فہم حدیث
فہم حدیث کا تعلق حدیث کی معنویت سے ہے یعنی رسول اللہ ؐ نے دین وشریعت سے متعلق جو بھی فرمایا اس کی معنویت آپؐ نے قرآن کریم سے حاصل کی۔ اور قرآن کی کئی آیتوں میں رسولؐ کی اتباع وحی کا بھی ذکر ہے۔ مثلاً: اِنْ اَتّبِعْ اِلاّ مَا یُوحیٰ اِلیَّ۔ میں اسی کی اتباع کرتا ہوں جس کی وحی میری طرف کی جاتی ہے۔
بقول مولانا محمد تقی امینی:’’ یہ ’وحی‘ لفظی ومعنوی ہر دلالت کو شامل ہے کیونکہ رسول اللہؐ کی اتباع کا میدان اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ جو ظاہری الفاظ قرآن سے سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کئی آیتوں میں ’حکمت‘ کا ذکر ہے۔جس سے مراد الفاظ کی وہ معنوی دلالت بھی ہے جس کو رسولؐ نے شعورِ نبوت کے ذریعہ سمجھایا۔‘‘ ۱؎
شاہ ولی اللہ کہتے ہیں: ’’اسی طرح حدیث کی معرفت دو طرح ہوتی ہے۔
(1) اہلِ ظاہر کی معرفت جس کا تعلق راویوں اور غریب حدیث کی واقفیت سے ہے۔
(2) حکماء کی معرفت جس کا تعلق تشریح کی حقیقت اور علم کی معرفت سے ہے۔
اور تشریح کی حقیقت تک رسائی معنویت حاصل کئے بغیر ناممکن ہے۔‘‘۲؎
احناف اور مالکیہ کے نزدیک فہم حدیث
ان کے مطابق حدیث کے فہم اور اس کے احکام کا دارومدارصرف ظاہری الفاظ پر نہیں بلکہ عقلی دلائل کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔ دین کے ایسے اُمور میں جن کی نوعیت عام احکام کی ہے، صحابہؓ اور تابعینؒ کے تعامل کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر کوئی روایت تعامل کے خلاف وارد ہو تو اس پر توقف کیا جائے گا۔ حدیث کے فہم کو متعین کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی پیغمبرانہ حیثیت کے ساتھ رسولؐ کے ذاتی اور عادی اُمور کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے کہ آپﷺ کے کسی فعل کی نوعیت کیا ہے اور اس کی پیروی اُمت سے مطلوب ہے یا نہیں۔ حضرت رافع سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ لوگ کھجور کے درختوں کو پانی سے تر کر دیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم ایسا نہ کرو تو شاید پھل زیادہ اچھا ہو، لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ لیکن پھل پہلے سے کم ہوا۔ لوگوں نے آپﷺ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’میں بھی ایک انسان ہی ہوں، جب میں تمہیں دین کے معاملے میں کوئی حکم دوں تو اس پر لازماً عمل کرو، لیکن میں اگر اپنی رائے سے کوئی بات کہوں تو میں بھی ایک انسان ہوں۔ ۳؎
رسولﷺ کے قول کے مطابق آپ کے پیغمبرانہ حکم اور مشورے میں فرق رکھا جاتا تھا۔ مثلاً ’’حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ جب حضرت عائشہؓ نے اپنی لونڈی بریرہ کو آزاد کیا تو اس نے اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اپنے خاوند سے علیحدگی کافیصلہ کیا، خاوند مغیث کے غم گین ہونے کی وجہ سے رسول ﷺ نے بریرہ سے کہا اگر تم اس کے نکاح میںرہو تو بہتر ہے۔
بریرہ نے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کیا یہ آپ کاحکم ہے؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔
بریرہ نے کہا تو پھر مجھے مغیث کی کوئی ضرورت نہیں۔۴؎
فقہائے احناف نے عقلی اصولوں کا استعمال کرتے ہوئے فہم حدیث کے طریقے کو مزید واضح کیا ہے۔ مذکورہ روایت سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ اگرکسی کو ذاتی حیثیت سے کوئی مشورہ دیں۔ شخص متعلق پراس کی اتباع واجب نہیں۔
فہم حدیث شوافع اور حنابلہ کے نزدیک
ان کے مطابق حدیث کےفہم میں آخری حد تک اس کے الفاظ کی رعایت کی جاتی ہے۔ البتہ اصولی طور پر احکام کی علت و حکمت کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ حدیث کے فہم کو ان کی انفرادی حیثیت کے تحت دیکھا جاتا ہے۔ حدیث کی لفظی دلالت کے علاوہ خارجی اصولوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔
ان دونوں طریقوں میں سے کسی گروہ کا محرک بھی نفسانیت کاجذبہ نہیں بلکہ پیغمبر کے منشا کا صحیح ادراک اور اس کی اتباع ہے۔ رسول اللہﷺ بعض موقعوں پر خاموش رہے مثلاً:
’’صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوۂ خندق سے فارغ ہو کر مدینہ واپس آئے تو آپ ﷺ نے فوری طور پر بنو قریظہ کی طرف چلنے کا حکم دے کر کہا کہ بنو قریظہ پہنچنے سے قبل کوئی عصر کی نماز نہ پڑھے۔ بعض صحابہ راستے میں ہی تھے کہ عصر کی نماز کا وقت آگیا اور ان میں رائے کا اختلاف ہو گیا۔ ایک گروہ نے کہا چونکہ ہمیں بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے نماز پڑھنے سے منع کیاگیا، اس لیے ہم نماز نہیں پڑھیںگے۔ جبکہ دوسرے گروہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ مطلب نہیں تھا بلکہ اُن کا یہ مطلب تھا کہ ہم اتنی تیزی سے جائیں کہ عصر سے پہلے وہاں پہنچ جائیں۔ اسی لیے اس گروہ نے نماز ادا کر لی۔ ابن عمر ؓکہتے ہیں کہ بعد میں جب رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس بات کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے دونوں گروہوں میں سے کسی کو نہیں ڈانٹا۔۵؎
محمد ادریس کاندھلویؒ لکھتے ہیں:’’صحابہ کرامؓ میں ایسا امر مشترک ہے جس پر تمام صحابہ متفق ہوں، وہ سوائے عقائد کے اور کوئی شے نہیں، عملیات اور فروعی مسائل میںصحابہ کرامؓ کے مابین بھی اختلاف تھا کہ عبادت کا کون سا طریقہ بہتر ہے۔ مثلاً نماز میں رفع یدین بہتر ہے یا ترک رفع یدین، آمین اور بسم اللہ کا جہر بہتر ہے یا اخفاء۔ اصل نماز میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ فقط طریق ادا میں اختلاف تھا۔ ہر ایک کتاب و سنت کا عاشق تھا۔ ہرایک کو فکر یہ تھی کہ عبادت اس طریقہ سے ادا کی جائے کہ جو اللہ اوراس کے رسول کے نزدیک سب سے بہترہو۔ یہ اختلاف فکر و نظر کااختلاف تھا۔ جو شائبہ نفس اور ریاء سے پا ک تھا اور کینہ، حسد، اختصام، جدال سے کوسوں دور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرامؓ باوجود ان اختلافات کے بلا تردد ایک دوسرے کی نماز میں اقتدا کرتے تھے اور باہمی محبت اورمودت پر ذرّہ برابر اس اختلاف کاکوئی اثر نہ تھا۔۶؎
درج بالا اقتباس سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرامؓ کا باہمی اختلاف فقط فروعی اور اجتہادی مسائل میں تھا، اصول اور عقائد میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ بالکل اسی طرح امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، اور امام احمد بن حنبلؒ اصول دین اور عقائد میں متفق تھے۔ صرف فروعی اوراجتہادی مسائل میں اختلاف رکھتے تھے۔
متواتر اور خبر واحد
مطالعۂ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیث کو سمجھنے کے لیے دو بنیادی باتوں کی تعلیم دی۔
1۔ جواحکامات رسول اللہ ﷺ نے بحیثیت پیغمبر فرمائے ہیں، اس میں آپ ﷺ کے احکام کی اتباع لازم ہے، اس میں کسی بھی طرح کا ردّوبدل نہیں کیا جا سکتا۔
2۔دوسری طرح کے احکام وہ ہیں جن میں لوگوں کے لیے عقل اور ذاتی تجربہ کا استعمال ممنوع نہیں، بلکہ اس میں رسول اللہ ﷺ کے مشورے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی بھی بات کو بنا تحقیق کے نہیں مانا گیا یہاں تک کہ صحابہ کرامؓ نے آپس میں ایک دوسرے سے سننے کے باوجود کسی بھی بات کوبلا دلیل نہیں مانا۔ تحقیق کایہی طریقہ ’’روایت و درایت‘‘ کہلایا۔ اور اسی کے ساتھ علم رجال کا فن وجود میں آیا۔
بقول مولانا بدر عالم میرٹھی :روایت و درایت کے اس غیر متوازن دور میں اسلام آیا اور اس سے دونوں کا توازن قائم کر کے صحیح تنقید کی راہ دکھلائی اور اس کے لیے ایسا معتدل آئین مرتب فرمایا جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط۔ اس نے بتایا کہ ہر کان پڑی خبر کی طرف دوڑ پڑنا بھی غلط ہے اور تحقیق و تفتیش کے سلسلے میں بدگمانی کی حد تک پہنچ جانا بھی غلو اور وہم پرستی ہے۔ انسان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ بے اعتمادی کی حالت میں آنکھ میچ کر تغلیظ اور اعتماد کی صورت میں بے دلیل تصدیق کر لیا کرتا ہے۔ مگر قرآن نے یہاں دوست و دشمن، اپنے اورپرائے، کا فرق ختم کر کے سب کے لیے یکساں تحقیق و تبیین کا قانون مقرر کر دیا ہے۔ اور دوسری طرف وہ تجسس اور تحقیق جس کی بنیاد وہم پرستی اور صرف بدظنی پر ہو، اس سے بھی روک دیا ہے۔۷؎
اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے متعدد مواقع پر بعض صحابہ کرامؓ کی بیان کردہ روایتوں کو ان کی ظاہری شکل میں اس بنا پر قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کے نزدیک وہ کتاب اللہ کے نصوص یا اصول شرع کے خلاف تھیں۔ اسی لیے درایت کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ سے منقول روایات کو پرکھنے کا طریقہ صحابہ کرامؓ کے زمانہ میں ہو چکا تھا۔ اگرکوئی ایسی روایت ان کے سامنے آتی جو ان کے علم و فہم کے مطابق کتاب اللہ یا سنت سے معارض ہوتی تو وہ اُسے تسلیم نہ کرتے۔ پھر اپنے فہم کے مطابق اس کی تاویل کرتےکہ رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ ادا نہیں ہو سکتے، اور راوی نے سننے یا سمجھنے میں غلطی کی۔ مثلاً:
حضرت عائشہؓ نے قرآن کی روشنی میں اس بات کو ردّ کیا کہ مردے کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے سزا دی جاتی ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ قرآن کی ایک آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اُٹھائے گی۔ ۸؎
سنن ابی دائود میں روایت ہے کہ فاطمہ بنت قیسؓ نے یہ روایت بیان کی کہ ان کے خاوند نے انہیں تین طلاق دے دیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ عدت کے دوران میں ان کا نفقہ خاوند کے ذمّے نہیں ہے لیکن حضرت عمرؓ نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا: ’’ہم کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کو ایک عورت کی بات پر نہیں چھوڑ سکتے، جس کو پتا نہیں بات یاد بھی رہی یا نہیں۔ ۱۰؎
بعض خبریں ایسی ہوتی ہیں جن کے بطلان کے قرائن اس قدر واضح ہوتے ہیں کہ ان کو سنتے ہی ان کی تردید کر دینی چاہئے۔ مسند احمد کی روایت ہے:
’’حضرت ابوسعید الخذری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم کوئی ایسی حدیث سنو جس سے تمہارے دل مانوس ہوں اور تمہارے بال و کھال اس سے متاثر ہوں اور تم اس کو اپنے سے قریب سمجھو تو میں اس کا تم سے زیادہ حقدار ہوں۔ اور جب کو ئی ایسی حدیث سنو جس کو تمہارے دل قبول نہ کریں اور تمہارے بال و کھال اس سے متواحش ہوں اور تم اس کو اپنے سے دور سمجھو تو میں تم سے بڑھ کر اس سے دور ہوں۔‘‘۱۱؎
چنانچہ قرآن، سنت متواترہ، عقل اور ثابت شدہ حقائق، جو تواتر یا مشاہدے سے ثابت ہوں، ان سب کی روشنی میں خبر واحد کے مندرجات کو ردّ و قبول کرنا درایت کہلاتا ہے۔ثبوت کے اعتبار سے نبی ﷺ سے ملنے والے علم کو دو حصوں میں بانٹا جاتا ہے۔
1۔ قرآن اور سنت ثابتہ کو یقینی مانا گیا، اور اسے لازمی قرار دیا گیا۔
2۔ خبر واحد کو ظنی مانا گیا، اسی لیے اسے علم نہیں بلکہ خبر قرار دیا گیا۔
امام شافعیؒ نے فقہاء کی عام رائے سے ہٹ کر خبر واحد کا دفاع کیا۔ امام شافعیؒ نے علم کے دو درجے مانے ہیں ایک یقینی اور دوسرا ظنی اوران کے استدلال کے بعد کئی سالوں تک خبر واحد کی عملی طور پر حجیت مانی جانے لگی۔
مسلک اہل حدیث
اہل حدیث نے خبر واحد کی حجیت کو مانا اور کبھی بھی اسے ماننے میں گریز نہیں کیا۔ اہل حدیث میں ایک فرقہ ظاہریہ کہلاتا ہے، جس کے بانی امام دائود بن علی اصفہانی (م:883ء ) ہیں۔ وہ قیاس کےقائل نہ تھے۔ آیات و احادیث کے صرف ظاہری معنی پر اکتفا کر تے تھے۔ اسی لیے ظاہری کہلائے۔ ابن دائود ظاہری کے اصولوں کی روشنی میں ابن حزم نے یہ نظریہ دیا کہ دین کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے، اس لیے وہ یقیناً محفوظ ہے۔
حواشی
1۔حدیث کا درایتی معیار، مولانا محمد تقی امینی، ندوۃ المصنفین، اردوبازار، دہلی، 1980ء صفحہ94
2۔ الخیر الکثیر- اقسام التفسیر والحدیث بحوالہ حدیث کا درایتی معیار، حوالہ سابق، صفحہ95
3۔صحیح مسلم، کتاب الفضائل، حدیث نمبر: 6127
4۔ صحیح بخاری، کتاب اطلاق، حدیث نمبر: 5283
5۔صحیح بخاری، باب الصلاۃ، حدیث نمبر: 74
6۔عقائد الاسلام، محمد ادریس کاندھلوی، ادارۂ اسلامیات کراچی، 2010ء، حصہ اوّل، صفحہ: 237
7۔ترجمان السنۃ، بدر عالم میرٹھی، ندوۃ المصنفین، دہلی، 1948ء، صفحہ: 195
8۔صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2150
9۔صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1186
10۔سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 2291
11مسند احمد بن حنبل، مترجمہ محمد ظفر اقبال، مکتبہ رحمانیہ لاہور، جلد پنجم،حدیث نمبر1 1370 ، صفحہ 121
مشمولہ: شمارہ جون 2018