کتابیں جلانے کی روایت

اسباب و محرکات کا تاریخی جائزہ

اسلامی تاریخ میں کتابوں کو نذر آتش کیے جانے کے واقعات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ اس نوعیت کے ناپسندیدہ واقعات و حوادث بیش تر اقتدار اور سیاسی ظلم وجبر کے مرہون منت ہوا کرتے تھے۔ دراصل کوئی بھی اقتدار جس کی بنیاد ظلم واستبداد پر ہو، اس کے یہا ں علم اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی آزادئ فکر اور روشن خیالی کی مخالفت کا رجحان پایا جاتا ہے۔اس نکتے کو علامہ عبد الرحمن کواکبی (م: ۱۳۲۰ھ/ ۱۹۰۲ء) نے اپنی کتاب ’طبائع الاستبداد‘ میں اس طرح واضح کیا ہے:

’’جس طرح کسی لالچی سرپرست کے مفاد میں نہیں کہ اس کے زیر کفالت یتیم بچے بالغ اور ہوشیار ہو جائیں، اسی طرح ظالم و جابر حکمراں یہ نہیں چاہتا کہ رعایا کے ہاتھ میں علم کی شمع آ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم ڈکٹیٹر خواہ کتنا ہی احمق ہو، اس سے یہ حقیقت چھپی نہیں رہتی کہ رعایا کے خلاف ظلم واستحصال اور اسے حالت غلامی میں اسی وقت تک رکھا جا سکتا ہے جب تک وہ بے وقوف رہے اور جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکتی رہے۔‘‘

بعض حکمراں اس گمان میں مبتلا تھے کہ کتابوں کو نذر آتش کرکے وہ روشن خیالی کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔وہ ایسا اس وقت سمجھتے تھے جب بیرونی معتقدات کے خلاف محاذ آرائی کر رہے ہوں۔ مقصد یہ ہوتا تھا کہ عوام کے درمیان حکومت کی قانونی حیثیت مضبوط ہو جائے اور ان کے ارد گرد سیاسی ڈھانچے کی بنیادوں کو مستحکم کر دیا جائے۔ نذر آتش کی جانے والی کتابیں وہ ہوتی تھیں جن سے ثابت شدہ عقیدے کی مخالفت ہوتی تھی، مثلاً وہ کتابیں جو علم نجوم اور طلسم و جادو کے قبیل سے تعلق رکھتی تھیں۔ علاوہ ازیں بعض ایسی کتابیں بھی نذر آتش کی گئیں جن کا تعلق فقہ و تصوف سےتھا، اور جن کے بارےمیں کسی حکمراں کے لیے یہ کہنا آسان ہوتا تھا کہ یہ کتابیں سماج کی یکجہتی کو منتشر کرنے کا باعث بنی ہیں۔

ان واقعات کے پیچھے سیاسی عوامل کارفرما تھے، اس کی حقیقت کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آگ لگانے کے یہ احمقانہ واقعات (کسی بھی نوعیت کی کتاب کو جلانا بہت بڑی حماقت ہے، اس لیے کہ فکر کا مقابلہ فکر سے ہی کیا جانا چاہیے) اس وقت انجام پاتے تھے جب حکومتیں تشکیل کے ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہوں، یا حکومتوں کے درمیان جنگ جاری ہو یا حکومتیں محاذ جنگ پر ہوں یا دشمنوں کے ساتھ ان کی جنگ چل رہی ہو اور ایسے حالات میں ثقافتی دراندازی اور جغرافیائی سرحدوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے درمیان کی رکاوٹیں معدوم ہو چکی ہوں۔

اس طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلم حکومتیں عام طور پر علمی مباحثوں اور علمی ایجادات میں جس قدر وسیع دامن تھیں اسی قدر ان کے یہاں بعض مختلف قسم کی نئی تالیفات وافکار کے تئیں سخت حساسیت پائی جاتی تھی۔ اور واقعی یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ اندلس علمی وادبی سطح پر ممتاز شہرت رکھنے کے باوجود نئے افکار و آراءکے خلاف حساسیت و کشیدگی والے اہم مراکز میں شمار ہوتا تھا۔ بلکہ بعض (فقہی، صوفیانہ وفلسفیانہ) کتابوں کے سلسلےمیں اختیار کیا جانے والا موقف اکثر سیاسی عمل داری سے بھی محفوظ نہیں ہوتا تھا۔

البتہ مسلمان مورخین نے اس صورت حال کا جائزہ لیتے وقت ایک ایسے تاریخی پس منظر کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی ہے جس میں سابقہ قومیں بھی اس قسم کے واقعات سے محفوظ نہیں رہی ہیں۔ مثال کے طور پر یونانی سلطنت کے زمانے میں بڑے بڑے فلاسفہ کی نگرانی میں کتابوں کو جلانے کا عمل انجام پاتا تھا۔ مورخ ابن ابی اُصَیبعہ (م: ۶۶۸ھ/ ۱۲۶۹ء) ’عیون الانباء‘ میں لکھتا ہے کہ افلاطون (م: ۳۴۸ ق م) نے ان کتابوں کو جلا دیا تھا جو فلسفی تھیلس (طالیس الملطی م: ۵۴۶ ق م تقریباً) اور اس کے شاگردوں کے ذریعے لکھی گئی تھیں۔ ان لوگوں کی کتابیں بھی جلا دی گئی تھیں جو تجربہ اور تمثیل وقیاس میں سے کسی ایک رائے کو اختیار کرنے کے قائل تھے، اور ان کتابوں کو چھوڑ دیا گیا تھا جن میں دونوں رایوں کو جمع کر دیا گیا تھا، کیوں کہ یہ حضرات بیک وقت دونوں آراء کو باہم جمع کرنے کے قائل تھے اور اس بات کو درست نہیں مانتے تھے کہ محض تمثیل و قیاس کی رائے اختیار کی جائے یا تجربہ کو تمثیل وقیاس سے الگ رکھا جائے۔

ابن ابی اصیبعہ کی کتاب میں یہ بھی ملتا ہے کہ جالینوس (م: ۲۱۰ء) ان فلاسفہ اطباء کی رائے کا مخالف تھا جو یہ کہتے تھے کہ طب ’’حیلوں کی صنعت کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہی اصل طب ہے۔‘‘ جالینوس اس قسم کا نظریہ رکھنے والے فلاسفۂ اطباء کی کتابوں پر تنقید کیا کرتا تھا بلکہ اس کے ہاتھ بعض ایسی کتابیں لگیں تو اس نے انھیں جلا دیا اور اس ’صنعتِ حیلہ گری‘ کو باطل قرار دیا ۔

لیکن اس سلسلے کا عجیب و حیرت انگیز منظر وہ ہے جس میں بعض مسلمان علما و مفکرین نے خود اپنی مرضی سے اپنی ہی کتابیں یا تو جلا دیں یا کسی اور طریقے سے انھیں تلف کر دیا، یعنی یا تو جلا دیا، یا زمین میں دفن کر دیا یا پھاڑ دیا۔ اس میں حیرت اور تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک شخص طویل زمانے تک محنت و مشقت کے ساتھ جس علم کو اپنے ہاتھ سے قلم بند کرے اس کو محض اس وجہ سے تلف کر دے کہ معاشرے میں اسے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا، یا اس وجہ سےتلف کردی گئی ہوں کہ مصنف کے منہجِ فکر میں تبدیلی آ گئی ہو، یا علم کے ذرائع تک پہنچنے کے لیے اب کی بار اس نے کوئی دوسرا طریقہ اختیار کیا ہو، یا اسے یہ ڈر لاحق ہوا ہو کہ اس کی تالیف سے بعض ایسے شبہات پیدا ہو سکتے ہیں جنھیں عام قاری سمجھ نہیں پائے گا۔

بہر حال یہ تاریک مناظر تاریکی کا محض کم زورسا ٹکڑا ہیں جس کا کوئی اثر روشنی کی اس قوت و طاقت پر نہیں پڑا جسے اسلامی تہذیب نے عالمِ اسلام اور دنیا کے گوشے گوشے میں عام کر دیا تھا۔ روشنی کی اسی طاقت کے ذریعے سے اسلامی تہذیب نے اپنی علمی، ثقافتی اور فنی میراث کے ساتھ سابقہ امتوں کی میراث کو بھی عام کیا تھا، لیکن اسے عام کرنے سے پہلے اسے آلائشوں سے پاک کر لیا گیا تھا۔ اسی لیے اسلامی تہذیب کے علمی ثمرات عقل انسانی، اور خاص طور سے مغربی عقل کو تا ایں دم غذائیت فراہم کرتے رہے ہیں۔

اصل وجہ

غالباً کتابوں اور کتب خانوں کو نذر آتش کرنے کے سلسلے میں سب سے پہلی چیز جو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک ڈکٹیٹر شپ یا آمریت اپنے دشمنوں اور مخالفین پر غلبہ حاصل کرنے اور ان کا قلع قمع کرنے کے لیے جو طریقے اختیار کرتی آئی ہے، ان میں سے ایک طریقہ یہی کتابوں اور کتب خانوں کو نذر آتش کرنے کا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ظالم اور آمر حکومتیں نہ تو علوم سے محبت رکھتی ہیں اور نہ لوگوں کو علم و معرفت کی روشنی سے منور دیکھنا چاہتی ہیں۔ اسی لیے وہ علم و معرفت کی روشنی سے گھبراتی ہیں اور افکار و آراء کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی اتنی ہی کوشش کرتی ہیں جتنی کوشش مصلحین اسے روشن و عام کرنے کی کرتے ہیں۔

قدیم ترین تحریر جس نے جابر و ظالم اقتدار کے یہاں علم و سائنس کے خلاف موقف اختیار کرنے کی بنیاد رکھی ہے وہ تحریر ہے جس کا ذکر عہد اردشیر کی دستاویز میں آتا ہے۔ یہ دستاویز فارس کی ساسانی حکومت کے بانی اَردَشیر بن بابَک (م: ۲۴۲ء) کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ اس دستاویز میں اس نے اپنے بعد آنے والے بادشاہوں کو ’نصیحت‘ کی ہے کہ عوام الناس کے ذہنوں کو بگاڑنے میں ذرا کوتاہی نہ کریں، کیوں کہ ان کے ذہنوں کا بگاڑ ہی ان کی بادشاہت و اقتدار کی ضمانت فراہم کرنے والا ہے۔ دستاویز میں کہا گیا ہے:

’’ہم سے پہلے ایسے بادشاہ گزر چکے ہیں جو اپنے مخالفین کے ذہنوں کو بگاڑنے کی کوشش کیا کرتےتھے۔ اس لیے کہ عقل مند شخص کے ذہن کو اگر بنجر و مردہ کر دیا جائے تو اس کی فطرت ومزاج کی عمدگی بھی اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی۔‘‘

حکومت جب کسی عالم کی تمام یا بعض کتابوں کو، جن کا تعلق فقہ، تصوف یا فلسفہ کسی بھی موضوع سے ہو سکتا ہے، نذر آتش کرتی ہے تو اکثر دلیل یہی ہوتی ہے کہ مفاد عامہ کے پیش نظر اور ان چیزوں کا خیال رکھتے ہوئے یہ قدم اٹھایا جا رہا ہے جو ’بیداری اور فکری سلامتی‘ کے تعلق سے لوگوں کے لیے مطلوب ہیں۔ حالاں کہ حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی کہ کسی مخصوص کتاب کا موضوع یا اسلوب حکومت یا حکمراں کے نزدیک قابل اعتراض ہوتا ہےیا پھر یہ کتابیں سرکاری پروپیگنڈے سے میل نہیں کھاتی ہیں۔

زمانہ جاہلیت میں حکومت کے مذہبی یا ثقافتی موقف کے خلاف لکھی جانے والی کتابوں کوحکومت کی جانب سے جلائے جانے کا ایک واقعہ قدیم ترین مورخ و طبیب ابن ابی اصیبعہ نے ’’عیون الانباء‘ میں ذکر کیا ہے کہ ’’سکندر اعظم (المقدونی متوفی ۳۲۳ ق م) جب دارا کی سلطنت پر قبضہ کر چکا اور فارس کو بھی فتح کر چکا تو اس نے مجوسیوں کی تمام کتابوں کو آگ لگا دی۔ البتہ اس نےعلم نجوم، طب اور فلسفے کی کتابوں پر توجہ دی اور یونانی زبان میں ان کا ترجمہ کروایا۔ اس کے بعد ان ترجمہ شدہ کتابوں کو اپنے ملک بھجوا دیا اور اصل کتابوں کو جلوا دیا۔

ایسی کتابیں جو حکومتوں کے سرکاری پروپیگنڈے کے مخالف مضامین پر مشتمل ہوا کرتی تھیں، انھیں جلائے جانے کا قدیم ترین واقعہ جسے اسلامی تاریخ نے ریکارڈ کیا ہے۔ سلیمان بن عبدالملک (م: ۹۹ھ۔ ۷۱۹ء) کا ہے اور اس کے ا س رویےکی وضاحت کرتا ہے جو اس نے اپنے ولی عہدی کے زمانے میں سیرت کے موضوع پر لکھی جانے والی ایک کتاب کے سلسلے میں اپنایا تھا۔ یہ کتاب سلیمان بن عبدالملک کے ہی کہنے پر مدینہ کے قاضی اَبَان بن عثمان بن عفان (م:۱۰۵ھ۔ ۷۲۴ء تقریباً) نے لکھی تھی، لیکن اس میں انصار کے مناقب کے ذکر میں جو باتیں بیان کی گئی تھیں وہ سلیمان کو پسند نہیں آئیں۔ چنا نچہ مورخ و ماہر انساب زبیر بن بکار (م: ۲۵۶ھ۔ ۸۷۰ء) کے مطابق سلیمان کے حکم پر اس کتاب کو جلا دیا گیا۔ (الاخبار الموفقیات)

سلیمان کی اس حرکت کو اس کے باپ یعنی اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان (م: ۸۶ھ۔ ۷۰۶ء) نے سراہا۔ اس نے کتاب کو نذر آتش کر دیے جانے کے فیصلے کی تعریف کی اور یہ کہہ کر اس حرکت کو درست قرار دیا کہ اس فیصلے سے شام کی رعایا کو فائدہ پہنچے گا۔ اس نے کہا: ’’ایک ایسی کتاب کو شام میں لانے کی کیا ضرورت ہے جس کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ملنے والا۔ تم [اس کتاب کے ذریعے سے]اہل شام کو انصار کےان مناقب و فضائل سے واقف کرانا چاہتے ہو جنھیں ہم نہیں چاہتے کہ اہل شام جانیں۔‘‘

اموی خلیفہ کی جانب سے اس قسم کے اندیشوں کا سیاسی پس منظر یہ تھا کہ واقعہ حرہ (۶۳ھ) میں اہل مدینہ نے امویوں کے خلاف بغاوت کی تھی۔ کتاب کے زمانہ ٔتالیف تک یہ واقعہ لوگوں کے ذہنوں میں تازہ تھا۔ دوسری طرف ان باغیوں (اہل مدینہ) کو کچلنے میں اہل شام ہی امویوں کا اصل ہتھیار تھے، جب کہ باغیوں کی اکثریت انصار سے تعلق رکھتی تھی۔ ایسی صورت میں کوئی ایسی کتاب اہل شام کے سامنے کیسے لائی جا سکتی تھی جس میں انصار کے فضائل بیان کیے گئے ہوں جب کہ یہی انصار کچھ عرصہ پہلے حکومت کے شیطانی پروپیگنڈے کا نشانہ بنے ہوئے تھے؟

نئے نئے بہانے

بعض آراء کو دبانے کے لیے حکومت و سرکار اکثر یہ بہانہ بناتی تھی کہ صاحب رائے بدعتی ہےیا زندیق و ملحد ہے۔یا اسی طرح کے دوسرے بہانے کیا کرتی تھی جن کا مقصدشرفاء اور عام مسلمانوں کی نظر میں اپنی حرکت کو جواز فراہم کرنا ہوتا۔ اس حیلے کو استعمال کرنے کی اصل و بنیاد بھی ہمیں سرکاری طور پر فارسی حکمراں اردشیر کے یہیں ملتی ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’وہ لوگ بادشاہوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف دین ومذہب کے سہارے چالیں چلتے تھے اور انھیں بدعتی کا نام دیا کرتے تھے۔ اس طرح دین ہی وہ ہتھیار بن جاتا تھا جس سے مخالفین کو قتل کرکے بادشاہوں کو ان سے نجات دلایا کرتے تھے۔ بادشاہ کے لیے یہ درست نہیں ہوتا تھا کہ وہ عبادت گزاروں، زاہدوں اور درویشوں کے بارے میں یہ اعتراف کرے کہ وہ اس سے زیادہ دین کے ماننے والے، اس سے زیادہ دین کے لیے غیرت مند اور اس سےزیادہ دین کے معاملے میں غصہ دکھانے والے ہو سکتے ہیں۔‘‘

بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ مہدی عباسی (م: ۱۶۹ھ/ ۷۸۷ء) وہ پہلا حکمراں تھا جس نے نام نہاد ’زنادقہ‘ کوسبق سکھانے کے سلسلےمیں اپنے اقدامات کوقانونی حیثیت فراہم کرنے کی کوشش کی۔ امام ذہبی نے تو ’تاریخ اسلام‘ میں اس کے بارے میں یہاں تک کہا ہے کہ وہ ’’زنادقہ کوختم کرنے میں بہت آگے بڑھا ہوا تھا۔ جب انھوں نے اپنے فاسد عقائد کا اظہار کیا تو اس نے ان کی کتابیں جلا ڈالیں۔‘‘

اسی نوعیت کا واقعہ مورخین نے ایک عالی شان کتب خانے کے بڑے حصے کو تلف کرنے سے متعلق بیان کیا ہے۔ یہ کتب خانہ اندلس کے اموی خلیفہ ’المستنصر‘ (م: ۳۶۶ھ/ ۹۷۷ء) کا تھا۔ مقری تلمسانی (م: ۱۰۴۱ھ/۱۶۳۱ء) کے مطابق اس کتب خانے کو ’کتاب و علم کا خزانہ‘ کہا جاتا تھا۔ (نفخ الطیب)

مقری تلمسانی نے اپنی کتاب ’نفح الطیب‘ میں ہی یہ بھی ذکر کیا ہے کہ یہی مستنصر علوم کا شیدائی اور اہل علم کا قدر دان تھا اورمختلف موضوعات کی ایسی نادر کتابیں جمع کیا کرتا تھا جیسی کتابیں اس سے پہلے کسی بادشاہ نے جمع نہیں کی تھیں۔مقری مزید لکھتا ہے: ’’فہرست کتب، جس میں کتابوں کے نام درج تھے، چوالیس جلدوں پر مشتمل تھی۔ ہر فہرست میں بیس ورق تھے، جن میں تصانیف کے ناموں کے علاوہ کوئی اور معلومات نہیں دی گئی تھی۔‘‘

اسی عظیم الشان کتب خانے کے ذخیرے میں موجود فلسفہ کی کتابوں کے تعلق سے امام ذہبی ’سیر اعلام النبلاء‘ میں بیان کرتے ہیں: ’’خلیفہ حَکَم کے انتقال کے بعد منصور بن ابو عامر (م: ۳۹۳ھ/ ۱۰۰۴ء) منصب وزارت پر فائز ہوا جو اسپینی باشاہوں کا ’حاجب‘ اور قرطبہ کے اندر اموی شاہی محل کا صدر اعظم بن گیا تھا۔ اس نے سب سے پہلے خلیفہ حکم کے خزانہ کتب پر قبضہ جمانے کی کوشش کی۔ اس میں جو بھی کتابیں تھیں علما ءکی موجودگی میں انھیں باہر نکالا۔ ان میں سےطب اور ریاضی (علم ہندسہ) کی کتابوں کو چھوڑ کر فلسفہ قدیم اور فلاسفہ کی کتابوں کو الگ کرنے کا حکم دیا اور پھر انھیں جلانے کا حکم دے دیا۔ چناں چہ انھیں جلا دیا گیا اور بعض کتابیں زمین میں گاڑ دی گئیں۔ یہ قدم اس نے عوام کی محبت حاصل کرنے کے لیےاور فلسفیانہ کتابوں کو جمع کرنے کی جو روش حکم نے اختیار کی تھی اسے برا ثابت کرنے کے لیے اٹھایا تھا۔خزانہ کتب میں موجود فلسفے کے موضوع پر کتابوں کے بارے میں ذہبی کہتے ہیں کہ ان کی تعداد بہت ہی زیادہ تھی۔

گذشتہ اقتباس میں ’’پہلی کوشش‘‘ کا ذکراس سیاسی ہدف پر اہم روشنی ڈالتا ہے جو اس ہوشیار و چالاک وزیر کے ذہن میں موجود تھا۔ خلیفہ مستنصر کی وفات کے بعد ملک کی زمام اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے اس کی کشمکش اپنے بالمقابل حکومت کے طاقت ور اورموثر افراد سے رہا کرتی تھی، جن میں وزیر حاجب جعفر بن عثمان المصحفی (م: ۳۷۲ھ/۹۸۳ء) اور فوجی کمانڈر غالب بن عبدالرحمن اموی (م: ۳۷۱ھ/ ۹۸۲ء) جیسے لوگ شامل تھے۔

منصور نے اپنا سیاسی ہدف حاصل کرنے کے لیے اُس دور کے بااثر فقہا کی مدد حاصل کی اور مرحوم خلیفہ کی زوجہ صُبح بَسکُنشیہ (م: ۳۹۰ھ/ ۱۰۰۰ء) سے سانٹھ گانٹھ کی۔ ممالک بشکنش (حالیہ ممالک باسک Basque Countries) کی نسبت خلیفہ کی اسی زوجہ کے نام کی طرف کی جاتی ہے۔ ان ممالک پر اس کاکم عمر بیٹا امیر ہشام بن الحکم (۴۰۳ھ/۱۰۱۳ء) حکمراں ہوا تھا، لیکن حکمراں ہونے کے باوجود وہ بااثر وزیر منصور عامری کے زیر سرپرستی تھا۔

ذہبی کا یہ کہنا کہ حاجب منصور نے جو کچھ کیا اس کے پس پشت سیاسی موقع پرستی کار فرما تھی، اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ حاجب منصور فلسفے سے دل چسپی رکھنے والا شخص تھا، جیسا کہ مقری نے نفح الطیب میں کہا ہے۔ مقری کہتاہے کہ اہل اندلس کے یہاں ہر علوم کی قدر و منزلت تھی سوائے فلسفے اور علم نجوم کے۔ ان دونوں علوم سے دل چسپی و رغبت اندلس کے صرف خواص واشراف میں پائی جاتی تھی، لیکن وہ عوام کے خوف سے اس دل چسپی کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب کبھی یہ کہا جاتا کہ فلاں شخص فلسفے کا مطالعہ کرتا ہے اور علم نجوم میں دل چسپی رکھتا ہے تو عوام الناس اس پر زندیق کا لقب چسپاں کر دیتے تھے اور اس کا جینا دو بھر کر دیا جاتا تھا۔ان موضوعات پر کتابیں ہاتھ لگتیں تو بادشاہ اکثر انھیں نذر آتش کرنے کا حکم دے دیا کرتے تھے۔منصور نے امارت کی ذمے داری سنبھالی تو ابتدائی مرحلے میں ہی اس نے فلسفے کی کتابوں کو نذر آتش کرکے عوام کے دلوں میں قربت حاصل کر لی، اگرچہ بہ باطن خود اس کا دل بھی علومِ فلسفہ میں دل چسپی سے خالی نہیں تھا۔ ‘‘

قابل ذکر فرق

خالص علم طب و علم ہندسہ کی کتابوں کا تعلق اگرچہ اس دور میں فلسفے سے بڑا گہرا تھا، اس کے باوجود ان علوم نے کتابوں کو آگ کی نذر کرنے والوں کے دلوں میں اس اعتبار سے اپنا احترام قائم کرا لیا تھاکہ سب کے لیے ان علوم کی افادیت واضح تھی۔ لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ تقریباً چوتھی صدی ہجری کے اواخر سے ہی خالص فلسفے کے مطالعہ و تحقیق کو بڑے پیمانے پر معیوب سمجھا جانے لگا تھا۔ سلاطین عوام الناس اوراپنے مخالف حلقے کے بااثر علما کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس غرض کے تحت فلسفے کی کتابوں کو جلانے کو بھی ان کی طرف سے قانونی حیثیت فراہم کر دی جاتی تھی، جیسا کہ صاحب علم اور روشن خیال دانش ور وزیر منصور عامری نے اندلس میں کیا تھا، اور جیسا کہ مشرق اسلامی میں منصور کے ہم منصب بویہی وزیر ابن عباد کی حکومت کے زیر سایہ ہوتا رہا تھا۔

مورخ یاقوت حموی (م: ۶۲۶ھ/ ۱۲۲۹ء) معجم الادباء میں علی بن الحسن کے حوالے سے وزیر ابن عباد کے ساتھ اپنے تعلق کا ذکر کرتا ہے: ’مجھے اس کی طرف سے خیر کا ہی تجربہ ہوا، لیکن پھر اسے مجھ سے اکتاہٹ ہو گئی اور اس نے مجھے ایک سال کے لیے قید میں ڈال دیا۔ میری تمام کتابوں کواکٹھا کیا اور آگ کے حوالے کر دیا۔ ان کتابوں میں قرآن کے مصحف، فقہ اور کلام کی بہت سی اصولی کتابیں بھی تھیں۔ لیکن اس نے فلسفے اور علم نجوم کی کتابوں سے ان کتابوں کو بھی الگ نہیں کیا اور کسی قسم کے غور و تحقیق کے بغیر بلکہ اپنی سخت جہالت اور شدید حماقت کے طفیل سب کو آگ میں جھونکنے کا حکم دے دیا۔‘‘

فلسفے کی کتابوں سے دوسری کتابوں کو الگ نہ کرنا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ کتابوں کو جلانے کی اصل وجہ کیا تھی۔ ابن عباد نے دراصل متعینہ طور پر فلسفے کی کتابوں کو نذر آتش کرنا چاہا تھا۔ اس کی تصدیق اس بیان سے بھی ہوتی ہے جو ابو حیان توحیدی (م: ۴۰۰ھ/ ۱۰۱۰ء) نے ’الامتاع والموانسة‘ میں ابن عباد کے متعلق تحریر کیا ہے کہ ’’اس پر معتزلی متکلمین کے کلام کا غلبہ تھا۔ اس کی تحریر ان کے اسلوب سے آلودہ تھی، اس کے مناظروں میں انھی کی عبارتوں کی آمیزش ہوا کرتی تھی۔ وہ فلسفہ اور اس کی فروع مثلاً علم ہندسہ، طب، علم نجوم، موسیقی، منطق اور علم اعداد میں غور وفکر کرنے والوں کے تعلق سے سخت متعصب رہتا تھا۔‘‘

ابن ابی عامر اور ابن عبادکا تعلق شاہی علما کے طبقے سے تھا۔ ان سے بالکل متصل بعد کے زمانے کا مورخ ابن اثیر (م: ۶۳۰ھ/ ۱۲۳۳ء) ہے جو تاریخ ’الکامل‘ میں لکھتا ہے کہ سلطنت غزنویہ کے موسس و بانی محمود بن سبکتگین غزنوی (م: ۴۲۱ھ/ ۱۰۳۱ء) نے خراسان کی بویہ سلطنت کا تختہ الٹ دیا۔ پھر فلسفہ و علم نجوم اور معتزلہ کی کتابوں کو آگ لگادی جو خراسانی بادشاہوں کے کتب خانوں میں کثرت سے موجود تھیں۔

کتابوں کو جلائے جانے سے متعلق اس واقعے کا سیاسی پس منظر وہ نظریاتی کشمکش ہے جو ہمیشہ سرکاری وسائل سے تقویت پاتی تھی اور خلیفہ مامون عباسی (م: ۲۱۸ھ/ ۸۳۳ء) کے عہد سے اہل حدیث اور معتزلہ کے درمیان مسلسل جاری تھی۔ اہل حدیث طبقہ وہ تھا جس سے محمود غزنوی مدد وتائید حاصل کرنے کی غرض سے ان کے قریب رہتا تھا اور معتزلی تحریک وہ تھی جس کی آراء و افکار کو غزنوی کے بویہی مخالفین اس لیے اختیار کرتے تھے کہ اس سے ان کے شیعی زیدی نظریات کی توسیع ہوتی تھی۔

تاریخی موڑ

بعد میں، اور خاص طور سے پانچویں صدی ہجری / گیارہویں صدی عیسوی میں فلسفے کے خلاف نفرت آمیز رجحان میں شدت آ گئی۔ غالباً اس رجحان کو پختہ اور مستحکم کرنے میں اس حملے کا اہم کردار ہے جو اپنی کتاب ’تہافت الفلاسفہ‘ میں امام غزالی نے اس دور کے فلاسفہ پر کیا تھا۔ بعد میں امام ابوالولید ابن رشد (م: ۵۹۵ھ/۱۱۹۹ء) نے فلسفے کے دفاع وحمایت میں ’’تہافت التہافت‘‘ اور ’’فصل المقال‘‘ میں جو کچھ لکھا،اس سے بھی امام غزالی کے قائم کردہ اثرات میں کوئی تخفیف واقع نہیں ہوئی۔

بلکہ خود ابن رشد کو اگلی صدی کے اواخر یعنی خلافت موحدین کے سلطان منصور ابو یوسف یعقوب بن یوسف کے زمانے میں سخت آزمائش سے گزرنا پڑا۔ حالاں کہ ابن رشد سلطان کا طبیب خاص تھا اور اسی بنا پر اس کامقرب ترین فرد تھا۔ ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں بتاتے ہیں کہ ’’اس (ابن رشد)کے مخالفین نے اس کی شکایت یعقوب سے کی اور اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا کلام دکھایا جس میں فلاسفہ کے حوالے سے یہ کہا گیا تھا کہ ستارہ زہرہ ایک معبود ہے۔ یعقوب نے ابن رشد کو طلب کیا اور پوچھا: کیا یہ تمھارا لکھا ہوا ہے؟ ابن رشد نے انکار کیا تو یعقوب نے کہا: جس نے یہ لکھا ہے اس پر اللہ کی لعنت۔ اس نے حاضرین کو بھی حکم دیا کہ اس شخص پر لعنت بھیجیں۔ پھر اس مخالف کو ذلیل کرکے اٹھایا اور طب اور علم ہندسہ کو چھوڑ کر فلسفے کی کتابوں کو نذر آتش کر دیا۔‘‘

ابن ابی اصیبعہ اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ ابن رشد کے آزمائش میں پڑنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ فلسفے میں دل چسپی رکھتے تھے۔ اسی لیے ابن منصور نے یہ کہا تھا کہ ابوالولید ابن رشد پر لعنت ہو اور دوسرے علما و فضلاء پر بھی لعنت ہو۔ اس نے یہ بھی ظاہر کر دیا کہ لعنت بھیجنے کی وجہ یہ ہے کہ ابن رشد کے بارےمیں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت (فلسفے) اور ’’قدیم علوم‘‘ میں دل چسپی رکھتے ہیں۔

اس حادثے کے قریبی زمانے سے متعلق امام آمدی (م: ۶۳۱ھ۔ ۱۲۳۴ء)کی سوانح میں ملتا ہے کہ وہ قاہرہ کی جامع الظافری میں فلسفہ اور منطق پڑھایا کرتے تھے۔ پھر ان پر عقیدے میں انحراف کا الزام عائد کر دیا گیا، حتی کہ قاضی القضاہ اور مورخ ابن خلکان (م: ۶۸۱ھ۔ ۱۲۸۲ء) کہتا ہے کہ فقہا نے ان کا خون مباح ہونے کا فتویٰ جاری کر دیا۔ چناں چہ وہ چھپتے چھپاتے مصر سے نکل کر شام کے شہر حماة میں جا بسے۔‘‘

بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ حکومت کے ناپسندیدہ اعلی سطحی افسران یا اپنے اوپر پر تنقید کرنے والے علما سے حکومت کو اپنا حساب برابر کرنا ہوا تو اس کا شکار ان کی کتابیں ہوئیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ بغداد کے قاضی القضاة یحیٰ بن سعید ابن المرخَم (م: ۵۵۵ھ۔ ۱۱۶۴ء)کے ساتھ پیش آیا تھا۔ ان پر کرپشن کا الزام لگایا تھا اور یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے ’’رشوت لی ہے۔‘‘ (’’المنتظم‘‘ از ابن الجوزی)

چناں چہ قاضی ابن المرخم کو گرفتار کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا گیا اور ان کے اموال قرق کر کے ان کی کتابوں کو میدان ’الرحبہ‘ (بغداد کا ایک عوامی میدان) میں نذر آتش کر دیا گیا۔آگ کے حوالے کی جانے والی ان کتابوں میں ابن سینا (م: ۴۲۸ھ۔۱۰۳۸ء) کی ’کتاب الشفا‘ اور ’اخوان الصفا‘ بھی تھیں۔ اس کے بعد انھیں قید کر دیا گیا اور حالت قید میں ہی ان کی وفات ہوئی۔‘‘

بین الاقوامی تناظر

ابن خلدون حضرمی (م: ۸۰۸ھ۔ ۱۴۰۶ء) نے اپنی تاریخ میں یہ واقعہ ذکر کیا ہے کہ تونس میں سلطنت حفصیہ کے سلطان محمد المستنصر (م: ۶۷۵ھ / ۱۲۷۶ء) امام اندلس محمد بن عبداللہ معروف بہ ابن الابار القضاعی (م: ۶۵۸ھ۔ ۱۲۶۰ء) سے ناراض تھا۔ اس لیے اس نے ان کے گھر اپنے کارندوں کو بھیجا اور ان کی کتابیں اٹھوالیں۔ اس کارروائی کے دوران لوگوں کو ایک رقعہ ملا جس پر کچھ اشعار لکھے ہوئے تھے اور پہلا شعر یہ تھا:

طغى بتونسَ خَلْفٌ   سمَّوْهُ ظُلماً: ‘خلیفة‘!!

’’تونس میں ایک ناخلف نے ظلم کی حد کردی ہے۔ طرہ یہ کہ لوگوں نے اس کا نام خلیفہ رکھ دیا ہے، یہ خود ظلم ہے۔‘‘

اس پر سلطان غضب ناک ہو گیا۔ پہلے انھیں تعذیب دینےکا حکم دیا اور پھر قتل کا حکم صادر کر دیا۔ اس طرح انھیں محرم ۶۵۸ھ میں نیزوں سے مار مار کر قتل کر دیا گیا۔ پھر ان کے اعضائے جسم کو جلا دیا گیا اور ان کی کتابیں، اوراق سماع اور دواوین لائے گئے اور انھی کے ساتھ ان چیزوں کو بھی جلا دیا گیا۔‘‘

بہر حال، اگرچہ اسلامی تاریخ کے بعض ادوار میں فلسفے کی کتابوں کو آگ کی نذر کردیے جانے کے واقعات پیش آئے ہیں، تاہم یہ انسانی تاریخ میں پیش آنے والا کوئی نیا حادثہ یا واقعہ نہیں تھا، بلکہ اسی بین الاقوامی روایت کا تسلسل تھا جو یونان کے بڑے بڑے فلاسفہ کے زمانے میں عام تھی۔ اسی لیے یہ سب ایسے واقعات ہیں جو اُن زمانوں کے مزاج، ماحول اور ثقافتوں کے تناظر میں بار بار پیش آتے رہے۔ لازمی طور پر یہ واقعات کسی ایسی تنگ نظری کی ترجمانی نہیں کرتے تھے جسے عمومی طور پر کسی متعین و مخصوص تہذیب یا مخصوص تاریخی دور کے ساتھ چسپاں کیا جا سکتا ہو۔

تہذیبی تاریخ کا امریکی مورخ ’وِل ڈیورینٹ‘ (م: ۱۴۰۲ھ۔ ۱۹۸۱ء) ’اسٹوری آف سویلائزیشن‘ میں کہتا ہے کہ سوفسطائی(Sophist) مذہب کے سربراہ یونانی فلسفی پروتاگور [PROTAGORAS](م: ۴۲۰ ق م) نے جب اپنے اس سادہ لیکن گہرے افکار کا اعلان کیا کہ ’’تمام تر سچائی، نیکی اورحسن شخصی و نسبتی امور ہیں۔‘‘ تو پروتاگورس کے ان افکار سے اتھینز کی ’’قومی اسمبلی‘‘، جو کہ شہر اتھینز کی منتخب قانون ساز باڈی تصور کی جاتی تھی، گھبرا گئی۔ اس کے خیال میں پروتاگورس کے افکار ایک بڑے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ اس لیے اس نے پروتاگورس کو جلاوطن کرنے کا فیصلہ کیا اور اتھینز کے باشندوں کو حکم دیا کہ جس کے پاس بھی پروتاگورس کی کتابیں ہو سکتی ہیں وہ سب کی سب حوالے کر دی جائیں۔ اور اس طرح اس کی کتابوں کو سربازار آگ کی نذر کر دیا گیا۔

افلاطون نے ان لوگوں کی کتابیں جلا دی تھیں جو فلسفے میں اس کے برخلاف رائے رکھتے تھے، حالاں کہ افلاطون خود فلسفہ کے بانیوں میں سے تھا۔ افلاطون کی یہ حرکت اس بات کی دلیل ہے کہ اس زمانے میں کتابوں کو جلانے کے پیچھے وہ تاثر نہیں ہوتا تھا جو آج کل پایا جاتا ہے، بلکہ شاید کتابوں کو جلانے کا مقصد مخالف رائے پر اعتراض ظاہر کرنا ہوتا تھا نہ کہ مخالف کی کتابیں جلا کر اس کی رائے کو یکسر مٹا ہی دینا۔ یا مخالف رائے پر طنز وتشنیع کے اظہار کے لیے کتابیں جلائی جاتی تھیں کیوں کہ وہ اس کی نظر میں ضعیف و بے دلیل ہوا کرتی تھی۔

یونانیوں نے تو اس سے بھی آگے بڑھ کر فلسفہ و طب کی ان کتابوں کو بھی جلا ڈالا جو انھیں پسند نہیں آتی تھیں، حتی کہ شعری دیوان بھی جلا ڈالے۔ مورخ ابن العبری (م: ۶۸۵ھ/۱۲۸۶ء) ’تاریخ مختصر الدول‘ میں لکھتا ہے کہ ’’افلاطون اپنی جوانی کے ایام میں شعرو شاعری کے اعتبار سے ممتاز تھا۔ پھر جب اس نے دیکھا کہ اسی کا استاذ سقراط (۳۹۹ء) اس فن (شعر) کی برائی کرتا ہے تو اپنے تمام شعری مجموعے جلا ڈالے۔‘‘

بدنیتی پر مبنی اقدام

فلسفے کی کتابوں کی طرز پر مسلم سلاطین نے علم نجوم کی کتابوں کے متعلق بھی سخت گیر رویے کا مظاہرہ کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ علم نجوم کی کتابوں کو بالعموم فلسفے سے ہی مربوط سمجھا جاتا تھا۔تصوف کے سلسلے قادریہ کی ایک شخصیت عبدالسلام بن عبدالوہاب ابن شیخ عبدالقادر الجیلی[الجیلانی] (م: ۶۱۱ھ/ ۱۲۱۴ء)ہیں۔ ان کا ایک واقعہ ابن حجر العسقلانی (م: ۸۵۲ھ/ ۱۴۴۸ء) نے ’لسان المیزان‘ میں ذکر کیا ہے کہ ’’وہ نجومی کی حیثیت سے مذموم کردار کے حامل سمجھےتھے اور فلسفہ قدیم میں دخل رکھتے تھے، اس لیے ان کی کتابوں کو بغداد میں علی الاعلان نذر آتش کر دیا گیا۔‘‘

ذہبی ’تاریخ الاسلام‘ میں لکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا عبدالسلام کی ’’علم نجوم سے متعلق کتابوں کو ۵۸۸ھ/ ۱۱۹۲ء میں جلا کر ان کی توہین کی گئی۔ کتابوں کو مجمع کے سامنے جلایا گیا۔ ان کتابوں میں یہ لکھا تھا کہ دنیا کا مدبر و منتظم ستاروں کےعلاوہ کوئی نہیں ہے اور یہ ستارے ہی رازق ہیں۔‘‘

ذہبی لکھتے ہیں کہ ان کتابوں کو امام ابن الجوزی کے اشارے پر جلایا گیا تھا، کیوں کہ وہ شیخ عبدالقادر جیلانی کے ساتھ انصاف نہیں کرتے تھے اور ان کی بے قدری کرتے تھے، اس لیے ان کی اولاد ان سے متنفر ہو گئی۔‘‘ بعد میں اسی فیصلے نے ابن الجوزی کو ایک بڑی تباہی سے دوچار کر دیا جس کا سلسلہ پانچ سال تک جاری رہا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب بغداد کے اندر عباسی خلیفہ کے دربار میں عبدالقادر جیلانی کے خاندان کا ایک شخص خلیفہ کے مقرب وزیر کی حیثیت سے داخل ہوا۔ اس نے انتقام کے طور پر ابن الجوزی کی بعض کتابوں کو جلوا دیا اور باقی کتابوں پر پابندی عائد کروا دی۔‘‘ (البدایہ والنہایہ لابن کثیر)

مختصر یہ کہ ان واقعات کے پس پشت جو غرض تھی وہ مخالف یا اس کے افکار کو مسترد کرنا تھی۔ یہ چیز اس زمانے کی عمومی ثقافت و تہذیب کی جانب اشارہ کرتی ہے، جس کا موازنہ اور محاکمہ ہمارے آج کے زمانے کے معیار پر کرنا درست نہیں ہے، اگرچہ سرکاری نظریہ و فکر کے مخالفین یا حکومت کے منہج پر اعتراض کرنے والے علما کے معنوی و مادی قتل کا سلسلہ آج بھی مختلف شکلو ں میں جاری ہے۔

حکومت و اقتدار کی جانب سے کتابوں اور تصنیفات کے خلاف کارروائی صرف انھی کتابوں تک محدود نہیں تھی جن کا تعلق فلسفہ قدیم اور علم نجوم وغیرہ سے ہوتا تھا۔ بعض علما کی جانب سے مسلکی فرقہ واریت بھی ان لوگوں کی کتابوں کو جلانے کا سبب بنتی تھیں جو مسلکی، فکری یا علمی اعتبار سے اختلاف رکھتے تھے، بلکہ ایک ہی مسلک کے اندر دلائل و اجتہاد میں اختلاف بھی کتابوں کو جلانے کی وجہ بن جاتاتھا۔

لیکن اکثر و بیش تر اس کے قسم کے حادثات و واقعات میں حکومت و اقتدار کی شمولیت اس وقت نظر آتی ہے جب کہ سرکاری افراد علمی حلقوں میں پائے جانے والے ان معمول کے اختلافات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ خاص طور سے اس وقت سرکاری لوگ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے تھے جب کہ فریقین میں سے کوئی ایک اپنے موقف و مسلک کو مضبوط کرنے کے لیے ان سرکاری لوگوں سے مدد کا طالب ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ ہم نے ابن الجوزی کی کتابوں کو جلائے جانے کے سلسلے میں دیکھا ہے۔ بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ مسلکی تعصب کے تحت بعض سلاطین نے کسی ایک فقہی مسلک کی تمام کتابوں کو جلانے کا حکم دے دیا اور وجہ یہ تھی کہ وہ کتابیں اس کے مسلکی رجحان کے خلاف تھیں۔ (جاری)

مشمولہ: شمارہ جون 2025

مزید

حالیہ شمارے

Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223