے نظریہ ارتقا میں، خاص طور پر فطری انتخاب بذریعہ جینیاتی مادے میں تبدیلی کے بنیادی اصولوں میں، ایک نئی جہت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ حالانکہ سائنسی دنیا میں ان کے اس کارنامے کو وہ جگہ نہیں ملی جس کا یہ مستحق تھا، کیوں کہ جدید ڈاروینی سائنس دان ڈاروینی انواع پذیری (speciation)کے فریم سے باہر دیکھنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ البتہ اس نقطہ نظر نے محققین کے ایک نئے خیمے کو جنم دیا ہے جو انواع پذیری کے متبادل تصورات پر یقین رکھتا ہے. چار دہائیوں سے انواع کی جینیاتی تعریف پر زور دیا جانے لگا ہے۔(3)  یہ تعریف جینیاتی بنیادوں پر جان داروں کی تقسیم کرتی ہے۔ موجودہ حالات میں انواع کی تعریف، اس کے ظہور اور اس سے جڑے تصورات نے ایک دائرہ مکمل کرلیا ہے۔ اس کے باوجود سائنسی محققین ابھی تک مکمل طور پر انواع کے ظہور پذیر ہونے میں پائے جانے والے معلوماتی خلا کو پوری طرح پرُ نہیں کرپائے ہیں۔ مثلا ڈارون سے قبل انواع کو مختلف انداز سے درجہ بند کیا جاتا تھا۔ زیادہ تر انواع کو ظاہری خصوصیات کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا تھا۔ ڈارون نے اس باب میں قیمتی اضافہ کیا اور کچھ اضافی خصوصیات کو شامل کیا جو ماحول سے مطابقت پذیری کرنے کی وجہ سے جان داروں میں آجاتی ہیں۔ ڈارون نے بتایا کہ یہ خصوصیات جان داروں میں اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب وہ کسی بھی طبیعی وجوہ سے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ جغرافیائی حدود کی وجہ سے جان داروں میں جو علیحدگی پیدا ہوتی ہے، اس کی وجہ سے جان داروں میں نوعی اختلاف پیدا ہوتا چلاجاتا ہے، اور ان میں اپنی اولین نوع سے افزائش نسل کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جاتی ہے۔ اس طریقے سے نئی انواع وجود میں آتی ہیں۔

انیسویں صدی تک آتے آتے اس بات کے ثبوت بھی آنے لگے کہ جغرافیائی علیحدگی کے باعث جو انواع مختلف ہوجاتی ہیں وہ بھی اپنی اولین نسل سے افزائش نسل کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ انواع کے تصور میں یہ ایک بنیادی تبدیلی ہے۔

اصل مسئلہ خورد بینی جان دار جیسے بیکٹیریا کی انواع پذیری کے سلسلے میں پیش آیا۔ خوردبینی جان داروں میں انواع پذیری کی توجیہ کلاسیکل ڈاروینی تصورسے کرنا ناممکن ہے کیوں کہ یہاں انواع پذیری کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔

خورد بینی جان دار میں جینیاتی مادے میں تبدیلی تیزی سے ہوتی ہے۔ کیوں کہ ان کا افزائش نسل کا وقت بہت کم ہوتا ہے۔ مثلا ای کولائے نامی بیکٹریا محض سولہ منٹ میں اپنا حیاتیاتی دور مکمل کر کے نقل سازی کو انجام دے دیتا ہے، اور کئی نسلوں کے بعد میوٹیشن کی وجہ سے اس میں تبدیلی آنے لگتی ہے۔

چنانچہ یہ مانا گیا کہ جن بیکٹیریا میں30 فیصد جین یکساں ہوں گے، وہ آپس میں ایک ہی نوع میں رکھے جائیں گے۔ حالاںکہ خوردبینی جان داروں میں انواع پذیری ایک دوسری ہی جہت کی متقاضی تھیں۔

خورد بینی جان دار جیسے بیکٹیریا کی انواع پذیری کے سلسلے اور ایک دوسری بڑی جہت دور دراز کے خوردبینی جان دار میں جینیاتی لین دین ہے۔ اسے انگریزی میں ہوری زونٹل جین ٹرانسفر [افقی جینی انتقال] کہا جاتا۔ اس کی وجہ سے بنیادی انواع پذیری کے تصور پر زد پڑتی ہے۔ کیوں کہ تصورانواع کے اعتبار سے بہت دور کے جان دار ایک دوسرے سے جینیاتی مادے کا تبادلہ نہیں کرسکتے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ بیکٹریا سے لے کر پیڑ پودے اور تمام جان دار ہلکے سے فرق کے ساتھ ایک ہی جینیاتی مادے ڈی این اے سے مل کر بنے ہیں۔ تمام جان داروں میں کچھ جین ایسے ہیں، جو بیکٹیریا سے لے کر انسانوں تک میں ایک جیسے ہیں۔ بالفاظ دیگر بظاہر مختلف نظرآنے والی حیات کا ہر مظہر اپنے اندر ایک خاص یکسانیت رکھتا ہے! تو کیا انواع کا تصور ہی ازکار رفتہ ہے؟ کیا فی الواقع انواع محض جینیاتی ترتیب کے اختلاف سے وجود میں آئے ہیں؟ کیا محض جینیاتی ترتیب ہی اختلاف کی ضامن ہے یا کوئی دوسرے عوامل بھی ہیں؟ اب جدید تحقیقات جین سے آگے بڑھ کر ان کے طریقہ ظہورپر ٹک گئی ہیں۔ یعنی ایک جین، ایک پروٹین اورایک خاصیت سے، ایک جین، کئی پروٹین اور ایک خاصیت، سے ہوتے ہوئے کئی جین، کئی پروٹین اور ایک یا کئی خاصیتوں پر مبنی ایک نیا بیانیہ سامنے آرہا ہے۔ یعنی جین گو کہ تمام خصائص کو کنٹرول کرتے ہیں، لیکن جین کے ایکسپریشن کو کون سے عوامل کنٹرول کرتے ہیں؟ یہ عوامل داخلی وخارجی تو ہیں لیکن کتنے ہیں؟ کون سے ہیں؟ کیوں ہیں؟ کیسے تبدیلی لاتے ہیں؟ ایسے ہزاروں سوالات انواع پذیری اور اس سے جڑی ظاہری خاصیتوں پر ہو رہے ہیں۔

ظاہری خاصیتوں کی بنیاد پر ماضی میں اورجینیاتی خاصیتوں کی بنیاد پر حال میں انواع کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ مندرجہ بالانکات سے ثابت ہوتا ہے کہ انواع پذیری کا پورا تصور اپنا دائرہ مکمل کرچکا ہے۔ یعنی ظاہر سے باطن تک۔ لیکن تصور انواع ابھی تک تشنہ طلب ہے۔ اس کے علاوہ جدید تحقیقات انواع پذیری اور اس کے تصور میں نئے باب کا اضافہ کر رہی ہیں۔ مثلا حال ہی میں ۱۲ جنوری۲۰۱۸ میں موقر جریدے سائنس میں ایک معرکہ آرا تحقیق شائع ہوئی ہے (4)۔ جس میں انواع پذیری کے واقع ہونے کے یکسر نئے اور مختلف طریقے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہاں انواع پذیری کا طریقہ کلاسیکل ڈارون انواع پذیری کے طریقے سے مختلف ہے۔ اور یہ فنچس کے مشاہدے کی بنیاد پر کیا گیا۔ ملحوظ رہے کہ ڈارون نے بھی اپنے تصور انواع کی بنیاد اسی پرندے کے مشاہدے پر رکھی تھی۔ یہ گیلاپوس کہلاتے ہیں کیوں کہ یہ جزیرہ گیلا پوگاس میں پائے جاتے ہیں۔ ڈارون نے اپنے مشہور زمانہ بحری سفر میں انہیں جزیروں پر وقت گزارا تھا، اور یہیں سے اس نے اپنے مشاہدے اور قیاس آرائیوں کے ذریعے ایک طویل عرصے کے غوروفکر کے بعد انواع کے ظہور کا تصور پیش کیا تھا۔ اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جغرافیائی حدود سے علیحدہ شدہ انواع میں افزائش نسل کے ذریعےنئی انواع کا ظہور ہوا اور یہ انواع نہ صرف باقی رہیں بلکہ انھوں نے مزید افزائش نسل بھی کی۔ آسان لفظوں میں اس کا خلاصہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔

ڈاروینیت کا تصور

1۔ انواع پذیری کے مطابق اگر جغرافیائی علیحدگی ہوتی ہے تو دو مختلف انواع میں تولید کا عمل انجام نہیں پاسکتا۔ جبکہ مذکورہ تحقیق میں دکھایا گیا کہ ایسا ہوا۔

2 ۔ نئی انواع کے وجود کے لیے سیکڑوں ہزاروں سال لگ سکتے ہیں۔ بالفاظ دیگر سیکڑوں نسلیں لگ سکتی ہیں۔ لیکن اس معاملے میں صرف تین نسلوں میں نئی انواع تشکیل پاگئیں۔

3 ۔ تولیدی علیحدگی ( کچھ عرصے بعد اپنی ہی جیسی نظر آنے والی نسلوں سے عملی طور تولیدی عمل کرنے کی عدم اہلیت) کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ مذکورہ معاملے میں یہ عرصہ محض 31 سال تھا۔

تو کیا انواع مختصرعرصے میں بھی وجود پاسکتی ہیں؟ کیا مختصر عرصے میں مختلف انواع ایک ساتھ ظہور پذیر ہوسکتی ہیں؟ یہاں یہ تذکرہ بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ تخلیق کے قائلین نے اس تحقیق کو ہاتھوں ہاتھ لیا کیوں کہ بائبل کے تخلیقی بیانیے میں وقت محدود ہے۔ یعنی خدا نے تمام انواع کو بیک وقت ایک محدود وقت میں پیدا کیا، جبکہ کلاسیکل ڈاروینیت کی رو سے انواع کے ظہور میں طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اسی طرح ہدایت دادہ ارتقا (directed evolution)کے قائلین کے لیے بھی یہ تحقیق اہم ہے کیوںکہ وقت کے تناظر میں یہ تحقیق بالکل ایک نئی جہت سامنے لا رہی ہے۔

انواع ہی کے تصور کی بنیاد پر مشہور زمانہ ٹری آف لائف (شجرۂ حیات) بنایا گیا تھا، جو بنیادی طور پر نظریہ ارتقا کے ذریعے تمام جان داروں کے وجود میں آنے کو اور جان داروں کے ایک مشترک مصدر کو دکھاتا ہے۔ اس شجرے کو ڈارون نے اپنے تصور انواع پذیری اور ماضی کے محققین کے مشاہدہ کو سامنے رکھ کر بنایا تھا۔(5)  اس سے قبل محقق بیپٹسٹ لیمارک نے حیوانات کے لیے اس طرح کا شجرہ بنایا تھا ۔(6)

یہ شجرہ دراصل زمانی ترتیب کے اعتبار سے مختلف انواع کی پوزیشن ظاہر کرتاہے۔ اس کو بڑی شہرت ملی۔ لیکن جدید جینیاتی سائنس کی ایک شاخ مالیکیولرفائیلوجینیٹکس [سالماتی نوعی شجرۂ ارتقا ]کے اعتبار سے دیکھا جائے، تو اب شجرۂ حیات کو از کار رفتہ کہا جاسکتا ہے۔

اس کی اضافیت کو درج ذیل اعداد وشمار سے محسوس کیجیے۔ یونیورسٹی آف اوسلو کے ایک محقق نے مکڑیوں کا فائیلوجینیٹکس شجرہ بنایا ۔ اندازاً مکڑیوں کی پینتالیس ہزار انواع ہیں۔ اس محقق نے اس میں سے صرف نو سو بتیس انواع کا ڈی این اے لے کران پر تجربات کیے، اور ان انواع میں آپسی ارتقائی تعلق کو دکھانے کی کوشش کی۔اس نے لکھا ہے کہ ارتقائی اعتبار سے انواع جال کی طرح ہیں نا کہ شجرے کی طرح۔ یعنی انواع بتدریج ایک کے بعد ایک بھی وجود میں آسکتی ہیں اور ایک جال کی طرح بھی کئی جگہ بیک وقت ظہور پذیر ہوسکتی ہیں۔

اب ذرا تصور کیجیے، مکڑی صرف ایک کیڑا ہے۔ کیڑوں کی لاکھوں اقسام پائی جاتی ہیں، کروڑوں قسم کے پودے ہیں، کروڑہا قسم کے جان دار ہیں، اربوں اقسام کے بیکٹیریا ہیں۔ ہر قسم کی ہزاروں اور لاکھوں انواع موجود ہیں۔ اس قدر حیرت ناک تنوع ہے کہ غالباً سپر کمپیوٹر بھی اس تنوع کو کمپیوٹ نہ کرسکے۔چنانچہ جدید محققین انواع پذیری اور اس سے جڑے شجرے کو اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ لیکن درسی کتب میں اٹھاکر دیکھیں تو یہ اس طرح پڑھائے جاتے ہیں گویا سب کچھ پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے۔ (‘‘شجرہ ٔحیات کو دیکھیے جو زمانی ترتیب کے لحاظ سے حیات کے مختلف مدارج کو دکھاتا ہے۔ مثلاً یک خلوی جان دار کی شاخ، کثیر خلوی جان دار کی شاخ، پودوں کی شاخ، جانوروں کی شاخ وغیرہ وغیرہ’’)

انواع پذیری اور اس سے جڑے تصور یعنی فطری انتخاب کے سلسلے میں ایک نئی جہت اور نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ آغازاس سائنس کے حوالے سے ہے جو ‘ایپی جینیٹکس’ [برتولیدیات] سے موسوم ہے۔ سادہ لفظوں میں ‘برتولیدیات’ بنیادی طور پر سائنس کی وہ شاخ ہے جو اس بات سے بحث کرتی ہے کہ ہر جان دار میں موجود وراثتی مادہ کب، کیسے اور کیوں ظہور پذیر ہوگا؟ یہ وراثتی مادہ یعنی ڈی این اے وہ سالمہ ہے جو جین سے مل کر بنتا ہے، اور جین مختلف ماحول کے عوامل کے ساتھ مل کر ہر جان دار کے ظاہری اور داخلی خصوصیات کو متعین کرتے ہیں۔ یہی خصوصیات ہر جان دار کو ایک دوسرے سے مختلف بناتی ہیں۔ انھی بنیادوں پرانواع پذیری کے مختلف تصورات قائم ہیں۔

یاد رہے کہ نظریہ ارتقا کا مرکزی خیال یہ ہے کہ فطری انتخاب سب سے بہتر جان دار کو چنتا ہے۔ صرف وہی جان دار ماحول میں باقی رہ پاتے ہیں جو اپنے حریفوں سے بہتر ہوں اور تنازع للبقاء کی جدوجہد میں کامیاب ہوں۔ جان دار کی خصوصیات میں بہتری تغیر پذیری (میوٹیشن) کے ذریعے انجام پاتی ہے۔

اب جینیات اس بات پر روشنی ڈال رہی ہے کہ محض جینیاتی مادہ اہم نہیں ہے اور بہتری کے لیے جینیاتی مادے میں میوٹیشن ہی سب کچھ نہیں بلکہ وہ سارے عوامل جو جینیاتی مادے کے ظہورپذیر ہونے میں مددگار ہوتے ہیں وہ بھی اہم ہیں۔(7)  یہ عوامل ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ جینیاتی مادہ کیسے ظہور پذیر ہوگا اور نوع کی ظاہری خاصیت کیسے ہوگی؟ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ محض پہلی نسل تک منتقل نہیں ہوتے بلکہ ان کے اثرات کئی نسلوں تک باقی رہ جاتے ہیں۔ تو کیا محض فطری انتخاب نئی انواع کو جنم نہیں دیتا؟ کیا فطری انتخاب کے علاوہ برتولیدی (epigenetical) تبدیلیاں بھی انواع کو تشکیل دیتی ہیں؟ کئی نسلوں کی خاصیتوں پر اثرانداز ہونے والی برتولیدی تبدیلیاں کیا فطری انتخاب اور جدید ڈاروینی بیانیے میں اضافہ کر رہی ہیں، یا یہ ایک نئے بیانیے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں؟ نسل در نسل بہتری کے ذریعے نئی انواع وجود میں آتی ہیں، لیکن برتولیدیات کے اثرات کئی نسلوں پر اثرانداز ہورہے ہیں۔ تو کیا یہ اثرات جو کئی نسلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں ایک خاص سمت میں ارتقا کو لے جانے کا مظہر ہیں؟ لیکن تصور ارتقا کا ایک بنیادی نکتہ یہ بھی ہے کہ ارتقا غیر سمتی ہے۔ تصور ارتقا بہتری کا تذکرہ بھی ماحول کے تناظر میں کرتا ہے۔ یہ بہتری مجرد معنوں میں بہتری نہیں ہے۔ تو کیا برتولیدیات کے میدان میں ہونے والی تحقیق کی بنیاد پر انواع کے ظہور کا متبادل نظریہ پیش کیا جاسکتا ہے؟

ہیریڈیٹی (Heredity ) نامی موقر جریدے کے اداریے میں اس میدان کے بڑے ماہرین نے برتولیدیات اور ارتقا کے حوالے سے درج ذیل عبارت رقم کی ہے۔ اسے من وعن پیش کرنا بے جا نہ ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں:

‘‘برتولیدی تبدیلیاں نہ صرف بہت عام ہیں، بلکہ یہ ارتقا کی کئی جہتوں کو تبدیل کرسکتی ہیں یا انہیں متاثر کرسکتی ہیں۔ یہ بات ان برتولیدی تبدیلیوں کے لیے بھی درست ہے جو ایک نسل میں ابھرتی ہیں اور ان کے لیے بھی جو نسل در نسل چلتی ہیں۔ نیز برتولیدی توارث ارتقا کی بہت سی جہتوں کو زبردست انداز میں متاثر کر سکتا ہے۔’’ (8)

مندرجہ بالااقتباس اس بات کو واضح کرتا ہے کہ برتولیدیات کے حوالے سے مستقبل قریب میں ارتقا، تصور ارتقا اور نظریہ ارتقا پر بہت سے نئے زاویے سننے ، پڑھنے اور دیکھنے کو ملیں گے۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس ضمن میں مزید پیش رفت نہ ہوسکےکیوں کہ محققین تصور ارتقا کے حوالے سے ایک فریم میں قید ہوچکے ہیں۔ اس کی متعدد مثالیں پچھلے مضامین میں گزر چکی ہیں کہ کس طرح یہ محققین سائنسی دنیا میں ہونے والی تحقیقات کو ایک مخصوص ڈاروینی ارتقائی فریم میں قید کرتے چلے گئے۔ وہ ڈوب زینسکی کےاس مقولے پر جی جان سے ایمان رکھتے ہیں کہ‘‘Nothing in biology makes sense without evolution’’ ‘علم حیاتیات میں ارتقا کے بغیر کسی چیز کی توجیہ ممکن نہیں۔’

حالانکہ بنیادی طور پر سائنس ہرقسم کے فریم ورک کو ٹھکراتی ہے اور مشاہدہ، ڈیٹا، تجربہ، استنباط اور استخراج کو غیر جانب دار (value-neutral) رکھنے کی بات کرتی ہے۔

لیکن اس کے باوجود علم حیاتیات میں نمو پذیر ہر تبدیلی اور ہر نئی جہت کے استنباط واستخراج کی توجیہ وتشریح ارتقائی تصور کے دائرے میں رہ کر کرتی ہے۔

مندرجہ بالا بیانیے کوبرتولیدیات کی مثال کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔

تصور ارتقا کے مطابق ہر نسل میں کچھ بہتر خصوصیات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنی پیش رو نسلوں کے مقابلے میں ماحول سے بہتر مطابقت پذیری کرتی ہے۔ یہ بہتر مطابقت پذیری جب نسل در نسل چلتی ہے تو نئی انواع کا وجود ظہور میں آتا ہے اور حیات سادگی سے پیچیدگی کی طرف پیش رفت کرتی ہے۔ اب برتولیدیات کے میدان میں ہونے والی تحقیق یہ دکھا رہی ہے کہ معاملہ صرف ایک نسل کا نہیں ہےبلکہ برتولیدی تبدیلی کئی نسلوں کو محیط ہوتی ہے۔ ایک نسل جس ماحول میں رہ رہی ہے ہوسکتا ہے دوسری نسل کسی دوسرے ماحول کا سامنا کرے۔ تو یہ تبدیلیاں اس جان دار کے کسی کام کی نہیں رہ جائیں گی کیوں کہ یہ ایک مخصوص ماحول تک ہی مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کریں گی۔

اس کی ایک غیر ڈاروینی توجیہ یہ ہوسکتی ہے کہ کیا برتولیدی تبدیلیاں کسی خاص سمت میں جان دار کے بہتر ہونے کا اظہار ہیں، یعنی کیا انواع کو کسی خاص نہج تک پہنچنا ہے؟ کیا انواع کے جینیاتی مادے میں کچھ خاص منہج ہے؟

اس کے برعکس برتولیدی تبدیلیوں کی دوسری اور آسان توجیہ یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں ایک نسل کے لیے بہتر ہوتی ہیں، پھر اگر ماحول سے مطابقت پذیری کے لیے دوسری نسل میں ضروری ہوا تو باقی رہیں گی، بصورت دیگر فنا ہوجائیں گی اور یہی تصور ارتقا کے لحاظ سے اس کی توجیہ ہوئی۔(9)

اول الذکر منظرنامہ ایک نئی جہت کا آغاز ہے، اس میں انواع پذیری کے سلسلے میں بالکل نئے تصورات تشکیل دیے جاسکتے ہیں، اور ثانی الذکر ارتقائی فریم میں برتولیدیات کے میدان میں جاری تحقیق کی محض ایک تعبیر نو ہے۔

اور بعینہ یہی ہورہا ہے، کیوں کہ یہ آسان ہے۔ تفصیلات کے لیے دیکھیے (10)

اول الذکر منظرنامہ کے لیے زبردست عبقریت درکار ہے، جبکہ سائنسی حلقوں میں عقیدے کی حیثیت حاصل کرچکے ارتقائی تصورات کو چیلنج کرنا بہرحال ایک مشکل کام ہے۔ اسی لیے گو کہ انواع، انواع پذیری، فطری انتخاب، تنازع للبقاء وغیرہ اصطلاحیں، جو ارتقائی تصور کی ستون مانی جاتی ہیں، ان میں خاصی جوہری تبدیلیوں کے باوجود ڈاروینیت ایک سائنسی مذہب کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ ہرچند کہ اب بعض حلقوں سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ اسے ڈاورینیت کہنے کے بجائے تصور ارتقا تک محدود رکھنا چاہیے، اور انسانی ارتقا، انواع کے ظہور وغیرہ پر از سر نو نئی بحثوں کا آغاز ہونا چاہیے جن کا لازمی مقصد ان تصورات کی نفی نہ ہو بلکہ جدید تحقیق کی روشنی میں رونما ہونے والی بنیادی اور ہیئتی تبدیلیوں کو اساس بنا کر تنوع کے ظہور اور ان کی پیچیدگی پر گفتگو ہونی چاہیے۔    (جاری )

حوالے:

  1. Mayr E. (1942) :Systematics and the Origin of Species, Columbia University Press, New York.
  2. Ibid
  3. Why we need a new genetic species concept (1989); Masters .J.C and Spencer H. G; Sys. Zool. So (3) 270-275.
  4. Rapid hybrid speciation in Darwin‘s finches; Sangeet Lamichaney, Fan han, Mathew T, Science .Vol 359 , 6372 ; 224-228
  5. Drawin. C. (1859) Four natural selection or the surevival of the fittest London .John Murray p. 129.
  6. Lamarck ,J. B. P. A (1809). Philosophie Zoolojique….(in French ). Vol. 2. Pg. 463 , Paris, France.
  7. www. phys.org, retrieved 04/01/2019
  8. Evolutionary consequences of epigenetic inheritance :Martin I Lind , Foteini spagopoulou, Heredity (2018), 121, 205-209
  9. Ibid

10 . Zhang Y Y et al ; (2018) , Understanding the evolutionary potential of epigenetic variation: A comparision of heritable Phenotypic variation in epi RILs, RILs and natural ecotypes of Arabdopsis thaliana; Heredity 121, 205-209.

مشمولہ: شمارہ فروری 2020

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau