دعوتِ اسلام کا مطلب ہوتا ہے کسی کو مشرف بہ اسلام کرکے رحمتِ الٰہی میں داخلے کی طرف بلانا،جبکہ لعنت کا مطلب ہوتا ہے کسی کے بارے میں رحمتِ الٰہی سے دورہونے کی خواہش ودرخواست کرنا۔ظاہر بات ہے کہ دینِ رحمت اپنے پیروکاروں میں جو عمومی مزاج تشکیل دینا چاہتا ہے وہ دعوت ورحمت سے عبارت ہے، نہ کہ لعنت وقساوت سے۔اس پس منظر میں اگر ہم اپنی مساجد میں جمعہ کے روز پڑھے جانے والے بعض عربی خطبوں کا جائزہ لیں تو تعجب ہوتا ہے کہ امتِ دعوت اپنے ہفتے بھر بعد کے اجتماع میں جن دعائوں پر سب سے زیادہ زور دیتی ہے وہ بلا وجہ اور بلا تفریق تمام غیر مسلم کفار ومشرکین کو موردِ لعنت ومستحقِ عذابِ الٰہی قرار دیتی ہیں۔قطعِ نظر اس سے کہ غیر مسلم تعلیم یافتہ برادرانِ وطن پر اس کا کیا ردِ عمل ہوتا ہے،یا انسانی اوراخلاقی نقطۂ نظر سے اس کی کیا حیثیت ہے،سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ طرزِ عمل خود اسلامی مزاج اور امتِ دعوت کی منصبی ذمے داری سے فروتر اورمتناقض ہے۔آئندہ سطور کا پیشگی خلاصہ یہی ہے کہ بلا وجہ اس طرح کی عمومی بددعائیں کرنا قرآن وحدیث سے ثابت شدہ اور سند یافتہ رویہ نہیں ہے۔یقیناً دینی نصوص میں اوصاف وحالات کی بنیاد پر یا ظلم وزیادتی کے جواب میں کسی کے خلاف بددعائیں مانگنے کا جواز ملتا ہے،لیکن اس استثنائی صورتِ حال کو عمومی اورکلّی نوعیت کا رنگ دینا بھی صراطِ مستقیم سے ایک طرح کا انحراف ہی ہے۔سب سے پہلے قرآن وسنت کی نصوص کا ترجمہ دیکھ لیجئے،بعد ازاں ان سے مستفاد شرعی احکامات سے تعرض کیا جائے گا۔وباللہ التوفیق:
ارشادِ باری ہے: فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّہِ لِنتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظّاً غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِکَ ۔ (آل عمران: ۱۵۹)
’’یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ورنہ اگر کہیںتم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد وپیش سے چھٹ جاتے۔‘‘
وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ۔ (انبیاء، ۱۰۷)
’’اے محمدؐ ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔‘‘
علامہ ابن جریر طبریؒ اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ اس آیت ِ کریمہ میں اپنے رسولﷺ سے فرماتا ہے کہ اے محمد!ہم نے تمہیں صرف اپنی رحمت بناکر بھیجا ہے، آپؐکا رحمت ہوناساری مخلوقات کے لیے ہے جن کی طرف آپؐ رسول بناکر بھیجے گئے ہیں۔ اس آیت کے معنی کی تعیین میں مفسرین کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا آپؐ کو جو ساری دنیا کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے اس میں مومن وکافر دونوں داخل ہیں یا مراد خاص طور سے بس اہلِ ایمان ہی ہیں۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اس میں پوری دنیا کے لیے رحمت ہونا مراد ہے جو کفار ومشرکین اور اہلِ ایمان سب کے حق میں عام ہے۔ یہ لوگ اپنی تائید میں حضرت ابنِ عباسؓ کا قول نقل کرتے ہیں جس کے بہ موجب آپؐ ساری دنیا کے لیے رحمت ہیں، تاہم اہلِ ایمان کے لیے دنیا وآخرت دونوں میں رحمت ثابت ہوتے ہیں، جبکہ اہلِ کفر کے لیے آپؐ کی عمومی رحمت یہ ہے کہ آپ کے رہتے اب اُن پر کوئی عمومی عذاب نازل نہیں ہوگا جیسا کہ سابقہ اقوام وملل کے اوپر ان کی سرکشی وعناد کی وجہ سے عمومی عذابِ الٰہی نازل ہوتے رہے ہیں۔ دیگر مفسرینِ کرامؒ کی رائے میں اللہ کے رسولﷺ کا رحمت ہونا اہلِ ایمان کے ساتھ مخصوص ہے، نہ یہ کہ سارے انسانوں بہ شمول کفار ومشرکین کے، لیے عام ہے۔ ہمارے نزدیک دونوں اقوال میں قرینِ صحت وصواب قول وہی ہے جس کی تائید حضرت ابنِ عباسؓ کی رائے سے ہوتی ہے، یعنی آپؐ سارے انسانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ مومنوں کے حق میں اس طرح کہ آپﷺ کے ذریعے سے انہیں ہدایت وایمان کی توفیق ملتی ہے اور اس پر عامل ہوکروہ جنت میں داخلہ پالیتے ہیں، جبکہ کافروں کے حق میں اس طرح کہ آپؐ کی وجہ سے ان پر سے دنیاوی عذاب مرفوع کردیا گیا ہے جو کہ سابقہ رسولوں کی تکذیب کرنے والی قوموں پر بارہا نازل ہوچکا ہے۔‘‘ (دیکھیں: تفسیر طبریؒ: سورہ انبیاء، آیت۱۰۷)
(۱) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ سے کہاگیا کہ مشرکین پر بددعا فرمادیں تو آپؐنے فرمایا: مجھے لعّان (خوب لعنت کرنے والا) بناکر نہیں بھیجا گیا ہے، مجھے تو صرف رحمت بناکربھیجا گیا ہے۔‘‘
قیل یا رسول اللہﷺادع علی المشرکین، قال: إنی لم أبعث لعانا وإنما بعثت رحمۃ۔ (صحیح مسلمؒ: ۲۵۹۹۔ مسند ابویعلیؒ: ۶۱۷۴۔ سنن کبری، بیہقیؒ: ۱۴۰۳۔ الادب المفرد، بخاریؒ: ۳۲۱)
(۲) حضرت ابوہریرہؓ سے ہی مروی ہے کہ حضرت طفیلؓ بن عمرو دوسی اور ان کے رفقائے دین آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ!قبیلۂ دوس نے کفر کی روش اختیار کرلی ہے اور اسلام لانے سے انکار کیا ہے، لہٰذا آپؐ ان کے حق میں بددعا فرما دیں۔ حاضرین نے سنا تو چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ اب تو دوس والے ہلاکت کے گھاٹ اتر گئے۔ لیکن آپؐ نے دعا فرمائی: اے اللہ!قبیلۂ دوس کو ہدایت کی توفیق دے اور انہیں یہاں بلادے۔‘‘
یارسول اللہ إن دوساً قد کفرت وأبت، فادع اللہ علیھا، فقیل: ھلکت دوس، فقال: اللھم اھد دوساً وائت بھم۔(صحیح بخاریؒ: ۲۹۳۷، ۴۳۹۲، ۶۳۹۷۔ صحیح مسلمؒ: ۲۵۲۴۔ صحیح ابن حبانؒ: ۹۷۹، ۹۸۰۔ مسنداحمدؒ: ۷۳۱۵، ۱۰۵۲۶)
(۳) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور قریب ہی ابوجہل اور اس کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے کسی نے کہا: تم میں کون فلاں کے اونٹ کی اوجھڑی لاکر بحالت ِ سجدہ محمدؐ کی کمر پر رکھ سکتا ہے۔ ان میں کا بدبخت ترین آدمی کھڑا ہوا اور اوجھڑی لے آیا۔ وہ انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ جب آپؐ سجدہ میں گئے تو اس نے اوجھڑی کو اٹھا کر کمر اور شانوں کے بیچ میں رکھ دیا۔ میں (عبداللہ بن مسعودؓ) دیکھ رہا تھا لیکن کچھ کر نہیں سکتا تھا اور کاش میرے پاس کچھ کرسکنے کی قوت ہوتی!بہرحال وہ لوگ ہنسنے لگے اور ایک دوسرے کا حوالہ دینے لگے۔ اللہ کے رسولﷺ اس دوران سجدہ ہی میں رہے اور سرنہ اٹھایا تاآنکہ آپؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ آئیں اور اوجھڑی کو کمرِ مبارک سے اتار کرپھینکا، اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے سرِ مبارک اٹھایا اورتین بار فرمایا: اے اللہ!تو ہی سزاوار ہے قریش کی پکڑ کرنے کا۔ ان کافروں کو آپؐکا بددعافرمانا بڑا شاق گزرا کیونکہ ان کے نقطۂ نظر سے بلد الحرام میں کی جانے والی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر آپؐنے نام لے کر بددعا کی اور فرمایا: اللہ تو پکڑ فرما ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کی۔‘‘ یہاں آپؐنے سات نام لیے تھے لیکن ساتواں نام میرے (ابن مسعودؓ) حافظہ میں محفوظ نہ رہ سکا۔ لیکن اُس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں نے آپؐ کے گنائے تمام لوگوں کو بدر کے گڈھے میں لاشوں پڑے دیکھا تھا۔‘‘
فرفع رسول اللہ رأسہ ثم قال: اللھم علیک بقریش، ثلاث مرات فشق علیھم إذ دعا علیھم، قال وکانوا یرون أن الدعوۃ فی ذالک البلد مستجابۃ، ثم سمیٰ: اللھم علیک بأبی جھل وعلیک بعتبۃ بن ربیعۃ وشیبۃ بن ربیعۃ والولید بن عتبۃ وأمیۃ بن خلف عقبہۃ بن أبی معیط وعد السابع فلم یحفظ، قال: فوالذی نفسی بیدہ لقد رأیت الذین عد رسول اللہ صرعیٰ فی القلیب قلیب بدر (صحیح بخاریؒ: ۲۴۰، ۴۲۰، ۴۳۹۲۔ صحیح مسلمؒ: ۱۷۹۴۔ صحیح ابن خزیمہؒ: ۷۸۵۔ مصنف ابن ابی شیبہؒ: ۳۷۷۱۸، ۳۷۸۳۲)
(۴) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں: یقینا جب اللہ کے رسولﷺ کسی پر بددعا کرنے یا کسی کے حق میں دعا کرنے کا ارادہ فرماتے تھے تو (نماز میں) رکوع کے بعدقنوت پڑھتے۔ بسا اوقات آپؐ فرماتے تھے: سمع اللّٰہ لمن حمدہ، اے اللہ ہمارے پروردگار! ساری تعریفات تیرے لیے ہیں، تو ولیدؓ بن الولید، سلمہؓ بن ہشام اور عیاشؓ بن ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ مضر پر اپنی سخت پکڑ فرما اور اس پکڑ کو قحط میں بدل دے جیسا کہ حضرت یوسف کا قحط تھا۔‘‘ یہ جملے آپؐ بہآوازِ بلند ادافرماتے تھے۔ بسا اوقات نمازِ فجر میں فرماتے تھے: اے اللہ فلاں بن فلاں پر لعنت بھیج، مراد کچھ عربی قبائل ہوتے تھے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمادیا:
لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ۔ (آل عمران:۱۲۸)
’’اے پیغمبر، فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، اللہ کو اختیار ہے چاہے انہیں معاف کرے، چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔‘‘
أن رسول اللہﷺکان إذا أراد أن یدعو علیٰ أحد أویدعو لأحد قنت بعد الرکوع فربما قال إذا قال سمع اللہ لمن حمدہ: اللھم ربنا لک الحمد انج الولید اللھم اشدد وطأتک علی مضر واجعلھا سنین کسنی یوسف، یجھر بذالک۔ اللّٰھم العن فلاناً وفلاناً لأحیاء من العرب حتی أنزل اللہ: لَیْسَ لَکَ مِنَ الأَمْر۔ (صحیح بخاریؒ: ۷۶۶۹، ۶۳۹۳، ۶۹۴۰۔ صحیح مسلمؒ: ۶۷۵۔ سنن ابوداؤدؒ: ۱۴۴۴۔ صحیح ابن حبانؒ: ۱۹۶۹، ۱۹۸۶، مصنف ابن ابی شیبہؒ: ۷۱۱۹)
(۵) حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسولﷺ کو فجر کی نماز میں دوسری رکعت میںرکوع کے بعد کہتے سنا تھا: اے اللہ تو ہمارا پروردگار ہے اور تیرے لیے ہی سب تعریفیں ہیں، اے اللہ!تو فلاں اور فلاں پر لعنت بھیج۔ اسی واقعے کے بعد یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی تھی کہ:
لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ۔ (آل عمران:۱۲۸)
’’اے پیغمبر، فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، اللہ کو اختیار ہے چاہے انہیں معاف کرے، چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔‘‘
یقول فی صلاۃ الفجر ورفع رأسہ من الرکوع۔اللّٰھم العن فلانا وفلانا حتی أنزل اللہ۔ (صحیح بخاریؒ: ۴۰۷۰، ۴۵۵۹، ۷۳۴۶۔ مسند احمدؒ: ۵۶۷۴۔ صحیح ابن حبانؒ: ۱۹۸۷، ۵۷۴۷۔ صحیح ابن خزیمہؒ: ۶۲۲)
(۶) حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے غزوۂ احد کے دن فرمایاتھا کہ اے اللہ ابوسفیان پر، حارث بن ہشام پر اور صفوان بن امیہ پر لعنت بھیج، چنانچہ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ:
لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ۔ (آل عمران:۱۲۸)
’’اے پیغمبر، فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، اللہ کو اختیار ہے چاہے انہیں معاف کرے، چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔‘‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کی توبہ قبول کرلی اور یہ سب اسلام لے آئے اور ان کی اسلامی سیرت اچھی ہوگئی۔‘‘
قال یوم أحد: اللھم العن أبا سفیان، اللھم العن الحارث بن ھشام، اللھم العن صفوان بن أمیہ!فنزلت الآیۃ۔۔۔فتاب اللہ علیھم فأسلموا فحسن إسلامھم (مسنداحمدؒ: ۶۵۷۴۔ سنن ترمذیؒ: ۳۰۰۴مع تصحیح البانیؒ۔ تفسیر طبریؒ: ۷/۲۰۰۔ تاریخ دمشق، ابن عساکرؒ: ۱۱/۴۹۴، ۲۴/۱۰۹، ۲۴/۱۱۰)
(۷) حضرت انسؓ بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے ان لوگوں کے حق میں بددعائیں کی تھیں جنہوں نے ’’بئرِ معونہ‘‘ میں آپؐکے اصحابؓ کو قتل کیا تھا اور بددعا کرنے کا یہ سلسلہ تیس دن تک چلا تھا، اس میں آپؐ قبیلہ ’’رعل‘‘ اورقبیلہ ’’لحیان‘‘ اورقبیلہ ’’عصیہ‘‘ پر بددعا کرتے تھے کیونکہ ان قبائل نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی راہ اختیار کی تھی۔‘‘
دعا النبیﷺ علی الذین قتلوا یعنی أصحابہ ببئر معونۃ ثلاثین صباحا حین یدعو علیٰ رعل ولحیان وعصیۃ عصت اللہ ورسولہ۔(مؤطامالکؒ: ۱۹۶۴۔ صحیح بخاریؒ: ۲۸۰۱، ۲۸۱۴، ۴۰۹۱، ۴۰۹۵۔ صحیح مسلمؒ: ۶۷۷)
(۸) حضرت خفافؓ بن ایماء کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے رکوع کیا اور پھر سر اٹھا کر فرمایا: قبیلہ غفار کی اللہ مغفرت فرمائے، قبیلۂ اسلم کو اللہ سلامت رکھے، قبیلۂ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی ہے، اے اللہ تو لعنت بھیج قبیلہ بنو لحیان پر اور لعنت بھیج قبیلہ ٔ رعل وقبیلۂ ذکوان پر۔‘‘ اس کے بعد آپؐ نے سجدہ فرمایا۔ حضرت خفافؓ کہتے ہیں کہ اس (عملِ رسولﷺ) کی وجہ سے کفار پر لعنت رکھ دی گئی۔‘‘
فجعلت لعنۃ الکفرۃ من أجل ذالک۔ (صحیح مسلمؒ: ۶۷۹۔ مسند احمدؒ: ۱۶۶۸۷۔ صحیح ابن حبانؒ: ۱۹۸۴۔ مصنف ابن ابی شیبہؒ: ۷۱۲۵)
(۹) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: یقینا جب اللہ کے رسولﷺنے لوگوں کی جانب سے اعراض وادبار دیکھا۔ اور (دوسری روایت میںہے کہ) جب قریش اللہ کے رسول ﷺ پر مسلط ہوگئے اور عصیان برتنے لگے تو آپؐ نے فرمایا: اے اللہ!سات سال ایسے جیسے کہ حضرت یوسف ؑ کے تھے۔‘‘ اس دعا کے نتیجہ میں قریش کو قحط سالی نے آلیا جس میں ہرچیز ہلاک ہوگئی حتی کہ لوگ چمڑا، مردار اور سڑی چیزوں کو کھانے پر مجبور ہوگئے۔ ہر شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو شدتِ بھوک سے اسے ایک دھواں سا دکھائی پڑتا تھا۔ اس کے بعدابوسفیان (اس وقت کے قریشی سردار) آپٔ کے پاس آئے اور کہا: اے محمدﷺ!آپ طاعت ِ خداوندی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں، آپؐ کی قوم ہلاک ہوئی جاتی ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے۔ (دوسری روایت میں ہے کہ) ان لوگوںنے یہ دعائیں کرنا شروع کردی تھیں کہ اے ہمارے رب! ہم سے عذاب ہٹا دیجئے کہ ہم ایمان لے آتے ہیں۔ آپؐ سے کہا گیا تھا کہ اگر ہم اُن سے عذاب ہٹا دیں گے تویہ لوگ اپنے ایمان سے پھر جائیں گے، تاہم آپؐنے اپنے رب سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے (عذاب) ہٹادیا، لیکن یہ لوگ اپنے اعتراف سے پھر گئے۔ اس روگردانی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان سے غزوۂ بدر میں انتقام لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے نازل فرمایا تھا:
فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ۔ يَّغْشَى النَّاسَ۰ۭ ھٰذَا عَذَابٌ اَلِيْمٌ۔رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ اِنَّا مُؤْمِنُوْنَ اَنّٰى لَہُمُ الذِّكْرٰى وَقَدْ جَاۗءَہُمْ رَسُوْلٌ مُّبِيْنٌ۔ ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْہُ وَقَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌ۔اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِيْلًا اِنَّكُمْ عَاۗىِٕدُوْنَ۔يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْكُبْرٰى۰ۚ اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ۔ (دخان:۱۰۔۱۶)
’’اچھا، انتظار کرواس دن کا جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھاجائے گا، یہ ہے دردناک سزا۔ (اب کہتے ہیں) پروردگار ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے، ہم ایمان لاتے ہیں۔ ان کی غفلت کہاں دور ہوتی ہے؟اِن کا حال تو یہ ہے کہ ان کے پاس رسولِ مبین آگیا، پھر بھی یہ اس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور کہا: یہ تو سکھایا پڑھایا باؤلا ہے۔ ہم ذرا عذاب ہٹائے دیتے ہیں، تم لوگ پھر وہی کچھ کروگے جو پہلے کررہے تھے۔ جس روز ہم بڑی ضرب لگائیں گے، وہ دن ہوگا جب ہم تم سے انتقام لیں گے۔‘‘ چنانچہ وہ کاری ضرب معرکۂ بدرکی صورت میں ہوئی اور دھوئیں، کاری ضرب، ’’لزام‘‘ اور روم کی نشانیاں گزرگئی ہیں۔‘‘
إن قریشاً لما غلبوا النبیﷺ واستعصوا علیہ قال: اللھم سبع کسبع یوسف۔ فالبطشۃ یوم بدر وقد مضت الدخان والبطشۃ واللزام وآیۃ الروم(صحیح بخاریؒ: ۱۰۰۷، ۱۰۲۰، ۴۷۷۴، ۴۶۹۳، ۴۸۰۹، ۴۸۲۱، ۴۸۲۲، ۴۸۲۳، ۴۸۲۴۔ صحیح مسلمؒ: ۲۷۹۸۔ سنن ترمذیؒ: ۳۲۵۴۔ مسند احمدؒ: ۳۶۱۳)
(۱۰) حضرت عبید بن عمرؓ فرماتے ہیں: یقینا حضرت عمرؓ نے رکوع کے بعد قنوت (نازلہ) پڑھی اور کہا: اے اللہ مغفرت فرما ہماری، مومن مردوں اور عورتوں کی، مسلم مردوں اور عورتوں کی، ان کے دلوں کو جوڑ دے اور آپسی معاملات سدھار دے اوران کے اور تیرے دشمنوں کے مقابلے میں اُن کی مدد فرما۔ اے اللہ لعنت بھیج (ایک روایت میں یہاں ’’عذاب دے‘‘ کا لفظ ہے) اہلِ کتاب کے کافروں پر جو تیری راہ سے روکتے ہیں، تیرے رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں اور تیرے اولیاء سے جنگ کرتے ہیں۔ اے اللہ!ان کے اتفاق میں اختلاف پیدا فرما، ان کے قدموں کو ہلادے اور ان پر اپنی ایسی سزا نازل فرما جو تو کسی مجرم قوم سے نہیں پھیرتا ہے۔‘‘
أللھم اغفر لنا وللمومنین والمؤمنات والمسلمین والمسلمات وألف بین قلوبھم وأصلح ذات بینھم وانصرھم علیٰ عدوک وعدوھم، اللھم العن کفرۃ أھل الکتاب الذین یصدون عن سبیلک ویکذبون رسلک ویقاتلون أولیائک، اللھم خالف بین کلمتھم وزلزل أقدامھم وأنزل بھم بأسک الذی لاتردہ عن القوم المجرمین۔(مصنف عبدالرزاقؒ: ۴۹۶۹۔ سنن کبری، بیہقیؒ: ۲/۲۱۰۔ تصحیح البانیؒ فی إرواء الغلیل: ۴۲۸)
مستفاد شرعی احکام و ہدایات
مذکورہ بالاقرآن وحدیث کی نصوص کی مجموعی دلالت سے جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ غیر مسلموں پر لعنتیں بھیجنے اوران کے حق میں بددعائیں کرنے کا حکم اُن کے اوصاف وافعال کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ بظاہر محولہ بالا دینی نصوص باہم متناقض ومتصادم نظر آتی ہیں، لیکن حقیقت وہی ہے جو اوپر گزری کہ غیرمسلموں کے احوال اور اہلِ اسلام کے ساتھ ان کے تعامل کی روشنی میں ان کا شرعی حکم مختلف ہوتا رہتا ہے۔ ذیل میں اس اجمال کی کسی قدر وضاحت کی جاتی ہے:
(۱) اللہ کے رسولﷺ کی دائمی سنت وطریقہ اور آپؐ کی سنت کی نقش بنقش پیروی کرنے والوں کا ہمیشہ سے یہی طرزِ عمل رہا ہے کہ عموماً لعنت ملامت بھیجنے سے اجتناب کیا جائے کیونکہ یہ طرزِ عمل دینِ رحمت کے مزاج اور عام انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ امت ِ مسلمہ کو قرآنِ کریم میں امت ِ دعوت قرار دیا گیا ہے، اور داعی کی غرض یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح مخلوقِ خدا تک دینِ حق کا پیغام پہنچا دیا جائے، اس تڑپ کے پسِ پشت دراصل رحمت وہمدردی کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ اس طور دیکھیں توافرادِ امت یا ائمۂ مساجدکاکفار ومشرکین کو مستقل طور سے ملعونیت اور بددعائوں کا ہدف بنالینا خود امت ِ مسلمہ کے مقصد ِ وجودکے منافی اور دینِ دعوت کے مزاج کے خلاف ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ کے رسولﷺلعّان (ہرآن لعنت ملامت کرنے والے) نہ تھے۔
لم یکن النبیﷺ لعانا۔ (صحیح بخاریؒ: ۶۰۳۱، ۶۰۴۶۔ مسند احمدؒ: ۱۲۲۷۴، ۱۲۴۶۳، ۱۲۶۰۹۔ طبقات ابن سعدؒ: ۱/۱۲۶)
احادیث میں آتا ہے کہ آپﷺ نہ فحش گو تھے نہ فحش پسند، نہ بدگو تھے نہ لعنت گر اور نہ ہی آپؐ بازاروںمیں شور شرابہ کرنے والے تھے۔
لم یکن رسول اللہﷺ سبابا ولا فحاشا ولالعانا ولا سخابا فی الأسواق۔ (مسند ابن الجعدؒ: ۲۷۵۵۔ تاریخ دمشق، ابن عساکرؒ: ۳/۳۷۲)
روایات میں آتا ہے کہ کسی کو ڈانٹتے ہوئے آپﷺکی زبان سے صرف اتنا نکلتا تھا کہ اسے کیا ہوگیا ہے، اس کی پیشانی خاک آلود ہوجائے!
[کان یقول یقول لأحدنا عند المعاتبۃ مالہ تربت جبینہ] (سنن کبری، بیہقیؒ: ۱۰/۱۹۳۰۔ الادب المفرد، بخاریؒ: ۴۳۰، تاریخ دمشق، ابن عساکرؒ: ۳/۳۶۷)
مزید برآں آپؐ نے اس قسم کے طرزِ عمل کو مومنانہ طرزِ عمل کے خلاف قرار دیا ہے۔ آپؐ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’مومن طعنے کسنے والا، لعنتیں کرنے والا، فحش گواوربدزبان نہیں ہوتا ہے۔‘‘
[لیس المؤمن بالطعان ولا اللعان ولا الفاحش ولا البذیء] (مسند بزارؒ: ۱۵۲۳۔ مسند ابویعلیؒ: ۵۰۸۸، ۵۳۷۹۔ مستدرک حاکمؒ: ۱/۵۷۔ مصنف ابن ابی شیبہؒ: ۱۰۹۷۴۔ مسند احمدؒ: ۳۸۳۹)
آپؐنے لعنت کرنے کو اپنا تکیہ کلام بنالینے والوں کے بارے میں فرمایا ہے: ’’بہت زیادہ لعنت کرنے والے روزِ قیامت نہ سفارشی بنائے جائیں گے اور نہ ہی گواہ۔‘‘
[لایکون اللعانون شفعاء ولاشھداء یوم القیامۃ] (صحیح مسلمؒ: ۲۵۹۸۔ سنن ابوداؤدؒ: ۴۹۰۷۔ صحیح ابن حبانؒ: ۵۷۴۶۔ مسند احمدؒ: ۲۷۵۲۹)
نیز فرمایا: ’’کسی صدیق (سچ بولنے والے) کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ لعنتیں کرنے والاہو۔‘‘
[لاینبغی لصدیق أن یکون لعانا] (صحیح مسلمؒ: ۲۵۹۷۔ مسند احمدؒ: ۸۴۴۷، ۸۷۸۲۔ شعب الایمان، بیہقیؒ: ۵۱۵۱۔ الادب المفرد، بخاریؒ: ۳۱۷)
(۲) لعنت کا مطلب ہے خدا کی رحمت سے دوری ومہجوری ہونا۔ لہٰذا ہر وہ شخص جس کی موت حالت ِ کفر پر ہونا متحقق ومتیقن نہ ہو، اس کے بارے میں گمان رکھنا چاہیے کہ اگر اس نے زندگی کے کسی لمحہ میں توبہ وانابت کرلی ہوگی تو اللہ کی رحمت کا مستحق ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺکواس بات سے منع کردیا گیاکہ کفارِ قریش، جو کہ اسلام کے کھلے دشمن تھے، کے سرخیلوں کا نام لے کر بالتعیین ان پر لعنت بھیجی جائے، پھر وہ ابوسفیانؓ، حارثؓ بن ہشام یا صفوانؓ بن امیہ جیسے صف ِ اول کے قائدینِ کفر وضلالت ہی میں کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ اس وقت تک حالت ِ کفر میں ان کی موت واقع نہیں ہوئی تھی، اس لیے امکان باقی تھا کہ وہ ہدایت پاجائیں اور فی الواقع مستقبل میں ایسا ہوا بھی۔ جہاں تک تعلق ہے عمومی انداز میں ظالموں اور مفسدوں پر لعنت کرنے کا تو یہ مسلمان اور غیر مسلمان سب کے لیے عام ہے، کیونکہ اس قسم کی لعنت خود قرآنِ کریم میں صراحت کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ ارشادِ باری ہے:
إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدَی مِن بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِیْ الْکِتَابِ أُولَـئِکَ یَلعَنُہُمُ اللّہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللَّاعِنُونَ۔(بقرہ:۱۵۹)
’’جولوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآںحالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کرچکے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہیں۔‘‘
إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا وَمَاتُوا وَہُمْ کُفَّارٌ أُولَئِکَ عَلَیْہِمْ لَعْنَۃُ اللہ وَالْمَلآئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْن٭خَالِدِیْنَ فِیْہَا لاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلاَ ہُمْ یُنظَرُونَ۔ (سورہ بقرہ: ۱۶۱-۱۶۲)
’’جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت کی زندگی میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کی سزامیں تخفیف ہوگی اور نہ انہیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔‘‘
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللہ کَذِباً أُوْلَـئِکَ یُعْرَضُونَ عَلَی رَبِّہِمْ وَیَقُولُ الأَشْہَادُ ہَـؤُلاء الَّذِیْنَ کَذَبُواْ عَلَی رَبِّہِمْ أَلاَ لَعْنَۃُ اللہ عَلَی الظَّالِمِیْن٭الَّذِیْنَ یَصُدُّونَ عَن سَبِیْلِ اللہ وَیَبْغُونَہَا عِوَجاً وَہُم بِالآخِرَۃِ ہُمْ کَافِرُون۔ (ہود: ۱۸-۱۹)
’’اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے؟ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور گواہ شہادت دیںگے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ گھڑا تھا۔ سنو!خدا کی لعنت ہے ظالموںپر۔ ان ظالموں پر جو خدا کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں، اس کے راستے کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں اورآخرت کا انکارکرتے ہیں۔‘‘
ان آیات میں مذکورہ لعنت کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوگا جو اس قسم کی لعنت کے مستوجب کسی صفت سے متصف ہے۔ مستوجب ِ لعنت صفات کا پایا جانا مسلم وغیر مسلم سب میں عام ہے۔ صحیح احادیث میں صراحت کے ساتھ سود کھانے والے، سود دینے والے، سودی معاملہ کے گواہ اور کاتب پر لعنت کی گئی ہے۔
[لعن رسول اللہﷺ آکل الربا وموکلہ وشاھدہ وکاتبہ] (صحیح مسلمؒ: ۱۵۹۸۔ مسند احمدؒ: ۱۴۲۶۳۔ مسند ابویعلیؒ: ۱۸۴۹، ۱۹۶۰۔ مسند ابوعوانہؒ: ۵۴۵۳، ۵۴۵۵۔ سنن صغری، بیہقیؒ: ۱۸۵۲)
نیزبادہ خواروں، شراب پلانے والوں، بیچنے والوں، خریدنے والوں، کشید کرنے اور کرانے والوں، منتقل کرنے والوں، منگانے والوں اور اس کی قیمت کھانے والوںسب پر صراحت ووضاحت کے ساتھ لعنت کی گئی ہے۔
لعن النبیﷺ الخمر وشاربھا وساقیھا وبائعھا ومبتاعھا وعاصرھا و معتصرھا وحاملھا والمحمولۃ إلیہ وآکل ثمنھا۔ (مصنف ابن ابی شیبہؒ: ۲۲۰۴۵۔ مسند احمدؒ: ۴۷۸۷، ۵۳۹۱۔ سنن ابن ماجہؒ: ۳۳۸۰۔ سنن ابوداؤدؒ: ۳۶۷۴)
اسی طرح سے رشوت لینے اور دینے والے پر[لعن الراشی والمرتشی فی الحکم] (سنن ترمذیؒ: ۱۳۳۶۔ مسند احمدؒ: ۹۰۱۱، ۹۰۱۹۔ مسند بزارؒ: ۸۶۷۲۔ شرح مشکل الآثار، طحاویؒ: ۵۶۶۲۔ صحیح ابن حبانؒ: ۵۰۷۶۔ الدعاء، طبرانیؒ: ۲۰۹۵) اپنے والدین کو ملعون کہنے والے، غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرنے والے اور راستوں کی علامات بگاڑنے والوں پر[لعن من لعن والدیہ ولعن من ذبح لغیر اللہ ولعن من غیر منار الأرض] (صحیح مسلمؒ: ۱۹۷۸۔ مصنف ابن ابی شیبہؒ: ۲۲۴۴۹۔ مسند احمدؒ: ۱۳۰۷۔ سنن نسائیؒ: ۴۷۴۵۔ صحیح ابن حبانؒ: ۶۶۰۴) حلالہ کا نکاح کرنے اور کرانے والوں پر[لعن المحلل والمحلل لہ] (مسند احمدؒ: ۴۳۰۸۔ مسند ابویعلیؒ: ۵۰۵۴۔ مسند الشاشیؒ: ۸۶۲۔ شرح السنۃ، بغویؒ: ۲۲۹۳) اور ا س کے علاوہ متعدد گناہوں کے مرتکب اشخاص پر زبانِ رسالتﷺ سے لعنت بھیجی گئی ہے۔ (مثال کے طور پر دیکھیں: صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ: ۵۰۸۹-۵۱۱۴۔ کتاب الاذکار، نوویؒ: ص۲۸۰فصل: فی جواز لعن اصحاب المعاصی غیر المعنیین والمعروفین۔ مصنف عبدالرزاقؒ: ۱۰۷۹۳۔ الدعاء، طبرانیؒ: ۲۱۶۹) یہ سب احادیث دلالت کرتی ہیں کہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کی انواع پر لعنت بھیجی جاسکتی ہے البتہ اعیان یعنی افراد کی تخصیص کے ساتھ لعنت نہیں کی جائے گی۔ (زاد المعاد، ابن القیمؒ: ۵/۵۳)
یہ رائے قابل غور ہے کہ کسی بھی غیر مسلم کو تعیین کے ساتھ موردِ لعنت قرار دینا، جمہور علما کے نزدیک جائز نہیں۔ (البحر المحیط، ابن حیان القرطبیؒ: سورہ بقرہ، ۱۶۰) تعیین کے ساتھ لعنت کرنے کے اِس عدمِ جواز میں مسلمان فساق وفجار بدرجۂ اولیٰ داخل مانے جائیں گے۔ امام غزالیؒ نے اس ممانعت کی علت بھی بیان کی ہے، وہ کہتے ہیں: کیونکہ بہت ممکن ہے کہ وہ (متعینہ شخص) اسلام لے آئے اور مرتے وقت اللہ کا مقرب بندہ ہوکر مرے، اس لیے ملعون کہہ کرکیسے حکم لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے رحمت الٰہی سے محروم ہوگیاہے۔ اب اگر کوئی صاحب اعتراض کریں کہ ہم فی الوقت کسی کافر کو ملعون اُسی طرح کہتے ہیں جیسے کسی مسلمان کو رحمۃ اللّٰہ علیک (تجھ پر اللہ کی رحمت ہو) کہتے ہیں، حالانکہ جس طرح کسی کافر کے بارے میں امکا ن ہے کہ وہ آئندہ کبھی اسلام لاسکتا ہے، اسی طرح کسی مسلمان کے بارے میں بھی ممکن ہے کہ وہ آئندہ کبھی مرتد ہوسکتاہے، چنانچہ جس طرح ہم مستقبل کے احتمال کی وجہ سے مسلمان کو رحمت کا مستحق کہنا نہیں چھوڑتے اسی طرح کسی کافر کو مستقبل کے احتمال کی وجہ سے لعنت کا مستحق کہنا کیوں چھوڑ دیں۔ یہاں بنیادی غلطی ’’رحمۃ اللّٰہ علیک‘‘ (تجھ پر اللہ کی رحمت ہو) کامفہوم سمجھنے میں ہوئی ہے۔ جان لیجئے کہ جب ہم کسی مسلمان کو رحمت کی دعا دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیںہوتا کہ ہمیں اس کے جنتی ہونے کا کامل یقین ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ دعاہے کہ اللہ تعالیٰ اُس مسلمان کو طاعت ِ اسلام پر ثابت قدم رکھے جو کہ رحمت ِ الٰہی کا سبب ہے۔ یعنی ہم کسی کے بارے میں فیصلہ نہیں کرتے کہ وہ یقینا اللہ کی رحمت کا مستحق بن گیا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ہم کافر کو اس کے موجودہ کفر کی وجہ سے لعنت کا مستحق مانتے ہوئے ملعون کہیں تو اس کے معنی ہوں گے کہ ہم اس کے لیے دعا کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے کفر ومخالفت ِ اسلام پر ثابت قدم رکھے جو کہ لعنت کا سبب ہے۔
کسی کے بھی بارے میںاس طرح سے کفر کی دعاکرنا بذاتِ خودکفر ہے۔ (یہاں ذہن میں رہنا چاہیے کہ جن علمائے کرام نے متعینہ طور سے کسی کافر پر لعنت بھیجنا جائز مانا ہے-جیسا کہ احکام القرآن میں علامہ ابن العربیؒ کا موقف ہے: ۱/۷۴۔ انہوں نے کافر پر لعنت بھیجنے میں یہ معنی ملحوظ نہیں رکھے ہیں جو امام غزالیؒ یہاں بیان کررہے ہیں، بلکہ موجودہ حالت پر حکم لگاتے ہوئے اسے جائز کہا ہے۔ اس لیے ایسے علمائے دین پر امام غزالیؒ کی بیان کردہ توجیہ وارد کرتے ہوئے کفر کا فتویٰ لگانا کسی حال میںدرست نہیں ہوگا۔ خود امام غزالیؒ نے اپنی اس توجیہ کو دوسروں پر لازم نہیں مانا ہے بلکہ اپنے مخالف قول کی کمزوری دکھانے کے لیے اس قسم کے الفاظ استعمال کیے ہیں) اس قسم کی لعنت کاجواز اسی صورت ہوسکتا ہے جب کہ لعنت کے ساتھ، حالت ِ کفر پر مرنے کی شرط جوڑ دی جائے یعنی کہا جائے کہ فلاں کافر پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ کفر پر مرے اور لعنت نہ ہو اگر وہ اسلام پر مرے۔ اس قسم کی لعنت بذاتِ خود ایک تکلف وتصنع محسوس ہوتی ہے، مزید برآں یہ ایک غیبی امر ہے جو مجہول ہے۔ مطلقاً کسی کو لعنت کرنے میںدونوں قسم کے احتمالات (یعنی لعنت کا سچا ہونا یا جھوٹا ہوجانا) ممکن ہے جو کہ خطرناک بات ہے، جبکہ اس لعنت گری کے وطیرہ سے کلی اجتناب کرنے میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ حکم تو کسی کافر کے بارے میں تھا، اب کسی مسلمان فاسق وبدعتی کے بارے میں یہی حکم بدرجۂ اولیٰ مسلّم مانا جائے گا۔ بہرحال متعین اشخاص پر لعنت کرنے میں بڑا خطرہ ہے کیونکہ انسانی حالات بدلتے رہتے ہیں، جبکہ اوصاف پر لعنت کا معاملہ ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ (احیاء علوم الدین۔ غزالیؒ: ۳/۱۲۴) سابقہ بالا آیات واحادیث سے بھی اس شرعی مسلک کی تائید ہوتی ہے۔
۳) بسااوقات مسلمانوں کو واقعی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ محاربین اور دشمن کافروں کے افراد وجماعتوں کے ظلم وستم اور زیادتی وسرکشی کے خلاف اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریںاور نالۂ نیم شبی میں ان پر بددعائوں اور لعنتوں کے تیر آزمائیں۔ کافروں کے ظلم وستم کے مقابلے میں اور ان کے شر کو دفع کرنے کے لیے ہرممکنہ اسلحہ آزمایا جاسکتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایک مومن کی دعائیں اور بارگاہِ رب میں کی گئی مناجاتیں اور نصرت واعانت کی درخواستیں اُس کا ایسا ہتھیار ہیں جو اپنی عظمت، قوت اور اثرآفرینی میں بے مثال وبے نظیرہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ کے رسولﷺنے بھی کفر وباطل کی جارحانہ قوتوں، کافر محاذکے اماموں اور سرخیلوں کے مقابلے میں اس ہتھیار سے کام لیا تھا اور اس کے نتیجے میں اُن کا انجام یہ ہوا کہ سب کے سب غزوۂ بدر میں کام آگئے، حالانکہ یہ اہلِ اسلام اور اہلِ کفر کے مابین پہلا ہی معرکہ تھا۔ تاہم جوبات نوٹ کر لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے اس طرزِ عمل کو مستقل اختیار نہیں کیا تھا۔کسی بھی حدیث میں یہ صراحت نہیں ملتی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے استثنائی حالات میں کی جانے والی ان بددعائوں کو عمومی رنگ دیا تھا اور یہ کہ قرنِ اول کے مدنی معاشرے میں ہر جمعہ کے خطبہ میں اس طرح کی بددعائوں کو جزوِ لاینفک سمجھا جاتا تھا۔
امام ابن تیمیہؒ کا تجزیہ اس بابت نہایت اہم ہے، وہ لکھتے ہیں: ظالم وجابر کفار کی زیادتی کے مقابلہ اللہ کے حضور شکایتیں کرنا نہ صرف مشروع ہے بلکہ ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اسی کی وجہ سے قنوتِ نازلہ رکھی گئی ہے جس میں مومنین کے لیے دعا اور ظالم کافرین کے لیے اللہ کے حضور شکایات کا بکھان ہوتاہے۔ تاہم متعین ومخصوص اشخاص کا نام لے کر ان کے حق میں بددعائیں کرنے کا نبوی عمل منسوخ ہوچکا ہے۔ اس عمل کومنسوخ کرنے والی آیت یہ ہے:
لَیْسَ لَکَ مِنَ الأَمْرِ شَیْْء ٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْھِمْ أَوْ یُعَذَّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُون۔(آل عمران، ۱۲۸)
’’اے پیغمبر، فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، اللہ کو اختیار ہے چاہے انہیں معاف کردے، چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔‘‘
اس کی وجہ یہی ہے کہ کسی متعین انسان کے بارے میں ہم فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے لیے کفر پر ہلاکت مقدر فرمادی ہے یا نہیں۔ ایسا بالکل ممکن ہے کہ اللہ ایسے سرکش کافروں کو توبہ کی توفیق بخش دے۔ اس کے برخلاف طرزِ عمل یہ ہے کہ ظلم وبربریت اور شر وفساد سے متصف پوری جنس موصوف کے خلاف اللہ سے شکایتیں کی جائیں، اس کی بارگاہ میں ظالموں کے ظلم کے خلاف گہار لگائی جائے جس میں دینِ اسلام اور اس کے متبعین کی عزت وشوکت مقصود ہو اور دشمنانِ خدا کی ذلت ونابودی مراد ہو، تو ایسی دعائیں مانگنا شرعاًمستحب ومطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین اور اصحابِ ایمان سے محبت رکھتا ہے اور ان کاغلبہ وفتح مندی چاہتا ہے اور کفر وملت ِ کفر کی مغلوبیت اسے پسند ہے، اس لیے اس قسم کی دعائیں کرنا گویا اُس چیز کی دعا کرنا ہوا جسے خود اللہ رب العزت پسند فرماتا ہے۔
البتہ متعین طور سے کسی کافر کے بارے میں بددعائیں کرنے کا عمل جس میں دعا کرنے والے کے علم میں نہ ہو کہ مدعو علیہ کا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا غیرِ ایمان پر ہوگا، تو ایسا کرنے کا ہمیں حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ پہلے پہل ایسا کرتے تھے، لیکن بعد میں آپؐکواس سے روک دیا گیااور بتا دیا گیا کہ کسی کو بھی مستحقِ عذاب یا مستحقِ رحمت متعین کرنے کا حق خالصتاً اللہ تعالیٰ کے اختیاروارادہ پر منحصر ہے۔ حضرت نوحؑ نے تمام اہلِ زمین کی ہلاکت کی جوبددعا کی تھی وہ اسی وقت کی گئی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتادیا تھا کہ اب اُن کی قوم میں سے کوئی اور ایمان لانے والا نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود حدیث ِ شفاعت میں حضرت نوحؑ کا قول مروی ہوا ہے کہ وہ کہیں گے کہ میں نے ایک ایسی دعا کردی تھی جس کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا، اس وجہ سے میں میدانِ حشر میں شفاعت کرنے کا اہل نہیں ہوں۔ (امام ابن تیمیہؒ نے حضرت نوحؑ کی روایت کے جو الفاظ نقل کیے ہیں یعنی‘‘ إنی دعوت علی أھل الارض دعوۃلم أومر بھا‘‘ یہ الفاظ صحیحین میں موجود نہیں ہیں۔ البتہ حدیث ِ شفاعت میں یہ واقعہ ضرور منقول ہوا ہے۔ دیکھیں: صحیح بخاریؒ: ۴۳۴۳۔ صحیح مسلمؒ: ۲۸۷) حالانکہ اگرمان لیا جائے کہ انہیں اس قسم کی بددعا کرنے کا حکم نہیں دیاگیا تھا توایسا بھی نہ تھا کہ انہیں اس سے روک دیا گیا تھا۔ اگرچہ مقامِ نبوت کے شایانِ شان یہی تھا کہ وہی دعا مانگی جائے جو واجب یا مستحب کی حیثیت سے حکم فرمائی گئی ہے۔ یہاں جان رکھئے کہ دعا بھی عبادت ہے، اس لیے اس عبادت کو بھی مامور من اللہ قواعد وضوابط کے دائرہ یعنی وجوب واستحباب کے حدودِ اربعہ میں رہتے ہوئے ہی ادا کیا جانا چاہیے۔ بفرضِ محال مان بھی لیں کہ حضرت نوحؑ کو اس طرح کی بددعائیں کرنے کی اجازتِ خداوندی دی گئی تھی، تب بھی یہ ’’شرع من قبلنا‘‘ (سابقہ شرائع) کے تحت آتا ہے جو کہ اسی وقت قابلِ قبول ہوتی ہیں جبکہ ان کا ہماری شریعت کے احکامات کے ساتھ کوئی تعارض واقع نہ ہوتا ہو۔ ذرا دیکھئے کہ آیا اس طرح کی بددعائوں کا حکم ہماری شریعت ِ اسلامیہ میں باقی ہے یا منسوخ ہوگیا ہے؟کچھ یہی معاملہ حضرت موسیٰ کی بددعا کا بھی ہے جو قرآن میںاس طرح وارد ہوئی ہے:
وَقَالَ مُوسَی رَبَّنَا إِنَّکَ آتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلأہُ زِیْنَۃً وَأَمْوَالاً فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّواْ عَن سَبِیْلِکَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَی أَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلَی قُلُوبِہِمْ فَلاَ یُؤْمِنُواْ حَتَّی یَرَواُْ الْعَذَابَ الأَلِیْم۔ (یونس، ۸۸)
’’موسیٰ نے دعا کی،اے ہمارے رب! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور اموال سے نواز رکھا ہے۔اے رب،کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کوتیری راہ سے بھٹکائیں؟اے رب، ان کے مال غارت کردے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کردے کہ ایمان نہ لائیں جب تک کہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔‘‘
اب اگر ہم نے دعا کو ایک عبادت کی حیثیت سے مان لیا ہے جو مستحب، واجب اور مباح ہوسکتی ہے، تو مذکورہ بالا بددعائوں میں دیکھا یہی جائے گا کہ آیا یہ ہماری شریعت میں بھی علی حالہ باقی رکھی گئی ہیں یا منسوخ کردی گئی ہیں۔ شریعت ِ اسلامیہ میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر دعا واجب ومستحب ہو تو دعا کرنے والے کو ثواب دیا جائے گا، اگر کسی حرام کے لیے ہو مثلاً ناحق خون بہانے کے لیے، یا حرام انداز میں غیر اللہ سے کی جارہی ہو تو ایسی دعا مانگنا گناہ اور معصیت کا عمل ہے، اور اگر دعا مکروہات سے متعلق ہو تو ایسی دعائیں کرنا داعی کے مقام ورتبہ سے فروترہے، اور اگر دعا مباحات سے متعلق ہے تو اس میں دونوں پہلو برابر ہیں یعنی اس کے کرنے یا نہ کرنے پر کوئی شرعی مواخذہ نہیںہوتا۔ اوراللہ سبحانہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ جاننے والاہے۔‘‘ (مجموع فتاوی ابن تیمیہؒ: ۸/۳۳۵)
معاصر علمائے کرام میں سے سعودی عرب میں کبارِ علماء بورڈ کے رکن شیخ صالح الفوزان کا کہنا ہے: قنوتِ نازلہ وغیرہ دعائوں میں صرف انہی کفار ومشرکین کے خلاف بدعائیں کرنا مشروع رکھا گیا ہے جو اہلِ اسلام پر ظلم وزیادتی کرتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺنے بھی جب کفار و مشرکین کے مقابلہ قنوتِ نازلہ کا اہتمام کیا تھا تو اپنی دعائوں میں مخصوص ایسے ہی کفار کا تذکرہ فرماتے تھے جو مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے، ایسانہ تھا کہ جملہ کفار ومشرکین پر عمومی تباہی و عذاب کی بددعائیں فرماتے تھے۔ آپ ؐکی دعائوں کے جونمونے ہمیں احادیث میں ملتے ہیں وہ صاف صاف بتاتے ہیں کہ آپؐ نے مخصوص افراداورمتعینہ قبائل ہی پر بددعائیں فرمائی تھیں، سارے کفار کے حق میں ان بددعائوں کو عام نہیں کیا تھا۔‘‘ (مجلۃ الدعوۃ، العدد: ۱۸۶۹، ص۲۶۰)
(۴) اگر کوئی کافر غیر حربی ہے یعنی ذمی ہے، مستامن ہے یا مسالم ہے تو اس کے خلاف بددعائیں کرنا یا اس کو لعنت ِ خداوندی کا مستحق کہنا جائز نہیں، اس کے برعکس اُس کے لیے ہدایت و اصلاح کی دعائیں کرنا مناسب ہوتاہے۔ مخالفینِ اسلام کے تئیں یہی سنت وسیرتِ رسول ﷺ ہمیں ملتی ہے۔ اسی لیے امام مہلبؒ فرماتے ہیںکہ: مشرکین پر بددعا کرنے کا حکم اختلافِ احوال میں مختلف ہوجاتا ہے۔ اگر کفار ومشرکین اسلام اور اہلِ اسلام کی حرمتوں کو پامال کریں اور بندگانِ خدا پر ظلم و ستم ڈھائیں توایسی صورت میں ان کے خلاف بددعائیں کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ یہی حکم ظالم وجابر کفار و مشرکین کے ہم شاکلہ عاصیوں، فاجروں اور علی الاعلان گناہ کرنے والوں کا ہے۔ لیکن اگر دین اور اہلِ دین کی حرمتیں پامال نہیں ہورہی ہیں، تو واجب ہے کہ غیرِ اہلِ ایمان کے لیے توبہ وانابت اور توفیقِ اسلام کی دعا کی جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ آپؐ سے درخواست کی گئی تھی کہ قبیلۂ ’’دوس‘‘ پرعذاب کی بددعا فرمادیں لیکن آپؐ نے جواب میں اُن کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی تھی۔ (اس حدیث کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے) علامہ ابن بطالؒ فرماتے ہیں: ہمیں سیرتِ پاک میںجو سبق ملتا ہے وہ یہی ہے کہ آپؐ نے حالات کے تحت بسااوقات کچھ لوگوں کے خلاف بددعا فرمائی تھی لیکن دوسرے کفار ومشرکین کے لیے ہمیشہ ہدایت کی دعا فرمائی۔ دونوں صورتوںمیںنظر آنے والا اختلاف دراصل متعلقہ لوگوں کے جرائم وآثام کے اختلاف پر مبنی ہے۔ چنانچہ آپؐ ایسے لوگوں پر ہلاکت کی بددعائیں فرماتے تھے جو اہلِ اسلام کو اذیت دینے میں انسانی حدود سے نکل کر حیوانیت میں داخل ہوجاتے تھے، لیکن جن افراد وقبائل کے تئیں رجوع الی الاسلام اور توبہ کی امید رہتی تھی، اُن کے لیے آپؐ نے ہمیشہ ہدایت کی دعا ہی فرمائی ہے۔‘‘ (شرح صحیح مسلمؒ: ۵/۱۱۲)
(۵) علی الاطلاق ایسی دعائیں مانگنا کہ صفحۂ ہستی سے سارے غیر مسلموں کا وجود ختم ہوجائے ناجائز ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا خالق ومالک اور مختارِ کُل ہے، اس نے دینِ حق اور متبعینِ حق کے پہلو بہ پہلو ادیانِ باطلہ اور پرستارانِ باطل کا وجود مقدر فرمایا ہے اور اُن کی آزادی و اختیار کو باقی رکھنے میں اس کی حکمت کا دخل ہے۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، جس حکم کا ارادہ کرتا ہے نافذ فرماتا ہے۔ اس لیے اس قسم کی دعا کرنا خدائی اسکیم پر اعتراض کے مترادف مانا جائے گا جو کہ ایک بڑی جسارت ہے۔ (ملاحظہ ہو، فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء: ۲۴/۲۷۵)
مشمولہ: شمارہ جنوری 2015