روحانیت کی تیسری منزل

روح کی فرحت

اس دنیا میں جسم کی لذّتوں اور مسرّتوں کا انتظام ہمیں ہر طرف نظر آتا ہے۔ کھانے اور پینے کی چیزیں لذّت کام ودہن کا سامان کرتی ہیں۔ خوب صورت نظارے اور پرکیف آوازیں سمع وبصر کو مسرور کرتی ہیں۔ عطر و نسیم کے جھونکے مشام جان کے لیے فرحت بخش ہوتے ہیں۔ انسان کے جسم کی بہت سی خواہشات بہت زیادہ مسرّت بخش طریقے سے پوری ہوتی ہیں۔

ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جسم کی خوشی کا اس قدر انتظام ہے تو پھر روح کی خوشی کا انتظام کیا ہے؟

یہ بات تو یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ رحمان ورحیم رب نے جسم کی مسرّت کا اتنا عمدہ انتظام کیا ہے، تو اس نے روح کی مسرّت کا بہت ساانتظام بھی ضرور رکھا ہوگا اور وہ انتظام جسم کی مسرت سے بھی زیادہ عمدہ ہوگا۔

جسم کی مسرت کا سامان آسانی سے میسر آجاتا ہے، اس کے لیے کسی جستجو کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ جب کہ روح کی مسرت کا سامان جستجو کے بعد حاصل ہوتا ہے۔

انسان کی کم زوری یہ ہے کہ اس کی ساری توجہ جسم کی طرف رہتی ہے، اسی لیے وہ صرف جسم کی لذّت ومسرّت کے اسباب دیکھتا ہے۔ اگر وہ اپنی توجہ روح کی طرف کرے تو اسے روح کی لذّت ومسرّت کے اسباب بھی اپنے قریب ہی نظر آئیں۔

حلاوتیں ہی حلاوتیں

اللہ کے رسول ﷺ کے ارشادات اور بہت سے بزرگوں کے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ حلاوت صرف مادی چیزوں میں نہیں، بلکہ معنوی چیزوں میں بھی ہوتی ہے۔ شیرینی پھلوں ہی میں نہیں ہوتی، ایمان میں بھی ہوتی ہے، تلاوتِ قرآن میں بھی ہوتی ہے، نماز میں بھی ہوتی ہے، ذکر و اعمال میں بھی ہوتی ہے اورصدقہ وخیرات میں بھی ہوتی ہے۔ یہ شیرینی روح کو کیف و نشاط عطا کرتی ہے۔

علم و معرفت کا سفر بھی روح کے لیے بے پناہ مسرّت بخش ہوتا ہے۔ جتنی بڑی حقیقت کی معرفت حاصل ہوتی ہے، روح کو اتنی ہی زیادہ خوشی اور انبساط ہوتا ہے۔ جب کہ جہل کے حجابات روح کو سخت ضیق سے دوچار رکھتے ہیں۔ جہالت کا ایسا اندھیرا کہ روح کو یہ سجھائی نہ دے کہ وہ کہاں سے آئی تھی اور اس کی منزل کہاں ہے، جو عالم بالا سے اس کا رشتہ منقطع کردے، روح کے لیے بے حد اذیت ناک ہوتا ہے۔

دنیا میں بھی روح کی جنت ہے

اگر دنیا کی تمام تر مسرتیں جسم سے وابستہ ہوتیں تو روح کے لیے دنیا کا امتحان بہت سخت ہوجاتا، کیوں کہ کسی کام میں موجود لذت اس کی طرف پیش قدمی کے لیے بڑے مہمیز کا کام کرتی ہے۔ انسان لذت کے حصول کے لیے بڑی بڑی مشقتیں برداشت کرلیتا ہے اور سخت جوکھم اٹھالیتا ہے۔ اگر روحانیت کے سفر میں لذت نہ ہوتی، تو اس کی خاطر مشقتیں اٹھانا آسان نہیں ہوتا۔ بلکہ انسان کا سارا جھکاؤ جسم کی لذتوں کی طرف ہی رہتا۔ مادیت کے اوپر روحانیت کا غلبہ رہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ مادیت میں جتنی لذتیں اور مسرتیں ہوں اس سے کہیں زیادہ لذتیں اور مسرتیں روحانیت میں ہوں۔ روح کی لذتوں سے جن سعید نفوس کو آشنا ہونے کا موقع ملا، وہ بتاتے ہیں کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے روح کے پاس خوشی کا اتنا سامان ہوتا ہے کہ جسم کو ملنے والی خوشیاں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روح کے سامانِ مسرت پر جن خوش نصیبوں کی نظر ہوتی ہے وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لیتے ہیں۔

علامہ ابن تیمیہؒ کہتے تھے: ’’اس دنیا میں ایک جنت ہے، جو اس جنت میں داخل ہوگا وہ آخرت کی جنت میں بھی داخل ہوگا اور جو اس جنت سے محروم ہوا وہ آخرت کی جنت سے بھی محروم ہوجائے گا۔‘‘ (الوابل الصیب)

ایک بزرگ کا کہنا تھا: ’’میرے اوپر ایسے لمحے گزرتے ہیں کہ میں سوچتا ہوں کہ اگر جنت والے اس کیفیت میں ہوں گے تب تو واقعی وہ بہترین عیش وعشرت میں ہوں گے۔‘‘ (الوابل الصیب)

ایک بزرگ کا کہنا تھا: ’’دل پر کچھ ایسی ساعتیں گزرتی ہیں کہ جن میں وہ خوشی سے رقصاں ہوتا ہے۔‘‘ (الوابل الصیب)

خوشی کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک بزرگ کہتے تھے: ’’دنیا دار لوگ بے چارے ہیں، وہ دنیا میں رہ کر چلےجاتے ہیں اور یہاں کی سب سے عمدہ چیز وں کو چکھتے بھی نہیں، اللہ کی محبت، اس کی معرفت، اس کی یاد، اس کی قربت کا احساس اور اس سے ملاقات کا شوق۔‘‘ (الوابل الصیب)

علامہ ابن قیمؒ کہتے ہیں: ’’اللہ کی طرف لپکنا، اس سے لو لگانا، اس سے خوش اور راضی ہونا، دل کو اس کی محبت سے معمور کرلینا، اس کی یاد میں مگن رہنا، اس کی معرفت کے سرور میں رہنا، یہ تو نقد ثواب ہے، جنت ہے اور ایسی عشرت ہے کہ بادشاہوں کی عشرت اس کے آگے کچھ بھی نہیں۔‘‘ (الوابل الصیب)

ابراہیم بن ادہمؒ کہتے تھے: ’’اگر شاہوں اور شہزادوں کو معلوم ہوجائے کہ ہمیں کیسا سرور اور کیسی آسائش حاصل ہے تو وہ بزور تلوار ہم سے چھین لینا چاہیں۔‘‘  (حلیة الأولیاء)

علامہ ابن قیم لکھتے ہیں: ’’حمد ہے رب کریم کے لیے جس نے اپنے بندوں کو ملاقات سے پہلے ہی اپنی جنت کا نظارہ کرادیا۔ دار عمل میں ہی ان کے لیے اس کے دروازے کھول دیے۔ اس کی خوش بو اور نسیم کے جھونکے ان کے پاس آتے ہیں۔ اس سے ان کی قوتیں اس کی طلب اور مسابقت کے لیے بے تاب اور یکسو ہوجاتی ہیں۔‘‘  (الوابل الصیب)

آخرت کی تیاری سے خوشی ملتی ہے

جسم دنیا کی لذتوں کا دل دادہ ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ دنیا کی عشرتوں میں مگن ہوجاتا ہے۔ روح کی منزل آخرت ہے۔ اسےوہاں کی تیاری کے لیے بے تاب رہنا چاہیے۔ دنیا کی لذتیں چھن جانے پر جسم کو تو تکلیف ہوتی ہے، لیکن روح کو اس کا غم زیب نہیں دیتا ہے۔ اگر دنیا کی مشقتیں آخرت کی راحتوں کا انتظام کررہی ہوں تو روح کے لیے یہ خوشی کا مقام ہوتا ہے۔

’’عباس بن مؤمل اپنے وقت کے بزرگ انسان تھے۔ انھوں نے خلیفہ ہارون رشید کو بھلائی کی تلقین کی، اس نے ناراض ہوکر کچھ عرصے کے لیے انھیں قید کردیا۔ وہ کہتے ہیں کہ خواب میں کوئی میرے پاس آیا اور کہا: کتنے ہی ایسےغم کے مارے ہیں، جنھیں قیامت میں ایسی خوشی ملے گی جو دنیا کی ساری غمگینی پر چھاجائے گی۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ کچھ ہی عرصےبعد اللہ نے میری آزمائش کو دور کردیا اور اس قید سے مجھے نکال دیا۔ میرے احباب اور رشتے دار میری رہائی پر خوش ہوئے۔ وہ خواب میں آنے والا گویامجھ سے کہہ رہا تھا: آج جو غم سے دوچار ہیں انھیں خوش خبری سنا دو کہ کل ان کے بادشاہ کے پاس طویل خوشی حاصل ہونے والی ہے۔ تب مجھے یقین ہوگیا کہ غم تو آخرت کی بھلائی ہا تھ سے جانے پر ہونا چاہیے نہ کہ دنیا کے جانے پر۔‘‘ (حلیة الأولیاء)

اگر نفس کی کثافت نے روح کی بینائی سلب نہ کرلی ہو، تو روح کی نظر تو جنت میں تعمیر ہونے والےمحل پر رہتی ہے۔ جیسے جیسے اس کی تعمیر آگے بڑھتی ہے اس کی خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر دنیا میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ اسے غمگین نہیں کرتی ہے۔

قرآن روح کو مسرور کرتا ہے

قرآن مجید روح امین (فرشتوں کے سردار جبرئیل) لے کر آئے۔ اور اسے حضرت محمد ﷺ کی روح پر نازل فرمایا۔ قرآن کا روح سے گہرا رشتہ ہے۔ یہ دراصل اللہ کی انسانی روح سے گفتگو ہے۔ اس کلام سے روح کو بے حد وحساب مسرت حاصل ہوتی ہے۔ اگر محبوب کے کلام سے دل کے غم دور ہوتے اور دل کو خوشی ملتی ہے، تو قرآن اس ذات کا کلام ہے جس سے روح کو بے انتہا محبت ہے۔ جس کے پاس سے روح آئی ہے اور جس کے پاس روح کو جانا ہے۔ قرآن کی تاثیر یہ ہے کہ انسان کے دل میں بہار آجائے، اور غموں کے بادل چھٹ جائیں۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ کسی کو اگر غم یا فکر لاحق ہو، اور وہ یہ کہے: اے اللہ، میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری بندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، تیرا حکم میرے اوپر نافذ ہے، میرے سلسلے میں تیرا فیصلہ یکسرعدل ہے۔ میں تجھ سے مانگتا ہوں، ہر اس نام کے واسطے سے جو تو نے اپنے لیے اختیار کیا ہے، یا اپنی کسی مخلوق کو سکھایا ہے، یا اپنی کتاب میں نازل کیا ہے، یا اپنے پاس علم غیب میں رکھا ہے، میں ایسے ہر نام کے واسطے سے تجھ سے مانگتا ہوں کہ قرآن کو میرے دل کی بہار بنادے، میرے سینے کا نور بنادے، میرے غموں کا مداوا بنادے، میری فکروں کو دور کرنے کا ذریعہ بنادے۔

(اللَّهُمَّ إِنِّی عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِیتِی بِیدِكَ، مَاضٍ فِی حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِی قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّیتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِی كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِی عِلْمِ الْغَیبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیعَ قَلْبِی، وَنُورَ صَدْرِی، وَجِلَاءَ حُزْنِی، وَذَهَابَ هَمِّی۔ )

جو یہ دعا مانگے گا اللہ اس کے غم و فکر کو دور کردے گا اور اسے خوشی سے نوازے گا۔‘‘  (مسند احمد)

اس دعا کے الفاظ پر غور کیجیے۔ یہ نہیں کہا کہ اپنے ناموں کے طفیل میرے غم دور کردے، بلکہ یہ کہا کہ قرآن کو غم دور کرنے کا ذریعہ بنادے۔ گویا غم دور ہوں گے تو قرآن کے ذریعے سے ہوں گے اور دل میں بہار آئے گی تو قرآن کے ذریعے سے آئے گی۔ جو قرآن سے دور رہے گا وہ قرآن کی تاثیر سے کیسے فائدہ اٹھاسکے گا۔ قرآن ہی تو روح کے لیے شفا ہے۔  شِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُورِ [یونس: ۵۷]

عظیم ترین روحانی کلام سے بے نیاز ہوکر روحانیت کا تصور ممکن ہی نہیں ہے۔

روح پر قرآن کی اثر آفرینی کے لیے ضروری ہے کہ روح کو نفس کی کثافتوں سے پاک کردیا جائے۔ حضرت عثمانؓ کہا کرتے تھے: ’’اگر تمھارے دل پاکیزہ ہوجائیں تو اللہ کے کلام سے کبھی سیرنہیں ہوں گے۔‘‘  (حلیة الأولیاء)گویا انھیں قرآن میں اتنا لطف ملے گا کہ کبھی ان کی طلب کم نہیں ہوگی۔ حسن بصریؒ کہتے تھے: ’’تین چیزوں میں حلاوت اور مٹھاس تلاش کرو، نماز میں، قرآن میں اور ذکر میں۔ اگر تم نے پالی تو خوشی خوشی بڑھتے رہو، اور نہیں پائی تو سمجھ لو کہ تمھارا دروازہ بند ہے۔ ‘‘(حلیة الأولیاء) ایسی صورت میں انسان کو فکر مند ہونا چاہیے کہ اس کی روح نفس کی قید سے آزاد ہوجائے تاکہ اس کی لذت اسے میسر ہوسکے۔ روحانی مسرت کے دروازے کو کھولنے کے لیے ضروری ہے کہ نفسانی خواہشات کو حد سے آگے نہ بڑھنے دے۔ بشر الحافیؒ کہتے تھے: ’’بندہ عبادت کی حلاوت اس وقت نہیں پاتا ہے، جب تک وہ اپنے اور نفسانی خواہشات کے درمیان آہنی دیوار نہ کھڑی کردے۔ ‘‘(حلیة الأولیاء) روحانی مسرت کے لیے ضروری ہے کہ حد سے بڑھی ہوئی نفسانیت تلخ محسوس ہو۔ روحانیت میں اللہ نے مسرت رکھی ہے۔ جب کہ نفسانیت میں ایک قسم کی تلخی بھی رکھی ہے تاکہ وہ حد سے نہ بڑھے۔ جب روح کو مسرت حاصل ہوتی ہے تو وہ نفسانیت کی تلخی کو بھی محسوس کرتی ہے، اور اگر روح مسرت سے محروم رہتی ہے تو نفسانی لذت کا راج ہوتا ہے۔ شیخ سریؒ کہتے تھے: ’’جو اللہ کی مناجات میں مشغول ہوجاتا ہے، اسے اللہ کے ذکر کی حلاوت حاصل ہوتی ہے، اور یہ حلاوت اس کے اندر شیطانی ترغیبات کی کڑواہٹ کا احساس پیدا کرتی ہے۔ ‘‘ (حلیة الأولیاء)

اللہ کی طرف پلٹنے کی خوشی

انسان جب گناہ کرتا ہے، یا غفلت کا شکار ہوجاتا ہے، یا دنیا کی طرف بہت زیادہ متوجہ ہوجاتا ہے، تو وہ اللہ سے دور ہوجاتا ہے۔ جب کہ توبہ اللہ کی طرف پلٹنے کو کہتے ہیں۔ یہ روح کے لیے نہایت خوش گوار تجربہ ہوتا ہے۔ توبہ کرنے کےلیے اللہ سے دور ہونا ضروری نہیں ہے، اللہ سے قریب رہنے والے بندے بھی بار بار اللہ کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔

جب انسان کا نفس اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتا ہے، تو اس کی روح شدید کرب کا شکار رہتی ہے، لیکن جیسے ہی وہ اپنی خواہشات کو لگام دے کر اللہ کی طرف پلٹتا ہے، سچے دل سے توبہ کرتا ہے اور اللہ سے لو لگاتا ہے تو اس کی روح خوش ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ روح کی مسرت اپنے خالق سے وابستہ رہنے میں ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ایک شخص کی مثال دی جو بے آب و گیاہ سرزمین میں اپنی اونٹنی کے ساتھ ہو، وہ اونٹنی فرار ہوجائے، اس کا کھانا اور پانی بھی اسی پر ہو، وہ تلاش کرتے کرتے مایوس ہوجائےاور ایک درخت کے پاس مایوس ہوکر اس کے سایے میں بیٹھ جائے، اچانک وہ کیا دیکھے کہ اس کی اونٹنی اس کے پاس کھڑی ہے، وہ لپک کر اس کی لگام تھام لے، اور خوشی کی شدت میں کہے، اے اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں۔ خوشی کے مارے اس کی زبان سے غلط بول نکل جائیں۔ آپ نے فرمایا: جب کوئی بندہ اللہ کی طرف پلٹتا ہے تو اللہ اس وقت اس پریشان حال شخص سے زیادہ خوش ہوتاہے۔ (صحیح مسلم)

اس تمثیل میں بڑے ہی بلیغ انداز میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب بندہ اللہ کی طرف پلٹتا ہے تو اللہ بہت زیادہ خوش ہوتا ہے۔ اس تمثیل کا ایک لطیف پہلو یہ ہے کہ یہاں اللہ کی طرف پلٹنے والے بندے کی خوشی کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔ اسے ذکر کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اللہ کی طرف پلٹنے والےبندے کو اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ اس سے بہت زیادہ خوش ہے، تو اس سے زیادہ خوشی کی بات اس کے لیے اور کیا ہوگی۔ اللہ کی خوشی کا عکس بندے کے دل پر پڑتا ہے، اور وہ بندے کے لیے بے حد مسرت بخش ہوتا ہے۔ علامہ ابن قیمؒ مذکورہ بالا روایت کے سیاق میں لکھتے ہیں: اس طرح کی خوشی کا ذکر توبہ کے سوا کسی اور اطاعت کے سلسلے میں نہیں آیا ہے۔ تائب کے حال اور اس کے دل میں اس خوشی کی عظیم اثر انگیزی ہوتی ہے، یہ بات ہم سب جانتے ہیں۔۔۔ بندہ توبہ کے ذریعے محبوبیت کے مقام کو پالیتا ہے، پھر وہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے، اور اللہ اپنی طرف پلٹنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (مدارج السالکین)

اللہ کی طرف پلٹنے میں روح کو بے حد و حساب خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اسے وہی محسوس کرسکتا ہے جسےاللہ کی طرف پلٹنے کا تجربہ ہوتا ہے۔

سربلندی تو اصل میں روح کی ہے

جب حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو ظالم حجاج کی فوج نے شہید کردیا اور سولی پر لٹکادیا، تو ان کی والدہ مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے ایک گوشے میں بیٹھی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو معلوم ہوا تو ان کے پاس گئے اور تسلی دیتے ہوئے کہا: یہ جسم کچھ نہیں ہیں، اصل تو روحیں ہیں جو اللہ کے پاس ہیں۔ اللہ کا تقوی اختیار کیجیے اور صبر کیجیے۔ حضرت اسماءؓ نے کہا: میں صبر کیوں نہ کروں، مجھے تو یہ بھی معلوم ہے کہ حضرت یحیی علیہ السلام کا سر کاٹ کر بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت کو تحفے میں دیا گیا تھا۔ (سیر اعلام النبلاء)

اس مکالمے میں روحانیت کی کتنی بڑی حقیقت بیان کردی گئی!!

حضرت یحیی ؑ کا سر بدکار عورت کی گود میں ڈال کر اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کا جسم کئی دن سولی پر لٹکانے والے ان کی روحوں کو ذرا بھی اذیت نہیں پہنچاسکے۔ ان کی پاکیزہ روحیں تو شاداں وفرحاں تھیں کہ انھیں اپنے رب کے حضور سرخ رو ہوکر پہنچنے کا موقع ملا۔

اس سے یہ نصیحت ملتی ہے کہ انسان کو اپنے جسم سے کہیں زیادہ اپنی روح کی فکر کرنی چاہیے۔ جسم کو تکلیف پہنچے مگر روح مجروح نہ ہو۔ مادہ پرست دنیا میں انسان روح کی قیمت پر جسم کو سنوارتا ہے، اسے لذتوں سے ہم کنار کرتا ہے، اس کی عزت بڑھانے کی فکر میں رہتا ہے، وہ جسم کو خوش کرنے کی دھن میں روح کو شدید کرب اور سخت ذلت سے دوچار کرتا ہے۔ حالاں کہ جسم کو یہیں رہ جانا ہے اور روح کو آگے کا سفر طے کرنا ہے۔ جس طرح جسم سے اہم جسم کا لباس نہیں ہوسکتا، اسی طرح روح سے اہم جسم نہیں ہوسکتا۔

دنیا کی خوشی حد سے نہ بڑھے

جن لوگوں کی نگاہ میں جسم اور مادہ ہی سب کچھ ہوتا ہے، وہ جسمانی اور مادی خوشیوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کوشش میں وہ روحانی خوشیوں کو فراموش کربیٹھتے ہیں۔ یہ انسانی وجود کا بہت بڑا خسارہ ہوتا ہے۔

انسان کو اپنی دنیوی یافتوں اور مادی کام یابیوں پر خوشی ہوتی ہے۔ یہ خوشی فطری ہے۔ لیکن اگر یہ خوشی حد سے بڑھ جائے تو انسان روحانی فتوحات کی لذت بالکل بھول جاتا ہے۔ یہ صورت حال بہت سنگین ہوتی ہے۔ حضرت ابودرداء اس کا علاج بتاتے ہیں کہ جس نے موت کو کثرت سے یاد کیا، اس کا اترانا بھی کم ہوتا ہے اور حسد کرنا بھی کم ہوتا ہے۔ (سیر أعلام النبلاء) ابن جوزیؒ اس کا نسخہ تجویز کرتے ہوئے کہتے: ’’خوشی کی شدت کا علاج یہ ہے کہ انسان اپنے پچھلے گناہوں کو یاد کرے اور سوچے کہ (ان کے نتیجے میں) آگے کتنی تکلیفیں آنے والی ہیں۔ ‘‘( اللطائف والطب الروحانی)

قارون سے اس کی قوم کے سمجھ دار لوگوں نے کہا: لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّهَ لَا یحِبُّ الْفَرِحِینَ [القصص: ۷۶] (اتراؤ نہیں، اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔ )پھر یہ بھی بتایا کہ اسے خوشی کو کہاں تلاش کرنا چاہیے، اس سے کہا: وَابْتَغِ فِیمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِیبَكَ مِنَ الدُّنْیا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَیكَ[القصص: ۷۷] دنیا کے وسائل سے روحانی مسرتیں حاصل کرنے کا یہ زبردست فارمولا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ نفس کی جتنی حقیقی حاجت ہو، دنیا کے سامان سے اسے پورا کیا جائے، اور دنیا کا باقی تمام سامان روح کی مسرت حاصل کرنے کے کام میں لایا جائے۔ روح کے لیے بڑی مسرت کی بات ہوتی ہے کہ آخرت میں روح کی مسرت کا اسی دنیا میں رہتے ہوئے انتظام کیا جارہا ہے۔ روح کے لیے یہ بھی بڑا فرحت بخش احساس ہوتا ہے کہ اللہ کی صفت احسان میں سے اسے بھی کچھ حاصل ہورہا ہے۔

پاکیزہ روحوں کی مسرت بخش ملاقات

اس دنیا میں ہر طرف مادیت کا دور دورہ ہے، جہاں دو لوگ جمع ہوتے ہیں صرف دنیا داری کی باتیں ہوتی ہیں۔ روح کے لیے ان باتوں میں انسیت کا کوئی سامان نہیں ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں پاکیزہ روحوں کو وحشت اور تنگی کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن جب پاکیزہ روحوں کی آپس میں ملاقات ہوتی ہے، توان کی عید ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ پھر ان کے درمیان روح کو مسرور کرنے والی باتیں ہوتی ہیں۔

عبیداللہ بن عمر عدویؒ کہتے تھے: اللہ کی قسم میں پورے سال میں صرف حج کے زمانے میں خوش ہوتا ہوں۔ ان دنوں ایسے لوگوں سے ملاقات ہوجاتی ہے، جن کے دل اللہ نے ایمان سے روشن کردیے ہیں۔ جب میں انھیں دیکھتا ہوں تو میرے دل کو راحت ملتی ہے۔ ‘‘ (حلیة الأولیاء)

محمد بن منکدرؒ سے پوچھا گیا کہ آپ کے لیے زندگی میں کیا لذت باقی رہ گئی ہے، انھوں نے کہا: ’’دوستوں سے ملنا اور انھیں خوش کرنا۔ ‘‘(حلیة الأولیاء)

خود محمد بن منکدرؒ کے بارے میں ان کے دوست کہتے: ’’محمد بن منکدرؒ کو دیکھنے سے مجھے دینی فائدہ ہوتا۔‘‘  (حلیة الأولیاء)

محمد بن واسعؒ کہتے: ’’دنیا میں کوئی چیز نہیں بچی جس میں مجھے لذت ملے، سوائے نماز کے اور دوستوں سے ملاقات کے۔‘‘ (حلیة الأولیاء)

نیک عمل: دنیا میں لذت اور آخرت میں ثواب

اللہ کے رسول ﷺ نے روزے دار کے لیے خوش خبری سنائی: ’’روزے دار کے لیے دو خوشیاں حاصل ہیں، ایک خوشی اس وقت جب وہ روزہ مکمل کرکے افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی اس وقت ملے گی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔ ’’ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ ‘‘ (صحیح مسلم)

ہر نیک عمل جو اللہ کے لیے کیا جائے اس سے یہ دونوں خوشیاں وابستہ ہوتی ہیں۔ جب انسان ایک نیل عمل کو انجام دیتا ہے تو ایک خوشی تو اسی وقت اس عمل کو کرنے کی ہوتی ہے اور دوسری خوشی اس کا انتظار کرتی ہے۔

جسم میں روح کا آنا، بسیرا کرنا اور پھر پرواز کرجانا، دراصل روح کا امتحان ہے کہ وہ جسم میں رہتے ہوئے اس سے کتنے زیادہ نیک عمل کرواتی ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیاةَ لِیبْلُوَكُمْ أَیكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا  [الملك: 2] ’’جس نے موت اور زندگی کو تخلیق کیا، تاکہ تمھیں آزمائے کہ کون بہتر عمل کرتا ہے‘‘

انسانی وجود سے نیک اعمال مطلوب ہیں۔ رحمتِ خداوندی کا یہ وعدہ ہے کہ ان اعمال کا ثواب آخرت میں ملے گا۔ پھر یہ اللہ کی مزید رحمت ہے کہ اس نے نیک اعمال کے اندر لذت بھی رکھی ہے۔ نیک اعمال کو انجام دیتے ہوئے جسم کو مشقت ہوتی ہے مگر روح کو لذت حاصل ہوتی ہے۔ جب روح اس لذت سے آشنا ہوجاتی ہے تو پھر اس کے اندر نیک اعمال کی رغبت بڑھتی جاتی ہے۔

ایسا تو ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص نیک اعمال نہیں کرے اور اس لیے ان کی لذت سے بھی آشنا نہیں ہو۔ لیکن جب کوئی نیک اعمال کرتے ہوئے اطاعت کی لذت سے آشنا ہوجاتا ہے، تو پھر اسے ان کے بنا قرار نہیں آتا۔

ابوسلیمان دارانیؒ کہتے تھے : ’’اس شخص پر حیرانی نہیں ہے جو اطاعت کی لذت نہیں پائے، حیرانی تو اس پر ہے کہ جو اس کی لذت کو پالے، اور پھر اسے چھوڑ دے، آخر اسے اس کے بغیر قرار کیسے آتا ہے۔‘‘ (حلیة الأولیاء)

بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ اگر عمل میں لذت نہیں مل رہی ہو، تو فکر مند ہونا چاہیے کہ عمل کو کہیں کوئی بڑا عیب تو لاحق نہیں ہوگیا ہے۔ اتنا بڑا عیب کہ وہ ثواب کا مستحق بھی قرار نہیں پائے۔ ابوسلیمان دارانی ؒ کہتے تھے: ’’میں نہیں سمجھتا کہ جس عمل کی دنیا میں لذت نہیں ہوگی اس کا آخرت میں ثواب ہوگا۔‘‘  (حلیة الأولیاء)

نیک کاموں سے روح کو جو لذت حاصل ہوتی ہے، وہ زندگی کا نہایت قیمتی سرمایہ ہوتی ہے۔ ابوسلیمان دارانیؒ کہتے تھے: ’’دانا آدمی اگر اپنی باقی ماندہ عمر میں کسی اور بات پر نہیں روئے، صرف اس پر روئے کہ ماضی میں وہ کتنے نیک کاموں کو نہ کرکے ان کی لذت سے محروم رہا، تو اسے مرتے دم تک اس پر رونا چاہیے۔‘‘  (حلیة الأولیاء)

ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ آدمی نیک اعمال تو کرے، لیکن اسے ان اعمال کی لذت حاصل نہ ہو، ایسی صورت میں جسم نیک اعمال کی مشقت اٹھاتا ہے مگر روح لذت کی متلاشی رہتی ہے۔ جسم کی یہ مشقت بالآخر روح کے کام آتی ہے اور ایسا وقت بھی آتا ہے کہ روح کو لطف آنے لگتا ہے۔ ثابت البنانیؒ اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے بیس سال تک مشقت کے ساتھ نمازیں پڑھیں، پھر بیس سال تک نمازوں کا لطف اٹھایا‘‘(حلیة الأولیاء)

جب انسان پر دنیا داری سوار ہوجاتی ہے تو اس کی حالت عجیب ہوجاتی ہے، وہ چھوٹے چھوٹے مادی نقصانات پر پریشان ہوجاتا ہے اور بڑے بڑے روحانی نقصانات گوارا کرلیتا ہے۔ یونس بن عبیدؒ ایسی نفسیات کو بے نقاب کرتے ہوئے کہتے: ’’مجھے کیا ہوگیا ہے، آخر یہ مجھے کیا ہوگیا ہے، مرغی گم ہوجاتی ہے تو غمگین ہوجاتا ہوں اور نماز چھوٹ جاتی ہے تو ذرا غم نہیں ہوتا۔‘‘  (حلیة الأولیاء)

اگر دنیا دار انسانوں کو جسم کی لذتیں روح کی لذتوں سے بے گانہ کردیں، تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ محبت خداوندی سے سرشار انسانوں کو روح کی لذت جسم کی ہر لذت سے بے نیاز کردے، قاسم بن عثمانؒ کہتے تھے: ’’اللہ کی محبت اولیا کو ایسا سیر کرتی ہے کہ وہ ہر بھوک سے بے گانہ ہوجاتے ہیں۔ وہ کھانے پینے کی لذتوں، شہوتوں اور دنیا کی لذتوں کو بھول جاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو ایسی لذت حاصل ہوجاتی ہے جس کے اوپر کوئی لذت نہیں ہوتی اور وہ انھیں ہر لذت سے کاٹ دیتی ہے۔ ‘‘ (حلیة الأولیاء)

مادی لذتوں میں روحانی مسرت کی تلاش

کیا روح کی لذت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان جسم کی لذتوں سے بیگانہ ہوجائے؟

بہت سے بزرگوں کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ جب تک آدمی جسم کی لذتوں سے بیگانہ نہیں ہوجائے، اسے روح کی لذت حاصل نہیں ہوتی ہے اور جسے روح کی لذت حاصل ہوجاتی ہے وہ لازما جسم کی لذتوں سے بے گانہ ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت سے قریب بات یہ ہے کہ بندہِ عارف مادی لذتوں کو اللہ کی عنایت سمجھ کر ان سے لطف اٹھاتا ہے اور ان پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ مادی لذتوں پر شکر گزاری اس کی روح کو فرحت بخش احساس عطا کرتی ہے اور اس طرح مادی لذت روحانی مسرت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

یہ روحانیت کا اعلی مقام ہے کہ آدمی جسم کی لذتوں کو روح کی سطح پر جاکر محسوس کرے۔ اس دنیا کی ہر لذت اسے اپنے رب کی یاد دلائے اور اس سے قریب کردے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: دنیا کی چیزوں میں میرے دل میں عورتوں اور عطر کی محبت ڈالی گئی ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ (سنن النسائی) ایک دل کو نماز میں قرار ملے، اور اس دل میں بیوی اور عطر کے لیے بھی جگہ ہو۔ یہ روح اور جسم کے درمیان اعتدال و توازن کی نہایت حسین مثال ہے اور یہی روحانیت انسان سے مطلوب ہے۔

نماز میں نفسانی خیالات کا غلبہ ہوتا ہو یا نفسانی خواہشات کی تکمیل کے وقت اللہ کی یاد نہیں آتی ہو، دونوں ہی صورتیں اس بات کی چغلی کھاتی ہیں کہ انسانی وجود پر نفس پرستی غالب ہے۔

مادیت پر روحانیت کا غلبہ یہ ہے کہ خالص مادی لذتوں میں انسان روحانی لذت کے پہلو تلاش کرلے اور خالص روحانی کیفیتوں میں مادی لذتوں کو ذرا مخل نہیں ہونے دے۔ انسان کو کھانا کھاتے وقت اللہ کے ذکر کی لذت بھی حاصل ہو، لیکن نماز کی حالت میں وہ مادی لذتوں سے بالکل بے گانہ ہوجائے۔

یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نُودِی لِلصَّلَاةِ مِنْ یوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَیعَ ذَلِكُمْ خَیرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ. فَإِذَا قُضِیتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِی الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِیرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [الجمعة: ۱۰،۹]

پہلی آیت میں اشارہ ہے کہ جب خالص روحانی کیفیت کے حصول کا وقت ہو تو مادی رغبتوں سے بالکل کنارہ کش ہوجانا چاہیے، اور دوسری آیت میں اشارہ ہے کہ جب مادی تقاضوں کی تکمیل ہورہی ہو تو اس وقت بھی بندے کی کیفیت روحانی ہی رہنی چاہیے۔

مادی لذتوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ انسان کو کسی حد میں نہیں رہنے دیتی ہیں، ہر لذت اسے دوسری لذت کا دیوانہ بناتی ہے، وہ نئی لذت کی تلاش میں آوارہ پھرتا ہے۔ دنیا کی بہت سی برائیوں کا سبب یہی ہے کہ آدمی کو مادی لذتوں سے سیرابی نہیں ہوتی اور اس کی خواہشات کی پیاس کبھی نہیں بجھتی۔ مثال کے طور پر اللہ نے انسان کے لیے جنسی لذتوں کے حصول کا بہترین انتظام کیا ہے۔ لیکن وہ کچھ اور کی تلاش میں بے شمار غیر فطری طریقوں کی طرف بھاگتا ہے اور اسے قرار نہیں ملتا۔ وہ کتے کی طرح ہانپتا ہی رہتا ہے۔ لیکن جب انسان مادی لذتوں کو روح کی سطح پر محسوس کرتا ہے، تو اس کی خواہشات میں ٹھہراؤ اور اعتدال آتا ہے۔ روحانی مسرت اس کی مادی لذتوں کو حد اعتدال میں بھی رکھتی ہے اور بلندی و وقار بھی عطا کرتی ہے۔ اسی لیے ہر قسم کی مادی لذتوں کے حصول کے وقت روحانی کیفیت کا ساتھ رہنا ضروری ہے۔ جو اللہ کے ذکر و شکر سے حاصل ہوتی ہے۔

غم دور کرنے اور خوشیاں بانٹنے کی خوشی

جب انسان کو کسی تکلیف سے نجات ملتی ہے یا اسے کوئی نعمت حاصل ہوتی ہے، تو اسے خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ نفس کی خوشی ہوتی ہے۔ جب انسان اس خوشی پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو یہ روح کی خوشی بن جاتی ہے۔

لیکن جب انسان کسی دوسرے انسان کی تکلیف کو دور کرتا ہے، یا اس کی کسی ضرورت کو پورا کردیتا ہے، تو بھی اسے بہت خوشی ہوتی ہے۔ یہ خوشی روحانی ہوتی ہے، جب وہ یہ کام ہمدردی کے جذبے کے تحت کرتا ہے اور اس کا مقصود صرف اللہ کوراضی کرنا ہوتاہے۔ اور یہ خوشی نفسانی ہوتی ہے جب وہ یہ کام اپنے نفس کے کسی جذبے کی تسکین کے لیے کرتا ہے، جیسے لوگوں کی نظر میں ہیرو بننے کی خواہش۔

ایک روحانی تجربہ

کسی کے دل کو خوش کردینے سے خود اپنی روح کو کتنی خوشی ہوتی ہے، اس کے بارے میں شیخ علی طنطاویؒ اپنا ایک تجربہ بیان کرتے ہیں، کہ ایک بار ایک کھلونے بیچنے والا ان کے محلے میں آیا، مال دار گھروں کے بچوں نے تو کھلونے خرید لیے، لیکن غریب گھروں کے بچے وہاں کھڑے حسرت سے تک رہے تھے۔ ایک کھلونہ ایک آنے کا تھا۔ انھوں نے ایک ایک آنے کے نو کھلونے خریدے اور نو بچوں کو دے دیے۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:

’’تم سچ مانوگے، یا میں قسم کھاکر بتاؤں کہ جب میں نے ان بچوں کے چہروں کو خوشی سے دمکتے دیکھا، اور جب میں نے ان کی ماؤں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلکتے دیکھے، تو میرے دل میں ایسی خوشی کا احساس ہوا، جو اس بھوکے کو نہیں ہوسکتا جس کے سامنے شاہی دسترخوان بچھادیا جائے، اس عاشق کو نہیں ہوسکتا جسے لمبے فراق کے بعد محبوب کا دیدار ہوجائے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ وہ تو زمین کی خوشیاں ہیں اور یہ عالم بالا کی خوشی ہے۔ ہزاروں انسان زندگی گزار کر گزرجائیں، مگر ہوسکتا ہے کہ انھیں ایسی خوشی کا تجربہ نہ ہوسکے۔ مجھے لگا کہ میں اپنی نگاہ میں بڑا ہوگیا ہوں، میں طاقت ور ہوگیا ہوں، میرے سارے ارمان پورے ہوگئے اور مجھے حیات جاوداں حاصل ہوگئی۔ ہم بہت سا مال خرچ کرکے معمولی سی خوشیاں خرید پاتے ہیں۔ لیکن یہ خوشی جو محض نو آنے میں حاصل ہوگئی انسانوں کو کبھی مل ہی نہیں پاتی ہے۔ پھر یہ نو آنے میرے لیے کیا ہیں، ان کا ہونا اور نہ ہونا میرے لیے برابر ہے۔ تو کیا تم ایسی خوشی خریدنا چاہو گے؟ کیا تم جاننا چاہو گے کہ روح کی لذت کیا ہوتی ہے اور دل کی راحت کسے کہتے ہیں؟ کیا تم دنیا میں رہتے ہوئے جنت کی آسائش کا لطف اٹھانا چاہتے ہو؟

ہر مال دار بہت سارا مال خیرات کرسکتا ہے، لیکن جو دل کا مال دار ہوگا، جس کےپاس انسانیت، شرافت اور محبت کی دولت ہوگی، وہی مال کے ساتھ حیات بخش جذبات لٹاتا ہے۔

اگر تم دنیا کی سب سے اعلی درجے کی لذتیں چکھنا چاہو، دل کی سب سے عمدہ خوشی حاصل کرنا چاہو، تو مال کے ساتھ ساتھ محبت اور جذبات بھی لٹاؤ۔ (صور و خواطر، اختصار کے ساتھ)

ذکر کے مواقع تلاش کرتے رہیں

روح کو مسرت و انبساط اور کیف و نشاط دینے والی چیز اگر کوئی ہے تو اللہ کا ذکر ہے۔ روح عالم بالا سے اس عالم ارضی کی طرف بھیجی جاتی ہے اور یہاں وہ جسد خاکی کی مکین بنتی ہے۔ آزاد اور پاکیزہ و لطیف روحوں کا دل عالم بالا میں اٹکا رہتا ہے۔ وہیں کا نغمہ اسے راس آتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [الرعد: 28] دلوں کو قرار تو اللہ کے ذکر سے ہی ملتا ہے۔ ذکر کی سب سے اعلی اور جامع صورت نماز ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے‘‘ روایت میں ہے کہ خزاعہ قبیلے کے ایک صحابی نے کہا : کتنا اچھا ہو کہ میں نماز پڑھوں تو مجھے آرام ملے۔ لوگوں کو یہ بات بڑی عجیب لگی، تو انھوں نے کہا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے: اے بلال نماز کھڑی کرو، نمازکے ذریعے ہمارے لیے راحت کا انتظام کرو۔ (سنن أبی داود)

ذکر کی حلاوت جسے حاصل ہوجاتی ہے وہ ہر وقت ذکر کا لطف اٹھاتا ہے۔ صبح اور شام کے اوقات میں جب چڑیاں چہچہاتی ہیں، وہ تسبیح کے نغمے گاتا ہے۔ رات کی تنہائی اور سکوت میں وہ قرآن کی تلاوت سے روح کو مسرور کرتا ہے۔ لذیذ کھانوں کے مزے لیتے ہوئے وہ الحمدللہ کہنے کا سرور پاتا ہے۔

آفتیں برستی ہیں دل سکون پاتا ہے

اللہ کے دین پر چلنے اور اس دین کو انسانوں تک پہنچانے کا راستہ کانٹوں سے بھرا ہوتا ہے۔ اس دنیا میں سچ بولنے کی بہت سخت سزا دی جاتی ہے۔ لیکن یہ احساس کہ یہ اللہ کا راستہ ہے، روح کے لیے نہایت فرحت بخش ہوتا ہے۔ جسم تکلیف سے تڑپتا ہے لیکن روح خوشی سے مچلتی ہے۔

حضرت خبیب انصاریؓ کو جب دشمنوں نےذبح کرنے کی تیاری کرلی تو انھوں نے کچھ اشعار کہے جن کا مفہوم ہے: جب اسلام کی حالت میں مجھے قتل ہونے کی توفیق مل رہی ہے، تو پھر مجھے کوئی پروا نہیں کہ اللہ کی خاطر کس پہلو مجھے گرایا جاتا ہے۔ یہ تو اللہ کی خاطر ہے، اور اگر وہ چاہے تو جسم کے کٹے ہوئے ٹکڑوں کو اپنی برکت سے نواز دے۔ (صحیح بخاری)

علامہ ابن قیمؒ اپنے شیخ امام ابن تیمیہؒ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جب انھیں قلعہ میں قید کردیا گیا، تو خدا گواہ ہے میں نے ان سے زیادہ اپنے حال میں مگن کسی کو نہیں پایا۔ حالاں کہ وہاں شدید تنگی، اور سخت بے آرامی کی حالت تھی۔ اس پر مزید نظر بندی، دھمکیاں اور دارو گیر۔ مگر اس سب کے باوجود وہ سب سے زیادہ عیش میں تھے، سینہ بالکل مطمئن، دل بہت مضبوط اور روح نہایت مسرور تھی۔ ان کے چہرے سے آسائشوں کی تازگی جھلکتی۔ وہ قیدخانے میں رہتے ہوئے کہتے: اگر اس کوٹھری بھر سونا بھی میں صدقہ کردوں تو بھی اس نعمت کا شکر ادا نہیں ہوسکے گا جو مجھے یہاں حاصل ہے۔ (الوابل الصیب)

دور حاضر میں جب اخوان المسلمین کے پاکیزہ نفوس کو مصر کی ظالم حکومت نے جیل میں بند کردیا، تو پانچ سال کے بعد انھیں میں سے ایک شخصیت ڈاکٹر صلاح سلطان کا خط سامنے آیا، اس میں انھوں نے لکھا:

’’ظالموں نے ہمیں قیدخانوں کی مضبوط دیواروں اور آہنی سلاخوں کے درمیان ہر طرح سے مقید کردیا، ایسے میں رب رحمان نے ہم پر آسمان سے رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیے، سیکھنے کی طلب اور بندگی کے شوق ہمارے پر بن گئے، اور ہم اللہ سے قریب ہونے کے لیے بیتاب ہوئے اور عرش کے گرد پرواز کرنے لگے۔ جیلوں میں محض ہمارے جسم رہ گئے، ہماری روحیں اور ہمارے دل ودماغ مقام علیین کی بلندیوں کا لطف لیتے رہے۔

انھوں نے ہم پر جھوٹی تہمتیں لگائیں، عدالتی کارروائیوں کے ڈرامے رچے، اور ہمارے خلاف سزائے موت اور عمر قید کے فیصلے کیے، ہم نے پیکر تسلیم ورضا بن کر ہر آزمائش کا سامنا کیا، سو اللہ نے ابدی محبت سے ہمیں ڈھانپ دیا، ہمارے دل اللہ سے ملنے کے لیے بے تابی سے اچھلنے لگے، اور ’’جو اللہ سے ملنے کی چاہ رکھتا ہے، اللہ اس سے ملنا پسند کرتا ہے’’ ہم میں سے کوئی بھی پیچھے نہیں ہٹا۔

ہم اپنے بھائیوں کی آنکھوں میں اللہ کے فیصلے پر راضی ہوجانے کی مسکراہٹ اپنی آنکھوں سے دیکھتے، اور اپنی آنکھوں سے یہ بھی دیکھتے کہ ظالم ججوں، جھوٹے گواہوں، اور جیل کے جلادوں کے چہروں پر نحوست اور بے اطمینانی چھائی رہتی ہے۔ ان پر غصے اور نفرت کی پرچھائیاں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ خدا کی قسم ہمارے سینوں کی کیفیت تو ایسی ہے کہ جیسے یہ نہایت وسیع وعریض باغات ہوں، جن میں ہرے بھرے درخت ہوں، ان میں لذیذ ترین پھل ہوں اور خوشبو بکھیرتے حسین وجمیل پھول کھلے ہوں۔

انھوں نے ہمارے ہاتھوں سے قرآن چھین لیے، ایک عرصے تک ہمیں کتاب وقلم سے محروم رکھا، لیکن وہ بھول گئے کہ یہ وہ عظیم کتاب ہے جس کی آیتیں سینوں میں محفوظ رہتی ہیں۔ ہم اپنے سینوں میں بسی ہوئی قرآنی آیتوں اور اپنے دماغوں میں آباد سنتوں کی رفاقت میں ایک خوب صورت زندگی گزارنے لگے، ہم قرآن میں پڑھتے تھے ’’ ہم نے اسے اپنے پاس سے رحمت سے نوازا اور خاص اپنے پاس سے اسے علم سکھایا’’ اس عرصے میں ہم نے اپنے اوپر رب کریم کی اس خاص نوازش کو خوب خوب محسوس کیا۔ کتابوں کے لیے ہم نے اللہ سے خوب دعا کی، پس اللہ نے کتابوں کی آمد کا راستہ بھی کھول دیا، ہم نے اس دور میں سچ مچ اللہ اور اس کے رسول اور اس کے مومن بندوں سے محبت کا لطف خوب خوب اٹھایا، کار خیر اور نفع غیر کی بے پناہ لذت پائی، میں کبھی ایک دن کبھی دو دن اور کبھی تین دن میں قرآن ختم کرلیتا، میری یہ زندگی سنت نبوی کے انوار میں اور فقہ وشریعت اور زبان وادب کے مدرسوں کے سائے میں گزری، میں نے اپنی زندگی کے ان پانچ برسوں میں علم ومعرفت کی اس قدر روشنی پائی جو اس سے پہلے کے پچیس برسوں سے کہیں زیادہ تھی۔ جن لوگوں نے ہم سے قرآن پاک اور کتابیں چھین کر ضبط کی تھیں، وہ جہالت اور حماقت دونوں سے دوچار ہوئے، اور آخرت کی سزا سے پہلے اسی دنیا میں اس سے بڑی آفت کوئی اور نہیں ہوسکتی ہے۔

انھوں نے ہم سے بیوی بچوں کے ساتھ رہنے کا لطف چھینا، ہمیں ہمارے اساتذہ اور طلبا سے دور کیا، سمندروں، دریاؤں اور پرندوں اور گلستانوں کے مناظر ہم سے محجوب کیے گئے، لیکن خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں، ہم خوابوں میں اپنے بیوی بچوں اور اپنے اساتذہ اور شاگردوں کی رفاقت سے بھرپور نہایت شان دار زندگی کا لطف اٹھاتے رہے۔ میری پسندیدہ ریاضت تیراکی ہے، اللہ نے مجھے خوابوں میں خوب صورت ترین دریاؤں اور سمندروں کے ساحلوں میں تیراکی کے مزے کرائے، جہاں کوئی گندگی نہیں ہوتی تھی، اللہ نے ہمیں ایسے ایسے لذیذ کھانے کھلائے جیسے آزادی کے زمانے میں ہم نے کبھی نہیں کھائے تھے، حالاں کہ میں نے دنیا کے بہت سے ملکوں کا سفر کیا ہے، اور انواع واقسام کے کھانے کھائے ہیں، واللہ ایسا لگتا کہ ہم اللہ کی جنت کے کھانے کھارہے ہیں۔ یہی نہیں ہم نے ایسی ہریالی ایسے پھل اور ایسے خوش نما باغات دیکھے جو دنیا میں ہم نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔‘‘

غرض اللہ کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں اور تکلیفوں میں ایمانی روحوں کے لیے وہ لذت وفرحت ہوتی ہے، جس کا کوئی اور اندازہ بھی نہیں کرسکتا:

عشق کے مراحل میں وہ بھی وقت آتا ہے

آفتیں برستی ہیں، دل سکون پاتا ہے

مشمولہ: شمارہ مارچ 2022

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau