ایک واقعہ اندلس اور مغرب اسلامی میں مرابطی سلطان علی بن تاشفین (م: 538ھ۔1143ء) کے زمانے میں پیش آیا تھا۔ علی بن تاشفین وہی سلطان ہے جس کے تعلق سے ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ ’’ وہ علماء کی تعظیم کیا کرتا تھا اور ان سے مشورے کیا کرتا تھا۔‘‘ اس کے زمانے میں فقہ، کتب اور فروعی مسائل اس قدر عام ہو گئے تھے کہ لوگ حدیث و آثار سے بے زار ہوگئے، فلسفے کی توہین کی جانے لگی، علم کلام کو رد کر دیا گیا اور اس سے نفرت کی جانے لگی۔‘‘
کلامی و فلسفیانہ علوم کو شیطانی قرار دینے کا ایک اثر یہ ہوا کہ ’’اس زمانے کے لوگوں نے ہر اس شخص کو کافر قرار دینے کی عادت بنا لی جو علم کلام میں غور و خوض کرتا ہوا نظر آتا تھا۔المراکشی مزید کہتے ہیں کہ کلامی اور فلسفیانہ مباحث کے خلاف اس معاندانہ ماحول کے درمیان امیر علی بن تاشفین ملک میں وقتا فوقتاً یہ اعلان کراتا رہتا تھا کہ علم کلام میں غور و خوض سےقطعی گریز کیا جائے۔جس کے پاس اس علم کی کوئی بھی کتاب پائی گئی اس کی سرزنش کی گئی۔ ابو حامد الغزالیؒ کی کتابیں المغرب میں پہنچیں تو علی بن تاشفین نے انھیں جلانے کا حکم دے دیا اور کسی کے پاس ان کی کوئی کتاب پائی گئی تو اسے قتل اور مال و اسباب ضبط کر لیے جانے کی دھمکی دی گئی۔ معاملہ اس حد تک سخت ہو گیا تھا۔‘‘
اس کتاب کے نسخے پورے اندلس میں مالکی مسلک کے قاضی القضاة محمد بن علی ابن حمدین التغلبی(م: 508ھ ۔ 1114ء) کی نگرانی میں جلائے گئے تھے۔ ان کے بارے میں امام ذہبی کہتے ہیں کہ ’’وہ امام ابوحامد الغزالی کے مسلک تصور پر تنقید کیا کرتے تھے اور اس کے رد میں انھوں نے کتاب بھی لکھی ہے۔‘‘
دوہرا وژن
قاضی عیاض مالکی (م: 544ھ ۔ 1149ء) کی گفتگو سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ احیاء علوم الدین کا عمیق صوفیانہ مواد ہی اسےجلائے جانے کا بنیادی محرک و سبب تھا۔ قاضی عیاض مالکی کے بارے میں امام ذہبی کی روایت کے مطابق: ’’شیخ ابو حامد (الغزالی) جن کے بارے میں سخت ناپسندیدہ باتیں سنی جاتی ہیں اور جن کی بڑی عظیم تصنیفات ہیں، انھوں نے اپنے صوفیانہ مسلک میں غلو اور مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہےاور اہل تصوف کی مدد ونصرت کے لیے خود کو وقف کر دیا ہے۔ وہ تصوف کے داعی بن گئے ہیں اور انھوں نے اس موضوع پر اپنی مشہور تالیفات مرتب کی ہیں۔ ان تالیفات کے بعض مقامات پر انھیں آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ ان کے بارے میں امت بدگمان ہو گئی ہےاور اللہ ہی ان کے راز سے زیادہ واقف ہے۔ ہمارے یہاں مراکش میں سلطان کی جانب سے کتابوں کو جلائے جانے اور ان سے دوری اختیار کرنے کے سلسلے میں فقہاکا فتوی آگیا ہےجسے عملی جامہ پہنایا گیا۔‘‘
ابن طملوس، جو کہ فلسفی ابن رشد کے اہم شاگردوں میں سے تھا، نے امام غزالی کی کتابو ں کو نذر آتش کیے جانے کے چند برسوں کے بعد ہی ان کی کتابوں کے تعلق سے اندلس اورمراکش میں عمومی نوعیت کے تاریخی انقلاب کا مشاہدہ کیا۔ اس نے اس عظیم تبدیلی میں مذہبی اور سیاسی عوامل کی کارفرمائی کا بھی مشاہدہ کیا۔ یہ 541ھ ۔ 1146ء میں موحدین کے ہاتھوں مرابطی سلطنت کا تختہ الٹ دیے جانے کے بعد کی بات ہے۔موحدین امام غزالی کو اپنی دینی دعوت کے پیشوا محمد بن تُومَرت (م: 525ھ ۔ 1131ء) کا شیخ و رہنما مانتے تھے۔
اسی لیےجوں ہی موحدین کے لیے حالات سازگار و ہموار ہوئے ’’لوگوں کو امام غزالی رحمہ اللہ کی کتابیں پڑھنے کی ترغیب دی جانے لگی اور لوگ ان کتابوں کا مطالعہ کرنے لگے۔ اس کے بعد کوئی شخص ایسانھیں بچا جس پر امام غزالی کی کتابوں سے محبت و دل چسپی غالب نہ آ گئی ہو ،سوائے ان غالی قسم کے مقلدین کے جن پر جمود حد سے زیادہ غالب تھا۔ اس طرح ان کی کتابوں کا مطالعہ کفر و زندقہ قرار دیے جانے کے بعد شریعت اور دین بن گیا۔‘‘
البتہ واقعات کو پیش کرنے کے سلسلے میں انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس جانب اشارہ کر دیا جائے کہ اندلس کے مالکی فقہاء امام غزالی کی کتابوں کے سلسلے میں حکومت کے مخالفانہ موقف سے متفق نہیں تھے۔ اسی لیے ان کی کتابوں کو نذر آتش کیے جانے کے سرکاری حکم صادر ہونے کے وقت سے ہی فقہا کی ایک جماعت اس کی مخالف تھی۔ ان میں سرفہرست نام امام علی بن محمد بن عبداللہ الجُذامی البَرجی (م: 509ھ۔1115ء) کا ہے۔ ان فقہائے کرام نے مشترکہ طور پر ایک فتوی جاری کیا تھا جو امام غزالی کی کتابوں کو جلانے والے پر تادیب کو واجب اور کتابوں کی قیمت کی ادائیگی کو لازم قرار دیتا تھا، اس لیے کہ یہ کتابیں ایک مسلم کا اثاثہ تھیں۔‘‘ (ابن اَبار القضاعی، معجم اصحاب القاضی ابی علی الصَّدفی)
دل چسپ بات یہ ہے کہ کتابوں کو ندر آتش کرنے پر مالی جرمانہ عائد کرنے کے سلسلے میں جو فتوی صادر کیا گیاتھا، بعض علماء غیر مسلموں کی کتابوں کو بھی اس حکم میں شامل کرتے ہیں تاکہ آزادی عقیدہ کا تحفظ ہو سکے اور سماج کے مختلف طبقات کے درمیان پر امن مذہبی بقائے باہمی کی حفاظت ہو سکے۔ اس قبیل کی فقہی نصوص ’حاشیة البُجَیرمی علی الخطیب الشربینی‘ از علامہ سلیمان بن محمد البجیرمی شافعی (م: 11ھ ۔ 1806ء) میں آئی ہیں کہ ’’کفار کی کتابوں کو جلانا جرم ہے کیوں کہ ان میں بھی اللہ کے نام مذکورہوتے ہیں اور انھیں جلانے سے مال کا ضیاع بھی لازم آتا ہے۔‘‘
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سَموال بن یحیی المغربی(م: 570ھ ۔ 1174ء تقریباً) [جو کہ یہودی عالم تھا اور اسلام قبول کر چکا تھا] نے اپنی کتاب ’بذل المجہود فی اِفحام الیہود‘ میں یہ بات ریکارڈ پر لا دی ہے کہ ’’بلا شک و شبہ گروہ یہود سب سے خوش قسمت گروہ ‘‘ اس اعتبار سے ہے کہ ان کی کتابوں اور آثار کی حفاظت کی گئی باوجودیہ کہ یہودی زمانے کے اعتبار سے سب سے قدیم امت ہے اور وہ امت ہے جس پر سب سے زیادہ اقوام مثلاً کنعانیوں، بابلیوں، ایرانیوں ، یونانیوں، عیسائیوں اور اسلام نے غلبہ پایا ہے۔ لیکن ان تمام امم و اقوام میں سے سوائے مسلمانوں کے کوئی ایک امت بھی ایسی نہیں ہے جو انھیں ختم کرنے، انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ان کے ملک و شہروں کو جلانے ، تباہ وبرباد کرنے اور ان کی کتابوں کو جلانے میں حد سے نہ گزر گئی ہو۔‘‘
عمومی رجحان
کتابوں کو نذر آتش کرنے کا رجحان متعین طور پر کسی ایک مخصوص اسلامی گروہ تک محدود نہیں تھا، بلکہ علمی حلقوں سے متعلق تمام مسلم گروہوں تک اس کے اثرات پھیلے ہوئے تھے۔ہر گروہ اور طبقے نے دوسرے گروہوں اور طبقات کے خلاف یہ عمل انجام دے رکھا تھا، بسا اوقات تو ایک گروہ کی داخلی صفوں کے اندر بھی ہمیں یہ سلسلہ موجود نظر آتا ہے۔ اس قبیل کے بہت سے واقعات بطور مثال اس مضمون میں بیان ہو ئے ہیں۔
اسی قبیل کی ایک مثال وہ ہے جو قاضی عیاض نے ’ترتیب المدارک‘ میں ذکر کی ہے کہ فاطمی عہد کی حکومت نے اسکندریہ کے ایک عالم کو تعذیب کا نشانہ بنایا۔ ان کا نام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ بن عتّاب تھا اور ’ابن المقری‘ کے نام سے معروف تھے۔ وہ ایک مالکی فقیہ تھے اور مسلمانوں کے ثقہ اور عمدہ اشخاص میں شمار کیے جاتے تھے۔ بنو عبید (فاطمیوں) نے انھیں مارا پیٹا اور سنّی مسلک چھوڑنے پر مجبور کیااور ان کی کتابوں کو آگ لگا دی۔‘‘اسی طرح فاطمیوں نے ( جن کا تعلق اسماعیلی شیعہ فرقے سے تھا) شیعوں کے اثنا عشری مسلک کے حامل ایک بڑے امام کی کتابوں کو نذر آتش کر دیا ۔ وجہ یہ تھی کہ اس نےان کے مسلک کی آرا کے رد میں کتاب لکھی تھی۔‘‘
امام ذہبی ’سیر اعلام النبلاء‘ میں بیان کرتے ہیں کہ جعفری شیعی امام ابوالحسن ثابت بن اسلم الحلبی (م: 460ھ ۔ 1069ء تقریباً) شیعی فقیہ اورحلب کے معروف نحوی تھے۔ ۔۔ علمی افادے کی حیثیت سے نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ان کی ایک تصنیف میں اسماعیلیوں کے عیوب سے پردہ اٹھایا گیا تھا اور ان کی دعوت کے آغازکی تاریخ بیان کی گئی تھی۔ انھوں نے کتاب میں بتایا تھا کہ اس فرقے کی بنیاد جھوٹ اور فریب پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ داعی قوم (شام میں شیعوں کے مذہبی مرشد) نے انھیں گرفتار کیا اور مصر بھجوا دیا، جہاں فاطمی خلیفہ مستنصر (م: 487ھ ۔ 1094ء) نے انھیں سولی پر چڑھا دیا۔ اللہ اس سے راضی نہ ہو جس نے انھیں قتل کیا۔ ان کی کتابوں کا ذخیرہ بھی جلا دیا گیا۔ اس ذخیرے میں دس ہزار کتابیں تھیں۔ اللہ اس ’بدعتی‘ پر رحم فرمائے جس نے ملت کا دفاع کیا۔‘‘
سلفی امام ذہبی کا یہ شاندار فقہی موقف ہے، حالاں کہ امام ذہبی علمی پس منظر کے لحاظ سے عقیدے کے اصولی معاملات میں حنبلی اور فقہ کے فروعی مسائل میں شافعی مسلک کے پیرو تھے۔ امام ذہبی نے حلب کے مذکور بالا فقیہ کو اگرچہ ’بدعتی‘ کہا ہے ، تاہم انھوں نے ان امور پر توجہ دی جودونوں کے درمیان مشترک تھے اور اس بات پر ان کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے ’’ملت کا دفاع کیا۔‘‘ ان کے لیے رحمت کی دعا کی اور ان کے قاتل کے لیے اللہ کی ناراضگی کی بد دعا کی اور اسماعیلی شعیہ داعیوں کے ہاتھوں انھیں جس آزمائش سے دوچار ہونا پڑا اس کی مذمت بھی کی۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ دوسروں کی کتابوں کو جلانے کے اسباب میں سے ایک سبب علمی برتری کی خواہش اور علمی مقام و مرتبے میں دوسروں سے بڑھ کر رہنے کا شوق و جذبہ بھی تھا۔ ظہیر الدین البیہقی (م: 565ھ ۔ 1170ء) نے ’تتمۃ صوان الحکمۃ‘ میں ایک عظیم الشان لائبریری کو جلائے جانے کا سبب بیان کیا ہے۔ یہ لائبریری سامانی سلطنت کے شاہی دیوان کے تابع تھی۔ یہ لائبریری دارالحکومت بخارا میں تھی۔ بعض لوگوں نے معروف فلسفی ابن سینا (م: 428ھ ۔ 1038ء) پر یہ الزام لگایا ہے کہ اس نے ’’ان کتابوں کو اس لیے جلا دیا تھا تاکہ تمام علوم و معارف کی نسبت اس کی طرف کی جانے لگےاور ان علمی افادات کا سرا ان کے اصل حاملین سے کٹ جائے۔‘‘ بعض اقتدار کے خواہاں افراد کی فقہی کتابوں کو جلانے میں دل چسپی ان کے سیاسی پروپیگنڈے کا حصہ تھی۔
غیرت و حسد
کتابیں جلانے کا ایک سبب وہ حسد بھی تھا جو فقہی مسلک کے بعض علماء کے درمیان پایا جاتا تھا، اور ان کے درمیان جو اختلافات، رقابتیں یا دوسروں سے اوپر رہنے کے لیے مقابلہ آرائی بھی اس کا ایک سبب تھا۔ اس کے نتیجے میں بادشاہو ں اور امرا کے سامنے ایک دوسرے کی چغل خوری اور غیبت کی جاتی تھی۔ یہ چغلی اور غیبت بھی کتابیں جلانے کا سبب بنتی تھی۔اندلس کے فقہائے مالکیہ امام ابن حزم اندلسی (م: 456ھ ۔ 1065ء) کے فقہی منھج ، علمی مناظروں میں اختیار کیے جانے والے طرز استدلال سے متعلق بہت سی چیزوں پر ان کی گرفت کیا کرتے تھے۔ امام ابن حزم بھی اسی قدر سختی کے ساتھ ان فقہاکی نکیر کیا کرتے تھے ، ان پر متعصب ہونے کا الزام عائد کیا کرتےتھے اور یہ الزام عائد کیا کرتے تھے کہ یہ لوگ شرعی نصوص کو چھوڑ کر انسانی آرا کو ترجیح دیتے ہیں۔
اسی لیے امام ذہبی ابن حزم کی آزمائش کو مختصراً اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’علماء کے خلاف زبان درازی کے جرم میں انھیں آزمائشیں دی گئیں اور دیس نکالا دے دیا گیا۔ ۔۔ مالکیوں کی ایک جماعت ان کے خلاف کھڑی ہو گئی۔ علاقے کے بادشاہوں کو ان سے متنفر کیاگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت نے انھیں دور کر دیا اور ان کی کتابیں جلا ڈالی گئیں۔‘‘ انھی بااثر فقہاء کی جانب سے اکسائے جانے پر اندلس کے سب سے بڑے امیر المعتضد ابن عباد (م: 461ھ ۔ 1069ء) نے یہ کتابیں جلوائی تھیں۔
جس طرح امام غزالی کی کتابیں پہلے جلائی گئیں اور بعد میں انھیں سلاطین موحدین کی حمایت و تحفظ حاصل ہوا تو ’’ان کی کتابوں کا مطالعہ کفر و زندقہ کے بجائے شریعت اور دین کا جز بن گیا۔‘‘ اسی طرح ابن حزم کی وفات کے تقریباً ڈیڑھ صدی بعد انھی سلاطین میں سے ایک ایسا گزرا جس نے ان کی کتابوں پر توجہ دی اور انھیں اپنی حمایت فراہم کی۔ اس سلطان کا نام المنصور یعقوب بن یوسف الموحدی تھا جس کا ذکر اس سے پہلے ابن رشد اور فلسفے کے موضوع پر ان کی کتابوں کو جلائے جانے کے سلسلے میں آ چکا ہے۔
تصوف کی کتابیں بھی بعض علاقوں اور زمانوں میں آگ کی نذر کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر تصوف کے موضوع پر امام غزالی کی اہم ترین کتاب احیاء علوم الدین کو مغرب اقصی اور اندلس میں مسلسل چار دہائیوں تک ندر آتش کیا جاتا رہا، جو کہ مرابطی سلطنت کی کل عمر کا نصف ہے۔ اس کے بعد تو تصوف سے متعلق شخصیات کی متنازعہ کتابوں کو جلانے کی وارداتوں کی لائن لگ گئی، بلکہ بعض کتابوں کو کئی مرتبہ جلایا گیا، مثلاً ابراہیم بن عمر البقاعی (م: 885ھ ۔ 1480ء) کے مطابق محی الدین ابن عربی (الحاتمی، م: 638ھ ۔ 1240ء) کی کتابوں کو ایک سے زائد بار نذر آتش کیا گیا۔ (تنبیہ الغبی)
حملہ آور دشمن
مغرب کی جانب سے بلاد شام پر صلیبی حملوں سے لے کر مشرق بعید میں اسلامی علاقوں پر منگولوں کے حملوں تک اسلامی تہذیب کی تاریخ میں کتابوں اور کتب خانوں کو جلائے جانے کا عظیم ترین حادثہ ہر بار اس وقت پیش آتا تھا جب دیار اسلام غیر ملکیوں کے تسلط میں آ جاتا تھا۔ ان طاقتوں نے عالم اسلام کے قلب تک پہنچنے کے بعد دارالخلافہ بغداد کو زیر کر لیا اوراسپینی عیسائیوں نے جب بھی کسی اسلامی شہر کو زیر کیا تو وہاں کے ان کتب خانوں کو آگ لگا کر انھیں ختم کر دیا۔
مورخ جمال الدین القِفطی (م: 646ھ ۔ 1248) نے ’انباہ الرواۃ‘ میں ابوالعلاء المعری (م: 449ھ ۔ 1058ء) کے حالات زندگی بیان کیے ہیں۔ اس نے ان کے بارے میں جہاں اور باتیں کہیں ہیں ، وہیں صلیبی حملہ آوروں کے ہاتھوں ان کے کتابوں سے بھرے ہوئے کتب خانے کا انجام بھی ذکر کیا ہے: ’’ابوالعلاء کی اکثر کتابیں نیست و نابود کر دی گئیں۔ صرف وہ کتابیں ہی بچ پائیں جو491ھ ۔ 1098ء میں کفار (صلیبیوں ) کے حملے سے پہلے شہر ’’المعرّہ‘‘ سے نکل چکی تھیں۔اس حملے میں المعرہ کے کافی لوگوں کو قتل کر دیا گیا اور جو سامان ہاتھ لگا اسے لوٹ لیا گیا۔ لیکن وہ اہم کتابیں جو المعرہ سے باہر نہ جا سکی تھیں ، وہ سب مٹا دی گئیں۔اگر ان کتابوں میں سے کچھ ہاتھ بھی لگا ہے تو وہ اصل کتاب کا کوئی جز ہی ہے۔‘‘
چھٹی صدی ہجری (بارہویں صدی عیسوی) کے آغاز میں طرابلس شہر، جو کہ آج کل شمالی لبنان میں واقع ہے، پرفاطمی خلافت کے ماتحت بنو عمّار الکُتّامیہ کا خاندان حکم راں تھا۔ اس خاندان نے شہر کے اندر ایک وسیع و عریض کتب خانہ تعمیر کیا تھا۔ اس میں مختلف علوم و فنون پر طرح طرح کی کتابیں تھیں، حتی کہ اس کتب خانے نے ’’تاریخ کے مشہور دارالعلم‘‘ کی حیثیت سے اپنی پہچان بنا لی تھی۔ ( ’مسالک الابصار ‘از ابن فضل اللہ العمری (م : 749ھ ۔ 1348ء))
503ھ میں صلیبیوں نے طویل اور درد ناک محاصرے کے بعد شہر طرابلس کو زیر کر لیا تو اس کتب خانے کی’’ ہر چیز کو انھوں نے نوچ ڈالا، مردوں کو قیدی بنا لیا اور خواتین اور بچوں کو بھی محبوس کر لیا۔ شہر کے مال و متاع اور ذخیروں کے ساتھ ان کے ہاتھ کتابیں اور کتب خانے لگے۔ یہ کتابیں اتنی زیادہ تھیں کہ انھیں گنا نہیں جا سکتا تھا۔‘‘ (تاریخ دمشق از ابن القلانسی تیمی)
اس کتب خانے پر آنے والی تباہی کس درجے کی تھی اس کا اندازہ لگانے کے لیے اس واقعے کی طرف اشارہ کر دینا کافی ہے جسے جرجی زیدان (م 1332ھ ۔ 1914ء) نے ’تاریخ تمدن اسلامی‘ میں ذکر کیا ہے کہ ’’جب انگریزوں نےصلیبی جنگوں کے دوران شام کا شہر طرابلس فتح کر لیا تو فرانسیسی شہزادے ’برٹرام سینٹ جیل‘ کے حکم پراس کے کتب خانے کو آگ لگا دی گئی۔ ہوا یہ تھا کہ یہی شہزادہ کتب خانے کے ایک کمرے میں داخل ہوا تو اس میں قرآن کے بہت سارے نسخے نظر آگئے۔ بس اس نے پورے کتب خانے کو ہی جلا ڈالنے کا فرمان جاری کر دیا۔ ان لوگوں کے اندازے کے مطابق اس میں تیس لاکھ کتابیں تھیں۔‘‘
مورخ ابن تغری بَردی (م: 874ھ ۔ 1470ء) ’النجوم الزاہرہ‘ میں لکھتا ہے کہ منگولوں نے 656ھ ۔ 1258ء میں عراق پر قبضہ کر لینے کے بعد’’بغداد کومکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا اور علمی کتابوں کو آگ لگا دی۔اس وقت دنیا کے اندر جملہ علوم و فنون پر جو بھی کتابیں ہوسکتی تھیں وہ یہاں موجود تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے پکی اینٹوں کے بجائے انھی کتابوں کی راکھ کو پانی اور مٹی میں ملاکر اس سے پل تعمیر کیا تھا۔‘‘
سانحۂ اندلس
ساتویں صدی ہجری کی دوسری تہائی کے آغاز میں مغرب اقصیٰ میں آگ زنی کے خوفناک حادثے پیش آنے والے تھے جن کا ایندھن اندلس کے دارالحکومتوں میں موجود کتب خانوں کو بننا تھا۔ یہ وہ کتب خانے تھے جن میں تقریباً آٹھ صدیوں کے دوران مختلف موضوعات و فنون پر علمی کاوشوں کے انبار لگ چکے تھے۔ اس آگ کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک اندلس کی ریاستوں میں مسیحی بادشاہ جھاڑو پھیرتے رہے اور جب تک غرناطہ کا آخری قلعہ بھی زوال کی ندر نہیں ہوگیا۔
مورخ عبداللہ عنان نے اپنی گراں قدر کتاب ’دولۃ الاسلام فی الاندلس‘ (اندلس میں اسلامی حکومت) میں غرناطہ میں کتابیں جلائے جانے کے ان واقعات کا خلاصہ پیش کیا ہے جو 897ھ ۔ 1492ء میں غرناطہ کے اندر اس وقت پیش آئے تھے جب اس شہر نے ہسپانویوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ مورخ کہتا ہے کہ کارڈینل فرانسیسکو جیمینیز (م: 923ھ ۔ 1517ء)نے ’’ایک شرمناک اوروحشیانہ کام انجام دینے‘‘ کا حکم دیا۔ اس نے غرناطہ اور ا س کے مضافاتی علاقوں کے باشندوں سے جس قدر ممکن ہو سکتا تھا کتابیں جمع کرنے کا حکم دیا۔ یہ کتابیں ایک زبردست ڈھیر کی شکل میں میدان با ب الرملة میں جمع کی گئیں۔ باب الرملہ غرناطے کا سب سے بڑا میدان تھا۔ اس میں قرآن کریم کے بہت سارے نسخے اورادب و دیگر علوم پر ہزاروں کتابیں تھیں۔ ان تمام کتابوں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا۔۔۔۔۔اوردسیوں ہزار عربی کتابیں اس حملہ آور کارروائی کا شکار ہوگئیں۔ یہ ہے اندلس کی بچی کھچی اسلامی فکری میراث کاخلاصہ ۔‘‘
آگ زنی کی یہ واردات اندلس میں اسلاموفوبیا کی جڑوں کی موجودگی کا سب سے بڑا اظہار تھی۔ عنان کہتا ہے: ’’اسپینی مورخین اس کارروائی میں جلائی جانے والی کتابوں کی تعداد کاالگ الگ اندازہ لگاتے ہیں۔ ’ڈی روبلس (م: 1013ھ ۔ 1604ء)کے اندازے کے مطابق ان کی کتابوں کی تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار تھی۔ برمنڈ ڈی پیڈرازا (B۔ de pedraza)(م: 1048ھ ۔ 1638ء) نے ان کتابوں کی تعداد اندازاً ایک لاکھ پانچ ہزار لکھی ہے۔بعض دوسرے لوگوں نے صرف پچاس ہزار کا اندازہ لگا یا ہے۔ مستشرق ’جوس کونڈی [José Conde] (م: 1235ھ ۔ 1820ء) کے اندازے کے مطابق کتابوں کی تعداد اسّی ہزار تھی۔ اور شاید یہی تعداد اقرب الی الفہم ہے۔‘‘
البتہ جرمن مستشرق خاتون ’سِگرِڈ ہونکے‘ (Sigrid Hunke)[م: 1420ھ ۔ 1999ء]نے سب سے زیادہ تعداد والی روایت ذکر کی ہے۔ شاید انھوں نے اس روایت کو دوسری روایتوں پر ترجیح دیا ہے۔ اسی لیے اپنی کتاب God’s Sun Rises on the West (خدا کا سورج مغرب پر طلوع ہوتا ہے) میں کہتی ہیں کہ ’’جو کتابیں جلائی گئیں ان کی تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار سے متجاوز تھی۔ اور یہ کتابیں آٹھ صدیوں تک زندہ رہنے والی تہذیب و ثقافت کا عظیم سرمایہ تھیں۔‘‘
اس کے بعد عنان بعض مغربی مستشرقین کے تبصرے نقل کرتا ہے جن میں کارڈینل جیمینز کی کارروائی پر نکیر کی گئی ہے۔ انھی میں سے ایک تبصرہ اسپین نژاد امریکی مورخ ’ولیم بریسکوٹ (م: 1275ھ ۔ 1859ء) کا ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’یہ افسوس ناک حرکت کسی وحشی نے انجام نہیں دی ، بلکہ ایک مہذب ربی نے ایسا کیا ہے۔ اور یہ واقعہ ازمنئہ وسطیٰ کے تاریک دور میں نہیں، بلکہ سولہویں صدی کے آغاز میں اور ایک روشن خیال قوم کے بیچوں بیچ رونما ہوا تھا، جو بڑی حد تک اپنی ترقی کے لیے انھی عربوں کے خزانہ علم وحکمت کی مرہون تھی۔‘‘
جدید تاریخ میں کتب خانوں کو نذر آتش کیے جانے سے متعلق پیش آنے والے واقعات میں سے ایک مشہور ترین واقعہ لائبریری آف کانگریس کو نذر آتش کیے جانے کا ہے۔ یہ واقعہ 1329ھ ۔ 1814ء میں اس وقت پیش آیا تھا جب انگریزی افواج نے واشنگٹن پر حملے کے دوران لائبریری کو آگ لگا دی تھی۔ اس واقعے کے مرتکبین خواہ تہذیب بلکہ معاصر مغربی تصور کے مطابق جدیدیت کے کتنے ہی اعلی پائے پر فائز رہے ہوں، ان کی یہ حرکت 35ہزار کتابوں ، یعنی اس وقت لائبریری کے مجموعی ذخیرے کا 60 فی صد حصہ تباہ و برباد کردینے کا سبب بنی تھی۔
اپنی ہی کتابیں جلا دیں
اگرچہ ہماری تاریخ میں کتاب سوزی کے بیش تر واقعات برسراقتدار قوت کی اس مشینری کا حصہ ہوا کرتے تھے جو اپنی جغرفیائی حدود کے اندر علمی وفکری فضا کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی تھی، تاہم اس طرح کے واقعات بھی بارہا پیش آئے کہ علماء نے خود اپنی کتابیں اپنے ہاتھوں سے آگ کی نذر کر دیں۔ اس کے پس پشت مختلف اسباب کارفرما ہوتے تھے۔ مثال کے طور پر مسلکی اختلاف کی صورت میں نتائج برآمد ہونے اور مسلکی مخالفین کی جانب سے دائرہ حیات تنگ کر دیے جانے کا خوف لاحق ہوتا تھا، یا سیاسی اقتدار کی گرفت کا اندیشہ لاحق ہوتا تھا ۔ مصنف کے مزاج و نفسیات میں اتار چڑھاؤ یا معاشی حالات کی تنگی بھی ایک سبب ہوا کرتی تھی۔ حقیقی یا محض خیالی نوعیت کے بعض علمی اسباب و محرکات بھی اپنی کتابوں کو اپنی ہی مرضی سے جلا ڈالنے کا محرک ہوا کرتے تھے۔ زندگی کے آخری ایام میں جامع العلوم ادیب ابوحیان التوحیدی (م: مابعد 400ھ ۔ 1010ء) کی زندگی تنگ ہو گئی تو اس نے اپنی کتابیں جلا ڈالی تھیں۔
ایک مثال سید العلماء شیخ ابوسعید السیرافی (م: 368ھ ۔ 979ء) کی بھی ہے۔ انھوں نے اپنے فرزند محمد سے کہا: ’’میں نے تمھارے لیے یہ کتابیں چھوڑی ہیں تاکہ تم ان سے آخرت کی بھلائی پاؤ۔ اگر تم دیکھو کہ یہ کتابیں تمھارے ساتھ خیانت کر رہی ہیں تو انھیں آگ کا نوالہ بنا دینا۔‘‘
یاقوت حموی نے ’معجم الادباء‘ میں اس خیا ل کا اظہار کیا ہے کہ ابوحیان نے زندگی کے آخری ایام میں اپنی کتابیں ا س لیے جلا دی تھیں کہ ان سے اسے کوئی دنیاوی فائدہ نہیں ہو رہا تھا، اور انھیں ان لوگوں سے دور رکھنا چاہتا تھا جو اس کی موت کے بعد ان کی قدرو قیمت سے واقف نہ ہوں۔‘‘
نفسیاتی اسباب و محرکات
توحیدی ان نفسیاتی عوامل و محرکات کی وضاحت کرتا ہے جنھوں نے اسے اپنی کتابیں جلانے پر مجبور کیا۔ وہ کہتا ہے: ’’ مجھ پر یہ بات گراں گزری کہ ان کتابوں کو ایسے لوگوں کے حوالے کر جاؤں کہ جب وہ ان پر نظر ڈالیں گے تو ان کے ساتھ کھلواڑ کریں گے اور میری عزت کو داغ دار کریں گے۔ کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے میری غلطیوں اور سہو پر مجھے گالیاں دیں گے۔ میری کمیاں اور عیوب ایک دوسرے کو دکھائیں گے۔۔، میں یہ کتابیں ایسے لوگوں کے لیے کیسے چھوڑ جاؤں جن سے بیس سال کی رفاقت کے دوران مجھے صحیح محبت نہیں ملی، نہ کوئی انسان ایسا نظر آیا جو عہد کی حفاظت کرنے والا ہو۔ میں ان لوگوں کے درمیان شہرت عزت حاصل کرنے کے بعد بھی خاص وعام کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوا اور مجھے دین اور مروت بیچنے پر مجبور ہونا پڑا۔‘‘
مورخین بتاتے ہیں کہ نظریاتی مخالفین کے خوف سے اپنی ہی کتابوں کے جلا دینے والوں میں سے ایک امام ابن عقیل الحنبلی (م: 513ھ ۔ 1119ء) بھی ہیں۔ ان کے تعلق سے ابن الجوزی ’المنتظم‘ میں لکھتے ہیں: ’’ہمارے حنبلی علماء ان (ابن عقیل) کو اس بات پر ملامت کیا کرتے تھے کہ وہ ابوعلی ابن الولید (معتزلی) کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ یہ اظہار ملامت ان باتوں کی وجہ سے تھا جو ابن الولید کہا کرتے تھے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ابن عقیل بیمار پڑ گئے تو انھوں نے اپنی بعض کتابیں ایک شخص کو دیں جو ان کی پناہ میں رہتا تھا۔ اسے لوگ ’معالی الحائک‘ کہتے تھے۔ ابن عقیل نے اس سے کہا: ’’میں مر جاؤں تو میرے بعد یہ کتابیں جلا دینا۔‘‘
چند دیگر اسباب مثلاً بعض علماء کے علمی مزاج میں تبدیلی بھی اس کا سبب بنی ہے۔ مثال کے طور پر ابو عمرو بن العلاء نحوی نے اپنی کتابوں کو ضائع کیا تو توحیدی نے اس کی یہی وجہ نقل کی ہے۔ القِفْطی نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ وہ ’انباہ الرواۃ‘ میں لکھتا ہے: ’’ابوعمرو عالَم عرب میں عربی زبان، قرآن اور شعر وادب کا سب سے بڑا عالم تھا۔۔۔ فصحائے عرب پر اس نے جو کتابیں لکھی تھیں ، ان کی تعداد اتنی تھی کہ ان سے اس کا ایک گھر تقریباً چھت تک بھر گیا تھا۔ پھر اس کا مزاج بدل گیا اور تمام کتابوں کو اس نے آگ لگا دی۔‘‘
امام خطیب بغدادی (م: 463ھ ۔ 1072ء) ایک منہجی سبب کی جانب ہماری توجہ مبذول کراتے ہیں، یعنی انھیں اپنے بعد علمی امانت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ ایسا بارہا ہوا کہ قدیم علماء کو اس خوف اوراندیشے نے اپنی تالیفات کو ضائع کرنے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب ’تقیید العلم‘ میں کہتے ہیں: ’’متقدمین علما ء میں ایسے ایک سے زائد تھے جنھوں نے وفات کے قریب اپنی کتابوں کو اس خوف سے ضائع کر دیا یا ضائع کرنے کی وصیت کر دی کہ کسی غیر اہل علم کے ہاتھو ں میں نہ پہنچ جائیں جو اس کے احکامات کو جان نہ سکے اورجوکچھ ان کتابوں میں موجود ہے اسے ظاہر پر محمول کر بیٹھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس میں کمی بیشی کر دے اور اس کمی بیشی کو اس کے اصل کاتب کی طرف منسو ب کر دیا جائے۔ یہ اور اس طرح کی تمام چیزیں علمائے متقدمین کے سلسلے میں نقل کی گئی ہیں کہ وہ ان چیزوں سے اندیشہ ناک رہتے تھے۔‘‘
نفسیاتی اثرات ونتائج
کتابوں کو نذر آتش کیے جانے کی وجہ سے علماء کا غم زدہ و پریشان ہو نا بھی عام بات ہو گئی تھی، گویا وہ ایسی کارروائیوں کے طفیل ڈپریشن کا شکار ہو جایا کرتے تھے۔ یہ حادثہ ان کے مزاج و نفسیات میں تبدیلی لے آیا کرتا تھا۔ اس وجہ سے وہ امانتِ علم اور اپنے شاگروں کے حقوق ادا کرنے کے اہل نہیں رہ جاتے تھے۔
اپنی کتابوں کوجلائے جانے پر غم زدگی کی ایک مثال یاقوت حموی نے ’معجم الادباء‘ میں نقل کی ہے: ’’عثمان بن جِنِّیّ کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ ابوعلی الفارسی (377ھ ۔ 988ء) نے ہم سے بیان کیا ہے کہ مدینة السلام (بغداد) میں آگ لگ گئی۔ اہل بصرہ کا سارا علم اس آگ کے ساتھ چلا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سارا کا سارا اپنے ہاتھ سے لکھا اور اپنے احباب کو سنایا تھا۔ جس صندوق کو آگ لگی تھی، اس میں سے کوئی چیز میرے ہاتھ نہیں لگی ، سوائےمحمد بن الحسن الشیبانی (م: 189ھ ۔ 805ء) کی کتاب الطلاق کے نصف جز کے ۔ میں نے اس حادثے پر انھیں تسلی کے کلمات کہے تو میری طرف حیرت سے دیکھا اور کہا: ’’غم و حزن کی وجہ سے میں نے دو مہینے تک کسی سے بات نہیں کی۔‘‘
حافظ سبط الحجمی شافعی (م: 841ھ ۔ 1437ء) نے اپنی کتاب ’الاغتباط بمعرفۃ من رمی بالاختلاط‘ میں امام عمر بن علی ابن الملقن شافعی (م: 804ھ ۔ 1401ء) کے حالات زندگی بیان کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’وفات سے قبل ان کی کتابوں کو نذر آتش کیے جانے کی وجہ سے ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا تھا۔‘‘ السخاوی نے اپنی کتاب ’التوضیح الابہر‘ میں یہ اضافہ کیا ہے کہ ابن الملقن کے پاگل ہو جانے کی وجہ سے ’’ان کے بیٹے نے انھیں حدیث بیان کرنے سے روک دیا تھا۔‘‘
اپنی کتابیں جلائے جانے پر غم کی یہ کیفیت بتاتی ہے کہ علماء کو اپنی ان کتابوں سے کس قدر لگاؤ ہوتاتھا، جن کی جمع وتدوین اور حصولیابی، مطالعہ و مذاکرہ اور درس تدریس میں وہ اپنی عمریں کھپا دیا کرتے تھے۔ (ماخذ: عربی مضمون الجزیرة ویب سائٹ پر موجود ہے۔)
مشمولہ: شمارہ جولائی 2025