انسانی زندگی فطری طور پر خوشی اور غم دونوں حالات سے گزرتی ہے۔ خوشی کے مواقع پر ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے عزیزو اقارب، دوست و احباب اس کی مسرت و شاد مانی میں شریک ہو کر اسے مبارک باد دیں۔ٹھیک اسی طرح دکھ، درد اور تکلیف کے وقت ایک انسان کو اپنے رشتہ داروں اور دوست و احباب کی طرف سے تعاون، تسلی اور صبر واستقامت کی تلقین کی بھی سخت ضرورت ہوتی ہے۔
اسلام جس طرح ہم کو خوشیوں میں دوسروں کا ساتھ دے کر ان کی خوشیاں بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے، اسی طرح دوسروں کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھنے، اس میں شریک ہونے اور اس کے ازالہ کی کوشش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایک مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ کسی کو بھی بیماری و پریشانی میں مبتلا دیکھ کر اس کے اندر رحم کے جذبات ابھریں۔ اسلام نے اس کے فضائل بھی بیان کیے ہیں اور آداب بھی۔ اس لیے آداب کی رعایت کرکے ہی فضائل کو حاصل کیا جا سکتا ہے ورنہ کبھی کبھی آداب سے بےاعتنائی کے نتیجے میں انسان ثواب کے بجائے گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عیادت اور مزاج پرسی سے باہمی تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے۔ایک دوسرےکے لیے ہمدردی اور غم خواری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ مریض اور اس کے اہل خانہ نیز رشتے داروں کے دلوں میں عیادت کرنے والے کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ اگر ماضی میں کچھ تلخیاں یا رنجشیں تھیں تو وہ دور ہو جاتی ہیں۔ اس کے برعکس، اگر بیماری کےعلم کے باوجود عیادت نہ کی جائے تو آپس میں نفرت وکدورت یا کم از کم بدگمانی ضرور پیدا ہو جاتی ہے، جو مستقبل میں دوری کا سبب بن جاتی ہے۔
عیادت ایک مسلمان کا حق ہے۔ اسی لیے بعض علما عیادت کو واجب سمجھتے ہیں اور بعض سنت مانتے ہیں۔ عیادت دینی فریضہ کے ساتھ اخلاقی اور سماجی فریضہ بھی ہے۔ حضرت ثو بانؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت کے لیے جاتا ہے تو واپس ہونے تک وہ جنت کے باغات میں ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم )
یعنی عیادت کرنے والا جب سے عیادت کے لیے نکلتا ہے تو واپس ہونے تک اسے ثواب ملتا رہتا ہے۔ اس حدیث کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہر وقت مریض کے پاس صرف اس لیے آنا جانا لگا رہے اور وقت بے وقت مریض اور اس کے تیمار داروں کو پریشان کیا جائے کہ عیادت کرنے والا اپنے آپ کو جنت کے باغ میں سمجھ رہا ہے۔
مریض کے مزاج اور حالات کی رعایت کے ساتھ تیمار داروں سے عیادت کی اجازت لینا بہت ضروری ہے۔
مریض کی عیادت میں چند آداب کاخیال رکھنا بہت ضروری ہے:
مریض خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم، عیادت ہر ایک کی کرنی چاہیے۔ امام بخاری نے حضرت انس ؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ’’اللہ کے رسول ؐ نے اپنے پڑوسی یہودی بچے کی عیادت کی جب وہ بیمار تھا اور اس کو اسلام کی دعوت بھی دی اور وہ مسلمان ہو گیا۔‘‘
اسی طرح مریض دوست ہو، یا دشمن، امیر ہو یا غریب، رشتے دار ہو یا انجان، ہر ایک کی عیادت اخلاقی فریضہ سمجھ کر صرف رضائے الٰہی کے لیے کرنی چاہیے۔ موجودہ زمانے میں عیادت کا دائرہ اتنا سمٹ گیا ہے کہ ایک خالص عبادت کو مفاد سے جوڑ دیا گیا ہے اور دیکھا یہ جاتا ہے کہ کس کی عیادت نہ کرنے میں دنیوی مفاد متاثر ہوں گے اور کس سے متاثرنہیں ہوں گے۔ چناں چہ اسی لیے لوگ قریب کے غریب پڑوسی کی مزاج پرسی کو زحمت سمجھتے ہیں اور دور دراز کے ما ل دار دوستوں کی بار بار خیریت معلوم کرتے ہیں۔ جب کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہمدردی اور غم خواری کے جذبات سب کے لیے یکساں ہونے چاہئیں۔
عیادت کے لیے وقت کے انتخاب کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ایسے وقت میں عیادت کرنی چاہیے جس میں مریض یا تیمار داروں کو کسی قسم کی گرانی محسوس نہ ہو۔ ہاسپٹل وغیرہ میں اسی وقت عیادت کے لیے جانا چاہیے جب وہاں کا عملہ اجازت دے۔ اس کے علاوہ اپنی مرضی سے مریض کو یاہا سپٹل کے عملے کو پریشان کرنا بالکل مناسب نہیں۔ کبھی کبھی اس روش سے غلط نتائج کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور شرمندگی اٹھانی پڑسکتی ہے۔ اس لیے پہلے تیمارداروں سے وقت لے کر ہی جانا چاہیے۔
عیادت کے وقت چوں کہ مریض کو راحت پہنچانا اور تسلی دینا مقصود ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کی خوشی اور راحت کی خاطر اور اس کے اہل خانہ کے تعاون کے لیے خالص ہدیہ کی نیت سے مالی تعاون ضرور کرنا چاہیے۔ خاص طور سے جب کہ مریض کے اہل خانہ ضرورت مند ہوں۔ عملاً اس میں بہت کوتاہی ہوتی ہے۔ اکثر لوگ رسمی طور پر پھل فروٹ لے جانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ بسا اوقات مریض ان پھلوں کو استعمال بھی نہیں کرتا۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق ایک بند لفافے میں کچھ نقد بطور ہدیہ دے کر آنا چاہیے۔ البتہ یہ عمل فرض یا واجب نہیں۔ اس لیے اس کو لازم سمجھ لینا درست نہیں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اگر ہدیہ کے لیے کبھی کچھ نہ ہو تو اس کی وجہ سے عیادت جیسی اہم فضیلت سے محرومی ہو جائے۔ اور نہ ہی اس کو یہ ہدیہ قرض کے طور پر دیا جائے۔ تاکہ مرض کی تکلیف میں قرض کا بوجھ اور اضافہ نہ کردے۔ البتہ کبھی بڑی رقم قرض دینے کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔
مریض کے پاس زیادہ دیر نہیں ٹھہرنا چاہیے۔ بعض مرتبہ مریض کو آرام یا بعض خاص ضروریات کو پورا کرنے کا تقاضا ہوتا ہے، بیمار اور تیماردارمہمان کے واپس جانے کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ زبان سے کہنا مناسب نہیں سمجھتے جس سے انھیں تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ البتہ اگر مریض خود خواہشمند ہو اور گھر والوں کو بھی کوئی پریشانی نہ ہو تو پھر مریض کی دلجوئی کے لیے دیر تک بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔
بسا اوقات مریض کے ساتھ دن یا رات میں ہاسپٹل میں قیام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر مریض یا اس کے گھر والوں کی طرف سے ہاسپٹل میں رکنے کا مطالبہ ہو تو ضرور اسے رضائے الٰہی اور خدمتِ خلق کے جذبے سے قبول کرنا چاہیے بلکہ اسے اپنے لیے دارین کی سعادت سمجھنا چاہیے۔
مریض کو صحت و تندرستی اور زندگی کی امید دلائیں۔ مریض کے سامنے ناامیدی اور مایوسی والی باتوں سے بالکل احتراز کریں۔ مرض کی ساری تفصیلات مریض سے نہ دریافت کریں بلکہ مریض کو تو صرف حوصلہ اور ہمت دلائیں۔ خود مریض سے دعا کی درخواست کریں نیز مریض کے لیے بھی دعا کریں۔ خصوصاً وہ مسنون دعائیں جو ایسے موقعوں پر آپ ؐ اور صحابہ کرامؓ سے ثابت ہیں۔جیسے ایک مختصر دعا جس کو امام بخاری ؒنے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ نبیؐ ایک دیہاتی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ نبیؐ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کسی مریض کی بیمارپرسی کرتے تو اس طرح دعا کرتے: لَا بَاْسَ طَھُوْرٌ إِنْ شَاءَ اللهُ، جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حرج نہیں اگر اللہ نے چاہا تو یہ بیماری گناہوں سے معافی کا سبب ہوگی۔ مریض کو اس کے اعمالِ حسنہ کا واسطہ دے کر تسلی دیں۔ اس سے مریض میں حوصلہ اور ہمت پیدا ہوگی۔ جب آپؐ غار حرا سے پہلی وحی کے بعد گھبرائے ہوئے گھر واپس آئے تو حضرت خدیجہ ؓ نے آپؐ کو آپؐ کے نیک اعمال اور کارِ خیر کے ذریعے تسلی دی اور آپ ؐ کو اس کے بعد کافی اطمینان ہوا۔ اسی طرح نیک اعمال کے ذریعے بنی اسرائیل کے وہ تین لوگ جو ایک غار میں پھنس گئے تھے جنھوں نے اپنے اپنے نیک اعمال اور کارِ خیر کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس مصیبت سے نجات دی۔
مریض کو سکون اور خاموشی کا ماحول اچھا لگتا ہے۔ شور و غل سے تکلیف اور الجھن محسوس ہوتی ہے۔ غیر ضروری باتوں سے پر ہیز کرنا چاہیے۔
منفی مثالیں اور ہمت توڑنے والی گفتگو بالکل نہ کریں۔ طریقۂ علاج اور معالج پر تنقید نہ کریں۔ اسی طرح مریض کے سامنےاس کی عمر کا تذکرہ بالکل نہ کریں۔ اس طرح کے جملوں سے پرہیز کریں جیسے ’’عمر کا تقاضا ہے‘‘، ’’کافی لمبی عمر پائی‘‘یا ’’آپ کی عمر بھی تو اتنی ہوگئی‘‘وغیرہ۔ اس لیے کہ انسان کی عمر کتنی بھی ہو اس کے لیے اس کی صحت اور زندگی کی اہمیت ہے۔
ہر حال میں مریض کو خوش رکھنے کی اور آرام پہنچانے کی کوشش کریں۔ کوئی بھی ایسی بات یا عمل جس سے مریض کو تکلیف ہو اس سے احتراز کریں۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2024