الحاد انسانی تہذیب کے قدیم ترین افکار میں سے ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ معلوم انسانی شعور میں الحاداور خدا کا تصور بیک وقت موجود رہا ہے۔ الحاد کی تاریخ بہت دل چسپ ہے، لیکن یہ مضمون اس کا متحمل نہیں۔ مختصراً یہ کہ چوتھی صدی قبل مسیح سے موجودہ دور تک تسلسل کے ساتھ الحاد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یعنی انسانی شعور کی تاریخ کے تقریباً تمام معلوم ادوار میں الحادنمایاں فکر کی حیثیت سے موجود رہا ہے۔ حالاں کہ اس پر الحاد کے بعض مؤرخین اختلاف کرتے ہیں۔ لیکن یونان میں ایپی غورسی افکار (Epicureanism) کا تاریخی سفر مندرجہ بالا حقیقت کا غماز ہے۔ اس تصور سے جدید ملحدین (New Atheist) تک مشرقی مذاہب، جن کی عمر چھ سو سال قبل مسیح مانی جاتی ہے، جیسے جین مت، بدھ مت اور ہندو مت کے بعض فرقے بھی الحاد کے علم برداررہے ہیں۔ خود ملحدین کے گروہ کی درجہ بندی بھی موجود ہے۔ مثلاً قدیم ملحدین، ملحدین اور جدید ملحدین۔ قدیم ملحدین، جو سوسائٹی کے ڈر اور عیسائی قانون کے خوف کی وجہ سے کھلے عام اپنے ملحد ہونے کا اقرار نہیں کر سکتے تھے، اس لیے وہ اپنے آپ کو ایک ایسے خدا کا ماننے والا بناتے تھے، جسے کارخانۂ دنیا سے کسی بھی قسم کی کوئی دل چسپی نہیں ہوتی ہے۔ غالباً اسی فکر کا ارتقا شدہ تصورلاادریت (agnosticism) ہے۔ واضح رہے کہ عیسائی دنیا میں خدا کا انکار کرنے پر موت کی سزا دی جاتی تھی۔ اس لیے بڑی تعداد میں ملحدین نے غالباً یونان کے سب سے اہم مفکر ایپی غورس (Epicurus)کے فلسفے کی پیروی کی ہے جو ۳۰۰ قبل مسیح میں گزرا ہے۔ حالاں کہ ایپی غورس کا محور فکر یہ تھا کہ کائنات کسی مداخلت کے بغیر یا کسی غیر مرئی طاقت کے بغیر اتفاق اور طبعی قوانین کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوئی اور انھیں کی بنیاد پر رواں دواں ہے۔ (۱)
اسی فکر کا سہارا لے کر قدیم ملحدین نے اپنے آپ کو مذہبی اکثریتی جبر سے بچایا ایپی غورس کے افکار کے ارتقا یافتہ مظاہر جدید دور میں بھی مل جاتے ہیں۔
جدید دور میں اسے سائنسی حتمیت (scientific determinism)کہا گیا۔ حالاں کہ اب اس کی مقبولیت ویسی نہیں رہی، جیسی ابتدا میں تھی۔ جدید الحادی فکر سائنسی حتمیت سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔
کیا یہ بات دل چسپ نہیں ہے کہ جس جدید الحاد نے پوری دنیا میں ایک ہنگامہ برپا کر رکھا ہے، اس کی جڑیں بہت پرانی ہیں؟ کیا یہ انسانی شعوری ارتقا کا ناگزیر حصہ نہیں رہا ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ کیوں الحادی فکر نے ہر زمانے کے انسانوں کو متاثر کیا؟ جدید ڈاروینیت کے قائلین کے یہاں اس پر بڑی وقیع اور دل چسپ بحثیں ملتی ہیں۔ اس بحث کے کئی زاویے ہیں، ان میں سے سب سے اہم مذہب کی ضرورت، اجتماعی مربوطیت (social cohesion)کے تناظر میں ہے۔ یعنی مذہب انسانوں نے اس لیے ایجاد کیے کہ بحیثیت ایک گروہ وہ دیگر جانداروں کے گروہوں کے مقابلے میں سماجی یا اجتماعی مربوطیت کو رو بہ عمل لائیں اور اس طرح دوسرےگروہوں کے مقابلے میں بہتر سے بہتر ہوں۔ آپس میں ذرائع و وسائل پر لوٹ کھسوٹ نہ کریں بلکہ سماجی مربوطیت کی بنا پر ’’مل بانٹ‘‘ کر وسائل کا استعمال کریں اور بحیثیت ایک گروہ ارتقا کریں۔ یعنی ایک جیسے گروہ کے افراد ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی نہ کریں۔ اسے گروہی فٹنس(group fitness)بھی کہا جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک معلوم انسانی تاریخ میں الحاد ایک حاشیےکے طور پر ہی دیکھا گیا ہے۔ خواہ اس کے وجوہ کچھ بھی رہے ہوں، تاہم ۱۸۷۹ میں انقلابِ فرانس کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ الحاد کو مین اسٹریم میں جگہ ملنی شروع ہو گئی تھی۔ یہ دور عیسائیت کے اقتدار پر زوال کی تکمیل کا دور کہا جا سکتا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ عیسائی دنیا میں الحاد کو لے کر زبردست علمی ہلچل موجود رہی ہے۔ لیکن اسلامی دنیا میں اس پر اتنا کام نہیں ہوا جتنا کہ عیسائی دنیا میں ہوا۔ ایسا کیوں ہوا، یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔
بہر طور ۱۸۵۰ ء میں ڈارون کے مکتبۂ فکر کی بنیاد پڑی اور وہ سوالات جو انسانی وجود، کائنات، کائنات کی تخلیق، کائنات کی تخلیق کے مبدا، کائنات اور اس کے موجودات کے محرکات سے متعلق تھے، ان سوالات کے جوابات ڈارون کے نظریےکے مشمولات کی بنیاد پر دی جانے کی کوشش کی جانے لگی۔ ڈارون کے نظریات نے نوخیز ملحدین کو ضروری علمی غذا فراہم کی جو محض فلسفے کی نیم خوراک کی وجہ سے تغذیہ کی کمی کا شکار تھے۔ اور کہا جا سکتا ہے کہ یہیں سے الحاد جدید(new atheism) کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ حالاں کہ اسے اپنی موجودہ سطح تک نشو و نما پانے میں تقریباً ڈیڑھ سو برس کا عرصہ لگا۔ قدیم ملحدین، ملحدین اور جدید ملحدین میں خاصا فرق ہے۔ قدیم ملحدین مختلف وجوہ کی بنیاد پر الحاد کا اقرار کرنے سے ڈرتےتھے۔ ملحدین، جن کا دور ۱۶ ویں صدی عیسوی سے ۱۸۸۰ تک کہا جا سکتا ہے، انھوں نے مصلحت کوشی اختیار کی، اور براہِ راست اپنے آپ کو الحاد کا علم بردار نہیں بنایا۔ خود ڈارون انھیں میں سے ایک تھے۔ ڈارون کے مذہبی اعتقادات پر بڑا اختلاف ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ڈارون ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوئے اور انھوں نے عیسائیت کی پڑھائی بھی کی۔ بائبل کے تخلیقی نظریے کے قائلین اور جدید ڈاروینیت کے قائلین کے یہاں ڈارون کو بالترتیب خدا پرست اور ملحد ثابت کرنے کے لیے تصنیفات کی مقابلہ آرائی نظر آتی ہے۔ لیکن درج ذیل عبارت تصنیفات کی بھول بھلیوں میں ڈارون کے مذہبی خیالات اور اس کے اعتقاد کا بہت صاف اعتراف ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
’’یہ سوال کہ میں مذہبی ہوں یا نہیں، اس کے جواب میں میری ذہنی حالت اہتزاز کی حالت میں ہوتی ہے۔ اہتزاز کی شدید ترین حالت میں بھی میں ملحد نہیں رہا۔ اور جیسے جیسے میری عمر بڑھتی جا رہی ہے، یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ’لاادریت‘ لفظ میری اس ذہنی حالت کی سب سے صحیح ترجمانی کرے گا۔‘‘ (۲)
لیکن ہمارے نزدیک ڈارون کے اعتراف سے الحاد اور نظریۂ ارتقا کے تعلق یا نظریۂ ارتقا اور الحاد کے مابین رشتے کے بیانیہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔کیوں کہ نظریے کو ہمیشہ نظریہ ساز کی شخصیت سے الگ دیکھنا سائنس کی مسلم اور بنیادی حقیقت ہے۔ اس لحاظ سے درج ذیل سوالات اصل ہیں :
- کیا نظریۂ ارتقا کو ماننے کا مطلب الحاد کا اقرار ہے؟
- کیا ایک ڈارونسٹ یا جدید ڈارونسٹ مذہبی بھی ہو سکتا ہے؟ (عیسائیت کے اعتبار سے)
- کیا نظریۂ ارتقا الحاد کو تقویت پہنچاتا ہے؟
- کیا نظریۂ ارتقا جدید الحاد اور جدید ملحدین کے بیانیے کو سند فراہم کرتا ہے؟
کیا نظریۂ ارتقا کو ماننے کا مطلب الحاد کا اقرار ہے؟
عیسائی دنیا میں یہ سوال ڈارون کی مشہورِ زمانہ کتاب کے چھپنے کے فوراً بعد اس وقت کی عیسائی دنیا کے فکری افق پر نمودار ہو گیا تھا۔ چناں چہ 150 سال میں ایک وقیع لٹریچر اس کے اثبات اور نفی میں وجود میں آ چکا ہے۔ اسلامی دنیا میں جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے اس پر خاطر خواہ کام نہیں ہوا ہے، جو ہے وہ بھی محض بائبلی تخلیق کے قائلین کے کاموں کا عکس ہے، یا الفاظ کی رد و بدل کے ساتھ انھیں خیالات کا چربہ ہے۔ اس ضمن میں قرآنی تخلیقی نقطۂ نظر یا اسلامی تخلیقی نقطۂ نظر پر آگے تفصیلی بات آئے گی۔ لیکن نظریۂ ارتقا اور الحاد پر درج ذیل نکات قابل غور ہیں :
۱۔ نظریۂ ارتقا بالاصل انواع کے ظہور سے متعلق ہے اور انواع کے ظہور میں کارفرما حیاتیاتی عوامل اور ان سے جڑے ماحول سے بحث کرتا ہے۔ وہ اپنی اصل کے اعتبار سے ’’کیوں ‘‘ کا مکمل جواب نہیں بلکہ ’’کیسے‘‘ کا ادھورا جواب ہے، جس میں تبدیلی کی گنجائش ہر وقت موجود ہے۔
یعنی وہ انواع کے وجود میں آنے کے ’’کیوں ‘‘ کا مکمل جواب نہیں ہے، بلکہ انواع کیسے وجود میں آئیں، اس کا ایک بڑی حد تک نہ سہی لیکن قابلِ اعتبار حد تک تشفی بخش جواب ہے۔
۲۔ عیسائی مذہبی بیانیہ تخلیق کے سلسلے میں بہت واضح اور تفصیلی جزئیات کا حامل ہے۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا میں موجود انواع کی پیدائش ایک خاص فریم میں قید ہے۔ جس کی وجہ سے بیک وقت مذہبی اور ڈاروینیت کا قائل رہنا ممکن نہیں۔
۳۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ آپ مذہبی یا مذہب کو کس حیثیت میں مانتے ہیں؟ مذہب یا خدا پرست (theist) ہونے کے کون سے ابعاد پر آپ یقین کرتے ہیں۔ اگر آپ معروف معنوں میں ابراہیمی مذاہب کے پابند ہیں تو ان میں سے کون سے ابراہیمی مذہب اور اس میں موجود کون سے تصورِ خدا پر آپ کا یقین ہے۔ بالکل اسی طرح اگر آپ نظریۂ ارتقا کو مانتے ہیں تو آپ کا یقین کون سے نظریۂ ارتقا پر ہے۔ نظریۂ ارتقا پر مبنی محض نیچریت (natureism) پر یا جدید ڈاروینیت پر یا الحاد جدید پر۔ بالکل اسی طرز پر آپ الحاد کی کس شاخ سے خود کو منسوب کرتے ہیں۔ قدیم ملحدین، ملحدین یا جدید ملحدین۔ قدیم ملحدین اور جدید ملحدین میں بنیادی اور جوہری فرق یہ ہے کہ جدید ملحدین نہ صرف خدا کا انکار کرتے ہیں، بلکہ وہ مذہب کو نوعِ انسانی کے لیے خطرہ بتاتے ہیں اور اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ دنیا میں تمام قتل و غارت گری مذاہب کی وجہ سے ہے۔ (۳) چناں چہ یہ سوال کہ کیا نظریۂ ارتقا کو ماننے کا مطلب الحاد کا اقرار ہے، متعدد ابعاد کا حامل ہے۔ ہمارے نزدیک مذہبی ہونے اور ڈاروینیت کا قائل ہونے میں کوئی تقابل نہیں ہے، تا وقتیکہ آپ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کو ہی اپنا مذہب نہ ماننے لگ جائیں۔
۴۔ جدید نظریۂ ارتقا اور جدید ملحدین انسانی زندگی کو مقصدیت کے نام پر انسان دوستی یا ہیومنزم کے خوش نما نعرے تو دیتے ہیں لیکن اسے اپنانے کے لیے، برتنے کے لیے اور اس کے اصولوں کو عملاً نافذ کرنے کے لیے درکار قربانی دینے کے لیے بنیادیں فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے اگر کوئی چاہے تو نظریۂ ارتقا کو انواع کے وجود میں آنے کے تفصیلی طریقے کی تشریح کے طور پر مان سکتا ہے۔ لیکن مقصدیت کے لیے بہر حال اسے کسی نہ کسی مذہب کی پناہ لینی ہی ہوگی۔ کیوں کہ نظریۂ ارتقا بالعموم اور جدید ملحدین بالخصوص اس مقصدیت پر یا تو خاموش ہیں، یا جو مقصدیت وہ دیتے ہیں، اس سے انسانی ذہن مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوتا۔ (اس نقطۂ نظر کے اسلامی پہلو پر تفصیل آگے آئے گی)
۵۔ گو کہ نظریۂ ارتقا سیکڑوں راست اور غیر راست شواہد رکھتا ہے۔ اسی کے ساتھ سیکڑوں مفروضات اور قیاسات بھی رکھتا ہے۔ جس طرح مذاہب میں بعض اعتقادات (dogmas)ہوتے ہیں، اسی طرح نظریۂ ارتقا میں بھی اعتقادات ومفروضات موجود ہیں۔ وہی دلائل جو مذہب اور اس کے ماننے کے خلاف دیے جا سکتے ہیں، وہی رد و بدل کے ساتھ نظریہ ارتقا کے خلاف بھی دیے جا سکتے ہیں اور دیے جا رہے ہیں۔ دونوں خیموں کے ماہرین دل سے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں، چاہے عوام الناس میں بعض وجوہات سے نہ کر پائیں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ نظریہ ارتقا کا اقرار کامل طور پر الحاد ہے یا نظریہ ارتقا کو ماننے کے بعد انسانی مذہبی نہیں رہ سکتا، دونوں ادھورے بیانیے ہیں۔
۶۔ یہ بات درست ہے کہ منہجیت (methodological) سطح پر سائنس اور مذہب کا کوئی تقابل ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک مفروضات، مشاہدات، تجربات، حسیات، اعداد و شمار، استنباط، استخراج پر ہے۔ ہر تھیوری اور ہر بیانیہ تنقید، حذف و اضافہ کے لیے ہر ایک کے لیے کھلا ہے۔ جب کہ اسلام کو چھوڑ کر تمام مذاہب میں ساختیاتی سختی (structural rigidity) موجود ہے۔ اسلام میں ساختیاتی عدم لچک نہیں ہے۔ تمام مذاہب میں ہر اصول پر سوال نہیں اٹھائے جا سکتے، اور کتابی لفظ پرستی(scripture literalism) ناگزیر ہے، جبکہ سائنس میں اصولوں پر سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ مذاہب میں بعض اعتقادات ہیں، بعض مفروضات ہیں اور بعض اصول یقینِ محض کے متقاضی ہیں۔ لیکن بظاہر ایسا نظر آنے والا یہ تضاد در اصل سائنس کو سمجھنے کی سطحی دلیل ہے۔ سائنس میں بھی مفروضات ہیں، قیاسات ہیں، اندازے ہیں اور ناقابل پیمائش پہلو ہیں۔اس سطح پر آ کر مذہب اور سائنس ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔
اس لیے یہ سمجھنا کہ نظریہ ارتقا کو ماننا نظریہ الحاد کا اقرار ہے، محض ایک مغالطہ ہے۔ بالکل ویسا ہی جیسے جامد، غیر منطقی ااور دیو مالائی مذاہب کے سلسلے میں ان کے زیادہ تر معتقدین کا ہوتا ہے۔ نوبل انعام یافتہ محقق رابرٹ لافلن نے لکھا ہے۔ خلاصہ:
موجودہ زمانہ کی حیاتیاتی معلومات نظریات ہیں، جو ایسی تشریحات پر مبنی ہیں، جن کے اثرات اور مشمولات کو تجربہ کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جا سکتا۔ میں انھیں ضد نظریات (اینٹی تھیوریز) کہتا ہوں کیوں کہ ان کا اثر نظریات کے برعکس ہوتا ہے۔ وہ تخئیلی پرواز کو روک دیتے ہیں، بجائے اس کے کہ اسے مہمیز کریں۔ مثال کے طور پر چارلس ڈارون کے ذریعے دیا گیا نظریۂ ارتقا براہِ فطری انتخاب، ڈارون ایک عظیم تھیوری کو بنانے میں کامیاب ہوئے، لیکن متقدمین نے اسے اینٹی تھیوری بنا ڈالا۔ جس میں تجرباتی خامیوں کو چھپایا جانے لگا اور ان مشاہدات کو صحیح گردانا گیا جن پر سوالیہ نشان ہے! آپ کے پروٹین ماس ایکشن کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ جواب ہے ارتقا! آپ کا دماغ کسی بھی غیر کمپیوٹر سے تیز ہے۔ جواب ہے ارتقا! حیاتیات میں زندگی کی ابتدا کے متعلق کئی تھیوریز ہیں، لیکن انھیں عوامی ڈسکورس میں لایا نہیں جاتا یا ان پر تحقیق نہیں کی جاتی۔(۴)
مندرجہ بالا اقتباس سے جدید ڈاروینیت کے قائلین کا ڈاروینیت کے بارے میں بالکل خاص مذہبی ذہنی مشاکلے والا زاویہ اپنانا اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ نظریۂ ارتقا کو الحاد کی بنیاد بنانا ایک علمی غلو ہے۔ نظریۂ ارتقا کا قائل لازمی طور پر الحاد کا علم بردار بنے، یہ اس کی اپنی صواب دید پر منحصر ہے، کیوں کہ نظریۂ ارتقا میں موجود سیکڑوں اسقام مذاہب میں موجود سیکڑوں اسقام جیسے ہی ہیں، جن کی توضیح و تشریح ممکن نہیں۔
کیا ایک ڈارونسٹ یا جدید ڈارونسٹ مذہبی (عیسائیت کے تناظر میں) ہو سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب کے لیے قارئین کو اس پس منظر کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے جو ڈارون کے نظریات کے مشتہر ہونے اور ان کے ارتقا پانے کے وقت تھا۔ عیسائیت اپنے تمام تر غیر منطقی اور استبدادی رویہ، گنجلک اور غیر یقینی عقائد اور مصنوعی و غیر فطری طرزِ روحانیت کے باوجود سیاسی اقتدار میں حرفِ آخر تھی، حالاں کہ ڈارون کے آتے آتے یہ اقتدار اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا۔ ایسے میں جب بائبل کے غیر منطقی ساختی(structured)وقت کے معلوم پیمانوں کے ساتھ اور تخلیق کی جزئیات کے مقابلے میں ڈارون کے ابتدائی ہی سہی لیکن منطقی، غیر ساختی، وقت کے علی الرغم اور تخلیق کے غیر جزئیات کے ساتھ والا نظریہ سائنسی حلقوں اور عوام الناس کے سامنے آیا تو وہ بطورِ خاص سائنسی حلقوں کو بہت پسند آیا۔
اور 150 برسوں میں اب یہ حالت ہے کہ خیموں پر خیمے تشکیل پا رہے ہیں۔ بائبل کے تخلیقی بیانیے کو ماننے والے اس بات پر مصر ہیں کہ جدید ڈاروینیت کا قائل ہونا اور عیسائی ہونا، دو متضاد چیزیں ہیں۔ (۵) دوسرا خیمہ کہتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ جدید ڈاروینیت اور بائبل کے تخلیقی بیانیے میں بس تطبیق کی ضرورت ہے، اور دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اس سلسلے میں 2005 میں ڈوور پنسلوانیا کی عدالت کے اس فیصلے کی گونج خاصے عرصے تک سائنسی حلقوں میں سنائی دیتی رہی، جس میں بائبل کے تخلیقی بیانیے، جسے انٹیلی جنٹ ڈیزائن (intelligent design) کہا جاتا ہے، کے ہائی اسکول میں پڑھائے جانے کے خلاف متعلقہ جج نے فیصلہ دیتے وقت لکھا تھا کہ ’’ نظریۂ ارتقا کسی مطلق العنان یا قادرِ مطلق ہستی (خالق) کی موجودگی کا انکار نہیں کرتا۔‘‘ (۶(
جج کے اس فیصلے سے دونوں فریق سخت برہم ہوئے! اور قانون کی تاریخ میں غالباً یہ ان فیصلوں میں سے ایک تھا جس کے بعد ہائی اسکول میں انٹیلی جنٹ ڈیزائن پڑھانے والے خیمے کا بڑا حصہ اور نظریۂ ارتقا کی پڑھائی کو جاری رکھنے والا پورا خیمہ، دونوں یکساں اعتبار سے ناخوش تھے! کیوں کہ عیسائیوں کا بڑا طبقہ ڈاروینیت کو الحاد کے مماثل قرار دیتا ہے۔ جب کہ ایک جدید جائزے کے مطابق ۸۴ فیصد سائنس داں عیسائی تخلیقی بیانیے کو غلط مانتے ہیں اور جدید ڈاروینیت پر یقین رکھتےہیں۔ (۷) (یہ معمولی سروے نہیں تھا، بلکہ کورنیل یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کے طالب علم کی مکمل تحقیق کا حصہ تھا، جو اپنے موضوع پر ایک سادہ مگر منفرد تحقیق تھی۔) بقول شخصے یہ ایک نامسعود اتحاد (unholy marriage)تھا۔
یہ سوال بہت دل چسپ ہے کہ کیا نظریۂ ارتقا کو مانتے ہوئے بھی مسلم رہا جا سکتا ہے؟ اس سے بھی دل چسپ بات یہ ہے کہ اس موضوع پر ہمارے یہاں لٹریچر نہ کے برابر ہے۔ ہارون یحییٰ کی مشہور کتابوں میں نظریۂ ارتقا کا انٹیلی جنٹ ڈیزائن کے بیانیے کی روشنی میں رد پایا جاتا ہے۔ لیکن کیا اسلام کے نظریۂ تخلیق کائنات اور تخلیقِ انسانی اور بائبل کے تخلیقی بیانیے میں کوئی فرق نہیں ہے؟ بالکل ہے اور بہت بڑا فرق ہے۔ (تفصیلات آگے کے مضامین میں آئیں گی(
اس لیے اس سوال کا جواب ’ہاں ‘ یا ’نہیں ‘ سے زیادہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم قرآن کے تخلیقی بیانیے کو کس انداز میں سمجھتے ہیں؟ تخلیق کا اسلامی نقطۂ نظر کیا ہے؟ تخلیق کے میکانیکی پہلو کون سے ہیں، جو قرآن سے ثابت ہیں؟ ان تمام کا کما حقہ جواب دیے بغیر ہم اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ نظریۂ ارتقا کو مانتے ہوئے ہمارے اعتقاد پر کوئی زد نہیں پڑتی ہے، یا پڑتی ہے۔
کیا نظریۂ ارتقا الحاد کو تقویت پہنچاتا ہے؟
ہمارے نزدیک ارتقا سے براہِ راست الحاد کے دلائل بہت دور کی کوڑی ہیں۔ نظریۂ ارتقا اور بالخصوص جدید نظریۂ ارتقا، بلکہ زیادہ صحیح لفظوں میں تصور ارتقا میں کئی زاویوں سے بہت بنیادی قسم کے لاینحل سوالات ہیں، جن کا تذکرہ پچھلے چھ مضامین میں آ چکا ہے۔ بالخصوص درج ذیل پہلوؤں کے بیانیے:
۱۔ نظریۂ ارتقا ااور زندگی کی ابتدا
۲۔ انواع کا ظہور اور انواع میں پیچیدگی کا ظہور
۳۔ فطری انتخاب اور تنازع للبقا کے علی الرغم حیاتی مظاہر
۴۔ انسانی دماغ اور انسان کا ظہور
۵۔ جنس اور جنسیت کا ظہور اور ارتقا
۶۔ انسانی نفسیات اور اس کی پیچیدگی، جس کی تشریح محض فطری انتخاب اور ارتقائی نفسیات کے بیانیہ سے نہیں کی جاسکتی۔
۷۔ بعض مظاہر فطرت، جو صرف اور صرف انسانوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔
مندرجہ بالا پہلوؤں کے علاوہ بھی بہت سے تشنہ گوشے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود جدید الحاد کے چوٹی کے ماہرین مانتے ہیں کہ سائنس نے ہر زمانے میں خدا پرستی پر ضرب لگائی ہے، لیکن نظریۂ ارتقا نے خدا پرستی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ مثلاً رچرڈ ڈاکنس کا مشہورِ زمانہ قول ہے کہ ’’ڈارون نے اس امر کو ممکن بنایا کہ الحاد پر شرح صدر کے ساتھ قائم رہا جاسکے۔‘‘ (۸)
حالاں کہ ڈارون سے قبل بھی بہت سارے فلاسفہ اور محققین نے انواع بشمول انسان کے وجود میں آنے کے نیچری طریقے بتائے ہیں، نیز نیچری طرز فکر سے خدا کے انکار کا جواز کیسے نکالا جا سکتا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو واقعات کا ایک سلسلہ بنتا نظر آتا ہے۔ عیسائیت اور سائنس کی غیر ضروری کشمکش، آزادانہ تحقیق و تبصرہ اور نقد پر پابندی، بائبلی تخلیقی بیانیہ کا حد درجہ کمزور اور جزئیاتی ہونا، عیسائیت میں تثلیث اور تخلیق کے لاینحل عقائد، جن پر ایمان نہ لانے کی صورت میں موت کی سزا وغیرہ، ایسے عوامل تھے، جنھوں نے الحاد کے لیے درکار ماحول کو مزید جلا بخشی اور اس کے بعد یوروپ کی نشاۃ ثانیہ کا دور اس کے لیے زرخیز ثابت ہوا۔ قدیم ملحدین، ملحدین اور جدید ملحدین تک کا سلسلہ مکمل ہوا اور ڈاروینیت جدید الحاد کے ہاتھ میں جادو کی چھڑی ثابت ہوا۔ بعد کے دور میں سائنسی تحقیقات کی گاڑی محض فطری انتخاب اور تنازع للبقا کی پٹری پر ہی دوڑتی رہی۔ متبادل تشریحات کو استثنا قرار دیا گیا اور سائنس کے عبقری ماہرین کی بڑی تعداد بھی محض مندرجہ بالا دو فریم ورک میں قید ہو کر رہ گئی۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ خود ڈارون کے مذہبی عقائد کچھ ہوں، نظریۂ ارتقا اپنی اصل کے اعتبار سے بہت سارے پہلوؤں میں مداخلت (intervention) کا متقاضی ہے۔ اس کے بہت سارے بیانیے ادھورے ہیں۔ خود حیات کی ابتدا اور اس کا ارتقا محض اتفاق (probability) کی بنیاد پر ممکن نہیں، بلکہ دیگر تشریحات کا طالب ہے۔
کیا نظریۂ ارتقا جدید الحاد اور اس کے بیانیہ کو سند فراہم کرتا ہے؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ جدید الحاد کی ہیئت ترکیبی کیا ہے؟ اس کا بیانیہ کیا ہے؟ قدیم ملحدین کائنات کی تخلیق میں کسی غیر مرئی طاقت کا ہاتھ ضرور جانتے تھے لیکن اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ اس کائنات کا انتظام و انصرام کوئی چلا رہا ہے۔ نیوٹن اسی قبیل کا ملحد گردانا جاتاہے اور نیوٹنی خدا (Newtonian god) کا تصور مشہور ہے۔ یوروپ میں نشاۃ ثانیہ اور اس کے ابتدائی دور کے ملحدین یہ مانتے ہیں کہ کائنات الل ٹپ قوانین کے تحت وجود میں آئی، اور اس کائنات کی کوئی خاص سمت نہیں ہے۔ بلکہ یہ فنا ہوگی، پھر دوبارہ انھی قوانین کے تحت وجود میں آ جائے گی۔ جدید ملحدین ان سب سے آگے بڑھ کر یہ مانتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے، بلکہ وہ سارے ساختی مذاہب (structured religions) بشمول مذاہب کے شعار، مذاہب کے افکار و اعمال کو انسانیت اور بنی نوع انسان کے لیے خطرہ گردانتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا میں فساد انھی مذاہب کے پیروکاروں نے برپا کر رکھا ہے۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ مذاہب کو لامذہبیت پر مبنی انسانیت(secular humanism)سے تبدیل کر دینا چاہیے اور اگر اس کے لیے قوت کا استعمال ناگزیر ہو تو وہ بھی کرنا چاہیے تا کہ بنی نوع انسان کو خاتمے سے بچایا جا سکے۔ وہ اپنے بیانیے کے لیے ڈاروینیت کو بنیاد بناتے ہیں، لیکن سرسری جائزے سے ہی یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ یہ ایک دھوکہ ہے۔ درج ذیل نکات ملاحظہ ہوں :
۱۔ اگر مذاہب بجائے خود ارتقا پذیر ہوئے کیوں کہ وہ اجتماعی بقا کو یقینی بناتے ہیں تو اب وہ ازکار رفتہ کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ لامحالہ یا تو یہ بات صحیح ہے کہ مذہب ارتقا پذیر ہوئے ہیں یایہ کہ مذہب اجتماعی بقا کا فائدہ نہیں دیتے!
۲۔ اگر مذاہب اب اجتماعی بقا کے ضامن نہیں رہے تو نظریۂ ارتقا کی رو سے وہ فنا ہو ہی جائیں گے، تو پھر انھیں ختم کرنے کے لیے قوت کا استعمال کیوں کیا جائے؟
۳۔ نظریہ ارتقا کی رو سے ہر وہ خاصہ (trait) جو بقا کا ضامن ہوتا ہے وہ باقی رہ جاتا ہے، تو کیا مذاہب کے سلسلے میں یہ بیانیہ غلط ہے؟
۴۔ دنیا میں سب سے زیادہ کشت و خون مذہب کی بنیاد پر ہوا ہےیا پھر اور اسباب و وجوہ، وسائل کے لیے مسابقت، اور دیگر جغرافیائی و معاشرتی سیاست کے عوامل (geopolitical and sociopolitical factors) اس کا سبب بنے؟
یہ محض چار نکات ہیں۔ اگر بغور دیکھا جائے تو نظریۂ ارتقا جدید الحاد اور اس کے بیانیے کو سند فراہم نہیں کرتا۔ (جاری( ■
حوالے:
- https://plato.stanford.edu/entries/epicurus/
- https://www.darwinproject.ac.uk/letter/DCP-LETT-12041.xml
- Bullivant, Stephen; Lee, Lois (2016). A Dictionary of Atheism. Oxford University Press. ISBN 9780191816819.
- TED talk ByRichard Dawkins https://www.ted.com/talks/richard_dawkins_militant_atheism?language=en
- A different universe: Reinventing physics from the bottom down. By RB Laughlin – 2005 – Basic Books, New York
- Why Orthodox Darwinism Demands Atheism. (2010); Jerry Bergman; Answers Research Journal 3 (2010):147–152.
- Ibid
- Ibid
- The Blind Watchmaker: By Richard Dawkins 1986, Chapter 1 Pg 29 Penguin Books. UK
مشمولہ: شمارہ جون 2020