رسائل و مسائل

کیا غیرمسلم ممالک میں سودی لین دین جائز ہے؟

سوال:مسلمانوں میں ایک طبقہ ایساہے، جو بینک اور حکومت کے دیگر اداروں کی طرف سے دیے جانے والے سود کو جائز قرار دیتاہے۔ اس کا یہ بھی خیال ہے کہ ہندستان دارالحرب ہے، اس لیے یہاں کے مسلمان غیرمسلموں سے ہی نہیں، بلکہ مسلمانوں سے بھی سود لے سکتے ہیں۔ اگر کوئی ملک واقعی دارالحرب ہے تو کیا اس ملک میں سود کا لین دین مسلمانوں کے درمیان جائز ہے؟ فقہ کے اس مسئلے کا تعلق قیاس سے ہے یا حدیث سے؟ اس کے جواز میں بطور دلیل کوئی حدیث ہے تو براہ مہربانی نقل کیجیے۔ سود کا تعلق گہرے طورپر اخلاقیات سے ہے۔ یہ بات اسلامی روح کے خلاف نظر ٓرہی ہے کہ دارالاسلام میں توسود حرام ہو، لیکن دارالحرب میں مسلمان غیرمسلموں سے سود لے۔ جس طرح زنا اور چوری مسلم ملک میں حرام ہے، اسی طرح سود بھی مسلمانوں کے لیے ہر ملک اور ہر صورت میں حرام ہونا چاہیے۔ جواب براہ کرم مدلّل طورپر اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں:

محمد اشفاق حسین

الاوہ بی بی، حیدرآباد

جواب: فقہ و فتاویٰ کی کتابیں دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس مسئلے پر فقہائ احناف کے دو گروپ ہیں۔ کچھ علمائ غیرمسلم ممالک میں سودی لین دین کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ وہ ‘ربا’ نہیں ہے، جس سے قرآن و حدیث میں سختی سے منع کیاگیا ہے۔ جب کہ دیگر اسے ناجائز قرار دیتے ہیں اور اس کی حرمت کا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ یہ اختلاف فقہاے احناف میں ابتدا ہی سے پایاجاتاہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگرد امام محمدؒ جواز کے قائل ہیں، جب کہ ان ک دوسرے شاگرد امام یوسفؒ کے نزدیک یہ حرام اور ممنوع ہے۔ دیگر فقہائ: امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک بھی سودی کاروبار ، خواہ کسی مسلم ملک میں ہو یا غیرمسلم ملک میں، ہرحال میں حرام ہے۔ یہ بحث فقہ حنفی کی تمام مشہور کتابوںمیں ملتی ہے۔ مثلاً ملاحظہ کیجیے اسرالکبیر ﴿خسی﴾، المبسوط ﴿خسی﴾، المختصر﴿قدوری﴾، الھدایۃ ﴿مرغینانی﴾، فتح القدیر ﴿ابن ہمام﴾، کنزالدقائق ﴿نسفی﴾، البحرالرائق ﴿ابن بخیم﴾، فتاویٰ عالم گیری اور ردالمحتار﴿ابن عابدین شامی﴾ وغیرہ۔ یہ اختلاف فقہاے متاخرین میں بھی پایاجاتا ہے۔ چنانچہ مولانا عبدالحی لکھنؤیؒ ﴿مجموعۃ الفتاویٰ﴾، مفتی کفایت اللہ ﴿کفایت المفتی﴾، مفتی محمود حسن گنگوہیؒ ﴿فتاویٰ محمودیہ﴾، مولانا احمد رضا خاں بریلویؒ ﴿فتاویٰ رضویہ﴾ اور بعض دیگر فقہاے احناف نے غیرمسلم ممالک میں غیرمسلموں سے سودی لین دین کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ دونوں فریقوں کے دلائل میں غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ جواز کے قائلین کا موقف کم زور ہے۔ ان حضرات نے عام طورپر اپنی تائیدمیں یہ حدیث پیش کی ہے :

لاَرِبَابَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ بَیْنَ اَھْلِ الْحَرْبِ فِی دَارِالحَرْبِ

’’دارالحرب میں مسلمانوں اور اہل حرب کے درمیان ربا نہیں‘‘

اس حدیث کو امام ابوحنیفہؒ نے امام مکحولؒ سے روایت کیا ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ مکحولؒ صغار تابعین میں سے ہیں۔ معلوم ہواکہ درمیان میں صحابی کا نام چھوٹ گیاہے۔ یعنی یہ حدیث مرسل ہے۔ اگرچہ احناف اور مالکیہ نے فقہ تابعی کی مرسل روایت کو قابل استدلال قرار دیاہے، لیکن دیگر علمائ اس کا شمار حدیث ضعیف کی اقسام میں کرتے ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ یہ حدیث اپنے مضمون میں صریح نہیں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں نفی نہی کے معنی میں ہو۔ یعنی دارالحرب میں بھی مسلمان اہل حرب کے ساتھ سودی معاملے نہ کریں۔ جواز کے قائلین نے ایک دلیل یہ بھی دی ہے کہ حرمتِ ربا کی آیت ﴿آل عمران: ۱۳۰﴾۳/ہجری میں غزوۂ احد کے موقعے پر نازل ہوئی تھی۔ اس وقت حضرت ابن عباسؓ مسلمان ہوچکے تھے اور مکہ میں مقیم تھے۔وہ اس کے بعد بھی سالوں تک مکہ میں رہے اور وہاں کے مشرکین سے سودی کاروبار کرتے رہے۔ یہ دلیل بھی قوی نہیں ہے۔ اس لیے کہ ممکن ہے کہ مکہ میں رہنے کی وجہ سے انھیں اس حکم کا علم نہ ہوپایاہو۔

واقعہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میںحرمتِ سود کاحکم اتنے سخت الفاظ میں بیان کیاگیا ہے کہ انھیں پڑھ کر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اَلَّذِیْنَ یَاکُلُوْنَ الرِّبوٰ لَایَقُوْمُوْنَ اِلَّاکَمَا یُقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ط ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَآلُوا اِنَّمَا البَیْعُ مِثْلُ الرِّبوٰ ط وَاَحَلّ اللّٰہُ البَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبوٰ ط فَمَنْ جَآئَ ہ’ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَبِّہِ فَانْتَھِی فَلَہ’ مَاسَلَفَ ط وَاَمَرُہ’ الٰی اللّٰہِ ط وَمَنْ عَادَ فَاُولٰئکَ اَصْحٰبُ النّارِ ج ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَo ﴿البقرۃ:۲۷۵﴾

’’جو لوگ سود کھاتے ہیں،ان کاحال اس شخص کا سا ہوتاہے، جسے شیطان نے چھوکر باولاکردیا ہو، اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں : ‘‘تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے۔ حالاں کہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آیندہ کے لیے وہ سودخوری سے باز آجائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھاچکا، سو کھاچکا، اس کامعاملہ اللہ کے حوالے ہے، اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کااعادہ کرے وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘

اسی سورت میں آگے چند آیتوں کے بعد ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یَٰآیُّہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا تَّقُوا اللّٰہ وَ ذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوآ اِنْ کُنْتُمْ مُّوْمِنِیْنَo فِاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٰ ج وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وُسُ اَمْوَالِکُمْ ج لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَاتُظْلِمُوْنَ o                                            ﴿البقرہ: ۲۷۹﴾

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیاہے اسے چھوڑدو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو، لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسولﷺکی طرف سے تمھارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کرلو ﴿اور سود چھوڑدو﴾ تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو ، نہ تم پر ظلم کیاجائے۔‘‘

سورۂ آل عمران میں ہے:

یَٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَا تَاکُلُوا الرِّبٰوآَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً ص وَاتَّقُوااللّٰہ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ  ﴿آل عمران: ۱۳

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑدو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پاؤگے۔‘‘

حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

الرِّبَاسَبْعُوْنَ جُزْئ اً اَیْسَرُھَا اَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہ’  ﴿بیہقی، شعب الایمان، حدیث: ۳۳۱۵، ابن ماجہ، سنن، حدیث: ۳۷۲۲﴾

’’ود کے گناہ کے ستر درجے ہیں۔ اس کا سب سے کم تر درجہ ایساہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔‘‘

قرآن کریم کی مذکورہ بالاآیات مطلق ہیں۔ ان میں مسلمانوں کو سود سے بچنے کاحکم دیاگیاہے اور باز نہ آنے والوں کو شدید وعید سنائی گئی ہے۔ اس بنا پر سودی لین دین چاہے مسلمانوں کے درمیان ہو یا مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان، کسی مسلم ملک میں ہو یا غیرمسلم ملک میں، ہر جگہ اور ہر حال میں حرام اور ناجائز ہے۔ ماضی قریب کے متعدد اکابر علمائ نے یہی فتویٰ دیاہے۔ مثلاً ملاحظہ کیجیے مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ﴿فتاویٰ رشیدیہ﴾ مولانا اشرف علی تھانویؒ ﴿امدادالفتاویٰ﴾، مولانا مفتی محمد شفیع ؒ ﴿امداد المفتین﴾، مولانا سیدنذیرحسین دہلویؒ ﴿فتاویٰ نذیریہ﴾ اور مولانا ثنائ اللہ امرتسریؒ ﴿فتاوی ثنائیہ﴾ کے فتاوے۔

بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کاحق

سوال: ایک حدیث نظر سے گزری ہے جس کا مضمون کچھ یوں ہے: ‘‘ایک عورت اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے۔ میں نے حمل اور وضع حمل کی تکلیفیں برداشت کی ہیں، ابھی یہ میرا دودھ پیتا ہے اور میری آغوش تربیت کا محتاج ہے، لیکن اس کا باپ جس نے مجھے طلاق دے دی ہے، چاہتا ہے کہ اسے مجھ سے چھین لے۔ یہ سُن کر آپﷺنے ارشاد فرمایا:

’’تم اس کی زیادہ حق دار ہو جب تک تمھارا کہیں اور نکاح نہ ہوجاے‘‘

اس حدیث کے ضمن میں درج ذیل سوالات ابھرتے ہیں:

۱۔اگر ماں کسی اور سے نکاح کرلے تو ایسی صورت میں کیا ماں کا حق حضانت پوری طرح ساقط ہوجاتا ہے اور بچے کو مطلقہ سے لے لینے کا باپ پوری طرح حق دار ہوگا۔ حدیث کے الفاظ سے تو یہی بات مترشح ہوئی ہے۔

۲۔بچہ ماں کے پاس یا ماں جن کے پاس بھی بچے کو پرورش کے لیے رکھے، وہ مقام بچے کا باپ جہاں اپنے اہل خاندان مثلاً بچے کی دادی، دادا، پھوپھی اور چچا وغیرہ کے ساتھ مقیم ہو اور وہیں اس کا پھیلا ہوا کاروبار بھی ہو وہ مقام بچے کی جاے قیام سے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر ہو، تب بھی بچے کی ماں اگر فقہ کے اس مسئلے کا حوالہ دے کہ ماں کے بعد بچے کی پرورش کا حق نانی کو منتقل ہوجاتاہے اور بچے کو اپنی ماں کے پاس رکھنے پر مصر ہوتویہ کہاں تک صحیح اور درست ہوگا؟ جب کہ بچے کی پرورش اُس کی صحت اور تعلیم و تربیت پر نگاہ رکھنا اور وقتاً فوقتاً بچے سے ملنا اور ملتے رہنا اور بچے کو اپنے سے مانوس رکھنا، طویل فاصلے کی بنا پر باپ کے لیے ممکنات میں سے نہ ہو۔ ایسی صورت میں ماں کا یہ طرزعمل اور اس پر اصرار کیا شرعاً صحیح اور درست ہوگا؟

۳۔ پھر یہ کہ طلاق کے بعد بچے کی ماں کے گھر والوں یعنی نانا ، نانی وغیرہ سے اس کے باپ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوچکے ہوں اور وہ ان کے گھر میں قدم رکھنا بھی پسند نہ کرتا ہو تو ایسی صورت میں بچے کو نانی کے پاس رکھنا بچے سے باپ کے تعلق کو کیا عملاً ختم کردینے کے مترادف نہیں ہوگا۔ شرعاً یہ کہاں تک درست ہے؟

۴۔پھر ایک بات اور یہ کہ اگر نانی اپنے گھر کی اکیلی خاتون ہوں ، لڑکیوں کی شادی ہو چکی ہو، بڑے لڑکے شادیوں کے بعد ماں باپ سے علیٰحدہ رہتے ہوں ، ایسی صورت میں نانی پر بچے کی پرورش کی ذمہ داری ڈالنا کہاں تک صحیح اور درست ہوگا ، جب کہ بچے کا باپ اس کے لیے بالکل تیار نہ اور اس کو وہ اپنی اور اپنے بچے کی بہت بڑی حق تلفی قرار دیتا ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا شریعت اس طرح کے جبر کی اجازت دے گی؟

۵۔ دوسری طرف بچے کے باپ کے گھر والے مثلاً بچہ کی دادی، دادا، پھوپھی، چچا وغیرہ بچے کو اپنانے اور دل و جان سے اُس کی پرورش اور نگہداشت کرنے کے لیے تیار ہوں تو شرعاً ترجیح کس کو دی جائے گی، جب کہ بچے کا باپ بھی اپنے والدین ہی کے ساتھ رہتا ہو اور کاروبار بھی مشترک ہو اور بچے کا باپ بھی دل و جان سے یہی چاہتاہو کہ اُس کالخت جگر ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رہے اور پیار و محبت کے ماحول میںاُس کی راست نگرانی میں بچے کی پرورش ، تعلیم وتربیت اور تعمیر اخلاق کانظم ہو اور عمدہ سے عمدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ سہولتیں اور آسائشیں بھی بچے کو ملیں۔

بہ راہ کرام حدیث بالا کے ضمن میں ابھرنے والے سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں۔

﴿اپنی کسی مصلحت کے پیشِ نظرسائل نے اپنا نام اور پتا ظاہر نہ کرنے کی گزارش کی ہے۔ ادارہ﴾

جواب: اسلام نے بنیادی انسانی حقوق کی پاس داری کی ہے۔ اس نے بچے کا یہ حق بتایا ہے کہ پیدایش کے بعد اس کی پرورش و پرداخت کی جائے، اس کی صحت کا خیال رکھاجائے، اسے تعلیم کے زیور سے آراستہ کیاجائے، اس کی دینی و اخلاقی تربیت پر بھرپور توجہ دی جائے اور اسے پال پوس کر اس طرح بڑا کیاجائے کہ کاروبارِ زندگی میں وہ اپنامطلوبہ کردار سرانجام دے سکے۔ اصلاحِ شریعت میں اس حق کو حضانت کہاجاتا ہے۔اس حق کی ادائی جس پر واجب ہے اگر وہ کوئی ایک فرد ہو، جیسے صرف ماں ہو، یا دیگر افراد بھی ہوں مگر بچہ ماں کے علاوہ کسی دوسرے کو نہ قبول کرتاہو تو یہ وجوب عین ہے اور دیگر افراد ہوں اور بچہ ان کے پاس رہ سکتا ہو تو یہ وجوبِ کفایہ ہے، کوئی فرد اس ذمہ داری کو قبول کرلے تو دوسروں سے وجوب ساقط ہوجائے گا۔ جن لوگوں پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی اگر وہ اس کی ادائی میں کوتاہی کریںگے تو ان سے بازپُرس ہوگی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:

کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّ کُلُّکُمْ مَسْئُوُلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٰ۔ بخاری مسلم

﴿تم سے ہر شخص راعی یعنی نگراں ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیاجائے گا﴾

بچے کی پرورش کی بہترین صورت تو یہ ہے کہ وہ اپنے ماں باپ دونوں کے زیرسایۂ عاطفت پروان چڑھے، دونوں مل کر اس کی جسمانی و عقلی نشوونما اور تعلیم وتربیت پر توجہ دیں اور اس کی بنیادی ضروریات پوری کریں۔ لیکن بسااوقات دونوں میں علیٰحدگی ہوجاتی ہے۔ اس صورت حال میں شریعت میں بچے، اس کی ماں اور اس کے باپ تینوں کے حقوق کی رعایت کی گئی ہے، تاکہ ایک طرف بچے کی صحیح ڈھنگ سے پرورش و پرداخت ہوسکے، دوسری طرف ہرحق دار کو اس کاجائز حق ملے اور تیسری طرف کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ چنانچہ کسی کی بے جاطرف داری کی گئی ہے نہ کسی کے حق کو پامال کیاگیاہے۔ ذیل میں مسئلہ حضانت کے مختلف پہلوئوں کی وضاحت کی جارہی ہے:

﴿۱﴾ نومولود اور چھوٹے بچے کی پرورش کاپہلا حق اس کی ماں کا ہے۔ وہی اس کو دودھ پلاتی ہے ، وہی اس کی اچھی طرح پرورش کرسکتی ہے۔ چھوٹے بچے کی جتنی اچھی طرح دیکھ بھال ماں کرسکتی ہے، باپ نہیں کرسکتا۔ نہلانا، دھلانا، تیل کی مالش کرنا، پیشاب پاخانہ کردینے کی صورت میں صفائی کرنا، گندے کپڑے بدلنا اور صاف ستھرے کپڑے پہنانا، کھلانا، پلانا اور دیگر ڈھیر سے کام جتنی تن دہی سے ماں انجام دے سکتی ہے، باپ نہیں انجام دے سکتا، وہ اس کے لیے اپنا جتنا وقت فارغ کرسکتی ہے، باپ نہیںکرسکتا۔ اسی لیے بچے کے مفاد میں ماں کا حق مقدم رکھاگیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: ‘‘یہ میرا بیٹا ہے، میرا پیٹ اس کی جائز قرار تھی، میری آغوش نے اسے پالا ہے، میرے سینے سے اس نے دودھ پیا ہے، اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور چاہتا ہے کہ اسے مجھ سے چھین لے۔ آپﷺنے فرمایا: اَنْتَ اَحَقُّ بِہٰ مَالَمْ تَنْکَحِی ‘‘تم اس کی زیادہ حق دار ہو جب تک تمھارا نکاح کہیں اورنہ ہوجائے ﴿سنن ابی دائود: ۶۷۲۲، اسے احمد، بیہقی اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے﴾ بعض روایات میں ہے کہ اسی طرح کے ایک تنازعہ میں حضرت ابوبکرؓ نے ماں کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے فرمایاتھا: ‘‘بچے سے پیار، محبت و رافت، لطف و کرم، رحم دلی و ہم دردی اور بھلائی ماں کو زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اس کی زیادہ حق دار ہے، جب تک اس کاکہیں اور نکاح نہ ہوجائے۔ ﴿فقہ السنۃ، السید سابق، دارالکتاب العربی، بیروت، ۱۹۸۳ئ، ۲/۳۴۰﴾

’’کہیں اور نکاح ہوجانے‘‘ کی قید بہت حکمت پر مبنی ہے۔ ممکن ہے کہ ماں نے جس شخص سے نکاح کیاہے وہ بچے کے لیے اجنبی ہو، اسے اس بچے سے ویسی محبت نہیں ہوسکتی جیسی اپنے بچے سے ہوتی ہے۔ اس لیے اندیشہ ہے کہ اگر بچہ اپنی ماں کے ساتھ رہے گا تو صحیح طریقے سے اس کی دیکھ بھال نہ ہوسکے گی۔ لیکن ایسا ہرحال میں ضروری نہیں ہے۔ اس بچے کی خبر گیری کرنے والا ماں کے علاوہ کوئی نہ ہو، یا ہو مگر کسی وجہ سے اس کی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہو،یا ماں باپ کے بعد جس شخص کو حق حاصل ہو وہ خاموش رہے، اسے ماں کے ساتھ بچے کے رہنے پر کوئی اعتراض نہ ہو، بچے کی ماں نے جس شخض سے نکاح کیا ہے وہ بچے کا رشتہ دار ہو، یا رشتہ دار نہ ہو مگر بچہ کو بہ خوشی اپنے ساتھ رکھنے پر تیار ہو تو ان صورتوں میں ماں کا حق حضانت ساقط نہیں ہوتا۔ حضرت ام سلمہؓ کانکاح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا اس وقت ان کے سابق شوہر حضرت ابوسلمہؓ سے ان کی بچی زینب بہت چھوٹی تھی، ابھی دودھ پیتی تھی، وہ برابر ان کے ساتھ رہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں اس کی پرورش ہوئی۔

﴿۲﴾عام حالات میں بچے کو وہیں رکھنا ضروری ہے جہاں اس کے باپ کا قیام ہو۔ اس لیے کہ شریعت نے باپ کو بچے کی تعلیم و تربیت اور مجموعی خبرگیری کا ذمہ دار بنایاہے اور اسے بچے کو دیکھنے کابھی حق حاصل ہے۔ اس لیے ماں باپ میں سے کوئی بھی اگر دوسری جگہ منتقل ہورہاہو تو ماں کاحق حضانت ساقط ہوجائے گا۔ یہ مالکیہ ، شوافع اور حنابلہ کا مسلک ہے۔ احناف کے نزدیک ماں بچے کے ساتھ کسی دوسرے قریبی شہر میں رہ سکتی ہے، جہاں باپ کی بہ آسانی آمد و رفت ہوسکتی ہو۔ اسی طرح وہ اسے کسی دور دراز شہر میں بھی لے جاسکتی ہے اگر وہ شہر اس کا وطن ہو ﴿الموسوعۃ الفقہیۃ ،کویت ، ۷۱/۳۔۱۱۳﴾

اس سلسلے میں شیخ سید سابق کی درج ذیل بات صحیح معلوم ہوتی ہے:

’’بچے کے ماں باپ میں سے کوئی ایک دوسری جگہ منتقل ہورہاہو تو بچہ کس کے پاس رہے؟ اس سلسلے میں یہ دیکھاجائے گاکہ بچہ کا کس کے پاس رہنا زیادہ بہتر اور مفید ہے اور کس کے پاس وہ زیادہ محفوظ رہے گا۔ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اس کی دوسرے شہر منتقلی کہیں دوسرے فریق کو پریشان کرنے اور اس کو بچے سے محروم کرنے کے مقصد سے تو نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو بچے کو اس کے ساتھ نہیں بھیجا جائے گا۔‘‘ ﴿فقہ السنۃ، ۲/۲۵۳﴾

﴿۳﴾اگربچہ اپنی ماں، نانی یا کسی اور مستحقِ حضانت کے پاس ہو تو باپ کو بچے سے ملاقات کرنے، اسے دیکھنے اور اس کی خبر گیری کرنے کے حق سے محروم نہیں کیاجاسکتا۔ یہ صحیح ہے کہ طلاق کے بعد باپ کے تعلقات اس کی سسرال والوں سے کشیدہ ہوجاتے ہیں، لیکن دین داری کا تقاضا ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے حقوق پہچانیں اور ان کی پاس داری کریں۔ کشیدگی کی بنا پر ماں یا نانی کو ان کے حقِ حضانت سے محروم کیاجاسکتا ہے نہ باپ کو اپنے بچے سے تعلق رکھنے سے روکاجاسکتا ہے۔

﴿۴﴾کوئی مستحق حضانت اپنے حق سے دست بردار ہوناچاہے تو اس کی گنجائش ہے۔ لیکن اگر وہ اپنا حق استعمال کرناچاہے تو اسے اس سے محروم نہیں کیاجاسکتا۔ نانی تنہا رہتی ہو، اسے بچے کی پرورش کی ذمہ داری اٹھانے میں دشواری ہوتو وہ اس سے معذرت کرسکتی ہے۔ اس صورت میں بچہ کو اس شخض کی پرورش میں دیاجائے گا جو اس کے بعد مستحق ِ حضانت ہو۔ استحقاقِ حضانت کی بنیاد شریعت میں اس بات پر نہیں رکھی گئی ہے کہ باپ اس کے لیے تیار ہے یا نہیں اور بچے کے کسی دوسرے کے پاس رہنے کو وہ اپنی حق تلفی سمجھتا ہے یا نہیں۔ البتہ فقہائ نے استحقاق حضانت کے لیے بعض شرائط بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ مسحقِ حضانت مسلمان ہو، بالغ و عاقل ہو، دین دار ہو اور اس کا فسق و فجور عام نہ ہو، وہ بچے کی پرورش کرنے پر قادر ہو، بڑھاپے ، مرض یا کسی مصروفیت کی بنا پر اس سے معذور نہ ہو، اسے کوئی متعدی مرض نہ ہو، جہاں اس کا قیام ہو وہ جگہ محفوظ و مامون ہو، وغیرہ۔ ان میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تو اس کاحق حضانت ساقط ہوجائے گا۔

﴿۵﴾فقہائ نے روحِ شریعت کو پیش نظر رکھ کر مستحقینِ حضانت کی ایک تربیت قائم کی ہے، جو درج ذیل ہے:

ماں۔ نانی۔ دادی۔ بہن۔ بھانجی۔ خالہ۔ بھتیجی۔ پھوپھی۔ ماں کی خالہ۔ باپ کی خالہ۔ ماں باپ کی پھوپھی۔ باپ۔ دادا۔ بھائی۔ بھتیحہ۔ چچا۔ چچازاد بھائی وغیرہ۔

اس ترتیب میں یہ بات ملحوظ رکھی گئی ہے کہ بچے کی اچھی طرح پرورش و پرداخت کس کے پاس رہ کر ہوسکتی ہے۔ کسی غیرمستحقِ حضانت کے لیے روا نہیں کہ محض اپنی خواہش کی بنا پر حقِ حضانت کا دعویٰ اور اسے حاصل کرنے پر اصرار کرے۔ اس لیے یہ کہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ بچے کے باپ کے گھر والے بچے کو اپنانے کے لیے پوری طرح تیار ہوں اور باپ بھی یہی چاہتاہو تو بچے کو ان کے حوالے کردیناچاہیے۔

﴿۶﴾اس سلسلے میں مدتِ حضانت کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ حضانت کاآغاز بچے کی پیدائش سے ہوجاتا ہے اور اس کی آخری مدت یہ ہے کہ وہ سنِ شعور کو پہنچ جائے اور اپنے بنیادی ضروری کام خود سے انجام دینے لگے۔ احناف نے لڑکے کے لیے اس کی مدت سات سال اور لڑکی کے لیے نو سال متعین کی ہے۔ لڑکی کی مدتِ حضانت زیادہ رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ اس کی اچھی طرح نسوانی تربیت ہوجائے۔

مدتِ حضانت پوری ہونے کے بعد بچہ کس کے پاس رہے گا؟ اس سلسلے میں فقہائ کے مختلف اقوال ہیں۔ عہدنبوی کے بعض واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو اختیاردیاتھاکہ وہ ماں باپ ، جس کے ساتھ چاہے، رہے۔ حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ اور قاضی شریحؒ نے بھی بعض مقدمات میں یہی فیصلہ کیاتھا، اس بنا پر شوافع اور حنابلہ کایہی مسلک ہے۔ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ مدتِ حضانت ختم ہونے کے بعد باپ بچے کو اپنے پاس رکھنے کازیادہ حق رکھتا ہے۔ اس لیے کہ اسی کو اس کی کفالت اور تعلیم و تربیت کاذمہ دار بنایاگیا ہے۔ باپ کی یہ ولایت بچے کے بالغ ہونے تک ہے۔ اس کے بعد اسے اختیار ہوگا کہ وہ جس کے ساتھ رہناچاہے رہے۔ ملحوظ رہے کہ بچے کی صحیح ڈھنگ سے تعلیم اور دینی و اخلاقی تربیت کس کے پاس ہوسکتی ہے۔ اگر باپ لاابالی ہو، یا کسی بنا پر بچے کی تعلیم و تربیت سے قاصر ہو اور ماں اس کام کو بہتر طریقے سے انجام دے سکتی ہو تو بچے کو اسی کے پاس رہنے دیاجائے گا۔

حقِ حضانت کے مسئلے پرفریقین یعنی بچے کے ماں باپ کو جذبات سے بالاترہوکر غور کرنا چاہیے ، اور کسی ایسے فیصلے پر باہم رضامند ہوجاناچاہیے جس میں بچے کا زیادہ فائدہ ہو، خواہ اس کے لیے انھیں اپنی خواہشات کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔

سوال: آپ نے عورت کے حق حضانت کے سلسلے میںحضرت عبداللہ بن عمروؓ سے مروی حدیث اور حضرت ابوبکرؓ کا فیصلہ نقل فرمایاہے، اس سے چند سوالات اُبھرتے ہیں جو درج ذیل ہیں:

ایک خاتون اپنا مقدمہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتی ہے، اس پر آپﷺکا یہ فرماناکہ تم ہی اس کی زیادہ حق دار ہو جب تک تمھارا نکاح کہیں اور نہ ہوجائے۔ اس جواب سے جو مفہوم نکلتا ہے اور اخذ کیاجاسکتا ہے وہ یہی ہے کہ کن حالات میں کس کا حق مقدم ہے۔ یقیناجب تک ماں نکاح نہ کرے، اس کاحق مقدم اور جب نکاح کرلے تو باپ کاحق مقدم۔ اگر باپ کے علاوہ کسی اور کو حق حضانت ہونے کی بات ہوتی تو حضورﷺاس کا بھی ذکر یقینا فرماتے۔ مگر آپﷺکا یہ اصولی جواب کافی غور طلب ہے۔مقدمہ میں عورت یہ کہتی ہے کہ بچے کا باپ طلاق دے دینے کے بعد مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے اور حضور فرماتے ہیں کہ جب تک تو نکاح نہ کرے تو زیادہ حق دار ہے۔ گویا نکاح ہوجانے کے بعد ، پہلے تجھے جو حق حاصل تھا، وہ باقی نہیں رہ سکتا۔ اب باپ کاحق ،جو پہلے مؤخر تھا، مقدّم بن چکا ہے۔ یہی مفہوم اس حدیث رسول کانکلتا ہے۔ اب اس سیدھے سادے جواب کی موجودگی میں یہ کہنا کہ نانی کو یا فلاں اور فلاں کو اس کاحق ملتا ہے یا ملنا چاہیے ، حضورﷺکے جواب پر ایک اضافہ ہے۔ باپ اگر بچے کی پرورش کاپوری طرح اہل ہو اور اس کے اہل خاندان مثلاً اس کی ماں ﴿جس کاحقِ حضانت آپ کی بیان کردہ فہرست کے مطابق نانی کے بعد آتا ہے﴾ وغیرہ بھی سلامت ہوں اور وہ حضانت کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار بھی ہوں تو کسی اور طرف دیکھنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے؟۔

آپ نے اس سلسلے میں حضرت ام سلمہؓ اور حضورﷺکی مثال پیش فرمائی ہے اور اس سے جو استدلال فرمایاہے اس سے اتفاق نہایت مشکل ہے۔ حضورﷺکا مثالی اخلاق اورآج کل امت مسلمہ کی جیسی کچھ اخلاقی صورت حال ہے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ لہٰذا ایسی بلندو بالا اور منفرد مثالوں سے استدلال عملی طورپر صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ لہٰذا ادباً گزارش ہے کہ ایسی اونچی مثالوں سے استدلال نہ کیاجائے تو بہتر ہے۔

اس سلسلے میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ماں کے بعد باپ ہی اپنے بچے کا زیادہ خیرخواہ ہوتاہے۔ اگر وہ بچے کو اپنی نگہ داشت میں رکھ سکتاہوتو اسی کو اوّلیت دینی چاہیے۔ میرے خیال میں روحِ شریعت سے یہی بات زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ واقعی اگر باپ کسی وجہ سے اس کا اہل نہ ہو۔ یا اہل تو ہو مگر اس کے حالات اس کے متحمل نہ ہوں یا اس کی ماں یعنی بچے کی دادی صحت مند نہ ہو ﴿یا حیات نہ ہو﴾ اور بار حضانت اٹھانے کی متحمل نہ ہو، اس صورت میں دوسرے مستحقین ِ حضانت کے تعلق سے سوچنا چاہیے۔ لیکن اگر باپ کو ایسی کوئی مجبوری یا معذوری لاحق نہ ہو تو ماں کے بعد اسی کو حقِ حضانت دیناچاہیے تاکہ وہ بچے کو اپنے سے قریب اور اپنی نگرانی میں رکھے اور اگرضرورت متقاضی ہو تو ملازمین کی خدمات بھی اپنی ماں کی سرپرستی میں فراہم کرے۔ تاکہ بچے کی بہتر سے بہتر انداز میں پرورش و نگہداشت ہوسکے۔

فقہائ نے حضانت کے سلسلے میں جو ترتیب بیان فرمائی ہے وہ کوئی ایسی نص نہیںہے کہ اس ترتیب میں حالات اور مصالح اگر متقاضی ہوں تب بھی کوئی تقدیم و تاخیر روانہ رکھی جائے۔ فقہائ نے ایک مسئلے کے مختلف پہلوئوں کو یقینا بیان فرمایاہے، لیکن مصالح اور حالات جس بات کے متقاضی ہوں ان کو ترجیح دینا حکمتِ شریعت اور عقل عام کا عین منشا اور تقاضا معلوم ہوتا ہے۔

جواب: حدیث ‘‘انت احقّ بہ مالم تنکحی’’ سے آپ نے جواِستنباطات کیے ہیں ان کے بارے میں بنیادی بات یہ عرض کردینی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ کسی مسئلہ کی کوئی قانونی شق مستنبط کرتے وقت صرف ایک ہی حدیث کو پیشِ نگاہ رکھنا کافی نہیں ہے، بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر اقوال، افعال اور عملِ صحابہ کو بھی پیش نظر رکھاجائے گا، تبھی مسئلہ کی صحیح نوعیت واضح ہوگی، ورنہ غلطی میں پڑنے کاامکان ہے۔ اس حدیث سے آپ کا پہلا اسنتباط کہ ماں کے نکاح کرتے ہی اس کا حقِ حضانت ختم ہوجانا چاہیے ، پورے طورپر درست نہیں ہے۔ حضرت ام سلمہؓ کادوبارہ نکاح ہوجانے کے باوجود ان کی بیٹی زینب ان کے ساتھ رہی۔ معلوم نہیں کیوں آپ اس واقعہ سے استدلال درست نہیں سمجھتے۔ یہاں زیربحث افراد نہیں، بلکہ صورتِ واقعہ ہے۔ اس کا ثبوت خود قرآن سے بھی ملتا ہے۔ سورۂ نسائ میں محرّمات ﴿جن عورتوں سے نکاح حرام ہے﴾ کی جو فہرست پیش کی گئی ہے اس میں ایک قسم یہ بھی ہے :

وَرَبٰئبُکُمُ الّٰتِی فِی حُجُوْرِکُمْ مِنْ نِّسَآئِکُمْ الّٰتِی دَخَلْتُمْ بِھِنَّ ﴿آیت ۳۲﴾

اور تمھاری بیویوں کی لڑکیاں جنھوںنے تمھاری گودوں میں پرورش پائی ہے۔

اگر ماں کے دوبارہ نکاح کرلینے کے بعد، اس کا اپنی بچی کو اپنے ساتھ رکھناجائز ہی نہ ہوتا تو قرآن عورتوں کی اس قسم کا تذکرہ ہی نہ کرتا۔

آپ کا دوسرا استنباط کہ ماں کاحق حضانت ختم ہوجائے تو باپ کو اس کا حق دے دیناچاہیے، نانی یا کسی اور کو یہ حق دینا درست نہیں_ یہ استنباط بھی صحیح نہیں ہے۔ کتبِ حدیث میں عہدِ صحابہ کے بعض نظائر موجود ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ یہ حق ماں کے بعد نانی کو دیاگیا۔ خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرؓ کے عہد کاواقعہ ہے۔ حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے ایک انصاری عورت سے نکاح کیا، پھر کچھ عرصہ کے بعد اسے طلاق دے دی۔ اس سے ایک بچہ ہوا جس کا نام عاصم تھا۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے بچے کو لیناچاہاتو اس کی نانی نے، جس کی پرورش میں وہ بچہ تھا، کیوں کہ اس کی ماں کانکاح دوسرے شخص سے ہوگیا تھا۔ ﴿وأمّ عاصم۔ یومئذ حیّۃ متزوجۃ﴾ حضرت ابوبکر ؓ کی خدمت میں مرافعہ کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے نانی کے حق میں فیصلہ کردیا اور حضرت عمرؓ پر نفقہ لازم کیا۔ ﴿انّ عمر رضی اللہ عنہ طلق اُمّ عاصم فکان فی حجر جدتہ فخاصمتہ الی أبی بکر فقضیٰ ان یکون الولد مع جدّتہ والنفقۃ علی عمر رضی اللہ عنہ و قال ھی أحق بہ﴾ السنن الکبریٰ البیہقی، دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن، ۸/۴۔۵، امام بیہقیؒ نے اس مضمون کی متعدد روایتیں جمع کردی ہیں اور ان سے استنباط کرتے ہوئے یہ عنوان قائم کیا ہے: باب الام تتزوج فیسقط حقّھا من حضانۃ الولد و ینتقل الی جدّتہ ﴿اس چیز کا بیان کہ ماں نکاح کرلے تو اس کا حق ِ حضانت ساقط ہوجائے گا اور وہ بچے کی نانی کی طرف منتقل ہوجائے گا﴾

فقہائ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگربچے کی ماں موجود نہ ہو یا اس کا حقِ حضانت کسی وجہ سے ساقط ہوگیا ہوتو استحقاق حضانت میں ماں کے سلسلے کی عورتیں باپ کے سلسلے کی عورتوں سے مقدم ہوںگی۔ اگر مستحق حضانت کوئی عورت نہ ہو، یا اس کے لیے آمادہ نہ ہو یا کسی شرعی سبب سے اس کا حق ساقط ہوگیا ہوتو ایسی صورت میں جو عصباتی رشتہ دار وراثت میںمقدّم ہیں وہ حضانت میں بھی مقدم ہوںگے۔ جیسے باپ، پھر دادا، پھر بھائی وغیرہ۔

لیکن اس کے ساتھ اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ بچے کا حقیقی ولی باپ ہے، اگرچہ ماں یا اس کے سلسلے کی کوئی دوسری عورت بچے کاحق ِ حضانت رکھتی ہو، لیکن بچے کی نگرانی، نگہ داشت اور تعلیم وتربیت کاحق باپ کاہے۔ اگروہ بچے کو کسی ایسی جگہ جہاں باپ اس کی نگرانی اور نگہ داشت نہیں کرسکتا تو وہ حقِ حضانت کھودیتی ہے۔ اسی وجہ سے فقہائ نے صراحت کی ہے کہ بچے کو اسی شہر میں رکھنا ضروری ہے جہاں باپ رہتاہو۔ کوئی مجبوری ہوتو زیادہ سے زیادہ بچے کو اتنے فاصلے پر رکھاجاسکتا ہے کہ باپ آسانی سے اس تک پہنچ سکے اور بہ سہولت اس کی نگرانی و خبر گیری کرسکے۔

آپ کی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ فقہائ نے حضانت کے سلسلے میں جوترتیب بیان کی ہے وہ کوئی ایسی نص نہیں ہے کہ اس میں حالات اور مصالح کے متقاضی ہونے کے باوجود کوئی تقدیم و تاخیر جائز نہ ہو۔ فقہائ نے عام حالات میں مستحقینِ حضانت کی ایک فہرست مرتب کردی ہے۔ اس ترتیب میں انھوں نے اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ کس کے پاس بچے کی پرورش اچھی طرح ہوسکتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی انھوںنے یہ بھی صراحت کی ہے کہ بچے کا مفاد مقدّم رکھاجائے گا اور حالات کے تقاضے کو بھی نظرانداز نہیں کیاجائے گا۔ چنانچہ کبھی بچے کااپنی ماں کے پاس رہنا اس کے حق میں زیادہ مفید ہوگا۔ کبھی ماں کی ماں ﴿نانی﴾ یا دوسرے رشتہ دار کے پاس اس کارہنا زیادہ فائدہ مند ہوگا، کبھی خود بچے کو یہ اختیار دینا زیادہ مناسب ہوگاکہ وہ کس کے پاس رہناچاہتا ہے۔ عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ میں مذکورہ صورتوں میں سے ہر ایک کی نظیریں موجود ہیں۔ اور اگر حالات مظہرہوں کہ ماں کے زیرپرورش دینے سے بچے کو دینی یا دنیوی اعتبار سے کوئی نقصان پہنچنے کاامکان ہے تو ماں کے موجود اور غیرشادی شدہ ہونے کے باوجود اس کے حوالے نہ کرنا زیادہ قرینِ صواب ہوگا، لیکن یہ فیصلہ کرنے کااختیار مسلم ممالک میں عدالتوں، یا دارالقضائ کے قاضی کو ہوگا کہ وہ فریقین کی باتوں اور ان کے دلائل سن کر اور حالات کا بریکی سے جائزہ لے کر کوئی ایسا فیصلہ کرے جو بچے کے حق میں بہتر ہو۔ چنانچہ پڑوسی ملک پاکستان کی عدالتوں میں ایسے متعدد فیصلے ہوتے ہیں جن میں حالات کو پیش نظر رکھ کر فقہائ کی مبینّہ فہرستِ مستحقین حضانت کے برخلاف فیصلہ کیاگیا ہے۔

اس موضوع پر پاکستانی دانش ور جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن نے اپنی کتاب مجموعہ قوانین اسلام ﴿ناشر : ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، پاکستان ، جلد سوم، ص۸۷۷۔ ۹۰۹﴾ میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ انھوںنے مسلم ممالک: تیونس ، شام، عراق، مصر، اردن میں حضانت کے موضوع پر رائج الوقت قوانین کی دفعات نقل کی ہیں اور پاکستانی عدالتوں کے فیصلے بھی تحریر کیے ہیں۔ اس کتاب کامطالعہ مفید ہوگا۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2010

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau