سیرت رسول ﷺکی تفہیم

ہندستانی تناظر میں (1)

محمد عبد اللہ جاوید

انسان اس دنیا میں جینے کے لیے آیاہے۔اس کو یہاں بھیجنے والے نے جینے کے لیے ضروری تمام وسائل فراہم کردیے۔ جب وسائل کا استعمال ہونے لگے تو بعض سوالات کاذہن میں ابھرنا ایک فطری معاملہ بن جاتاہے۔ یہ معلوم کرنے کے لیے انسان کے دل میں بے چینی کی سی کیفیت پیداہوتی ہے،کہ جن وسائل کاوہ استعمال کرتاہے آخر کون انھیں مہیا کرتا ہے؟ اس کا وہ حقیقی خالق کون ہے، جو اس کی زندگی کے لیے طرح طرح کی سہولتیں فراہم کرتاہے؟ انسانی زندگی کی آسانی کے لیے جہاں ، انسانوں کے خالق نے دنیا کو اس کے لیے نہایت موزوں بنایا، وہیںاس نے انسان کے ان فطری سوالات کاجواب دینے اور اسے صحیح طرز زندگی گزارنے کے لیے رہ نمائی دینے والے پیغمبر بھیجے۔ دنیا میں انسانوں کی رہ نمائی کے لیے پیغمبروں کاآنا بالکل اسی طرح فطری رہاہے، جس طرح ہوائوں کے چلنے اور بادلوں سے پانی کے برسنے کا معاملہ ہے۔ پیغمبر اس دنیا میں آتے اور انسانوں کی رہ نمائی فرماتے، جب وہ چلے جاتے تو کچھ مدت بعد ان کی قوم پھر سے گم راہی میں پھنس جاتی۔ پھر انسانوں کاخالق، انسانوں کی ہدایت کے لیے پیغمبر بھیجتا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتارہا۔ پیغمبرؑ  نہ صرف انسانوں کو صحیح راستے پر لانے کے لیے جی توڑکوشش کرتے بلکہ آنے والی نسلوں کی بھی فکر کرتے۔ اپنے پروردگار سے دعا مانگتے کہ ان کے لیے بھی سیدھی راہ دکھانے والے آئیں:

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ اٰ یَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ ﴿البقرہ:۱۲۹﴾

’’اے رب ان لوگوںمیں خود انھی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو، جو انھیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔‘‘

تاکہ کبھی انسان گم راہی میں بھٹکتا نہ پھرے۔ انسانوں سے بسی اس زمین پر آنے والے پیغمبروں کاسلسلہ حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ پرختم ہوا۔ اس اعلان کے ساتھ کہ انسانی تاریخ کی اس عظیم شخصیت ﷺ سے رہ نمائی حاصل کرنے کی جانب توجہ دلائی جارہی ہے۔ وہ تمام انسانوں کے لیے سراپا رحمت ہیں۔ اچھے کاموں پر بشارت دینے والے اور بُرے کاموں پر عذاب کی وعید سنانے والے بناکر بھیجے گئے ہیں۔ وَمَآ أَرْسَلْنَاکَ الَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَنَذِیْراً ﴿سبا:۲۸﴾ اور ہر اس شخص کے لیے آپﷺ کی زندگی سے رہ نمائی ملے گی، جو دنیا میں بھی اور آخرت بھی میں، اپنے خالق کی نعمتوں سے مستفید ہوناچاہتاہے۔

ہندستان جیسے مخلوط معاشرے میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف پہلووں کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں رہنے والے برادران وطن کی اکثریت نہ صرف مزاجاً مذہبی ہے، بلکہ مذہبی شخصیات سے ان کا بڑا خاص لگائو ہوتا ہے۔ یہاں پائے جانے والے سینکڑوں مذہبی اکائیوں کی مذہبی، معاشرتی، سیاسی اور تہذیبی زندگی کسی نہ کسی شخصیت کے اردگرد گھومتی ہے۔ ان مذہبی شخصیات سے عوام کے روحانی تعلق کی اصل وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ شخصیات انھیں ان کے حقیقی خالق سے ملانے کاذریعہ ہیں۔

اس تناظر میں سیرت محمدﷺ کو پیش کرنا یہاں کی عوام کی روحانی تسکین کاذریعہ ہوگااور انھیں ان کے حقیقی خالق سے ملانے کی ایک بامعنی کوشش بھی۔ آج کے اس مادہ پرستانہ دور میںجہاں، بندے کو اپنے خدا سے ملنے کے لیے کئی سہارے، کئی وسائل اورکئی سفارشیں درکارہوتی ہیں، وہاں سیرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا صاف وشفاف آئینہ انھیں ان کے حقیقی خالق کا تعارف کرادے گا۔ خدا کی طرف لپکنے کا جذبہ بیدارکردے گا۔ ان پر واضح کردے گاکہ محسن انسانیت ﷺ کامشن کیاتھا اور کارنامے کیاتھے؟ اور آپﷺ نے کس طرح انسانوں پر عظیم احسانات فرمائے ہیں؟۔ اس کوشش سے عین ممکن ہے کہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کابھی ازالہ ہوسکے۔

سیرت کی پیش کش کے مقاصد

﴿۱﴾رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مختلف پہلوئوں سے برادران وطن کو متعارف کرانا اور یہ واضح کرنا کہ آپ ﷺ کااسوہ ساری انسانیت کے لیے نمونہ ہے ﴿۲﴾خالق کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی عملی شکلوں کو واضح کرنا ﴿۳﴾ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق غلط فہمیوں کاازالہ کرنا۔

کہاں سے آغاز کیاجائے؟

سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اندر کافی وسعت رکھتی ہے۔ ایک مخلوط معاشرے میں آپﷺ کی سیرت پر گفتگو کہاں سے شروع کی جائے، ایک اہم پہلو ہے۔ چوں کہ آپﷺ کی زندگی تمام انسانوں کی رہ نمائی کے لیے ہے، اس لیے انسانی زندگی کے عملی گوشوں سے متعلق رہ نمائی کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے ایک ایک باب کو بیان کرنا مناسب ہوگا کہ انسان کے اخلاق کیسے ہوں؟ اس کی ازدواجی زندگی کیسی ہو؟ وہ اپنے بچوں کی تربیت کیسے کرے؟ وہ اپنے گھر اور خاندان میں کیسے رہے؟ وہ اپنی تجارت کس نہج پر کرے؟ مختلف مذہبی اکائیوں کے درمیان اسے کن اصولوں کے تحت زندگی گزارنی چاہیے؟ انسانوں کی خدمت اور ان کے حقوق کی ادائی کیسے کرے؟ امن کو کیسے قائم کرے؟ جس ملک میں وہ رہتاہے، اس کا سچا خیرخواہ کیسے بنے؟ جن حکمرانوں اور قائدین کے ساتھ وہ رہتاہے، ان سے کیسے تعلقات استوار کرے؟ وغیرہ۔ اگر ان موضوعات کو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپﷺ کے ارشادات کے ذریعے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے تو یقینا انسانوں کے حقیقی خالق و مالک کو پہچاننے اور اس کی طرف لپکنے کی کیفیت پیداہوسکے گی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے حسب ذیل موضوعات کے تحت سیرت پروچن کااہتمام کیاجاسکتا ہے:

۱- اخلاق کی آب یاری اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۲- والدین کے حقوق اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۳- زوجین کی مثالی زندگی اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۴- بچوں کی اعلیٰ تربیت اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۵- گھر کی خوش حالی اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۶-  خاندان کی خوش حالی اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۷- انسان کی عظمت اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۸-       خلق خدا سے ہم دردی اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۹-       خواتین کے حقوق اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۰۱-      ابتلائ وآزمایش اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۱۱-      تجارت کا فروغ اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۲۱-      مخلوط سماج اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۳۱-      مثالی حکمران و قائدین اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۴۱-      امن عالم اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۵۱-      ملک کی خیرخواہی اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

اخلاق کی آب یاری اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

مقاصد:  اس موضوع کے تحت پیش کشکے حسب ذیل مقاصد ہوں گے:

٭اخلاق کے تصور اور اس کی اہمیت کو واضح کرنا٭اخلاق کی نشوونما کے مختلف طریقوں کی نشان دہی ٭اچھے اور بُرے اخلاق کا معاشرے پر اثر واضح کرنا۔

واقعات:  اس موضوع کے لیے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حسب ذیل نکات کے پیش نظر واقعات بیان کیے جائیں:

﴿۱﴾آپﷺ کے اخلاق قرآن کریم کی تعلیمات کاعملی نمونہ ﴿۲﴾اہل مکہ کا آپﷺ کے اعلیٰ اخلاق کااعتراف، صادق و امین کالقب ﴿۳﴾مخلوق سے محبت وشفقت کی تعلیم ﴿۴﴾ہجرت جیسے نازک موقعے پر لوگوں کی امانتوں کی ادائی ﴿۵﴾قیدیوں اور مجرموں سے آپﷺ کا سلوک ﴿۶﴾صحابہؓ اور صحابیاتؓ کے اخلاق وکردار کی وضاحت ﴿۷﴾بُرے اخلاق والوں کاانجام، واقعہ معراج ﴿۸﴾نازک حالات میں صحابہؓ کو صبر کی تلقین ﴿۹﴾رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق پر خدیجۃ الکبریٰ کی شہادت ﴿۰۱﴾مختلف معاملات میں صحابیاتؓ کے اعلیٰ کردار کی جھلکیاں۔

احادیث:  موضوع کی مزید وضاحت کے لیے حسب ذیل احادیث بیان کی جاسکتی ہیں:

﴿۱﴾اَلْبِرُّ حُسْنُ الخُلْقِ وَالْاِثْمُ مَاحَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَ کَرِہْتَ اَنْ یَّطَّلِعَ النَّاسُ عَلَیْہِ

‘نیکی حسن اخلاس ہے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے سینے میں کھٹکے اور لوگوں کو اس کے بارے میں جاننا تمہیں ناپسند ہو۔’ ﴿نواس بن سمعانؓ ، مسلم﴾

﴿۲﴾مَالْاِسْلاَمُ؟ قَالَ طَیبُ الْکَلَامِ وَاِطَّعَامُ الطَّعَامُ۔ سُئِلَ مَالْاِیْمَانُ؟ قَالَ الصَّبْرُ وَالسَّمَاحَۃُ۔ سُئِلَ اَیُّ الْاِسْلَامِ اَفْضَلُ ؟ قَالَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٰ وَیَدِہٰ۔ سُئِلَ اَیُّ الْاِیْمَانِ اَفْضَلُ؟ قَالَ خُلْقٌ حَسَنٌ

اسلام کیاہے؟ آپﷺ نے فرمایا: خوش گفتاری اور کھاناکھلانا۔ پھر سوال کیاگیا۔ ایمان کیاہے؟ آپﷺ نے فرمایا: صبر اور فراخ دلی۔پھر سوال کیاگیاکہ کس کا اسلام افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ﴿اس کا﴾ جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔ پھر پوچھاکہ کون سا ایمان افضل ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: بہترین اخلاق۔ ﴿عمرو بن عبسہؓ  مسند احمد﴾

﴿۳﴾اَیُّ النَّاسِ خَیْرٌ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مَنْ طَالَ عُمُرُہ’ وَحَسُنَ عَمَلُہ’ اَیُّ النَّاسِ شَرٌّ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مَنْ طَالَ عُمُرُہ’ وَسَائَ عَمَلُہ’

﴿آپﷺ سے پوچھاگیا﴾ سب سے اچھاانسان کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جس کی عمر لمبی اور عمل اچھا ہو۔ ﴿پھر سوال کیاگیا﴾سب سے بُرا انسان کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جس نے لمبی عمر پائی اور بُرے کاموں میں مبتلارہا۔ ﴿ترمذمی﴾

﴿۴﴾الْکَیَّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہ’ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَالْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ اَتْبَعَ نَفْسَہ’ ہَوَاہَا وَتَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ

عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کام آنے والے عمل کرے اور نالائن وہ ہے جو اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرے اور اللہ تعالیٰ سے تمناکرے  ﴿شداد بن اوسؓ  ترمذی﴾

﴿۵﴾ سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ عَنْ نَّظَرِالْفُجَائَ ۃِ۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ﷺ اَصْرِفْ بَصَرَکَ

میں نے رسولﷺ سے ﴿اجنبی عورت پر﴾ اچانک نگاہ پڑجانے کے بارے میں دریافت کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی نگاہ پھیرلو۔ ﴿جریرؓ  مسلم﴾

﴿۶﴾ مَاتَامُرُنِیْ بِہٰ اَعْمَلُ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِئتِ الْمَعْرُوْفَ وَاجْتَنِبِ الْمُنْکَرَ وَانْظُرْ مَایُعْجِبُ اُذُنَکَ اَنْ یَّقُوْلَ لَکَ الْقَوْمُ اِذا قُمْتَ مِنْ عِنْدِھِمْ فَاجْتَنِبْہُ

﴿ایک خاتون نے عرض کیا﴾ آپﷺ مجھے کن باتوں پر عمل کرنے کی تلقین فرماتے ہیں؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم نیکی کرو اور بُرائی سے بچو اور دیکھو اگر تمھیں یہ بات پسند ہوکہ تمہارے مجلس سے چلے جانے کے بعد لوگ تمھیں اچھے اوصاف سے یاد کریں ، تو تم اپنے اچھے اوصاف پیدا کرو اور تم جن باتوں کو ناپسند کرتے ہوکہ تمھاری عدم موجودگی میں لوگ ان کاتذکرہ کریں تو ان سے پرہیزکرو۔ ﴿عن حرملۃ، بخاری﴾

﴿۷﴾ دُلَّنِیْ عَلٰی عَمَلٍ اِذَا اَنَا عَمِلْتُہ’ اَحَبَّنِیَ اللّٰہُ وَ اَحَبَّنِیَ النَّاسُ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِزْہَدْ فِیْ الدُّنْیَا یُحِبَّکَ اللّٰہُ وَازْہَدْ فِیْمَا عِنْدَ النَّاسِ یُحِبَّکَ النَّاسُ

﴿ایک صحابیؓ نے عرض کیا یارسول اللہ!﴾ مجھے ایسا کام بتائیے کہ جب میں اسے کرڈالوں تو اللہ مجھ سے محبت کرے اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں؟ آپﷺ نے فرمایا: تم دنیا سے بے رغبتی اختیارکرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور لوگوں کے مال و متاع سے بے نیاز ہوجائو، وہ تم سے محبت کریں گے۔ ﴿سہیل بن سعدؓ مشکوٰۃ﴾

﴿۸﴾ مَنْ مَّاتَ وَہُوَ بَرِیٓئٌ مِنَ الْکِبْرِ وَالْغُلُوْلِ وَالدَّیْنِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ

جو اس حالت میںمراکہ تکبر، خیانت اور قرض سے بچا ہواتھا تو جنت میں داخل ہوگیا۔  ﴿ثوبانؓ ، ترمذی﴾

﴿۹﴾ اَنَّ رَجُلاً شَکٰی اِلَی النَّبِییِ ﷺ قَسْوَۃَ قَلْبِہٰ قَالَ اِمْسَحْ رَأسَ الْیَتِیْمِ وَاَطْعِمِ الْمِسْکِیْنِ

ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دل کے سخت ہونے کی شکایت کی۔ آپﷺ نے فرمایا: تم یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرو اور مسکین کو کھاناکھلاؤ۔ ﴿ابوہریرہؓ ، مسند احمد﴾

﴿۰۱﴾لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ لَّا یَاْمَنُ جَارُہ’ بِوَائقَہُ

وہ شخص جنت میںداخل نہیں ہوگا جس کی شرارتوں سے اس کاپڑوسی محفوظ نہ ہو۔ ﴿ابوہریرہؓ ، متفق علیہ﴾

﴿۱۱﴾ اِذَا اَصْبَحَ ابْنُ اٰدَمَ فَاِنَّ الْاَعْضَآئَ کُلَّہَا تُکَفِّرُ اللِّسَانَ فَتَقُوْلُ اِتَّقِ اللّٰہَ فِیْنَا فَاِنَّا نَحْنُ بِکَ فَاِنْ اسْتَقَمْتَ اِسْتَقَمْنَا وَاِنْ اِعْوَجَجْتَ اِعْوَجَجْنَا

جب آدمی کے لیے صبح ہوتی ہے تو تمام اعضا ئ زبان کی خوشامد کرتے اور کہتے ہیںکہ ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرناکیوں کہ ہم تیرے ساتھ ہیں۔ اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیںگے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیںگے۔ ﴿ابوسعید خدریؓ ، ترمذی﴾

﴿۲۱﴾ مَنْ یَّضْمَنْ لِیْ مَابَیْنَ لِحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ اَضْمَنْ لَہُ الْجَنَّۃَ

جو مجھے اس کی ضمانت دے جو دونوں جبڑوں کے درمیان ہے اور اس کی ضمانت دے جو دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ ﴿سہیل بن سعدؓ ، بخاری﴾

﴿۲﴾    والدین کے حقوق اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

مقاصد:  اس موضوع کے تحت پیش کش کے حسب ذیل مقاصد ہوں گے:

٭والدین کے مقام حقوق کی وضاحت کرنا٭ والدین کے ساتھ بھلائی کے مختلف طریقے ٭ والدین کے حقوق کی پامالی سے ہونے والی تباہی۔

واقعات:  اس موضوع کے لیے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حسب ذیل نکات کے پیش نظر واقعات بیان کیے جائیں:

﴿۱﴾ دائی حلیمہؓ کے ساتھ رسولِ اکرمﷺ کارویہّ ﴿۲﴾والدین کا مقام و مرتبہ اور صحابہؓ و صحابیاتؓ کا طرزعمل ﴿۳﴾والدین سے حسن سلوک کی تاکید ﴿۴﴾بوڑھے والدین کی خدمت کی مخصوص ہدایات ﴿۵﴾بیٹے کے مال و اسباب سے والدین کا تعلق ﴿۶﴾والدین کی خدمت کے مختلف طریقے ﴿۷﴾والدین سے گفتگو کے آداب ﴿۸﴾والدین کے جائز مطالبوں کی تکمیل ﴿۹﴾والدین کا نافرمان دوزخمی ﴿۰۱﴾والدین کی فرماں برداری اور اس کادنیا و آخرت میں ملنے والا اجر۔

احادیث:  اس موضوع کی مزید وضاحت کے لیے حسب ذیل احادیث بیان کی جاسکتی ہیں:

﴿۱﴾مَنْ اَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِیْ؟ قَالَ اُمُّکَ۔ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ اُمُّکَ۔ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ اُمُّکَ۔ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ اَبُوْکَ

میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا۔ پھر کون؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پھرپوچھا۔ پھر کون؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پھر پوچھا۔ پھر کون؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہارے والد۔ ﴿ابوہریرہؓ ، متفق علیہ﴾

﴿۲﴾لَقَدْ اَذَنْبَتُ ذَنْبًا کَبِیْراً فَہَلْ لِیْ مِنْ تَوْبَۃٍ؟ قَالَ اَئ لَکَ وَالِدَانِ؟ لَا۔ فَقَالَ فَلَکَ خَالَۃٌ۔ نَعَمْ۔ فَقَالَ فُبَرَّھَا اِذاً

مجھ سے ایک بڑا گناہ ہوگیا ہے تو کیااس سے توبہ کی میرے لیے کوئی صورت ہے؟ آپﷺ نے اس سے فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا۔ نہیں۔ آپﷺ نے پھر دریافت فرمایا: کیا تمہاری خالہ زندہ ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: جائو ان کی خدمت کرو۔ ﴿ابن عمر، ترمذی﴾

﴿۳﴾جَآئَ رَجُلٌ اِلَی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فاستاذنہ فی الجہاد۔ قَالَ احیٌّ والداک؟ نَعَمْ۔ قَالَ فارجع الی والدیک فاجس صُحبتھُما

ایک شخص رسولﷺ کے پاس آیااور آپﷺ سے جہاد کے لیے اجازت طلب کی۔ آپﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تم اپنے ماں باپ کی طرف لوٹ جائو اور اچھے طریقے سے ان کی خدمت کرو۔

﴿عبداللہ بن عمر، متفق علیہ﴾

﴿۴﴾اِنَّ لِیْ مَالاً وَّ اِنَّ وَالِدِیْ یَحْتَاجُ اِلٰی مَالِیْ قَالَ: اَنْتَ وَمَالُکَ لِوَالِدِکَ اِنَّ اَوْلاَدَکُمْ مِنْ اَطْیَبِ کَسْبِکُمْ کُلُوْا مِنْ کَسْبِ اَوْلاَدِکُمْ

﴿ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرہوکر عرض کیا﴾ میرے پاس مال ہے اور میرے والد ماجد کومیرے مال کی ضرورت ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: تم اور تمھارا مال سب تمھارے والد کاہے۔ بے شک تمھاری اولاد تمھاری پاکیزہ کمائی سے ہے لہٰذا اپنی اولا کی کمائی سے کھائو۔ ﴿عمرو بن شعیبؓ ، ابودائود،ابن ماجہ﴾

﴿۵﴾رِضَی الرَّبِّ فِیْ رَضِیَ الْوَالِدِ وَسَخْطِ الرَّبِّ فِی سَخْطِ الْوَالِدِ

رب کی رضا، باپ کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔  ﴿عبداللہ بن عمروؓ ، ترمذی﴾

﴿۶﴾مَنْ اَصْبَحَ مُطِیْعًا لِّلّٰہِ فِیْ وَالِدَیْہِ اَصْبَحَ لَہ’ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ مِنَ الْجَنَّۃِ واِنْ کَانَ وَاحِداً فَوَاحِداً وَّ مَنْ اَمْسٰی عَاصِیاً لِّلّٰہِ فِیْ وَالِدَیْہِ اَصْبَحَ لَہ’ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ مِنَ النَّارِ وَاِنْ کَانَ وَاحِداً فَوَاحِداً قَالَ رَجُلٌ وَاِنْ ظَلَمَاہُ قَالَ اِن ظَلَمَاہُ وَاِنْ ظَلَمَاہُ وَاِنْ ظَلَمَاہُ

جو صبح کرے کہ اللہ اور اپنے والدین کا فرمانبردار ہوتو صبح ہوتے ہی اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اگر ایک ﴿ماں یا باپ﴾ ہوتو ایک دروازہ اور اگر کوئی اللہ اور اپنے والدین کی نافرمانی میں صبح کرے تو صبح ہوتے ہی جہنم کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اگر ایک ﴿ماں یا باپ﴾ ہوتو ایک دروازہ۔ ایک شخص نے عرض کیا، کیا اگر دونوں ﴿ والدین﴾ ظلم کریںتب بھی؟ آپﷺ نے فرمایا: اگرچہ وہ ظلم کریں۔ اگرچہ وہ ظلم کریں۔ اگرچہ وہ ظلم کریں۔      ﴿ابن عباسؓ ، بیہقی﴾

﴿۷﴾مَامِنْ وَّلَدٍبَارٍ یَّنْظُرُاِلٰی وَالِدَیْہِ نَظَرَ رَحْمَۃٍ اِلَّا کَتَبَ اللّٰہُ بِکُلِّ نَظَرَۃٍ حَجَّۃً مَبْرُوْرَۃً قَالُوْا وَاِنْ نَّظَرَکُلَّ یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ قَالَ نَعْمْ اللّٰہُ اَکبرُوَاَطْیَب۔

کوئی بیٹا ایسا نہیں جو اپنے والدین کی طرف محبت بھری نگاہ سے دیکھے مگر ہر نظر کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے لیے حج مبرور لکھ دیتاہے۔ لوگوں نے پوچھا۔ خواہ روزانہ سو دفعہ دیکھے؟ فرمایا: ہاں۔ اللہ بہت بڑا اور پاک ہے۔ ﴿ابن عباسؓ ، بیہقی﴾

﴿۸﴾اِنَّ مِنْ اَبَرِّ الْبِرِّ صِلَۃُ الرَّجُلِ اَہْلَ وُدِّاَبِیْہِ بَعْدَ اَنْ یُّوْلِّیَ

بہت بڑی نیکیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کی غیرموجودگی میں بھی ان کے دوستوں سے حسن سلوک کرے۔ ﴿ابن عمرؓ ، مسلم﴾

﴿۹﴾ماَحَقُّ الْوَالِدَیَنِ عَلٰی وَلَدِہُمَا جَنَّتُکَ وَنَارُکَ

ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ دونوں تمھاری جنت و دوزخ ہیں۔ ﴿ابوامامہؓ ، ابن ماجہ﴾

﴿۳﴾زوجین کی مثالی زندگی اورسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

مقاصد:  اس موضوع کے تحت پیش کش کے حسب ذیل مقاصد ہوں گے:

٭شوہر اور بیوی کے درمیان مثالی تعلق کی وضاحت ٭خوش گوار تعلقات کی عملی شکلوں کی نشان دہی ٭گھر، بچوں اور خاندان پر شوہر اور بیوی کے اچھے تعلقات کے خوش گوار اثرات ۔

واقعات:  کے لیے سیرت رسول ﷺ سے حسب ذیل نکات کے پیش نظر واقعات بیان کیے جائیں:

﴿۱﴾ بہترین شوہر اور بہترین بیوی کی صفات ﴿۲﴾حضور اکرم ﷺ اور ازدواج مطہرات ﴿۳﴾بیوی کی دل جوئی ﴿۴﴾حضرت علیؓ اور فاطمہؓ کے تعلقات ﴿۵﴾جائزطریقے سے لطف اٹھانا ﴿۶﴾باہمی نزع کی وجوہات ﴿۷﴾خوش گوار ازدواجی زندگی ﴿۸﴾ایک سے زائد بیویوں کے درمیان عدل ﴿۹﴾مثالی شوہر اور بیوی اور اللہ کی رحمتیں

احادیث:  موضوع کی مزید وضاحت کے لیے حسب ذیل احادیث بیان کی جاسکتی ہیں:

﴿۱﴾اَلدُّنْیَا کُلُّہَا مَتَاعٌ وَّخَیْرُمَتَاعٍ الدُّنْیَا الْمَرْأَۃِ الصَّالِحَۃِ

ساری دنیا ہی دولت ہے اور دنیا کی بہترین دولت نیک بیوی ہے۔ ﴿عبداللہ بن عمروؓ ، مسلم﴾

﴿۲﴾ لَیْسَ مِنْ مَّتَاعِ الدُّنْیَا شَیْیٌٔ اَفْضَلُ مِنَ الْمَرْأَۃِ الصَّالِحَۃِ

دنیاکی بہترین نعمتوں میںکوئی چیز نیک بیوی سے بہتر نہیں ہے۔ ﴿ابن ماجہ﴾

﴿۳﴾اَیُّ النِّسآئِ خَیْرٌ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ الَّتِیْ تَسُرُّہ’ اِذَا نَظَرَ وَتُطِیْعُہ’ اِذَا اَمَرَ وَلَا تُخَالِفُہ’ فِیْ نَفْسِہَا وَلَامَالِہَا بِمَایَکْرَہُ

﴿ایک شخص نے سوال کیا﴾ کون سی بیوی بہترین ہے؟ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا وہ بیوی بہترین ہے جس کو اس کا شوہر دیکھے تو خوش ہوجائے، حکم دے تو مانے اور اپنی جان اور مال کے بارے میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کرے جو شوہر کو ناپسندہو۔  ﴿ابوہریرہؓ ، نسائی﴾

﴿۴﴾ مَاحَقُّ زَوْجَۃِ اَحَدِنَا عَلَیْہِ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَنْ تُطْعِمَہَا اِذَاطَعِمْتَ، وَتَکْسُوْھَا اِذَا اَکْتَسَیْتَ وَلاَ تَضْرِبِ الْوَجْہَ وَلاَتُقَبِّحْ، وَلَاتَہْجُرْ اِلَّا فِیْ الْبَیْتِ

﴿ایک شخص نے عرض کیا﴾ شوہر پر بیوی کا کیا حق ہے؟ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم کھائو تو اسے بھی کھلائو، جب تم پہنو تو اسے بھی پہنائو، اس کے چہرے پر نہ مارو اور اس کو بددعا نہ دو اگر وہ جائز اور معقول بات نہ مانے اور ترک تعلق ناگزیر ہوجائے تو گھر میںاپنی چارپائی الگ کرلو۔ ﴿حکم بن معاویہؓ ، ابودائود﴾

﴿۵﴾اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَاناً اَحْسَنُھُمْ خَلَقاً وَخِیَارُکُمْ حِیَارُکُمْ لِنِسَآئِھِمْ

مسلمانوںمیں کامل ایمان والے وہ ہیں جن کااخلاق اچھا ہے اور تم میں سے اچھے وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے ہیں۔ ﴿ابوہریرہؓ ۔ ترمذی، ابودائود﴾

﴿۶﴾اَیُّمَا امْرَأَہٍ مَّاتَتْ وَزَوْجُہَا عَنْہَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّۃَ

جو عورت اس حال میں انتقال کرگئی کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہے تووہ جنت میں داخل ہوگئی۔ ﴿ام سلمہؓ ، ترمذی﴾

﴿۷﴾ اِنِّیْ لِیْ امْرَئَ ۃٌ فِیْ لِسَانِھَا شَیْیٌٔ یَعْنِی الْبَذَائَ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ طَلِّقْہَا۔ اِنَّ لِیْ مِنْہَا وَلَداً وَلَہَا صُحْبَۃٌ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَمُرْہَا یَقُوْلُ عِظْہَا فَاِنْ یَکُ فِیْہَا خَیْرٌ فَسَتَقْبَلُ وَلاَتَضْرِبْنَ ظَعِیْنَتَکَ ضَرْبَکَ اُمَیَّتَکَ

﴿ایک شخص نے عرض کیا﴾ میری بیوی بدزبان ہے ﴿میں کیاکروں﴾؟ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اسے طلاق دے دو۔ اس نے کہا۔ اس سے میرا بچہ ہے، مدت سے ہم دونوں کاساتھ رہا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: تو وعظ و نصیحت سے کام لو۔ اگر اس کے اندر خیر قبول کرنے کی صلاحیت ہوگی تو تمہاری نصیحتوں سے وہ یقینا سدھر جائے گی اور خبردار اس کو اس طرح نہ مارنا جس طرح تم اپنی لونڈی کو مارتے ہو۔ ﴿لقیط بن صبرہؓ ، ابودائود﴾

﴿۸﴾وَالَّذِی نَفْسِیْ بِیَدِہٰ مَامِنْ رَّجُلٍ یَّدْعُوْا امْرَاَتَہ’ اِلٰی فِرَاشِہٰ فَتَابٰی عَلَیْہِ اِلَّا کَانَ الَّذِیْ فِی السَّمَآئِ سَاخِطاً عَلَیْہَا حَتّٰی یَرْضٰی عَنْہَا

قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کوئی شوہر جب اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ انکارکردے تو آسمان کامالک اس بیوی سے ناراض ہوتاہے یہاں تک کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہوجائے۔

﴿جاری﴾

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2010

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau