امہات المؤمنین اور اصلاح و تربیت

محمد رضی الاسلام ندوی

اللہ تعالیٰ نے امہات المؤمنین کو اعلیٰ مقام پر فائز کیا تھا۔ ان سے امت کی اصلاح و تربیت مقصود تھی۔ اس لیے انھیں اُمت کی ماؤں کا درجہ دیا گیا۔ تاکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد لوگ اُن کی تعلیم سے استفادہ کر سکیں اور وہ امت کی تربیت کے لیے فارغ رہ سکیں۔

مقام و مرتبہ

قرآن مجید میں امہات المؤمنین کے اس مقام و مرتبہ کا صراحت سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ انھیں امت کی دیگر عورتوں سے بلند قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا رشاد ہے:

یَا نِسَاءُ  النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ(الاحزاب:۳۲)

’’اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو‘‘۔

اس آیت کی تشریح میں مولانا مین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:

’’ یہ ازواج مطہرات کے مرتبہ کی طرف اشارہ ہے جو نبی ﷺ کے ساتھ نسبت کی بنا پر ان کو دنیا کی تمام عورتوں کے مقابل میں حاصل تھی۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد ان کے ہر قول و فعل کو امت کے لیے نمونہ و مثال کی حیثیت حاصل ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کا درجہ امہات المومنین کا قرار دیا‘‘۔ (۱)

اس بلند مقام کا لازمی تقاضا تھا کہ ان کی ذمہ داری دیگر عورتوں سے بڑھ کر قرار پائے۔ وہ کوئی نیک کام کریں تو زیادہ اجر کی مستحق ٹھہریں اور اگر ان سے کوئی غلط کام سرزد ہو جائے تو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ سخت انداز میں ان کی گرفت کی جائے۔ چنانچہ قرآن میں اس پہلو سے بھی انھیں متنبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یَا نِسَاءُ النَّبِیِّ مَن یَأْتِ مِنکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُضَاعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللَّہِ یَسِیْراً ۔وَمَن یَقْنُتْ مِنکُنَّ لِلَّہِ وَرَسُولِہِ وَتَعْمَلْ صَالِحاً نُّؤْتِہَا أَجْرَہَا مَرَّتَیْنِ وَأَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقاً کَرِیْما  (الاحزاب: ۳۰۔۳۱)

’’نبی کی بیویو! تم میں سے جو کسی صریح فحش حرکت کا ارتکاب کرے گی اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا۔ اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے۔ اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک کام کرے گی اس کو ہم دوہرا اجر دیں گے اور ہم نے اس کے لیے رزق کریم مہیا کر رکھا ہے‘‘۔

اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امہات المومنین سے کسی فحش حرکت کے صدور کا اندیشہ تھا، جس پر انہیں پہلے سے متنبہ کر دیا گیا، بلکہ اس میں ان کے مقام و مرتبہ کی یاد دہانی کرائی گئی ہے اور ان کی ذمہ داریوں کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے ان آیات کی تشریح میںلکھا ہے:

’’ اس سے مقصود حضورﷺ کی ازواج کو یہ احساس دلانا تھا کہ اسلامی معاشر ے میں ان کا مقام جس قدر بلند ہے اسی کے لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بھی بہت سخت ہیں۔ اس لیے ان کا اخلاقی رویہ انتہائی پاکیزہ ہونا چاہیے۔ گناہ پر دوہر ے عذاب اور نیکی پر دوہرے اجر کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ انسانی معاشرے میں کسی مرتبے پر سرفراز فرماتا ہے وہ بالعموم لوگوں کے رہ نما بن جاتے ہیں اور بندگانِ خدا کی بڑی تعداد بھلائی اور برائی میں انہی کی پیروی کرتی ہے۔ ان کی برائی تنہا انہی کی برائی نہیں ہوتی، بلکہ ایک قوم کے بگاڑ کا موجب بھی ہوتی ہے اور ان کی بھلائی صرف انہی کی انفرادی بھلائی نہیں ہوتی، بلکہ بہت سے انسانوں کی فلاح کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس لیے جب وہ برے کام کرتے ہیں تو اپنے بگاڑ کے ساتھ دوسروں کے بگاڑ کی بھی سزا پاتے ہیں اور جب وہ نیک کام کرتے ہیں تو انہیں اپنی نیکی کے ساتھ اس بات کی جزا بھی ملتی ہے کہ انھوں نے دوسروں کو بھلائی کی راہ دکھائی‘‘۔ (۲)

اُمتِ مسلمہ کی تربیت

امہات المومنین کو اس مقام پر فائز کرنے کی وجہ یہ تھی کہ انھیں اللہ کے رسول ﷺ کی ہر وقت صحبت حاصل تھی۔ آپؐ کی جلوت سے تو سب واقف تھے، لیکن آپؐ کی خلوت کی صرف امہات المومنین ہی امین تھیں۔ اس لیے انھیں یہ ذمہ داری دی گئی کہ آپؐ پر قرآن کریم کی جن آیات کا نزول ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہدایات، تعلیمات اور پیغامات آپ کو حاصل ہوں، اسی طرح آپ کے جو اقوال و افعال اور ارشادات و معمولات ان کے علم میں آئیں سب کو وہ محفوظ کریں اور پوری امانت و دیانت کے ساتھ امت تک پہنچائیں۔ اس لیے کہ آپ اپنی طرف سے نہ کچھ کہتے ہیں نہ کرتے ہیں۔ بلکہ جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی راست نگرانی میں اور اس کی رہ نمائی اور ہدایت کے مطابق ہوتاہے۔ چنانچہ امہات المومنین کو یہ ہدایت دی گئی:

وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلَی فِیْ بُیُوتِکُنَّ مِنْ آیٰتِ اللَّہِ وَالْحِکْمَۃِ إِنَّ اللَّہَ کَانَ لَطِیْفاً خَبِیْراً    (الاحزاب: ۳۴)

’’یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتوں کو، جو تمھارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں۔ بے شک اللہ لطیف اور باخبر ہے‘‘۔

اس آیت کے ذیل مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے لکھا ہے:

’’ نبیﷺ کی ازواج کو ان کا اصل مقصد زندگی بتایا گیا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے ان کاموں کے لیے نہیں منتخب فرمایا جن کی دعوت منافقات دے رہی ہیں، بلکہ قرآن اور حکمت کی جو تعلیم ان کے گھروں میں دی جارہی ہے وہ اس کا چرچا کریں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نبیﷺ کی بعثت جس طرح مردوں کی رہ نمائی کے لیے ہوئی تھی اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہوئی تھی۔ آپ جس طرح باہر لوگوں کو تعلیم دیتے تھے اسی طرح اپنے گھروں کے اندر بھی تعلیم دیتے تھے۔ وحی جس طرح آپ پر باہر نازل ہوتی تھی اسی طرح گھر کے اندر بھی نازل ہوتی تھی۔ نیز جس طرح آپ کا ہر قول لوگوں کے لیے تعلیم و ہدایت تھا اسی طرح آپ کا ہر فعل بھی لوگوں کے لیے اسوہ و نمونہ تھا۔ آپ کی زندگی پرائیویٹ اور پبلک کے الگ الگ خانوں میں منقسم نہیں تھی، بلکہ آپ کی حیات مبارکہ کا ہر لمحہ امت کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف تھا۔ اس وجہ سے ضروری ہوا کہ جس طرح آپ کی باہر کی زندگی کی ایک ایک ادا کو محفوظ کرنے کے لیے آپ کے جاں نثار سایہ کی طرح آپ کے ساتھ ساتھ رہیں، اسی طرح آپ کے گھر کے اندر کی زندگی کا بھی ایک ایک پہلو محفوظ رکھنے کا انتظام ہو۔ یہ کام ظاہر ہے کہ آپ کی ازواج ہی کے ذریعہ ممکن تھا۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ نبی ﷺ کا علم و عمل جتناآپ کی ازواج مطہرات کے ذریعہ پھیلا ہے، اس کی مقدار صحابہ کے ذریعہ پھیلے ہوئے علم سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اور اس آیت سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ اس مشن پر آپ کی ازواج مطہرات کو اللہ تعالیٰ نے خود مامور فرمایا تھا کہ ان کا کام دنیا کے خزف ریزے جمع کرنا نہیں ، بلکہ علم و حکمت کے ان خزانوں کو خلق کے اندر لٹانا ہے جن کی بارش ان کے گھروں کے اندر ہو رہی ہے‘‘۔ (۳)

ازواج مطہرات کی تربیت

یہی وجہ تھی کہ اللہ کے رسول ﷺ امہات المومنین کی دینی و اخلاقی تربیت کی طرف بھر پور توجہ فرماتے تھے۔ اس معاملے میں آپ ذرا بھی کمی یا کوتاہی محسوس کرتے تو غایت درجہ محبت کرنے کے باوجود فوراً  انھیں ٹوک دیتے تھے اور صحیح اسلامی تعلیمات کی طرف ان کی رہ نمائی فرماتے تھے۔ ذیل میں اس سلسلے کے چند واقعات پیش خدمت ہیں۔

ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے امہات المومنین کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے صحرا میں جانے کا قصد کیا۔ اس موقع پر حضرت عائشہؓ کو جو اونٹنی دی گئی وہ سدھائی ہوئی نہ تھی، اسی لیے صحیح طریقے سے نہیں چل رہی تھی۔ وہ اسے برا بھلا کہنے اور مارنے لگیں۔ اس پر اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

علیک بالرفق، فان الرفق لایکون فی شییٔ الازانہ ولا ینزع من شییٔ الاشانہ (۴)

’’نرمی اختیار کرو، جس چیز میں نرمی ہوتی ہے وہ خوب صورت ہو جاتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکل جاتی ہے وہ بد صورت ہو جاتی ہے‘‘۔

اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں یہود آتے تو ذو معنیٰ الفاظ استعمال کرتے۔ مثلاً وہ سلام کرتے تو السلام علیک کہنے کے بجائے السام علیک کہتے، جس کے معنیٰ ہیں: تم پر موت آئے۔ ایک مرتبہ وہ خدمت نبویؐ میں حاضر ہوئے تو انھوں نے اسی انداز میں سلام کیا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے سنا تو انھیں طیش آگیا۔ انھوں نے جواب میں کہا :

السام علیکم یا اخوان القردۃ ولخنازیر ولعنۃ اللہ وغضبہ (۵)

’’اے بندرواور خنزیرو کے بھائیو! تم پر موت آئے اور تم پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو‘‘۔

’’اللہ کے رسول ﷺ نے اس موقع پر بھی حضرت عائشہؓ کو سمجھایا اور انھیں نرمی اختیار کرنے کی تلقین کی۔

ام المومنین حضرت صفیہ بنت حییؓ پستہ قد تھیں۔ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے رسول اللہﷺ کے سامنے ان کا تذکرہ کیا تو اشاروں میں یہ بات کہہ دی۔ آپؐ کو سخت ناگوار گزرا۔ آپ نے فرمایا:

لقد قلت کلمۃ لو مزجت بماء البحر لمزجتہ (۶)

’’تم نے اتنی (کڑوی) بات کہی ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو اس کا پانی بھی کڑوا ہو جائے‘‘۔

حضرت عائشہؓ نے خود بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں نے کسی کی نقل اتاری تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا:

ما احب انی حکیت انساناً وان لی کذا و کذا (۷)

’’اگر مجھے ڈھیر سا مال ملنے کی امید ہو تب بھی میں کسی کی نقل نہیں اتاروں گا‘‘۔

نہی عن المنکر

اسی طرح امہات المومنین نے بھی معاشرہ اور اصلاح و تربیت کا فریضہ بخوبی نبھایا۔ رسو ل اللہ ﷺ کی وفات کے بعد وہ جتنا عرصہ بھی زندہ رہیں، اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے کوشاں رہیں۔ وہ دوسری عورتوں، لڑکیوں، اسی طرح مردوں اور نوجوانوں کو کوئی غلط کام کرتے ہوئے دیکھتیں تو فورا ٹوک دیتیں۔ کسی معاملے میں کوتاہی محسوس کرتیں تو انھیں توجہ دلاتیں اور مثالی اسلامی زندگی گزارنے کی تلقین کرتیں۔ اس سلسلے میں چند واقعات ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

حضرت عائشہؓ کے ایک گھر میں کچھ کرایہ دار تھے۔ وہ شطرنج کھیلا کرتے تھے۔ ان کو کہلا بھیجا کہ اگر تم اس حرکت سے باز نہ آؤ گے تو گھر سے نکلوا دوں گی۔ (۸)

حضرت عائشہؓ پردہ کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ اسحاق تابعی، جو نابینا تھے، خدمت میں حاضر ہوئے تو ان سے پردہ کیا۔ وہ بولے کہ مجھ سے کیا پردہ ؟ میں تو آپ کو دیکھ نہیں رہا ہوں، فرمایا: تم مجھے نہیں دیکھتے، لیکن میں تو تم کو دیکھتی ہوں‘۔ (۹)

حضرت عائشہؓ کی خدمت میں ایک بچہ لایا گیا ۔ اس کے سر کے نیچے لوہے کا ایک استرہ رکھا ہوا تھا۔ دریافت کیا: یہ کیا ؟ لوگوں نے کہا: اسے بھوت بھگانے کے لیے رکھا گیا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے وہ استرہ اٹھا کر پھینک دیا اور فرمایا: ’’اللہ کے رسولﷺ نے شگون سے منع فرمایا ہے۔ ایسا نہ کرو‘‘۔ (۱۰)

ایک دفعہ شام کی کچھ عورتیں حضرت عائشہؓ سے ملنے آئیں۔ شام میں حماموں کا رواج تھا۔ ان میں عورتیں برہنہ غسل کرتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا:’’ تم ہی وہ عورتیں ہو جو حماموں میں جاتی ہو۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے: جو عورت اپنے گھر سے باہر اپنے کپڑے اتارتی ہے وہ اپنے اور اللہ کے درمیان پردہ دری کرتی ہے‘‘۔ (۱۱)

ایک دفعہ موسم حج میں حضرت عائشہؓ نے ایک عورت کو دیکھا جس کی چادر میں صلیب کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ انھوں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا:  ’’اس کو اتار دو۔ اللہ کے رسول ﷺ ایسے کپڑوں کو دیکھتے تھے تو انھیں پھاڑ ڈالتے تھے‘‘۔ (۱۲)

ایک دفعہ ایک عورت ایک لڑکی کے ساتھ حضرت عائشہؓ کی خدمت آئی۔ وہ جو پازیب پہنی ہوئی تھی اس میں گھنگھرو تھے۔ چلنے پر اس سے آواز پیدا ہوتی تھی۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا:’’ گھنگھرو پہنا کر میرے پاس نہ لایا کرو۔ اس کے گھنگرو کاٹ دو‘‘۔ ایک عورت نے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا: ’’اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے: جس گھر میں یا قافلہ میں گھنٹا بجتا ہو وہاں فرشتے نہیں آتے‘‘۔ (۱۳)

حضرت حفصہ بنت عبد الرحمن حضرت عائشہؓ کی بھتیجی تھیں۔ ایک دن وہ ان کی خدمت میں نہایت باریک دوپٹہ اوڑھ کر آئیں۔ حضرت عائشہؓ نے دیکھا تو فوراً خفگی کا اظہار کیا اور اسے اتروا کر پھاڑ ڈالا۔ پھر فرمایا: ’’تمھیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ النور میں پردہ کے متعلق کیا احکام نازل کیے ہیں؟ اس کے بعد انھوں نے گاڑھے کا دوسرا دوپٹہ منگواکر انھیں اوڑھایا۔ (۱۴)

ایک مرتبہ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرؓ اپنی بہن حضرت عائشہؓ کے پاس ان سے ملنے آئے۔ نماز کا وقت ہو گیا تو جھٹ پٹ جلدی جلدی وضو کر کے چلے گئے۔ حضرت عائشہؓ نے ا نھیںٹوکا: ’’عبد الرحمن! وضو اچھی طرح کرو۔ اللہ کے رسول ﷺ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: وضو میں جو اعضاء خشک رہ جائیںگے ان پر جہنم کی پھٹکار ہے۔ (۱۵)

ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کسی کے گھر تشریف لے گئیں۔ دیکھا کہ صاحب خانہ کی دو لڑکیاں، جو جوانی کی عمر کو پہنچ گئی تھیں۔ بغیر چادر اوڑھے نماز پڑھ رہی ہیں۔ انھوں نے ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا:’’آئندہ کوئی لڑکی بغیر چادر اوڑھے نماز نہ پڑھے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا یہی حکم ہے‘‘۔ (۱۶)

ایک دفعہ ایک عورت حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے دریافت کیا: میری ایک بیٹی دلہن بنی ہے۔ بیماری کی وجہ سے اس کے بال جھڑ گئے ہیں۔ کیا میں اس کے بالوں میں دوسرے بال جوڑ سکتی ہیں؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے بال جوڑنے والیوں اور بال جڑوانے والیوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (۱۷)

غلطیوں کی اصلاح

ایک شخص حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا : اے ام المومنین! بعض لوگ ایک شب میں دو دو تین تین بار مکمل قرآن پڑھ لیتے ہیں۔ فرمایا: ’’ان کا پڑھنا اور نہ پڑھنا برابر ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ تمام رات نماز میں کھڑے رہتے تھے، لیکن سورہ البقرۃ، سورۂ آل عمران اور سورۂ النساء سے آگے نہیں بڑھتے تھے۔ آپ جب کسی بشارت کی آیت پر پہنچتے تو اللہ سے دعا مانگتے اور جب کسی وعید کی آیت پر پہنچتے تو اللہ سے پناہ مانگتے‘‘۔ (۱۸)

ایک مرتبہ موسم حج میں حضرت عائشہؓ منیٰ میں خیمہ زن تھیں۔ کچھ قریشی نوجوان ہنستے ہوئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے ہنسنے کا سبب دریافت کیا۔ ان لوگوں نے بتایا کہ ایک صاحب خیمہ کی ڈوری میں پھنس کر گر پڑے۔ یہ دیکھ کر بے ساختہ ہم لوگوں کو ہنسی آگئی۔ فرمایا: ہنسنا نہیں چاہیے۔ کسی مسلمان کو کانٹا بھی چبھتا ہے یا اس سے بھی معمولی کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بڑھا دیتا ہے اور اس کا گناہ معاف کر دیتا ہے۔ (۱۹)

ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ بنت الحارثؓ سے ملاقات کرنے ان کے گھر گئے۔ وہ عموماً خوش لبا س اور خوش ہیئت ہوا کرتے تھے، لیکن اس وقت ان کے بال بکھرے ہوئے اور ہیئت بگڑی ہوئی تھی۔ ام المومنین نے اس کا سبب دریافت کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے جواب دیا: میری بیوی ہی میرے سر میں تیل اور کنگھی کیا کرتی تھی اور آج کل وہ مخصوص ایام سے ہے، اس لیے یہ خدمت سر انجام نہیں دے سکتی۔ اس پر ام المومنین نے فرمایا:’’ پیارے بیٹے! ان ایام میں بھی عورت کے ہاتھ ناپاک نہیں ہوتے۔ ہم تو ان ایام میں بھی آں حضور ﷺ کی خدمت کیا کرتے تھے۔ آپ ہماری گود میں سر رکھ لیا کرتے تھے اور قرآن مجید پڑھتے پڑھتے سو جاتے تھے‘‘۔ (۲۰)

حضرت میمونہؓ کے پاس ایک مرتبہ ان کا کوئی عزیز اس حالت میں آیا کہ اس کے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی۔ یہ منظر ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ انھوں نے سخت غصے میں فرمایا: ’’یہاں سے چلے جاؤ۔ اگر تمہارا یہی معاملہ رہا تو آئندہ میرے گھر کبھی مت آنا‘‘۔ (۲۱)

امہات المومنین کے واقعات کی یہ محض چند مثالیں ہیں۔ ان سے واضح ہوتا ہے کہ ایک طرف اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی تربیت اور اصلاح میں دل چسپی لی اور انھیں اخلاق فاضلہ کا درس دیا تو دوسری طرف امہات المومنین نے بھی اس فریضہ کو بہ خوبی نبھایا۔ انھوں نے جہاں بھی اسلامی تعلیمات و احکام پر عمل کے معاملے میں کوتاہی پائی ، برملا ٹوکا اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کا حوالہ دے کر اصلاح فرمائی۔ کتب حدیث و سیرت میں اس کی کثرت سے مثالیں ملتی ہیں۔

حواشی و مراجع

(۱)  تدبر قرآن، تاج کمپنی دہلی: ۶؍ ۲۲۰

(۲)   تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز نئی دہلی: ۴؍۸۹

(۳)   تدبر قرآن: ۶؍۲۲۳۔۲۲۴

(۴)   احمد: ۲۴۹۳۸، مسلم: ۲۵۹۴، ابو داؤد: ۲۴۷۸

(۵)  مسند احمد: ۱۳۵۳۱  (۶)                             ابو داؤد: ۴۸۷۵

ٔ(۷)   ابو داؤد: ۴۸۷۵

(۸)   سیرت عائشہ، سید سلیمان ندوی، دارالمصنفین شبلی اکیڈ می اعظم گڑھ، ۱۹۹۶ء،                                                                    ص۱۶۶، بہ حوالہ الادب المفرد

(۹)    سیرت عائشہؓ، ص ۱۶۸، بحوالہ ابن سعد، جزء النساء، ص ۴۷

(۱۰)   الادب المفرد، باب الطیرۃ من الجن

(۱۱)    مسند احمد: ۶؍ ۱۷۳                                                                  (۱۲)                       مسند احمد: ۶؍ ۲۲۵

(۱۳)    مسند احمد: ۶؍ ۲۴۲                                                                (۱۴)                       مؤطا امام مالک، کتاب اللباس

(۱۵)   مسند احمد: ۶؍ ۲۵۸                                                                (۱۶)                        مسند احمد: ۶؍ ۹۶

(۱۷)  مسند احمد: ۶؍ ۱۱۱                                                                         (۱۸)                       مسند احمد: ۶؍ ۹۲

(۱۹)  مسلم ، باب ثواب المومن فیما یصیب

(۲۰)  روشن قندیلیں، حافظ محمد ادریس، چنار پبلی کیشنز سری نگر، ۲۰۱۳ء، ص ۷۸

(۲۱)  روشن قندیلیں، ص ۷۹

مشمولہ: شمارہ فروری 2018

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau