مخالف اور موافق حلقوں میں تونس میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اسلام پسند نہضہ پارٹی کے امیدوار کی شکست پر تبصرے جاری تھے کہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج سامنے آگئے، جس میں نہضہ پارٹی کو پہلی پوزیشن حاصل ہوئی۔
ایک ہی موسم میں دو قدرے مختلف نتیجے لوگوں کے لیے تحیر کا سامان بن گئے۔
انتخابات میں نہضہ پارٹی کی ہار جیت سے قطع نظر تونس کے عوام اور سیاسی جماعتوں کے لیے سب سے زیادہ امید افزا بات یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں ملک کے راے دہندگان نے پچھلی آمریت کے بچے کھچے گندے انڈے بھی دور پھینک دئے۔ اور سرکاری کرپشن پر کاری ضرب لگا دی۔ نہضہ پارٹی کے لیے خوشی کا اصل سامان اس میں ہے کہ صفائی کے اس عمل میں اس نے بہت بڑا رول ادا کیا۔
ملک کے صدارتی انتخابات کی تاریخ میں اس بار نہضہ پارٹی نے پہلی بار اپنا امیدوار اتارا تھا، عبد الفتاح مورو تونس کی اسلامی تحریک کے بانیوں اور راشد غنوشی کے اولین ساتھیوں میں ہیں، قید وبند اور جلاوطنی کی صعوبتوں سے گزرے ہیں اور تحریک کے محبوب قائدین میں ہیں۔ تاہم جب پہلے راؤنڈ کے نتائج سامنے آئے تو وہ تیسرے نمبر پر آئے۔ ضابطے کی رو سے انتخابات کا دوسرا اور فیصلہ کن راؤنڈ پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان ہوتا ہے۔ اس بنا پر عبد الفتاح مورو مقابلے سے باہر ہوگئے۔ لوگوں نے اسے نہضہ پارٹی کی کمر توڑ شکست قرار دیا، لیکن نہضہ پارٹی نے شکست قبول نہیں کی، بلکہ میدان میں موجود دونوں امیدواروں میں سے ایک امیدوار قیس سعید (Qais Suaiyed) کے حق میں تائیدی مہم چھیڑ دی۔ دوسرا امیدوار سابقہ عہد آمریت کی باقیات میں شمار ہوتا ہے، اور مالی کرپشن کے الزام میں جیل میں بند ہے۔ جب کہ قیس سعید صاف ستھری اور جمہوریت پسند پہچان رکھتے ہیں۔ دوسرے دور میں قیس سعید کو زبردست کامیابی ملی اور اس طرح نہضہ پارٹی نے شکست کے برے نتائج سے خود کو بچالیا۔
بہرحال عبد الفتاح مورو کی انتخابی شکست میں بھی سیکھنے کا سامان ہے۔ یہ بہت ممکن ہے کہ ایک شخص پارٹی کے اندر بہت مقبول ومحبوب اور با اثر ہو، اس کی قربانیوں اور کارناموں کی طویل تاریخ ہو، لیکن وہ ملک کے عوام کی نگاہ انتخاب میں جگہ نہیں بناسکے۔ عوام کی پسند اور پارٹی کی پسند میں فرق ہوتا ہے۔ بطور خاص اگر پارٹیوں کی سیاست نے عوام کی قوت انتخاب کو مفلوج نہ کردیا ہو۔ تونس کے عوام کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ آمریت کے شکنجے سے آزاد ہونے کے بعد پارٹیوں کی سیاست کا شکار نہیں ہوئے ہیں، اور آزاد امیدوار بھی ملک کی انتخابی سیاست میں اتنی ہی جگہ رکھتے ہیں جتنی جگہ پارٹیوں کے امیدوار رکھتے ہیں۔ عبدالفتاح مورو کی نامزدگی پر بہت سے لوگوں کا یہ تبصرہ حق بجانب تھا، کہ تونس کے عوام تازہ دم امیدواروں کی بھیڑ میں ایک سن رسیدہ بزرگ کی شخصیت سے متاثر نہیں ہوسکیں گے۔
صدارتی انتخابات کے بعد پارلیمانی انتخابات کے نتائج سامنے آئے، یہ نتائج نہضہ پارٹی کے لیے کسی حد تک حوصلہ افزا رہے، جدید تونس کی تاریخ میں یہ تیسرا پارلیمانی الیکشن تھا، پہلی بار نہضہ کو پہلی پوزیشن ملی تھی، دوسری بار وہ دوسری پوزیشن پر آگئی تھی، لیکن تیسری بار وہ پھر پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
چونکہ واضح اکثریت نہیں ملی ہے، اس لیے نہضہ پارٹی کے سامنے بہت بڑا چیلنج مخلوط حکومت تشکیل دینا ہے۔ سامنے وہ پارٹیاں ہیں جو نظریاتی لحاظ سے نہضہ پارٹی کی حریف ہیں۔ لیکن نہضہ پارٹی کے لیے نظریاتی اختلاف بڑا مسئلہ نہیں رہا ہے۔ ملک کی ترقی اور استحکام اور بہتر نظم وانصرام کے ایجنڈے پر وہ ملک کی دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل جل کر حکومت چلانے کو درست سمجھتی ہے، اور اس کا بار بار تجربہ کرچکی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دوسری پارٹیوں کی اپنی ترجیحات کیا ہیں۔ ملک کی بہتری اور جمہوریت کے استحکام کو وہ پارٹی کے مفادات کے مقابلے میں کہاں تک عزیز رکھتی ہیں۔ عرب ممالک کی ٹریجڈی یہ ہے کہ وہاں عام طور سے آزادی اور جمہوریت پسندی کا دعوی کرنے والی پارٹیاں اسلام پسند پارٹیوں کی پیش رفت روکنے کے لیے آزادی اور جمہوریت کا سودا کرنے کو تیار ہوجاتی ہیں۔
بہرحال نہضہ پارٹی نے ایک انوکھا اقدام یہ کیا کہ اس نے ایک دستاویز تیار کی جس میں ملک کی تعمیر وترقی کے سلسلے میںاپنا تصور واضح کیا، اور اسے پارٹیوں کے درمیان باہمی معاہدہ قرار دیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے محض سیاسی گٹھ جوڑ نہیں ہوگا، بلکہ ملک کی تعمیر وترقی کے سلسلے میں ایک واضح تصور پر عوام کے سامنے باہمی اتفاق اور معاہدہ قرار پائے گا۔ ملک کے عوام نے اس اقدام کو خاصا سراہا۔
پارلیمانی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد نہضہ پارٹی نے دوسری تمام پارٹیوں کے ساتھ مل کر مشترک حکومت بنانے کا عندیہ ظاہر کردیا ہے، البتہ اس گٹھ بندھن میں ان دو پارٹیوں کو شریک کرنے سے انکار کردیا ہے جن میں سے ایک پر مالی کرپشن کے الزامات ہیں، اور دوسری کا عملی رویہ سب کے ساتھ چلنے کے سلسلے میں مثبت نہیں رہا ہے۔
اس وقت نہضہ پارٹی کے سیاسی تجربات کی ساری دنیا میں ایک امتیازی حیثیت بن چکی ہے۔ سوڈان میں اسلام پسندوں کی حکومت فوجی آمریت سے باہر نہیں نکل سکی۔ ترکی میں اسلام پسند سمجھی جانے والی سعادت پارٹی سست روی سے دوچار ہوگئی، اور موجودہ حکمراں پارٹی یعنی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی جسے اسلام پسندوں کی ہمدردی حاصل ہے، اسلامی پہچان کا دعوی نہیں رکھتی ہے، اور خود کو ایک خالص سیکولر پارٹی کی حیثیت سے پیش کرتی ہے (خواہ یہ حکمت عملی کے تحت کیوں نہ ہو جیسا کہ بعض مخالف سیکولر حلقوں کی طرف سے کہا بھی جاتا ہے)۔ مصر میں اسلام پسند حکومت زبردست کامیابی کے بعد فوجی بغاوت سے دوچار ہوگئی، جب کہ بنگلہ دیش اور پاکستان میں اسلام پسند تحریکیں انتخابی سیاست میں دوسری پارٹیوں کا مقابلہ نہیں کرسکیں۔ مراکش، اردن اور کویت میں اسلام پسند پارٹیوں نے وہاں کے شاہی نظام کو تسلیم کرکے میسر سیاسی میدان میں حصہ لیا۔ غرض یہ کہ مختلف ملکوں میں اسلام پسند پارٹیوں کے مختلف تجربات رہے ہیں۔ جب کہ تونس کی نہضہ پارٹی اسلامی پہچان اور حوالے کے ساتھ ملک کی سیاست پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے کا امتیاز رکھتی ہے۔
نہضہ پارٹی کا تجربہ اس لحاظ سے گہرے مطالعے اور تجزیے کا تقاضا کرتا ہے کہ پارٹی نے خطرناک چیلنجوں اور پہاڑ جیسی رکاوٹوں کے درمیان بڑی حکمت کے ساتھ اپنا راستہ بھی بنایا اور اپنی رفتار اور پہچان کو بھی برقرار رکھا۔ اور جدید تونس کے تین الیکشنوں میں سے دو میں پہلا مقام اور ایک میں دوسرا مقام حاصل کیا، جب کہ پچھلی مخلوط حکومتوں میں ہمیشہ شریک رہی۔
فرانس سے آزادی کے بعد تونس کی تاریخ دو حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے، پہلا حصہ جمہوری آمریت سے عبارت ہے، جس میں ۱۹۵۷ سے ۱۹۸۷ تک الحبیب بورقیبہ نے حکومت کی، اور ۱۹۸۷ سے ۲۰۱۰ تک زین العابدین بن علی نے حکومت کی۔
اس دوران ۱۹۶۹ میں نہضہ پارٹی کی داغ بیل پڑی، ۱۹۷۲ میں الجماعۃ الاسلامیۃ کے نام سے وہ وجود میں آئی، اور آمریت کی تمام تر سختیوں کے باوجود نمو پاتی رہی۔ اس دوران قید وبند اور جلاوطنی کا سامنا بھی بار بار کیا، اور سیکڑوں افراد کو سزاے موت بھی ہوئی۔
دسمبر۲۰۱۰ میں تونس میں زین العابدین بن علی کے خلاف عوامی لہر چلی، یہ لہر نہ صرف کامیاب ہوئی بلکہ پورے عالم عرب میں پھیل گئی، اور یہیں سے تونس کے نئے، روشن اور امید سے بھرپور عہد کا آغاز ہوا۔ عوامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ۲۰۱۱ میں قومی اسمبلی کا انتخاب ہوا جس میں نہضہ پارٹی کو ۲۱۷ میں سے ۸۹ سیٹوں پر کامیابی ملی، پارٹی نے صدر جمہوریہ کے لیے ایک سیکولر لیڈر منصف مرزوقی کی تائید کی، اور دو سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل کردی۔ اس حکومت میں وزیر اعظم نہضہ پارٹی کا تھا۔
یہ بہت مشکل دور تھا، عالمی سطح پر عرب بہار کو کچل دینے کی سازشیں عروج پر تھیں، ملک کے اندر سابقہ آمرانہ حکومت کے عناصر ہر طرف کلیدی مقامات پر موجود تھے، ملک کو ڈیپ اسٹیٹ سے خلاصی نہیں ملی تھی، دوسری طرف ایک بڑا چیلنج وہ مسلم شدت پسند عناصر تھے جوایک طرف دعوت حکمت عملی سے بے بہرہ اور دوسری طرف تکثیری ثقافت اور جمہوری طریقہ کار کے شدید مخالف تھے اور فوری طور پر اسلامی حکومت کے نفاذ کا مطالبہ کررہے تھے۔ ملک کی اقتصادی صورت حال بہت زیادہ دگرگوں تھی، بے روزگاری نے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، معاشی عدم استحکام اور سیاسی عدم استحکام دونوں بیک وقت بہت بڑے چیلنج تھے۔ پارٹی کے جنرل سیکریٹری حمادی جبالی نے وزارت عظمی سنبھالی، ۲۰۱۳ میں سیاسی بحران کھڑا ہوگیا، اسی دوران ایک اپوزیشن لیڈر کا قتل ہوگیا، جس نے جلتی آگ پر تیل کا کام کیا اور حالات قابو سے باہر ہوگئے، نہضہ پارٹی نے فوری اقدام یہ کیا کہ حمادی جبالی کو معزول کرکے پارٹی کے دوسرے لیڈر علی عریض کو وزیر داخلہ سے وزیر اعظم بنادیا۔ لیکن حالات پھر بھی قابو میں نہیں آسکے، ساتھ ہی ملک میں دہشت گردی اور خونی واقعات میں تشویش ناک اضافہ ہوا۔ صورت حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ملک میں حکمراں پارٹیوں اور اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان قومی ڈائیلاگ شروع کیا گیا، جس میں اس پر اتفاق کیا گیا کہ موجودہ حکومت تحلیل کردی جائے، اور آزاد نمائندوں پر مشتمل ایک نئی ٹکنوکریٹس کی حکومت تشکیل دی جائے۔ نہضہ پارٹی نے اس پورے عمل میں مکمل طور سے مثبت و معاون رویہ اختیار کیا، اور حکومت سے دست بردار ہوگئی۔ اس وقت نہضہ پارٹی نے یہ موقف اختیار کیا کہ ملک میں جمہوری طریقہ کار کو استحکام دینا پارٹی کی ترجیح اول ہے، خواہ اس کے لیے اقتدار کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ نہضہ پارٹی کے اس اقدام کو کچھ اسلام پسند حلقوں میں پسپائی قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن نتائج نے اس فیصلے کو درست قرار دیا۔ ظاہر ہے جب تونس ہی نہ رہے اور جمہوری نظام تباہ ہوجائے تو نہضہ پارٹی کے وجود کا کیا معنی رہ جاتا۔ غرض نہضہ پارٹی کو بچانے کے لیے بھی ایوان سے باہر نکل کر عوام کے درمیان اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا ضروری تھا۔
تاہم نہضہ پارٹی نے میدان سیاست سے فرار اختیار نہیں کی، بلکہ اس دوران پارلیمنٹ کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی حیثیت سے اس نے ملک میں نئے دستور کے نفاذ اور الیکشن کمیشن کی تشکیل کے عمل کو جلد انجام دینے میں پورا تعاون کیا۔
بالآخر ملک کو شدید قسم کے سیاسی بحران اور ہولناک خوں ریزی کے منڈلاتے خطرات سے باہر نکالنے کے سلسلے میں نہضہ پارٹی کے کردار کو پوری دنیا میں تحسین کی نظر سے دیکھا گیا۔
اس کے بعد ۲۰۱۴ میں دوبارہ پارلیمانی انتخابات ہوئے، جس میں نہضہ پارٹی کو دوسری پوزیشن حاصل ہوئی۔ اور ۲۱۷ میں سے صرف ۶۹ سیٹیں حاصل ہوسکیں۔ نہضہ پارٹی نے اس شکست میں بھی مثبت پہلو نکال لیے اور سیاسی عمل میں اشتراک کے راستے کو اختیار کیا، اور نداے تونس پارٹی کے ساتھ حکومت میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا۔ اسی سال صدارتی انتخابات ہوئے، جس میں نہضہ پارٹی نے کوئی امیدوار نہیں کھڑا کیا، اور نہ ہی کسی امیدوار کی تائید کی۔ دوسرے راؤنڈ میں دو امیدوار تھے، سابق صدر منصف مرزوقی اور نداے تونس کے امیدوار باجی قائد سبسی، نہضہ پارٹی نے اس میں بھی غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ کیا۔ سبسی کی جیت ہوئی۔ گو کہ نداے تونس سے نہضہ کو بہت سے زخم پہونچے تھے، لیکن نہضہ نے ملک میں ایک پائیدار حکومت کی خاطر تمام تلخیوں کو فراموش کیا، اور نئی حکومت کا پورا ساتھ دیا۔ راشد غنوشی کی قیادت میں پارٹی نے پبلک ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کیا، اور پوری توجہ اس پر مبذول رکھی کہ عوام کا مزاج جمہوری بنے، اور جمہوری قدروں اور طریقہ کار کی جڑیں عوام کے درمیان گہری ہوجائیں۔
اس سلسلے میں نہضہ پارٹی کے قائدین کو دنیا بھر کے ان اسلام پسندوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا تھا جن کے نزدیک ان کوششوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی، اور وہ دیگر نظریات والی پارٹیوں کے ساتھ کسی اشتراک عمل کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔
دوسرے نظریات کی حامل پارٹیوں کے ساتھ اسلام پسند پارٹی کا اشتراک عمل حیرت انگیز ضرور تھا لیکن نہضہ پارٹی کے وژن میں اس کا ہونا ناگزیر تھا۔ مصر کے نہایت تکلیف دہ تجربے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ سیاست کے میدان میں جلد بازی سے مہلک کوئی اقدام نہیں ہے، اور دوسری سیاسی قوتوں سے الگ تھلگ رہنا خود کو یقینی ہزیمت سے دوچار کرنا ہے۔
نہضہ پارٹی نے اپنے نظریاتی اور سیاسی حریفوں سے قربت کی غیرمعمولی مثالیں قائم کیں، مقابلہ آرائی کا جوش کم نہیں ہوا لیکن باہمی قربت اتنی بڑھائی گئی کہ راشد غنوشی نے نداے تونس پارٹی کی کانفرنس میں شرکت کی اور تقریر کی۔ راشد غنوشی نے نداے تونس پارٹی کی کانفرنس میں کہا: ‘تونس آسمان میں پرواز کرتا ہوا پرندہ ہے، جس کے دو بازو ہیں، نہضہ اور نداء، نداے تونس پارٹی نے سیاسی زندگی میں ایک توازن بنایا ہے، تونس کو آج سب سے زیادہ ضرورت ہم آہنگی کی ہے۔
بعد ازیں نہضہ پارٹی کی دسویں کانفرنس میں جہاں بہت سے سیاسی حریفوں اور حلیفوں کو بلایا گیا، نداے تونس کے بانی صدر باجی قائد سبسی کو بھی شرکت کے لیے دعوت دی گئی۔ تحریک کی تاریخ میں اسے تاریخی واقعہ قرار دیا گیا۔ اس قربت کا فائدہ سب سے زیادہ نہضہ پارٹی کو ہوا، پارٹی کی اسلامی شناخت پر تو کوئی فرق نہیں پڑا تاہم جمہوری استحکام کے حوالے سے پارٹی کی ساکھ مضبوط ہوئی اور عوام کا پارٹی پر اعتماد بڑھا۔
نہضہ پارٹی کی دسویں کانفرنس بیس مئی ۲۰۱۶ کو منعقد ہوئی اور پوری دنیا میں اس کی گونج سنی گئی۔ کانفرنس کی کارروائی بھی غیر معمولی تھی، اور میڈیا کوریج بھی بہت زیادہ تھا۔ پارٹی کی تاریخ میں اس کانفرنس کو اہم موڑ قرار دیا گیا۔
اس کانفرنس میں پارٹی کے صدر راشد غنوشی نے اعلان کیا کہ پارٹی صرف سیاسی میدان تک خود کو محدود رکھے گی، دعوت وخدمت کے کاموں کو سول سوسائٹی کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔ اس پر اعتراض ہوسکتا تھا کہ کیا یہ سیاست کو دین سے جدا کردینے کا فیصلہ ہے، اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ نظریاتی طور پر دین اور سیاست کی تقسیم نہیں ہے، بلکہ میدان کار میں تخصص اور تقسیم کار کا معاملہ ہے۔ اس لیے کہ ہر میدان کی جداگانہ خصوصیات اور جداگانہ تقاضے ہوتے ہیں، داعی جماعت کا سیاسی میدان میں سرگرم ہونا دعوت اور سیاست دونوں کے لیے پیچیدگی پیدا کرتا ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ اس اقدام سے پارٹی کو سیکولر بنانا مقصود نہیں ہے، پارٹی کی اسلامی پہچان باقی رہے گی، وہ اسلامی اصولوں کی پابند رہے گی، اور اسلام میں موجود سیاسی قدروں کے فروغ کے لیے کوشاں رہے گی۔
نہضہ پارٹی کی شناخت یہ بتائی گئی کہ یہ اسلامی اصولوں کی پابند تونسی، سول، جمہوری پارٹی ہے۔ سیاسی اسلام کی اصطلاح کو رد کرتے ہوئے ’’جمہوریت پسند مسلمانوں‘‘ کی اصطلاح کو پسندیدہ قرار دیا گیا۔
نہضہ پارٹی نے اس موقع پر یہ اعلان بھی کیا کہ اب وہ پولیٹیکل اسلام کے خیمے سے نکل کر ڈیموکریٹک اسلام کے خیمے میں داخل ہورہی ہے۔ اس کا یہ بیان بھی مباحثے کا موضوع بنا ہے۔ اس کی وضاحت میں یہ کہا گیا کہ پولیٹیکل اسلام کہنے سے وہ قوتیں اور جماعتیں بھی ذہن میں آتی ہیں جو تشدد کی قائل ہیں، یا جو اپنے موقف کے علاوہ سب کچھ رد کردینے کی قائل ہیں۔ جب کہ ڈیموکریٹک اسلام سے پیغام جاتا ہے کہ تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرنا ہے، اور انسانوں کے بہتر اور مفید تجربات کو خوش آمدید کہنا ہے۔ پولیٹیکل اسلام کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ جمہوری نظام کو قبول نہیں کرنا ہے، بلکہ اسے بالآخر کالعدم کرکے اسلام کا اپنا نظام لانا ہے، جب کہ ڈیموکریٹک اسلام کا مطلب یہ ہے کہ جمہوری نظام کو دل سے تسلیم کرکے اس نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلانا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح ہم اسلامی بنیادوں سے وابستہ رہتے ہوئے نئی تبدیلیوں کو صحیح طرح سے ایڈریس کرسکتے ہیں، اور نئے حالات میں اپنے لیے بہتر راستے تلاش کرسکتے ہیں، اور اسلامی اصولوں اور قدروں کی طرف جدید دنیا کی بخوبی رہ نمائی کرسکتے ہیں۔
یہ اور ایسے دیگر چونکا دینے والے بیانات کی وجہ سے نہضہ پارٹی اور اس کی دسویں کانفرنس مسلم دنیا میں بڑے پیمانے پر بحث کا موضوع بنے۔
بہرحال نہضہ پارٹی کی ہمیشہ سے یہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ حالات کو تبدیل کرنے کی غرض سے اپنے اندر بڑی تبدیلیاں لاتی رہی ہے۔ ابتدا میں وہ خالص دعوتی جماعت تھی، پھر دیو استبداد کے مدمقابل ایک احتجاجی تحریک بن گئی، اور اب ملک کے نظام کو بہتر طریقے سے چلانے والی سیاسی جماعت میں تبدیل ہوگئی۔ دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں، وہ صرف حکمت عملی کی نوعیت کی نہیں ہیں، بلکہ وہ تبدیلیاں فکر میں بھی آرہی ہیں۔ یعنی حکمت عملی اور فکر دونوں ساتھ ساتھ نئے راستے دریافت کررہے ہیں۔
نہضہ پارٹی نے جمہوریت کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ایک وسیلے کی حیثیت نہیں دی ہے، جیسا کہ اسلامی تحریکات پر الزام لگایا جاتا ہے۔ بلکہ اس نے جمہوریت کو ایک سیاسی قدر کے طور پر اختیار کیا ہے، اور اس کی پاسبانی کو اپنی ذمہ داری سمجھا ہے، اور اس موقف کی تائید وترویج کے لیے طاقت ور لٹریچر بھی تیار کیا ہے۔
۲۰۱۴ کے پارلیمانی انتخابات میں نداے تونس پارٹی کی جیت پر راشد غنوشی نے اس کے صدر سبسی کو مبارک باد دی، اس پر کچھ اسلام پسندوں نے حیرت اور ناراضگی کا اظہار بھی کیا، لیکن راشد غنوشی کے نزدیک جمہوری قدروں کا یہی تقاضا تھا، جس کی انہیں پاس داری کرنی چاہیے تھی۔
نہضہ پارٹی کا یہ موقف ساری دنیا کی اسلامی تحریکات میں غور وفکر اور بحث ومباحثے کا موضوع بننا چاہیے کہ اسلامی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے اعلی اقدار اور بلند نصب العین کا حصول جمہوری طریقہ کار سے عین ممکن اور سہل الحصول ہے۔ اس امر سے قطع نظر کہ دوسری تحریکیں اور پارٹیاں جمہوری طریقہ کار کو کس طرح اور کن مقاصد کے لیے بروئے کار لاتی ہیں۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اسلامی فکر میں یہ بڑی تبدیلیاں اور مباحثے صرف تونس کی نہضہ پارٹی کی خصوصیت نہیں ہیں، بلکہ مغرب عربی یعنی شمال مغربی افریقہ کے عرب ممالک کی اسلامی تحریکیں بھی اس میں شامل ہیں۔ مراکش کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے صدر اور مراکش کے موجودہ وزیر اعظم سعد الدین عثمانی کی کتاب ’الدین والسیاسۃ تمییز لا فصل‘ـ میں بھی ان پہلووں پر زور دیا گیا ہے، الجزائر اور موریتانیہ میں بھی اسلامی تحریکوں کے یہاں یہ پہلو بحث کے مرحلے سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ بہرحال مختلف ملکوں میں اسلامی تحریکوں کے ذریعے کیے گئے تجربات اور چھیڑے گئے مباحث پر گفتگو کی گنجائش ہر جگہ رہنی چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2019