ایران کی اسرائیل سے جنگ اور اس میں ایرانی جرنیلوں سمیت کئی سائنس دانوں کی شہادت ایک اندوہناک واردات تو ہے مگر کوئی نئی واردات نہیں ہے۔ایران کے اندر اسلامی انقلاب کے بعداوّل تو امریکہ و سوویت یونین نے مل کر عراق کے ذریعہ حملہ کروادیا ۔وہ جنگ 8 ؍ سال چلی۔اس کے دوران مجاہدین خلق نامی اشتراکی تنظیم نے ایران کی اعلیٰ قیادت کو بم دھماکےمیں شہید کردیا ۔ اس کے باوجود اسے دونوں عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل رہی۔ایران کے وزیر اعظم محمد جواد بہونر کے دفتر پر 30؍ اگست 1981 کو مجاہدین خلق (MEK) نےیہ دہشت گردانہ حملہ کیا۔اشتراکی نظریات کے حامل ہونے کے باوجود بغضِ معاویہ میں اس بدنامِ زمانہ گروہ کا دفتر آج بھی امریکہ کے اندر پنٹاگون کے سائے میں موجود ہے۔اس جان لیوا حملےمیں وزیر اعظم بہونر، صدر مملکت محمد علی رجائی، اور چھ دیگر ایرانی سرکاری اہلکارشہید ہو گئے تھے۔اس سے دو ماہ قبل ایران کے چیف جسٹس محمد بہشتی سمیت ستر ّسے زائدجن ایرانی اہلکاروں کو شہید کردیا گیا ان میں وزیر اعظم کی انتظامیہ کے ڈائریکٹر جنرل بھی شامل تھے ۔ایران کے مرشد اعلی خامنھ ای کو شہید کرکے ایران کو پسپا کرنے کا خواب دیکھنے والے نیتن یاہو کو ان واقعات کا علم ہوتا تو یہ خوش فہمی نہ ہوتی ۔امت افراد نہیں ایمان پہ زندہ ہے۔
آج سے پینتالیس سال قبل ایک نوزائیدہ انقلاب کو جب نصرت خداوندی نےحالتِ جنگ میں ایسی بڑی آزمائش سے بحسن و خوبی گزار دیا تو اب داخلی و خارجی دنیا میں بے شمارمثبت تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں ۔ایران کے اسلامی انقلاب کی ننھی سی کونپل اب ایک تناور درخت بن گئی ہےاور اس کی شاخیں اس ارشاد ربانی کے مصداق آسمان میں لہرا رہی ہیں:’’ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں ۔”
طاقت کے عالمی توازن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایسی غیر معمولی تبدیلی آئی ہے کہ جس کا نصف صدی قبل تصور بھی محال تھا ۔اسلامی انقلاب کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ نے ایران کے لیے ’بدی کا محور‘ کی اصطلاح گھڑی لیکن غزہ میں جاری کشمکش نے ثابت کردیا کہ وہ تو مزاحمت کے محور کا مرکز بن چکا ہے۔یہ بات جہاں مسلمانانِ عالم کو شاد باد کرتی ہے وہیں دشمنانِ اسلام کو پریشان اور پشیمان کردیتی ہے۔بغض و حسد کی آگ میں جلنے والے ان لوگوں کی عداوت نے سارے عالم کے انصاف پسندوں کو ایران کا ہم نوا بنا دیا ہے۔اسرائیلی حملے کے خلاف ایران کی حمایت میں شانہ بشانہ کھڑے رہنے والوں میں جہاں پاکستان، افغانستان اور سعودی عرب جیسےبے شمار مسلم ممالک ہیں وہیں چین، روس اور جاپان جیسی استعمار مخالف قوتیں بھی ہے۔اس فرق کو محسوس کرنے کے لیےموجودہ تصادم سے 1980 کی جنگ کا موازنہ کافی ہے۔اس وقت ایران کے اندر اور باہر سب کچھ اس کے خلاف تھا لیکن ارشادِ قرآنی ہے:’’ (اے نبیؐ) کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟ یہ لوگ اُس کے سوا دوسروں سے آپ کو ڈراتے ہیں حالانکہ اللہ جسے گمراہی میں ڈال دے اُسے کوئی راستہ دکھانے والا نہیں‘‘۔
اسلامی انقلاب کے بعد جب امام خمینی نے امریکہ کو’ شیطانِ بزرگ‘ کے لقب سے نوازا تو اس کے حریفِ اول سوویت یونین کا دل خوش ہوگیا لیکن پھر ’لاشرقیہ لا غربیہ ، اسلامیہ ‘ کے نعرے نے اس کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا ۔اس طرح سرد جنگ کے دوران اسلام کے خلاف پہلی اور آخری بارسرخ بھالو اور سفید بھیڑیا یکجا ہوگئے۔اسلامی انقلاب کی مقبولیت نے ہم سایہ عراق کے سربراہ صدام حسین کے اندرایک عدم تحفظ کا احساس پیدا کردیا تھا کیونکہ عراق کی اکثریت شیعہ فرقہ سے تعلق رہتی تھی اور ان کے اندر دینی بیداری صدام حسین کی بعث پارٹی اور اس کےاشتراکی نظریے کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی ۔اس عدم تحفظ کو ہوا دے کر سوویت یونین اور امریکہ بہادر نے صدام حسین کو آمادۂ جنگ کردیا۔یہ تو خارجی عوامل تھے مگر ایران کے اندر رضا شاہ پہلوی کے خلاف اشتراکی اور اسلامی قوتیں یکجا تھیں ۔ مجاہدین خلق کو توقع تھی کہ شاہِ ایران کے بعد ملک میں سرخ پرچم لہرائے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔جمہوریت نوازوں کی تسکینِ خاطر کے لیےامام خمینی نے استصواب کرواکر عوام سے نظام حکومت کی بابت رائے طلب کی تو 99؍ فیصد سے زیادہ لوگوں کی تائید ِ اسلام نے مجاہدین خلق کے خواب چکنا چور کردئیے ۔جنگ کے دوران اس تنظیم نے صدام حسین کی حمایت کرکے اپنا رہا سہا وقار بھی مٹی میں ملا دیا اور آج کل امریکہ کی پناہ میں ہے۔
ایران کے ساتھ عراق کا تصادم محض شیعہ و سنی ، قدیم وجدیدیا اشتراکی و اسلامی نظریات کی لڑائی نہیں تھی بلکہ عراق نے شط العرب پر اپنا دعویٰ کرکے 1930میں طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔اس لیے ساری دنیا کو عراق کے بجائے ایران کی حمایت کرنی چاہیے تھی مگر جب اسلام کا چیلنج سامنے آتا ہے تو مغرب و مشرق کے حکمراں اپنے سارے باہمی اختلافات ، خوشنما نعروں اور اصول و ضوابط کوبالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔غزہ کو تباہ وتاراج کرنے والے اسرائیل کو طوفان الاقصیٰ کےخلاف اپنے دفاع کا حق فراہم کرنے والی مغربی دنیا بھول گئی ہے کہ اس بار ایران پر حملہ کرنے کی غلطی اسرائیل نے کی ہے اور اپنی مدافعت کا حق ایران کے پاس آگیا ۔اسرائیل نے بلا اشتعال حملہ کرکے ایرانی جرنیلوں سمیت جوہری سائنس دانوں کے قتل کا ارتکاب کیا ہے ۔ا س کے باوجود مغرب کے منافق وہی پرانا اسرائیل کو دفاع کا حق ہے والاراگ الاپ رہے ہیں ۔اسرائیل جیسے حملہ آور کے لیےجس پر عالمی عدالت میں نسل کشی کا مقدمہ چل رہا ہے دفاع کے حق کی بات کرنا بدترین دوغلاپن ہے ۔اس نے مغرب کو پھر ایک بار ساری دنیا کے سامنے پوری طرح برہنہ کردیا ہے۔
ماضی اور حال میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اس بار امریکہ کے ساتھ سوویت یونین کے وارث روس یا چین نہیں ہیں۔ الٹا وہ دونوں ایران کے ساتھ کھڑے ہیں۔امریکی صدر تو صرف جنگ میں شامل ہونے کی دھمکی دے رہے ہیں حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ جنگ اسرائیل نہیں اس کا آقا لڑرہا ہے مگر خبروں کے مطابق چین کا مال بردار جہاز تہران پہنچ چکا ہے۔دوران جنگ وہ جہاز کیا لے کر آیا ہوگا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔آپریشن سیندور کے دوران چینی اسلحہ نے فرانسیسی جہازوں کو گرا کر اپنی برتری ثابت کردی ہے۔رافیل کے گرجانے پر ہندوستان کو ایف 35ایس خریدنے کی ترغیب دینے والے امریکہ کے لیے یہ بری خبر آگئی ہے کہ ایران نے خود اپنے تیار کردہ میزائل کی مدد سے تین عدد امریکی لڑاکا طیاروں کو زمین بوس کردیا ہے۔اس طرح ایک ماہ کے اندر امریکہ اور فرانس کی حربی برتری کا ہوّاہوا ہوائی ہوچکا ہے۔ایران نے اپنے سُپر سونک میزائل کی یلغار سے آئرن ڈوم میں دراڑ ڈال کراسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کی خام خیالی کو ملیا میٹ کردیاہے۔
ایران کو ڈرانے کے لیے جب حملہ کیا گیا تو اس کے جواب میں جس صبر واستقامت کا مظاہرہ ہوا وہ دیکھ کر یہ آیت یاد آتی ہے :’’ یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہاکہ لوگو ں نے تمہارے لیے عظیم لشکر جمع کرلیا ہے لہذا ان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا اور انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے خدا کافی ہے اور وہی ہمارا کارساز ہے‘‘۔ایرانی ٹیلی ویژن سینٹر پر بمباری کے بعد دھول اور ملبے پر کھڑی ہوکر اینکرسحر امامی کہتی ہیں ’دوبارہ حملہ کرو ، ہم موت سے نہیں ڈرتے۔ہم اپنے وطن ،اپنے ایمان اور اپنی عزت کی خاطر ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں‘ ۔انسانی تاریخ میں جنگ ہارنے کے بعد بھاگنے والوں کی تو کئی مثالیں ملتی ہیں لیکن درمیان میں چھپ کر بیٹھ جانے والا نیتن یاہو پہلا حکمراں ہے ۔قرآن حکیم میں یہودیوں کی بابت یہی کہا گیا ہے کہ:’’تم انھیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤ گے حتیٰ کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے، حالانکہ لمبی عمر بہرحال اُسے عذاب سے تو دور نہیں پھینک سکتی جیسے کچھ اعمال یہ کر رہے ہیں، اللہ تو انھیں دیکھ رہا ہے ‘‘۔اللہ کی کتاب یہودکے دلوں میں موت سے وحشت کی یہ وجہ بتاتی ہے کہ:’’یقین جانو کہ یہ کبھی اس کی تمنا نہ کریں گے، اس لیے کہ اپنے ہاتھوں جو کچھ کما کر انھوں نے وہاں بھیجا ہے، اس کا اقتضا یہی ہے (کہ وہاں جانے کی تمنا نہ کریں) اللہ ان ظالموں سے خوب واقف ہے‘‘۔
فی الحال ایسا ہے کہ ایک طرف اسرائیل کے عوام اپنے رہنما کو اس جنگ میں جھونکنے کے لیے کوس رہے ہیں اور فوج کے ترجمان لیفٹننٹ کرنل نداف شوشانی کہہ رہے ہیں کہ ایران سے نمٹنا ایک مشکل آپریشن ہے نیز اپنے ایریل ڈیفنس کی ناکامی کا اعتراف بھی کرتے ہیں ۔دوسری جانب پوری ایرانی قوم ظالم و جابر حملہ آور کے خلاف سینہ سپر ہے۔اس جنگ سے پہلے عالمی ماہرین یہ قیاس آرائی کررہے تھے کہ آپریشن سیندو ر کے بعد امریکہ اس لیے پاکستان کی ناز برداری کررہا ہے کیونکہ وہ اسے ایران کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے ۔افغانستان کے ائیر بیس کو بھی ایران کے خلاف استعمال کرنے کی خبر اڑائی گئی اور سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے ایران کا دورہ کیا تو اس کا مطلب لیا گیا کہ وہ امریکہ کا یہ پیغام بلکہ دھمکی پہنچانے کے لیے وہاں گئے تھے کہ چپ چاپ امریکی شرائط پر جوہری سمجھوتہ کرلو ورنہ خیر نہیں مگر اسرائیلی حملے کے بعد یہ ساری خوش فہمیاں ہوا ہوگئیں۔
امریکہ کو اس بار اپنے ارمان نکالنے کے لیے جب کوئی عراق جیسا مسلم ملک نہیں ملا تو اس نے اسرائیل کو ایران پر حملے کی اجازت دے دی۔نیتن یاہو کی بھی یہ بہت بڑی سیاسی ضرورت تھی۔غزہ سے حماس کو ختم کرنے میں پسپائی اور اسرائیلی یرغمالوں کو چھڑانے میں ناکامی کے بعد وہ اپنے عوام میں انتہائی غیر مقبول بلکہ قابل نفرت ہوگیا تھا ۔حریدیم فرقے کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ان کی حمایت میں یہودی انتہا پسند سیاسی حامیوں نے نیتن یاہو کے اقتدار کو ایک دوراہے پر کھڑا کردیا تھا۔اپنی ہی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی گواہی پر اقتدار چھن جانے کے بعد اس کا جیل جانا یقینی ہوگیا تھا اور عالمی عدالت کے وارنٹ نے اس سے فرار ہونے کی آزادی بھی چھین لی تھی ۔اس لیے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اس نے یہ خود کش حملہ تو کردیا لیکن اس سے ایران کوجوابی حملے کا موقع مل گیا۔غزہ کے مظالم کا انتقام لینے کے لیے ایران کو اسرائیلی پہل کا انتظار تھا ۔
تین ماہ قبل قصرِ ابیض میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ بحث و تکرار میں امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا :’’ آپ تیسری عالمی جنگ سے کھیل رہے ہیں۔آپ جو کر رہے ہیں، وہ اس ملک کے لیے بہت ہی توہین آمیز ہے۔اس ملک نے آپ کو اس طرح سے حمایت دی ہے جیسا کہ کئی لوگ کہتے ہیں کہ نہیں دینی چاہیے تھی۔‘‘ کاش کہ ٹرمپ یہی بات اسرائیلی وزیر اعظم سے کہہ کر اسے جنگ شروع کرنے سے روک دیتے لیکن اپنے ملک کےا ندر جاری احتجاج و بغاوت کی پردہ پوشی کے لیے امریکی صدر نے ایسا نہیں کیا۔اب اگر امریکہ علی الاعلان اسرائیل کی حمایت میں آجائے تو چین اور روس کو ملوث ہونے کا موقع مل جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ اپنے بغل بچہ کو تباہ و برباد ہونے سے بچانے کی خاطر تین دن کے اندر ٹرمپ نے پوتن سے بات کرکے جنگ رکوانے کی درخواست کردی ۔
عالمی بساط اب اسرائیل اور امریکہ کے خلاف الٹ چکی ہے۔خود کو بہت زیادہ ہوشیار اور مکار سمجھنے والے خود اپنے جال میں پھنس چکے ہیں ۔احمق اور اقتدار کے حریص حکمرانوں کے سبب اسرائیل اور امریکہ کے عوام ایک بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہوچکے ہیں ۔امریکہ کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ جب بھی ایسی مشکل میں گرفتار ہوتا ہے تواپنے آلۂ کار کا شکار کرلیتا ہے۔ماضی میں اس نے عراق کے ساتھ یہی کیا اور حال میں یوکرین اس دغابازی کا شکار ہوچکا ہے۔ان دونوں نے امریکہ کے ایماپر بالترتیب ایران اور روس سے جنگ شروع کردی تھی اور جب ہارنے لگے تو خود ان کے آقا نے پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ۔بعید نہیں کہ مستقبل میں اسرائیل کابھی وہی حشر ہو اور نیتن یاہو بھی صدام حسین یا ولادیمیرزیلنسکی کی طرح بے یارو مددگار ہوجائے۔امریکہ و اسرائیل کی یہ حالتِ زار اس فرمانِ قرآنی کے مصداق ہے کہ :’’اور انھوں نے (یہودیوں نے عیسٰیؑ سے) مکاری کی تو اللہ نے بھی جوابی تدبیر کی اور خدا بہترین تدبیر کرنے والا ہے‘‘۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2025