اسلام ایک مکمل دین اور مکمل نظام حیات ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتا ہے اور زندگی کے ہر مرحلہ میں اپنے ماننے والوں کی قدم قدم پر رہ نمائی کرتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ اللہ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں صاف صاف احکام نازل فرما دیے ہیں اور پیارے رسول حضرت محمد ﷺ نے اپنی حکیمانہ اور دل نشیں باتوں کے ذریعے احکام کی تشریح فرما دی ہے، اور کیسے ان تعلیمات کو زندگی میں رو بہ عمل لایا جائے خود ان پر عمل کر کے دکھا دیا ہے، تاکہ کسی مسلمان کو کوئی پریشانی اور الجھن نہ ہو۔ اللہ نے فرمایا:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِی رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [الأحزاب: 21]
(در حقیقت اللہ کے رسول کی زندگی میں تمھارے لیے بہترین نمونہ عمل ہے۔)
اس لیے دین کی سمجھ پیدا کرنے کے لیے ایک طرف قرآن کا مطالعہ ضروری ہے تو دوسری طرف حدیث اور سیرت رسول اللہ ﷺ کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔
دین کا علم اور دین کی سمجھ پیدا کیے بغیر نیک اعمال کا انجام دینا کبھی کبھی بیکار، لاحاصل اور وقت کا ضیاع ہوتا ہے، جیسے ایک مسافر اندھیرے میں منزل کی طرف رواں دواں ہے مگر کچھ چلنے کے بعد حسن اتفاق سے روشنی میں چلنے والے ایک مسافر سے اس کی ملاقات ہو جاتی ہے اور وہ مسافر اندھیرے میں چلنے والے مسافر کو بتاتا ہے کہ وہ منزل سے قریب ہونے کے بجائے دور ہو رہا ہے۔ تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ منزل پر صحت و سلامتی کے ساتھ پہنچنے کے لیے پہلے علم کی روشنی ضروری ہے۔ چناں چہ وہ علم حاصل کرنے کی جستجو کرتا ہے تاکہ دین پر وہ جتنا عمل کرے وہ لا حاصل اور وقت کی بربادی نہ ہو۔
دین میں بعض احکام فرض ہیں جن کا انجام دینا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے، اگر نہ انجام دے تو گناہ گار ہوگا، حشر میں پوچھا جائے گا کہ کیوں نہیں انجام دیا اور بندے کو جواب دہی کرنی ہوگی۔ بعض اعمال نفل ہیں کہ انجام دے تو بیشک ثواب ہوگا، نہیں انجام دے تو گناہ گار نہیں ہوگا۔ ہر دانش مند آدمی یہی چاہے گا اور دین کی سمجھ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ پہلے ان اعمال کو انجام دینے کی فکر کرے جو فرض کا درجہ رکھتے ہیں، جنھیں انجام نہ دینے کی صورت میں حشر کے دن وہ مجرم اور گنہ گار ٹھہرے گا اور اس سے باز پرس ہوگی۔ روز مرہ کی فرض عبادتیں بہت زیادہ نہیں ہیں۔ محدود، متعین اور زیادہ تر وقت کی پابندی سے مشروط ہیں جنھیں انجام دینا آسان ہے۔ نفل عبادتیں اختیاری ہیں۔ قرب الٰہی اور ترقئ درجات کا ذریعہ ہیں۔ کم بھی انجام دی جا سکتی ہیں اور زیادہ بھی، یہ سب بندے کے حوصلے، جذبے، وقت کی فراغت اور سوجھ بوجھ پر منحصر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بعض کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے کہ یہ کرو اور بعض باتوں سے روکا ہے کہ یہ نہ کرو۔ معروف اور منکر قرآن کی دو اصطلاحیں ہیں۔ معروف یعنی نیکی اور منکر یعنی بدی۔ نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو معروف پر عمل کرنے اور منکر سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے بلکہ یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ تم دنیا کے لوگوں کو بھی معروف (نیکی) کا حکم دو اور منکر (بدی) سے روکو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے تم کو ایک خیر امت یعنی بہترین امت اور بہترین جماعت ساری دنیا کے انسانوں کے لیے بنایا ہے اور خیر امت کا لقب دیا ہے، تاکہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دو، بدی سے روکو اور اللہ پر ایمان رکھو۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا :
كُنْتُمْ خَیرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ [آل عمران: 110]
(اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان عمل میں لایا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔)
اللہ کے فرمان کی روشنی میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مسلمانوں کی مستقل ذمہ داری ہے۔ نیکی کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔ اسے ہمیشہ جاری رہنا چاہیے۔ اسلام کی امانت جو پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ سے امت مسلمہ کو ملی ہے اسے ان انسانوں تک پہنچانا مسلمانوں پر اولین درجہ میں فرض ہے جن تک یہ نہیں پہنچی ہے۔ حق دنیا میں صرف مسلمانوں کے پاس ہے، اس لیے اس حق سے آگاہ کرنا بھی مسلمان ہی کا کام ہے، کوئی دوسرا اس کام کو نہیں کر سکتا۔ اگر مسلمانوں نے دنیا کو اس حق سے آگاہ نہیں کیا اور حق کو چھپایا اور امانت ان لوگوں تک نہیں پہنچائی جن تک پہنچانی ہے تو وہ خیانت کے مرتکب ہوں گے اور حق کو چھپانے کے مجرم قرار دیے جائیں گے۔ انھیں اس کی سزا ملے گی۔ اس سزا سے بچنے کی صورت صرف یہی ہے کہ مسلمان دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کی طرف متوجہ ہو جائیں اور حتی المقدور برابر اس فرض کو انجام دیتے رہیں۔
جب اللہ نے یہ فرمایا کہ اللہ کے رسول کی زندگی میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے تو ہر مسلمان کو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ کے رسول نے اپنی نبوت والی زندگی کا سب سے زیادہ حصہ کس کام میں صرف کیا؟ بغیر کسی اختلاف اور بغیر کسی شک و تردد کے ہر مسلمان، بلکہ ہر انسان جس نے سیرت رسول کا مطالعہ کیا ہے، اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ آپ ﷺ نے سب سے زیادہ وقت تبلیغ دین کے کام میں صرف کیا۔ تبلیغ دین اور اقامت دین، یہی آپ کی پیغمبرانہ زندگی کی دوڑ دھوپ اور سعی و جہد کا مرکزی نکتہ تھا۔ اسی تبلیغ دین سے آپ ﷺ نے نبوت والی زندگی کا آغاز کیا اور اسی تبلیغ دین اور اقامت دین کی جد و جہد کو انجام دیتے ہوئے آپ دنیا سے رخصت ہوئے اور حجة الوداع کے موقع پر تمام مسلمانوں کو یہ نصیحت بھی کر گئے کہ اس دین کو ان لوگوں تک پہنچانا اب تمھاری ذمہ داری ہے جن تک یہ دین نہیں پہنچا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ کے رسول یہ فرما گئے کہ جس طرح اللہ کے رسول ﷺ نے تمھارے درمیان آکر تبلیغ دین اور اقامت دین کا فریضہ انجام دیا اسی طرح تمھیں اپنی اپنی آبادیوں میں انسانوں کے درمیان تبلیغ دین اور اقامت دین کا فریضہ انجام دینا ہے۔ اللہ نے بھی قرآن میں صاف صاف بتا دیا کہ :
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیكُونَ الرَّسُولُ عَلَیكُمْ شَهِیدًا [البقرة: 143]
(اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو )
اگر دین کی صحیح سمجھ ہوتی اور رسول کی زندگی کے نمونہ عمل کی واقعی پیروی مقصود ہوتی تو مسلمان تبلیغ دین سے اس قدر غافل نہ ہوتے بلکہ ان کی زندگی کا بیشتر وقت اسی کام کے لیے وقف ہوتا۔ یہ دین کی سمجھ کی کمی ہی کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں نے نماز، روزہ، حج، زکوٰة کو تو فرض سمجھا مگر تبلیغ دین کو فرض سمجھنے میں ان سے کوتاہی ہوئی اور یوں دین کی سمجھ کی کمی کی وجہ سے تبلیغ دین کا فریضہ عملاً مسلمانوں کی زندگی سے خارج ہو کر رہ گیا۔
قرآن میں حلال و حرام کی تفصیل بھی دی گئی ہے کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے تاکہ مسلمان حلال اور پاک و طیب غذائیں کھائیں اور حلال و جائز ذریعۂ آمدنی کو احتیار کریں۔ نیز حرام غذائیں کھانے اور حرام و ناجائز ذریعۂ آمدنی اختیار کرنے سے بچیں۔ یہ احکامات قرآن میں ہیں۔ ان احکامات کی خلاف ورزی ہوئی تو انسان سخت گناہ گار اور اللہ کی نا فرمانی کا مرتکب ہوگا۔ قرآن و حدیث کا علم وہ روشنی ہے جس میں چل کر ایک مسلمان رضائے الٰہی کی منزل پر سلامتی کے ساتھ پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے ان احکامات کو معلوم کرنا بھی ایک مسلمان پر فرض ہے۔ سب سے زیادہ ایک مسلمان کو اللہ کی نافرمانی سے بچنے کی فکر ہونی چاہیے۔ اسلام تو نام ہی ہے اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کا، پھر ایک مسلمان اللہ کی نافرمانی کیسے کرسکتا ہے!! ہاں جہالت میں اس سے یہ لغزش ہو سکتی ہے، اس لیے اللہ و رسول کے احکامات کا علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ دین کی سمجھ کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان افراط و تفریط اور غلو سے بچتے ہوئے اعتدال اور میانہ روی کے ساتھ اسلام پر عمل کریں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب انھیں یہ معلوم ہو کہ دین میں فرض کی اہمیت کیا ہے، سنت کی اہمیت کیا ہے اور نفل کی اہمیت کیا ہے اسی صورت میں وہ افراط و تفریط، غلو اور انتہا پسندی کی خرابیوں سے بچ سکتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جو فریضہ اولین اہمیت کا حامل ہے، یعنی دین کا علم حاصل کرنا، مسلمان بالعموم اس سے غافل ہیں اور اسی وجہ سے ان کی دین دارانہ زندگی میں نوع بہ نوع خرابیاں پائی جاتی ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ دین کی سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے انھیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2022