گذشتہ شمارے سے اشارات کے ان صفحات میں ایک نئے سلسلے کا آغاز کیا گیا ہے جس کے تحت اسلامی تحریک میں اداروں کے کردار کو زیر بحث لایا جارہاہے۔ گذشتہ مضمون میں اداروں کی ضرورت و اہمیت اور ان کےمطلوبہ کردار و مقاصدپر نیز تحریک کے اصل مقصد سے ان کے تعلق پر کچھ بنیادی باتیں پیش کی گئی تھیں۔ اس مضمون میں اسلامی تاریخ میں ہوئی ادارہ جاتی کوششوں کا تجزیہ پیش کیاجارہاہے۔ اس تجزیے میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلامی تاریخ کے روشن ادوار میں اداروں کا کردار کیا رہا ہےاور کیسےان اداروں نے وہ مقاصد حاصل کیے ہیں جن کا ذکر سابقہ مضمون میں کیا گیا تھا۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ غیر سرکاری فلاحی اداروں کے تصور کو مسلمانوں ہی نے اوقاف کے نظام کے ذریعے دنیا میں بڑے پیمانے پر عام کیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں وقف پبلک سیکٹر کے ساتھ ساتھ عوامی خدمات کے ایک مستقل سیکٹرکے طور پر ابھرا۔دولت مند افرادنے نہ صرف غریبوں اور بےسہاروں کی ضرورتوں کی تکمیل کو اپنی ذمےد اری محسوس کیا بلکہ ریاست کے ساتھ تعاون اور اس کی ذمے داریوں میں شراکت کو بھی اپنے مال کااہم مصرف سمجھا۔ یتیموں،بیواؤں اور دیگر ضرورت مند افراد کی حاجت روائی، مسجدوں، خانقاہوں وغیرہ کی تعمیرو انتظام اور دیگر مذہبی امور کے ساتھ ساتھ تعلیم،معاشی فلاح و بہبود، طب اور عوامی صحت اور ان کے علاوہ عوامی وشہری سہولیات کی فراہمی کی خاطر بھی اپنی بڑی بڑی جائیدادیں وقف کیں۔
اوقاف کے اس وسیع نیٹ ورک نے اسلامی تاریخ میں بڑ ااہم کردارادا کیا۔ یہ ایک رجحان ساز ادارہ تھا اوراس نے ساری دنیا میں عوامی فلاح و بہبودکے بالکل نئے رجحانات کو عام کیا۔ان اداروں نے اسلام کی انسانیت دوستی، غریب پروری، مساوات اور تکریم آدمیت کی قدروں کی بڑی طاقت ور اور مؤثر عملی شہادت پیش کی۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق اسلام کی منفرد قدروں کو بھی بڑے پیمانے پرمتعارف کرایا اور ان قدروں کوادارہ جاتی سطح پربرت کر ان کے حق میں ٹھوس عملی شہادت بھی پیش کی۔آنے والے زمانوں میں وقف کے اس تصور نے دنیابھر کی تہذیبوں پر گہرے اثرات ڈالے۔حکومتوں کی پالیسیوں کومتاثر کیا اور اسلام کی بعض اہم قدروں کو ساری دنیا میں مقبول کرانے اوران پرہمہ گیر عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اگلی سطروں میں جوتفصیلات پیش کی جارہی ہیں، ان سے وقف کا یہ ہمہ گیر کردار واضح ہوگا۔
وقف کا عظیم الشان نظام : ایک نظرمیں
وقف کانظام خود اللہ کے رسولﷺ نے قائم فرمایا تھا اور پہلا وقف بھی آپ نے ہی فرمایا تھا۔ مخیریق بن نضیر نامی ایک یہودی ربی (جنھوں نے بعض روایات کے مطابق اسلام قبول کرلیا تھا) نے غزوہ احد میں مسلمانوں کی حمایت میں لڑتے ہوئے یہ وصیت کی تھی کہ اگر میں مارا جاؤں تو میری جائیداد محمد ﷺ کے لیے ہوگی۔ چناں چہ وہ مارے گئے اور ان کے سات باغات آں حضرت ﷺ کی ملکیت میں آگئے۔ آپ نے ان باغات کو اللہ کی راہ میں وقف قرار دے دیا[1] اوراس طرح وقف کے اس منفرداور شاندارنظام کا مبارک افتتاح فرمایا۔ پھر حضرت عمرؓ نے خیبر کی مفتوحہ زمینوں میں سے جو زمینیں ان کے حصے میں آئی تھیں، انھیں وقف فرمایا اور وقف کی تفصیلی شرائط لکھائیں جو بعد میں وقف کے اسلامی قانون کی بنیاد بنیں۔[2] ان کے بعد حضرات ابوبکرؓ، عثمانؓ، علیؓ، زید بن ثابتؓ، زبیر بن عوامؓ، سعد بن ابی وقاصؓ،معاذ بن جبلؓ، خالد بن ولیدؓ، ابو عروہ دوسیؓ، سعد بن عبادہ ؓ، جابر بن عبداللہؓ، عقبہ بن عامرؓ، عبد اللہ بن زبیرؓ اور امہات المومنین میں حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت ام حبیبہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت سودہؓ نے اپنی ملکیتوں کو وقف فرمایا۔ [3] جلیل القدر صحابہ کی اس فہرست ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ وقف دور صحابہ ہی میں کس طرح ایک عام رجحان بن چکا تھا۔
بعد کے ادوار میں وقف کے اس نظام نے اسلامی تہذیب کی ایک منفرد خصوصیت اور عوامی فلاح و بہبود کے ایک بڑے وسیع اور مہتمم بالشان انتظام کی شکل اختیار کرلی۔اصحاب خیر بڑے پیمانے پر عوام کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے سامنے آئے۔قرآن مجید کی روشنی میں اپنے مال و دولت کو انھوں نے اللہ کی امانت سمجھا اور اسے اپنا فریضہ جانا کہ اللہ کے عطا کردہ اموال کو عوامی فلاح و بہبود اور عوام کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جائے۔چناں چہ عوامی بہبود، رفاہ عام اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کے کام صرف حکومتوں تک محدودنہیں رہے بلکہ وقف کی صورت میں ان ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وسیع غیر سرکاری انتظام بھی متوازی طور پرقائم ہوگیا۔ اس انتظام نے عوامی سہولتوں(public goods) کو اسلامی ادوار میں ہر ایک کے لیے سہل الحصول بنادیا۔
اوقاف کے ذریعے اُن ضرورتوں کی تکمیل بھی ہوتی تھی جو آج بھی فلاحی اداروں کے کاموں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ یعنی اسکولوں، کالجوں اور دانش گاہوں کا قیام و انتظام، علمی و تحقیقی ادارے اور لائبریریوں کا نظم، اسپتا ل و شفا خانے (یا بیمارستان)،یتیم خانے، بیواؤں، غریبوں اور بے سہاروں کی کفالت کے انتظامات وغیرہ جیسے رفاہی مقاصد کے لیے ہر زمانے میں بے شمار اوقاف مختص رہے۔ ان کے علاوہ اس زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے مسافر خانوں (کارواں سرائے) کا قیام اور مسافروں کوسہولتوں کی فراہمی، مساجد اور مدارس کا قیام وغیرہ بھی وقف کے کاموں کے اہم میدا ن تھے۔ وقف کا ایک بڑا محاذ صوفیا کی خانقاہیں تھیں جو مختلف علاقوں میں خانقاہ، زاویہ یا رباط وغیرہ مختلف ناموں سے موسوم رہیں۔ ان کا آغاز عباسی دورہی میں ہوگیا تھا لیکن سلجوقیوں اور مملوکوں کے زمانے میں ساری اسلامی دنیا میں ان کا رواج عام ہوگیا۔ہمارے ملک ہندوستان میں بھی سلاطین دہلی ہی کے زمانے سے خانقاہوں نے کام کرنا شروع کردیا تھا۔ یہ بیک وقت دعوت دین، اصلاح امت، تزکیہ و تربیت اور عوامی خدمت کے بڑے بڑے مراکز تھے۔ہر خانقاہ میں قیام و طعام کے معقول انتظامات کے ساتھ وسیع وعریض قیام گاہیں ہوتیں جن میں وہ لوگ بھی آکر ٹھہرتے تھے جو یہاں کے تزکیہ و تربیت کے نظام سے مستقید ہونے کی خاطر آتے لیکن ان سالکین کے علاوہ بڑی تعداد میں عام لوگ اور مسافر بھی اپنی ضرورتوں کے لیے قیام کرتے تھے،جن کے لیے ان خانقاہوں کے دروازے کھلے رہتے۔ ان خانقاہوں میں مختلف مذاہب کے لوگوں کا بھی استقبال ہوتا۔ ان سے گفتگو ہوتی اور ان تک دعوت دین پہنچائی جاتی۔بہت سی خانقاہوں کے ساتھ بڑے مدارس، علمی مراکز اور لائبریریاں بھی منسلک تھیں،جن سے مستفید ہونے کے لیے اہل علم اور محققین بھی قیام کرتے۔ اس طرح ان کا علمی و تعلیمی کردار بھی تھا۔ عام طور پر خانقاہوں کے ساتھ لنگر بھی ضرور ہوتے جہاں بلاتفریق مذہب لوگ آکر کھانا کھاتے۔ بعض خانقاہوں میں خدمت خلق کے اور بھی مختلف منصوبے روبعمل لائے جاتے۔ خانقاہی نظام میں بعد میں در آئی بعض خرابیوں سے قطع نظر، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان خانقاہوں نے نویں صدی عیسوی سے لے کر اٹھارہویں صدی عیسوی تک سارے عالم اسلام میں اسلام کی پیش کش، دعوت دین اور مسلمانوں کی اصلاح و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ [4]
ا ن معروف استعمالات کے علاوہ وقف کے ان اداروں نے بڑے پیمانے پر شہری سہولیات کی فراہمی میں بھی رول ادا کیا۔ اور عوام کی ضرورتوں کو سمجھ کر ایسے منفرد اور اختراعی طریقوں سے ان ضرورتوں کی تکمیل کی راہیں نکالیں کہ محققین جب بھی ان کا تذکرہ کرتے ہیں، حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ وقف کے اس وسیع انتظام کو سمجھنے کے لیے عام طور پر عثمانی سلطنت کے اوقاف کی مثال پیش کی جاتی ہے کیوں کہ ان اوقاف کی تفصیلات اور اعداد و شمار دستیاب ہیں۔درج ذیل چشم کشا تفصیلات سے اوقاف کی خدمات کی حیرت انگیزوسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
- عثمانی عہد میں قابل کاشت زمینوں کا تین چوتھائی حصہ اوقاف کی زمینیں تھیں۔ الجیریا میں نصف، تیونس اور یونان میں ایک تہائی، مصر میں بیس فیصد اور ایران میں پندرہ فی صدجملہ قابل کاشت زمینیں اوقاف کی تھیں۔ [5]
- سلطنت عثمانیہ کے سرکاری بجٹ کے ایک تہائی کے مساوی وہ بجٹ تھا جو اوقاف کے ادارے عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرتے تھے۔[6]
- سولہویں صدی کے استنبول میں اکثر اسپتال وہی تھے جو اوقاف کے ذریعے چلتے تھے۔[7]
- سترہویں صدی کے دمشق میں آب رسانی اور فواروں کا مکمل نظام اوقاف پر مبنی تھا۔[8]
- عثمانی سلطنت کی آبادی میں ہر چھ میں سے ایک فرد کا روزگار وقف سے متعلق کسی ادارے سے وابستہ تھا۔ [9]
- مغل ہندوستان میں بھی کم و بیش یہی صورت حال تھی۔ دہلی میں آب رسانی کے نظام کا بڑا حصہ اوقاف کے ذریعے چلتا تھا۔ [10]
درج ذیل جدول سے ان اوقاف کی وسیع اور ہمہ جہت خدمات کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس تفصیل کو ہم مشہور سیاح ابن بطوطہ کے اُس دل چسپ اقتباس پر ختم کرتے ہیں جو اس نے دمشق کی سیر کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’دمشق میں اوقاف اتنے وسیع اور متنوع ہیں اور ان کےا خراجات اتنے زیادہ ہیں کہ حساب لگانا مشکل ہے۔ جو لوگ حج کی استطاعت نہیں رکھتے ان کے اخراجات کی ادائیگی کے لیے وقف ہیں۔ لڑکیوں کو شادیوں کے عروسی لباس فراہم کرنے کے لیے وقف ہیں۔ قیدیوں کو رہا کرانے کے لیے وقف ہیں۔مسافروں کو اپنے وطن پہنچنے تک کھانا کپڑا اور سفر خرچ فراہم کرنے کے لیے اوقاف ہیں۔ دمشق کی سڑکوں پر ہر جگہ فٹ پاتھ ہیں جن پر پیدل لوگ چلتے ہیں جب کہ سواریاں سڑک کے درمیان میں چلتی ہیں۔ ان فٹ پاتھوں کی دیکھ ریکھ کے لیے وقف ہیں۔ اس طرح کے ہر اچھے کام کے لیے وقف موجود ہیں۔ ایک دفعہ دمشق کی ایک سڑک سے میں گزررہا تھا کہ میں نے ایک غلام لڑکے کو دیکھا جس کے ہاتھ سے چینی مٹی کا ایک مہنگا برتن گرکر ٹوٹ گیا۔ مجمع جمع ہوگیا اور ایک شخص نے آگے بڑھ کر کہا، برتن کے ٹوٹے ٹکڑوں کو سمیٹو اور فلاں جگہ ٹوٹے برتنوں کے وقف والے متولی کے پاس لے کر جاؤ۔ اس لڑکے نے فوری ٹکڑے سمیٹے، متولی کو دکھائے اور اس نے وہیں اس برتن کو خریدنے کے لیے معقول رقم ادا کردی۔ یہ بہترین اعمال میں سے ہے کیوں کہ برتن توڑنے پر اس لڑکے کا مالک ضرور اسے سزا دیتا اور اس کا دل توڑتا۔ اس طرح یہ وقف دلوں کا علاج ہے۔ اللہ تعالیٰ اس واقف کو جزائے خیر دے جس کی خیر پسندی کا حوصلہ اس بلند سطح تک پہنچا ہے۔‘‘[11]
ان تفصیلات سے درج ذیل اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
۱۔ اسلامی تہذیب نے فلاحی اداروں کا ایک مستحکم نظام قائم کیا اور وقف کے ذریعے چلنے والے یہ فلاحی ادارے اسلامی تمدن کی نمایاں علامت بن گئے۔ اس طرح، وقف کے ذریعے انسانوں کی خدمت کی ادارہ جاتی کوشش اسلامی تراث کا ایک ایسا اہم حصہ ہے جس میں رسول اللہﷺ کے دور سے حالیہ ادوار تک تواتر و تسلسل پایا جاتا ہے۔
۲۔ اصحاب ثروت اپنے اموال کو بڑے پیمانے پر عوامی بہبود کے کاموں کے لیے استعمال میں لاتے تھے اور اس غرض کے لیے خصوصی وقف اور وقف پر مبنی ادارہ جاتی نظام قائم کرتے تھے۔
۳۔ عوامی بہبود کے ان کاموں میں عام خیراتی کام ہی شامل نہیں تھے بلکہ لوگوں کی ضرورتوں کی تکمیل اور ان کی تمکین و ترقی کے ٹھوس انتظامات بھی شامل تھے بلکہ ان سے آگے بڑھ کر شہری سہولتوں کی فراہمی میں بھی دولت مند لوگ اپنی دولت کا استعمال کرکے اوقاف کے ذریعے حکومتوں کا ہاتھ بٹاتے تھے۔
۴۔ عوام کی ضرورتوں کو معلوم کرنے کے لیے گہرے مشاہدے و مطالعے سے کام لیا جاتا تھا اور نت نئے طریقوں سے ان ضرورتوں کی تکمیل کی کوشش ہوتی تھی۔ جس طرح موجودہ دور میں بزنس اور انڈسٹری میں ایجاد و اختراع اور انوویشن کی دوڑ لگی ہوئی ہے، اُس زمانے میں فلاحی کاموں اور دولت کے رفاہی استعمال کے لیے اسی طرح مسابقت ہوتی تھی۔
۵۔ جس طرح آج جمہوری حکومتیں رائے دہندوں کو متاثر کرنے کے لیے نت نئی رفاہی اسکیمیں شروع کرتی ہیں، اُ س زمانے میں اصحاب ثروت اپنے اموال کے استعمال کے لیے نت نئی اسکیمیں جاری کرتے تھے اور طرح طرح کے اوقاف تخلیق کرتے تھے۔
رجحان سازی (trend setting) اور نئے سماجی معمولات (social norms) کی تشکیل
گذشتہ مضمون میں ہم نے یہ بات عرض کی تھی کہ فلاحی ادارے اپنے تصورات اور نظریات کے مطابق سماج میں نئے معمولات فروغ دے کر معاشرے کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم واضح کریں گے کہ اسلامی تاریخ میں اوقاف نے یہ کردار بہت نمایاں طور پرادا کیا ہے۔
عالمی تمدن پر اسلامی اوقاف کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے مستقل اور پائیدار فلاحی کاموں کے تصور کو عام کیا۔ اسلامی اوقاف سے پہلے دنیا کے مختلف مذاہب میں خیرات اور غریبوں کی انفرادی مدد کا تو تصور پایا جاتا تھا لیکن اجتماعی، منظم اور پائیدار فلاحی کاموں کا تصور،نایاب نہ سہی بہت کم یاب ضرور تھا۔دنیا کی دوسری تہذیبوں میں حکمراں خدا کا نمائندہ اور عوام کا مائی باپ تھا۔ عوام کے مسائل کا حل حکم راں کی ذمہ داری تھی اور عوام کا کام حکم راں کی مدد، اس کے حکم کی تعمیل اور اطاعت و فرماں برداری تھا۔صدقہ و خیرات کی ترغیب تمام مذاہب میں تھی لیکن لوگ اپنی خیراتی رقمیں یا تو انفرادی طور پر غریبوں اور مسکینوں میں صدقہ و دان کے طور پر خرچ کردیتے تھے یا مذہبی پیشواؤں اور چرچ جیسے مذہبی اداروں کے حوالے کردیا کرتے تھے۔مذہبی اداروں کے ذریعے کچھ فلاحی کام ضرور ہوجاتے تھے لیکن و ہ محض علامتی کام ہوتے۔ عوام کی وسیع ضرورتوں کی تکمیل میں ان کاکردار ناقابل شمار ہوتا۔
اس کے بالمقابل اسلام نے ساری مسلم امت کے خیر امت ہونے کا تصور عام کیا۔امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور قیام قسط کوپوری امت کی ذمے داری قرار دیا۔انسانی فلاح و بہبود کو حکومتوں کی بھی اہم ذمے داری قرار دیا اور عام مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا۔سماج کی مختلف ضرورتوں اورتمدنی تقاضوں کی تکمیل کوبھی ’فرض کفایہ‘ قرار دیا چناں چہ عام مسلمان بھی دنیا کی تعمیر و ترقی اور انسانوں کے مسائل کے حل کو اپنا کام اور اپنی ذمے داری سمجھنے لگے۔وقف سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے اسوے اور اس کے صدقہ جاریہ ہونے کے تصور نے ان ذمے داریوں کی ادائیگی کے لیے وقف کے طریقے کو ترجیح دینے کا مزاج عام کیا۔
وقف کا بنیادی اصول ہی یہ ہےکہ اسے نہ ختم کیا جاسکتا ہے، نہ واپس لیا جاسکتا ہے اور نہ فروخت کیاجاسکتا ہے۔ ان احکام نے فلاحی کام کو ایک طرح کا دوام (permanence) اور استحکام (stability) فراہم کیا۔ منشائے وقف اور وقف سے متعلق شرعی احکام نے مل کر ان کاموں کو مستقل قواعد اور ضابطوں کا پابند بنادیا۔ دوام، استحکام اور قاعدے قوانین کی مضبوط اساس کو جدید ادارہ جاتی نظام کی امتیازی خصوصیات سمجھا جاتا ہے۔[12] اس لیے یہ بات اب علمی حلقوں میں وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ ہے کہ ٹرسٹوں اور فلاحی اداروں کا مروجہ معاصر نظام اسلامی اوقاف کی دین ہے۔ مغربی تجزیہ نگاروں نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے کہ صلیبی جنگوں کے زمانے میں ترکوں کے اوقاف اور قوانین وقف کو قریب سے دیکھنے اور متاثر ہونے کے نتیجے میں انگریزوں میں ٹرسٹوں کا رواج شروع ہوا اور ٹرسٹ کے قوانین وجود میں آئے۔[13] نپولین نے جب شمالی افریقہ پر قبضہ کیا تو یہاں بھی یوروپی اقوام کو اوقاف کے قریبی مشاہدے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں فلاحی اداروں کے یوروپی نظام کا ارتقا شروع ہوا اور یوروپی قوانین میں فلاحی اداروں سے متعلق تفصیلی ضوابط تشکیل پائے۔
اوقاف کے ذریعے رفاہی کاموں کا سب سے نمایاں نمونہ موجودہ دورمیں یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں۔ ہارورڈ (ہارورڈمینجمنٹ کمپنی) آکسفورڈ یونیورسٹی (آکسفورڈانڈومنٹ مینجمنٹ) کیمبریج یونیورسٹی (کیمبریج انڈومنٹ)اسٹانفورڈ یونیورسٹی (اسٹانفورڈمینجمنٹ کمپنی)پرنسٹن، ایم آئی ٹی، عالمی سطح کی یہ تمام مشہور یونیورسٹیاں وقف کی طرح کے فلاحی اداروں کے ذریعے چلائی جاتی ہیں۔[14] ہارورڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا انڈومنٹ دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی انڈومنٹ ہے۔[15] ہمارے ملک میں ٹاٹا ٹرسٹ ملک کے کئی موقر تعلیمی اداروں کا مالک و منتظم ہے۔ (انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامنٹل ریسرچ وغیرہ)[16]۔ یہ رجحان بھی مسلم اوقاف کا قائم کردہ ہے۔ گذشتہ صدی کے اوائل میں ہسپانوی محقق جولین ریبیرا(Julian Ribera 1858-1934) نے اپنے مدلل تحقیقی مقالےسے تہلکہ مچادیاتھا۔ اس میں اس نے ثابت کیا تھا کہ مغربی دنیا کے اعلیٰ تعلیم کا نظام اسلامی دنیا سے مستعار ہے۔[17] اپنے مقالے میں دیگر باتوں کے ساتھ انڈومنٹ، اس کے ذریعے مستقل آمدنی، آزادانہ حیثیت اور دوام و استحکام جیسی چیزوں کو اس نے خاص طور پر اوقاف پر مبنی مسلمانوں کے تعلیمی نظام کی نقل قرار دیا تھا۔ اب یہ بات معلوم و معروف اور بڑی حد تک تسلیم شدہ ہوگئی ہے۔
اوقاف کے اس نظام نے تعلیمی ادارے کی آزادی کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سرکاری جبر کے ماحول میں علم کی آزادانہ نشوو نما نہیں ہوسکتی۔ اوقاف کے اس نظام نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو سرکاری تسلط سے آزاد رکھا اور کم سے کم سرکاری مداخلت کے ساتھ اعلی تعلیم کے عمل کو ممکن بنایا۔ مغربی یونیورسٹیوں نے بعد میں اسی ماڈل کو اختیار کیا۔[18]
تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ اوقاف نے آزادانہ علمی تحقیقات اور ریسرچ کے رجحان کو بھی عام کیا۔ گذشتہ مضمون میں ہم نے مولانا مودودیؒ کا اقتباس نقل کرکے یہ بات واضح کی تھی کہ امام ابوحنیفہؒ نے ایک طرح کا آزاد ’تھنک ٹینک‘ قائم کیا تھا جس نے اسلامی قانون کی تدوین کا اہم فریضہ انجام دیا۔ بعد کے ادوار میں یہ رجحان اور مستحکم ہوا۔ ائمہ اربعہؒ کے علاوہ ائمہ محدثینؒ نے بھی اسی رجحان کو آگے بڑھایا اور سرکاری مددو سرپرستی کے بغیر آزادانہ غیر معمولی اہمیت کے حامل علوم کو فروغ دیا۔ بعد کے ادوار میں علما نے سرکاروں سے ممکنہ حد تک آزاد رہ کر تعلیمی ادارے بھی قائم کیے اور انھیں چلایا اور علمی تحقیقات کے عظیم کام بھی اسی طریقے کے مطابق انجام پائے۔ عام طور پر پوری اسلامی تاریخ میں یہ روایت رہی کہ اہل علم کی باوقار اور شایان شان کفالت کے لیے مستقل اوقاف کام کرتے رہے اور ان اوقاف نے اہل علم کو معاشی سرگرمی سے یکسو کرکے علمی و تحقیقی کاموں کے لیے فارغ رکھا۔[19] سلجوقیوں کے زمانے میں بغداد میں قائم اوقاف مختلف علمی شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہل علم کو خطیر وظیفے فراہم کرتے تھے اور وہ علمی کاموں کے لیے یکسو رہتے تھے۔امام غزالیؒ اور علامہ ابن رشدؒ وغیرہ جیسے محققین کو اس نظام کے ذریعے وظائف دیے جاتے رہے۔[20] مراغہ کی رصد گاہ تیرہویں صدی عیسوی کا ایک اہم سائنسی پروجیکٹ تھا جہاں فلکیات میں بعض غیر معمولی اہم دریافتیں کی گئیں۔[21]یہ سب مراکز بھی وقف کے اداروں ہی کے ذریعے وجود میں لائے گئے تھے۔
رازی کی کیمیا، ابن الہیثم کی بصریات، خوارزمی کا الجبرا، بو علی سینا کاطب، یہ سب علوم و فنون جو عہد وسطی کے عظیم ترین علمی و سائنسی کارنامے تھے، ان کی انجام دہی میں اوقاف کا بڑا کلیدی کردار تھا۔[22] اوقاف کے ذریعے اہل علم کو خطیر وظیفے ملتے تھے جن سے وہ یکسوئی سے اپنا کام کرسکتے تھے۔ اہل علم کے ساتھ ساتھ ان کے معاونین کی تنخواہوں کا بھی انتظام ہوتا تھا۔ رصد گاہوں اور سائنسی تجربات کے لیے درکار خرچ بھی فراہم کیاجاتا تھا [23]اور علم و تحقیق کے لیے درکار وسیع کتب خانوں کا قیام و انتظام بھی عام طور پر اوقاف ہی کی مدد سے ہوتا تھا۔ چناں چہ بغداد کی مستنصریہ لائبریری، جو عہد وسطی کی عظیم ترین لائبریریوں میں سے ایک تھی،مکمل طور پر وقف کے ذریعے قائم کی گئی تھی۔ [24]
یہ روایت گذشتہ صدی تک بھی رہی چناں چہ نظام حیدرآباد اور بھوپال کی بیگمات نے متعدد علما، ادباء اور مصنفین کو باقاعدہ وظیفے جاری کیے اور علمی کاموں کے لیے ان کو فارغ کیا۔
اوقاف اور اسلامی اصولوں کی عملی شہادت
اوقاف نے متعدد اسلامی اصولوں کی بہت طاقت ور عملی شہادت پیش کی۔
سب سے اہم شہادت تو یہی تھی کہ انسان اللہ کی پیداکردہ اس دنیا میں ایک ذمے دار مخلوق ہے اور اللہ کے دیے ہوئے اختیارات کا استعمال کرکے اور اس کے احکام کی روشنی میں اسے دوسرے انسانوں کی فلاح و بہبود اور عمارۃ الارض یعنی تمدن کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنا ہے۔اسلام نے اس مزاج کو عام کردیا تھا۔ جس کا نتیجہ تھا کہ چھوٹے بڑے سرمایہ دار اور دولت رکھنے والے لوگ بڑے پیمانے پر آگے آئے اور اپنی اپنی سمجھ کے مطابق ا ن کاموں میں بھرپور حصہ لیا۔
مسلمانوں نے اوقاف کے اس نظام کے ذریعے دین اور دنیا کی تفریق کے راہبانہ تصور پر بھی ضرب لگائی۔اوقاف ایک مقدس مذہبی ادارہ تھا اور ثواب و اجر کی نیت سے لوگ اپنی املاک وقف کرتے تھے۔ لیکن انھیں یقین تھا اور اس یقین کی شہادت انھوں نے ساری دنیا کے سامنے پیش کی کہ اس مقدس سنت نبوی ﷺ کی پیروی کے ذریعے جہاں وہ مسجدیں تعمیر کرسکتے ہیں، مدرسے بناسکتے ہیں اور خانقاہوں کے اخراجات کا انتظام کرسکتے ہیں وہیں اسپتال بھی بناسکتے ہیں، رصد گاہوں اور تجربہ گاہوں کے اخراجات بھی پورے کرسکتے ہیں، کتوں اور بلیوں کے علاج کا اور پلوں اور سڑکوں کی مرمت کا کام بھی کرسکتے ہیں۔ یہ کام دین کے دائرے اور اجر وثواب کے احاطے سے باہر نہیں ہیں۔ان ’دنیوی‘ اور ’مادی‘ سمجھے جانے والے کاموں کے لیے بھی زندگی بھر کی کمائی ہوئی جائیداد وقف کی جاسکتی ہے اور اُس ثواب جاریہ کی امید کی جاسکتی ہے جس کی بشارت رسول اللہ ﷺ نے دی تھی۔ ایک مغربی مصنف نے اوقاف کو ’اسلامی سماج کی مادی اساس‘ (material foundation of Islamic society)قرار دیا ہے۔[25]روح اور مادے کے درمیان توازن و اعتدال کا جو راستہ اسلام دکھاتا ہے، اوقاف نے اس کا بہت خوب صورت عملی ماڈل پیش کیا۔
مسلمانوں نے اوقاف کے ذریعے مال کے استعمال کے اسلامی اصولوں کابھی عملی نمونہ پیش کیا۔ اسلام نے مال کمانے اور دولت کی تخلیق و تکوین پر نہ صرف یہ کہ کوئی روک نہیں لگائی بلکہ اس کی ہمت افزائی کی ہے۔ لیکن دولت کے اسراف اوراتراف یعنی عیش و عشرت،ہوس اور انفرادیت پسندی (individualism) کی(جو مغربی تہذیب میں دولت کے اصل مصارف ہیں) یقیناًہمت شکنی کی ہے۔ ان دو اصولوں یعنی دولت کی تخلیق وتکوین کی ہمت افزائی اوراسراف و اتراف کی ہمت شکنی کا نتیجہ تھا کہ اسلامی تاریخ میں دین دارمسلمانوں نے دولت حاصل کی لیکن اس کےمصرف کے لیے عوامی فلاح و بہبود کے نت نئے طریقے ڈھونڈ نکالے۔
اوقاف کے ان اداروں نے اسلامی مساوات اور اخوت کے تصورات کے عملی نمونے بھی دنیا کے سامنے پیش کیے۔اوپر اوقاف کی جو جھلکیاں پیش کی گئی ہیں ان سے ایک ایسے ہم درد معاشرے کی تصویر سامنے آتی ہے جس کے دولت مند افراداپنے غریب بھائیوں کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت سے واقف اور اس کے تئیں حساس رہتے تھے۔یہ غریب لوگ مختلف نسلوں، قبیلوں، ذاتوں اور قوموں سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے مذاہب بھی مختلف اور متنوع تھے۔ لیکن یہ اسلام کا پیدا کردہ انسان دوستی اور مساوات انسانی کا مزاج تھا کہ غریبوں کا درد امیر ترین لوگ بھی اپنے دلوں میں محسوس کرتے تھے اور ان کی ضرورتوں کو جان کر ان کی تکمیل کی خاطر آگے آتے تھے۔ذات پات اور طبقات میں بٹی ہوئی عہد وسطی کی دنیا میں دولت مندوں کا یہ سوچنا کہ غریب لوگوں کو کھانے کے لیے مستقل پھل اور میوے ملتے رہیں، ان کو سردیوں اور گرمیوں میں موسم کی مناسبت سے الگ الگ کپڑے میسر آئیں یاغریب ملازموں کے ہاتھوں سے مالکوں کی کوئی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے تو ان کو غیظ و غضب کا سامنا نہ کرنا پڑے یا غریب لوگ اپنے بیوی بچوں اور عزیزوں کو اہم موقعوں پر تحفے دے کر ان کے چہروں پر خوشی دیکھ سکیں یاجو بیمار شفاخانے میں شریک زیر علاج ہے، اس کے علاج کا انتظام ہو بلکہ اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر والوں کی روزی روٹی کا بھی انتظام ہو، یہ سب ایک نہایت حساس سماج کی نشان دہی کرنے والے شواہد ہیں۔ اوقاف نے اسلام کی پیدا کردہ اس حساسیت کی گویا عملی شہادت فراہم کی تھی۔ متعدد معاشی مورخین نے یہ بات لکھی ہے کہ مساوات پر مبنی سماج (egalitarian society)کے اسلامی وژن کی تکمیل میں اوقاف نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ [26]
قرآن مجید نے بعض ضرورت مندوں کا خاص طور پر وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔یتیم، غلام، مسکین، قیدی، مقروض، مسافر، سب کا الگ الگ ذکر کرکے ان کی طرف توجہ دینے کی تلقین کی۔ چناں چہ اوقاف میں بھی ان سب کی ضرورتوں کا خاص طور پرلحاظ رکھا گیا۔ اسلامی اوقاف کی تفصیلات کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان اوقاف کو تشکیل دینے والے قرآن کی ان تعلیمات سے متاثر تھے اورغربت و محرومی کی ان مختلف شکلوں کا انھوں نے لحاظ رکھا اور ان کے لیے الگ الگ وقف تشکیل دیے۔[27]پیاسے کو پانی پلانا اسلام میں نیکی کا کام ہے۔ تاریخ کے اولین اوقاف میں سے ایک وقف وہ تھا جو خلیفہ سوم سید نا عثمان بن عفان ؓ نے ایک یہودی کا کنواں،بئر روما، خرید کر وقف فرمایا تھا اور مدینے میں پینے کے پانی کا ایک اہم مسئلہ حل فرمایا تھا۔[28] چناں چہ بعد میں پانی کا خصوصی اہتمام ہمیشہ واقفوں کی ترجیحات میں شامل رہا اور مصر، ترکی، ہندوستان ہر جگہ مسلمانوں کے اوقاف کے ذریعے پانی کی فراہمی کے وسیع انتظامات کیے گئے۔[29]
اسلام نے عفت و عصمت کو خصوصی اہمیت دی اور حفظ نسل اسلامی شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد قرار پایا۔ قرآن مجید نے خاص طور پر حکم دیا وَاَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ (تم میں جو بے نکاح ہیں ان کے نکاح کردو۔ النور 32)۔چناں چہ اوپر کے چارٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کو بھی اوقاف کی ادارہ جاتی کوششوں کاایک اہم ہدف بنایا گیا۔ اس کی تفصیلات بھی بہت حیرت انگیز ہیں۔ دولہوں کو مہر کی ادائیگی میں مدد کے لیے وقف موجود تھے۔نیا گھر بسانے اور گھر کا ضروری سامان فراہم کرنے کے لیے، دلہن کو تحفے دینے کے لیے، نکاح کی خاطر زیب و زینت اور سنگھار سنوا ر کے لیے، عروسی لباس کے لیے،کچھ وقت تک نان نفقے کے لیے، ایسے متعدد اغراض کے لیے اوقاف تشکیل دیے گئے تھے۔ بیواؤں کی شادیوں کے لیے خصوصی اوقاف قائم کیے گئے تھے۔[30] جو بیوا ئیں یاغیر منکوحہ خواتین نکاح نہیں کرنا چاہتیں، ان کے تحفظ اور پاکباز زندگی کے لیے خصوصی ’رباط‘ قائم تھے جہاں نہ صرف ان کے رہنے اور کھانے پینے ودیگر ضرورتوں کے سامان تھے بلکہ ان کی دلجوئی، تربیت و تزکیہ اور پاکیزہ زندگی میں مدد کے لیے خصوصی روحانی پروگرام موجود تھے۔ [31]
اسلام نے سود اور سودی قرضوں کو حرام کیا ہے۔ چناں چہ عام ضرورتوں کے لیے اور تجارت و صنعت کے لیے بلاسودی قرض حسنہ فراہم کرنے کی خاطر ہر دور میں متعدد اوقاف وجود میں آئے۔ان اوقاف نے یہ ثابت کیا کہ سود سے بچ کر بھی تجارت و صنعت کی ضرورتوں کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔ چناں چہ مصر وشام میں مملوک دور حکومت ہو یا ترکی کا عثمانی دور حکومت ہو یا ہندوستان کا مغلیہ دور ہو، مسلمانوں کے ہر دور حکومت میں قرض حسنہ کی فراہمی کے لیے اوقاف کے متعدد نمونے تاریخی ریکاڑد میں ملتے ہیں۔ [32]
اوقاف نے اُس عزت و مساوات کی بھی شہادت قائم کی جو اسلام نے خواتین کو دی ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں خواتین کو مالی حقوق بالکل حاصل نہیں تھے، اوقاف کے ذریعے دنیا کو معلوم ہوا کہ مسلمان خاتون نہ صرف بڑی دولت اور جاگیر کی مالک ہوسکتی ہے بلکہ اپنی مرضی کے مطابق آزادانہ دولت خرچ بھی کرسکتی ہے۔ مسلمان خواتین کو مہر کی صورت میں، شوہر کی جانب سے تحائف کی صورت میں اور وراثت میں مال ملتا تھا۔ اگر خاندان دولت مند ہو تو خطیر مال حاصل ہوجاتا تھا۔کئی دفعہ یہ مال بارآور اور نفع بخش جائیدادوں کی صورت میں بھی ہوتا۔ ان خواتین پر کوئی معاشی ذمے داری نہیں تھی اس لیے کہ اسلام نے خواتین کو ہر طرح کی معاشی ذمے داری سے آزاد رکھا ہے اور ان کی کفالت بھی ان کے شوہر کے ذمے رکھی ہے۔ چناں چہ مسلمان خواتین اپنی اس دولت کو نیکی اور رفاہ عام کے کاموں میں استعمال کرتی رہیں۔[33]دنیا کے تمام مسلمان ملکوں میں اوقاف میں خواتین کا حصہ اچھا خاصا رہا ہے۔ بعض صورتوں میں تو مردوں سے زیادہ بھی رہا ہے۔ مثلاً اٹھارہویں صدی کے حلب کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں پائے جانے والے بے شمار اوقاف میں خواتین واقفوں کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ تھی۔[34] خود ہندوستان میں،خواتین مسجدنہیں جاتی تھیں لیکن مساجد کی تعمیر اور ان کے وقف میں ان کا اہم حصہ رہتا تھا چناں چہ آج بھی بہت سی قدیم مسجدیں وقف کرنے والی خواتین کے ناموں سے موسوم ہیں۔
اوقاف کے اداروں نے یہ شہادت بھی پیش کی کہ اسلام اللہ کی تمام مخلوقات کے لیے رحمت ہے۔ اوقاف کے ذریعے چرند،پرند، حیوانات، نباتات،ہر ایک کی حفاظت اور ان کی ضرورتوں کی تکمیل کاسامان ہوا۔ آوارہ کتوں کی خاطر وقف قائم کیے گئے۔ بوڑھے اور بیکار بیل بکروں کے لیے ادارے بنے۔ کبوتر،جنگلی جانور، پیڑ،پودےاور درخت وغیرہ، سب کی ضرورتوں کو سمجھا گیا اور ان کی تکمیل کے انتظامات کیے گئے۔[35] آج ساری دنیا میں تحفظ ماحولیات اور شجر کاری وغیرہ کا غلغلہ ہے۔ شجر کاری، پیڑ لگانے اور اس کی حفاظت کرنے کی ترغیب احادیث رسول میں موجود ہے۔چناں چہ شجر کاری کو نیک کام سمجھا گیا اور اس کے لیے خصوصی وقف قائم ہوئے۔ [36]
عہد وسطی کےسماج میں جہاں مذہبی تفریق بہت شدید تھی اور دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو انسان سمجھنے کے بھی لوگ روادار نہیں تھے،مسلمانوں نے خاص طور پرذمیوں اور غیر مسلموں کی ضرورتوں کا اندازہ کیا اور ان کے لیے خصوصی اوقاف قائم کیے۔[37]‘بین مذہبی تعلقات کی خوش گواری میں اوقاف کا کردار‘،محققین کی دل چسپی کا اہم موضوع رہا ہے اور اس پر متعدد تحقیقات ہوچکی ہیں۔
اس طرح گذشتہ مضمون میں فلاحی اداروں کے جو مقاصد ہم نے بیان کیے تھے، اوقاف کے یہ ادارےان تمام مقاصدکے حصول کے ایک تاریخی ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔عہد وسطی کے اکثرمسلمان معاشروں میں تہذیب و تمدن کو اسلام کی قدروں اور تعلیمات کی روشنی میں مخصوص رنگ دینے اور اسلام کی ان تعلیمات کی صداقت اور ان کی نافعیت کو دنیا پر واضح کرنے میں ان اداروں نے اہم کردار ادا کیا۔ آج ہمارے فلاحی ادارے بدقسمتی سے نہ کمیت (volume)کے اعتبار سے اس روایت کو جاری رکھ سکے اور نہ کیفیت(quality) کے اعتبار سے۔ ہمارے ادارے ہیں بھی تو وہ عام طور پر معاصر مغربی ماڈلوں کی بھونڈی اور ناقص نقل ہیں۔ ان کا اسلامی تہذیبی امتیاز نمایاں نہیں ہے۔تعلیم، طب، رفاہ عام، ازالہ غربت وغیرہ مختلف میدانوں میں ہمارے ادارے کیسے اس روایت کے تسلسل کو یقینی بناسکتے ہیں، ان سب میدانوں میں ہمارے ادارے کیسے اپنا تہذیبی امتیاز اسی طرح نمایاں کرسکتے ہیں جس طرح تاریخ میں وقف کے اداروں نے کیا تھااور اس کے لیے ان کا وژن، اصول، طریق کار وغیرہ کیا ہونا چاہیے؟ ان سوالات کو اگلی قسطوں میں ہم زیر گفتگو لائیں گے اور متعلق میدانوں کے تاریخی نمونوں سے استفادے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
حواشی و حوالہ جات
[1] ابن سعد، الطبقات الکبریٰ (دراسة وتحقيق: محمد عبد القادر عطا)؛ دار الكتب العلمية – بيروت؛1990؛ ج1 ص 388-389
[2] صحیح البخاری؛ کتاب الشروط؛ باب الشروط فی الوقف؛ حدیث2737؛ رواہ عبد اللہ بن عمر
[3] ابوبكر الشيباني الخصاف؛ احكام الأوقاف؛ ديوان عموم الأوقاف المصرية؛ قاهرة؛ 1904؛ ص 5-18
[4] خانقاہ اور دیگر صوفی اداروں کی تاریخ اور تفصیلی معلومات کے لیے ایک دل چسپ مجموعہ مقالات
Alexandre Papas(Ed) Sufi Institutions. Netherlands: Brill, 2020.
[5] Amy Singer, Charity in Islamic Society; Cambridge University Press,New York; 2008;page 186
[6] ibid
[7] A.K.Rafeq;Traditional and Institutional Medicine in Ottoman
Damascus. Turkish Historical Review; 2015 6(1), 76–102.
[8] T. Kuran ;‘‘The provision of public goods under Islamic law: origins, impact and limitations of the waqf system‘‘, Law & Society Review, Vol. 35 No. 4; 2001; pages 841-898.
[9] Murat Çizakça; A History of Philanthropic Foundations: The Islamic World From the Seventh Century to the Present; Bogazici University; 2001; page 9
[10] Asher, C. (1992). Architecture of Mughal India. Cambridge University Press, pp. 130-175
[11] رحلة ابن بطوطة (تحقیق علي المنتصر الكتاني)؛1985؛ المجلد 1 ؛ مؤسسة الرسالة؛ بیروت؛ ص 118
[12] اس جدول کو درج ذیل مراجع کی مدد سے مرتب کیا گیا ہے
Directorate General of Foundations (2014). Marvelous Pious Foundations (Waqfs) throughout History. Ankara: DGF Publications Turkiye as cited in A.S Rusydiana and D.A. Miraj;A Study of the Various Waqf Model in Ottoman History; Islamic Economic and History. 1.1.
Jamal Krafess;The influence of the Muslim religion in humanitarian aid;International Review of the Red Cross;Volume 87 Number 858 June 2005,pages 327-342
Ebru Boyar and Kate Fleet;A Social History of Ottoman Istanbul;Cambridge University Press; New York;2010
[13] Monica M.Gaudiosi ’’The Influence of the Islamic Law of Waqf on the Development of the Trust in England: The Case of Merton College.‘‘ University of Pennsylvania Law Review, vol. 136, no. 4, 1988, pp. 1231–1261.
[14] ملاحظہ ہو متعلقہ یونیورسٹیوں کی ویب سائٹوں پر ان کے تفصیلی تعارفی نوٹ
[15] https://www.investopedia.com/articles/markets/081616/top-5-largest-university-endowments.asp
[16] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
https: //www.tata.com/community/education/tata-institutes-education
[17] As quoted in
George Makdisi; The Rise of Colleges: Institutions of Learning in Islam and the West; Edinburgh University Press; 1981; Pages 294-296
[18] Ibid pages 234-237
[19] Ibid page 163 also 58-75
[20] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
Arjmand, R. (2018). Waqf and Financing Islamic Education. In: Daun, H., Arjmand, R. (eds) Handbook of Islamic Education. International Handbooks of Religion and Education, vol 7. Springer, Cham.
[21] ’’Nasir al-Din al-Tusi and Astronomy; The Institute of Ismaili Studies‘‘ https://www.iis.ac.uk/learning-centre/scholarly-contributions/lifelong-learning-articles/nasir-al-din-al-tusi-and-astronomy/ retrieved 18-01-2025
[22] Ibid.
[23] Abdul Azim Islahi , 2004. ’’Role of awqaf in promotion of scientific research,‘‘ MPRA Paper 75596, University Library of Munich, Germany, revised 2004.
[24] Muhammad Syafii Antonio et. al.‘‘Islamic Library: History, Classification, and Waqf Role‘‘ (2021). Library Philosophy and Practice (e-journal). 6222.
[25] Marshall G.S. Hodgson; The Venture of Islam, Chicago University Press, Chicago; 2009; page 124
[26] تفصیل ملاحظہ ہو:
Shehu Usman Rano Aliyu; A treatise on socioeconomic roles of waqf; Bayero University Kano;MPRA Paper No. 91413, posted 13 Jan 2019
[27] ibid
[28] سنن الترمذی؛ باب فی مناقب عثمان بن عفانؓ؛ حدیث 3703؛ قال الشيخ الألباني: حسن، الإرواء (1594)
[29] https://muslimheritage.com/waqf-endowment/؛; retrieved on 18-01-2025
[30] Suraiya Faroqhi; Subjects of the Sultan: Culture and Daily Life in the Ottoman Empire. I.B. Tauris, 2005, p. 125.
[31] see the chapter: Working women, single women and the rise of the female ribāt in Yossef Rapoport; Marriage, Money and Divorce in Medieval Islamic Society;Cambridge University Press;2005; page 31-50
[32] Murat Çizakça ’’Ottoman Cash Awqaf Revisited: The Case of the Bursa 1555–1823‘‘, Foundation for Science Technology and Civilization, June 2004, Publication ID: 4062 (2004b)
[33] وقف میں خواتین کے غیر معمولی کردار پر کئی مطالعات موجود ہیں:
Loiseau, Julien. 2019. ’’Boy and Girl on Equal Terms: Women, Waqf and Wealth Transmission in Mamluk Egypt.‘‘ Orient 54: 23–39., 8
Sonbol, Amira el-Azhari, ed. 2005. Beyond the Exotic: Women‘s Histories in Islamic Societies – Gender, Culture and Politics in the Middle East. Syracuse: Syracuse University Press.(Sonbol 2005, xxv)
Zarinebaf, Fariba. 2005 ’’Women, Patronage, and Charity in Ottoman Istanbul.‘‘ In Beyond the Exotic. Women‘s Histories in Islamic Societies, edited by Amira al-Azhari Sonbol, 89–101. Syracuse: Syracuse University Press.
[34] Madeline C Zilfi,(1997). ’’Women and Waqf Revisited: The Case of Aleppo 1770–1840 (Author: Margaret L. Meriwether)‘‘. Women in the Ottoman Empire: Middle Eastern Women in the Early Modern Era. Brill. pp. 131–132
[35] الدکتور مصطفی السباعی؛ اشتراکیۃ الاسلام؛ الدار القومية لطباعة والنشر؛ روض الفرج؛1960؛ص212
[36] Zoe Griffith; Environment, Political Ecology, and the Culture of Waqf n the Eighteenth-Century Northern Egyptian Delta in Mamlūk Studies Review; The Middle East Documentation Center; 2022
[37] Suraiya Faroqhi; Subjects of the Sultan: Culture and Daily Life in the Ottoman Empire. I.B. Tauris, 2005
مشمولہ: شمارہ فروری 2025