امہات المؤمنین قرآن و حدیث کے آئینے میں

ڈاکٹر محمد امین عامر

خطۂ ارض پر طبقۂ اناث میں امہات المؤمنین یا ازواج مطہرات کا وہ طبقہ نہایت پاکیزہ ترین ، ۔ معزز ترین اور محترم ترین طبقہ ہے جنہیں یہ خصوصیات اور عزت واحترام نبی ﷺ کے حبالئہ عقد میں شا مل رہنے کی وجہ سے حاصل ہیں قرآن نے گرچہ کسی ایک امّ المؤمنین کا بھی نام نہیں لیا ہے مگر ’’امہات ‘‘ اور ’’ازواج‘‘ کے الفاظ استعمال کر کے سبھی امہات المؤمنین اور ازاوج مطہرات کو یہ شرف اور اعزاز بخشا ہے کہ وہ عام مسلمان عورتوں کے نسبتا احترام و عزت اور شرف واعزاز میں حد درجہ افضل و اکرم ہیں اور ان کا مقام و مرتبہ دیگر مسلم خواتین سے بہت بلند وبالا ہے۔اس مختصر مقالہ میں ہماری یہ کوشش ہے کہ قرآن و حدیث کے آئینے میں امہات المؤمنین کی ذات گرامی اور انکے مقام و مرتبے کا جائزہ لیں تاکہ زندگی کی آخری سانس تک ان کا پاس و لحاظ اور آداب و احترام ملحوظ خاطر رہے اور ذرہ برابر بھی انکے تعلق سے کوئی منفی خیال وسوسہ انداز نہ ہو سکے ۔سب سے پہلے ہم قرآن مجید کے حوالے سے ان پر گفتگو کریں گے اور ان سے متعلق آیات پر دیگر مفسرین کی بحث پیش کریں گے۔قرآن میں ہمیں سب سے پہلے سورہ احزاب کی یہ آیت ملتی ہے جس میں پیغمبر ؑ کی بیویوں کو مومنوں کی ماؤں سے تعبیر کر کے عام مسلمانوں کو ان کی عزت اور احترام ملحوظ رکھنے کی ہدایت اور تعلیم دی گئی ہے ۔چنانچہ قرآن کہتا ہے اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ۝۰ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللہِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُہٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا۝۰ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا۝۶ (۱)   ترجمہ: ’’نبی کا مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق ہے ،اور آپ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں،اور اللہ کے حکم میں مسلمانوں اور ہجرت کرنے والوں سے زیادہ آپس کے رشتہ داروں کا ایک دوسرے پر حق ہے سوائے اس کے کی تم اپنے دوستوں کے ساتھ احسان کرو،یہ کتاب کا لکھا ہے ۔‘‘

اس آیت میں عام مسلمانوں سے نبی ﷺ کی بالاتر شخصیت اور ذات گرامی کا تذکرہ کرنے کے علاوہ ان کی ازواج کا بھی تذکرہ کر کے مسلمانوں کے یہ ذہن نشیں کرایا گیا ہے کہ جس طرح رسول اکرم ﷺ کی ذات گرامی شرف وفضل کا درجہ رکھتی ہے اسی طرح ازواج مطہرات بھی اپنی شخصت اور ذات میں نہایت افضل اور اشرف ہیں یعنی ان کے احترام و تکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں مومن مردوں اور مومن عورتوں کی وہ مائیں ہیں۔اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی ؒ رقمطراز ہیں :’’کہ نبی ﷺ کا مسلمانوں سے اور مسلمانوں کا نبی ﷺ سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانی تعلق سے ایک بالاتر نوعیت رکھتا ہے۔کوئی رشتہ اس رشتہ سے اور کوئی تعلق اس تعلق  سے جو نبی ﷺ اور اہل ایمان کے درمیان ہے، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا………اور نبی ﷺ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منھ بولی مائیں تو کسی معنی میں بھی ان کی ماں نہیں ہیں لیکن نبی ﷺ کی بیویاں اسی طرح ان کے لئے حرام ہیں جس طرح  ان کی حقیقی مائیں حرام ہیں ۔یہ مخصوص معاملہ نبی کریم ﷺ کے سوا دنیا میں کسی اور انسان کے ساتھ نہیں ہے۔اس سلسلہ میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواج نبی ﷺ صرف اس معنیٰ میں امہات المومنین ہیں کہ ان کی تعظیم وتکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح نہیں ہو سکتا تھا‘‘۔(۲)

امہات المؤمنین کی زندگی کا ایک آئینہ وہ ہے جس میں ان کی کچھ ایسی تصویر بھی عام عورتوں کی طرح جھلکتی نظر آتی ہے جسے قرآن نے واضح الفاظ میں پیش کیا ہے مگر امہات المؤمنین کو جب قرآن کی وہ آیت سنائی گئی تو انہوں نے سمعنا و اطعنا کے مصداق رسول خداسے علیحدگی اختیار کرنا گوارا نہ کیا اور ان کی صحبت میں رہ کر دنیا کے عیش وآرام کو آخرت کی ابدی زندگی پر ترجیح دی۔چناچہ قرآن انکا وہ آئینہ اس طرح پیش کرتا ہے۔’’یاایھا النبی قل لازواجک ………اجرا عظمیا(۳)ترجمہ : ’’اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اورا ٓخرت کا گھر ہے تو (یقین مانو) کہ تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں۔‘‘

اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف رقمطرزا ہیں ـ:’’فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہو گئی تو انصار و مہاجر ین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔نبی ﷺ چونکہ نہایت سادگی پسند تھے ،اس لئے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئے اور بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی جو ایک مہینہ تک جاری رہا بالآخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔اس کے بعد سب سے پہلے آپﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو یہ آیت سنا کر انہیں اختیار دیا تا ہم انہیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کے بجائے اپنے والدین سے مشورہ کے بعد کوئی اقدام کرنا۔حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں ؟ بلکہ میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کو پسند کرتی ہوں ۔یہی بات دیگر ازواج مطہرات ؓ نے بھی کہی اور کسی نے بھی رسول ﷺ کو چھوڑ کر دنیا کے عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی‘‘۔(۴)

اس تفسیر سے واضح ہوتا ہے کہ امہات المؤنین رسول ﷺ سے بیحد محبت رکھتی تھیں اور ذرہ برابر بھی اپنے پیارے حبیب کو اپنی ذات سے رنج و غم میں مبتلا دیکھنا گوارا نہیں رکھتی تھیں اور وہ اس حدیث کی مکمل آئینہ دار تھیں جس میں حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ’’لا یُؤمِنُ اَحَدُکُم حتیٰ اَکونَ اَحَبَّ اِلیہ مَن وَّالدَہ وَوَلَدَہ وَالنَّاسَ اَجْمَعَین ‘‘  ترجمہ:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کے دل میں میری محبت اپنے باپ،بیٹے اور سب انسانوں سے زیادہ نہ ہو جائے۔(۵)

امہات المؤمنین قرآن کے اس آئینہ میں بھی جلوہ گر نظر آتی ہیں جس میں انہیں عام عورتوں سے بالکل جداگانہ صفات کا حامل قرار دیکر انہیں عزت و احترام کا درجہ عطا کیا گیا ہے اور انہیں پرہیز گاری اختیار کرنے اور نیکوکاری کی تعلیم دی گئی ہے تاکہ وہ نبی ﷺ کے حبالئہ عقد میں رہ کر خود اپنے مقام و منصب کوپہچانیں اور عام عورتوں کی روش سے ہٹ کر ایسے امور انجام دیں جو انہیں دوسری عورتوں سے ممتاز اور ممیز کر سکے اور اپنی دینی و دنیاوی زندگی کو پاکیزہ تر بناکر وہ دسروں کے لئے نمونہ بنیںاور ازواج مطہرات کی حیثیت سے اپنی شناخت اور اعلیٰ تر مقام برقرار رکھ سکیں ۔قرآن ان سے متعلق یہ تصویر کشی کرتا ہے ’’یٰنساء النبی لستن کاحد من النساء………ان اللہ کان لطیفا خبیرا‘‘ ترجمہ: اے نبی کی بیویو!تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی خیال کرے اور ہاں قاعدہ کے مطابق کلام کرو اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیمی جاہلیت کے زمانہ کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو ۔اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو ! تم سے وہ(ہر قسم کی)گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو یقینا اللہ تعالیٰ لطف کرنے والا خبردار ہے۔‘‘(۶)

ان آیات کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع صاحب کہتے ہیں کہ (۱)اس آیت میں جو ازواج مطہرات کی افضلیت اور فوقیت بیان کی گئی ہے وہ ایک خاص حیثیت یعنی ازواج نبی ﷺ اور نساء النبی ﷺ ہو نے کی ہے جس میں وہ تمام عالم کی عورتوں سے بلاشبہ افضل ہیں اور (۲)لستن کاحد من النساء کے بعد  ان التقیتن  یہ شرط اس فضیلت کی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو نساء النبی ہو نے کی وجہ سے بخشی ہے ،مقصود اس سے اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ فقط اس نسبت و تعلق پر بھروسا کر کے نہ بیٹھ جاؤکہ ہم ازواج رسول ہیں بلکہ تقویٰ اور اطاعت الٰہی پر فضیلت کی شرط ہے ۔اس طرح(۳)عورتوں کے پردہ سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ‘‘عورتوں کے لئے اجنبی مردوں سے اجتناب اور پردہ کا وہ اعلیٰ مقام حاصل کرناہے کہ جس سے کسی اجنبی ضعیف الایمان کے دل میں کوئی طمع یا میلان پیدا ہو سکے اس کے پاس بھی نہ جائے اور یہ کہ عورتیں گھروں میں رہیں یعنی بلا ضرورت شرعیہ باہر نہ نکلیں کہ جس طرح اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت کی عورتیں اعلانیہ بے پردہ پھرتی تھیں اور جس میں اس طرح کی بے حیائی اور بے پردگی کا مشاہدہ اب ہر جگہ ہو رہا ہے ۔‘‘(۷)

’’او ر اللہ کی آیات اور حکمت کی ا ن باتوں کو یاد رکھوجو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں ‘‘اس آیت کی تفسیر میں مولانا شمس پیرزادہ رقمطراز ہیں کہ :’’اللہ کی آیت سے مراد قرآن کی ٓیتیں ہیں اور حکمت سے مراد نبی ﷺ کی تعلیم اور آپ کے ارشادات ہیں ان کو یاد رکھنے کا حکم خصوصیت کے ساتھ ازواج مطہرات کو دیا گیا تاکہ سب سے پہلے وہ اس روشنی سے اپنی زندگیاں منور کریں اور ساتھ ہی اس فیض کو عام کرنے میں لگ جائیں ۔اس حکم کی تکمیل میں ازواج مطہرات نے حدیث کی جو خدمات انجام دیں اس کے لئے پوری امت ان کی مرہون منت ہے‘‘۔(۸)

مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں قرآن کے مطابق امہات المؤمنین کی جو صاف ستھری اور پاکیزہ تصویر ابھرتی ہے وہ یہ کہ وہ تقویٰ شعار، نیکوکار، اطاعت گزار اور اپنے شوہر کی تابعدار اور فرمانبردار تھیں اور مزید یہ کہ وہ دین شناس، اسلام کی علمبر داراور دین کی خدمت گار تھیں کہ جن کی بدولت علوم دین کی ایسی اشاعت ہوئی کہ عصر حاضر کی مسلمان عورتوں کے لئے وہ لائق صد فخر نمونہ ہیں۔

قرآن کے آئینہ میں جب ہم ازواج مطہرات کاذکر تلاش کرتے ہیں تو سورہ التحریم میں تذکرے کی دو صورتیں مزیدابھر کرسامنے آتی ہیں۔چناچہ سورۃ الحریم کی یہ آیت ہے  اذ اسر النبی ………علیم الخبیر‘‘(۹) ترجمہ: اور جب نبی ﷺ نے اپنی بیوی سے راز میں ایک بات کہی پھر جب اس بیوی نے اسے ظاہر کر دیا اور اللہ نے نبی  کو باخبر کردیا تو نبی نے (اس بیوی)کو کسی حد تک خبردار کیا اور کسی حد تک درگزر کیا۔جب نبی نے بیوی کو یہ بات بتلائی تو اس نے پوچھا آپ  کو اس کی خبر کس نے دی؟ نبی نے کہا مجھے اس نے خبر دی جو سب کچھ جاننے والا اور خبررکھنے والا ہے‘‘۔یہاں اس بحث میں پڑے بغیر کہ نبی ﷺ نے اپنے کس زوجہ مطہرہ سے راز کی کون سی بات کہی تھی ور انہوں نے کس پر یہ راز افشاکر دیا ہم یہ نکتہ پیش کرنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی زوجہ نبی کے اعلیٰ مقام اور منصب سے یہ بات میل نہیں کھاتی کہ ان سے راز کی کوئی بات کہی جائے اور وہ افشا کر دیں جس پر انہیں بعد کی آیت میںتنبیہ کی گئی۔یہی اکی ایکک ہلکی سی منفی تصویر ہے جو قرآن نے پیش کی ہے۔اس کے بعد جس آیت میں انکے قصور پر تنبیہ کیا گیا اور انہیں وعید یںسنائی گئیں نیز انہیں انابت اور رجوع الی اللہ کا بہتر طریقہ سکھایا گیا ہے وہ آیات یہ ہے’’ان تتوباالی اللہ……بعد ذٰلک ظہیر‘‘(۱۰)  ترجمہ:’’اگر تم دونوں اللہ کے حضور توبہ کرو تو (تمہارے لئے بہتر ہے)تمہارے لئے دل اس کی طرف مائل ہو چکے ہیں اور اگر تم دونوں مل کر اس کو ناراض کرو تو (یاد رکھو )اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرئیل اور صالح مومنین اور فرشتے اس کے مددگار ہیں‘‘ اس آیت سے ان امہات المؤمنین کی وہ مثبت تصویر نمایا ہوتی ہے کہ جب انہیں انکے قصور و ں اور لغزشوں پر ٹوکا گیا تو وہ اپنے ان نا پسندیدہ طرز عمل پر اڑی نہیں رہیں بلکہ انکے دل احساس ندامت سے جھک گئے جیسا کہ مذکورہ آیت کا یہ ٹکڑا فقد ’’صغت قلوبکما‘‘اس امر پر دال ہے۔اور وہ صادق الایمان اور راست باز مومنہ کی طرح ہو گئیں کیونکہ ایک بندئہ مومن جب اپنی لغزشوں پر شرمسار ہو کر خدا سے مخلصانہ طور پر توبہ و استغفار کرتا ہے تو وہ ایسا ہو جاتا ہے کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔

اس طرح امہات المؤمنین کا یہ قرآنی آئینہ ہے جو عصر حاضر کی مسلم خواتین کے لئے ایک مکمل نمونہ ہے جسے پیش نظر رکھ کر انہیں اپنی زندگی کے آئینوں کو صاف ستھری بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی زندگی کے یہ آئینے زنگ آلود ہونے سے بچے رہیں۔امہات المؤمنین احادیث کے آئینے میں:احادیث کی رو سے حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے جو آئینے پیش کئے گئے ہیں ان میں سے حضرت علی ؓ کی روایت سے رسول کریم ﷺ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے’’مریم بنت عمران اپنی امت میں سب سے بہتر عورت ہیں اور خدیجہ بنت خویلد اپنی امت میں سب سے بہتر عورت ہیں ‘‘۔دوسری روایت حضرت ابو ہریرہ ؓ کی ہے جس میں حضرت جبرئیل ؑ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور بولے کہ یا رسول اللہ ﷺ ابھی خدیجہ (مکہ سے چل کر غار حرا میں)آ رہی ہیں ،ان کے ساتھ برتن ہے جس میں سالن (اور روٹی)ہے یا کھانا ہے،جب وہ آپ کے پاس پہنچ جائیں تو آپﷺ ان کے پروردگار کی طرف سے اور میری طرف سے بھی ان کو سلام کہہ دیجئے اور ان کو جنت میں ایک محل کی خوشخبری سنا دیجئے جو خولدار موتی کا ہے اور اس محل میں نہ شور و غل ہے ،نہ تکلیف وتکان ہے۔‘‘(۱۱)

مذکورہ بالا احادیث میں بالترتیب لسان صدق بنوت سے حضرت خدیجہ ؓ کے شرف وفضل کا اظہار اور لسان روح الامین سے حضرت خدیجہ ؓ کو بواسطئہ زبان نبوت’’فاقراعلیہا السلام من ربہم ومنی‘‘یعنی ان کو سلام کہہ دیجئے کا تحفئہ عظیم ام المؤمنین حضرت خدیجہ ؓ کے عظیم المرتبت مقام و منصب اور گرانقدر شخصیت کو نہ صرف یہ کہ اجاگر کرتا ہے بلکہ دیگر امہات المؤمنین پر بھی انہیں فضیلت بخشتا ہے۔اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کی یہ فضیلت بخاری و مسلم کی روایت سے بیان کی جاتی ہے کہ ایک روزرسول کریم ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایایاعائشہ ھذا جبرئیل یقرأک السلام قالت و علیہ السلام ورحمۃ اللّٰہ(۱۲)یعنی اے عائشہ !یہ جبرئیل ؑ(یہاں میرے سامنے )ہیں تم کو سلام کہتے ہیں ۔حضرت عائشہ ؓ نے اس سلام کے جواب میں کہا اور جبرئیل پر بھی اللہ کی سلامتی اور رحمت نازل ہو ۔

حضرت عائشہ ؓ کی امتیازی فضیلت سے متعلق بخاری ومسلم کی روایت کردہ ایک طویل حدیث ہے جس میں رسول اکرم ﷺ نے حضرت ام سلمہ ؓ کی ٹولیوں میں جو امہات المؤمنین تھیں ان سے مخاطب ہو کر کہا ’’فقال لھا لاتؤذنی فی عائشہ فان الوحی لم یاتنی وانا فی ثوب امرأۃ الا عائشہ‘‘(۱۳)یعنی ’’تم مجھے عائشہ کے بارے میں تکلیف مت پہونچاؤصرف عائشہ ہی میری ایک ایسی بیوی ہے کہ اگر میں لحاف اور بستر میں ہوتا ہوں تو اس وقت بھی مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے‘‘۔چناچہ حضرت عائشہ ؓ ایک روایت میں فرماتی ہیں کہ آیت کریمہ انک لا تھدی من احببت……نازل ہوئی تو اس وقت میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ اپنے لحاف میں تھی۔(۱۴)

چنانچہ حضرت جبرئیل کا حضرت عائشہ ؓ کو نذرانئہ سلام اور رسول اکرم پر حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ ہم بستر ہونے کے بوقت نزول وحی حضرت عائشہ ؓ کے فضل و شرف پر دال ہے۔اس کے علاوہ دیگرامتیازی خصوصیات میں حضرت عائشہ ؓ کو فضل وکمال میں بھی خصوصی حیثیت حاصل تھی چنانچہ سیرالصحابیات میں حضرت عائشہ ؓ سے متعلق جو اقوال درج ہیں انہیں ذیل میںپیش کر رہا ہوں:۔

’’علمی حیثیت سے حضرت عائشہ ؓ کو نہ صرف عورتوں اور دیگر امہات المؤمنین پر بلکہ باستثنائے چند تمام صحابہ ؓ پر فوقیت حاصل تھی ۔جامع ترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے ،’’ہم کو کبھی کوئی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی جس کو ہم نے عائشہ سے پوچھاہو اور ان کے پاس اس کے متعلق کچھ معلومات نہ ملے ہوں۔

امام زہری ؒ جو سرخیل تابعین تھے، فرماتے ہیں:’’ عائشہ ؓ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں، بڑے بڑے اکابر صحابہ ؓ ان سے پوچھا کرتے تھے‘‘۔

حضرت عروہ بن زبیر ؓ کا قول ہے:’’ قرآن، فرائض، حلال وحرام، فقہ، شاعری، طب ، عرب کی تاریخ اور نسب کا عالم عائشہ ؓ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘

امام زہری ؒ کی ایک شہادت ہے :’’اگر تمام مردوں اور امہات المؤمنین کا علم ایک جگہ جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ ؓ کا علم وسیع تر ہوگا‘‘۔(۱۵)

مذکورہ بالا احادیث اور اقوال کے آئینے میںحضرت عائشہ ؓ کی بہتر سے بہتر تصویر کا ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی حضرت عائشہ کے فضل وکمال اور شرف وعزت سے متعلق مزید اقوال اور احادیث ہیں جو مختصر مقالہ میں پیش ہونے سے قاصر ہیں ۔ام المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ بھی حدیث کے آئینے میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ا نکے فضل و کمال کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان سے صرف پانچ حدیثیں مروی ہیں جن میں سے بخاری مین صرف ایک اور سنن اربعہ میں چار حدیثیں ۔ صحابہ ؓ میں حضرت ابن عباس ؓ ،ابن زبیر ؓ اور یحیٰ بن عبد الرحمٰن نے ان سے روایت کی ہے۔انکے سیرت و کردار اور اخلاق کا آئینہ حضرت عائشہ ؓ کا یہ قول ہے کہ:

’’سودہ کے علاوہ کسی عورت کو دیکھ کر مجھے یہ خیال نہیں ہوا کہ اس کے قالب میں میری روح ہوتی ‘‘(۱۶)

حضرت سودہ ؓ کی اس سے بڑھ کر عظمت و مرتبت کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ تکیہ کے سہارے لیٹی ہیں کہ آسمان پھٹا اور چاند ان پر گر پڑا۔انہوں نے جب خواب اپنے پہلے شوہر حضرت سکران بن عمرو سے بیان کیا تو وہ بولے’’اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ میں عنقریب فوت ہو جاؤنگا اور تم عرب کے چاند محمد ﷺ کے نکاح میں آؤگی‘‘اس کے بعدحضرت سودہ رمضان  ۱۰   ؁نبوی میں حرم نبوت میں شامل ہوئیں۔(۱۷) ام المؤمنین حضرت حفصہ ؓبنت عمر ؓ کی یہ خوش نصیبی اور شرف و عزت کی بات ہے کہ ن کے شوہر خنیس بن خذافہ ؓ کی مدینہ میں وفات  کے بعد رسول اکرم ﷺ نے خود ہی انہیں نکاح کا پیغام بھیجا اور وہ حرم نبوت میں داخل ہوئیں۔ ان کے فضل و کمال کا آئینہ یہ ہے کہ حضرت حفصہ ؓ سے ۶۰ حدیثیں منقول ہیں جو انہوں نے آنحضرت ﷺ اور حضرت عمرؓ سے سنی تھیں ۔خدا نے انہیں تفقہ فی الدین عطا کیا تھا۔ان کی نیکو کاری ا ور عبادت گزاری کا یہ حال تھا کہ بقول ابن سعد ’’وہ (یعنی حفصہؓ)صائم النہار اور قائم اللیل ہیں اور انتقال کے وقت تک صائم رہیں۔‘‘ (۱۸)

حافظ ابن عبد البر ؒ نے ’’الاستعاب‘‘میں یہ حدیث ان کی شان میں بیان کی ہے کہ ایک مرتبہ جبرئیل امین نے حضرت حفصہ کے بارے میں یہ الفاظ حضور ﷺ کے سامنے کہے’’وہ بہت عبادت کرنے والی،بہت روزے رکھنے والی ہیں (اے محمد ﷺ )وہ جنت میں بھی آپ کی زوجہ ہیں‘‘۔(۱۹)بھلا جس کی نیکو کاری اور تقویٰ شعاری کی شہادت جبرئیل امین کی زبان پیش کرتی ہو اس کے فضل و کمال اورشرف و عظمت کا کیا پوچھنا۔ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش ؓ کی اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت مندی اور اقبال مندی کی با ت ہوگی کہ جب حضرت زید بن حارثہؓ سے ان کا نباہ نہ ہو سکا تو انہوں نے حضرت زینب ؓ کو طلاق دے دیا تو آنحضرت ﷺ حضرت زینب ؓ کی طرف مائل ہوگئے اور حضرت زید ؓ کی معرفت نکاح کا پیغام بھیجا۔حضرت زینب ؓ یہ خوشخبری پا کر استخارہ کی خاطر نماز میں کھڑی ہو گئیں اور ادھر آنحضرت ﷺ پر وحی نازل ہوئی: فلما قضیٰ زید منھا وطرا زوجنٰکھا(۲۰)’’پھر جب زید کا ان (زینب)سے جی بھرگیا ہم نے آپ ﷺ سے ان کا نکاح کر دیا۔اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا خود ہی حضرت زینبؓ اور آنحضر تﷺ کے درمیان دخیل ہو کر انکے نکاح کا سبب بنا جو حضرت زینب ؓ کے شرف ومرتبہ پر دال ہے۔لہٰذا حضرت زینب ؓ اس کے بعد فخرسے دوسری بیویوں سے کا کہا کرتی تھیں کہ تمہارانکاح تمہارے عزیزوں نے آنحضرت ﷺ سے کیا اور میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے کردیا۔(۲۱)

قرآن کے آئینہ میں حضرت زینب ؓ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ سے نکاح کے بعد نزول حجاب کا واقعہ پیش آیا جسکا ذکر قرآن میں موجود ہے ۔حضرت عائشہ ؓ کے قول کے مطابق عبادت اور تقویٰ میں حضرت زینب کا بڑا مقام تھا اور وہ بہت ہی خداترس ، پاکباز،راستباز، صلہ رحمی کرنے والی اور صدقہ کرنے والی تھیں۔(۲۲)لہٰذا قرآن و حدیث کے آئینہ میں حضرت زینب ؓ کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ ان کے مقام ومرتبہ کو بلند وبالا کرنے والی ہے۔

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ کی یہ خوش بختی تھی کہ ابو سلمہ ؓ کی وفات سے جو شدید صدمہ انہیں پہنچا تھا خداوند تعالیٰ نے اس کو اس طرح ابدی مسرت میں تبدیل کر دیا جس کا اظہار انہوں نے اسطرح کیا ۔ چناچہ سنن ابن ماجہ نے ان کا یہ قول اسطرح نقل کیا ہے:’’جب ابو سلمہ ؓ نے وفات پائی تو میں نے وہ حدیث یاد کی جس کو وہ مجھ سے بیان کیا کرتے اور میں نے دعا شروع کی توجب میں یہ کہنا چاہی کہ خداوندا!مجھے ابو سلمہ ؓ سے بہتر جانشین دے تو دل کہتا کہ ابو سلمہ سے بہتر کون مل سکتا ہے؟لیکن میں نے دعا کوپڑھنا شروع کیا تو ابو سلمہؓ کے جانشین آنحضرت ﷺ ہوئے‘‘۔(۲۳)

ام سلمہ ؓ کو حضور کی جانشینی کا شرف حاصل ہونا کسی سعادتمندی سے کم نہیں جو انکے درجات اور مراتب میں اضافہ کی دلیل ہے۔انکے فضل وکمال سے متعلق محمود بن لبید کا قول ہے کہ:

’’آنحضرت ﷺ کی ازواج احادیث کا مخزن تھیں ،تاہم عائشہؓ اور ام سلمہؓ کا ان میں کوئی حریف مقابل نہ تھا‘‘

حضرت ابو ہریرہؓ اور ابن عباس ؓ دریائے علم ہونے کے باوجود ان کے دریائے فیض سے مستغنی نہ تھے ،تابعین کرام کا ایک بڑا گروہ ان کے آستانئہ فضل پر سر بر تھا اور علامہ ابن قیم کے بقول انکے فتاویٰ اگر جمع کئے جائیں تو ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہو سکتا ہے جو ان کی دقیقہ رسی اور نکتہ سنجی کا کرشمہ ہے۔ ان کی خصوصیت یہ تھی کی حدیث و فقہ کے علاوہ انہیں اسرار کا بھی علم تھا۔(۲۴)

امہات المؤمنین میں حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ شروع ہی سے نہایت دریا دل اور کشادہ دست تھیں ۔فقیروں اور مسکینوں کی امداد کے لئے ہروقت کمر بستہ رہتی تھیں اور بھوکوں کو نہایت فیاضی سے کھاناکھلایا کرتی تھیں ۔ان صفات کی وجہ سے وہ لوگوں میں ’’ا م المساکین ‘‘ کے لقب سے مشہور ہوگئیں تھیں۔سرور کائنات ﷺ کے حبالئہ عقد میں آئے ہوئے انہیں دو تین مہینے ہی گذرے تھے کہ پیغام اجل آگیا۔خیر البشر ﷺ نے خود نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع مین دفن فرمایا۔حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے بعد حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ ہی کو یہ شرف حاصل ہوا کہ حضور نبی کریمﷺکے ہاتھو ں میں رخصت ہوئیں(۲۴)اسطرح حدیث کے آئینہ میں انکے اخلاق کریمانہ اور خدمت خلق کی جو جھلکیاں نظر ٓتی ہیں وہ ان کے شرف وفضل پر دلالت کرتی ہیں۔

ام المؤمنین حضرت جویریہ بنت حارث ؓ کی اس سے بڑھ کر اور سعادتمندی کیا ہو سکتی ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی خواہش پر وہ برضا ورغبت حرم نبوت میں داخل ہوئیں۔ ان کی خوش بختی یہ تھی کہ ان کا نام پہلے برہ تھا جس میں بد فالی تھی رسول ﷺ نے بدل کر ان کا نام جویریہ رکھا۔انکی دوسری خوش بختی یہ تھی کہ انکے حرم نبوت میں داخل ہوتے ہی تمام اسیران جنگ رہا کر دئے گئے۔فوج نے کہا جس خاندان میں رسول ﷺ نے شادی کر لی وہ غلام نہیں ہو سکتا۔حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں کسی عورت کو جویریہ سے بڑھ کر اپنی قوم کے حق میں مبارک نہیں دیکھا،ان کے سبب سے بنو مصطلق کے سینکڑوں گھرانے آزاد کر دئے گئے۔حضرت جویریہ نہایت عابدہ،زاہدہ،صائم،فرمانبردار نبوت، خداترس اورمتبع سنت تھیں۔آنحضرت ﷺ سے چند حدیثیں بھی انہوں نے روایت کی ہیں۔(۲۵)

ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ فرماتی تھیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے کوئی شخص  یا ام المؤمنین کہہ رہاہے۔یہ خواب دیکھ کر میں چونک گئی پھر بعد میں اس کی یہ تعبیر ہوئی کہ حرم نبوت میں داخل ہونے کا شرف مجھے حاصل ہوا۔(۲۶)وہ بہت نیک فطرت اور صالح خاتون تھیں ۔ان کے فضل وکمال کا یہ حال تھا کہ حدیث کے آئینے میں ان سے ۶۵ روایتیں منقول ہیں جو انکے شرف و مرتبت پر دال ہیں۔(۲۷)ام المؤمنین حضرت میمونہ بنت حارث ؓ کا آئینئہ حدیث اسطرح مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ ان سے ۴۶ اور بقول بعض ۷۶ احادیث مروی ہیں،ان میں سے ۷متفق علیہ،ایک بخاری اور۵ میں مسلم منفرد ہیں(۲۸)حضرت عائشہ ؓ کے بقول میمونہ ؓ خداترس تھیں اور صلہ رحمی کرنے والی ھیں۔احکام نبوی کی تعمیل ہر وقت پیش نظر رہتی تھی۔حضرت یزید بن الاصم کے مطابق حضرت میمونہ ؓ ہمیشہ نماز اور خانہ داری میں لگی رہتیں اور ان سے فراغت کے بعد مسواک کرنے لگتیں(۲۹)

ام المؤمنین حضرت صفیہ ؓ محاسن اخلاق کا مجموعہ تھیں ،نہایت عاقل ،فاضل اور حلیم الطبع تھیں دیگر ازواج کی طرح علم و فضل میں انکا مرتبہ بہت بلند تھا ۔کوفہ کی عورتیں اکثر انکے پاس مسائل دریافت کرنے آتیں۔ان سے چند حدیثیں بھی مروی ہیں ۔حضور ﷺ انہیں بہت عزیز رکھتے تھے اور ہمیشہ انکی دلجوئی کیا کرتے تھے ۔حضرت صفیہ ؓ بھی آنحضرت ﷺ سے نہایت محبت رکھتی تھیں اور حضور ﷺ کو کسی رنج و غم اور بیماری میں مبتلا دیکھنا پسند نہیں کرتی تھیں۔چنانچہ جب آپ ﷺ علیل ہوئے تو نہایت حسرت سے بولیں’’کاش آپکی بیماری مجھ کو ہو جاتی‘‘ازواج نے انکی طرف دیکھنا شروع کیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ سچ کہہ رہی ہیں یعنی ان میں تصنع کا شائبہ نہیں ہے۔(۳۰)حضرت صفیہ ؓ کا حضور ﷺ سے اس طرح محبت انکے شرف و عظمت مین چار چاند لگا تی ہے جس سے انکا آئینہ حدیث بہت صاف ستھرا اور نمایاں ہے۔ام المؤمنین حضرت ریحانہ بنت شمعون ؓ کے بارے میں یہ روایت ہے کہ وہ جب اسیر ہو کر بارگاہ رسالت میں لائی گئیں تو حضورﷺنے ان سے فرمایا ’’اگر تم اللہ اور رسول کو اختیار کر لو تو میں تمہیں اپنے لئے خاص کر لونگا‘‘۔انہوں نے عرض کیا ،میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں (۳۱)اس سے بہتر انکی تصویر اور کیا ہو سکتی تھی کہ انہوں نے اپنے مذہب کو اللہ اور اس کے رسول پر ترجیح دی اور حرم نبوت میں داخل ہو کر امہات المؤمنین کے زمرے میں شامل ہوئیں۔

اسی طرح رسول اکرم ﷺ نے حضرت ماریہ قبطیہ ؓ کو بھی اپنے حبالئہ عقد میں لا کر امہات المؤمنین کے زمرے میں انہیں شامل کیا اور ان پر یہ احسان فرماکر انہیں شرف وعظمت سے نوازا۔حضرت عائشہ ؓ فرمایا کرتی تھیں کہ جتنا رشک مجھے پاکباز ماریہ پر آتا ہے کسی دوسرے پر نہیں اور حافظ ابن کثیر ؒ کے بقول حضرت ماریہ ؓ  نہایت پاکباز اور نیک سیرت تھیں ۔حضور ﷺ کے وصال کے بعد خلیفئہ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ نے بھی ام المؤمنین کا شرف حاصل کرنے کی بنا پر حضرت ماریہ ؓ کا اعزاز و اکرام برقرار رکھا۔(۳۲)الغرض قرآن و حدیث کے آئینے میں امہات المؤنین کی جو نمایا ں تصویرانکے فضل و کمال،شرف و عظمت اور اکرام واعزاز کی بنا پر ابھر تی ہے اسے بالاختصار اس مقالہ میں پیش کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے ۔تاہم انکی بہتر سے بہتر تصویر تصویر کشی کرنے میں اس احقر سے خامیاں اور کوتاہیاں رہ گئی ہیں خدا اسے معاف فرمائے اور امہات المؤمنین کی قبروں کو نور سے معمور کئے رکھے آمین!

کتابیات

۱۔سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۶

۲۔مولانا مودودی :تفہیم القرآن،جلد ۴،ص ۷۱،۷۲  حاشیہ ۱۲۔۱۳،دہلی ۱۹۸۴ء

۳۔سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۲۸۔۲۹

۴۔حافظ صلاح الدین یوسف:تفسیر احسن البیان (اردو)ص ۹۸۸۔۹۸۹ ،حاشیہ ۳ اسلامک بک سروس یو۔ پی ۲۰۰۴ء

۵۔عبد اللہ جاوید غازی پوری مرتب مظاہر حق جدید مع متن مشکوٰۃ شریف جلد ،۱  قسط ۲،کتاب الایمان ،ص ۱۵۔۱۶ دیوبند ۱۹۷۱ء

۶۔سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۳۲۔۳۴

۷۔مفتی محمد شفیع: معارف القرآن ، جلد ۷،ص ۱۳۱۔۱۳۳،دہلی ۱۹۸۴ء

۸۔شمس پیرزادہ : دعوت القرآن ،جلد ۸،ص ،۱۴۹۱،بمبئی۔۱۹۹۱ء

۹۔التحریم:آیت،۳۔۴

۱۰۔مظاہر حق جدید،حدیث  ۱۔۲ ،بخاری ومسلم،ص ۶۰۔۶۱

۱۱۔ایضا حدیث  ۴،ص ۶۴

۱۲۔ایضا حدیث نمبر ۶ ص  ۶۵۔۶۷

۱۳۔ایضا

۱۴۔مولانا سعید انصاری :سیر الصحابیات ،ص ۴۲۔۴۳،دیوبند ،تاریخ طباعت ندارد

۱۵۔ایضا  ص، ۳۴

۱۶۔طالب الہاشمی :تذکار صحابیات  ص ۴۰،دہلی ،۲۰۰۱ء

۱۷۔سیر الصحابیات ص ،۵۱

۱۸۔تذکار صحابیات ،ص ۶۶

۱۹۔الاحزاب

۲۰۔مولانا عاشق الٰہی:ؒ امت مسلمہ کی مائیں ،ص ۱۲۳،دیوبند،۱۹۹۶ء

۲۱۔ایضا ص ،۱۲۸۔۱۳۰

۲۲۔سیر الصحابیات،ص ،۵۹

۲۳۔ایضا  ص،۶۶

۲۴۔تذکار صحابیات،۶۹۔۷۰

۲۵۔ایضا ،ص ،۸۹۔۹۲

۲۶۔امت مسلمہ کی مائیں ،ص،۱۴۴

۲۷۔سیر الصحابیات،ص ۸۴

۲۸۔تذکار صحابیات،ص  ۱۰۷

۲۹۔امت مسلمہ کا مائیں ،ص، ۱۶۲۔۱۶۳

۳۰۔سیر الصحابیات،۹۲۔۹۳

۳۱۔تذکار صحابیات،ص ،۱۱۰

۳۲۔ایضا ،ص ،۱۱۲

مشمولہ: شمارہ جولائی 2016

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau