بالعموم فریضۂ اقامت دین کے سلسلے میں سورۃ الشوریٰ کی آیت ۳۱ سے استدلال کیاجاتا ہے۔ وہ آیت یہ ہے:
شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہِ نُوحاً وَالَّذِیْ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہِ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوسَی وَعِیْسَی أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیْہِ (الشوریٰ:۱۳)
’’اس میں تمہارے لئے دین کاوہی طریقہ مقرر کیاہے جس کا حکم اُس نے نوح کو دیاتھا اور جسے (اے محمد) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسٰی و عیسٰیؑ کو دے چکے ہیںاس تاکید کے ساتھ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجاؤ۔‘‘
اس فریضہ کی وضاحت کہیں امربالمعروف و نہی عن المنکر کی اصطلاح میں بھی کی گئی ہے:
کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ (آل عمران:۱۱۰)
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے میدان میں لایاگیاہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَo وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(آل عمران:۱۰۴،۱۰۵)
’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جولوگوںکونیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور بُرائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔ لیکن تم اُن لوگوں ہی کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایت پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے۔‘‘
اس فریضہ کی ادائیگی بحسن و خوبی انجام پائے، اس کے لئے شرط اوّل دونوں مقامات پر (الشوریٰ و آل عمران میں) یہ بتلائی گئی ہے کہ اس فریضہ کا حامل گروہ (یا امت) تفرقہ و اختلاف سے اپنا دامن بچائے رکھے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس فریضہ پر مضبوطی سے جم جائے اور لوگوں کو اس کی دعوت دے۔ ان شرائط کی تکمیل پر انعام واکرام، دنیوی واخروی فلاح کی یقین دہانی کے ساتھ عدم تکمیل پر دنیوی خسران اور آخرت میں عذاب عظیم سے دوچار ہونے کی دھمکی معاملے کی سنجیدگی کئی گنا بڑھادیتی ہے۔
دعوت حق نہ صرف فریضہ ہے بلکہ پیش کش کے لحاظ سے ’’عمل صالح‘ بھی ہے جس کا دنیوی ثمرہ ’’حیات طیبہ‘‘ (پاکیزہ زندگی) اور ’’رزق کریم‘‘ ہے۔ ماضی کی اقوام (بنی اسرائیل وغیرہ) نے اس فریضہ اور اسکے تقاضوں کو نظرانداز کیا اور محض اپنے موروثی و نسلی مقام کو بنائےفضیلت سمجھنے کی نادانی اس کی پاداش میں دنیا میں ہی رسوائی، ذلت و مسکنت سے دوچار ہوئے۔
کلام الٰہی اہل ایمان (مردو خواتین) کی خصوصیات میں فریضہ امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تذکرہ کرتا ہے۔ اہل ایمان ایک دوسرے کی رفاقت کاحق ادا کرنے والے عبادات میں ساتھی اور اللہ و رسول کی اطاعت میں ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔ یہ طرزِعمل اُن کو اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کا مستحق بناتا ہے۔
اس فریضہ کی ادائیگی ایمان و عمل سے مربوط ہے۔ وعدۂ ربانی کے مطابق خلافتِ ارضی کا حصول، امن و عافیت سے معمور دنیوی حیات اور دنیاو آخرت میں رضائے الٰہی کی نعمت کبریٰ سے سرفرازی وہ انعامات ہیں جن کے ملنے کا یقین اس فریضہ کا نہایت طاقتور محرک ہے۔ اسی لئےمومن حیاتِ دنیوی میں اس مشن کے تکملہ کی خاطر اقتدار کا آرزومند ہے۔ اس کی دعا و سلیقہ خود مالک کائنات نے اسے سکھایا ہے۔
سورۂ بنی اسرائیل آیت ۸۰ کی تشریح کرتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں:
’’اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے‘‘ یعنی ’’یا تو مجھےخود اقتدار عطا کر یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنادے تاکہ اس کی طاقت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کرسکوں، فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں اور تیرے قانونِ عدل کو جاری کرسکوں۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصریؒ اور قتادہؒ نے کی ہے اور اسی کو ابن جریرؒ اورابن کثیرؒ جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیار کیا ہے۔ اور اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کرتی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سدِّباب کردیتاہے جن کا سدِّباب قرآن سے نہیں کرتا۔ اس سے معلوم ہواکہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتاہے وہ صرف وعظ و تذکیر سے نہیں ہوسکتی بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لئے سیاسی طاقت بھی درکار ہے پھر جب کہ یہ دعا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خود سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ اقامتِ دین اور نفاذِ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لئے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب و مندوب ہے۔‘‘ (تلخیص تفہیم القرآن)
سیاست دین کاجزو لاینفک تھی اور اہل حق و دیندار لوگ سیاست کو شجرممنوعہ نہیں کہتے مگر عملی روش عموماً یہ ہے کہ سیاست حدبندیوں اور سخت گیر شرائط کی تابع رہی ہے وہ اس بارے میں عملیت پسند (Pragmatic) اور حکمت عملی (Practical wisdom)کے کبھی قائل نہیں رہے ۔ آمادگی قلب کے ساتھ عملی حصہ لینے کے روادار نہیں رہے۔ اس مخمصہ میں کیاملا؟
جس کو جان و دل عزیز
وہ اس گلی میں جائے کیوں؟
اقامت دین، دستور جماعت کی رو سے
دستور جماعت اسلامی ہند میں ’’اقامت دین‘‘ کی اصطلاح اختیار کی گئی ہے۔ مستعمل ہے۔ جماعت کے پہلے دستور میں اقامت دین کے بجائے ’’حکومت الٰہیہ‘‘ کے الفاظ تھے۔ نصب العین کی تشریح اس طرح کی گئی ہے: ’’عقائد، عبادات، اخلاق سے لے کر معیشت، معاشرت اور سیاست تک انسانی زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہے جو دین کے دائرے سے خارج ہو۔ یہ دین جس طرح رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کا ضامن ہے اسی طرح دنیوی مسائل کے موزوں حل کے لئے بہترین نظام زندگی بھی ہے اور انفرادی و اجتماعی زندگی کی صالح و ترقی پذیر تعمیر صرف اس کے قیام سے ممکن ہے۔
اس دین کی ’’اقامت‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کسی تفریق وتقسیم کے بغیر اس پورے دین کی مخلصانہ پیروی کی جائے اور ہر طرف سے یکسوہوکر کی جائے اور انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی گوشوں میں اسے اس طرح جاری و نافذ کیاجائے کہ فرد کا ارتقاء، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل سب کچھ اس دین کے مطابق ہو۔ اس دین کی اقامت کا مثالی اور بہترین نمونہ وہ ہے جسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے قائم فرمایا۔
نصب العین کی نظری وضاحت کے بعد اس کا عملی پہلو نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے یعنی اس مثالی منزل تک پہنچنے کی راہ اور لائحہ عمل کیا ہو۔ طریق کار میں وضاحت ہے کہ قرآن و سنت اصولی اساس کار ہوںگی۔ حسب ذیل اصول خطوط کار میں روح رواں کی حیثیت سے شامل ہیں۔ یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ عصر حاضر میںقانون کی حکمرانی، عدل و قسط کا قیام اور حقیقی مساوات و مواخاۃ کا حصول اگر ممکن ہے تو مذکورہ نصب العین ہی کے ذریعے ممکن ہے۔
- اخلاقی حدود کی پابندی
- صداقت و دیانت کے خلاف ذرائع اور طریقوں سے اجتناب
- فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کشمکش اور فساد فی الارض کے موجب طریقوں سے اجتناب
- پرامن اور تعمیری طریقوں کو اختیار کرنا
- تبلیغ و تلقین اور اشاعت افکار سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح
- ملک کی اجتماعی زندگی میں مطلوبہ صالح انقلاب کے لئے رائے عامہ کی تربیت
اقامت دین اور سیاسی عمل
اقدار پر مبنی سیاست صالح انقلاب کا مطمح نظر ہے۔ معاملات دنیا کی زمام کار فسّاق و فجّار کو سونپنے کے بجائے مومنین صالحین کے سپرد کی جانی چاہئے۔ وہی اقتدار کو اللہ رب العالمین کی امانت سمجھتے ہوئے اس کا استعمال بندگان خدا کی فلاح وبہبود کے لئے کریں گے۔ اقدار پر مبنی سیاست اور اقامت دین کی مساعی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اقدار پر مبنی سیاست کا مقصود یہ ہے کہ معاملات دنیا کی زمام کار نظری اور عملی حیثیت سے شفاف کردار کے حاملین کو حاصل ہو۔ اقامت دین کامطمح نظر بھی یہی ہے کہ مومنین صالحین کو خلافت ارضی سونپی جائے۔
عموماً مذہب و دین و اخلاق کے پابند لوگ سیاست میں حصہ لینے کو دین سے مغائر سمجھتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ عصرحاضر میں جوہر اقتدار (Substance of Power)کسی ایک جگہ مرکوز نہیں ہے۔ عوام الناس اپنی رائے کا وزن عوامی منتخبہ نمائندوں کو منتقل کرتے ہیں، مگر حکومت کی تشکیل سادہ اکثریت حاصل کرلینے والا گروہ کرتا ہے اور باقی عوامی نمائندے حزب اختلاف کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہندوستان میں صدر جمہوریہ کا انتخاب عوامی منتخبہ نمائندوں کے مجموعہ کی سادہ اکثریت سے ہوتا ہے۔ دوسرے موثر عوامل یہ ہیں۔ عوام اور ان کی رائے عامہ خواص (Elite)اور ان کے اثرات، ذرائع ترسیل و ابلاغ، مقننہ ، عدلیہ، انتظامیہ (بیورو کریسی)، فوج، نوجوانوں کی نئی نسل کے رجحانات، سرمایہ دار، تجار اور صنعت کار، بڑے بڑے تعلیمی اداروں کے مالکین و منتظمین، دانشوران و علوم جدیدہ کے ماہرین یہ سب موثر رائے عامہ بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ تشہیر اور اثرورسوخ کے ذریعے اپنے پسندیدہ رجحانات کو پھیلاکر جوہر اقتدار کے مراکز پر اپنا بالواسطہ یا بلاواسطہ شکنجہ مضبوط رکھتے ہیں۔ اس لئے سیاسی اقتدار کا متمنی کوئی گروہ جامع و موثر منصوبہ بندی کے بغیر ملکی اقتدار کے حصول کی سیڑھیاں عبور نہیں کرسکتا۔
سیاست کے اصطلاحی معنی
عرف عام میں ’’سیاست‘‘ اقتدار کے لئے کسی فرد یا جماعت کی جدوجہد کو کہتے ہیں۔ سیاسی عمل میں آج کل مکرو فریب ، دھوکہ و دھاندلی ، تشدد و غنڈہ گردی، جھوٹ و دغا بازی کابڑادخل ہوگیاہے۔ دین و اخلاق کا اثر برائے نام بھی نہیں رہ گیاہے اس لئے سیاست میں حصہ لینے کو بالعموم گندگی میں ملوث ہوجانے کے برابر سمجھاجاتا ہے۔ میدانِ سیاست میں داخلہ اور اس میں کامیاب وکامران ہونا آسان نہیں ہے۔ ’’اقامتِ دین‘‘ کے نصب العین کے حصول کی راہ پر گامزن ہونا اور اس کے مختلف مراحل طے کرنا کارِ جہاںبانی سے کم نہیں ہے۔ اس کے لئے مخصوص منصوبہ بندی درکار ہے۔
اقامت دین کے تین مہماتی امور
فرد کا ارتقاء ، معاشرہ کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل میں سے اولین دونوں امور رائے عامہ کو صالحیت عطا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بتدریج مطلوبہ صالح و تعمیری انقلاب کا موجب ہوتے ہیں۔ ایک صالح و بیدار مغزقیادت اور ایثار پسند وابستگان ، پائیدار اقدامات کے ذریعے انقلاب و تبدیلی کو قریب لاتے ہیں، جہاں جو ریاست کے اداروں کی زمام کار مومنین صالحین کے سپرد ہوجاتی ہے۔
انقلاب قیادت و اقامت دین
اقامت دین کے عناوینِ ثلاثہ: فرد کاارتقاء، معاشرہ کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل باہم دگر مربوط ہیں۔ افراد کا اصولی مجموعہ ہی معاشرہ ہے اور کئی معاشروں (سیاسی، سماجی، معاشی اداروں) کامجموعہ ریاست ہے۔
اس بیان کو ایک مثلث کی شکل میں یوں بنایا جاسکتا ہے:
فرد کے ارتقاء کاایک سرا معاشرہ کی تعمیر اور دوسرا سرا ریاست کی تشکیل سے جڑا ہوا ہے۔ یہی حال معاشرہ کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کے امور سے اسی طرح باہم دگر مربوط ہونے کے علاوہ یہ ایک دوسرے پر منحصر یعنی ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ بھی ہیں۔ فرد کے اخلاق وکردارکا ارتقاء صحیح علم، بہتر تربیت اور پاکیزہ ماحول کے ذریعے ہوتا ہے۔
پاکیزہ خدا ترس، ماحول صرف اور صرف ایک ایسا مثالی معاشرہ فراہم کرسکتا ہے، جو خدا پرستی، فکرِآخرت اور پیغامِ رسالت کی کرنوں سے منّور ہو۔
اس مثالی معاشرہ کی اٹھان، استحکام و بقاء کی ضمانت وہی ریاست دے سکتی ہے جہاں اقتدار کو اللہ کی امانت سمجھاجائے اور امانتوں کا بار ان کے اہل کے حوالے کیا جاتا ہو۔
کسی شاندار عمارت کاخاکہ تیار کرلینا کافی نہیں۔ علم تعمیر کے ماہر افراد مضبوط وپائیدار سامان (Building Material)اور بہترین و محنتی کارکنوں کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ عمارت کے محل وقوع ، ہوا، روشنی، پانی کے نظام کو بھی دیکھناہوتا ہے۔ اسی طرح ’اقامت دین‘ کے عنوان سے دین کی شاندار عمارت کی تعمیر مطلوب ہے۔ ’’بنیان مرصوص‘‘ کے استحکام والی عمارت بنانی ہے۔ تعمیری مواد و مسالہ دین کی عمارت کے لئے ہے کسی ’دوسری‘ عمارت کے لئے نہیں ہے۔ جن لوگوں پر بطور فریضہ عائد ہواہے وہ کوئی مذہبی رسم نہیں بلکہ فریضہ (Duty) کے طورپر بحسن و خوبی ادا کرنے کے خواہش مند ہیں اور اس کا انعام ابدی قیام اور نعمتوں بھری جنت ہے اور اس کا حقیقی محرک رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ اقتدار ایک امانت ہے جس کا حق مومنین صالحین ہی ادا کرسکتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ (النور:۵۵)
’’اللہ نے وعدہ فرمایاہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے۔ ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے اور ان کی (موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا۔‘‘
اقتدار کے ذیلی مراکزقوت بھی آج فسّاق و فجّار قائدین کے زیرتصرف ہیں، جو اقامت دین کی راہ میں زبردست رکاوٹ ڈالتے رہتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ بھی مومنین صالحین کو خبردار فرمارہا ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْء ٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ (البقرۃ:۱۵۵)
’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اورآمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریںگے ان حالات میں جو لوگ صبر کریں انہیں خوش خبری دے دو۔‘‘
صابر و شاکر اور راہ استقامت میں ڈٹے رہنے والے صحابہ ٔ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کا اسوہ ہمارے پیش نظر ہے، جن کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کو اپنے نبیؐ کی صحبت اور دین کی اقامت کے لئے چُن لیاتھا۔
دعوت واقامت دین کے نصب العین کو جن مومنین صالحین نے اپنی زندگی کا محور ومقصود اصلی قرار دیاہے اور اعلیٰ وجہ البصیرۃ اسے کارگاہِ حیات بنایا ہے انہیں راہِ خدا میں ابتلاء و آزمائش کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ایمان کا مفہوم خدا کے ہاتھوں خود کو (جنت اور رضائے الٰہی کے عوض) فروخت کردینا ہے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2013