علمائے کرام کا کام عوام میں قرآن کو ترجمہ و تفسیر سے پڑھنے کا شوق پیدا کرنا ہے، نہ کہ اس کا خوف پیدا کرنا۔
ہر مسلمان کو اپنے دین کی پوری سمجھ بوجھ ہونی چاہیے۔ خاص طور سے اس زمانے میں جب کہ مسلم سماج پر چو طرفہ فکری اور تہذیبی یلغار ہورہی ہے، عام مسلمانوں کے لیے دینی شعور کی پختگی نہایت ضروری ہوگئی ہے۔ نئی نسلوں کے دین و ایمان کی حفاظت اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ حفاظت کا نظام خود ان کے اندر قائم و مستحکم ہو۔ شعور و آگہی کی زرہ کے بغیر ایمان ہمیشہ خطرے سے دوچار رہتا ہے۔ ہمارے علمائے کرام نے اس ضرورت کا ادراک کافی پہلے کیا تھا۔ اور ان کے سامنے یہ حقیقت بھی واضح تھی کہ عوام کی دینی آگہی اور ایمانی تربیت کا سب سے اہم ذریعہ قرآن مجید ہے۔ وعظ، تقریریں، بیانات، اصلاحی کتابیں سب اپنی جگہ مفید ہیں لیکن ان میں سے کوئی چیز قرآن کا بدل نہیں ہوسکتی ہے۔ عوام کو قرآن فہمی سے دور رکھ کر ان کی اصلاح و تربیت کی کوئی کوشش کام یاب نہیں ہوسکتی ہے۔
عوام کے لیے قرآن کو سمجھنا ضروری ہے
شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے صاحب زادے شاہ عبدالقادرؒ نے اردو زبان کا پہلا ترجمہ کیا، وہ لکھتے ہیں:
’’سنا چاہیے کہ مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے رب کو پہچانے اور اس کے صفات جانے اور اس کے حکم معلوم کرے اور مرضی اور نا مرضی تحقیق کرے۔ کہ بغیر اس کے بندگی نہیں۔ اور جو بندگی نہ لائے وہ بندہ نہیں۔ اور اللہ سبحانہ کی پہچان آوے بتانے سے۔ آدمی پیدا ہوتا ہے محض نادان۔ سب چیز سیکھتا ہے بتانے سے۔ اور بتانے والے ہر چند تقریر کریں اس برابر نہیں جو اللہ تعالی نے آپ بتایا۔ اس کے کلام میں جو ہدایت ہے دوسرے میں نہیں۔‘‘
اس ایمان افروز وضاحت کے بعد اس طرح کے فتووں میں کوئی وزن نہیں رہ جاتا ہے:
’’جب آپ عالم دین نہیں ہیں قرآن و حدیث کی عربی زبان بھی نہیں سمجھتے ہیں تو آپ کے لیے قرآن کی کوئی تفسیر بھی پڑھ کر سنانا نہیں چاہیے آپ اصلاحی کتابیں پڑھ کر لوگوں کو سنا دیا کریں، یہی دین کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔‘‘
شاہ صاحبؒ کی درج بالا بات بہت واضح ہے کہ اصلاحی کتابوں کا وہ اثر ہو ہی نہیں سکتا ہے جو قرآن کے ترجمے اور تفسیر کا ہوگا۔ یہ کہنا کسی طرح درست نہیں ہے کہ عام لوگوں کو تفسیر پڑھ کر سنانے کے بجائے اصلاحی کتابیں پڑھ کر سنادی جائیں۔ قرآن سے زیادہ اصلاحی کتاب کون سی ہوسکتی ہے؟ اور قرآن سے بے نیاز ہوکر کون سی کتاب اصلاحی کتاب رہ جاتی ہے؟
شاہ عبدالقادرؒ نے عوام کو قرآن سے جوڑنے کے لیے اس زمانے کے لحاظ سے بہت آسان ترجمہ کیا اور اس کا نام موضح القرآن رکھا۔ جب کہ مفتی محمد شفیعؒ نے عوام کے اندر قرآن کا فہم بڑھانے کے لیے بہت آسان اسلوب میں معارف القرآن کے نام سے قرآن کی تفسیر کی۔ مفتی محمد شفیعؒ ہر مسلمان کے لیے قرآن صحیح پڑھنے اور پھر سمجھنے کی کوشش کو فرض عین اور ضروری قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’قرآن کریم اس جہان میں وہ نعمت بے بہا ہے کہ سارا جہاں آسمان و زمین اور ان میں پیدا ہونے والی مخلوقات اس کا بدل نہیں بن سکتی۔
انسان کی سب سے بڑی سعادت اور خوش نصیبی اپنی مقدور بھر قرآن کریم میں اشتغال اور اس کو حاصل کرنا ہے، اور سب سے بڑی شقاوت اور بد نصیبی اس سے اعراض اور اسے چھوڑنا ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو اس کی فکر تو فرض عین اور ضروری ہے کہ قرآن کریم کو صحت لفظی کے ساتھ پڑھنے اور اولاد کو پڑھانے کی کوشش کرے اور پھر جس قدر ممکن ہو اس کے معانی اور احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی فکر میں لگا رہے۔ اور اس کو اپنی پوری عمر کا وظیفہ بنائے، اور اپنے حوصلے اور ہمت کے مطابق اس کا جو بھی حصہ نصیب ہوجائے اس کو اس جہان کی سب سے بڑی نعمت سمجھے۔‘‘
عوام کی رعایت سے ترجمہ و تفسیر کا کام ہوا
عوام قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھیں یہ ہمارے بزرگوں کی خاص فکر رہی ہے۔ اسی لیے پہلے فارسی زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا گیا اور پھر اردو زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا گیا اور تفسیریں لکھی گئیں۔ ہمارے بزرگ علمائے کرام اس امر سے اچھی طرح واقف تھے کہ عوام مشکل زبان نہیں سمجھ سکتے، اس لیے انھوں نے ترجمے کی زبان اتنی آسان رکھی کہ ’معمولی پڑھا لکھا آدمی‘ بھی آسانی سے سمجھ سکے۔ اور تفسیروں میں اس کی رعایت کی کہ خاص طور سے وہ باتیں ذکر کی جائیں جو عوام کے سمجھنے کی ہوں اور اسلوب اتنا سہل اختیار کیا گیا کہ انھیں آسانی سے سمجھ میں آجائیں۔
شاہ ولی اللہؒ فارسی ترجمہ قرآن کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’جس زمانے میں ہم موجود ہیں اور جس خطے میں ہم رہتے ہیں، مسمانوں کی خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ قرآن عظیم کا سلیس روز مرہ رائج بے تکلف زبان میں ترجمہ سامنے آئے اور یہ ترجمہ عبارت آرائی کے تصنع کے بغیر، اس سے نسبت رکھنے والے قصوں سے تعرض کیے بنا اور شاخ در شاخ توجیہات کی خوردہ گیری کے بغیر تحریر کیا جائے تاکہ خواص و عوام سب اسے یکساں طور پر سمجھیں اور چھوٹے بڑے سب برابر اس کا ادراک کرسکیں۔ لہذا اس فقیر کے دل میں اس عظیم کام کا داعیہ ڈال دیا گیا اور چاہے نہ چاہے اس کے لیے اسے تیار کیا گیا۔‘‘
شاہ عبدالقادرؒ اردو ترجمہ قرآن کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’اس کے کلام میں جو ہدایت ہے دوسرے میں نہیں۔ پر کلام پاک اس کا عربی زبان ہے اور ہندوستانی کو اس کا ادراک محال، اس واسطے اس بندہ عاجز عبدالقادر کو خیال آیا کہ جس طرح ہمارے والد بزرگوار حضرت شیخ ولی اللہ ابن عبدالرحیم محدث دہلوی ترجمہ فارسی کرگئے ہیں سہل اور آسان، اب ہندی زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ کرے۔‘‘
شاہ صاحبؒ آگے لکھتے ہیں:
’’اس میں زبان ریختہ نہیں بولی بلکہ ہندی متعارف، تا عوام کو بے تکلف دریافت ہو۔‘‘
مولانا اشرف علی تھانویؒ اپنے ترجمہ قرآن کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اول قرآن مجید کا آسان ترجمہ کیا ہےجس میں قابل فہم ہونے کے ساتھ تحت لفظی کی بھی رعایت ہے۔
دوم ترجمہ میں خالص محاورات استعمال نہیں کیے گئے، دو وجہ سے، اول تو میں قصباتی ہوں محاورات پر عبور نہیں۔ دوسرے یہ کہ محاورات حیدرآباد اور مدراس والے نہ سمجھتے۔ غرض ایسے محاورات عام فہم نہیں ہوتے اور اردو ترجمہ کم از کم ایسا تو ہو کہ قریب قریب ہندوستان کے سب حصے تو اس کو سمجھ جاویں۔ اس لیے کتابی زبان لی ہے کہ فصاحت کے ساتھ اس میں سلاست بھی ہے۔‘‘
شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ لکھتے ہیں:
’’ہر چند ترجمہ تحت لفظی میں بعض خاص فائدے ہیں مگر ترجمہ سے جو اصلی فائدہ اور بڑی غرض یہ ہے کہ ہندوستانیوں کو قرآن شریف کا سمجھنا آسان ہوجائے، یہ غرض جس قدر با محاورہ ترجمہ سے حاصل ہوسکتی ہے تحت لفظی ترجمہ سے کسی طرح ممکن نہیں۔چناں چہ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ جو با محاورہ ترجمہ کے بانی اور امام ہیں انھوں نے با محاورہ ترجمہ کو اختیار فرمانے کی یہی وجہ بیان کی ہے۔‘‘
مولانا مفتی محمد شفیعؒ اپنی تفسیر معارف القرآن کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’عام طور پر تفسیر کی کتابوں میں ہر آیت کے تحت لغوی تحقیقات اور نحوی ترکیب اور فن بلاغت کے نکات اور اختلافات قرأت کی مفصل بحثیں لکھی گئی ہیں جو بلاشبہ اہل علم کے لیے فہم قرآن کا سنگ میل ہے۔ اسی کے ذریعے قرآن کے صحیح مفہوم کو پایا جاسکتا ہے، لیکن عوام تو عوام ہیں، آج کل بہت سے اہل علم بھی ان تفصیلات میں الجھن محسوس کرتے ہیں، بالخصوص عوام کے لیے تو یہ مباحث اس کے اصل مقصد میں مخل ثابت ہوتی ہیں، وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ قرآن سمجھ کر پڑھنا بڑا مشکل کام ہے، حالاں کہ قرآن کریم کا جو اصل مقصد ہے کہ انسان کا تعلق اپنے رب کے ساتھ قوی ہو اور اس کے نتیجے میں مادی تعلقات اعتدال پر آجائیں کہ وہ دین کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں اور انسان اپنے ہر قول و فعل میں یہ سوچنے کا عادی ہوجائے کہ اس میں کوئی چیز اللہ تعالی اور اس کے رسول کی مرضی کےخلاف تو نہیں، اس مقصد کو قرآن نے اتنا آسان کردیا ہے کہ معمولی لکھا پڑھا آدمی بھی قرآن سے یہ فائدہ حاصل کرسکتا ہے، قرآن کریم نے خود اعلان کیا ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ۔
تفسیر معارف القرآن میں چوں کہ پیش نظر یہ ہے کہ عوام جو علمی اصطلاحات سے واقف اور دقیق مضامین کے متحمل نہیں وہ قرآن کریم کو اپنے حوصلے کے مطابق سمجھ سکیں، اس لیے اس کی رعایت رکھی گئی ہے، اختلافات قرأت اور صرف و نحو اور لغت و بلاغت کی تفصیلی بحثیں نہیں کی گئیں اور جو حصہ لیا گیا ہے اس میں بھی اس کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ علمی اصطلاحات اور غیر معروف و مشکل الفاظ نہ آئیں اور اسی لیے ایسی مباحث علمیہ کو بھی چھوڑ دیا گیا ہے جو عوام کی سطح سے بلند ہیں۔‘‘
مفتی محمد تقی عثمانی نے تو ترجمہ قرآن کا نام ہی آسان ترجمہ قرآن رکھا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’مختلف احباب نے یہ خیال ظاہر فرمایا کہ اردو کے جو مستند ترجمے اس وقت موجود ہیں، وہ عام مسلمانوں کی سمجھ سے بالاتر ہوگئے ہیں اور ایسے آسان ترجمے کی واقعی ضرورت ہے جو معمولی پڑھے لکھے افراد کی سمجھ میں بھی آسکیں۔ یہ مطالبہ اتنی کثرت سے ہوا کہ موجودہ ترجموں کا باقاعدہ جائزہ لینے کے بعد مجھے بھی اس مطالبے میں وزن نظر آنے لگا اور جب میرا انگریزی ترجمہ مکمل ہوکر شائع ہوا تو یہ مطالبہ اور زیادہ زور پکڑ گیا۔
چناںچہ اللہ تعالی کے نام پر میں نے ترجمہ شروع کیا، لیک ساتھ ہی مجھے یہ خیال تھا کہ عام مسلمانوں کو قرآن کریم کا مطلب سمجھنے کے لیے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحات کی بھی ضرورت ہوگی، اس خیال کے پیشِ نظر میں نے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحی حواشی بھی لکھنے کا اہتمام کیا۔‘‘
مولانا مودودیؒ اپنی تفسیر تفہیم القرآن لکھنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس کام میں میرے پیش نظر علما اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں، اور نہ ان لوگوں کی ضروریات ہیں جو عربی زبان اور علومِ دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے۔ میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ جن کے لیے ممکن نہیں ہے۔ انھی کی ضروریات کو میں نے پیش نظر رکھا ہے۔‘‘
ان تمام بیانات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اردو زبان میں قرآن کے ترجمہ و تفسیر کا کام اصلًا علمائے کرام کے لیے نہیں بلکہ عوام کے لیے کیا گیا۔ علما کے لیے تو عربی میں قرآن کو سمجھنا اور عربی تفاسیر سے استفادہ کرنا آسان تھا۔ یہ تو عوام کی ضرورت تھی جس کی تکمیل کا بیڑا ہمارے ان بزرگوں نے اٹھایا تھا۔ ان کے بہتر جانشین ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی عظیم خدمات سے عوام کی ضرورت کو پورا کریں۔
ترجمہ و تفسیر کو عام کرنے کی ضرورت
قرآن کے ترجمے سے عوام کو جوڑنا ضروری ہے اور یہ علما کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو قرآن کا ترجمہ پڑھنے کی ترغیب دیں۔
شاہ ولی اللہ دہلویؒ لکھتے ہیں:
’’پہلے تو ہم نے اس ترجمے کے بغیر دوسرے ترجموں کی تلاش کی تاکہ کوئی مناسب ترجمہ ہاتھ آئے تو اس کی ترویج کی کوشش کریں اور جہاں تک ہوسکے اہل زمانہ کو اس کی ترغیب دیں۔ مگر بعض ترجموں میں اکتاہٹ آمیز طوالت تو بعض میں خلل انگیز اختصار تھا۔ ان میں ایک بھی اس معیار پر نہ اترا، ناچار ہوکر ہم نے نئے ترجمے کی تالیف کا عزم مصمم کرلیا۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ اگر بہتر ترجمہ ہوتا تو شاہ صاحبؒ نیا ترجمہ کرنے کے بجائے اسی ترجمے کو پڑھنے کا شوق عوام میں پیدا کرنے کی تحریک چلاتے۔
شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ تو اسے علما کی ذمے داری قرار دیتے ہیں، ان سے درد مندانہ اپیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حضرات علما عام اہل اسلام کی بہبودی اور نفع رسانی کی غرض سے سہل سے سہل نئے نئے ترجمے شائع کرتے رہتے ہیں مگر انصاف سے اس وقت تک نفع مذکور باوجود کثرت تراجم عام اورشائع طور پر اہل اسلام میں نہیں پھیلا۔ جب تک خود اہل اسلام ترجمہ قرآن شریف کو ضروری اور مفید سمجھ کر اپنے شوق اور توجہ سے سیکھنا اور سمجھنا نہ چاہیں گے، اس وقت تک تکثیر تراجم سے عوام کو کیا نفع پہنچ سکتا ہے۔۔۔حضرات علما نے عوام کی بہبودی کی غرض سے جیسے سہل اور آسان متعدد ترجمے شائع فرمادیے ہیں ایسے ہی اس کی بھی حاجت ہے کہ علی العموم مسلمانوں کو ان ترجموں کے سیکھنے اور ان کے سمجھنے کی طرف رغبت بھی دلائی جائے۔ علمائے کرام اہل اسلام کو خاص طور سے ترجموں کے سمجھنے اور پڑھنے کی ضرورت اور اس کی منفعت دل نشین کرنے میں کوتاہی نہ فرمائیں، بلکہ ترجمہ کی تعلیم کے لیے ایسے سلسلے قائم فرمادیں کہ جو چاہے بسہولت اپنی حالت کے مناسب اور فرصت کے موافق حاصل کرسکے۔‘‘
حضرت شیخ الہندؒ نے بہت صاف طور سے بتادیا کہ علمائے کرام کی ذمے داری صرف یہ نہیں ہے کہ وہ قرآن کا ترجمہ و تفسیر کریں۔ بلکہ یہ بھی علما کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو ترجمہ و تفسیر پڑھنے کا شوق دلائیں اور ترجمے کی تعلیم کے انتظامات کریں۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ عوام میں قرآن کا ترجمہ پڑھنے کا شوق بڑھانے کے بجائے ان کے اندر ترجمہ قرآن کے سلسلے میں خوف پیدا کیا جائے۔ اور فتوی دیا جائے:
’’فضائل اعمال اور بہشتی زیور پڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن نہ پڑھا جائے؛ فضائل اعمال کے پڑھنے یا سننے سے اعمال کا شوق اور گناہوں سے نفرت پیدا ہوگی، جب کہ بہشتی زیور سے اسلامی زندگی کا علم ہوگا کہ مسلمان کو زندگی اسلامی طریقے پر کیسے گزارنی چاہیے اور قرآن کریم کی تلاوت بذات خود مقصود ہے، سمجھے بغیر بھی قرآن پڑھنے سے ثواب ملتا ہے، ہر حرف پر ایک نیکی کا ملنا حدیث میں مذکور ہے؛ البتہ قرآن کریم کا ترجمہ یا تفسیر پڑھنا چوں کہ ایک نازک کام ہے، اس لیے ہر عامی شخص کو اس کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، عوام کو چاہیے کہ وہ مستند علما کے تفسیر کے حلقے میں بیٹھ کر قرآن کریم کے معانی کو سمجھیں، اپنے طور پر ترجمہ یا تفسیر دیکھنے کے لیے پڑھا لکھا ہونا اور سمجھدار ہونا شرط ہے، ایسا شخص خود سے بھی قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر دیکھ سکتا ہے؛ لیکن ایسے شخص کو بھی کسی عالم دین کی نگرانی اور راہنمائی میں ترجمہ تفسیر دیکھنی چاہیے، ضرورت اور کھٹک کے وقت عالم دین سے مراجعت کرنی چاہیے، خود سے قرآن کے ترجمہ کو پڑھ کر غور کرنے میں اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ آدمی اپنی ناقص فہم سے قرآن کے معانی کا کوئی غلط مطلب سمجھ لے۔‘‘
اصلاحی کتابوں کی اہمیت سے ہمیں انکار نہیں ہے۔ بہشتی زیور، فضائل اعمال اور دیگر بہت سی اصلاحی کتابوں کے ذریعے عوام و خواص کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ کسی بھی اصلاحی کتاب کا وہ فائدہ نہیں ہوسکتا جو قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کا ہوسکتا ہے۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ بہشتی زیور اور فضائل اعمال کو تو سمجھ کر پڑھنے کا شوق دلایا جائے اور قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے ڈرایا جائے، بنا سمجھے پڑھنے کی ترغیب دی جائے، اور ترجمہ وتفسیر پڑھنے کے لیے ایسی شرطیں عائد کی جائیں کہ انھیں پڑھنا مشکل کیا ناممکن ہوجائے۔
گم راہ کن ترجموں سے بچانے کے لیے معتبر ترجموں کی ضرورت
قرآن کا ترجمہ کرتے ہوئے ہمارے کچھ بزرگوں کے سامنے یہ مقصد بھی پیش نظر تھا کہ بعض لوگوں کی بے احتیاطی یا آزادی پسندی کی وجہ سے ترجمہ قرآن میں غلطیاں در آئی ہیں اور ان سے مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اس کا تدارک کیا جائے۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:
’’بعض لوگوں نے محض تجارت کی غرض سے نہایت بے احتیاطی سے قرآن کے ترجمہ شائع کرنے شروع کیےجن میں بکثرت مضامین خلاف قواعد شرعیہ بھر دیےجن سے عام مسلمانوں کو بہت مضرت پہنچی۔ ہر چند کہ چھوٹے چھوٹے رسالوں سے ان کے مفاسد پر اطلاع دے کر ان مضرتوں کی روک تھام کرنے کی کوشش کی گئی مگر چوں کہ کثرت سے ترجمہ بینی کا مذاق پھیل گیا ہے وہ رسالےاس غرض کے لیے کافی ثابت نہ ہوئے تا وقتیکہ ابناء زمانہ کو کوئی ترجمہ بھی نہ بتلایا جاوے جس میں مشغول ہوکر ان تراجم مبتدعہ مخترعہ سے بے التفات ہوجاویں۔‘‘
شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ لکھتے ہیں:
’’بعض احباب اور مکرمین نے بندہ سے درخواست کی کہ قرآن شریف کا ترجمہ سلیس مطلب خیز اردو زبان میں مناسب حال اہل زمانہ کیا جائے جس سے دیکھنے والوں کو فائدہ پہنچے اور وہ نقصان اور خلل اور لفظی و معنوی اغلاط جو بعض آزادی پسند صاحبوں کے ترجمہ سے لوگوں میں پھیل رہی ہیں ان سے بچاؤ کی صورت نکل آئے۔‘‘
یہ بات بہت اہم ہے۔ گم راہی سے بچانے کے لیے اگر کوئی ذریعہ کارگر ہے تو وہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ہے۔ اگر کچھ ترجمے گم راہ کن ہیں، تو ان سے بچانے کے لیے قرآن کے ترجموں سے دور کرنا مناسب حل نہیں ہے۔ بلکہ معتبر ترجموں سے قریب کرنا مناسب حل ہے۔
جب کوئی یہ کہتا ہے کہ عوام کو قرآن کا ترجمہ و تفسیر نہیں پڑھنا چاہیے کیوں کہ اندیشہ ہے کہ وہ قرآن کی کسی بات کا کوئی غلط مفہوم سمجھ لے، تو وہ یہ حقیقت نظر انداز کرتا ہے کہ عوام تو صبح سے رات تک اخبارات سے لے کر موبائل کے اسکرین تک نہ جانے کیا کیا پڑھتے رہتے ہیں۔ ایسا بہت سا مواد ان کی نگاہوں سے گزرتا ہے جو نہایت گم راہ کن ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں قسم قسم کے گم راہ کن مواد سے ان کے دماغوں کی حفاظت قرآن سے زیادہ اور کیا چیز کرسکتی ہے۔ قرآن تو فرقان ہے، اس سے رشتہ جوڑے بغیر آدمی صحیح اور غلط میں کیسے فرق کرسکتا ہے۔
کیا علما کی نگرانی میں قرآن کا ترجمہ پڑھنا ممکن ہے؟
’’قرآن کریم کے بعض مضامین دقیق ہوتے ہیں، عام آدمی کے لیے از خود کسی تفسیر سے صحیح طور پر سمجھ لینا آسان نہیں ہوتا اور ایسے موقع پر عام آدمی کا ذہن کچھ کا کچھ مطلب لے لیتا ہے؛ اس لیے عام آدمی کو از خود قرآن کریم کا ترجمہ وتفسیر پڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔ اور دوسروں کو سنانا اور سمجھانا ڈبل ذمہ داری کا کام ہے؛ لہٰذا اِس سے احتراز چاہیے؛ البتہ اگر کسی مستند ومعتبر عالم کی نگرانی میں قرآن کریم کا ترجمہ وتفسیر پڑھا جائے اور جہاں سمجھ میں نہ آئے، دریافت کرلیا جائے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔‘‘
اس فتوے کے الفاظ پر غور کیجیے۔ اگر کوئی شخص قرآن کا ترجمہ و تفسیر پڑھنا چاہتا ہے تو پہلے وہ کسی عالم کو نہیں بلکہ مستند و معتبر عالم کو تلاش کرے، اور پھر جب بھی ترجمہ قرآن پڑھے اس کی نگرانی میں پڑھے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پوری اسلامی تاریخ میں قرآن پڑھنے کے سلسلے میں عوام پر ایسی کوئی پابندی لگائی گئی؟
عرب عوام تو بچپن سے ہی قرآن سمجھ کر پڑھنے لگتے ہیں۔ کیا انھیں قرآن سمجھ کر پڑھنے سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے، اور اگر ہے تو ان کو ان مزعومہ نقصانات سے بچانے کے لیے کیا فتوے جاری کیے گئے؟
کیا ہندوستانی عوام کے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ آیت کا غلط مفہوم لے لیں گے اور عرب عوام کے بارے میں ایسا کوئی اندیشہ نہیں ہے؟؟
کیا یہ ممکن ہے کہ ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمان قرآن کا ترجمہ و تفسیر مرتبر ومستند علما کی نگرانی میں پڑھیں؟
کیا ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کو اس لیے قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے روک دیا جائے گا کہ معتبر و مستند علما کی تعداد چند سو یا چند ہزار سے زیادہ نہیں ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی شرطیں اور پابندیاں عائد کرنے سے عام مسلمان قرآن فہمی سے دور ہوتے ہیں۔ اصول یہ بننا چاہیے کہ ہر وہ شرط جو عام مسلمانوں کے لیے قرآن سمجھنے کو مشکل بنادے وہ شرط غلط اور ناقابل قبول ہے۔
اس سلسلے میں صحیح اور معتدل بات یہ ہے کہ عوام قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں اور جہاں انھیں کوئی الجھن درپیش آئے وہ علمائے کرام سے رجوع کرکے اس الجھن کو دور کرلیں۔
اس سلسلے میں مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:
’’سوم نفس ترجمہ کے علاوہ جس مضمون کو بہت ضروری دیکھا کہ اس پر توضیح ترجمہ کی موقوف ہے یا کوئی شبہ خود قرآن کے مضمون سے ظاہرًا پیدا ہوتا تھا اس کا جواب یا مضمون قرآنی کسی مشہور تحقیقات کے خلاف معلوم ہوتا تھا اس کی تحقیق یا اسی قسم کی کوئی ضروری بات ہوئی اس کو ف بناکر بڑھادیا باقی لطائف و نکات یا طویل عریض حکایات یا فضائل یا بہت سے مسائل وغیرہا سے تفسیر کو طویل نہیں کیا گیا غرض یہ کہ مضامین کا جمع کرنا مقصود نہیں بلکہ محض حل قرآن و رفع ضرورت، لیکن باوجود اتنی رعایت کے بھی غیر علما و طلبہ کے لیے بہت سے مقامات میں علما سے استغناء نہیں ہوسکتا۔ لہذا مناسب بلکہ واجب یہ ہے کہ ایسے حضرات صرف اپنے مطالعہ و فہم پر اعتماد نہ فرماویں بلکہ حسب ضرورت علما یا منتہی طلبہ سے اس کو سبقًا سبقًا سمجھ کر پڑھ لیں ورنہ اقل درجہ اتنا تو ضرور ہے کہ مطالعہ کے وقت جہاں ذرہ برابر بھی اشتباہ رہے وہاں خود غور کرکے نہ نکالیں بلکہ پنسل سے نشان کرکے علما سے وہ عبارت دکھلا کر حل کرلیں اور بدون اس کے احتمال بلکہ یقین غلط فہمی کا ہے۔‘‘
مولانا تھانویؒ کی آخری بات قابل عمل معلوم ہوتی ہے۔ عوام کو اپنے اشکالات دور کرنے کے لیے علما سے رجوع کرنا چاہیے اور علما کو اس خدمت کے لیے آگے آنا چاہیے۔ عوام کو اس کی ترغیب بھی دینا چاہیے کہ وہ قرآن کو سمجھنے میں علما کی مدد حاصل کریں نیز علما کو ترغیب دینی چاہیے کہ وہ عوام کو قرآن سمجھانے کی خدمت انجام دیں۔ لیکن عوام کو اس بات کا پابند کرنا کہ وہ قرآن کا ترجمہ پڑھیں تو لازمًا علما کی نگرانی میں پڑھیں دراصل عوام کو قرآن سے دور کرنے کا سبب بن جائے گا۔ عوام خود بھی ترجمہ و تفسیر پڑھیں اور دوسروں کو بھی پڑھ کر سنائیں اور جہاں اشکال ہو وہاں علما سے رجوع کرلیں، یہی مناسب بات ہے۔
دراصل مولانا تھانویؒ وغیرہ نے جس وقت یہ فتوی دیا تھا کہ عوام علما کی نگرانی میں قرآن کا ترجمہ پڑھیں، اس وقت تک ایسی تفسیریں وجود میں نہیں آئی تھیں جو اس بات کو بڑی حد تک یقینی بنائیں کہ عوام کسی آیت کا کوئی غلط مفہوم نہ نکال بیٹھیں۔ لیکن بعد میں جب مفتی شفیعؒ کی معارف القرآن، مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن، مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تدبر قرآن اور دیگر بہت سی مفید تفسیریں آگئیں جو عوام کے لیے ہی لکھی گئیں، تو پھر اس پابندی کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ نئی صورت حال میں بھی انھی قدیم فتووں پر اصرار جاری ہے، حالاں کہ زمانے اور حالات کی تبدیلی کی بنا پر فتوے میں بھی تبدیلی ہونی چاہیے۔
حرف آخر
عوام کو قرآن سے جوڑنے کی حضرت شاہ ولی اللہؒ کی تحریک سے لے کر حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک اور اس کے بعد کی تمام کوششوں کا علمائے وقت پر یہ حق ہے کہ وہ ایسے فتوے اور بیانات جاری کریں جو قرآن کے ترجمے اور تفسیر کو پڑھنے کا شوق پیدا کریں اور اس کے سلسلے میں دلوں میں بیٹھے ہوئے خوف کو نکال باہر کریں۔
اس وقت امت جن خطرناک فکری اور تہذیبی حملوں کی زد میں ہے، ملت کے ہر فرد کے اندر اپنے دین کی حفاظت کا داخلی نظام قائم کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے قرآن فہمی سے زیادہ طاقت ور کوئی اور نظام نہیں ہوسکتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2022