وہ علمائے اسلام کے سرخیل تھے، فقہائے امت کے امام تھے، علم، ذہانت، شرافت، سخاوت اور اعلی نفسی میں بے نظیر تھے۔ اہل ِعلم کا اتفاق ہے کہ وہ فقہ و اجتہاد کے باب میں امام مالک (م: ۱۷۹ھ) کے ہم پلہ و ہم پایہ تھے۔ مصر میں ان کا وہی مرتبہ تھا جو مدینے میں امام مالک کا تھا۔ جس طرح مدینے میں امام مالک کی موجودگی میں کسی اور کافتوی نہیں چلتا،اسی طرح مصر میں ان کی موجودگی میں کسی اور کو فتوے کا حق نہیں تھا۔ دنیوی مقام وجاہ اور مال و دولت میں وہ امام مالک سے کہیں آگے تھے، مگر امام مالک کو اللہ تعالی نے ایسے شاگرد عطا کیے جنھوں نے ان کے علم کو محفوظ کر دیا، ان کے مسائل کو مرتب کیا اور ان کے مسلک کو رائج کیا، جب کہ ان کا فقہی مسلک دیگر اور مسالک کی طرح جو کسی زمانے میں مشہور و معروف اور رائج تھے گوشۂ گمنامی میں چلا گیا۔ اب ان کا نام بھی بس اہلِ علم جانتے ہیں، جب کہ امام ابو حنیفہ (م: ۱۵۰ھ)، امام مالک (م: ۱۷۹)، امام شافعی (م: ۲۰۴ھ)اور امام احمد (م: ۲۴۱ھ)کے نام سےکوئی مسلمان ناواقف نہیں ہے۔
وہ عالمِ جلیل امام لیث بن سعد ہیں جن کی شخصیت میں اللہ تعالی نے دین و دنیا اور جاہ و تقوی کو جمع کردیا تھا۔ وہ مصر کے سردار تھے، والیوں کے فرمان پر ان کا فرمان بھاری ہوتا، ان کے فیصلے قاضیوں کے فیصلوں پر مقدم ہوتے۔ جاگیر وں سے ان کی آمدنی اسّی ہزار دینار (اشرفیوں) تک پہنچتی، مگر ان پر زکوٰۃ کبھی واجب نہیں ہوئی، سال گزرنے سے پہلے ہی سب صرف ہوجاتا۔
لیث بن سعد ۹۴ ھ میں مصر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ گھرانہ مال دار تھا، مگر دولت کی ریل پیل شوقِ علم کو باندھ نہیں سکی اور نہ حصولِ علم کے لیے سفر کی مشقتیں برداشت کرنے کی راہ میں حائل ہوئی۔پہلے مصر کے علما کے دسترخوانِ علم سے خوشہ چینی کی، پھر حج کےلئے روانہ ہوئے اور عطاء بن رباح، ہشام بن عروہ بن زبیر، قتادہ و دیگر علما حجاز کے علمی سوتے سے اپنی پیاس بجھائی، پھر عراق کے لیے کجاوہ کسا اور وہاں کے اساتذہ سے کسبِ فیض کیا۔
آئیے آپ کو ان کے حصولِ علم کا ایک دل چسپ قصہ سناتے ہیں: مصر کے قاضی اور محدث ابن لہیعہ (م: ۱۷۴ھ) اور لیث بن سعد ایک ساتھ حج پر گئے، دونوں نے ساتھ ساتھ وہاں کے علما سے ملاقات اور سماعت کی۔ حجاز کے علما میں اس وقت حضرت عبد اللہ بن عمر کے آزاد کردہ غلام نافع بھی تھے۔ لیث بن سعد نے انھیں دیکھا تو پہچان گئے، جب کہ ابن لہیعہ نہیں پہچان سکے۔ لیث بن سعد نافع کے پیچھے پیچھے ایک چارہ فروش کی دکان میں داخل ہوئے، انھیں سلام کیا تو پوچھا کون ہو؟ کہا بنوقیس سے ہوں۔ پوچھا عمر کیا ہے تو عرض کیا ۲۰ سال۔ کہا داڑھی سے تو لگتا ہے کہ چالیس سال کےہو۔ پھر وہیں بیٹھ کر انھیں حدیثیں سنائیں اور ان حدیثوں کی روایت کی اجازت مرحمت فرمائی۔
باہر آئے تو ابن لہیعہ نے پوچھا کون تھے؟ جواب دیا ہمارے مولی۔ عربی زبان میں مولیٰ اسماء اضداد میں سے ہے جس کے معنی آقا کے بھی ہوتے ہیں اور غلام کے بھی۔اس طرح انھوں نے ابن لہیعہ کو پتہ نہیں چلنے دیا وہ کون تھے تاکہ نافع سے روایت کرنے میں وہ ا ن کے شریک نہ ہوجائیں۔
مصر واپسی کے بعد لیث بن سعد نافع سے احادیث کی روایت کرنے لگے۔ ابن لہیعہ نے اعتراض کیا کہ آپ کی تو نافع سے کوئی ملاقات ہوئی نہیں، تو مسکرائے اور کہا: چارہ فروش کی دکان میں وہ کالا غلام کون تھا؟ وہی تو نافع تھے!
بڑے بڑے علما نے حدیث و فقہ کے باب میں امام لیث بن سعد کی بلند مقامی کی گواہی دی ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں: لیث مالک سے بڑے فقیہ تھے، مگر لیث کے شاگردوں نے ان کے علم کو نہیں سنبھالا، جس کی وجہ سے ان کے مسلک کا نشان باقی نہیں رہا۔احمد بن حنبل کہتے ہیں: مصر میں لیث سے بڑا کوئی راسخ العلم نہیں ہوا۔ ان کی حدیثیں صحت کے اعلی مرتبے پر ہیں۔ امام مالک لیث بن سعد سے روایت کرتے ہیں مگر ان کا نام نہیں لیتے۔ مؤطا میں جہا ں کہیں وہ ‘میرے پسندیدہ عالم نے مجھ سے بیان کیا’ (وأخبرنی من أرضى من أهل العلم) کہہ کر حدیث بیان کرتے ہیں، ان سے مراد لیث بن سعد ہی ہیں۔
امام شافعی اپنے حلقۂ درس میں لیث کے مسائل کی تعلیم دیتے تھے۔ ایک مسئلے پر کسی نے کہا:
‘‘لیث نے کتنی خوب صورت بات کہی ہے، گویا وہ امام مالک کی بات سن کر دہرا رہے ہوں، تو ابن وہیب نے کہا نہیں، بلکہ گویا امام مالک لیث کی بات سن کر دہرا رہے ہوں۔ اللہ کی قسم ہم نے لیث سے بڑا کوئی فقیہ نہیں دیکھا۔’’
خلیفہ منصور نے ان کے سامنے مصر کی امارت پیش کی، انھوں نے انکار کردیا اور اپنے انکار پر بضد رہے۔ منصور نے کہا پھر کسی نیک شخص کا پتہ بتا دیجیے، انھوں نے عثمان بن حکم جذامی (م: ۱۶۳ھ) کا نام پیش کیا۔ آپ کو معلوم ہے عثمان نےاس احسان کا بدلہ کیسے چکایا؟ جب امارت ان کو سونپی گئی انھیں بہت دلی تکلیف ہوئی، وہ اس پر راضی نہیں تھے۔ پوچھا امیرالمؤمنین کو کس نے میرے نام کی سفارش کی تھی؟ بتایا گیا کہ لیث بن سعد نے…. انھوں نے قسم کھالی کہ وہ کبھی ان سے بات نہیں کریں گے، کیوں کہ وہی ان کی اس اذیت (یعنی امارت) کا سبب تھے۔ کیسے اللہ والےتھے وہ لوگ! یہ کردار تھاہمارے علما واسلاف کا۔
لیث بن سعدبغداد تشریف لائے تو خلیفہ مہدی نے اپنے وزیرِ اعظم یعقوب کو حکم دیا کہ جب تک لیث بغداد میں ہیں وہ ان کے ساتھ رہیں۔ خلفاء کے ساتھ لیث بن سعد کے کئی دل چسپ واقعات مشہور ہیں۔ ایک بار ہارون رشید اور ان کی اہلیہ زبیدہ کے درمیان ان بن ہوگئی اور خلیفہ نے کہہ دیا کہ اگر میں جنت کا مستحق نہیں تو تمھیں طلاق۔ جب ہارون کو اپنے قول پر ندامت ہوئی، انھوں نے پورے ملک میں ہرکارے بھیج کرعلما کو جمع کیا اور ان کے سامنے مسئلہ پیش کیا۔ علما کی رائیں مختلف تھیں، صرف لیث خاموش رہے۔ ہارون نے ان سے پوچھا تو عرض کیا کہ امیر المومنین میں تنہائی میں کچھ عرض کروں گا۔ مجلس خالی ہوگئی تو لیث نے کہا کیا مجھے جان کی امان ہے؟کہا ہاں، تو قرآن شریف منگایا اور خلیفہ کو سورہ رحمن پڑھنے کو کہا، جب وہ (ولمن خاف مقام ربه جنتان) پر پہنچے تو کہا رک جائیے امیر المومنین اور قسم اٹھائیے ….
ہارون رشیدشش وپنج میں تھا کہ کیا کرے، لیث نے انھیں طلاق کی شرط یاد دلائی۔ ہارون نے اللہ کے نام سے حلف اٹھاتے ہوئے اقرار کیا کہ وہ اللہ کے سامنے حاضری سے ڈرتا ہے، پھر لیث نے کہا امیر المومنین،ایک نہیں، آپ کے لیے دو دو جنتیں ہیں۔ پردے کے پیچھے سے مسرت آمیز سیٹی اور تالیوں کی آواز سنائی دی۔ ہارون رشید نے پوچھا بتائیے آپ کو کیا چاہیے؟ لیث نے کہا : امیر المومنین مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ اللہ تعالی نے مجھے اپنے فضل سے خوب نوازا ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے ملک کا بھلا ہوجائے، اور میرے ملک کی بھلائی دریائے نیل کی روانی اور مصر کے گورنرکی راست روی میں ہے۔ ہارون رشید نے فرمان جاری کیا کہ آج سے مصر کے گورنر اور قاضی لیث کے ماتحت ہوں گے۔ اس کے بعد جب بھی انھیں کسی گورنر یا قاضی کے بارے کوئی امر مشکوک لگتا وہ خلیفہ کو لکھتے اور اسے معزول کر دیا جاتا۔ مصر کے قاضی اسماعیل بن یسع (م: ۱۶۷ھ) کے بارے میں انھیں معلوم ہوا کہ وہ وقف کو لازم نہیں سمجھتے ہیں [یعنی ان کے نزدیک واقف چاہے تو وقف کی ہوئی چیز کبھی بھی واپس لے سکتا ہے]، تو انھوں نے خلیفہ کو لکھا: ‘‘گو ان کے بارے میں کچھ بھی قابلِ اعتراض نہیں ہے، مگر وقف کے سلسلے میں ان کی رائےہمیں پسند نہیں۔ ’’ خلیفہ نے انھیں معزول کردیا۔ جب معزولی کا خط قاضی اسماعیل کو پہنچا تو انھوں نے لیث سے کہا: ابو حارث آپ کویہ زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی، آپ بخدا بس مجھے حکم کرتے میں خود ہی کنارہ کش ہوجاتا۔
لیث بن سعد ہر دن چار مجلسیں منعقد کرتے، ایک مجلس میں گورنر اور ان کے نائبین شریک ہوتے اور ان سے مشورے اور رہ نمائی طلب کرتے، دوسری مجلس حدیث اور محدثین کے لیے خاص تھی، تیسری میں فقہ کے مسائل حل کیے جاتے، چوتھی مجلس میں وہ ضرورت مندوں سے ملاقات کرتے۔
لیث بن سعد خوش پوش تھے اور شاہانہ زندگی بسر کرتے تھے، ایک مرتبہ ان کے لباس اور سواری کی قیمت کا اندازہ لگایا گیا تو ان کی مالیت اٹھارہ ہزار درہم نکلی۔ سفر میں نکلتے تو تین قافلے ساتھ چلتے، ایک میں وہ خود، ان کے مہمان اور طلبا ہوتے، دوسرا ان کے اہل و عیال کے لیے ہوتا اور تیسرے میں مطبخ اور خدم و حشم ہوتے۔ ان کے سکریٹری عبد اللہ بن صالح کہتے ہیں: میں بیس سال لیث کے ساتھ رہا، انھوں نے کبھی دن یا رات کا کھانا تنہا نہیں کھایا، ان کا دسترخوان وسیع تھا، جس پر انواع و اقسام کے کھانے چنے جاتے جن میں گوشت کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی۔ جتنے بھی تشنگان ِ علم ان کے پاس آتے، سب کی رہائش اور طعام کے علاوہ اضافی خرچے اپنی طرف سے ادا کرتے، کسی کو اپنی جیب سے خرچ کرنے نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ جب کوئی سفر پر نکلتا تو اس کے سفر خرچ اور زادِ راہ کا انتظام کرتے۔ اپنے دوستوں کے لیے حلوے اور مٹھائیاں لے کر جاتے اور ان کے ساتھ دینا ر بھی رکھ دیتے تاکہ مٹھائیاں کھانے کے ساتھ ان کی مالی مدد بھی ہوجائے۔ عوام کے لیے ان کے یہاں دعوت ِ عام ہوتی، جس میں وہ لوگوں کو ہریس کھلاتے، جو سردیوں میں گائے کے گھی اور شہد سے اور گرمیوں میں بادام اور شکر سے بنایا جاتا تھا۔
علما کے لیے ان کے یہاں باقاعدہ تنخواہیں مقرر تھیں، ایک ہزار دینار امام مالک کے لیے مقرر تھا۔ ایک مرتبہ امام مالک نے لکھاکہ ان پر کچھ قرض ہے، تو پانچ سو دینار بھیج دیے۔ ایک باراور امام مالک نے لکھا : ‘‘میری بیٹی کی شادی ہے، کچھ عصفر [زرد رنگ کی ایک بوٹی جس سے رنگائی کی جاتی ہے] بھیجیے۔’’ عصفر اس وقت مہنگی ہوتی تھی، لوگ اس سے کپڑے رنگتے تھے۔ لیث بن سعد نے تیس اونٹوں پر عصفر بھیجے۔ استعمال کے بعد امام مالک نے پانچ سو دینار کا عصفر بیچا، پھر بھی ان کے پاس بچ گیا۔
ایک بار حج کے لیے گئے تو امام مالک نے کھجور کی ایک تھالی بھیجی۔لیث نے کھجور رکھ لی اور ایک ہزار دینار کے ساتھ تھالی واپس کردی۔ ابن لہیعہ کا گھر ایک بار نذر آتش ہوگیا تو انھیں ہزار دینار بھجوا ئے۔ ایک مرتبہ کوئی سائل آیا تو اسے ایک دینار دینے کو کہا، غلام کو تھوڑی تاخیر ہوئی، اتنے ایک دوسرا سائل آپہنچا اور آواز لگائی، پہلے سائل نے اسے جھڑکتے ہوئے خاموش رہنے کو کہا، لیث نے سن لیا اور فرمایا: تمہیں کیا پریشانی ہے، اللہ کی طرف سے اس کا رزق بھی مقرر ہے، پھر اسے بھی ایک دینار دینے کا حکم دیا۔
قاضی منصور بن عمار(م: ۲۲۵ھ) کہتے ہیں ایک مرتبہ میں لیث کے پاس تھا کہ ایک عورت پیالہ لے کر آئی اور عرض کیا: ابو حارث میرے خاوند بیمار ہیں اور طبیب نے ان کے لیے شہد تجویز کیا ہے۔لیث نے وکیل کو بلایا اور اسے ۱۲۰ رطل [۶۰ سیر] شہد دینے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ اس نے اپنی ضرورت کے بقدر سوال کیا، ہم نے اپنی وسعت کے بقدر دیا۔
کچھ لوگوں نے ان سے پھلوں کا ایک باغ خریدا، پھر ان کا ارادہ بدل گیا اور ان سے سودا منسوخ کرنے کی درخواست کی، آپ نے نہ صرف یہ کہ بیع منسوخ کردی، بلکہ ۵۰ دینار اضافی عطا کیے اور فرمایا کہاانھیں اس سودے سے منفعت کی امید تھی، مجھے اچھا نہیں لگا کہ انھیں وہ نہ ملے۔
سعد بن لیث گروہِ علما کےقابلِ تقلید نمونہ تھے، اے کاش کہ اِس زمانے میں بھی ہم علما کا یہ نمونہ دیکھ سکیں! ایسے علما کہ جن کے پاس لیث جیسا علم ہو اور وہ امانت داری کے ساتھ دوسروں تک اس علم کو منتقل کریں، جن کی عقل بینا اور فکر رسا ہو، جن کے اندر فرماں رواؤں کی مجلس میں بیٹھنے کا وہی سلیقہ اور ہوش مندی ہو جو لیث کے پاس تھی، دنیا میں بھی جن کو وہ جاہ منزلت نصیب ہو جو لیث نے حاصل کی تھی اور جن کے پاس اتنی دولت ہو کہ وہ دوسروں کے دست نگر نہ بنیں، دولت بھی جو وہ اپنی محنت اور جاں فشانی سے جمع کریں، نہ کہ دوسروں کے سامنے کاسہ لیسی سے، اور پھر سخاوت میں جن کے دل اتنے ہی بڑے ہوں جتنا لیث بن سعد کا تھا۔
دین کے امام او ر دنیا کے سردار لیث بن سعد ۸۱ سال کی عمر میں جمعہ، ۱۴ شعبان ۱۷۵ھ مالکِ حقیقی سے جاملے۔ خالد بن عبد السلام صدفی کہتے ہیں: میں لیث کے جنازے میں اپنے والد کے ساتھ شریک تھا۔ میں نے ایسا جنازہ اس سے پہلے یا اس کے بعدکبھی نہیں دیکھا، اور مجھے نہیں لگتا اس سے بڑی تعداد کسی اور جنازے میں اب کبھی شریک ہوگی۔ سب کے سب جنازے میں امڈ آئے تھے، سب کے چہرے پر غم کی پرچھائی تھی، لوگ رو رہے تھے اور ایک دوسرے کی تعزیت کر رہے تھے۔ میں نے اپنے والد سے کہا: لگتا ہے جیسے ہر ایک نے اپناکوئی عزیز کھو دیا ہو۔ وہ بولے: ہاں بیٹے، علم و فضل میں، جود و سخا میں، عقل و فکر میں، احسان وکرم میں ان جیسا تمہیں اب کوئی نہیں ملے گا۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2021