اقامت دین فرض ہے

(مولانا سید احمد عروج قادریؒ)

مولاناعروج احمد قادری کا کتابچہ اقامت دین فرض ہے ، ۴۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ہم سب کو معلوم ہے مولانا نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے وہ جماعت اسلامی کے دستور میں درج جماعت کا نصب العین ہے۔ مولانا نے اپنی کتاب میں اقامت دین کا مطلب بتاتے ہوئے اسے تمام مسلمانوں کا فریضہ قرار دیا ہے۔ قرآن کے حوالے سے مولانا نے یہ ثابت کیاہے کہ تحریک اسلامی نے جو اپنا نصب العین اقامت دین کو بنایا ہے وہ خود ساختہ نہیں ہے اور یہ نصب العین صرف جماعت اسلامی کے ارکان و کارکنان پر فرض نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کا یہ فریضہ ہے اور تمام مسلمانوں کی زندگی کا مقصد یہی ہونا چاہیے۔مولانانے سب سے پہلے اقامت دین کا مطلب سمجھاتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’دین اسلام کو اس کے تمام احکام و قوانین اور اس کی تمام تعلیمات و ہدایت کے ساتھ پوری انسانی زندگی کا دین بنایا جائے ۔ زندگی کو چند شعبوں اور چند خانوں میں تقسیم کرکے بعض میں اسلام کی پیروی کرنا اور بعض میں غیر اسلام کی پیروی کرنا قطعاًغلط ہے، جس طرح مسجد میں اسلام کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح بازار میں ، اسمبلی میں اور پارلیمنٹ میں بھی اس کے قوانین پر عمل کرنا ضروری ہے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اسلام کے خلاف قانون بنانا اپنے جی سے گھڑے ہوئے احکام صادر کرنا، اللہ سے بغاوت کرنا ہے، جو اس پوری کائنات کا تنہا بادشاہ اور برحق حکمراں ہے اور جب تک یہ بغاوت ختم اور اللہ کا کلمہ بلند نہ ہو اقامت دین کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔‘‘

پھر مولانا نے حضورﷺ اور خلفاء راشدین کے ذریعہ قائم کی گئی اسلامی حکومت کو دین اسلام کے قیام کا مثالی نمونہ بتایا ہے اور آج بھی دین اسلام کے قیام کا جو مطالبہ ہے وہ اسی رنگ روپ کے ساتھ اسلامی قوانین کے نفاذ کی کوشش ہے۔ آگے مولانا نے قرآن کی آیتوں کے ذریعہ دس دلیلیں پیش کی ہیں اور ان سے یہ ثابت کیا ہے کہ دین اسلام کے غلبہ کے لیے اور اس کے احکام و قوانین کے نفاذ کے لیے کوشش کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

(۱)پہلی دلیل حضرت آدم ؑ کی تخلیق اور انہیں دنیا میں بھیجے جانے کے مقصد سے متعلق ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت ۳۰سے لیکر۳۹ تک جس میں آدم ؑ کی تخلیق کا مقصد ان کی حیثیت اور انہیں کیا ہدایت دے کر دنیا میں بھیجا گیا تھا تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مولانا نے مختلف مفسرین کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ آدم ؑ کا کام اللہ کے قوانین کے نفاذ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔حضرت آدم ؑ کو اللہ نے اپنا خلیفہ بتایا ہے۔ اور قرآن میں ایک جگہ دائود ؑ کو بھی خلیفہ بتایا گیا ہے۔مولانا تفسیر بیضاوی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ خلیفہ اس کو کہتے ہیں ، جو دوسرے کا قائم مقام اور اس کا نائب ہو اور اس سے مراد آدم ؑ ہیں اس لیے کہ وہ زمین میں اللہ کے خلیفہ تھے اور اسی طرح ہر نبی اللہ کے خلیفہ تھے۔ اللہ نے تمام انبیاء کو زمین کی آبادی، لوگوں کے امور کی تدبیر، ان کے نفوذ کی تکمیل اور ان پر احکام الٰہی کی تنفیذ کے لیے اپنا خلیفہ بنایا تھا۔ اس لیے نہیں کہ اللہ کسی نائب کا محتاج ہے بلکہ اس لیے کہ جن لوگوں پر اس نے اپنا نائب مقرر کیا وہ بلاواسطہ اس کے اوامر اور اس کے فیض کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ ‘‘

(۲) دوسری دلیل حضوراکرمﷺ کی بعثت اور آپ کے نبوت و رسالت کے مقصد سے متعلق ہے۔ مولانا نے سورہ توبہ آیت ۳۳، سورہ صف آیت ۹ اور سورہ فتح آیت ۲۸ کا حوالہ دیا ہے۔ ان کے ترجمہ اس طرح ہیں۔

’’ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجاہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے۔ خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘(التوبہ: ۳۳، الصف :  ۹)

ــ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجاہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ (الفتح: ۲۸)

مولانا لکھتے ہیں: سورہ التوبہ اور سورہ الصف کی آیتوں کا آخری ٹکڑا  ولو کرہ المشرکین ہے اور سورہ الفتح کی آیت کا آخری ٹکڑا  و کفیٰ باللہ شہیداً ہے ۔ ان دونوں آیتوں میں یہ بات کہی گئی ہے کہ دین حق کا غلبہ مشرکوں اور کافروں کو خواہ کتنا ہی ناگوار ہو ہم نے رسول کو اسی مقصد سے بھیجا ہے اور سورہ الفتح کا آخری ٹکڑا یہ بتاتا ہے کہ بعثت محمدی کی اس غرض و غایت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ اب اگر تمام دنیا مل کر بھی یہ کہے کہ محمدﷺ کی بعثت کا مقصد یہ نہیں تھا تو اس کی بات قابل سماعت نہ ہوگی۔‘‘

مولانا نے آگے اس کی وضاحت کے طور پر مولانا مودودیؒ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے تفاسیر کے حوالے پیش کیے ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’نبیﷺ کی بعثت کا مقصد دین حق کو تمام ادیان پر غالب کرنا تھا ۔ ہم مسلمانوں کے لیے اقامتِ دین کے فرض و واجب ہونے کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ ہم جس رسول کی امت ہیں ان کی بعثت کا مقصد ہی اقامتِ دین تھا۔‘‘

(۳) تیسری دلیل کے طور پر قرآن اور اس سے پہلے کی آسمانی کتابوں کے نازل کرنے کا مقصد جو قرآن میں بتایا گیا ہے اسے پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا نے دیگرآیتوں کے ساتھ سورہ بقرہ کی آیت ۲۱۳، اور ۲۱۴ کو پیش کیا ہے ، جس کا ترجمہ ہے: ’’ابتدا میں تمام انسان ایک ہی دین و ملت پر تھے۔ ( پھر ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوا) تب اللہ نے اپنے نبی بھیجے، جو بشارت اور ڈراوا سنانے والے تھے اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں ان کے درمیان جو اختلاف پیدا ہوگئے تھے ان کا فیصلہ کرے۔ اختلاف ان لوگوں نے کیا جنھیں حق کا علم دیا جا چکا تھا۔ انھوں نے روشن ہدایت پالینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے۔ پس جو لوگ انبیاء پر ایمان لائے انھیں اللہ نے اپنے اذن سے حق کا راستہ د کھا دیا ، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے۔ پھر کیا تم لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت میں داخل ہوجائو گے حالانکہ ابھی تم پر وہ سب نہیں گزرا ، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے۔ ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلامارے گئے۔ یہاں تک کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ اس وقت انھیں تسلی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘

مولانا نے ان آیتوں کے حوالے سے چار باتوں کی وضاحت کی ہے۔ (۱) انسان کی زندگی کی شروعات حق کی روشنی میں ہوئی تھی مگر بعد میں دین حق میں اختلاف پیدا ہوجانے کی وجہ سے پیغمبروں کو مبعوث کیا گیا۔ (۲) اللہ نے انبیاء و رسولوں پر کتابیں نازل کیں۔ زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہو صرف اس کتاب کو یہ حق ہوتا تھاکہ وہ اس کے صحیح یا غلط ، حق یا باطل ہونے کا فیصلہ کرے۔ (۳) رسولوں پر ایمان لانا اور کتابوںپر عمل کرنا ہر دور میں آسان نہیں رہا ہے۔ پہلے بھی مومنین کو مصیبتیں جھیلنی پڑیں ہیں اور اب امت محمدیہ کو بھی مصیبتیں جھیلنی پڑے گی۔ (۴) جنت کا حصول اقامت دین کے لیے جد و جہد کرنے کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ کی کتاب کے قیام اور نفاذ کے لیے سیاسی طاقت ضروری ہے۔ مولانا لکھتے ہیں: ’’کھلی بات ہے کہ قرآن خود کسی ظالم کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا ، کسی زانی کی پیٹھ پر کوڑے نہیں برسا سکتا اور کسی چور کا ہاتھ نہیں کاٹ سکتا۔ اس کے احکام کی تنفیذ کے لیے حکومت کا اقتدار ضروری ہے۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت بذاتِ خود مقصود و مطلوب نہیں ہے بلکہ ُاس قانون کو نافذ کرنے کے لیے مطلوب ہے، جو اللہ نے انسانوں کی دنیوی و اُخروی فلاح کے لیے نازل فرمایا ہے اور یہیں سے یہ حقیقت بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول کو حکومت طلب کرنے کی دعا کیوں سکھائی تھی۔ ‘‘

(۴)اقامت دین کے لیے چوتھی دلیل مولانا نے جو پیش کی ہے وہ یہ کہ اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے خلاف حکم چلانے والے اور فیصلہ کرنے والے کافر، ظالم اور فاسق ہیں۔ مولانا نے سورہ مائدہ کی آیتیں پیش کی ہیں جن کا ترجمہ ہے: ’’ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔‘‘ (المائدہ: ۴۴) ’’ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔‘‘ (المائدہ:۴۵)  ’’ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔‘‘(المائدہ: ۴۷)مولانا لکھتے ہیں: ’’ یہ آیتیں ایک طرف اس بات کی محکم دلیل ہیں کہ تمام معاملات و مقدمات میں اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرنا اس درجے کا فرض ہے کہ اس پر عمل نہ کرنے والا کافر، ظالم اور فاسق ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف یہ اس حقیقت کی بھی پختہ دلیل ہیں کہ دین میں معاملات کی اہمیت عبادات سے کم نہیں ہے اور دین کا وہ جز جس کا تعلق سیاست و حکومت سے ہے اُتنا ہی اہم اور ضروری ہے جتنا وہ جز جس کا تعلق اللہ کی پرستش سے ہے ۔ اور تیسری طرف یہ آیتیں اس بات کی بھی شاہد عدل ہیں کہ اقامت دین، حکومت و عدالت کی کرسیوں پر اتنی ہی ضروری ہے جتنی مسجد کی صفوں اور چٹائیوں پر۔‘‘مولانا نے اس اعتراض کا ذکر بھی کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں یہ آیتیں یہود و نصاریٰ کے لیے ہیں مسلمانوں کے لیے نہیں ہیں۔ اس کے جواب میں صحابہ و تابعین کی توضیحات کو پیش کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ اہل کتاب کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لیے بھی ہیں۔

(۵) پانچویں دلیل میں قرآن کی وہ آیتیں پیش کی ہیں جن میں چور اور زانی کی سزامقرر کی گئی ہے۔ ’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ، ان کی سزا یہ کہ قتل کیے جائیں یا سولی پر چڑھا دیے جائیں یا ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ لیے جائیں یا جلا وطن کر دیے جائیں ، یہ ذلت اور رسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے۔ مگر جو لوگ توبہ کرلیں قبل اس کے کہ ان پر قابو پائو۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ‘‘(المائدہ: ۳۴۔۳۳) ’’ اور چور خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا اور اللہ غالب اور دانا و بینا ہے۔ ‘‘ (المائدہ: ۳۸)

’’ یہ ایک سورہ ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے اور اسے ہم نے فرض کیا ہے اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں ۔ شاید تم سبق لو۔ زانیہ عورت اور زانی مرددونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔‘‘ (النور:۲۔۱)مولانا لکھتے ہیں : ’’ سورہ مائدہ اور سورہ نور کی ان آیتوں میں امت مسلمہ بحیثیت مجموعی مخاطب ہے لیکن حد نافذ کرنا حکومت کا کام ہے کیوں کہ ہر شخص کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت دے دی جائے تو سخت افراتفری پھیل جائے اور اجتماعیت منتشر ہو کر رہ جائے۔ ان حدود کو مسلمانوں کی نیابت میں ان کے حکام نافذ کریں گے۔ مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ جہاں ان کی حکومت قائم ہو وہ وہاں یہ دیکھتے رہیں کہ قرآن و سنت میں مقرر کی ہوئی حدود و تعزیرات نافذ ہو رہی ہیں یا نہیں؟ اگر نافذ نہیں ہورہی ہوں تو اپنی حکومت کو انھیں نافذ کرنے پر مجبور کریں گے اور اگر وہ تیار نہ ہو تو اسے بدل دینے کی جد و جہد کرنی پڑے گی۔ اور اگر کسی ملک میں کوئی ایسا اقتدار موجود ہی نہ ہو جو قرآن کے ان حدود کی تنفیذ کر سکے تو دعوت اسلامی کے اوّلین مرحلے سے لیکر آخری مراحل تک ایک ایسے سیاسی اقتدار کے حصول کی جد وجہد واجب ہے۔ ‘‘

(۶)اقامت دین کی فرضیت سے متعلق چھٹی دلیل کے طور پر قرآن کی ان آیتوں کو پیش کیا ہے جن سے اقامت دین کی اصطلاح اخذ کی گئی ہے۔ ’’ اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے (اے محمدﷺ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو۔‘‘ (الشوری: ۱۳)مولانا نے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تفسیر کے حوالے سے یہ واضح کیا ہے کہ اقامت دین میں دین کی تمام کلیات و جزئیات شامل ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اس توضیح سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ نے تعلیم قرآن اور تذکیر و موعظت کی مجلسوں سے لے کر بدروحنین اور خیبر و تبوک کے میدانوں تک اور تبلیغ دین سے لے کر انتظام مملکت تک جو کام بھی کیا وہ سب اقامت دین میں داخل تھا اور اس کا کوئی جزو دین سے خارج نہ تھا۔‘‘

(۷)ساتویں دلیل میں بتایا کہ مشکلات میں صبر اور غلبہ حق کے لیے اللہ کی مدد کا وعدہ جو قرآن میں کیا گیا ہے اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاء کرام ؑ کے ذمہ جو کام کیا گیا تھا وہ فرض تھا۔ اس تعلق سے قرآن کی آیتوں کو مولانا نے چار قسموں میں تقسیم کیا ہے۔(۱) وہ آیتیں جن میں عمومی طور پر تمام رسولوں سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ ہم تمہیں کفارپر غالب کریں گے۔ جیسے سور ہ الصٰفٰت کی آیتیں ۱۷۱ سے ۱۷۳ تک جس کا ترجمہ ہے: ’’ اور اپنے بندوں(یعنی رسولوں ) کے حق میں ہمارا فیصلہ پہلے ہی صادر ہو چکا ہے۔ بلا شبہ وہی وہ لوگ ہیں جن کی مدد کی جائے گی اور بلا شبہ ہمارا ہی لشکر غالب رہے گا۔‘‘(۲) وہ آیتیں جن میں خصوصی طور پر حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارون ؑ سے وعدہ کیا گیا ہے۔ جیسے سورہ قصص کی ۴ سے ۶ آیتیں جس کا ترجمہ ہے: ’’ واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اسکے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ اُن میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا ، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں اُن لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے۔ اور انہیں پیشوا بنادیں اور انہیں کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلادیں جس کا انہیں ڈر تھا۔‘‘ (القصص: ۶۔۴)  (۳)۔وہ آیتیں جن میں سیدنامحمدﷺ سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ جیسے سورہ قمر کی آیت ۴۵ جس کا ترجمہ ہے۔ ’’عن قریب ان کا جتھا شکست کھا جائے گا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ ‘‘ (القمر: ۴۵) (۴)۔ وہ آیتیں جن میں امت مسلمہ سے مدد کا وعدہ کیا گیا ہے۔جیسے سورہ محمدکی آیت ۷ جس کا ترجمہ ہے۔ ’’ اے ایمان والوں ! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدمو ں کو جما دے گا۔ ‘‘ (محمد: ۷) مولانا لکھتے ہیں :’’ وعدہ الٰہی کی ان آیتوں نے پوری طرح یہ بات واضح کردی ہے کہ دین کو غالب کرنے کی جد و جہد اور اس راہ میں ایثار و قربانی فرض ہے۔ ورنہ اللہ کی مدد کے لیے یہ شرط ہر گز نہ لگائی جاتی۔

(۸)آٹھویں دلیل غلبہ دین کی جد وجہد میں مال نہ خرچ کرنے والوں اور جان چرانے والوں کے حکم سے متعلق ہے۔ قرآن میں بہت سی ایسی آیتیں ہیں جن میں دین کی سر بلندی کے لیے مال خرچ کرنے اور اپنی جان کھپانے کو ایمان کی کسوٹی قرار دیا گیا ہے۔ اور اس سے جی چرانے والوں کو منافق بتایا گیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دین اسلام کی سربلندی کے لیے حسب استطاعت مال خرچ کرنا اور دین کی اقامت کی کوشش میں خود حصہ لینا فرض ہے۔’’ اور دونوں جماعتوں کے مڈ بھیڑ کے دن تمہیں جو مصیبت پہنچی، یہ اللہ کے حکم سے پہنچی تاکہ اللہ ایمان لانے والوں کو ممیّز کردے اور ان منافقین کو بھی ممیّز کردے جن سے کہا گیا کہ آئو اللہ کی راہ میں جنگ کرویا دشمن کو دفع کرو۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہمیں اندازہ ہوتا کہ جنگ ہونی ہے تو ہم ضرور تمہارے ساتھ ہوتے ۔ یہ لوگ اس دن ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے۔ یہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے اور اللہ اس چیز کو خوب جانتا ہے، جس کو یہ چھپاتے ہیں۔ یہ ہیں جو خود تو بیٹھے رہے اور اپنے بھائیوں کی نسبت کہا کہ اگر وہ ہماری بات مانتے تو یوں قتل نہ ہوتے، ان سے کہہ دو کہ اگر تم اپنی اس بات میں سچے ہو توخود اپنے آپ سے موت کو دفع کرلو۔‘‘(آل عمران: ۱۶۸۔۱۶۶)

’’جو لوگ سچے دل سے اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہ کریں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ ایسی رخصت تو تم سے وہی لوگ مانگتے ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں بھٹک رہے ہیں۔‘‘ (التوبہ: ۴۵۔۴۴)مولانا لکھتے ہیں :’’ اگر اعلاء کلمۃاللہ کے لیے جان و مال کے ساتھ جہاد فرض نہ ہوتا تو پھر اسے ایمان و نفاق کے درمیان فرق کرنے والی کسوٹی قرار نہ دیا جاتا۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ اسلام و کفر کی کشمکش میں جو لوگ اپنی جان و مال کے ساتھ اسلام کی حمایت کریں اور اپنی تمام قوت و صلاحیت اسے سر بلند کرنے کی کوشش میں کھپادیں وہی سچے مومن ہیں۔ بخلاف اس کے جو لوگ اس کشمکش میں اسلام کا ساتھ دینے سے جی چرائیں اور بلا عذر اس میں اپنی جان و مال خرچ کرنے سے پہلو تہی کریں وہ جھوٹے مومن ہیں، جنھیں آخرت پر یقین نہیں ہے اور نہ خدا کے وعدوں پر۔‘‘

(۹) نویں دلیل کے طور پر مولانا نے انسانوں اور جنوں کے پیدا کیے جانے کے مقصد کا قرآن سے حوالہ پیش کیا ہے۔ ’’ اور میں نے جن و انس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ (الذاریات: ۵۶)مولانا عبادت کا مطلب بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:’’دین اسلام کی مکمل پیروی ہی وہ عبادت ہے، جس کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ اس عبادت کے دائرے سے انسانی زندگی کا کوئی شعبہ خارج نہیں ہے اور دین اسلام کی مکمل پیروی ہی کا نام اقامت دین ہے۔‘‘ آگے مولانا نے امام رازیؒ کی تفسیر سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:’’عبادت صرف پرستش کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس عبادت کے دائرے میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں داخل ہیں اور انسان عبادت کی ان دونوں قسموں کا مکلف ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیج کرعبادت کی ان دونوں قسموں کے طریقے واضح کردیے ہیں۔ اس کے معنی بھی یہی ہوئے کہ ہمیں اس عبادت کی تفصیل جاننے کے لیے رسول کی زندگی اور اللہ کی کتاب کو سامنے رکھنا چاہیے۔‘‘(۱۰)

امت مسلمہ کا نصب العین اور اس کا مقصد حیات جو قرآن میں بتایا گیا ہے مولانا نے اسے اقامت دین کے فرض ہونے کے لیے دسویں دلیل کے طور پر پیش کیاہے۔سورہ بقرہ کی آیت ۱۴۳ جس کا ترجمہ ہے: ’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک بیچ کی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور رسول تم پر گواہی دینے والا بنے۔‘‘ (البقرہ: ۱۴۳) ’’ اور تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونا چاہیے جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں ، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔ ‘‘ (آل عمران: ۱۰۴) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران: ۱۱۰)مولانا لکھتے ہیں : ’’قرآن نے امت مسلمہ کو مخاطب کرکے اس کو اس کا منصب بتایا ہے اور اس کو امت وسط اور خیر امت بنانے کی ضرورت اور غرض و غایت صراحت کے ساتھ بیان کر دی ہے۔ تاکہ اس بات میں کوئی شبہ باقی نہ رہے کہ اب یہی امت قیامت تک اس کام کی ذمہ دار ہے، جس کے لیے قرآن نازل کیا گیا ہے اور جس کا عملی نمونہ سیدنا محمدﷺ نے پیش فرمایا دیا ہے۔ اس طرح قرآن کی یہ صراحت اس بات کی ایک مستقل دلیل بن گئی ہے کہ یہ امت جس کام میں اپنے رسول کی قائم مقام ہے وہ اس پر فرض ہے اور اگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے تو اپنے مقصد وجود میں ناکام ہوجائے گی۔‘‘آگے مولانا خاتمہ کلام میں لکھتے ہیں: ’’ہم پر دین حق کو غالب کرنے اور اس کو قائم کرنے کی جو ذمے داری ڈالی گئی ہے وہ یہی ہے کہ ہم اس کے لیے پوری کوشش کریں۔ اگر ہم نے پوری کوشش کرلی تو ذمے داری سے سبک دوش ہو جائیں گے اور اگر ہم نے کوشش نہیں کی اور اس جد و جہد میں حصہ ہی نہیں لیا تو قیامت میں پکڑے جائیں گے اور ہم سے سخت باز پرس کی جائے گی۔ ‘‘ جماعت اسلامی نے جو اپنا نصب العین بنایا ہے وہ پوری امت مسلمہ کا نصب العین ہے اور وہ ہم پر فرض ہے۔ اب اگر ہم نے اقامت دین کا مطلب ، اس کا مفہوم اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ اور اس کے فرض ہونے کا احساس ہم کو ہے تو پورے خلوص کے ساتھ دین اسلام کے غلبہ کے لیے ہم سے جو بھی ہوسکے بھرپور کوشش کریں تاکہ کل قیامت کے دن ہم جنت کے حق دار بن سکیں ۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2018

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau