قرآن مجید جہاں ایک واضح اور سہل کتاب ہے، وہیں وہ معانی کا ایک ناپیداکنار سمندر بھی ہے۔ کوئی غوطہ زن یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ہے کہ وہ اس کے عمیق و عریض بحر معانی کو کھنگال چکا ہے یا ایسا کرنے پروہ قادر ہے۔ لوگوں نے اس کے ایک ایک لفظ کی تحقیق میں مدتیں صرف کیں، اس کی ایک ایک آیت کو سمجھنے میں عمریں گزار دیں پھر بھی کہنا پڑا: تفسیر کو ہم کسی مکانی رقبے یا علم انسانی کے رقبے سے مقید اور محدود نہیں کر سکے۔ خود قرآن مجید بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے:
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرۃٍ طَیِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِیْ السَّمَآئ تُؤْتِیٓ أُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللّہُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ۔﴿ابراہیم:۲۴،۲۵﴾
حدیث نبی امی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال واقوال کا نام ہے، جن کی ایک اہم ذمہ داری امت کے لیے اس کتاب ہدایت کی توضیح و تشریح بھی تھی۔ قرآن میں آیا ہے:
کَمَا أَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُولًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْ عَلَیْکُمْ اٰ یٰاتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکْمْ مَا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعَلَمُوْنَ فَاذْکُرُوْنِیْ أَذْکُرْکُمْ وَأشْکُرُوْا لِیْ وَلَاتَکْفُرُوْن.﴿البقرہ:۱۵۱،۱۵۲﴾
احادیث کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ وہ قرآن کی مندرجہ ذیل انداز پر شرح کرتی ہے:
﴿الف﴾الفاظ قرآنی کی تشریح ﴿ب﴾اصطلاحات قرآنی کی تشریح ﴿ج﴾آیات کی تشریح و توضیح ﴿د﴾لطیف استنباط
الف۔الفاظ قرآنی کی تشریح
۱۔اللہ تعالی فرما تا ہے:
أَ لَّذِیْنَ اٰمَنُواْ وَلَمْ یَلْبِسُوآْ ِیْمَانَہُم بِظُلْمٍ ۔ ﴿الانعام:۸۲﴾
لفظ ’’ظلم‘‘ کی تشریح مندرجہ ذیل حدیث یوں کرتی ہے:
لما نزلت الآیۃ ’’َٔلَّذِیْنَ آمَنُؤا وَلَمْ یَلْبِسُوْا اِیْمَانَہُم بِظُلْمٍ۔‘‘ شق ذلک علي الناس فقالوا: یا رسول اللّٰہ وأینا لایظلم نفسہ؟ قال: انہ لیس الذین تعنون، ألم تسمعوا ما قال العبد الصالح: ان الشرک لظلم عظیم؟ انما ہو الشرک. ﴿الاتقان فی علوم القرآن،سیوطی،۲/۱۹۲﴾
’’جب آیت ’’ الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ وَلَمْ یَلْبِسُواْ اِیْمَانَہُم بِظُلْمٍ۔‘‘ نازل ہوئی تو لوگوں پر یہ بات سخت گزری اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: ہم میں سے کون اپنے اوپر ظلم نہیں کرتا؟ تو آپ نے جواب دیا: ان سے آپ لوگ مراد نہیں، تم نے نیک بندے کی یہ بات نہیں سنی کہ ’’شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘ اس سے مراد شرک ہے۔
۲۔قرآن نے حضرت عیسی کی بابت فرمایا ہے:
وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِیْ الْمَہْدِ وَّکَہْلاً وَمِنَ الصَّالِحِیْن۔﴿آل عمران:۴۶﴾
یہاں لفظ ’’مہد‘‘ کی شرح حدیث ذیل کی روشنی میں یوں کی جاسکتی ہے:
عن أبی ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰہ علیہ وسلم: ماتکلم أحد فی صغرہ الا عیسی وصاحب جریج.﴿تفسیرالقرآن العظیم، ابن کثیر، دارالمعرفۃ، بیروت۱۹۸۶ء،۱/۳۷۲﴾
’’ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوائے عیسیٰؑ اور صاحب جریج کے کسی نے گود میں کلام نہیں کیا‘‘۔
ایک اور حدیث میں آیا ہے:
لم یتکلم في المہد الا ثلاث: عیسی وصبی کان فی زمن جریج وصبی آخر. ﴿تفسیر ابن کثیر، ۱/۲۷۳﴾
سوائے عیسیٰؑ اوروہ بچہ جو جریج کے دور میں تھا کے سوا کسی نے گود میں گفتگو نہیں کی‘‘۔
۳۔اللہ تعالی نے امہات المسلمین کے تعلق سے ایک اہم واقعے کی طرف یوں اشارہ کیا ہے:
اِن تَتُوبَآ اِلَی اللَّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا وَاِن تَظَاہَرَا عَلَیْْہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلَاہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلَا ٓئِکَۃُ بَعْدَ ذَٰلِکَ ظَہِیْرٌ ۔﴿التحریم:۴﴾
لفظ ’صغو‘ کے سلسلے میں مفسرین کا اختلاف ہے، مگر حدیث اس لفظ کی تشریح میں جو مدد کرتی ہے وہ اسی کا حصہ ہے۔ارشاد نبویﷺ ہے:
فیبقي شرار الناس فی خفۃ الطیر وأحلام السباع لا یعرفون معروفا ولا ینکرون منکرا فیتمثل لہم الشیطان فیقول ألا تستجیبون فیقولون فما تأمرنا؟ فیأمرہم بعبادۃ الٲوثان وہم فی ذالک دارّ رقہم حسن عیشہم ثم ینفخ فی الصور فلا یسمعہ أحد الا أصفي لیتا ورفع لیتا وأول من یسمعہ رجل یلوط حوض ابلہ.﴿تفسیر ابن کثیر،۳/۳۸۹﴾
’’اس طرح برے لوگ ہلکے پرندے اور چیتے کے خیال کی طرح ہوں گے۔ وہ معروف کو معروف اور منکر کو منکر سمجھتے ہوں گے۔ پھر ان کے سامنے شیطان ظاہر ہوگا اور کہے گا کہ تم لوگ مانو گے یا نہیں پھر یہ لوگ اس سے پوچھیں گے کہ تم ہمیں کس چیز کا حکم دیتے ہو؟ اب وہ انہیں بت پرستی کا حکم دے گا، بایں حال کہ وہ لوگ اسی میں مشغول اور عیش و عشرت میں مست ہوں گے پھر صور پھونکا جائے گا جسے کوئی بھی سنکر اپنی کن پٹی جھکا لے گا یا اٹھا لے گا۔ پہلا شخص جو اس سنے گا وہ اپنے اونٹ کے حوض کو بنا رہا ہوگا‘‘۔
گویا ’’ صغت‘‘ یہاں ’’ مالت الی التوبۃ‘‘ کے مفہوم میں ہے۔
ب۔اصطلاحات قرآنی کی تشریح
۱۔قرآن نے سورۂ فاتحہ میں مسلمانوں کی دعا کا تذکرہ یوں کیا ہے:
اھدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ المَغضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّیْن۔ ﴿الفاتحہ:۷﴾
’’أَلمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ‘‘ اور ’’ أَلضَّالُون‘‘ سے کیا مراد ہے؟ایک حدیث اس کی طرف یوں اشارہ کرتی ہے:
عن عدي بن حاتم قال: سألت رسول اللّٰہ صلي اللّٰہ علیہ وسلم عن قولہ تعالی ‘‘ غیر المغضوب علیہم: قال: ہم الیہود: ولاالضالین: قال: النصاری ہم الضالون.﴿تفسیرابن کثیر،۱/۳۲﴾
’’عدی بن حاتم سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ‘‘ اور ’’وَلَا الضَّالِّیْن‘‘ کے بارے میں پوچھا تو آفرمایا: ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِم‘‘ سے یہود اور ’’وَ لَا الضَّالِّیْن‘‘ سے نصاریٰ مراد ہیں۔
۲۔اسی طرح قرآن نے سورہ آل عمران میں الراسخون فی العلم کا ذکر فرمایا ہے:
وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہ‘ٓ اِلاَّ اللّٰہُ وَالرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ یَقُولُونَ اٰ مَنَّا بِہِ کُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَاب۔ ﴿آل عمران:۷﴾
حدیث اس اصطلاح کی شرح یوں کرتی ہے:
عن أبی الدردائ قال: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سئل عن الراسخین فی العلم فقال: من برّتْْ یمینۃ وصدق لسانہ واستقام قلبہ ومن عف بطنہ وفرجہ فذلک من الراسخین فی العلم.﴿تفسیرابن کثیر،۱/۳۳۵﴾
’’ابو الدرداءسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’ الراسخون فی العلم‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا: جس نے قسم پوری کی ، جو صاف گو ہے، جس کا دل محکم ہے اور جس کا پیٹ اور شرم گاہ پاک ہوں، تو وہ ’’الراسخون فی العلم‘‘میں سے ہوگا‘‘۔
۳۔قرآن ہی نے سلسلہ نبوت کے خاتمے سے متعلق یوں بیان فرمایا ہے:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللَّٰہُ بِکُلِّ شَیْْئ ٍ عَلِیْماً۔ ﴿الاحزاب:۴۰﴾
اس اصطلاح کی تشریح مندرجہ ذیل حدیث سے ہوتی ہے :
عن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلي اللّٰہ علیہ وسلم قال: ان مثلي ومثل الٲنبیائ من قبلی کمثل رجل بني بیتا فأحسنہ وأجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ہلا وضعت ہذہ اللبنۃ؟ فقال: فأنا اللبنۃ وأنا خاتم النبیین. ﴿صحیح بخاری:۳۵۳۵﴾
’’ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایک ایسے آدمی کی ہے، جس نے کوئی گھر بنایا ہو پھر اسے انتہائی خوبصورتی سے سجایا ہو مگر کونے پر ایک اینٹ کی جگہ رہ گئی ہو پھر لوگ اس عمارت کا طواف کرنے لگ جائیں اور اس کی دید سے ان کی نگاہیں خیرہ ہوں، مگر یہ اعتراض کر بیٹھیں کہ کیوں اس اینٹ کی جگہ رہ گئی، پھر فرمایا: میں ہی اس اینٹ کی جگہ پر لایا گیا ہوں اور میں ہی آخری بنی ہوں‘‘۔
ج۔آیات کی تشریح و توضیح
آیات کی تشریح کی مثالیں احادیث کی کتابوں میں بہت ہیں۔ چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
۱۔ارشاد باری تعالی ہے:
اِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَاب وَاِنَّہ‘ لَغَفُوْرُ رَّحِیْم.﴿الانعام:۱۶۵﴾
آیت کی تشریح مندرجہ ذیل حدیث سے بہ خوبی ہوتی ہے:
عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لو یعلم المؤمن ما عند اللّٰہ من العقوبۃ ما طمع فی جنتہ أحد ولو یعلم الکافر ما عند اللّٰہ من الرحمۃ ما قنط من رحمتہ أحد.﴿تفسیر ابن کثیر،۱/۲۶﴾
’’ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مومن کو پتا چل جائے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کیا سزا ہے تو پھر وہ اس کی ہرگز خواہش نہ کرے اور اگر کافر کو اللہ تعالیٰ کے یہاں کی جزا کا علم ہو جائے تو وہ اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو‘‘۔
۲۔چور کے ہاتھ کاٹنے کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا أَیْدِیَہُمَا جَزَائً بِّمَا کَسَبًا نَّکَالًا مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْم. ﴿المائدہ:۳۸﴾
’’مگر کاٹنے کے حد کی تعیین حدیث کرتی ہے:
تقطع ید السارق في ربع دینار فصاعدا.﴿تفسیرابن کثیر،۲/۵۸﴾
’’چور کا ہاتھ چار دینار یا اس سے زیادہ پر ہی کاٹا جاسکتا ہے‘‘۔
مزید فرمایا:
لاتقطع ید السارق فیما دون ثمن المجن.﴿تفسیرابن کثیر،۲/۵۸﴾
چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم پر کاٹا نہیں جاسکتا۔
۳۔قرآن نے مسلمانوں کی آزمائش کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوآ أَن یَقُولُوآ اٰ مَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُون وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْن.﴿العنکبوت:۲﴾
اس آزمایش کی کچھ تشریح حدیث ذیل سے ہوتی ہے:
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ان عظلم الجزاء مع عظم البلاء وان اللّّٰہ أحبّ قوما ابتلاہم فمن رضي فلہ الرضا ومن سخط فلہ السخط. ﴿جامع ترمذی:۲۳۹۶﴾
’’انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑا بدلہ بھی بڑی آزمایش کے ساتھ مشروط ہے۔ اور اللہ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو اسے آزماتا ضرور ہے۔ پھر جو اس سے راضی ہو جاتا ہے تو اس کے لیے خوشنودی ہے اور جو ناراض ہو جاتا ہے اس کے لیے ناراضی ہے۔ اس طرح کی مثالیں بہت ہیں‘‘۔
ہم اپنی اس گفتگو کا خاتمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لطیف استنباطات سے کرناچاہتے ہیں۔ جیسا کہ معلوم ہے آپ ﷺ قرآن حکیم پر راتوں کو جاگ کر غوروفکر کرتے تھے اور شاید اسی لیے فرمایا ہے:
ألا وانی أوتیت القرآن ومثلہ معہ ألا یوشک رجل شبعان علي أریکتہ یقول: علیکم بہذا القرآن فما وجدتم فیہ من حلال فأجلوہ وما وجدتم فیہ من حرام فحرّموہ. ﴿الجامع الاحکام القرآن،القرطبی، دارالکتاب العربی، بیروت ۲۰۰۰ئ﴾
’’سنو مجھے قرآن دیا گیا اور اسی کی بقدر اور، سنو ایک شکم سیر آدمی اپنے بستر پر یہ کہے: تم اس قرآن کو مضبوطی سے پکڑے رہو، اس میں جو حلال ہو اسے حلال اور جو حرام ہو اسے حرام ٹھراؤ‘‘۔
بنا بریں آپ کے استنباطات نہایت لطیف اور قرآن پر غورو فکر کرنے والوں کے لیے نشان راہ ہیں ۔ چند لطیف استنباطات ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں:
۱۔ارشاد ربانی ہے:
وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الاِثْمِ وَالْعُدْوَان۔﴿المائدہ:۲﴾
آپ نے اس سے جو لطیف استنباط فرمایا ہے ملاحظہ فرمائیں:
عن أنس بن مالک قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنصر أخاک ظالما أو مظلوما: قیل یا رسول اللّٰہ ہذا نصرتہ مظلوما فیک أنصرہ اذا کان ظالما؟ قال: تحجزہ وتمنعہ من الظلم فذاک نصرہ.﴿تفسیر ابن کثیر،۳/۷﴾
’’انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ اس پر آپ سے پوچھا گیا کہ مظلوم کی مدد کے بارے میں تو پتا ہے مگر ظالم کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: تم اسے ظلم سے روکو، یہی اس کی مدد ہے‘‘۔
۲۔ارشاد ربانی ہے:
وَیَدْعُ الاِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآئ ہ‘ بِالْخَیْْرِ وَکَانَ الاِنسَانُ عَجُولاً۔﴿بنی اسرائیل:۱۱﴾
آیت سے آپ کا انتہائی لطیف استنباط ملاحظہ فرمائیں:
عن ابن عباس أن النبي صلي اللّٰہ علیہ وسلم قال: لاتدعوا علی أنفسکم ولا علی أموالکم أن توافقوا من اللّٰہ ساعۃ اجابۃ یستجیت فیہا.﴿تفسیرابن کثیر،۳/۲۸۔۲۹﴾
’’ابن عباس سے مروی ہے کہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ تم اپنے خلاف اور نہ اپنے مال و دولت کے خلاف خدا سے دعا کرو اس اندیشہ سے کہ کہیں وہ وقت دعا کے قبول ہونے کا وقت نہ ہو‘‘۔
۳۔ایک اور استنباط ملاحظہ فرمائیں۔ ارشاد ربانی ہے:
وأتل علیہم نبأ ابني آدم بالحق ذ قربا قربانا فتقبل من أحدہما ولم یتقبل من الآخر قال لٲقتلنک قال انما یتقبل اللّٰہ من المتقین لئن بسطت الي یدک لتقتلنی ما أنا بباسط یدي الیک لٲقتلک انی أخاف اللہ رب العالمین انی أرید أن تبوئ باثمي واثمک فتکون من أصحاب النار وذکل جزاء الظالمین فطوعت لہ نفسہ قتل أخیہ فقتلہ فأصبح من الخاسرین.﴿المائدہ:۲۷﴾
آیت سے آپ کا لطیف استخراج مطالعہ فرمائیں، ارشاد نبویﷺ ہے:
اذا تواجہ المسلمان بسیفہما فالقاتل والمقتول في النار.﴿تفسیرابن کثیر،۲/۴۵﴾
’’جب دو مسلمان اپنی تلوار سے ایک دوسرے پر وار کریں تو قتل کرنے والا اور قتل ہونے والا دونوں جہنم میں ہوں گے‘‘۔
مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بات بہ خوبی واضح ہو جاتی ہے کہ رسول اکرمﷺ کے اقوال وارشادات ہی قرآن کی تشریح ہیں۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2012