آزادی کیا ہے؟
آزادی ایک بنیادی حق ہے جو ہر فرد بشر کے لیے پرامن زندگی گزارنے، اپنی پوری صلاحیت کو فروغ دینے اور بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے۔ اس بنیادی حق میں وہ تمام چیزیں آجاتی ہیں جن کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ مکمل معنوں میں خود جی سکے اور دوسروں کو جینے دے۔ گھر میں، گلی میں اور اداروں کے اندر امن کو یقینی بنائے۔ تاہم، اگر کسی کی آزادی دوسروں کے وقار کا احترام کرنے میں ناکام رہتی ہے اور ان کے ارادہ وعمل کی آزادی کو دبادیتی ہے، تو وہ قابل قدر خوبی نہیں بلکہ پریشان کن مسئلہ بن جاتی ہے. اگر ایک شخص دوسرے کی قیمت پر زیادہ آزادی سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اگر انسانی حقوق کا استعمال صرف ان لوگوں کے ذریعے کیا جاتا ہے جو اقتدار میں ہیں، ثروت مند ہیں یا مراعات یافتہ طبقہ سے ہیں توپھر کچھ اصول و ضوابط کی ضرورت پیدا ہوجاتی ہے، جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر کوئی -طاقتور ہویا کم زور سفید ہویا سیاہ، مقامی ہو یا تارکِ وطن، مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا جوان، بچہ ہو یا بالغ–پرامن زندگی گزارنے کے لیے ضروری آزادی سے لطف اندوز ہونے کی پوزیشن میں رہے۔ ایک پرامن زندگی گزارنے اور اپنے خاندان اور معاشرے کے فائدے کے لیے اپنی فطری صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے ضروری آزادی سب کو ملے۔ ہم انھی اصولوں کو اخلاقی اقدار کہتے ہیں۔
اخلاقی اقدار کی ضرورت
کچھ لوگ اخلاقی اقدار کی ضرورت کے خلاف دلیل دیتے ہوئے پوچھتے ہیں: “میں اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق کیوں نہیں گزارسکتا؟ میری آزادی سے دوسروں کو کیا فرق پڑسکتا ہے؟ ہر ایک کو اپنی پسند کی زندگی سے لطف اندوز ہونے دیں۔ اس جدید دور میں نئی نسل پر صدیوں پرانے قوانین کیوں مسلط کیے جاتے ہیں؟” وغیرہ۔ پہلی نظر میں، یہ دلائل وزن دار اور معقول لگ سکتے ہیں اور ان لوگوں کو اپنی طرف راغب کرسکتے ہیں جو صرف اپنے اور اپنے ذاتی مفادات کے بارے میں سوچتے ہیں۔
تاہم، ایک گہرے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی بھی انسان دوسروں کو متاثر کیے بغیر مکمل طور پر آزاد زندگی نہیں گزار سکتا۔ ہمارے اعمال وتصرفات ہمیشہ دوسروں کو اور خود ہماری اپنی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جو شخص “میری آزادی میری پسند”کانعرہ لگا کر منشیات کا استعمال شروع کر دیتا ہے، آخر کار اس کا عادی ہو جاتا ہے اور منشیات کے استعمال کا غلام بن جاتا ہے۔ اب وہ یہاں اپنی آزادی چھوڑ دیتا ہے۔ نہ صرف خود متاثرہوتا ہے بلکہ اپنے آس پاس کے لوگوں کی زندگیوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ اس کی ذہنی اور جسمانی صحت کو متاثر کرتا ہے، جس سے عدم اطمینان آتا ہے اور پیداواری صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ وہ جرائم کا ارتکاب کر سکتا ہے، دوسروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے یا اپنی زندگی کو ختم کرسکتا ہے۔
اگر کوئی شادی شدہ مردغیر ازدواجی جنسی تعلقات میں لگ جاتا ہے تو وہ خود بخود اپنی بیوی کے حقوق سے انکار کرتا ہے اوراسی طرح اگر بیوی کرتی ہے تووہ بھی شوہرکا حق مارتی ہے۔ یہاں تک کہ ہم سانس لینے میں جو ہوا خارج کرتے ہیں اس جیسی سادہ چیز بھی ہمارے آس پاس کے ماحول کو متاثر کرتی ہے۔ لہذا، ہم آہنگی اور پرامن زندگی گزارنے کے لیے کچھ اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ لبرل نظریات افراد کو خود غرض اور بے حس بنادیتے ہیں جو معاشرتی عدم مساوات کا باعث بن سکتے ہیں۔
ایک سادہ سی مثال سے اس نکتے کی وضاحت کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ فٹ بال جیسے کھیل پر غور کریں۔ کھیل صرف اسی صورت میں مناسب طریقے سے کھیلا جاسکتا ہے جب اس کے کچھ اصول وضوابط ہوں: حدود طے کی جائیں، کھلاڑیوں کی تعداد برابر ہونی چاہیے اور ہر کھلاڑی کی پوزیشن مناسب ہونی چاہیے۔ اگر کوئی قواعد پر عمل کیے بغیر کھیلتا ہے تو وہ منصفانہ کھیل نہیں ہے اور اس میں کھلاڑی کھیلنے اور جیتنے کی اپنی آزادی کھو دیتا ہے۔ اسی طرح اونچی اڑنے والی پتنگوں کو ان سے منسلک دھاگے کے ذریعے کنٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر پتنگ دھاگے سے الگ ہو جائے تو وہ توازن کھو دیتی ہے اور پھنس سکتی ہے یا گرسکتی ہے۔ تو اگر زندگی میں سادہ سے کھیلوں میں یہ ہوتا ہے، تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ انسان کی زندگی کے لیے قواعد و ضوابط کی ضرورت ہے؟
فرض کریں کہ آپ کے گھر میں ایک چھوٹا سا بچہ ہے۔ اگر بچہ آگ کی طرف رینگتا ہوا جاتا ہے اور آگ کو چھونے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی بھی ذمہ دار والدین یہ کہتے ہوئے اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ یہ بچے کی آزادی ہے۔ اس کے بجائے، وہ بچے کا ہاتھ پکڑنے اور اسے جلنے سے روکنے کے لیے بے تحاشا لپکیں گے۔ سڑک پر موجود ہر گاڑی، سمندر میں موجود ہر جہاز اور آسمان میں موجود ہر ہوائی جہاز کو تصادم سے بچنے اور بحفاظت اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے کوآرڈینیشن کرنا ہوتا ہے۔ اگر ایک ڈرائیور ٹریفک قوانین اور سگنلوں کو نظر انداز کرتا ہے تو وہ دیگر تمام گاڑیوں کی آزادانہ نقل و حرکت میں خلل ڈالتا ہے۔
یہ واضح ہے کہ کوئی بھی چیز جو کسی خاص ضابطۂ قانون یا نظام کی پیروی نہیں کرتی وہ افراتفری کا شکار ہوجائے گی اور بدنظمی کا سبب بنے گی۔ پوری کائنات ایک ریگولیٹری سسٹم پر چلتی ہے۔ آسمان اور سمندروں کے اپنے نظام ہوتے ہیں، جو انسانوں کی مداخلت پر درہم برہم ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے: ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَیدِی النَّاسِ لِیذِیقَهُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ یرْجِعُونَ. [الروم: 41] ”زمین اور سمندر میں فساد اس وجہ سے ظاہر ہوگیا جو لوگوں کے ہاتھوں نے کیا ہے۔ تاکہ اللہ انھیں ان کے اعمال کا مزہ چکھائے شاید کہ وہ خداکی طرف لوٹ آئیں۔”
کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ پرندے اور جانور اصول وقوانین کے بغیر رہتے ہیں، تو ہمیں ایساکیوں نہیں کرنا چاہیے؟ ہم اپنی زندگی سے اپنی مرضی کے مطابق لطف اندوز کیوں نہیں ہو سکتے؟ یہ استدلال دو وجہوں سے غلط ہے۔ سب سے پہلے، جانوروں اور پرندوں کے اپنے قدرتی نظام اور قوانین ہیں جو ان کی زندگیوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان میں صرف اس وقت خلل پڑتا ہے جب انسان ان میں مداخلت کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ انسان کو صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت وحکمت سے نوازا گیا ہے، اس طرح اپنے طرز زندگی کا انتخاب کرنے میں ہمارے اوپر بڑی ذمہ داری ہے۔
قوانین اور کنٹرول سسٹم کے بغیر زندگی سب کے لیے افراتفری اور تکلیف والی ہوجاتی ہے۔ یہ صرف افراد کے لیے ہی نہیں بلکہ معاشروں اور قوموں کے لیے بھی سچ ہے۔ اگر معاشروں اور قوموں کو اخلاقی اقدار کے ذریعے منظم نہیں کیا جاتا ہے، تو اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ وہ بیرونی قوتوں کے ذریعے کنٹرول کی جائیں گی، جس سے لوگوں کی آزادی مکمل طور پر محدود ہوجائے گی۔ جیسا کہ ارسطو نے ‘سیاست’ میں کہا ہے: “ہمیں ان لوگوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے جو کہتے ہیں کہ آزادی جو جی میں آئے وہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ کیوں کہ یہ توجذبات کی آزادی ہوئی، نہ کہ فضائل کی آزادی‘‘۔ حقیقی آزادی میں اخلاقی نظم و ضبط شامل ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایک کمپاؤنڈ کی دیوار کسی قیمتی جائیداد کی حفاظت کرتی ہے اور اس کو بے جا پابندی نہیں خیال کیا جاتا۔ جذباتی رویوں، جذباتی خلفشار، نشے، بیرونی ہیرا پھیری اور آزادی کے غلط استعمال سے چھٹکارا پانے کے لیے اخلاقی نظم و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے۔
اخلاقی اقدار کے زوال کے منفی اثرات
خواتین کے خلاف مظالم جیسے عصمت دری اور بدکاری میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر ایسی جگہوں پر جنھیں اکثر ترقی پسند سمجھا جاتا ہے جیسے کہ میڈیا اور سنیما۔ سوشل اورسماجی ہونے کے بہانے لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ دراصل غیر سماجی سرگرمیاں ہیں۔ سوشل میڈیا میں بے قابو مرد و خواتین کی مصروفیات کے لیے لامحدود کھلی جگہ کے نتیجے میں نہ صرف لڑکیوں اور عورتوں بلکہ مردوں اور لڑکوں کے ٹوٹ کربکھرنے کے اورخودکشی اور گمشدگی کے واقعات میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے، خاندان کے بزرگ، اسکول کے اساتذہ اور کمیونٹی لیڈر غیر فعال اورغیرمؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔
ان چیزوں کا اثر وسیع طور پر پڑتا ہے یہاں تک کہ ان خاندانوں کو بھی متاثر کرتا ہے جو اخلاقی اقدار کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ اب دور دراز مغربی ممالک یا میٹروپولیٹن شہروں تک محدود نہیں رہ گیا ہے۔ بلکہ یہ دور دراز کے دیہاتوں اور خاندانوں تک پہنچ گیا ہے، جس سے ہمارے سونے کے کمرے اور تعلیمی ادارے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ بے شمار خاندان ٹوٹ رہے ہیں، طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے، اور منشیات کا غلط استعمال اور ہراساں کرنا عام بات ہوگئی ہے۔
کارپوریٹ دنیا میں جدید اور مقبول نظر آنے کی کوشش میں نوجوان اپنے مفادات کو قربان کر رہے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ فیشن کے غلط معیارات اور تعلقات کے نئے طریقے درحقیقت ان سے تنقیدی طور پر سوچنے اور اپنے فیصلے خود کرنے کی بنیادی آزادی چھین رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا جدید تہذیب نے اخلاقی اقدار کی مسلسل تبدیلیوں کے ساتھ انسانی فلاح اور حقیقی آزادی کا راستہ اختیار کیا ہے؟ اس کے نتائج توترقی پسندی سے زیادہ رجعت پسندانہ نظر آتے ہیں۔
مردوں، عورتوں، لڑکیوں اور لڑکوں کولبریشن اورآزادی کے اِن میٹھے جالوں کی زنجیروں سے بچانے اور حقیقی آزادی کا راستہ دکھانے کے لیے اس کے خلاف بیداری پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں ہر ایک کو خبردار کرنے کی ضرورت ہے کہ تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ جو معاشرہ اخلاقی اقدار بالخصوص جنسی اخلاقیات کو نظر انداز کرتا ہے وہ فنا ہوجاتا ہے۔ اور اپنی آزادی اور ترقی سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ صرف ایک نجی یا انفرادی معاملہ نہیں ہے۔ یہ پورے معاشرے کی بقا اور فلاح و بہبود کو متاثر کرتا ہے۔
ذاتی اور سماجی زندگی پر اثرات
سرمایہ دارانہ نظام کے مادیت پر مبنی عالمی نظریہ کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور ڈال دیا گیا ہے کہ کسی بھی چیز کو جو کسی کی لطف اندوزی میں رکاوٹ بنے، ہٹا دیا جائے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بڑی تحریکیں جانوروں کے قتل کے خلاف مہم چلاتی ہیں لیکن انسان کے بچوں کے قتل (اسقاط حمل) کی وکالت یہ کہہ کر کرتی ہیں کہ بڑھتی ہوئی شرح آبادی دنیا میں عدم توازن پیدا کررہی ہے اور یہ بڑی حد تک نا قابل حل ہے۔ کارپوریٹ دنیا میں اسقاط حمل ایک ملین ڈالر کی مارکیٹ بن گیا ہے جو اس تصور سے ہوا کہ بچے کیریئر کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پیدائش اور دودھ پلانے سے کاروباری دنیا کے مقرر کردہ معیارات کے مطابق خوب صورتی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ بچیوں کے ساتھ تو اور بھی بُرا سلوک کیا جارہا ہے۔
بے حیائی کو معمول بنادینے میں میڈیا کا کردار
میڈیا نے فحش لٹریچر، پورنوگرافی اور ویڈیوز کے استعمال کو ایک معمول (norm) بنا دیا ہے، اور فلمیں ان برائیوں کی وکالت میں حدیں پار کر رہی ہیں۔ انفرادی آزادی کی آڑ میں ایسے ذاتی اور اجتماعی رویے کے حق میں رائے عامہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عموماً یہ دلائل دیے جاتے ہیں کہ “شادی سے باہر اگر باہمی اتفاق سے جنسی تعلقات قائم کرلیے جائیں تو ان میں کیا حرج ہے؟
تاہم، اس طرح کے معاملات میں بہت سی خواتین بعد میں عصمت دری کی شکایت کرتی ہیں، اور یہ بتاتی ہیں کہ “محفوظ جنسی تعلقات” کا تصور جیسا کہ عام طور پر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، کہیں موجود نہیں ہے۔ ہم نے اسے ’می ٹو‘ (me too)مہم میں بھی دیکھا ہے۔
جنس اور حسن کی تجارت کاری
جنس اور حسن کی تجارت کاری (commercialization)نے معاشرے کوتہ وبالا کرکے رکھ دیا ہے، جس میں خواتین اور لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ شرم کو اب ایک منفی جذبہ سمجھا جاتا ہے اور لوگوں کو غیر اخلاقی کاموں (بشمول شادی سے باہر اور عوامی طور پر جنسی سرگرمیاں انجام دینے کے) میں مشغول ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ ہم جنس پرستی،() زنانہ ہم جنس پرستی ()، اور لِیو ان ریلیشن شپ (live-in relations)کو نوجوان آسانی سے منتخب کرتے ہیں، جن میں جوڑوں کے مابین کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی جاتی۔
لوگ جنسی ضروریات کو پورا کرنے کا موازنہ کافی شاپ سے صرف ایک کپ کافی پینے سے کرتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ “صرف ایک کپ کافی پینے کے لیے پوری کافی شاپ کیوں خریدیں؟”وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انسانی تعلقات اور رفاقت خریدی اوربیچی جانے والی چیزیں نہیں ہیں۔
اخلاقی طور پر زوال پذیر معاشرے کے نتائج
یہ “استعمال کرکے پھینک دینے”(use and throw) کا کلچر لوگوں کو تنہائی اور ڈپریشن میں دھکیل دیتا ہے۔ بدترین قسم کے غلام وہ ہوتے ہیں جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں اور ہر طرح کی پابندی سے آزاد رہتے ہیں، چاہے وہ مذہب کی ہو یا خاندان کی۔ تاہم، ان کی زندگیاں اکثر ظاہر کرتی ہیں کہ وہ اپنے جسم پر کوئی کنٹرول نہ ہونے کے ساتھ اپنی فطری جبلتوں کی پیروی کرکے غلاموں سے بھی بدتر ہوگئے ہیں۔ چناں چہ انتہا پسند لبرل اپنی من مانیوں کے غلام ہیں۔ قرآن ان کی خستہ حالی کے بارے میں بیان کرتا ہے:
“کیا تم نے کبھی اس شخص کے معاملے پر غور کیا ہے جس نے اس کی خواہش کو اپنا معبود سمجھا اور پھر اللہ نے اسے علم کے باوجود گم راہ کر دیا اور اس کی سماعت اور اس کے دل پر مہر لگا دی اور اس کی نظروں پر پردہ ڈال دیا۔ اللہ کے بعد کون ہے جو اسے سیدھی راہ دکھا سکے؟ کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرو گے؟”(الجاثیہ: 23)
اس صورتِ حال کے خلاف اقدام کی ضرورت
بداخلاقی اور اس سے وابستہ برائیاں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہیں، جو انسانی زندگی کے ہر پہلو، خاص طور پر خاندانی زندگی کو متاثر کر رہی ہیں۔ مساوات اور آزادی کے جھنڈے تلے جنسی سرگرمیوں میں بے لگام آزادی مردوں کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے۔ اگرچہ “میرا جسم میری مرضی” جیسے نعرے ترقی پسند لگتے ہیں، لیکن حقیقت میں انھوں نے افراتفری پیدا کردی ہے اور انفرادی زندگی اور معاشرتی اقدار کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ ہمیں ان برائیوں کے تیزی سے پھیلنے پر قابو پانے کے لیے سوچنے اور عمل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
بداخلاقی کے معاشرتی مضمرات
شادی سے باہر تعلقات بغیر کسی ذمہ داری کے صرف اس وقت تک قائم رہتے ہیں جب تک جسمانی کشش یا مادی فائدے باقی رہیں۔ عدالتیں بعض اوقات انفرادی آزادی کے بہانے اس طرح کے غیر اخلاقی کاموں کے حق میں فیصلہ دیتی ہیں اور اس بات کو نظر انداز کرجاتی ہیں کہ یہ فیصلے دوسروں کی آزادی اور حقوق کو کس طرح متاثر کرتے ہیں۔ کوئی بھی انسان محض ایک فرد نہیں ہوتا۔ وہ پوری انسانیت اور ایک ماحولیاتی نظام کا حصہ ہے۔ اس سماجی ماحول میں سب سے زیادہ متاثر بوڑھے اور بچے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی چائلڈ کیئر سینٹر قانونی طور پر شادی شدہ والدین کی طرف سے دی جانے والی محبت اور دیکھ بھال فراہم نہیں کرسکتا ہے۔ اولڈ ایج ہوم کابھی یہی حال ہے جو کبھی بھی خاندانی مدد و حمایت کا متبادل نہیں بن سکتے۔
اگرچہ آج لیوان ریلیشن شپ (بغیرشادی کے تعلقات) میں رہنا سماجی آزادی کا اظہار سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ آزادی کے وہم سے کہیں زیادہ پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ اس رشتہ میں عزم اورذمہ داری کا فقدان ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگ اسے ایک فائدے کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن آخری تجزیہ میں منفی نتائج اس سب پر چھائے رہتے ہیں۔ خواتین اکثر حیاتیاتی اور معاشرتی طور پر زیادہ تکلیف اٹھاتی ہیں۔ ہم جنس شادیوں کا بھی یہی حال ہے۔ جب حکومتیں ایسے تعلقات کو قانونی حیثیت دیتی ہیں تو اسے آزادی کی طرف ایک چھلانگ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں، یہ انسانوں کے فطری میلانات کو خراب کرتے ہیں، تناؤ بڑھاتے ہیں اور اطمینان کا احساس دینے کے بجائے تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اس طرح کے تعلقات ہمیشہ احساس جرم اور جسمانی مسائل کے سائے میں رہتے ہیں۔ درحقیقت ایسے جوڑے ایک عرصے کے بعد تنازعات، عزت نفس کی کمی، تنہائی، افسردگی اور اضطراب کا باعث بنتے ہیں۔
با اخلاق ہونا ہی اصل آزادی ہے: اسلامی نقطہ نظر
اسلام شخصی آزادی کے خلاف نہیں ہے۔ آزادی اسلام کی بنیادی قدر ہے۔ یہاں تک کہ دین قبول کرنے میں بھی کوئی جبر نہیں ہونا چاہیے، جیسا کہ قرآن کی مندرجہ ذیل آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔
لَا إِكْرَاهَ فِی الدِّینِ [البقرة: 256] “دین میں کوئی جبر نہیں ہے”
اسلام تمام افراد کی بنیادی جذباتی اور جسمانی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اسلام میں اخلاقی اقدار کا بنیادی اور جوہری مقصد محبت اور دیکھ بھال ہے: خالق سے محبت اور اس کی مخلوق سے محبت۔
احتیاطی طریقہ کار
اگر ہم قرآن و سنت کی تمام اخلاقی ہدایات کا جائزہ لیں تو ہم سمجھ جائیں گے کہ حلال کے مقابلے میں حرام بہت کم ہیں۔ قرآن کریم اس بات کا ذکر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اولین مرد اورپہلی عورت کو بتائی تھی :
وَقُلْنَا یاآدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِینَ [البقرة: 35] “ہم نے کہااے آدم! اس باغ میں اپنے جوڑے کے ساتھ رہو، تم دونوں اپنی مرضی کے مطابق یہاں آزادانہ طور پر کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں ظالم ہو جاؤ گے۔”
یہاں حکم صرف یہ نہیں ہے کہ ‘ایسا نہ کرو’ بلکہ یہ کہا کہ ‘اس کے قریب مت جاؤ’۔ جنسی اخلاقیات کے حوالے سے بھی یہی ہدایت دیکھی جا سکتی ہے:
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِیلًا [الإسراء: 32]”اور زنا کے قریب نہ جاؤ۔ بے شک یہ ہمیشہ سے ایک براطریقہ رہا ہے”
اسلام کی اخلاقی ہدایات محض ممانعت نہیں ہیں بلکہ ایک جامع فریم ورک کے طور پر کام کرتی ہیں جس کا مقصد افراد، خاندانوں اور معاشرے کو بڑے پیمانے پر فتنوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والے ممکنہ نقصانات سے دور رکھنا ہے۔ قرآن انسانوں کو اس کی اخلاقی ہدایات پر عمل نہ کرنے کے نتائج سے خبردار کرتا ہے اور ان لوگوں کی مثالیں دیتا ہے جو غیر اخلاقی کاموں کی وجہ سے تباہ ہو گئے تھے، لوط علیہ السلام کی قوم کا قرآن مجید میں بار بار تذکرہ ہے۔
خواہشات پرستی سے بچنا
اسلام تسلیم کرتا ہے کہ مرد اور عورت فرشتے کے طور پر پیدا نہیں ہوئے ہیں اور وہ فطری طور پر ایک دوسرے کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ اس میں مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے، اور جب وہ کبھی جائز وجوہات کی بنا پر ملتے ہیں تو دونوں کو ناپسندیدہ حالات اور پریشانیوں سے بچنے کے لیے قرآن و سنت کے بیان کردہ مخصوص آداب پر عمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہاتھ ملانا، گلے ملنا، اپنی خوب صورتی ظاہر کرنا، یا جنسی مضمرات کے ساتھ پرکشش انداز میں بات کرنا جیسے اعمال ممنوع ہیں۔
فحش مواد پرمشتمل گفتگو، بوس وکنار، چھونا اور جنسی اعضا کی نمائش جنسی ہارمون کو متحرک کرتی ہے، جس سے جنسی تعلقات کا حتمی عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اسلام اس نظریے کی وکالت کرتا ہے کہ ”پرہیز اور روک تھام علاج سے بہتر ہے”۔ بہت سے لوگ اس طرح کے گناہوں کا ارتکاب کرنے کے بعد افسوس کرتے ہیں کہ انھوں نے حالات کی مجبوری میں ایسا کیا۔ دراصل یہ وہ مواقع ہیں جو اس طرح کے فساد کا سبب بنتے ہیں۔
شادی فطری خواہشات کی تکمیل کے طور پر
جنسی تعلق ایک فطری خواہش ہے اور اسلام اس کی تکمیل کے لیے شادی کے نام سے ایک قانونی اور اخلاقی بندھن فراہم کرتا ہے۔ اسلام لوگوں کو شادی کرنے اور خانقاہوں سے دور رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ماورائے ازدواجی تعلقات اور اس طرح کی خلاف ورزیوں کا باعث بننے والی کسی بھی چیز کی سختی سے ممانعت ہے۔ اسلام میں شادی کو ایک ایسا معاہدہ سمجھا جاتا ہے جس میں دونوں شرکائے حیات کے لیے مخصوص حقوق اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔
یہاں تک کہ میاں بیوی کے درمیان جنسی تعلق میں “کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے”کے لیے بھی رہ نما اصول موجود ہیں۔ اسلام تعلیم دیتا ہے کہ بیوی اپنے شوہر کی غلام نہیں ہے اور نہ ہی شوہر اپنی بیوی کا غلام ہے۔ سب خالق کے غلام ہیں اور کوئی بھی کسی دوسری مخلوق کا غلام نہیں ہے۔ میاں بیوی دونوں کو ایک ہی نام یعنی ‘زوج’ سے پکارا جاتا ہے جس کا مطلب ہے شریک حیات یا جیون ساتھی۔
رشتہ داروں اور دوستوں کو جوڑوں کی رازداری کا احترام کرنے کی ہدایات دی جاتی ہیں۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے :
“اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا کسی اور گھر میں داخل نہ ہو جاؤ یہاں تک کہ تم اجازت مانگ لو اور ان میں موجود لوگوں کو سلام کرو۔ یہ تمھارے لیے بہتر ہے تاکہ تم یاد رکھو۔”(النور: 27)
رسول اللہ ﷺ سے آپ کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کی ہے۔ “فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ظالم وہ ہے جو بے شرم ہو اور عزت کی پروا نہ کرے اور جو لوگوں کی رضامندی کے بغیر ان کی نجی زندگی میں دخل اندازی کرے۔”(ابو داؤد–3679)
اسلام شادی کے اندر جنسی تعلق کو بہت اہمیت دیتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ میاں بیوی کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے لباس پہنیں اور تیار ہوں۔ جنسی عمل سے پہلے بوس وکنار اور مداعبت مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: “اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان میں سکون پاؤ۔ اور اس نے تمھارے درمیان شفقت اور رحمت رکھی۔ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو سوچتے ہیں۔”(الروم: 21)
آج ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر مہر و محبت کا خاتمہ ہوگیا ہے اوراس کی جگہ ہوس نے لے لی ہے۔ جس کی وجہ سے درد اور اذیت کی دائمی غلامی جنم لیتی ہے۔ اس صورت حال کو مشہور شاعر ٹی ایس ایلیٹ نے یورپ میں جاری اخلاقی انحطاط کا مشاہدہ کرنے کے بعد اپنی نظم ’دی ویسٹ لینڈ‘ میں دردناک انداز میں بیان کیا ہے۔ شادی کے رشتہ میں مہرومحبت نہ ہوتو جیسے جیسے جسمانی کشش وقت کے ساتھ ختم ہوتی جاتی ہے توں توں عمر بڑھنے کے ساتھ یہ بندھن کم زور ہوتا جاتا ہے۔ لیکن جب مہر و محبت موجود ہوتی ہے، تو جوڑے کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ رشتہ مضبوط تر ہوتا رہتا ہے اور ایک دوسرے کے لیے آرام اور راحت کا ذریعہ بنتا ہے۔
عفت وپاکیزگی کے ذریعے آزادی
حجاب، یا معمول کا لباس، عوامی مقامات پر خواتین کی آزادانہ نقل و حرکت کو یقینی بناتا ہے. حجاب کا اصل مقصد انھیں اپنے گھروں کے اندر محدود کرنا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یاأَیهَا النَّبِی قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یدْنِینَ عَلَیهِنَّ مِنْ جَلَابِیبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ یعْرَفْنَ فَلَا یؤْذَینَ۔ [الأحزاب: 59]
“اے نبی، اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومن عورتوں کو حکم دوکہ اپنے سرپر چادرکا پلو ڈال لیاکریں یہ اِس سے قریب ترہے کہ وہ پہچان لی جائیں اوران کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔”
حجاب کی تعلیم صرف خواتین کے لیے نہیں ہے۔
قرآن میں آیا ہے:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِینَ یغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَیحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِیرٌ بِمَا یصْنَعُونَ [النور: 30]
“اے نبی! مومن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی پاکیزگی کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بیشک اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔”
اس کے بعدعورتوں کے بارے میں یہ حکم دیا :
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَیحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا یبْدِینَ زِینَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا [النور: 31]
“اور مومن عورتوں سے کہدو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی پاکیزگی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو عام طور پر ظاہر ہوتی ہے۔‘‘
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ حجاب خواتین کی آزادی کو دباتا ہے۔ لیکن حقیقت میں حجاب خواتین کو معاشرہ کی بہت سی توقعات سے آزاد کرتا ہے۔ ہر ایک کے لیے مسلسل ومکمل تصویر بنے رہنے کا دباؤ جدید معاشرے میں ایک لڑکی یا عورت کے لیے بہت بوجھ ہوسکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات خواتین کو اس طرح کے تقاضوں سے آزادی دلاتی ہیں اور انھیں مثبت اور پیداواری کاموں کے میدانوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے قابل بناتی ہیں جن کے لیے حقیقی قابلیت اور صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
حیا ایک فضیلت وخوبی کے طور پر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک حیا وعفت ایمان کی ایک شاخ ہے۔ (سنن ابن ماجہ) ایک اور موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: حیا کا انجام بھلائی ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ (بخاری و مسلم) غیر اخلاقی کام کرنے سے بھی بدتر اس کی تشہیر کا عمل ہے۔ اسلام نے اس کی سختی سے ممانعت کی ہے۔ اس لیے کہ اس میں دو خطرات ہیں۔ ایک یہ کہ اُس کو دیکھ کر (خاص طور پر اگر وہ کسی بااثر شخص یا مشہور شخصیت کی طرف سے ہو) بہت سے دوسرے لوگ اس طرح کے کام کرنے کے جواز تلاش کریں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس شخص نے اس عمل کا ارتکاب کیا ہے وہ غلطی کا احساس کرسکتا ہے اور بعد میں زندگی میں اس پر پچھتا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اُسے معاف کر سکتا ہے۔ لیکن اگر اسے منظر عام پر لادیا گیا تو یہ سیاہ دھبہ اس کی اوراس کے خاندان کی زندگی میں ہمیشہ کے لیے بٹہ بن کر رہ جائے گا۔ یہ بدترین قسم کا رجحان ہے جو ہم آج کی دنیا میں دیکھتے ہیں۔ ہر کوئی ریل اور ویڈیو پوسٹ کر رہا ہے اور اپنے غیر اخلاقی کاموں کے بارے میں فخر کر رہا ہے۔
غلطی اور آزمانے پر مبنی نہیں
اسلامی اخلاقی ہدایات آزمانے اورغلطی کوجانچنے(ٹرائل) کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ خالق کی طرف سے مقرر کی گئی ہیں جو انسان کی فطرت اور تقاضوں کو کسی اور سے بہتر جانتا ہے۔ اگرچہ انسان کی تخلیق کردہ اخلاقی اقدار وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں، لیکن اسلامی تعلیمات مستقل رہتی ہیں اور اخلاق میں آزادی کے تصور سے ہم آہنگ ہیں۔ جیو اور جینے دو ان کی بنیاد ہے۔ ان کے عملی طور پر نافذ کردہ نمونے سنت یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور اعمال میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
بظاہر ان میں سے بعض رہ نما خطوط ہمارے ذاتی مفادات سے مطابقت رکھتے محسوس نہ ہوتے ہوں، لیکن بڑے تناظر میں پودوں، پرندوں اور جانوروں سمیت ہر مخلوق کی آزادی اور ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ان کی ضرورت ہے۔ انھیں خالق کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے، جو انسان کی فطرت اور تقاضوں کو کسی اور سے بہتر جانتا ہے۔ وہ علیم (سب کچھ جاننے والا) ہے جس کے پاس یہ علم ہے کہ آخر کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے۔
ایمان والوں کا فرض
ہم کچھ لوگوں کے غیر مہذب رویے کی وجہ سے دنیا کوبرباد نہیں ہونے دے سکتے۔ لہٰذا نیکی پر یقین رکھنے والے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ قرآن کی ان ہدایات کو پھیلائے۔ لوگ دلیل دے سکتے ہیں : “دوسروں کو لطف اندوز ہونے دیں، آپ ان کے لیے رکاوٹیں کیوں پیدا کرتے ہیں؟ یہ ان کا نجی معاملہ ہے۔”ہم ایسا کر سکتے تھے اگر یہ دوسروں اور پورے معاشرتی تانے بانے کو متاثرنہ کرتا۔ لیکن وہ تو دنیا اور آخرت میں اپنی زندگی تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیوں کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ایک ذمہ دار شہری اور ایمان دار کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر ممکن کوشش کریں کہ دوسروں کو غلطیوں سے بچایا جا سکے۔ اس کو نظر انداز کرنا اتنا ہی احمقانہ کام ہے جتنا اپنے پڑوسی کے گھر میں لگی آگ کو نظر انداز کرنا جو آخر کار ہمارے اپنے گھر میں پھیل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک مومن کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے پڑوسی، اس کے اہل خانہ اور املاک کو آگ سے بچائیں۔ یہ دوسروں کی رازداری کی خلاف ورزی کرنے یا مداخلت کرنے سے بالکل الگ چیز ہے۔ قرآن نے اس بارے میں واضح ہدایات دی ہیں۔ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِیاءُ بَعْضٍ یأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَینْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر[التوبة: 71] “مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ وہ اچھے کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے منع کرتے ہیں۔”
سماج سے اخراج کا خوف
بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ ہدایات اچھی ہیں لیکن صرف دوستوں اور سماجی حلقوں سے خارج ہونے کے خوف کی وجہ سے یا “لوگ کیا سوچیں گے” کے احساس کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں پانے یا ساتھیوں کی دھمکیوں کی وجہ سے ان پر عمل کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان کو مضبوط بنا کر، تقویٰ اور اجرو ثواب کی امید کی نشوونما کرکے اس احساس پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ جو مرد مومن یہ کرلے وہ ہرحال میں اور ہرجگہ حرام وحلال کا پوراخیال رکھتا ہے۔ اصل فائدہ یہ ہے کہ ان ہدایات پر عمل کیا جائے، بھلے ہی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنے محدود فہم وبصیرت کی وجہ سے اس کا تصور نہ کرسکے یا اپنے مفادات سے اُسے متصادم سمجھ بیٹھے۔ اللہ کے احکامات مجموعی طور پر اس کی مخلوق کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں نہ کہ کسی ایک کے ذاتی مفاد کے حق میں۔ صرف اس کے مقرر کردہ اخلاقی اصولوں پر عمل کرنے سے ہی آزادی کے حقیقی جوہر کو حاصل کیا جاسکتا ہے اور اس سے بھرپور لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔
گناہ کی غلامی سے آزادی
اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی فرد کی حقیقی آزادی گناہ کی غلامی سے آزادی ہے۔ ہمیں اپنے اندر اپنے خالق کی مقرر کردہ اخلاقی اقدار کے مطابق عمل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے، چاہے وہ ہماری خواہشات کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں کیوں کہ آخری تجزیہ میں وہ افراد کو ایک مکمل زندگی گزارنے میں مدد کریں گی۔ اپنے خیالات، جذبات اور اعمال پرکنٹرول، خود پر قابو، نظم و ضبط اور مہارت پیدا کرکے، انسان اندرونی آزادی کی حالت حاصل کرسکتا ہے جو بیرونی حالات پر منحصر نہیں ہے۔ یہ آزادی کی وہ انتہائی شکل ہے جو انسان اس زندگی میں حاصل کرسکتا ہے اور یہ آخرت میں خوشی اور مسرت کی دائمی زندگی کی راہ ہم وار کرتا ہے۔ اگر یہ واضح ہو جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے
“پس اس کی حمد ہو جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہی ہے اورتم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘(یٰسین : 83)
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف فوری نتائج اور لذتوں کے بارے میں سوچتے ہیں جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
إِنَّ هَؤُلَاءِ یحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَیذَرُونَ وَرَاءَهُمْ یوْمًا ثَقِیلًا۔ [الإنسان: 27]
“یہ لوگ عارضی زندگی سے محبت کرتے ہیں . انھوں نے ایک بھاری دن کے بارے میں (تمام خیالات)کو ایک طرف رکھ دیا۔”
جی ہاں، عارضی خوشی کی تلاش میں ہم اپنی آزادی اور ابدی خوشی میں رہنے کا حق کھو دیتے ہیں۔
خلاصہ
پہلی نظر میں “با اخلاق ہونا ہی آزادی ہے”کے نعرے میں تضاد محسوس ہوسکتا ہے، لیکن اگر ہم بغیر کسی تعصب کے سوچیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حقیقی آزادی کے حصول کے لیے اخلاقی زندگی گزارنا ضروری ہے۔ اخلاق آزادی کی بنیاد ہے، کیوں کہ یہ افراد کو ایسے انتخاب کرنے کی اجازت دیتا ہے جو دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر خوشی اور امن کا باعث بنے۔ اگرچہ لطف اندوزی اور تفریح انسانی زندگی کا حصہ ہیں، لیکن زندگی کی حقیقی خوب صورتی سے اس کے مکمل جوہر میں لطف اندوزہونے کے لیے ہمیں اس تھیوری پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ: “ہر چیز کے لیے ایک جگہ ہو اور ہر چیز اپنی جگہ پر ہو۔”” A place for everything and everything in its place “سب کا ہم آہنگی کے ساتھ مل جل کر رہنا ضروری ہے۔ قرآن و سنت کی طرف سے دی گئی اخلاقی ہدایات اور اصول یہ ہیں کہ ہر ایک کو نتیجہ خیز زندگی گزارنے کی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔ اسلام جس چیز کی ترویج کرتا ہے وہ ایک ایسا نظام ہے جو افراد اور معاشرے کے مفادات کو ہم آہنگ کرتا ہے اور بنیادی انسانی حقوق میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ صرف اللہ کی ہدایت کے ذریعے ہی ان متضاد و متعارض مفادات کو مربوط وہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2024