آفاقیت اور قومی ریاست

(تحریک اسلامی کے تناظر میں)

الوہیت و ربوبیت کے مظاہر انسان کی تخلیق کے مراحل کائنات  سے استفادہ کے مواقع، زمان و مکان اور رنگ ونسل کی حدود وقیود سے آزاد ہیں چنانچہ آفاقیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں اس لئے کہ یہاں نہ کسی فرد کی اجارہ داری ہے اور نہ اس میں کسی کی وراثت چلتی ہے۔پھر کیسے ممکن تھا کہ الٰہ العالمین کا عطاکردہ دین حنیف اور اس کی پیروکار امت عصبیت سے کوئی نسبت رکھتی ہو جو انسانوں کے درمیان نفرت و حقارت کی داعی ہو، ریاستی لکیروں اور علاقائیت کی حدود وقیود کی  بنیاد پر کشت وخوں کی علمبردار ہو اس عصبیت کو آج کی دنیا قومیت کے نام سے جانتی ہےاور اس کی نمایاں شق ریاستی قومیت ہے۔ قومیت و آفاقیت کے تقابل سے پہلے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ خودقومیت و آفاقیت کو سمجھ لیاجائے۔ چونکہ ان پر گفتگوتحریک اسلامی کے پس منظر میں ہونی ہے اس لئے مناسب ہے کہ اس کی تعریف وتفہیم بھی تحریکی لٹریچر سے اخذ کی جائے۔

قومیت

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ قوم وقومیت کے مفہوم کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ “وحشت سے مدنیت کی طرف انسان کا پہلا قدم اٹھتے ہی ضروری ہوجاتا ہے کہ کثرت میں وحدت کی ایک شان پیدا ہو اور مشترک اغراض ومصالح کے لئے متعدد افراد آپس میں مل کر تعاون اور اشتراکِ عمل کریں۔ تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس اجتماعی وحدت کا دائرہ بھی وسیع ہوتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد اس میں داخل ہوجاتی ہے۔ اسی مجموعۂ افراد کا نام ’’قوم‘‘ہے۔ اگرچہ لفظ ’’قوم‘‘ اور ’’قومیت ‘ ‘ اپنے مخصوص اصطلاحی معنوں میں حدیث العہد ہیں مگر جس معنی پر ان کا اطلاق ہوتا  ہے وہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود تمدن قدیم ہے۔ ’’قوم ‘‘ اور ’’قومیت‘‘ جس ہیئت کا نام ہے وہ بابل، مصر، روم اور یونان میں بھی ویسی ہی  تھی جیسی آج فرانس، انگلستان، جرمنی اور اٹلی میں ہے۔اس میں شک نہیں کہ قومیت کی ابتداء ایک معصوم جذبہ سے ہوتی ہے، یعنی اس کا مقصد اول یہ ہوتا ہے کہ ایک خاص گروہ کے لوگ اپنے مشترک مفاد ومصالح  کے لئے عمل کریں اور اجتماعی ضروریات کے لئے ایک ’’قوم‘‘ بن کر رہیں، لیکن جب ان میں ’’قومیت‘‘ پیدا ہوجاتی ہے تو لازمی طور پر ’’عصبیت ‘‘ کا رنگ اس میں آجاتا ہے اور جتنی جتنی ’’قومیت‘‘ شدید ہوتی جاتی ہے اسی قدر’’عصبیت‘‘ میں بھی شدت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جب کبھی ایک قوم اپنے مفاد کی خدمت اور اپنے مصالح کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو ایک رشتۂ اتحاد میں منسلک کرے گی، یا بالفاظ دیگر اپنے گرد’’قومیت‘‘ کاحصار چن لے گی تو لازما وہ اس حصار کے اندر والوں اور باہر والوں کے درمیان اپنے اور غیر کا امتیاز کرے گی‘‘۔(مسئلۂ قومیت،ص7-8)قومیت کے اجزاء ترکیبی جو مولانا مودودیؒ نے کتاب مذکور میں بیان کئے ہیں وہ نسلیت، وطنیت، زبان، رنگ، معاش اور حکومت وریاست ہیں۔ ان کے بارے میں مولانا کہتے ہیں کہ ’’قدیم ترین عہد سے لے کر آج بیسویں صدی کے روشن زمانے تک جتنی قومیتوں کے عناصر اصلیہ کا آپ تجسس کریں گے، ان سب میں آپ کو یہی مذکورۂ بالا عناصر ملیں گے۔اب سے دوتین ہزار برس پہلے یونانیت، رومیت، اسرائیلیت، ایرانیت وغیرہ بھی انہی بنیادوں پر قائم تھیں جن پر آج جرمنیت، اطالویت، فرانسیسیت، انگریزیت اور جاپانیت وغیرہ قائم ہیں‘‘۔(ایضا ص -10)اگرموجودہ دور کی قومیت پر نظر ڈالیں تو مولانامودودیؒ کی بات آج بھی صد فیصد درست ثابت ہوتی ہے، اس لئے کہ موجودہ قومیت کے اجزاء ترکیبی وہی ہیں جو اس وقت تھے ۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اس مدت میں ان میں سے بعض بعض پر سبقت لے جانے کے لئے زور آزمائی کرتے رہے ہیں۔ دور حاضر  کی قومیت میں وطنیت اور حکومت وریاست کو غلبہ حاصل ہے اور مولانا مودودیؒ نے ریاستی قومیت کے جو نام گنائے ہیں دورحاضر میں ان میں کئی اور ناموں کا بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

آفاقیت

قومیت کی ضدآفاقیت ہے، اس  کےسلسلہ میں مولانا مودودیؒ  قومیت اور اس کی ہم دم عصبیت کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد لکھتے  ہیں کہ ’’نسل انسانی میں یہ جتنی تفریقیں کی گئی ہیں ان کے لئے کوئی عقلی بنیاد نہیں ہے۔ یہ صرف حسی اور مادی تفریقیں ہیں جن کا ہر دائرہ زاویۂ نظر کی ہر وسعت پر ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کا قیام وبقا جہالت کی تاریکی، نگاہ کی محدودیت اور دل کی تنگی پر منحصر ہے۔ علم وعرفان کی روشنی جس قدر پھیلتی ہے، بصیرت کی رسائی جس قدر بڑھتی ہے، قلب میں جتنی جتنی وسعت پیدا ہوتی جاتی ہے، یہ مادّی اور حسی پردے اٹھتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ نسلیت اور وطنیت کو آفاقیت کے لئے جگہ خالی کرنی پڑتی ہے۔ اختلاف رنگ وزباں میں جو ہر ِانسانی کی وحدت جلوہ گر ہوتی ہے۔ خدا کی زمین میں خدا کے سب بندوں کی معاشی اغراض مشترک پائی جاتی ہیں اور سیاسی نظامات کے دائرے محض چند سائے نظر آتے ہیں جو آفتاب اقبال کی گردش سے روئے زمین پر چلتے پھرتے اور گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں‘‘۔(ایضاص-20)۔ ڈاکٹر محمدرفعت  اپنی تصنیف ’’اسلامی تحریک-سفر اور سمت سفر‘‘ میں آفاقیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’آفاقیت کا ہر دعویٰ(صحیح ہو یا غلط) اپنے اندر بڑی کشش رکھتا ہے، اس لئے کہ انسان کی فطرت آفاقی واقع ہوئی ہے‘‘۔(ص-86،87)اس کتاب میں موصوف نے گوکہ علم وتحقیق کے حوالے سے آفاقیت پر گفتگو کی ہے اور مغربی نقطۂ نظر کو بیان کیا ہے لیکن ضمناً ہی سہی ان کی یہ تحریر  نفس آفاقیت کو مزید واضح کرجاتی ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’مغربی دنیا کی عمومی رائے یہ ہے کہ علمی تحقیق کا مغربی طریقِ کار، زندگی اور کائنات کی حقیقت کے بارے میں اس کے مفروضات اور انسانی طرزِ عمل کے سلسلے میں مطلوب ونامطلوب مغربی پیمانے، یہ سب آفاقی نوعیت رکھتے ہیں، چنانچہ ساری انسانیت کو چاہئے کہ انہیں اختیار کرے‘‘۔( ایضاص-86) مغربی دنیا اپنے مفروضات کو آفاقی گرداننے کے لئے خواہ کچھ بھی کہے،حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ آفاقیت اورغیر آفاقیت کے مابین تمیز کا پیمانہ الٰہ العالمین نے ہر انسان کےاندر رکھ دیا ہے۔ یہ حس، فطرت سلیمہ اور ضمیر ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس سلسلہ میں لکھتے ہیں کہ’’انسانوں کی حس ہمیشہ سےغلط اور صحیح میں امتیاز اور ردوقبول کے پیمانوں کو آفاقی سمجھتی آئی ہے اور اب  بھی ایسا ہی سمجھتی ہے۔ تاریخ کے دوران مختلف گروہوں کی سرگرمیوں کا جائزہ اور تجربات سے سیکھنے اور سبق حاصل کرنے کا سارا کام جانچ کے پیمانوں کو آفاقی تسلیم کرنے کے بعد ہی انجام پاسکتا ہے‘‘۔(ایضاص-87)یہ امر بھی مسلم ہے کہ صحیح اور غلط، ردوقبول، تجربات سے استفادہ اورعبرت کےحصول کے لئے جوبھی پیمانے تسلیم کئے جائیں گےان کی درستی اور بلندمعیاری کے لئے اخلاقیات اور اخلاقی اقدارسے اکتساب ضروری ہوگا اس لئے کہ یہ بھی آفاقیت سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ’’انسانی معاشرے کو تباہی اور انتشار سے بچانے کے لئے اخلاقی اقدار کی آفاقیت پر زور دینا ضروری ہے‘‘۔(ایضاص-90)

دین حنیف

الوہیت وربوبیت، تخلیق انسان، کائنات اور تصور کائنات تو آفاقی ہوں اور الٰہ العالمین کا عطا کردہ دین حنیف اور کون ومکاں کے تعلق سے اس کے تصورات، نظریات اور تعلیمات غیرآفاقی ہوں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ چناچہ مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ نے اپنے اُس مقالے میں جسے 22؍اپریل 1951ءکو کل ہند اجتماعِ جماعت اسلامی ہند منعقدہ رامپورکے اجتماعِ عام میں پڑھ کرسنا یا گیا اور بعد میں ’’جماعت اسلامی کا مقصد اور طریقِ کار ‘‘کے عنوان سے کتابچہ کی شکل میں شائع کیا گیا، دین حنیف کی آفاقیت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہم جس دین کا نام لیتے ہیں اور جس کو قائم کرنے کی آرزوئیں لے کر اٹھے ہیں، وہ ہمارا کوئی قومی مذہب نہیں ہےبلکہ وہ تمام قوموں کا اور پوری کائنات کا مذہب ہے اور اس دین کی بنیاد قومیت کے اجزاء میں سے کسی جزء پر قائم نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد وہ اصول ہیں جن کی تبلیغ ہر آسمانی کتاب میں کی گئی ہے۔ یعنی خداپرستی، رسالت اور جزا وسزا کا عقیدہ، اس لئے جب ہم اقامت دین کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہماری مراد کسی ایسے دین ومذہب سے نہیں ہوتی جس کا رشتہ کسی خاص قوم سے جڑا ہوا ہو، بلکہ ان اصولوں سے ہوتی ہے جو قومیت سے بالاتر ہیں اور جو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کئے گئے ہیں اور جو ہر انسان اور ہر قوم کے لئے جو ان کو اپنائے یکساں طور سے مفید ہیں‘‘۔( جماعت اسلامی کا مقصد اور طریقِ کار،ص-34)

قرآن مجید

وہ کتابِ ہدایت قرآن مجید جو تمام انسانوں کی نجات ، رہنمائی اور  فلاح و بہبود کے لئے نازل کی گئی ہے اور اپنے حاملین کو یہ حکم دیتی ہے کہ وہ اس کے آفاقی پیغام کو عام کریں، مولانا مودودیؒ اس کی آفاقیت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ’’ آپ پورے قرآن کو دیکھ جایئے۔ اس میں ایک لفظ بھی آپ کو نسلیت یا وطنیت کی تائید میں نہ ملے گا۔ اس کی دعوت کا خطاب پوری نوعِ انسانی سے ہے۔ تمام روئے زمین کی انسانی مخلوق کو وہ خیر وصلاح کی طرف بلاتا ہے۔ اس میں نہ کسی قوم کی تخصیص ہے اور نہ کسی سرزمین کی۔ اس نے اگر کسی زمین کے ساتھ خاص تعلق پیدا کیا ہے تو وہ صرف مکہ کی زمین ہے، لیکن اس کے متعلق بھی صاف کہہ دیا کہ سَوَآءَ نِالْعَاكِفُ فِيْهِ وَالْبَادِ(الحج-25) یعنی مکہ کے اصلی باشندے اور باہر والے مسلمان برابر ہیں‘‘۔(مسئلۂ قومیت ، ص -23)قرآن مجید کے تعلق سے مولانا ابواللیث ؒرقم طراز ہیں کہ ’’قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نےاپنا سب سے پہلا خطاب يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ (البقرہ-21)’’اے انسانوں! اپنے رب کی بندگی کرو‘‘ سے شروع کیا ہے اور اگر وہ کفر وایمان کی بنا پر کوئی خصوصی طرز خطاب اختیار  بھی کرتا ہے تو اس کی بنیاد صفات پر ہوتی ہے نہ کہ کسی قومیتِ نسل ونسب اور رنگ وغیرہ پر……وہ زبان اور رنگ کے اختلاف کو اس حیثیت سے پیش کرتا ہے کہ یہ اس کی قدرت کی نشانی ہے نہ  اس حیثیت سے کہ وہ بجائے خود انسانوں میں فرق وامتیاز کی کوئی چیز ہے……وہ نسل ونسب کے اختلاف کو بھی کوئی حیثیت نہیں دیتا……اس کی نگاہ میں مختلف قوموں اورقبیلوں کی بھی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہے ‘‘۔( جماعت اسلامی کا مقصد اور طریقِ کار ،ص 30-31) قرآن مجید کی آفاقیت کو بیان کرنے بعد مولانادین اسلام کی آفاقیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’جب اسلام کے نزدیک قومیت کے یہ اجزاء  زبان ورنگ اور نسل ونسب کوئی بنیادی حیثیت نہیں رکھتے تو وہ اپنے کو کس طرح خاص قوم سے مخصوص کرسکتا تھا……اگر محض لفظ اسلام کی حقیقت پر غور کیا جائے جو بدقسمتی سے صرف مسلمانوں کا دین سمجھ لیا گیا ہے تو یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ایک عالمی دین ہے جو کسی خاص قوم کے لئے مخصوص نہیں ہے‘‘۔(ایضا ص32-33)

دین حنیف کی پیروکار امت

مسلمان دین حنیف کے پیروکار ہیں جو کہ  صرف مسلمانوں کا دین نہیں ہے بلکہ   ایک عالمی دین ہے۔ لہٰذا اس دین کی بار برداری ، اقوام عالم تک اس کی تبلیغ کی ذمہ داری اور دنیا کے تمام مکینوں کو اس کی طرف دعوت دینے کا فریضہ یہ وہ  نسبت ہے جو امت مسلمہ کے کردار کو آفاقیت عطا کردیتی ہے۔بقول ڈاکٹر محمد رفعت ’’یہ امت آفاقی امت اور عالمی امت  ہے……یہ زمانے کے دائرے میں محدود نہیں ہے، بلکہ ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک باقی رہے گی۔ یہ امت کسی اعتبار سے کوئی محدودیت نہیں رکھتی ۔ نہ ملکوں کی ، نہ نسلوں یارنگوں کی، نہ زمان ومکان کی، بلکہ ہر لحاظ سے آفاقی امت ہے‘‘    ۔ ( اسلامی تحریک – سفر اور سمت سفر، ص -43)

برصغیر کے مسلمان -تصورِ آفاقیت ، کاراورطریقہ ٔکار

یہ بات الگ ہے کہ ایک عرصہ ہوا یہ تصورِ آفاقیت، امت خاص طور پر برصغیر کے مسلمانوں کے ذہن سے محو ہوگیا تھا اور آج بھی بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں  کی بڑی تعداد اسی کیفیت میں اپنے شب وروز بسر کر رہی ہے۔ مسلمانوں کی اس سوچ کو مولاناابواللیثؒ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ’’غلط فہمی جو دین کے سلسلہ میں خود اسلام کے ماننے والوں میں بھی پائی جاتی ہے اور اس کے نہ ماننے والوں میں بھی، وہ یہ کہ وہ اسلام کو صرف مسلمانوں کا ایک قومی ورثہ سمجھتے ہیں۔  اس لئے مسلمان اسلام کو اس حیثیت سے پیش کرتے ہیں کہ یہ دوسرے ادیان ومذاہب کے مقابلے میں ایک حریف دین کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔(جماعت اسلامی کا مقصد اور طریقِ کارص-27) اس وقت مسلمانوں کی جو ذہنی کیفیت ہے وہ اس سے کچھ مختلف نہیں ہے کہ وہ نام تو دین ومذہب کا لیتے ہیں لیکن اس سے حقیقی رشتہ استوار کرنے کی جگہ انہوں نے اپنا رشتہ قومیت اور وطنیت سے جوڑ لیا ہےاور اس سلسلہ میں وہ ان لوگوں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں’’جومذہب سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے اور قومیت اور وطنیت ہی ان کی نگاہ میں سب کچھ ہے‘‘۔(ایضا ص-29)مولانا ابواللیثؒ قومیت، وطنیت اور دین کے تعلق سے برصغیر کے مسلمانوں کی ذہنیت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ’’انہوں نےدین کے دامن میں پناہ لینے کے بجائے اپنا دامن قومیت سے وابستہ کردیا یا وطنیت سے اور دونوں قسموں کی تحریکیں ان میں چلتی رہیں تاآنکہ  ان دونوں کو کامیابی حاصل ہوگئی۔ لیکن مسلمانوں کی قسمت میں سوائے ناکامی کے اور کچھ نہ آیا۔ جیسا کہ حالات سے واضح ہے۔ اگر کچھ آیا تو صرف یہ کہ مسلمان اپنے اصلی کام اور غرض سے دور  جاپڑے۔مسلمان اور غیر مسلموں میں نفرت اور عداوت کی ایک ناقا بل عبور خلیج حائل ہوگئی جس کا نقصان مسلمانوں ہی تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کا بہت کچھ حصہ اسلام کو بھی ملا۔ کیونکہ بدقسمتی سے مسلمانوں نے جو کام بھی کیا اسلام کے نام پر اور اسلام کے نعروں کے ساتھ کیا خواہ اس کا اسلام سے تعلق رہا ہو یا نہ رہا ہو، اس لئے اسلام بھی اس وقت ان کی نگاہوں میں مطعون اور قابل نفرت ہے‘‘۔(ایضا ص65-66)

مذکورہ بالا اقتباسات اور حقائق برصغیر کے مسلمانوں کی ذہنیت، ان کے انداز فکر اور زاویۂ نظر کو بیان کرنے کے لئے کافی ہیں ۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کے حالات اور پیش آمدہ واقعات کی وجہ سے ان کے اندر پست حوصلگی ، پژمردگی اور کوتاہ نظری نے اپنا مسکن بنا لیا تھا،جس کے نتیجہ میں ان کے دل احساس ِزیاں سےمحروم ہوگئے تھے۔اس کیفیت کو علامہ اقبالؒ نے اس طرح سے بیان کیا ہے کہ:

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

یہی وجہ ہے کہ اُس دور میں مسلمانوں کے اندر بے سمتی نے جگہ پالی تھی اوربرادران وطن کی رشد وہدایت تو دور خود مسلمانوں کے لئے جو کام کئے گئے اور جو تحریکیں برپا ہوئیں وہ اپنے سفر کی سمت کا صحیح طور پر تعین نہ کرسکیں تھیں لہٰذا اس کا جو نتیجہ برآمد ہونا تھا اسے سب کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں۔ مسلمانوں کی اس بے سمت تگ ودو کو مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ’’ماضی قریب کی تاریخ میں ہمارے ملک میں مسلمانوں کے اندر جو تحریکیں اٹھیں، وہ یا تو قومی تحریکیں تھیں یا اصلاحی تحریکیں۔ قومی تحریکوں نے مسلمانوں کے سیاسی مسائل میں دلچسپی لی اور ان کے سیاسی حقوق حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح کی تحریکوں کامزاج ہی شایدکچھ اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ دوسری قومیں حریف بن جاتی ہیں۔ وہ ان کے جائز مطالبات کو بھی بعض اوقات ایک حریف قوم کے مطالبات کی حیثیت سے دیکھنے لگتی ہیں۔ اس طرح ایک کشمکش کی فضا شروع ہوجاتی ہے۔ اس فضا میں وہ قومیں جن سے کشمکش جاری ہے اسلام کو اپنے حریف کے مذہب کی حیثیت سے تو دیکھ سکتی ہیں، اس پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور نہیں کرسکتیں۔ اصلاحی تحریکوں کا خطاب صرف مسلمانوں سے رہا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے عقائد، اخلاق اور معاشرت کی اصلاح کی کوشش کی لیکن اس طرف کوئی خاص توجہ ان کی نہیں  رہی کہ اسلام کو دوسرے حلقوں تک پہنچایا جائے اور اس کے بارے میں ان کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے‘‘۔(جماعت اسلامی ہند، پس منظر خدمات اور طریقۂ کار،ص-67)

حق شناسی و راست روی

اس صورت حال میں لازمی تقاضا تھا کہ اسلام، قرآن مجید،امت کی آفاقیت  ، مقام ومرتبہ اور فرض منصبی کو نہ صرف مسلمانوں کے درمیان واضح کیا جائے، اس متاعِ گراں مایہ کے زیاں کا اسے احساس دلایاجائے جو عرصہ ہوا اس کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور اس  کو اس کے اصل کام کی انجام دہی کے لئے آمادہ کیا جائے بلکہ برادران وطن کے سامنے بھی اسلام کی آفاقیت کو واضح کرتے ہوئے اس کے آفاقی پیغام کو ان کے سامنے پیش کیا جائے۔ چنانچہ قومی کشمکش سے اپنا دامن بچاتے ہوئے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کام شروع کیا گیا۔اس کام کاامتیازی پہلو بقول مولانا سید جلال الدین عمری یہ ہے کہ ’’اس کا دائرۂ کار صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہا۔ اس کا خطاب مسلمانوں سے بھی ہے اور غیر مسلموں سے بھی……اس کا رجحان ہمیشہ یہ رہا اور اس کی اس نے پوری کوشش کی کہ اسلام کو صرف مسلمانوں کا مذہب نہ سمجھ لیا جائے اور ایسا رویہ نہ اختیار کیا جائے کہ غیر مسلموں کے دلوں کےدروازے اسلام کے لئے بند ہوجائیں‘‘۔(ایضا ص-68)مولانا ابواللیث ؒ مسلمانان ہند کے تعلق سے کہتے ہیں کہ ’’اب مسلمانوں کو آئندہ کی فکر کرنی چاہئے۔ اس کے لئے ہمارے نزدیک صحیح طریقۂ کار یہی ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ سے اپنے عہد کو استوار کریں اور اسلام جو کچھ چاہتا ہےاس کے مطابق اپنے عمل میں تبدیلی پیدا کریں جس میں سب سے مقدم چیز یہ ہے کہ وہ قوم ہونے کا تصور ترک کرکے ایک داعی الی الخیر اور شہداء اللہ فی الارض کی حیثیت میں اپنے کو منتقل کرلیں۔ اس طرح ایک طرف ان کی دنیا درست ہوسکتی ہے کیونکہ غیر مسلموں کو ایک قوم سے جو ان کی حریف بن کر سامنے آئے تو ضرور نفرت ہوسکتی ہے لیکن نیکیوں سے اور نیکیاں پھیلانے والوں سےان کی نفرت کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی اور یقین کیجئے آج دنیا کی سب سے کم یاب چیز یہی ہے اس لئے دنیا کو سب سے زیادہ تلاش اسی چیز کی ہے اور اگر یہ فائدہ حاصل ہونے میں کچھ دیر بھی ہوتو اللہ سے اور اس کے دین سے تعلق استوار کرنے کا یہ ایک فوری فائدہ تو ضرور حاصل ہوسکتا ہے کہ آج مسلمان جس خوف وہراس میں مبتلا ہیں اور جس نے ان کی زندگیوں کو جہنم کا نمونہ بنا رکھا ہے، اس کا چشم زدن میں خاتمہ ہوجائے کیونکہ خدا سے تعلق جوڑلینے  کے بعد آدمی کو پھر کوئی خوف دامن گیر ہی نہیں ہوسکتا۔ اور یقینا یہ بہت بڑا فائدہ ہے۔ دوسری طرف آخرت کی ابدی زندگی بھی اسی طریقہ کے اختیار کرنے  سے کامیاب و بامرد ہوسکتی ہے اور یہ یقینا یہ بہت بڑی کامیابی ہے جس کے حصول کا اس کے سوا اور کوئی طریقہ بھی نہیں ہے۔ یہ ہے ہمارا مختصر پیام جو ہم مسلمانوں کو سنانا چاہتے ہیں‘‘۔(جماعت اسلامی کا مقصد اور طریقِ کارص66-67)

قوم و وطن سے یک گونہ تعلقِ خاطر – قوم پرستی  اور وطن پرستی

قوم و وطن سے یک گونہ تعلق خاطر اور قوم پرستی  اور وطن پرستی دو جداگانہ شئی ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان فرق کرنے والی حد ِفاصل بہت باریک ہے  اور ذرا سی بھی بے احتیاطی انسان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔ ان دونوں کی حقیقت اور ان کے درمیان فرق کو مولاناابواللیثؒ نے ان الفاظ میں بہت ہی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ’’ہم قوم پرستی اور وطن پرستی سے بھی اپنے کو بالا تر رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ ہمیں قوم یا وطن سے نفرت ہے۔ نفرت کیا معنیٰ حقیقتاً ہمیں ان سے حقیقی انس ومحبت ہے جس وطن میں ہم پیدا ہوئے اور جس کی آب وگِل سے ہمارا ڈھانچہ بنا اور جس قوم میں ہماری پیدائش ہوئی اور جس سے ہم نے طرح طرح کے فائدے اٹھائے، ان کے حقوق کو ہم کسی حال میں نظر انداز نہیں کرسکتے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے جس کو ہم چھپانا نہیں چاہتے کہ ہمیں اپنی قوم اس اعتبار سے بہت زیادہ عزیز ہے کہ ہم جن اصولوں کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں وہ انہیں اصولوں کی نام لیوا ہے اور ان کی اصلاح ہمارے اصولوں کی ترقی کا بہت بڑا اور مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے اس لئے ہم ان سے نفرت کس طرح کرسکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم اپنے کو قوم پرستی  اور وطن پرستی سے بالاتر رکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ یہ پرستاریاں ہمارے اصول کے خلاف ہیں اور ہمارے نزدیک قوم و وطن دونوں کا حقیقی فائدہ اسی میں ہے کہ ہم ان کو اپنے خدا پرستانہ اصولوں پر چلنے کی دعوت دیں جس کی حیثیت ہماری نگاہ میں یہ ہے کہ قوم اور ملک کے حقیقی مفاد ومصالح انہیں ٹکراتے نہیں  ہیں بلکہ یہ اصول ان کو اور زیادہ پورا کرنے والے ہیں۔ چنانچہ اسی بنا پر ہم نے اب تک اپنے کوقومی اور وطنی تعصبات سے ہر طرح علاحدہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جماعت کی تشکیل کا زمانہ عین وہ زمانہ ہے جب ملک میں اس طرح کی تحریکیں اپنے شباب پر تھیں۔ ایک طرف استخلاصِ وطن کی جدوجہدجاری تھی اور دوسری طرف قومی حقوق کے تحفظ کی۔ لیکن ہم نے ان سے اپنے کو جان بوجھ کر الگ رکھا۔ اگرچہ اس کے نتیجہ میں ہمیں طرح طرح کی مخالفتوں اور طعن وتشنیع سے دوچار ہونا پڑا کیونکہ یہ تحریکات کلی طور سے ہمارے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ ہمارے نزدیک آزادی صرف یہ نہیں ہے کہ ایک قوم کے افراد دوسری قوم کی غلامی سے نجات پائیں بلکہ اصلی آزادی یہ ہے کہ ایک طرف وہ اپنے ہی جیسے انسانوں اور خود اپنے نفس کی غلامی سے آزاد ہوجائیں اور دوسری طرف وہ اپنے حقیقی آقا کے غلام بن جائیں۔ اسی طرح ہمارے نزدیک مسلمانوں کا مقام یہ نہیں ہے کہ وہ دنیا کی اور قوموں کی طرح اپنے کو بھی ایک قوم فرض کرلیں اور پھر انہیں قوموں کی طرح قومی عزت وسربلندی کی فکر میں لگ جائیں اور اس طرح دنیا کے مفسد گروہوں میں ایک اور مفسد گروہ کا اضافہ کریں۔ بلکہ ان کا اصلی مقام یہ ہے کہ وہ ایک اصولی جماعت اور پارٹی بن کر دنیا کے سامنے آئیں اور اپنے ان اصولوں کی عزت اور سربلندی کے لئے کوشاں ہوں جن پر قوم اور ملک کی حقیقی سعادتوں  کا دارومدار ہے۔افسوس ہے اس حقیقت کو بھلا دیا  جاتا ہے کہ اسلام کا مفاد اور مسلم قوم کا ہر طرح کا مفاد دونوں ہر حال میں ایک نہیں ہیں۔ اور جب دونوں میں مطابقت ممکن نہ ہوتو ایک حقیقی مسلم کے لئےاس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ اسلام کے مفاد کو ترجیح دے اور مسلمانوں کے جھوٹے مفادِ قومی کو ترک اور نظرانداز کردے۔ ورنہ اس کا نتیجہ صرف یہی نہیں ہوگا کہ اس کی اسلامی حیثیت مجروح ہوجائے گی بلکہ اس طرز عمل کی بنا پر خود اسلام بھی بدنام ہوجائے گا  اور اس  کی ترقی کی راہیں مسدود ہوجائیں گی جیسا کہ آج فی الواقع مسلمانوں کے اس قسم کے طرز عمل سے ہندوستان میں ہورہا ہے۔ کیونکہ قومی مفاد کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے کسی فرد یا جماعت کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ وہ عالمگیر اصولوں کی علمبردار ہے اور اگر ایسا کرتے ہوئے کوئی یہ کہنے کی جرات کرتا ہے تو ایسے شخص یا جماعت کی بات سننے کے لئے کوئی شخص بھی آمادہ نہیں ہوسکتا ہے۔ تحریکِ اقامتِ دین کی اسی خصوصیت کا یہ نتیجہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں کے پاس بھی پہنچتے ہیں۔ ان کو اپنے اجتماعات میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں‘‘۔(ایضا ص45-47)

سمت ِکارواں اور زاد ِراہ

کارواں کی سمت اور اس کے زادِ راہ کے تعلق سے مولانا ابواللیثؒ رقم طراز ہیں کہ ’’ہم تو دین کے بنیادی اصولوں کو جو دین سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہوں لے کر چلنا چاہتے ہیں اور یہ اصول ایسے ہیں کہ ان میں نہ صرف مسلمانوں کے تمام فرقے ضم ہوسکتے ہیں بلکہ اگر وہ اصول اپنا لئے جائیں تو مسلمانوں سے باہر جو تفریقیں قائم ہیں وہ بھی مٹ سکتی ہیں‘‘(ایضا ص 56-57)۔اسی ضمن میں ایک دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں کہ’’ایک طویل عرصہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں جو قومی کشمکش جاری رہی ہے اور جس کی وجہ سے غیر مسلم حضرات کو خود اسلام سے بھی یک گونہ نفرت ہوگئی ہے وہ ہماری راہ میں ایک بڑی زبردست رکاوٹ ثابت ہورہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو ہماری حالت پر ہم سے قطع نظر کرتے ہوئے غور وفکر کرتے ہیں اور ان میں سے بہتیرے ہماری باتوں کو سراہتے ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ اگر ہم اپنے بارے میں ان کو یہ اطمینان دلانے میں کامیاب ہوگئے کہ ہم نے یہ کام کسی قومی جذبہ کے تحت یا قومی مفاد کے لئے شروع نہیں کیا ہے بلکہ اس سے ہمارا مقصد عمومی فائدہ ہے اور ساتھ ہی مسلمان بھی ہماری کچھ مدد کریں کہ وہ اپنے قوم پرستانہ طرز عمل سے اسلام کو اور خود اپنے کو نقصان پہنچانے سے باز رہیں، تو ہم یقین رکھتے ہیں کہ غیر مسلم حضرات کا شک وشبہ اور ان کی نفرت وبدگمانی  بہت جلد رفع ہوسکتی ہے اور اس کے بعد اگر ضرورت رہتی ہے تو صرف اس بات کی کہ اسلام کے سمجھنے کے لئے ان کو پورے پورے مواقع خود ان کی زبانوں میں فراہم کئے جائیں‘‘۔(ایضا ص -48)

مولانا صدرالدین اصلاحیؒ اسلامی تحریک کے سمتِ سفر کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ’’یہ نصب العین جس دین کی اقامت کا نصب العین ہے وہ اللہ کا آخری ، عالمی اور ابدی دین ہے، اور اس کی اتباع اب ہر ایک کے لئے ضروری اور شرط ِنجات ہے۔ اسلام کی یہ حیثیت فطری طور پر اس بات کو ضروری قرار دیتی ہے کہ اس کی اقامت کی تحریک بھی عالمی اور ابدی ہی ہو، پوری نوع انسانی اور اس کا ایک ایک فرد اس کا مخاطب اور مطلوب ہو اور قوم، نسل، وطن، رنگ اور زبان کے اختلافات اس کے نزدیک مطلق کوئی اہمیت نہ رکھیں۔ چنانچہ قرآن مجید نے بھی جو اس تحریک کا اصل سرچشمہ ہے،اپنے واضح اعلانات کے ذریعہ اور اس کے لانے والے پیغمبر حضرت محمدﷺ نے بھی جو دعوتِ قرآنی کے اصل علمبردار تھے، اپنے قول وعمل دونوں کے ذریعہ اس حقیقت کو بالکل روشن کردیا ہے۔ اس لئے ناگزیر تھا کہ تحریک اسلامی کا بھی خطاب عام اور ہمہ گیر ہو اور وہ کسی امتیاز کے بغیر ہر بندۂ خدا کو اپنا مخاطب بنائے، ہر ایک کو اپنا پیام پہنچائے اور کسی کو بھی اپنی دعوتِ رحمت سے محروم نہ رکھے۔ چنانچہ پہلے دن سے اس نے اپنی حیثیت اور نوعیت یہی رکھی ہے‘‘۔(تحریک اسلامی ہند،ص 36-37)ڈاکٹر محمد  عبدالحق انصاری ؒ لکھتے ہیں کہ’’نہ صرف دستور جماعت بلکہ آزادی کے بعد سے شائع ہونے والے ہر چہار سالہ پالیسی پروگرام میں جماعت نے ہمیشہ  اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ہمارا نصب العین اقامت دین ہے، ہم اسلام کو ایک جامع نظام کی حیثیت سے اس ملک کے ہرخاص وعام، مسلم اور غیر مسلم کے سامنےپیش کریں گے۔ اس کی طرف دعوت دیں گے اور اس کے قیا م کی کوشش کریں گے اور تمام جمہوری اور پرامن طریقے اختیار کریں گے‘‘۔(سیکولرزم جمہوریت اور انتخاب، ص-10) اسی طرح تحریک اسلامی کی شرائط رکنیت کی دفعہ 6 میں یہ بات کہی گئی کہ ’’انڈین یونین کا ہر شہری خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ وہ کسی قوم یا نسل سے تعلق رکھتا ہو، جماعت اسلامی کا رکن بن سکتا ہے‘‘۔(دستور جماعت اسلامی ہند، ص -9)

امت کی وحدت- مسائل پر توجہ

ان تفصیلات سے یہ نتیجہ نہیں نکالاجانا چاہئے کہ آفاقیت امت کی وحدت اور مسائل پر توجہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتی ہےبلکہ یہ خود بھی آفاقیت کا ہی حصہ ہیں اور ان سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔مولانا ابواللیثؒ   لکھتے ہیں کہ ’’عام مسلمانوں کو سامنے رکھ کر غور کیجئے یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہےکہ  ہم ایک ایسی دعوتِ حق لے کر اٹھے ہیں جس کا کوئی خصوصی تعلق کسی قوم یا ملک سے نہیں ہے بلکہ درحقیقت وہ ایک ایسا نظامِ زندگی ہے جس کے اصول تمام بنی نوع انسان کا مشترک ورثہ ہیں اور جن کے ساتھ تمام عالم انسانیت کا مفاد وابستہ ہے لیکن اس کے باوجود ہم جس قوم میں پیدا ہوئے ہیں یا جس وطن سے تعلق رکھتے ہیں اس سے اپنے کو بے تعلق نہیں کرسکتے ۔ ہمارے فطری روابط فطری حد کے اندر ان دونوں کے ساتھ ہیں اور رہیں گے۔نہ وہ مٹائے جاسکتے ہیں اور نہ انہیں مٹانا چاہئے۔ پھر مسلم قوم کے ساتھ تو ہمیں ایک اور حیثیت سے بھی لگاؤ ہے اور یہ ہماری دعوت کا پہلو ہے۔ اس وقت دنیا میں مسلمان ہی وہ قوم ہیں جو ہماری دعوت کےبراہ راست مخاطب بن سکتے ہیں کیونکہ وہ اصولا اور عقیدتاً ہماری دعوت کے اصولوں کو تسلیم کرنے کے مدعی ہیں۔ پس ان کو اور ان کی حالت کو ہم کسی حال میں نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اب دیکھئے اس وقت اس قوم کا حال کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس کی تفصیل بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ان کا حال جیسا کچھ ہے آپ پر روشن ہی ہے‘‘۔(جماعت اسلامی ہند کیوں اور کیسے، ص 119-120)اسلامی آفاقیت میں فراست ومصلحت کے ساتھ ساتھ زمان ومکان،  وقت وحالات اور وسائل وظروف کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ تاریخ اسلامی اور تحریک اسلامی میں بھی ان کی رعایت کےتعلق سے بے شمار مثالیں مل جائیں گی۔  اس  بات کو سمجھنے کے لئے ڈاکٹر محمد رفعت کی اُس تحریر پر نظر ڈالنا مفید معلوم ہوتا ہے جس میں  موصوف لکھتے ہیں کہ ’’دنیا اس وقت مختلف حکومتوں کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم ہے، اس لئے ان مختلف علاقوں کے مسلمانوں کے لئے فی الحال یہ ممکن نہیں ہے کہ کارِ اقامت دین کے لئے وہ ایک مشترک تنظیمی ہیئت بنا سکیں۔ لامحالہ اس صورت میں یہ ضروری ہوگا کہ ہر ملک میں وہاں کے حالات کے پیش نظر مناسب تنظیمی ہیئت اقامتِ دین کے مقصد کے لئے بنائی جائے۔ اس سے دین یا کارِ اقامتِ دین کی عالم گیری کی نفی نہیں ہوتی‘‘( تحریک اسلامی -سفر اور سمت سفر، ص72-73)۔

اسلام کو مطلوب امت کی بحیثیت مجموعی آفاقی وحدت

زمان ومکان،  وقت وحالات اور وسائل وظروف کی رعایت اور فراست ومصلحت کے تقاضوں کی تکمیل کے باوجود بحیثیت مجموعی امت کی آفاقی وحدت اسلام کو مطلوب ہے اور یہ ناگزیر بھی ہے۔ اس حقیقت کو  ڈاکٹر محمد رفعت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ’’یہ بات بھی سامنےرہنی چاہئے کہ باوجود مختلف ملکوں میں تقسیم ہونے کے امت کا ایک حصہ دوسرے کو متاثر کرتا ہے۔ ایک ملک کے مسلمان جو کچھ سوچتے اور کرتے ہیں، دوسرے ممالک کے مسلمان اس کا اثر قبول کرتے ہیں۔ جب کسی ملک کے اہل دانش مسلم معاشرے پر گفتگو کریں گے تو عملا جو تقاضے سامنے آئیں گے وہ تو اس ملک سے ہی متعلق ہوں گے، لیکن بہر حال اصولی تجزیہ اور گفتگو پورے مسلم معاشرے کو سامنے رکھ کر کرنی چاہئے۔ یہ امت ان معنوں میں بھی آفاقی ہے کہ یہ زمانے کے دائرے میں محدود نہیں ہے، بلکہ ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک باقی رہے گی۔ یہ امت کسی اعتبار سے کوئی محدودیت نہیں رکھتی۔ نہ ملکوں کی، نہ نسلوں یا رنگوں کی، نہ زمان ومکان کی، بلکہ ہر لحاظ سے آفاقی امت ہے‘‘۔( ایضا ص-43)مولانا مودودیؒ  اسلام کو مطلوب اور امت  کے لئے ناگزیر اس وحدت کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ ’’ ہرمسلمان خواہ وہ چین کا باشندہ ہو یا مراقش کا ، گورا ہو یا کالا، ہندی بولتا ہو یا عربی، سامی ہو یا آرین، ایک حکومت کی رعیت ہو یا دوسری حکومت کی ، مسلمان قوم کا فرد ہے۔ اسلامی سوسائٹی کا رکن ہے، اسلامی اسٹیٹ کا شہری ہے،اسلامی فوج کا سپاہی ہے، اسلامی قانون کی حفاظت کا مستحق ہے۔ شریعت اسلامیہ میں کوئی دفعہ بھی ایسی نہیں ہے جو عبادات، معاملات، معاشرت، معیشت، سیاست، غرض زندگی کے کسی شعبہ میں جنسیت یا زبان یا وطنیت کے لحاظ سے ایک مسلمان کے مقابلے میں کم تر یا بیشتر حقوق دیتی ہو‘‘۔(مسئلۂ قومیت، ص-35) امت کی بحیثیت مجموعی اس آفاقی وحدت کی تلاش و جستجو، قیام واستحکام کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی جسے بہت ہی واضح الفاظ میں مولانا مودودیؒ نے بیان کیا ہے کسی صورت نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہئے کہ  ’’ہمارے سامنے اصل سوال کسی قوم کے احیاء کا نہیں بلکہ مسلکِ اسلام کے احیاء کا ہے۔ قوم کے احیاء کا خیال دماغ سے نکالتے ہی وہ تمام مسائل کافور کی طرح اڑجاتے ہیں جو قومیت کی اصطلاحوں میں سوچنے والے لوگوں کو پریشان کیا کرتے ہیں۔ جب ہم مسلک اسلام کے پیرو ہیں اور اس کو فروغ دینا ہمارا مقصد ہے تو ہمیں کسی ایسے مفاد سے کوئی دلچسپی یا ہمدردی نہیں ہوسکتی جو کسی غیر اسلامی نظام سے وابستہ ہو یا اصول اسلام سے متصادم ہو۔ ہم اپنے دماغ کو اس کے لئے سوچنے کی زحمت نہ دیں گے۔قومی احیاء کی ان تمام تدبیروں سے بھی ہمارا کوئی تعلق نہ ہوگا جو غیر اسلامی اصول پر مبنی ہوں۔ ایک قوم اور دوسری قوم کی باہمی کشمکش، اور ایک قوم پر دوسری قوم کے تفوق کی کوششوں سے بھی ہم پوری تبرّی کریں گے۔ ہم کو جو کچھ بھی دلچسپی ہوگی اسلامی نظام فکر وعمل سے، اس کی تبلیغ واشاعت سے، اور اس کو حکمراں بنانے کی سعی وجہد سے ہوگی۔ مسلمانوں سے ہمارا تعلق صرف اسی حد تک ہوگا جس حد تک ان کا تعلق اسلام سے ہے۔ جو اپنی خواہشِ نفس اور ہرغیراللہ کی بندگی چھوڑ کر اللہ کی بندگی میں آجا..ئے وہ ہمارا بھائی اور رفیق ہے، خواہ وہ نسلی مسلمانوں میں سے آئے یا غیر مسلموں میں سے۔ ہم پیدائشی مسلمان کو بھی اسی مسلک کی طرف دعوت دیں گے اور غیر مسلموں کو بھی۔ ہمارے نزدیک اسلام کا دامن نسلی مسلمانوں کے دامن سے بندھا ہوا نہ ہوگا کہ یہ اٹھیں تو وہ بھی اٹھے اور یہ نہ  اٹھیں تو وہ بھی نہ اٹھے۔اسلام ان کے باپ کی جائداد نہیں ہے۔ یہ اس کے لئے جینے اور اسی کے لئے مرنے پر تیار ہوں تو ہم خوش اور ہمارا خدا خوش۔ ورنہ جس جہنم میں ان کا جی چاہے جاکر گرجائیں۔ ہم اللہ کا کلمہ دوسرے انسانوں کے پاس لے جائیں گے‘‘۔(اسلامی سیاست، مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش، حصہ سوم، ص -121) لیکن مقصد ِاصلی کے حصول کے لئے  یہ اسپرٹ اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب اس کام کے لئے کھڑا ہونے والا فرد کتاب وسنت کو اپنی زندگی کی اصل قرار دے، للہیت اور خداترسی کو اپنے دل و دماغ میں رچا بسالے، اپنی ہوا و ہوس کو دین کےتابع کردے  اور من و تو کے نتیجہ میں شعوری اور غیر شعوری طور پردرآنے والی عصبیت جاہلیہ کو باہر کا راستہ دکھا دے۔ دستور جماعت اسلامی ہند میں اسے بہت ہی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا  ہے اور اسے لازمی جزء قرار دیا گیا ہے ’’تمام جاہلی عصبیتیں اپنے دل سے نکال دے، خواہ وہ شخصی وخاندانی ہوں، خواہ قبائلی، نسلی اور وطنی یا فرقی وجماعتی‘‘(دستور جماعت اسلامی ہند، ص -6)۔

کتابیات

1-                          دستور جماعت اسلامی ہند                            ص-9، 8

2-مسئلۂ قومیت        مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی                         ص-1،2،3،9

3-اسلامی سیاست، مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش، حصہ سوم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ص-9

4-           جماعت اسلامی کا مقصد اور طریقِ کار  مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ ص7، 6، 5، 4، 3

5-           جماعت اسلامی ہند کیوں اور کیسے  مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ         ص-8

6-           تحریک اسلامی ہند                      مولانا صدرالدین اصلاحیؒ            ص-7

7-           سیکولرزم جمہوریت اور انتخاب     ڈاکٹر محمد  عبدالحق انصاری            ص-7

8-جماعت اسلامی ہند، پس منظر خدمات اور طریقۂ کار  مولانا سید جلال الدین عمری             ص-5، 4

9-           اسلامی تحریک -سفر اور سمت سفر ڈاکٹر محمدرفعت   ص-2،3،4،8

مشمولہ: شمارہ جنوری 2017

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223