نفاق کی اقسام

نفاق کی دو قسمیں ہیں

(الف) عقیدے کا نفاق:

عقیدے کا نفاق یہ ہے کہ ظاہری طورپر اسلام کا اظہار کیا جائے اور اس بات کا اعلان کیا جائے کہ اللہ اوراس کے رسول، کتاب، فرشتوں، آخرت، اور تقدیر پر ایمان ہے لیکن کفر اور جھوٹ کوچھپائے رکھا جائے ۔ مسلمانوں کونقصان پہنچانے کا ارادہ ہو ۔اس نفاق کے مرض میں مبتلا شخص ملت سے خارج ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’ انہیں دیکھو توان کے جثے تمہیں بڑے شاندار نظر آئیں۔ بولیں توان کی باتیں سنتے رہ جاؤ مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جودیوار کے ساتھ چن کر رکھ دیئے گئے ہوں ۔ ہرزور کی آواز کو اپنے  خلاف سمجھتے ہیں ۔ یہ پکے دشمن ہیں ، ان سے بچے رہو ، اللہ کی ماران پر یہ کدھر پھرائے جارہے ہیں ۔‘‘  (المنافقون :40)

سورہ البقرہ میں ان کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی گئی ہے ۔

’’ بعض لوگ ایسے بھی ہیں ، جوکہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے د ن پر ایمان لائے ہیں حالانکہ در حقیقت وہ مومن نہیں ہیں ۔ وہ اللہ اورایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکا  بازی کررہے ہیں ،مگر وہ اپنے آپ کو ہی دھوکے میں ڈال رہے ہیں اورانہیں اس کا شعور نہیں ہے ، ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے ، جسے اللہ نے اورزیادہ بڑھا دیا ہے ، اور جو جھوٹ  بولتے ہیں، اس کی پاداش  میں ان کے لئے درد ناک سزا ہے ۔‘‘(البقرۃ :8-10)

(ب) عمل کا نفاق:

عمل کا نفاق یہ ہے کہ عقیدہ تو متزلزل نہ ہو مگر عمل میں نفاق موجود ہو ، اس صورت میں کسی شخص کے بارے میں یہ حکم تونہیں لگایا جاسکتا کہ وہ منافق ہے ، البتہ نفاق کی نشانیوں اور علامات سے آگاہ رہنا چاہئے ، اور ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے ان میںسے ابھری ہوئی علامات اورنشانیوںکا ذکر فائدے سے خالی نہ ہوگا۔

نماز سے غفلت

اسلام کا بنیادی ستون نماز ہے یہ ایمان کے بعد پہلا عملی مطالبہ ہے مومن اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی چیز ہے ، فحش اوربرائیوں سے روکنے والی ہے ، تزکیہ اور تربیت کا بہترین ذریعہ ہے ۔ انسانوں کوان کے رب سے جوڑنے کا بہترین رشتہ ہے۔ نماز کی اہمیت کے باوجود منافقین اس کی ادائیگی میں کاہلی اورسستی کا مظاہرہ کرتے تھے ؛ کیونکہ ان کی نماز محض دکھاوے کے لئے ہوتی ہے ۔ قرآن مجید ان کی نماز کے بارے میں تبصرہ کرتا ہے :

’’جب نماز کے لئے اُٹھتے ہیں توکسمسا تےہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اُٹھتے ہیں اوراللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔‘‘ النساء:( 142)

منافقین کی نماز کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے منافقین کے لئےفجر اور عشاء کی نماز سب سے زیادہ بھاری ہے ۔ اگر انہیں ان نمازوں کی فضیلت معلوم ہوجائے تووہ ضرور ان نمازوں میں شریک ہوں گے ۔ چاہے انہیں گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑے ۔ آگے فرماتے ہیں کہ ہم نے ارادہ کیا کہ ایک شخص کوحکم دوں کہ وہ لوگوں کونماز پڑھائے اور میں کچھ لوگوں کولکڑیوں کے گٹھر ساتھ لے کر نکلوں اورجولوگ نماز میں حاضر نہیں ہوتے ہیں ان کوان کے گھر سمیت جلادوں۔ ( بخاری ومسلم)

گویا عشاء اورفجر کی نماز یں ایک مسلم کے لئے ’’ اس کے رب گہرے تعلق کا پیمانہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے ، کہ رب سے کس حد تک لگاؤ اور محبت ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :  ’’ جب ہم کسی کوفجر اور عشاء کی نماز میں نہیں پاتے تھے ، تو اس کے بارے میں براگمان کرلیتے تھے ۔‘‘(صحیح ابن خزیمہ)

ایک حدیث میں نفاق کی چار خصلتوں کا ذکر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : چار خصلتیں جن کے اندر ہوں وہ پورا منافق ہے اورجن کے اندر ایک خصلت ہو اس کے اندر اسی کے بقدر نفاق ہے۔ وہ خصلتیں یہ ہیں: (۱) جب بات کرےتو جھوٹ بولے۔ (۲) جب امانت دی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ (۳) جب عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔(۴) جب تکرار کی نوبت آئے توگالی گلوج پر اترآئے ۔(بخاری ومسلم)

جھوٹ

حدیث میں نفاق کی ایک صفت جھوٹ کوبتایا گیا ہے۔ اس وقت جھوٹ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔ جھوٹے اوربرے ، عالم اورجاہل ، مزدور اور کارخانے دار حاکم اور محکوم ، یہاں تک کہ شو ہر اوربیوی، ان تمام لوگوں میں ایک بڑی تعداد کوجھوٹ بولنے میں کوئی عارنہیں محسوس ہوتا ہے ۔ جبکہ حدیث کے مطابق مومن میں سب کمزوریاں ہوسکتی ہیں لیکن وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اورنیکی جنت کاراستہ دکھاتی ہے جھوٹ برائی کی راہ دکھاتا ہے اوربرائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے ۔ بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ۔(بخاری ومسلم)

جھوٹ در حقیقت نفاق کا دروازہ ہے اورمنافق کاسب سے بڑا اسلحہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :  ’’خوب جان لو وہ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں ۔‘‘ (المجادلۃ :18)

جھوٹ اور دجل وفریب ان کے دلوں میں گھر کر چکا ہوتا ہے اس لیے یہ لوگ باربار جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اب اگر ایمان کا دعویٰ کرنے والے آج ایسی صفت کے حامل ہوں ۔ جھوٹ ان کا وطیرہ بن چکا ہو ، تو ان کا ایمان، اللہ کے یہاں کس طرح معتبر ہوسکتا ہے ؟

عہد کی خلاف ورزی

منافق کی ایک خصلت یہ بھی ہے کہ جب وہ کوئی وعدہ کرے تو وفاکرے، بد عہدی ایک خطرناک بیماری ہے ، جوایمان اورصداقت کے ساتھ نہیں چل سکتی، سب سے بری  بد عہدی یہ کہ عہد کرتے وقت اسے پورا کرنے کی نیت نہ ہوبلکہ جانتے اور بوجھتے ہوئے شعوری طور پر اس کی نیت بدعہدی کی ہو۔  اس کی دوسری شکل یہ ہے کہ ابتدا میں تو اس کی نیت وفا کرنے کی ہولیکن کردار کی خرابی کی وجہ سے اس عہد پر قائم نہیں رہ پاتا ہے کچھ ہی دیر میں وعدہ سے مکر جاتا ہے۔ (جامع العلوم والحکم)

امانت میں خیانت

امانت میں خیانت بھی نفاق کی علامتوں میں سے ہے قرآن مجید میں خیانت کا ارتکاب کرنے سے منع کیاگیا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

’’ اے لوگو! جوایمان لائے ہو ، جانتے بوجھتے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو ۔‘‘ (الانفال :27)

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا

’’ ہم نے امانت کوآسمانوں ، اورزمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا ، تووہ اسے اُٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئے ۔ اوراس سے ڈرگئے ، مگر انسان نے اسے اُٹھا لیا ۔ بے شک وہ بڑا ظلم وجاہل ہے ۔‘‘ ( الاحزاب :72)

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ امانت مال واسباب اورمادی چیزوں کی حد تک خاص ہے یہ امانت کا محدود تصور ہے ۔ امانت کے وسیع تر مفہوم میں اس سے مراد جملہ امور میں جوذمہ داری انسان کے سپرد کی گئی ہو ، اللہ کے سامنے اس کی جوبداہی کا احساس ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کو باضمیر اورذمہ دار بنایا ہے ، اس لئے وہ ہرمعاملے میں جواب دہ ہے۔

حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کہتے ہیں : کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکہتے ہوئے سنا کہ تم میں کا ہر فرد نگراں ہے اوروہ اپنی اس نگرانی کا ذمہ دار وجوابدہ ہے امام نگراں ہے اپنے ماتحت لوگوں پر اور اس کے بارے میں جوابدہ ہے ۔آدمی اپنے اہل خانہ کا نگراں ہے اوران کے بارے میں جوابدہ ہے ۔ عور ت اپنے گھر کے بارے میں نگراں ہے اوروہ اس کے بارے میں جوابدہ ہے ۔غلام اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اوروہ اس کے بارے میں جوابدہ ہے۔ اسی جوابدہی کا احساس امانت کی روح ہے ۔ اس لئے مسلمانو ں پر فرضـ ہے ، اس جوابدہی کے بارے میں ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہیں اوراس کی حفاظت اور ادائیگی میں مدد کرتے رہیں۔

ہم سفر پر رخصت کرتے وقت یہ دعا دیتے ہیں: ’’ استودع اللہ دینک وامانتک وخواتیم اعمالک ’’ تمہارے دین اورامانت اوراعمال کے انجام کو اللہ کی امانت میں دیتا ہوں۔‘‘

اجتماعی ذمہ داری بھی امانت ہے اس سے غفلت برتنے والے کے لئے وعید ہے اس میں خیانت کرنے والے کے لئے آخرت میں رسوائی اورندامت  ہو گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذمہ داری طلب کرنے کے لئے درخواست کی اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ اےابوذر ! امارت اورذمہ داری ایک امانت ہے اورقیامت کے دن اس کی وجہ سے ندامت اورشرمندگی ہوگی  سوائے اس شخص کے جواس عہدے اورمنصب کا مستحق ہو اوراس ذمہ داری کے حق کوکما حقہ ادا کرے۔‘‘

اجتماعی ذمہ داریوں میں یہ بھی خیانت ہے ، کہ اجتماعی عہدہ ومنصب کوذاتی اورشخصی فائدے کے لئے استعمال کیا جائے ۔ اس کے ذریعہ اپنے اعزہ واقارب کوفائدہ پہنچانے کی کوشش کی جائے اور اجتماعی مفاد کوپسِ پشت ڈال دیا جائے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص کوہم نے کسی کام پر لگایا اوراس کی اجرت بھی طے کردی ، پھراس نے اس اجرت سے زیادہ جوکچھ لیا وہ خیانت ہے ۔‘‘ (ابوداؤد)

’’ایک نبی کے لئے زیبا نہیں ، کہ وہ خیانت کرے ، جوکوئی خیانت کا مرتکب ہوگا ، وہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے دن آئےگا ، پھر ہر جان کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اوران پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔‘‘(آل عمران :161)

انسان کے پاس مال واولاد ، اوقات ، صلاحیتیں ، ساری چیزیں امانت میں اگران کے استعمال اللہ کی مرضی کے خلاف کیا جاتا ہے تویہ خیانت ہے ۔

’’ اے ایمان والو! خیانت نہ کرو ، اللہ سے اوررسول سے اورخیانت نہ کرو آپس کی امانتوں میں ، اس حال میں کہ تم جانتے ہو، اور جان لوکہ بے شک تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں اوریقیناً اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔‘‘(الانفال:28,27)

خیانت ایک جرم ہے، جس کے ذریعہ انسان ذمہ داریوں سے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے۔ اللہ کی نافرمانی اوربندوں کے حقوق تلف ہوتے ہیں، اس بیماری میں مبتلا شخص اللہ کے نزدیک تو غیر معتبر ہوتا ہی ہے ، بندوں کے نزدیک بھی لائق اعتبار نہیں رہتا ہے یہ ایمان کے منافی کردار ہے ، اسی لئے اس کونفاق کی علامتوں میں سے ایک علامت بتایا گیا ہے۔

گالی گلوج:

منافق کی ایک صفت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہ جب جھگڑے تو گالی گلوج پر اترآئے۔ معاملات میں جائز وناجائز صحیح اورغلط کی پرواہ کئے بغیر حدود سے آگے بڑھ جائے۔ عصیت کی بنیاد پر گالی گلو ج سے معاملے کوجذباتی بنادے، جبکہ ایک مومن کویہ تعلیم دی گئی ہے ، کہ وہ ہر حال میں عدل وانصاف اورصبر وتحمل کا دامن پکڑے رہے۔ یہاں تک کہ اگر معاملہ ایسے لوگوں سے ہو جن سے دشمنی ہو تب بھی عدل و انصاف پر قائم رہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’کسی گروہ کی دشمنی تم کواتنا مشتعل نہ کرے ، کہ انصاف سے پھر جاؤ ، عدل کرو ، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔‘‘(المائدہ:8)

مخاصمت اور جھگڑے میں حدود سے آگےبڑھ جانا ، ظلم وزیادتی  پر اترآنا ۔ فحش گوئی اور بد تمیزی کی روش اختیار کرنا ، یہ صفتیں ایمان سے نہیں بلکہ نفاق سے میل کھاتی ہیں اسی لئے اس کونفاق کی صفتوں میں شمار کیا گیا ہے ۔

صحابہ کا حال

صحابہ کرام بہت زیادہ فکر مند رہتے تھے کہ نفاق کا کوئی شائیہ ان کی زندگی میں نہ آجائے، وہ جب ظاہر وباطن کا اختلاف محسوس کرتے، تو اپنے خوف کی کیفیت اللہ کے رسول سے بیان کرتے، ایسا ہی ایک واقعہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ وہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے ، اس حال میں کہ رو رہے تھے ۔ انہوں نے معلوم کیا۔ تمہیں کیا پریشانی ہے ؟ حضرت حنظلہ نے جواب دیا ، کہ میں تو منافق ہوگیا ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا ہوں اوروہ ہمیں نصیحت کرتے ہیں ، توایسا  لگتا ہے کہ جنت اورجہنم آنکھوں کے سامنے ہے ، اورجب گھر چلے آتے ہیں ، بیوی اوربچوں میں لگ جاتے ہیں ، تو وہ باتیں ذہن سے اوجھل ہوجاتی ہیں اورکیفیت بدل جاتی ہے ، انہوں نے کہا کہ یہ حالت توہماری بھی ہے ، اوردونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے ۔ اللہ کے رسول نے دریافت کیا کہ حنظلہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ ۔ انہوں نے کہا اللہ کے رسول حنظلہ منافق ہوگیا ہے ۔ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ نے بھی بیان کیا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اگرتم اسی حالت میں رہو ، جس حالت میں ہمارے پاس ہوتے ہو تو تمہاری مجلسوں ، اورراستوں میں فرشتے تم کوسلام کریں گے ۔ یہ کیفیت ہر لمحہ باقی نہیں رہ سکتی ہے ۔‘‘

اسی طرح ایک دوسری روایت ابن ابی ملیکہ کی ہے وہ کہتےہیں کہ میں نے تیس (30) صحابہ کرامؓ سے ملاقات کی ، ان میں سے ہر ایک نے اپنے بارے میں نفاق کے سلسلے میں ڈرتا تھا ۔ ان میں سے کسی کا خیال نہیں تھا کہ وہ جبرئیل اور میکائیل کے درجے کے ایمان کا حامل ہے ۔

حافظ ابن حجر اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتےہیں کہ ابن ا بی ملیکہ جن صحابہ سےتھے ان میں سے مشہور ومعروف یہ ہیں ، حضرت عائشہؓ، اسماء ؓ ، ام سلمہ ؓ ، عبداللہ بن عباس ؓ ، عبداللہ ابن زبیرؓ، عبداللہ بن عمر و بن العاص ؓ ، حضرت ابوہریرہؓ ، عقبہ بن حارث، المسور بن مخرمہ ، یہ وہ لوگ ہیں جن سے انہوں نے حدیثیں سنیں۔جن جلیل القدر صحابہ سے ملاقاتیں ہوئیں ، ان میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ ، سعد بن ابی وقاص ؓ، انہیں اس پر یقین ہے یہ سارے لوگ ۔ اپنے نفس کےبارے میں نفاق کے سلسلے میں ڈرتے تھے۔

قیامت کے دن منافقوں کا حال

منافق یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں دوسروں کودھوکا دے کر وہ ہر حال میں فائدہ میں ہیں ۔ ان کو زندگی میں ، حقیقی ، اوردائمی نفع ونقصان کی فکر نہیں ہوتی ہے ، حالانکہ اصل کامیابی یا ناکامی تو  آخرت کی ہے ، آخرت کے دن منافقین کے جومناظر قرآن پیش کرتا ہے ، ان میں سے ایک منظر ملاحظہ فرمائیں۔

’’اس دن منافق مردوں اور عورتوں کا یہ حال ہوگا ، کہ وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہمارا بھی انتظار کرلو، تا کہ ہم تمہاری روشنی سے کچھ فائدہ اُٹھالیں مگر ان سے کہا جائے گا ۔ پیچھے جاؤ اوراپنا نورتلاش کرو، پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا اس دروازے کے اندر رحمت ہوگی اور باہر عذاب، وہ مومنوں سے چلا چلا کر کہیںگے ۔ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ مومن جواب دیں گے ۔ ہاں ،مگر تم نے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا ، موقع پرستی کی شک میں پڑے رہے ۔ جھوٹی توقعات اورآرزویں تم کوفریب دیتی رہیں یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آگیا اورآخر وقت تک وہ بڑا دھوکہ باز (شیطان )تمہیں دھوکہ دیتا رہا ۔ ‘‘(الحدید :14)

’’لہٰذا آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اورنہ ان لوگوں سے جنہوںنے کھلا کھلا کفر کیا ۔ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ وہی تمہاری خبر گیری کرنے والا ہے اور یہ بدترین انجام ہے۔‘‘ (الحدید :15)

نفاق کی بیماری کا علاج

اس بیماری میں جوشخص مبتلا ہوگیا ہو، اس کو چاہئے کہ جس قدر جلد ممکن ہو ، اس سے اپنے آپ کو پاک کرنے کی کوشش کرے ۔ مال واولاد کی محبت اوردینا ، اوراس کے خزانوں پر فدائیت ، جاہ ومنصب کی ہوس ، اور ہرحال میں اس سے منفعت کےحصول کی تمنا سے خود کوآزاد کرلے۔ اس کو سوچنا چاہئے کہ :

اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟

وہ جس جھوٹی دینداری کا اظہار کررہا ہے ، اس کا کیا حاصل ہے ؟

اس دنیا میں کس لئے آیا ہے ؟

آخر کار اس کاانجام کار کیا ہونا ہے ؟

تنہائی میں ان سوالات کا جواب اپنے آپ سے پوچھے ! اللہ کی کتاب اوررسول اللہ کی سنت سے دریافت کرے ! اس کا ضمیر ضرور جائے گا۔

قرآن مجید کی اس آیت پر غور کرے :

’’کہو میری نماز، میری قربانی ، میری موت اور زندگی صرف اللہ کی رضا اوراس کی خوشنودی کے حصول کے لئے ہے ۔‘‘

کیا ہماری نمازیں اللہ کے واسطے ہیں؟

کیا ہماری قربانیاںاللہ کے لئے ہیں؟

کیا ہماری زندگی کی دور ودھوپ اللہ کوخوش کرنے کے لئے ہے؟

نفاق کی بیماری سے نجات دلانے میں یہ نسخہ بھی گار گر ہے۔

اخلاص کےساتھ فرائض کی پابندی ۔

فرائض کے ساتھ نوافل کا اہتمام ۔

استغفار اورتوبہ اپنی غلطیوں پر ندامت۔

احتساب نفس اورحضوریِ قلب کا جذبہ ۔

دل کی ایسی بیداری جس میں خالق ومخلوق کا رشتہ عیاں ہوجائے۔

ایسا بیدار دل جس کے نتیجے میں حقیقی ایمان اورسچا انسان وجود میں آئے۔

ایسا بیدار دل جس دل کی بصیرت سے وہ ہرآن خدا کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور اللہ کی معیت میں ہوتا ہے، جس سے ایمان میں زندگی، اعمال میں بہتری اوراخلاص اورللہیت پیدا ہوتی ہے۔ اسی کا نام شریعت کی اصطلاح میں احسان ہے۔

دلِ بیدار فاروقی، دلِ بے دار کراری          ـ        مس آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری

دل بیدار پیدا کر، کہ دل خوابیدہ ہے جب تک            –            نہ تیری ضرب ہے کار ی ، نہ میری ضرب ہے کاری

مشمولہ: شمارہ جولائی 2016

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau