معروف نو مسلم دانش ور ڈاکٹر جیفری لینگ امریکہ کی ایک بڑی دانش گاہ کنساس یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر ہیں۔ لینگ کنیکٹی کٹ میں ایک رومن کیتھولک خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ زندگی کے ابتدائی 18 برسوں کے دوران انھوں نے کیتھولک اسکولوں سے تعلیم حاصل کی۔ دوران تعلیم ان کے ذہن میں بہت سے ایسے سوال اٹھتے تھے جن کے تشفی بخش جواب کسی کے پاس نہ تھے۔ انھوں نے اپنے ہم عمر نوجوانوں کی طرح معاصر سیاسی، سماجی اور مذہبی اقدار پر اعتراض اٹھانا شروع کردیے، یہاں تک کہ وہ مذہب سے بیزار اور باغی ہوگئے۔ بلوغت تک پہنچتے پہنچتے لینگ مکمل طور پر خدا کے وجود سے منکر ہوچکے تھے۔ ان کے بقول’’اگر خدا موجود ہے اور وہ بہت رحم والا اور محبت کرنے والا ہے تو دنیا میں اس قدر تکلیف، ابتری اور درد کیوں ہے؟ خدا نے اتنے سارے لوگوں کو درد دینے کے لیے پیدا کیا ہے؟‘‘
ان دنوں ان کے ذہن میں اسی طرح کے سوال اٹھتے تھے۔
نوجوانی میں سان فرانسسکو یونیوسٹی میں لیکچرر کی حیثیت سے تقرر ہونے کے بعد ڈاکٹر لینگ نے اسلام سے متعارف ہوئے۔ ان کا رابطہ ایک سعودی نوجوان سے ہوا جس نے انھیں قرآن کا نسخہ پیش کیا۔ ڈاکٹر لینگ کے بقول قرآن نے انھیں فتح کرلیا تھا۔ ان کے نزدیک قرآن کی دو ابتدائی سورتیں حیرت انگیز ہیں۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’مصور ایسی آنکھوں کی تصویر کشی کرسکتے ہیں جنھیں دیکھ کر دیکھنے والے کو لگے گا کہ وہ ہر زاویے سے اس کی جانب نگراں ہیں۔ لیکن کیا کسی مصنف نے آج تک ایسی کتاب لکھی ہے جو آپ کے روزمرہ کے احساسات کو پہلے سے بھانپ لے، اور اس میں آپ کی ہر الجھن کا حل موجود ہو؟ ہر رات کو میں اپنے ذہن میں سوالات اور اعتراضات تشکیل دیتا، اور اگلے دن مجھے ان کے جواب قرآن میں مل جایا کرتے تھے۔ گویا اس کا مصنف میرے خیالات کو نہ صرف پڑھ رہا تھا بلکہ میرے اگلے مطالعے میں مناسب سطروں میں ان کا جواب بھی لکھ رہا تھا۔‘‘
ڈاکٹر لینگ ریاضی کے ماہر ہیں اور پرڈیو یونیورسٹی سے ریاضی میں ڈاکٹریٹ کے حامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ریاضی ایک منطقی علم ہے۔ یہ حقائق اور شکلوں کا استعمال کرکے ٹھوس جواب تک پہنچنے کا نام ہے۔ میرا ذہن بھی ریاضیاتی طریقے سے چلتا ہے۔ اگر کسی نظریے سے مجھے ٹھوس جواب نہ ملیں تو میرے لیے اسے اپنانا مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘
ظاہر ہے حقائق کو صرف منطقی تجزیے سے قبول کرنے والے ذہن کے لیے مذہب کو اپنانا ایک دشوار کام تھا، کیوں کہ بیشتر مذاہب منطق کے بجائے عقیدے کی بنیاد پر اسے قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ جب کہ اسلام انسان کی عقل کو اپیل کرتا ہے۔
ڈاکٹر لینگ نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں جو امریکی مسلمانوں میں بہت مقبول ہیں۔ ان کی ایک کتاب Even Angels Ask: A Journey to Islam in America میں ڈاکٹر لینگ ان کے اسلام کی تحقیق کے دوران ہونے والے انکشافات اورعرفان ذات کے تجربات بیان کرتے ہیں۔
زیر نظر تحریر ان کی کتاب Losing My Religion: A Call For Help سے ترجمہ کی گئی ہے۔ یہ کتاب امریکی نو مسلموں کے لیے ایک ریفرنس کا درجہ رکھتی ہے جن کے ذہن میں اسلام، قرآن اور حدیث کے علاوہ مسلمانوں کی معاصر دینی و صورت صورت حال کے تعلق سے بہت سارے اشکال پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر لینگ اسلام لانے سے قبل دنیا میں پھیلی بدامنی، ظلم و فساد اور عدم مساوات کو دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ خدا کا وجود محض فریب ہے، اور تمام مذاہب غیرعقلی اور غیر منطقی ہیں۔ لینگ اسلام سے روشناس ہونے اور اس کے معروضی اور غیر جانب دارانہ مطالعے کے بعد پورے اطمینان کے ساتھ اسلام میں داخل ہونے کے بعد انھوں نے اسی ذہن کے اشکالات دور کرنے کی سعی کی ہے جس کے وہ خود حامل تھے۔ یہ کتاب اسلام کے سلسلے میں ان کی فکرمندی کو امت کے سامنے اجاگر کرتی ہے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ کتاب دراصل اس فکرمندی کا اظہار ہے کہ دین کی صحیح ترجمانی نہ ہونے کی وجہ سے مسلم نوجوانوں میں دین سے دوری بڑھتی جارہی ہے۔ دین دار طبقے کی طرف سے دین داری کی غلط مثالیں مسلم امت کے اندر دین بے زاری کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ یہ ایک سچے مومن کے دل کی سچی صدا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں طالب علمانہ حیثیت سے ان نازک سوالوں کے جوابات کی جستجو کی ہے جو نہ صرف کثیر ثقافتی ماحول میں رہنے والے نو مسلموں کے اشکالات کو بڑی حد تک دور کرنے میں کام یاب ہے، بلکہ تکثیری معاشرے کے مسلم نوجوانوں کے لیے بھی اس کا مطالعہ مفید ہے۔
اس شمارے سے ڈاکٹر لینگ کی کتاب کے ترجمے کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ امید ہے زندگی نو کے قارئین اسے مفید پائیں گے۔
ضروری نہیں کہ ہماری یادیں ہمیشہ ہماری مرضی ہی سے ذہن کے پردے پر اتریں۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اچانک نمودار ہوکر لمحوں کے خالی پن کو بھردیتی ہیں۔
یہ تب کی بات ہے جب میں آٹھ سال کا تھا۔
نصف شب کے بعد کا عمل ہے۔ میں اپنے بستر پر سو رہا ہوں کہ ناگہاں نیچے کے کمرے سے میرے والد کے چلانے کی آوازیں میرے کان میں پڑتی ہیں۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا ہوں۔ میرے والد ایک لحیم شحیم اور قوی الجثہ آدمی ہیں۔ قد چھ فٹ سے نکلتا ہوا، وزن 106 کلو، چوڑے چکلے کندھے، مضبوط بازو، بڑا سا سر، بڑی بڑی مٹھیاں جن کی آہنی گرفت پر انھیں بڑا ناز ہے، اور اکثر اسے اپنے بچوں کے ساتھ کھیل کھیل میں آزمایا کرتے ہیں۔ نیچے کمرے میں میرے والد کی غضب ناک آوازوں کی گونج بیچ بیچ میں تھمتی ہے، تو مجھے اپنی والدہ کی گھٹی گھٹی سسکیاں سنائی دیتی ہیں۔ میں ان آوازوں کو نظر انداز کرنا چاہتا ہوں۔ اپنا سر تکیے کے نیچے چھپالیتا ہوں، لیکن کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی پرشور طوفان سے بیدار ہوجائے، مگر طوفان کو روکنے کے لیے سوائے انتظار کے کچھ نہ کرسکے، اس امید میں کہ طوفان سے کسی کو چوٹ نہ پہنچی ہو۔ میں خدا سے گڑگڑاکر دعا کرتا ہوں، جس طرح پہلے بھی کئی بار کرچکا تھا ،کہ وہ میرے والد کو ہماری زندگی سے دور لے جائے، ماں کی حفاظت کرے، اس ڈراونے خواب سے ہمیں نجات دلادے۔
یکایک دھڑاک کی زوردار آواز آتی ہے، جیسے کسی نے کوئی بھاری فرنیچر زور سے دیوار سے دے مارا ہو۔ میں یک دم اچھل کر اپنے بستر سے اترتا ہوں اور بے خیالی میں تیزی سے سیڑھیاں عبور کرکے نیچے کے تاریک کمرے سے ہوتا ہوا باورچی خانے کی طرف لپکتا ہوں۔ باورچی خانے کے دروازے پر پہنچتے ہی سامنے کا منظر دیکھ کر وہیں ٹھٹک کر رہ جاتا ہوں۔ چند فٹ کے فاصلے پر میری والدہ کچن کے کاؤنٹر سے لگی ہیں اور میرے والد انھیں زد و کوب کر رہے ہیں۔ والد اپنے مضبوط شکنجے میں والدہ کے بازؤوں کو اپنی گرفت میں لے کر مغلظات بک رہے ہیں۔ میرے ذہن میں خیال آتا ہے کہ کسی طرح انھیں روکا جائے، لیکن خوف کے مارے میں وہیں منجمد ہوجاتا ہوں، میری یہ حالت ہے کہ سانس لینا بھی بھول گیا ہوں۔
میرے والد میری سمت رخ نہیں کرتے، لیکن شاید انھیں وہاں میری موجودگی کا احساس ہوچکاہے۔انھوں نے والدہ پر چلانا بند کردیا ہے، لیکن انھیں اب بھی جکڑے ہوئے ہیں۔ میں یہ دیکھنے کے لیے کہ کہیں والدہ کو چوٹ تو نہیں آئی ایک قدم آگے بڑھتا ہوں۔ وہ اپنا چہرہ میری جانب گھماکر مضبوط لہجے میں کہتی ہیں: ‘‘جیف، کوئی خاص بات نہیں ہے۔ سب ٹھیک ہے۔ تمھارے والد اور میں بس باتیں کر رہے ہیں۔ جاؤ بیٹا، اپنے کمرے میں جاکر آرام کرو۔’’
میں اپنی جگہ سے نہیں ہلتا۔ اگرچہ اب میری سانسیں اعتدال پر آچکی ہیں۔
میری والدہ پھر گویا ہوتی ہیں: ‘‘جیف! گھبراؤ نہیں۔ ہم صرف باتیں کر رہے ہیں۔ چلو، جاؤ، یہاں سے شاباش۔’’
میرے والد ، والدہ کو اپنی گرفت سے آزاد کردیتے ہیں، اور میری طرف دیکھے بغیر الماری سے گلاس نکالنے لگتے ہیں۔
‘‘ٹھیک ہے ماں۔’’ میں رندھے ہوئے گلے سے بمشکل جواب دیتا ہوں۔ خود کو رونے سے باز رکھنے کی کوشش میں میرے ہونٹ کپکپا رہے ہیں۔ اب میں مڑتا ہوں اور اپنے کمرے میں جانے کے لیے آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنے لگتا ہوں۔
میں خدا پر اتنی آسانی سے ایمان نہیں لایا تھا۔ اپنی ابتدائی عمر میں مجھے رحیم و کریم خدا کے وجود پر شک تھا۔ میرے مسلمان بھائی اکثر کہا کرتے ہیں کہ میں نے عیسائیت کو رد کرنے کے بعد اسلام قبول کیا ہے، لیکن بات بالکل ویسی نہیں ہے جیسی بتائی جاتی ہے۔
میں شمالی ساحل پر واقع ایک پر تشدد شہر اور اس سے بھی زیادہ پر تشدد گھر میں پلا بڑھا ہوں۔ میرے والد ایک سخت گیر اور توڑ پھوڑ مچانے والے آدمی تھے جو اکثر شراب کے نشے میں اپنا غصہ فرو کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ لیکن شراب نے ان کے مزاج میں تلون پیدا کردیا تھا۔ وہ ایک لمحے میں کسی بات پر ہنسی مذاق کر رہے ہوتے اور دوسرے ہی لمحے غیظ و غضب کی تصویر بنے نظر آتے۔ میرے والد کے ساتھ رہنا گویا ڈائنامائٹ کے ساتھ رہنے کے مترادف تھا۔ میں جانتا تھا کہ کسی بھی معمولی بات پر وہ بھڑک اٹھیں گے، اور ان کا مزاج اعتدال پر آنے اور انھیں سلانے کے لیے بہت ساری شراب کی ضرورت پڑے گی۔ میرے چار بھائی اور میں ایک خوف ناک اور بے یقینی والے بچپن سے گزرے ہیں، لیکن اس کا بدترین حصہ وہ تھا جب میرے والد اکثر میری والدہ کو کوستے، دھمکاتے اور زدو کوب کیا کرتے تھے۔
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے حالات سے فرار کی سبیل سوچنا کوئی بری بات نہیں ہے کیوں کہ اس موقع پر سوائے بچ نکلنے کے کچھ سوچا ہی نہیں جاسکتا۔ جب وہ ہم پر مکے اور لاتیں برسا رہے ہوتے یا پورے گھر میں اٹھتے بیٹھتے ہم پر چلا رہے ہوتے کہ ‘‘رکو بدمعاش میں ابھی تمھیں ٹھیک کیے دیتا ہوں’’ تب ہماری واحد سوچ سوائے فرار کے اور کیا ہوسکتی تھی۔ جب ہم پر حملہ ہوتا تب اس کے وجوہ پر غور نہیں کرتے تھے، جب طوفان تھم جاتا تو اس سے درگزر بھی کرجاتے کہ شاید ہم اسی لائق تھے، ہوسکتا ہے کہ ہم سے ابھی کوئی غلطی سرزد نہ ہوئی ہو، لیکن ممکن ہے یہ سزا ماضی کی کسی غلطی کا نتیجہ ہو۔ البتہ والدہ پر حملے کی دہشت کی سطح ہی کچھ اور ہوتی تھی، کیوں کہ وہی تو تھیں جن سے ہمیں محبت، شفقت، نرمی اور تحفظ ملتا تھا۔ اور اگر والد اسے بھی ہم سے چھین لیتے تو ہمارے پاس باقی ہی کیا رہ جاتا۔ لیکن اس دہشت سے بھی کہیں زیادہ تکلیف دہ وہ احساس جرم ہوتا تھا جو ہر طرف سے آکر ہمیں گھیر لیتا تھا۔ والد کے خلاف غم و غصے کا احساس جرم۔ آپ کو سکھایا جاتا ہے کہ اپنے باپ سے محبت کرنی چاہیے ، ان کا احترام کرنا چاہیے ، اور آپ فطری طور پر ان سے مانوس بھی ہوتے ہیں۔ ایک احساس جرم یہ بھی ہوتا تھا کہ شاید اس رات کے تشدد کے ذمہ دار ہم ہیں۔ شاید ہمی نے لاعلمی میں ایسا کچھ کردیا جس کی وجہ سے ان کا غصہ ساتویں آسمان پر ہے۔ شاید والد کے ہمیں ناپسند کرنے کی وجہ سے والدہ اور ان کے بیچ جھگڑے کی نوبت آگئی ہو۔ پھر ان سب سے شدید احساس جرم یہ ہوتا کہ والدہ کو والد سے بچانے کے لیے ہم نے کچھ نہیں کیا۔اپنی عافیت کے اندیشے سے کمرے میں چھپے رہے جب کہ والد والدہ پر اپنا غصہ اتارتے رہے۔ یعنی اپنی چمڑی بچانے کے لیے عزت نفس کو داؤں پر لگادیا۔ ایسے ہر واقعے کے بعد ہماری کم زوری، کوتاہی، بے کاری اور بزدلی ہمارے سامنے کھل کر سامنے آجاتی تھی۔ ہمارے اندر نفرت کا لاوا ابلنے لگتا، نہ صرف اس شخص کے لیے جسے آپ باپ کہتے ہیں بلکہ خود اپنے لیے بھی۔ کسی بچے کو اپنی ماں اور اپنے بیچ انتخاب کرنا پڑے تو یہ انتہائی خراب بات ہے، بہت ہی بے جا۔
جب چند سال پہلے میں نے اپنی والدہ کی آخری رسوم میں شرکت کی تھی تو یکے بعد دیگرے کئی لوگوں نے کچھ اس طرح اظہار افسوس کیا تھا:‘‘جیف، تمھاری والدہ واقعی ایک برگزیدہ ہستی تھیں۔’’ ایسا لگتا تھا جیسے انھیں جاننے والا ہر شخص ان پر ترس بھی کھاتا تھا اور انھیں اس بات کے لیے داد بھی دیتا تھا کہ انھوں نے میرے والد کے ساتھ اتنے طویل عرصے تک کس خوش اسلوبی، مضبوطی اور شان کے ساتھ نباہ کیا۔ تاہم والدہ نے خود کو کبھی مظلوم تصور نہیں کیا اور نہ ہی کسی کی ہم دردی چاہی کیوں کہ ان کے نزدیک اکیس برس کی عمر میں میرے والد سے کی جانے والی ان کی شادی ایک مقدس بندھن تھی ، جسے توڑا نہیں جاسکتا تھا۔ وہ یہ بھی مانتی تھیں کہ انھیں میرے والد سے شدید محبت ہے، یہ بات میری سمجھ سے بالا تر رہی۔
میری والدہ مضبوط قوت ارادی، حوصلے اور اعتماد کی مالک تھیں۔ اکثر کہا کرتی تھیں: ‘‘اگر کسی شے کی چاہ ہوتی ہے، تو اس کے لیے راہ ضرور پیدا ہوتی ہے۔’’ وہ کہا کرتی تھیں کہ خدا کی مدد سے ہر چیز ممکن ہوسکتی ہے، اور ان کے اس اعتماد کو کوئی انسان اور شے متزلزل نہیں کرسکی۔
جب سڑسٹھ برس کی عمر میں انھیں شدید قسم کا اعصابی اختلال لاحق ہوگیا تو ہم سب کو بڑی حیرت ہوئی۔ ہمیں بھی اپنی والدہ کے ناقابل تسخیر ہونے کا یقین ہوگیا تھا۔ اس کے بعد وہ ویسی نہ رہیں جیسی تھیں۔ اپنی زندگی کے آخری چھ برس انھوں نے اس عارضے میں بسر کیے جسے ڈاکٹروں نے مجنونانہ ڈپریشن کا نام دیا تھا۔ میرے والد کی موت والدہ کے گزرنے کے ایک سال بعد ہوئی تھی۔
میں اب بھی اپنی والدہ کو بہت یاد کرتا ہوں۔ ایک طویل عرصے تک وہ واحد فرد رہیں جن سے میں محبت کرسکا تھا۔ وہ میری بہترین دوست، میری محافظ، میری واحد ہیرو تھیں۔ وہ کٹر مذہبی کیتھولک عیسائی تھیں، ایک اچھی نرس تھیں، ان کے تمام ہم سائے ان سے محبت کرتے تھے، اور ان تمام لوگوں میں جنھیں میں جانتا ہوں، سب سے سخی اور مخیر خاتون تھیں۔
مجھے یاد ہے وہ اکثر ایک بزرگ، تنک مزاج عورت سے ملاقات کرنے جایا کرتی تھیں، وہ اس کے ناخن کاٹتیں اور پیروں کو دھو کر صاف کرتیں۔ مجھے یاد ہے، جب میں نوعمر تھا، والدہ اپنے اسپتال میں مریضوں کے ساتھ کس قدر شفقت اور رحم دلی سے پیش آتی تھیں اور جب میں کام کے بعد انھیں اسپتال سے لینے جاتا تھا تو مریض ان کے بارے میں کس قدر محبت اور گرم جوشی سے بات کرتے تھے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ کتنی اچھی ماں اور استاد تھیں۔ کتنی دیانت دار، انھوں نے کبھی اپنی زندگی میں کسی کو برا نہیں کہا، کسی سے سخت بات نہیں کہی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انھوں نے اپنے پانچ بیٹوں کو کس طرح محنت سے کماکر پالا پوسا اور ہماری ایک معذوری کے باوجود ہمیں ممکنہ حد تک نارمل اور خوش گوار زندگی جینا سکھائی۔
جب میں چھوٹا تھا تو میں ایسی زندگی کے بارے میں خواب دیکھتا تھا جس میں میرے والد نہ ہوں۔ میں بس چاہتا تھا کہ تشدد ہماری زندگی میں نہ رہے۔ میں مزید خوف زدہ رہنا نہیں چاہتا تھا۔ مجھے لگتا تھا جیسے میں کسی برے خواب میں پھنس گیا ہوں جس سے باہر نکلنے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ اس لیے میں خدا سے بار بار دعا کرتا کہ وہ ہماری زندگی سے ہمارے والد کو دور لے جائے اور اس درد کا مداوا کردے۔ لیکن وہ ہمیشہ وہیں رہے، اور چھوٹی عمر ہی سے مجھے خدا کے وجود پر شک ہونے لگا تھا۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ خدا میری والدہ کو زندگی بھر کی سزا کیوں دے رہا ہے۔ میں یہ بات تصور میں نہیں لاسکتا تھا کہ انھوں نے ایسی کون سی خطا کردی ہے جس کی پاداش میں انھیں میرے والد کا ساتھ نصیب ہوا ہے۔ ایسے سوالات حل کرنے کے لیے ابھی میرا ذہن پختہ نہیں ہوا تھا، اگرچہ میرے اندر اتنا غصہ اور خوف تھا کہ یہ سوالات بار بار اٹھتے رہتے تھے۔ میں ابھی چھوٹا تھا اور والد کے ہاتھوں والدہ کے تشدد کا شکار ہونے کی مصلحت کو نہیں پاسکتا تھا، اتنا چھوٹا تھا کہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ خدا کیوں معصوم بچوں کو ان کے بستروں میں روز روز خوف سے لرزنے دیتا ہے، اس خوف سے کہ شاید ان کی ماں اگلے دن کی صبح نہیں دیکھ سکے گی، اتنا چھوٹا تھا کہ یہ بات سمجھ میں نہیں آسکتی تھی کہ میرے والد کے حصے میں بھی ان کی تمام تر خطاؤں کے باوجود خدا کا رحم اور معافی کس طرح آسکتے ہیں۔ میں بس اتنا دیکھ سکتا تھا کہ میری دنیا انتشار اور تشدد کی زد میں ہے، لہذا میرے لیے خدا کے وجود پر سوال اٹھانا آسان ہوگیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ شاید اب تک یہ واضح ہوگیا ہوگا کہ میں کیتھولک عقیدے، یا عیسائیت میں خدا کو کیوں نہیں پاسکا تھا، کیوں کہ اس کے اور میرے درمیان میرے والد کی دہشت ناک شبیہ آڑے آتی رہی جس نے حق کو میری نگاہوں سے دور کردیا جسے شاید میں پا بھی لیتا۔ میں نے کسی فلسفے یا الہیات کی بنیاد پر عیسائیت کو رد نہیں کیا ، بلکہ بچپن کی الجھنوں اور صدمات میں رچے خوف اور دہشت کی وجہ سے میرا ایمان عیسائیت اور خدا سے اٹھ چکا تھا۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی کی اتھل پتھل نے میری تشکیک کو مزید تقویت بخشی۔ جان اور رابرٹ کینیڈی نیز مارٹن لوتھر کنگ کے قتل کے سانحات، اس کے بعد نائب صدر اگنیو اور صدر نکسن کا زوال، نسل کش فسادات اور میرے شہر کی طرح اور شہروں میں گینگ وار، ویت نام کی عجیب و غریب اور بلا وجہ کی تباہی – ان سب واقعات نے میرے ذہن میں پہلے سے موجود نتائج کی توثیق کردی کہ دنیا پر بے ترتیب، بے ربط اور شدید قسم کا تشدد غالب ہے۔ بہت کم عمری ہی میں میں نے اس پر سوال اٹھانا شروع کردیے تھے۔
ایسا ہونا کیوں ضروری تھا؟
خدا نے ایسی ناقص اور متشدد مخلوق کیوں پیدا کی ہے؟
کیا بگڑ جاتا اگر وہ ہمیں ابتدا ہی سے جنت میں رکھتا اور ہم وہیں رہتے؟
اس نے ہمیں مجرمانہ میلان کا حامل، آسانی سے بد عنوانی میں پڑنے والا اور فسادی ذہنیت کا کیوں بنایا؟
اگر وہ ہمیں اپنا تابع دار بنانا چاہتا تھا تو پھر شروع سے ایسا کیوں نہ بنایا؟ اگر یہ اس کے اختیار میں تھا تو اس نے ہمیں فرشتہ یا اس سے بہتر کوئی مخلوق کیوں نہ بنایا؟
کیوں وہ طاقت ور کو کم زور پر ظلم و تشدد کرنے دیتا ہے؟
کیوں وہ معصوم بچوں پر تشدد ہونے دیتا ہے جو ان کے ذہن پر ناقابل فراموش یادیں مرتسم کردے؟
میں اس ‘کیوں’ کا جواب جاننا چاہتا تھا۔ مجھے فرق نہیں پڑتا تھا کہ یہ جواب آسمان سے آئے یا جہنم سے، یا کوئی فرشتہ یہ جواب دے یا خود شیطان، یا پھر پوپ اور چارلس مینسن۔ میں بس واضح اور دل لگتی وضاحت چاہتا تھا۔ حق کو جاننا چاہتا تھا۔
میری عمر سولہ سال کی رہی ہوگی جب میں نے وجود باری پر یقین کرنا ترک کر دیا تھا۔ اگرچہ میں اگلے دس بارہ سال تک دیگر ملاحدہ کی طرح اسی حالت میں رہا، تاہم دیگر لوگوں کے مذاہب میں گہری دل چسپی لیتا رہا۔ ہر چند کہ زندگی کے اس عرصے کو میں جستجو کا دور نہیں سمجھتا، لیکن غالباً اس دوران بھی لاشعوری طور پر میری تلاش جاری رہی۔ میرا خیال ہے کہ میں اس بات کو بہتر طور سے سمجھنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا کہ میں نے جب اس شدت سے یقین کیا تھا، تو میرے یقین نے مجھے فریب کیوں دیا۔
وقت گزرنےکے ساتھ میں نے اپنے سماجی حلقے کو آہستہ آہستہ ایک مذہبی نظریے سے دوسرے نظریے کی جانب جھکتے ہوئے پایا۔ کالج کے اپنے ابتدائی ایام میں میں اپنے ساتھی ملاحدہ کی جانب مائل تھا، پھر کالج کے آخری دنوں میں یہودی دوستوں کی جانب میلان ہوگیا۔ گریجویشن کے اوائل میں میرے دوستوں کی اکثریت پروٹسٹنٹ پر مشتمل تھی اور آخری دو برسوں کے دوران میرے دو قریبی دوست ہندو اور بودھ رہے جو بیرون ملک سے آئے تھے۔ میں دوستوں کا انتخاب ان کے مذہبی پس منظر کی بنیاد پر شعوری طور پر نہیں کرتا تھا، اس وقت یہ بالکل اتفاقی بات تھی، تاہم اب جب غور کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ میرے حلقہ احباب کا سلسلہ ایک متعین پیٹرن پر گام زن تھا۔
میں مذہب پر دوسروں کے خیالات جاننے کے لیے متجسس تھا، میں اس پر اصرار نہیں کرتا تھا۔ ان دنوں میں زیادہ بات نہیں کرتا تھا، ہاں دوسروں کے خیالات بہت سنتا تھا۔ اگر میرے عقائد کے بارے میں پوچھا جاتا تو کبھی چھپاتا نہیں تھا ،لیکن اپنے جواب عموماً حتی الامکان مختصر رکھتا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میری بے اعتقادی دوستیوں کے آڑے آئے۔ اور میرا خیال ہے کہ بیشتر لوگوں کو الحاد میں کوئی دل چسپی نہیں ہوتی تھی۔
اگرچہ میں نے شاذ ہی کبھی اپنے دوستوں کے اعتقادات پر تنقید کی ہو، میں نے پایا کہ جتنا زیادہ وہ عقلیت اور ربط سے کام لیتے ہیں اتنا ہی ان کی قائل کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے۔ فرد مذہب اور منطق کے بیچ بہت سے تنازعات کو خدا اور انسانوں کے درمیان امتیازات ختم کرکے حل کرسکتا ہے، خدا کو زیادہ انسانی یا انسان کو زیادہ خدا جیسا بناکر۔ لیکن اس سے جو خدا یا دیوتا حاصل ہوتے ہیں وہ عبادت کیے جانے کے لائق نہیں رہتے، اور ایسے انسان حاصل ہوتے ہیں جو انھی خداؤں یا دیوتاؤں سے زیادہ تقدس مآب ہوجاتے ہیں جنھوں نے اسے بنایا۔ اس کی ایک انتہائی مثال یونانی دیو مالا میں ملتی ہے، جس کے بارے میں میرا خیال تھا کہ یہ سب سے حقیقت پسندانہ اور دیانت دارانہ الہیات ہے۔ یہ وضاحت کرتی ہے کہ دنیا میں شر اور بدنظمی من موجی دیوتاؤں کی وجہ سے ہے جنھیں ہمارے جدوجہد کرنے میں مزا آتا ہے، اور جو زندگی کے تجربے سے، بغیر کوئی خطرہ اٹھائے اور تکلیف سہے، ہمارے وسیلے سے گزرتے ہیں۔
میرے یہودی، ہندو اور بودھ دوستوں کو میرے الحاد سے کوئی مسئلہ نہیں تھا البتہ بعض عیسائی احباب اس سے مضطرب نظر آتے تھے، اور بعض اوقات وہ مجھ سے الجھ بھی پڑتے تھے جس کے نتیجے میں اکثر بڑے گرما گرم مباحثے ہوجایا کرتے تھے۔ ایسے موقع پر میں اپنے بچپن والے بنیادی سوال پر آجاتا تھا: خدا نے ہمیں اتنا متشدد اور تباہ کارکیوں پیدا کیا ہے، جو شر کی جانب شدید میلان رکھتا ہے؟ اس نے ہمیں شروع ہی سے جنت میں اس فطرت کے ساتھ کیوں نہ رہنے دیا جو شر کی جانب مائل نہ ہو؟ اگر عقل عقیدے سے ہم آہنگ نہیں ہے تو خدا نے یہ ہمیں کیوں دی؟
اٹھائیس برس کی عمر میں 1982 میں، میں سان فرانسسکو یونیورسٹی میں بحیثیت استاد آیا۔ یہ یونیورسٹی امریکہ کی یسوعی (Jesuit) فرقے کی قدیم ترین دانش گاہ ہے۔ میرے آنے کے کچھ دنوں بعد وہاں سعودی عرب نژاد ایک مسلم فیملی سے کچھ قربت بڑھی۔ وہ تین طلبا تھے:محمود قندیل، عمر قندیل اور رضیہ قندیل، دو بھائی اور ایک بہن۔ تینوں عمر کی دوسری دہائی میں تھے۔
اگرچہ میں اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا، تب بھی، مجھے نہیں معلوم کیوں، میرا خیال یہ تھا کہ اسلام تمام مذاہب میں سب سے غیر عقلی مذہب ہے۔ اپنے نئے دوستوں کے ساتھ گفتگوؤں کے بعد میرے اس مزعومہ تصور پر سوال کھڑے ہونے لگے۔ ان کا تصور مذہب یقیناً ایک متعین منہج اور منطق پر مبنی تھا، اور اگرچہ میں ان کی کہی بہت سی باتوں سے اتفاق نہیں کرپاتا تھا، تب بھی ان کا مذہب مجھے دیگر تمام مذاہب سے زیادہ باشعور اور بالغ محسوس ہوا۔
ایک گفتگو کے دوران، انھوں نے مجھ سے میرے مذہبی عقائد کے بارے میں پوچھ لیا۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ میں خدا پر یقین نہیں رکھتا اور اجمالی طور پر اس کے وجوہ پر روشنی ڈالی تو انھوں نے کسی خاص رد عمل کا اظہار نہیں کیا، سوائے محمود کے جس نے کہا کہ مذہب بسا اوقات عقل سے ہم آہنگ نہیں ہوتا اور اسے محض عقیدے کی بنیاد پرقبول کرنا پڑتا ہے۔ بے شک یہ بات مجھے بتانے والا محمود پہلا شخص نہیں تھا، میں پوری عمر یہ سنتا آیا تھا۔
میں اکثر اپنی چابیاں کہیں رکھ کر بھول جاتا تھا، اس لیے یونیورسٹی میں اپنے کمرے کے دروازے پر تالا لگانا ترک کردیا تھا۔ طلبا آکر میری میز پر نوٹس اور تفویضات رکھ کر چلے جاتے تھے۔ قندیل فیملی سے میری الحاد پر گفتگو کے دو روز کے بعد میں نے اپنی میز پر ایک موٹی سی سبز جلد والی کتاب رکھی ہوئی پائی۔ سرورق پر لکھا تھا: ‘‘قرآن مجید’’۔ پہلے تو مجھے قدرے الجھن ہوئی۔ برا بھی لگا۔ میں جانتا تھا کہ انھی بہن بھائیوں میں سے کسی کی حرکت ہوگی۔ لیکن میں سمجھ نہیں سکا کہ کیوں اور وہ اس سے مجھے کیا جتانا چاہتے تھے۔ مجھے لگا کہ شاید وہ مجھ سے میرا مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر ہم سے دوستی باقی رکھنی ہے تو مسلمان ہونا پڑے گا۔ لیکن جب میں نے اس بات پر غور کیا تو مجھے لگا کہ میں اس پر کچھ زیادہ ہی سوچ رہا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قندیل برادران خود انھی کے بقول کچھ بہت زیادہ مذہب کے پابند نہیں تھے۔ اس بات کی تصدیق اس سے ہوتی ہے کہ ان کا طرز زندگی ان کے مذہب کی بہت سی تعلیمات کے منافی لگتا ہے، جس کے بارے میں انھوں نے بتایا بھی تھا۔ دوسرے، ان کے بہت سے غیر مسلم دوست تھے جن کے ساتھ بات کرنے میں انھوں نے کبھی مذہب میں دل چسپی کا شائبہ تک نہیں ظاہر ہونے دیا۔ تیسرے، جب بھی ہم مذہب پر بات کرتے تھے تو یہ موضوع چھیڑنے والا میں خود ہوا کرتا تھا۔ میں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ان کا مجھے قرآن کا نسخہ دینا ایک معصومانہ عمل ہے، انھوں نے سوچا ہوگا کہ اگر میرے ذہن میں ان کے مذہب کے بارے مزید سوال ہوں تو میں ان کی مذہبی کتاب کا مطالعہ کرلوں۔ یہ بات اس لیے بھی قرین قیاس تھی کہ میرے بعض سوالات سے وہ بھی سخت الجھن میں پڑ گئے تھے۔
کیا تم مجھ سے مخاطب ہو؟
یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں پرہیز گارو ں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ: 2:2)
جب میں نے یہ آیت پڑھی تو میرے بدن میں ایک کپکپی سی دوڑ گئی۔ میں نے زیر لب پوچھا: کیا تم مجھ سے مخاطب ہو؟
میں قرآن کے دوسرے ہی صفحے پر تھا کہ مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا، ایسا احساس کتاب کو مزید پڑھتے ہوئے بار بار ہوا۔ کتاب کے گذشتہ صفحے پر، قرآن کی پہلی سورہ (باب) میں، جو نماز میں پڑھنے کی لازمی سورہ ہے، کہا گیا ہے:
‘‘تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے۔ رحمان اور رحیم ہے۔ روز جزا کا مالک ہے۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے۔ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔’’(فاتحہ: ۱-۷)
اب یہاں دوسرے صفحے پر، دووسری سورہ کے آغاز میں خدا خود قاری کو جواب دے رہا ہے کہ جس ہدایت کے لیے ابھی ابھی اس نے دعا مانگی ہے وہ بلا شبہ اس وقت اس کے ہاتھوں میں موجود ہے۔ میں نے سوچا، تو کیا تم یہ کہہ رہے ہو کہ یہ کتاب وہی ہدایت جس کی میں نے ابھی ابھی دعا مانگی ہے؟ میں نے دوسری آیت کو پھر پڑھا:
‘‘یہ وہ کتاب ہے۔’’
میں نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا :‘‘وحی کو پیش کرنے کا کیا ہی اورجنل اور موزوں طریقہ ہے!’’ بجائے اس کے کہ کسی قوم کی تاریخ بتائی جاتی یا کسی عظیم مصلح کی سوانح پلائی جاتی، یا کسی نبی کے اقوال کا مجموعہ پیش کیا جاتا، یہاں مصنف نے، جو میرے خیال میں محمد ﷺ تھے، صحیفے کو خدا کے انسان سے براہ راست خطاب سے شروع کیا ہے۔ میں نے سوچا وحی ربانی سے مجھے یہی توقع تھی کہ وہ انسانوں سے براہ راست مخاطب ہو، گویا یہ دہ فرمان (Ten Commandments) کی توسیع شدہ کتابی شکل ہے۔
جب میں نے قرآن کو آگے پڑھا تو میرے دل میں اس کی دانش کے لیے عزت میں اور اضافہ ہوگیا۔ مجھے جس چیز نے زیادہ متاثر کیا وہ بار بار اس تجربے سے گزرنا تھا جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے، لیکن اس سے بھی شدید احساس کے ساتھ، جہاں مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی گویا قرآن مجھ سے بات کر رہا ہے، دانش ورانہ سطح سے، اور ، اسے بیان کرنے کے لیے مجھے کوئی اور لفظ نہیں سوجھ رہا ہے، روحانی سطح سے۔ میں نے غور کیا تو لگا کہ مصنف نے کسی طرح اس میں ایسے بہت سے اجزائے عبارت رکھ دیے ہیں جن کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ ان کی وجہ سے قاری کے ذہن میں مخصوص سوالات اور ردعمل ابھریں گے، اور پھر قاری کے متوقع ردعمل کے جوابات آئندہ عبارات میں پیش کردیے ہیں۔ قاری کے ساتھ ذہنی و روحانی سطح پر مخاطب ہونے کی قرآن کی یہ صلاحیت، یا فریڈرک ڈینی کے الفاظ میں ‘‘قاری کو پڑھنے’’ کی صلاحیت، اسے زبردست نفسیاتی قوت عطا کرتی ہے، اور میرے خیال میں یہی مسلمانوں کے معروف مذہبی جوش کی وجہ ہے۔ مجھے احساس ہوا کہ مصنف انسانی فطرت کا رمز آشنا ہے۔ خصوصاً، میرے تجربے کی بنیاد پر، قرآن کی یہ صلاحیت اس کے نازل ہونے کے چودہ سو سال بعد بھی انتہائی طاقت ور ہے۔
دوسری سورہ کی پہلی 29 آیات قرآن کے اہم موضوعات کی اجمالی اور بلیغانہ تلخیص ہے۔ یعنی انسانیت کے خدا کا مطیع بننے کی ضرورت، محمد ﷺ کی رسالت، آخرت اور روز حساب، قرآن کی علامتی زبان، (۲:۲۶) انسان کا اٹھایا جانا، اور اللہ کی کامل حکم رانی۔ یہ آیات صحیفے کے مخاطبین کی صفات بھی بیان کرتی ہیں۔ جو قاری قرآن سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہیں وہ عقیدے میں اخلاص کے حامل ہیں۔ جنھیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا وہ بند ذہن والے ہیں۔ ان دونوں کے بیچ ایک قسم کے لوگ وہ ہیں جو دکھاوا کرتے ہیں اور خود فریبی میں مبتلا ہیں، وہ ایمان کا دعوی کرتے ہیں لیکن حقیقتاً ایمان پر دنیوی جاہ و مال کی طلب کو فوقیت دیتے ہیں۔ انھیں کتاب سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں الا یہ کہ اپنی روش بدل لیں۔ ہیئت کے اعتبار سے قرآن کی تمہید جدید کتابوں کے پیش لفظ سے مختلف نہیں جن میں کتابوں کے مشمولات اور ان سے استفادے کے لیے ضروری شرائط بیان کی جاتی ہیں۔
کتاب مجھ سے مخاطب ہے
دوسری سورہ کی آیات 30 تا 39 میں اولین آدمی اور عورت کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ ہر چند کہ قرآن کی بیان کردہ کہانی اپنی بہت سی تفصیلات میں بائبل کی کہانی سے ملتی جلتی ہے، لیکن اس میں ایک منفرد بات ہے۔ میں نے ان آیات کو کئی مرتبہ پڑھا، لیکن نہیں سمجھ سکا کہ یہ صحیفہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ مجھے لگا کہ یا تو یہ کوئی ایسی بات بتا رہا ہے جو انتہائی عمیق ہے یا پھر خود ہی الجھن کا شکار ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس حصے کا آرام اور توجہ سے سطر بہ سطر مطالعہ کیا جائے، تاکہ معلوم تو ہو کہ یہ بیان مربوط ہے بھی کہ نہیں۔
‘‘اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا ‘میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں ’فرشتوں نے کہا ‘کیا تو زمین میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو فساد پھیلائے اور خون بہائے حالاں کہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں’ فرمایا ‘میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔’’’(۲:۳۰)
سورہ بقرہ کی تیسویں آیت نے مجھے چونکا دیا، اس لیے نہیں کہ اس میں پہلے آدمی اور پہلی عورت کی کہانی بیان کی گئی ہے بلکہ اس لیے کہ اس کا طرز بیان اچھوتا ہے۔ جب میں نے اس آیت کو دوبارہ پڑھا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں یکایک بالکل اکیلا ہوگیا ہوں، یکا و تنہا، گویا کتاب کا مصنف مجھے کھینچ کر ایک اجنبی اور پرسکون جگہ پر لے آیا ہو تاکہ مجھ سے براہ راست بات کرسکے۔
میرا خیال تھا کہ شاید قرآن کے مصنف نے آدم و حوا کی روایتی کہانی کو کہیں سے غلط سلط سن لیا ہوگا، کیوں کہ میرے سامنے جو آیت تھی وہ اس کہانی کے پورے مقصد سے انکاری تھی۔تاہم جب میں نے اس آیت کو دوسری، تیسری اور چوتھی مرتبہ پڑھا تو مجھے محسوس ہوا کہ مصنف نے جان بوجھ کر اس قدیم واقعے کی تفصیلات میں ترمیم کی ہے۔
اس آیت کی سیٹنگ [ماحول] جنت کی ہے، جہاں خدا فرشتوں کو اپنا ایک فیصلہ سناتا ہے کہ وہ زمین پر انسان کو اپنا نمائندہ بناکر بھیجنے والا ہے۔ ‘‘ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔’’ میں نے سوچا یہ تو سراسر غلط بیانی ہے۔ انسانیت کو زمین پر کسی مثبت کام کے لیے تھوڑے ہی بھیجا گیا ہے، اسے تو آدم کے گناہ کی پاداش میں اتارا گیا ہے۔ یہاں دیکھیے، خدا کے اس اعلان میں تو آدم و حوا کے کسی گناہ کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے، اور جیسا کہ بعد کی آیات سے ظاہر ہے گناہ کا ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔
اصل سوال تو فرشتوں نے اٹھایا تھا: ‘‘ کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خوں ریزیاں کرے گا۔ آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں’’ فرشتوں نے وہ سوال اٹھایا جو اس کہانی کے روایتی مفہوم کی جانب لے آتا ہے—وہ مفہوم جس کے ساتھ میں نے اپنی عمر گزاری تھی۔ وہ بالفاظ دیگر پوچھ رہے ہیں کہ ایسی گناہ گار اور تشدد پسند مخلوق کو کیوں پیدا کیا جائے؟ اسے زمین پر کس لیے بھیجا جائے کہ وہاں جاکر فساد پھیلائے؟ ایسی ناقص مخلوق کا کیا فائدہ جب کہ آپ ہم فرشتوں جیسی کوئی بے عیب مخلوق پیدا کرسکتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں ‘‘ہم آپ کی حمد اور تسبیح بیان کرتے ہیں!’’ جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات چیت جنت میں ہورہی ہے تو ان کا یہ سوال اور بھی اہم ہوجاتا ہے، کیوں کہ اس ناقص ترین مخلوق کو پید اکرکے، خدا اسے ایسے ماحول میں بھیجنے والا ہے جہاں وہ اپنے بدترین مجرمانہ افعال کو انجام دے سکے گی، اس فریب میں کہ خدا اس سے بہت دور ہے۔ دوسرے الفاظ میں خدا ایسی فسادی مخلوق کو زمین پر پیدا ہی کیوں کرے، جب کہ وہ بآسانی انھیں فرشتہ بناکر جنت میں رکھ سکتا ہے؟
یہی سوال میرا بھی تھا! میرا اعتراض! میری پوری زندگی کا حاصل ان تین چار سطروں میں آگیا تھا۔ مجھے ایسا لگا گویا قرآن میرے جذبات سے کھیل رہا ہے، اس کہانی کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے مجھے اکسا رہا ہے۔ اس پر مستزاد خدا کا فرشتوں کو یہ جواب کہ ‘‘میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔’’ گویا کہہ رہا ہو ‘‘مجھے پتہ ہے میں کیا کر رہا ہوں۔’’
کیا کہا؟ تم ایسا نہیں کرسکتے! میں دل ہی دل میں چلایا۔ تم میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے! تم میرا درد، میرا غصہ، میری زندگی، سب کچھ میرے سامنے رکھ کر مجھ سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم جانتے ہو کہ تم میرے ساتھ کیا کر رہے ہو! تم اس سے بآسانی چھوٹنے والے نہیں ہو! کیا تم نے مجھے اسی طرح بنایا ہے!
پھر اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں یہ شکوہ خدا سے کر رہا تھا۔ اسی خدا سے جس کے وجود پر مجھے یقین نہیں تھا۔
کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
فرشتوں کے سوالات کے بعد یہ موقع تھا کہ مصنف اپنی غلطی کا ازالہ کرتا اور انجیل کی کہانی کی طرف لوٹ جاتا۔ اس موقعے پر وہ خدا سے کہلواسکتا تھا کہ ‘‘میرے فرشتو، انسانی فطرت کے بارے میں تمھاری بات درست ہے۔ پس میں انھیں سزا دوں گا۔ جب ان دونوں سے ایک ناگزیر گناہ سرزد ہوجائے گا تو اس جوڑے اور ان کی تمام اولادوں کو زمین پر بھیج دوں گا۔’’ ہر چند کہ اس سے بھی فرشتوں کے سوال کا تسلی بخش جواب نہ ملتا، کہ اس سے یہ وضاحت نہ ہو پاتی کہ ایک مفسد مخلوق کو خدا پیدا ہی کیوں کرے۔ مگر کم از کم اس سے اس تصور کی جانب تو آجاتے کہ زمین پر انسانی زندگی ایک گناہ کا نتیجہ ہے نہ کہ خدا کے نائب بننے کا موقع۔
جلد ہی مجھ پر یہ بات کھل گئی کہ قرآن کا مقصد اور کچھ ہے، اس کا وژن اور پیغام بالکل الگ ہیں۔ روایتی ڈھرے پر چلنے کے بجائے یہ فرشتوں کے سوال کا ایسا جواب دینا شروع کرتا ہے، جو پہلے انسانی عقل پر زور دیتا ہے (بقرہ: 31-34)، پھر اخلاقی فیصلے پر (۳۵-۳۶) اور پھر ربانی رہ نمائی پر (۳۷-۳۹)۔
اس کے بعد اللہ نے آدمؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا ‘اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خْلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ’ (۲:۳۱)
مجھے یاد آیا کہ بائبل میں لکھا ہے کہ آدم نے اپنے آس پاس موجود مخلوقات کے نام بتائے تھے، لیکن بائبل میں اسے انسانیت کی تخلیق کے جواز کے طور پر پیش نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم قرآن فرشتوں کو دیے گئے جواب میں اس نکتے کی جانب توجہ مبذول کراتا ہے۔
میں صحیفے کی اس حیرت انگیز خوبی پر عش عش کر اٹھا کہ اتنے کم الفاظ میں اتنی بسیط معلومات اور مفاہیم سموئے ہوئے ہے۔ غور کیجیے کہ آدم نے اپنے آس پاس کی چیزوں کے نام ایسے ہی نہیں بتادیے بلکہ خدا کے سکھانے سے بتائے، یعنی یہ آدم کے سیکھنے کی صلاحیت اور شعور پر دال ہے۔ یہ بھی غور کیجیے کہ آدم کیا سیکھ رہے ہیں۔‘‘تمام چیزوں’’ کے نام بتانے کی صلاحیت، ہر اس شے کو جس سے وہ واقف ہیں، علائم و رموز عطا کرنے کی صلاحیت، اپنی ہر سوچ، تجربے اور احساس کو الفاظ کا پیراہن دینے کی صلاحیت۔ انسان کو ودیعت کردہ تمام تر خوبیوں میں سے قرآن زبان و بیان کی صلاحیت پر زور دے رہا ہے، ظاہر ہے ایسا اس لیے کہ اسی انتہائی ترقی یافتہ عقلی وسیلے کی وجہ سے انسان باقی تمام زمینی مخلوقات سے ممتاز ہے۔ زبان ہی کے استعمال سے، کسی دوسری خوبی سے زیادہ، انسان ترقی کرتا اور سیکھتا ہے، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ زبان انسان کے دوسروں سے سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ بنتی ہے، ان لوگوں سمیت جن سے ہمارا ذاتی رابطہ نہیں ہوتا، جن کے زمان و مکان ہم سے مختلف ہوتے ہیں، یہاں تک اسی عطا کی وجہ سے انسان ایک زبردست ‘‘اضافہ پذیر وصف’’ سے متصف ہیں۔
پھر خدا ان اشیا کو فرشتوں کے آگے رکھ کر کہتا ہے کہ ‘‘اگر تم صحیح ہو تو مجھےان کے نام بتاؤ۔’’ یہ ظاہر کرتا ہے کہ فرشتوں کو جواب دینے میں انسانی عقل کی فضیلت کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے۔ فرشتوں نے پوچھا تھا کہ خدا ایسی مفسد اور خوں ریز مخلوق کو کیوں پیدا کرنا چاہتا ہے، جب کہ ان کے نظریے سے، وہ انسانوں سے برتر ہیں کیوں کہ وہ خدا کی مرضی کے مکمل تابع ہیں اور اس کی حمد و تعریف بیان کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ قرآن اس آیت میں، اور اس کے فوری بعد والی آیات میں، کہنا چاہتا ہے کہ دیگر ایسی صفات ہیں، جن میں انسانی عقل و ذہانت بھی شامل ہے، جن کی بنا پر انسان، خدا کی نظر میں، امکانی طور پر، فرشتوں سے برتر مخلوق ہے۔
‘‘انھوں نے عرض کیا: ‘نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں۔’ (۲:۳۲)
فرشتے اس چیلنج کا سامنا کرنے میں اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہیں۔ ان کے اندر اپنے تجربات کو علامات اور تصورات میں پیش کرنے کی عقلی صلاحیت موجود نہیں۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے ذہانت، علم اور حکمت، کی ضرورت ہوگی جو ان کی رسائی سے بہت پرے ہے۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ خدا کے لیے ایسا کرنا آسان ہے کیوں کہ وہ سب کچھ جاننے والا اور حکیم ہے، لیکن فرشتوں کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں۔
’’فرمایا: ‘اے آدم ان چیزو ں کے نام بتا دو’ پھر جب آدم نے انہیں ان کے نام بتا دیئے۔ فرمایا‘ کیا میں نے تمھیں نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزیں جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہوں۔’‘‘( ۲:3۳)
آدم وہاں کام یاب ہوئے جہاں فرشتے ناکام ہوگئے، اور اپنی برتری اور عقل کا ثبوت پیش کردیا۔ اگرچہ آدم کے پاس خدا کی حکمت اور علم نہیں تھا، لیکن انھیں اِن خوبیوں میں فرشتوں سے زیادہ حصہ ملا تھا۔
مجھے یقین ہونے لگا کہ مصنف نے بائبل کی کہانی کو غلط نہیں سمجھا تھا، بلکہ وہ اسے ایک اورجنل مفہوم پہنانے کے لیے نئے سرے سے تشکیل دے رہا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ انسان کو شر اور فساد پھیلانے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، لیکن انسانیت کو اور بھی خوبیاں دی گئی ہیں جنھیں فرشتے نہ تو سمجھ سکتے تھے اور نہ ان کا اندازہ کرسکتے تھے، اور یہ سب ایک دور رس منصوبے میں فٹ ہو رہا ہے۔ لہذا قرآن میں خدا کہتا ہے ‘‘کیا میں نے تمھیں نہیں بتایا تھا کہ میں ہی آسمان و زمین کے رازوں سے واقف ہوں۔’’ لیکن فرشتوں سے یہ بات چیت یہیں ختم نہیں ہوجاتی، آگے کہا جاتا ہے: ‘‘ اور اسے بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو۔’’
میں نے سوچا، فرشتوں کے سوال میں کیا چھپا تھا؟ جو ظاہر ہورہا تھا وہ تو بالکل سامنے کی بات تھی۔ اس سوال نے انسانوں کے تباہ کن اور شریر میلانات کو اجاگر کیا تھا، لیکن اس میں چُھپا کیا تھا؟
پھر مجھے سمجھ میں آیا، فرشتوں کے اشکال نے انسانی کردار کے صرف ایک پہلو پر زور دیا تھا، یعنی انسان کی فساد پھیلانے اور خوں ریزی کرنے کی صلاحیت پر۔ تاہم انھوں نے میری طرح انسانی فطرت کے دوسرے پہلو سے آنکھیں موند لیں تھیں۔ یقیناً بعض انسان غلط کاریوں میں لت پت ہوتے ہیں، لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو زبردست کارہائے خیر انجام دیتے ہیں۔ کچھ لوگ بے نظیر ایثار، بے مثل عدل، عدیم المثال سخاوت، گرم جوشی، محبت اور شفقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو دوسروں کے ساتھ انتہائی رحم دلی اور ہم دردی کا معاملہ رکھتے ہیں۔ تاہم فرشتوں نے میری طرح اس حقیقت کو نظر انداز کردیا۔ ایک لمبے عرصے تک میں نے انسانوں کے صرف تاریک پہلو پر نظر رکھی۔ واقعی، یہ حقیقت ہے کہ ہم میں سے بہت سے انتہائی فسادی ہوتے ہیں لیکن دیگر انتہائی مہربان اور اچھے بھی تو ہیں، اور ہم سب ان دونوں قسم کے انسانوں کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ انسانی ڈرامے کی ایک ہی اسٹیج پر نمودار ہوجاتے ہیں، گویا ایک کا ظاہر ہونا دوسرے کے ابھرنے کی وجہ بنا ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ بعض لوگوں میں خیر سے شر کی نمود ہوتی ہے اور بعض اوقات شر کی وجہ سے کسی میں خیر بیدار ہوتا ہے۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ اپریل 2021