سوال ۴: (ایک کینیڈین پروفیشنل کی جانب سے، ان مغربی ملحدین میں سے ایک جو اکثر مجھے سوالات پر مبنی مراسلے بھیجتے رہتے ہیں۔)
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی خدا پر یقین کیا ہو یا ذرہ برابر بھی روحانیت میرے اندر پائی گئی ہو۔ تاہم چند دن پہلے مجھے ایک مسلم خاتون سے محبت ہوگئی، اسے بھی مجھ سے محبت ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اگر ہم دونوں ایک ہی مذہب کے پیروکار ہوں گے تو یہ ہمارے مستقبل کے لیے بہتر ہوگا، لیکن وہ نہیں چاہتی کہ میں اسلام کو بغیر سمجھے بوجھے قبول کروں۔ میں نے آپ کی ایک کتاب ’Even Angels Ask‘پڑھی ہے، اور قرآن بھی پڑھ رہا ہوں۔ میرے ذہن میں چند سوالات ہیں جن کے جواب آپ سے جاننا چاہتا ہوں۔لیکن پہلے ایک سیدھی سی بات کہوں گا، قرآن کے احکامات کے سلسلے میں۔میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کے بعض قوانین ازکار رفتہ ہوچکے ہیں، اور اس کی بعض سزائیں بہت سخت ہیں۔ سزاؤں کے بارے میں کہوں تو کیا خدا نے ایسے زمانے کی پیش بینی نہیں کی تھی جو زیادہ رحم دل اور مہربان ہو؟ کیا آپ کے قبولِ اسلام کی راہ میں قرآن کے ایسے قوانین روڑہ بن کر حائل نہیں ہوئے تھے؟
جواب: میرے قبول اسلام کے فیصلے پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں قرآنی احکام شامل نہیں تھے۔ مجھے تو تجسس نے اسے پڑھنے پر مجبور کیا، جو جلد ہی یہ جاننے کی جستجو میں بدل گیا کہ قرآن حیاتِ انسانی کو کیا معنی دیتا ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میں تشریعی آیات کو پڑھ کر تیزی سے گزر جاتا تھا کیوں کہ میرا خیال تھا کہ ان کا میرے اس سوال سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ جب میں نے قرآن کی دعوت توحید کو سنجیدگی سے لینا شروع کیا تب تک میں اس کے تشریعی احکام سے آگے نکل چکا تھا، کیوں کہ ایسے بیشتر احکام شروع کے حصے میں ہیں۔ ہوسکتا ہے یہی وجہ ہو کہ قرآن کے قوانین میرے قبول اسلام کے فیصلے میں فیصلہ کن عنصر نہیں بن سکے۔ میں ان دنوں زیادہ مسلم لوگوں کو بھی نہیں جانتا تھا، نہ ہی اس بات سے باخبر تھا کہ مسلم قانون ساز پوری دنیا میں ان قوانین کی تفہیم و نفاذ کیسے کرتے ہیں۔میرا ذہن قانون کے نقطہ نظر سے کم سوچتا ہے، بلکہ یہ مجھے ایک موضوعی سائنس لگتا ہے۔ ریاضی کے برخلاف جس میں ایک درست ثبوت پر، آپ کے جذبات و احساسات سے قطع نظر، ناقابل تردید ہوتا ہے، قانون میں دلائل و شواہد کا دارومدار بڑی حد تک تفہیم و تعبیر پر ہوتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ایک دوسری وجہ ہے جس کی بنا پر میں نے قرآن کے تشریعی فرامین پر زیادہ غور نہیں کیا، وہ یہ کہ میں دورحاضر کے مسلمانوں کے ان کے تئیں رویے کے بارے میں بالکل نہیں جانتا تھا ۔
البتہ مجھے قرآن کی بہت سی ہدایات کی درستی پر بڑی حیرت ہوتی تھی۔ اس کے احکام، جو اس کے متن کے قریباً ۳ فیصد پر مشتمل ہیں، صحیفے کے مجموعی اسلوب سے مختلف محسوس ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، قرآن خود کو ایک مخصوص مکان و زمان میں محصور نہیں کرتا، بلکہ اس کے بیشتر قوانین ان فوری مسائل کا حل پیش کرتے ہیں جو پیغمبر اسلام ﷺ اور ان کے اصحاب کو درپیش آئے، ان مسائل میں سے بہت سے انھی کے ماحول اور حالات کے لیے مخصوص تھے۔قرآن کے قانونی حل اکثر و بیشتر اعلی سطحی تخصیص کے حامل ہیں۔ ان میں سے کئی میں تو ساتویں صدی عیسوی کی عرب ثقافت کا حوالہ بھی ہے، مثلاً خواتین کے لباس کے احکام کے سلسلے میں اس دور کی عرب خواتین کے مخصوص ملبوسات کا تذکرہ (النور: 30-31)، یا مومنوں سے جنگ کی تیاری کے لیے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم (الانفال:60)۔ قرآن میں ایسے احکام کی تعداد کم ہے جن کا نفاذ ہر زمانے کے لیے ہو جیسے عسکری جارحیت، قتل و فساد، کردار کشی، فریب دہی، سود، شراب، چوری، زنا اور جبری تبدیلی مذہب کا امتناع۔ تاہم بعض دیگر احکام ایسے بھی ہیں جو جدید معاشروں کے لیے نہیں ہیں، مثلاً غلاموں اور باندیوں کے لیے قرآنی احکام یا وہ احکام جو رسول اور خانوادہ رسول ہی کے لیے مخصوص تھے۔ [الاحزاب:۳۳، الاحزاب: ۵۲-۵۳]
مجھے اس پر حیرت ہوتی تھی کہ قرآن بہت سے مسائل کو لے کر قصداً اتنا مبہم، اور اپنے تشریعی احکامات کے لیے اتنا تکنیکی و مرکوز کیوں ہے۔ اس نے موسی علیہ السلام کے ’دہ فرامین‘ یا حضرت مسیح علیہ السلام کے ’پہاڑی وعظ‘ کی طرح رویے کے محض چند عام اصول کیوں نہیں دے دیے، جن پر تمام زمانوں اور مقامات کے لوگ عمل کرلیتے؟ پھر مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ ایسے سوالات اٹھاتے ہوئے میں شاید بھولپن کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔
یہ ظاہر ہے کہ قرآن کے سامنے ایک فوری کام جو انجام دینے کا تھا وہ ساتویں صدی عیسوی کے عربوں کی اصلاح و تنظیم کا تھا۔ اس کے احکامات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس دور کا عرب معاشرہ انحطاط، جمود اور انارکی کا شکار ہوچکا تھا۔ تشدد، فساد و شر انگیزی اور بدعنوانی کا دور دورہ تھا۔ اس وحی کا علم بردار بنانے کے لیے، جس کی مخاطب تمام انسانیت تھی [التکویر: ۲۷]، ضروری تھا کہ پہلے اس معاشرے میں مکمل انقلاب برپا کردیا جائے اور اس کو لاحق وہ تمام عادات و اطوار خبیثہ سے نجات دلائی جائے جو اس کے زوال کا باعث تھیں۔اگر ایسا نہ کیا جاتا تو قرآن کا پیغام شاید جزیرہ نما عرب کے ایک گوشے میں سمٹ کر رہ جاتا، اور شاید آخرکار فراموش کردیا جاتا۔ جزوی طور پر اس سے صحیفے کے قوانین کی واضح اور تکنیکی نوعیت سمجھ میں آتی ہے اس لیے کہ مبہم سرزنش سے کبھی جلد اور جامع انقلاب برپا نہیں کیے جاسکتے۔ (میری رائے میں عمومی سرزنش طویل مدت میں شاذ و نادر ہی کوئی بڑی تبدیلی لا سکتی ہے۔)
البتہ دوسری جانب اگرچہ قرآن کے بیشتر احکام اس عہد کے تاریخی و ثقافتی سیاق کے بطن سے ابھرنے والے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں، تاہم جس نوعیت کے یہ مسائل ہیں وہ تمام معاشروں کے لیے مشترک اور بنیادی نوعیت کے ہیں۔ مثلاً عورتوں سے متعلق اس کے کئی احکام کا مقصد ان کی سماجی حالت کو بہتر بنانا ہے، اگرچہ وہ اس وقت کے پیچیدہ ڈھانچے اور متعلقہ فطری سماجی ماحول کی بندشوں سے بھی وابستہ ہیں۔ قرآن میراث میں عورت کے ایک حصے کو مختص کرکے، جو مرد کے حصے سے نصف ہے، اس کی مالی خود مختاری کی ایک سطح کو یقینی بناتا ہے [النساء:11]، چوں کہ مرد کنبے میں بنیادی طور پر کمائی کرنے والے ہوتے ہیں [النساء:32-34]۔ قرآن یہ بھی طے کرتا ہے کہ مرد جب عورت سے نکاح کریں تو اسے مہر ادا کریں [النساء:۴]۔ قرآن عورت کو اعلی سطحی کاروباری معاہدات میں گواہی کا مجاز بناکر انھیں مالی دنیا میں لے آتا ہے، لیکن چوں کہ وہ عمومی طور پر ان معاملات کی سمجھ بوجھ کم ہی رکھتی ہیں، اس لیے قرآن دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کے مساوی قرار دیتا ہے [البقرہ:282]۔ قرآن عورتوں کے حقوق مردوں کے مساوی [البقرہ:228] یقینی بنانے کے لیے طلاق کے تفصیلی قوانین وضع کرتا ہے۔ تاہم چوں کہ مطلقہ مسلم خواتین کو، ان کے سابق شوہروں کے برعکس، دوبارہ شادی کرنے کے لیے تین ماہ کی عدت گزارنا ضروری ہے تاکہ ہونے والی اولاد کے ممکنہ نسب کا تعین کیا جاسکے، چناں چہ قرآن اعتراف کرتا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجے کا تفوق حاصل ہے [البقرہ:228]۔ قرآن مرد و خواتین کو نظریں نیچی رکھنے، عورتوں کو حیا کا لباس پہننے کاحکم دے کر جنس مخالف کے جنسی استحصال اور ہراسانی کا سدباب کردیتا ہے۔ [النور:30-31]
اسی طرح غلامی پر متعدد احکام دے کر، جو روایت حالت امن ختم ہوجانے ہی والی تھی، قرآن جدید زمانوں کے لیے ملازمین کے استحصال کا سدباب کردیتا ہے۔ دولت پر قرآن کے ذریعے سالانہ ٹیکس لگانا تاکہ اس کا استعمال غریبوں پر کیا جائے، اس بات کا اشارہ ہے کہ معاشرے پر اپنے شہریوں کا خیال رکھنا فرض ہے۔ اس دور کے مسلم معاشرے میں بیواؤں اور یتیم بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناظر میں، جو آج کے معاشرے میں غریب سنگل مدرز کی حالت سے مختلف نہیں، قرآن بیواؤں سے شادی کرنے کے لیے مردوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ ان کی اور ان کے بچوں کی جذباتی و مالی تعاون کے ذریعے کفالت ہوسکے، لیکن یہ ایک وقت میں مرد پر چار بیویوں کی تحدید بھی عائد کرتا ہے۔ [النساء:3] قرآن کاروبار میں جہاں مالی معاملات پیش آجائیں وہاں تحریری طور پر معاہدے کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس سلسلے میں تفصیلی احکام دیتا ہے جس میں کم زور فریق کو مختلف تحفظات فراہم کرتا ہے تاکہ دھوکہ دھڑی کا سدباب ہوجائے۔[البقرہ:282-283] قرآن جنگ کے سلسلے میں احکامات دیتا ہے جن کی رو سے عسکری جارحیت کا قلع قمع ہوجاتا ہے اور صرف اپنے دفاع میں یا ظلم کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس میں ریاست سے متعلق بہت سے احکام وارد ہوئے ہیں جو اس وقت کے عربوں کے لیے بالکل اجنبی احکام تھے۔ یہ احکام قیادت کے احترام، دوسروں کے حقوق کی پاسبانی، قانون کا احترام، مشاورت کے ذریعے اجتماعی فیصلہ سازی سے متعلق ہیں۔ قرآن شراب اور میسر کے معاملے کو یہ کہہ کر کہ ان میں لوگوں کے لیے فائدے کے بجائے نقصان زیادہ ہے [البقرہ:219] ختم کردیتا ہے۔
اگرچہ قرآن کے احکامات قرنِ اول کے مسلمانوں کے مسائل کے فوری حل کا جواب پیش کرتے ہیں، تاہم ان میں سے بیشتر مسائل ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ خواتین کے تئیں ناانصافی، مزدوروں کا استحصال، سماجی بہبود، سنگل مدرز، متروک بچے، آزادی مذہب، پرفریب کاروباری معاملات، عدل گسترانہ جنگ، ریاست کی تنظیم، تفریح کی غرض سے منشیات کا استعمال، قمار بازی، قحوہ گری، کردار سوزی جیسے مسائل ہر معاشرے اور ثقافت میں پائے جاتے ہیں۔ لہذا قرآن کے قوانین ایک مخصوص تاریخی سیاق میں ان کا حل پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر سیاقوں کے لیے عملی نظیروں یا ماڈلوں کا کام بھی دے سکتے ہیں۔
جب قرآن ایک حکم دیتا ہے تو عام طور پر اس کے پس پردہ اس کا عمومی مقصد جاننا مشکل نہیں ہوتا۔ جب ایسا نہ ہو، تو یہ بسا اوقات یہ خود اس حکم کا مقصد بیان کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مومن عورتوں کو اپنی اوڑھنیوں سے سینے ڈھکنے کا حکم حیا کے باب میں بیان کیا گیا ہے (النور:30-31)۔ جب قرآن حکم دیتا ہے کہ وہ جنگ کے لیے گھوڑے تیار رکھیں (الانفال:60) تو وہ یہ کہتا ہے کہ اس سے ‘‘معلوم اور نامعلوم دشمن کے دل میں تمھاری ہیبت بیٹھے گی’’، یعنی عسکری ہیبت (military deterrent) قائم رکھنا۔ مرد و عورت کے میراث میں حصے کا فرق واضح کرنے کے بعد قرآن وضاحت کرتا ہے کہ ‘‘ایسا اس لیے ہے کہ مردوں کو عورتوں کی کفالت کی ذمہ داری دی گئی ہے، اور انھیں لازماً اپنی دولت ان پر خرچ کرنی چاہیے’’[النساء:33-34]
بایں ہمہ اگر قرآن کے احکام مخصوص بنیادی مقاصد اور قانونی اصولوں کے حامل ہیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ زمانی تبدیلیوں کے ساتھ ان میں توسیع و تطبیق بھی ممکن ہے، جن کا واقع ہونا یقینی امر ہے۔ میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد پایا کہ اسلامی شریعت کے بہت سے علما اصولی طور پر اس نقطہ نظر سے متفق ہیں لیکن اس پر عمل کرنے میں انتہائی محتاط واقع ہوئے ہیں۔ جب وہ کسی حکم کی توسیع و تطبیق کرتے بھی ہیں تو یہ ہمیشہ مزید شدت کی جانب ہوتی ہے۔ مسلمانوں میں ایک عام سوچ یہ ہے کہ سختی کی جانب غلط ہونا بہتر ہے۔ میں یہ کہنے سے قاصر ہوں کہ میں اس سوچ سے متفق ہوں۔
اختتام پر میں ہمارے عہد کی انسانیت اور قرآنی سزاؤں کے سلسلے میں چند معروضات پیش کردوں۔ میں یہ نہیں مانتا کہ جس عہد میں ہم جی رہے ہیں وہ اس عہد سے زیادہ مہربان اور رحم دل واقع ہوا ہے جس میں قرآن نازل ہوا تھا۔ گذشتہ صدی انسانی تاریخ کی سب سے خوں ریز صدی تھی۔ہوسکتا ہے کالج کیمپس کے پرسکون اور دل فریب پس منظر میں دنیا بھلے ہی بہت رحم دل نظر آئے لیکن امریکہ کے شہروں کی تاریک گلیوں، اور دنیا کے بہت سے دیگر مقامات سے یہ بہت سفاک نظر آئے گی جہاں شدید تشدد اور ناانصافی روزمرہ کا معمول ہے۔
اگرچہ یہ درست ہے کہ قرآن کی بعض سزائیں مغربی حساسیت سے ہم آہنگ نہیں ہیں، تاہم موجودہ مغربی حساسیت بھی کوئی ایسی معروضی کسوٹی نہیں ہے جو سماجی نظام کی انسانیت کو بحیثیت مجموعی ناپنے کا پیمانہ ہو۔ ہر معاشرہ جن افعال کو جرم قرار دیتا ہے، ان کے سدباب کے لیے سزاؤں کا التزام بھی رکھتا ہے، اور غالباً یہ کوشش بھی کرتا ہے کہ بے گناہ افراد کو تحفظ دینے کے لیے ضرورت سے زیادہ سخت سزاؤں کی تقاضوں میں توازن پیدا کرے۔ ظاہر ہے کہ ایک آئیڈیل قانونی نظام وہ ہوگا جو کم سے کم مجموعی انسانی تکلیف دے، خواہ وہ جرم کے شکار افراد ہوں یا سزا کے وقت مجرم۔ اگر مثال کے طور پر ایسا قانون بنایا جاسکے جو جرم کو مکمل طور پر ختم کردے اور اس سے شہریوں کو تکلیف یا دکھ بھی نہ ہو تو قطع نظر پینل کوڈ کے، یہی ممکنہ طور پر سب سے بہتر ہوگا کیوں کہ جرم کے نتائج و عواقب کسی کو بھگتنا نہیں پڑیں گے۔ جہاں کوئی قانونی نظام ایسا نہیں ہے جو مکمل طور پر جرائم کا خاتمہ کردے، وہیں ایسا کوئی پیمانہ بھی نہیں ہے جو انسانی تکلیف کو بحیثیت مجموعی ناپ سکے۔ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ایسا معاشرہ جو قرآن کے قوانین و اصول کا قریب ترین آئینہ دار ہوگا وہی کلی نقطہ نظر سے سب سے انسانیت نواز بھی ہوگا۔ بلاشبہ ایسا ماننا ایک چیز ہے، اور ایسا معاشرہ برپا کرنا بالکل دوسری چیز۔ لیکن یہی بات ہمیں پھر تعبیر کے سوال کی جانب لے جاتی ہے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2021