وقف سے متعلق نئے قانون کی منظوری کے بعد ملت اسلامیہ ہند کے سامنے یہ سوال شدت کے ساتھ آرہا ہے کہ اس سلسلے میں اب ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔
قانونی لڑائی، عوامی احتجاج، یا کچھ اور بھی؟
لوگوں میں غم و غصہ بھی ہے اور مایوسی و بے اعتمادی بھی۔
ایسے میں ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ملت کے افراد کو امید کے کچھ روزن دکھائے جائیں اور بہتری کے کچھ راستے سُجھائے جائیں۔
ہم نے ملک کے ممتاز اہل فکر و نظر کے پاس درج ذیل سوالات بھیجے، کچھ جوابات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔ امید ہے کہ ان جوابات سے گفتگو کے نئے دروازے کھلیں گے اور سنجیدہ غوروفکر کے ذریعے بہترحکمت عملی بنانے کی طرف پیش رفت ہوگی ۔(مدیر)
- ہندوستانی مسلمانوں کے مخصوص احوال میں عوامی احتجاج کی وہ کیا شکلیں ہوسکتی ہیں جن کا ضرر کم اور فائدہ زیادہ متوقع ہو؟
- قانون بن جانے کے باوجود اس قانون کی تنفیذ کے شر سے بچنے کے لیے اوقاف کی جائیدادوں کے تحفظ کی کیا تدبیریں اختیار کی جاسکتی ہیں؟
- پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن پارٹیوں نے اس قانون سے شدید اختلاف کیا اور اس کے خلاف بہت مضبوط بحث کی، اس سے کیا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟
- وقف کے اس پورے قضیے اور اس پر ملی تنظیموں، سیاسی جماعتوں، صحافیوں و دانشوروں اور مسلم عوام کے ریسپانس پرآپ کی رائے، اس پورے معاملے سے ایسے مسائل کے سلسلے میں کیا سبق حاصل ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان [1](دہلی)
مئی ۲۰۱۴ میں بی جے پی کے اقتدار اعلی پر پارلیمانی اکثریت کی بنیاد پر قبضے کے بعد ملت کے ساتھ اس کا جو سلوک ہے اور جس طرح یکے بعد دیگرے معاملات میں من مانی دخل اندازی کی جارہی ہے اور قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، اس سے ملت کے قائدین کو اندازہ ہو جانا چاہئے تھا کہ اب حکومت کے لئے کوئی حد ایسی نہیں ہے جس کو وہ پار نہ کرسکے۔ اگر اس نے ابتک کچھ نہیں کیا ہے تو وہ غیر مسلمین اور بالخصوص خارجی دنیا کے رد عمل کے ڈر سے نہیں کیا ہے کیونکہ مغربی میڈیا اور ادارے اب یہ کہنے لگے ہیں کہ ہندوستان جمہوری (ڈیموکریسی) ملک نہیں رہ گیا ہے بلکہ وہاں شکلی طور سے الیکشن ہوتے ہیں جبکہ غیر ہندوؤں کے حقوق محفوظ نہیں ہیں اور یہ بات ہندوستان کی دنیا میں شبیہ اور اس سے ملنے والے بے شمار فوائد کے لئے مضر ہے۔
بی جے پی حکومت نے مدرسوں، مسجدوں، مقبروں، درگاہوں وغیرہ کے خلاف مہم چھیڑی، احتجاج کرنے والوں کے ہزاروں گھر بلڈوز کئے، ذرا ذرا سی بات پر سخت سے سخت دفعات لگا کر ہزاروں کو جیل بھیجا گیا اور ہم خاموش رہے۔ اسی طرح اکیسویں صدی کے پہلے دہے میں جعلی دہشت گردی کے نام پر ہمارے ہزاروں نوجوانوں کو قتل یا جیل رسید کیا گیا تھااور برسوں بعد ہم بیدار ہوئے اور “اسلام دہشت گردی کی تایید نہیں کرتا” کے عنوان سے کانفرنسیں منعقد کرنے لگے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جو اشخاص اور تنظیمیں مسلمانوں کی قیادت کا دم بھرتی ہیں، وہ قیادت کا حق ادا نہیں کرتیں۔ قیادت کا مطالبہ ہوتا ہے کہ آفت آنے سے پہلے اس کا سدّباب کر لیا جائے اور اگر آ ہی جائے تو کم سے کم نقصان اٹھا کر اپنی قوم کو اس سے نجات دلائی جائے۔ اس کے لئے ایسی قیادت کے لئے لازمی ہے جو حالات سے پوری طرح باخبر ہو۔ اس کے پاس ایسا تھنک ٹینک موجود ہو جو بے لاگ طریقے سے معلومات اکھٹا کر ے اور حالات کا صحیح تجزیہ کر کے قیادت اور قوم کو با خبر کرے تاکہ صحیح اقدامات مصیبت کو روکنے یا اس سے بچنے کے لئے کئے جا سکیں۔
بی جے پی، آر ایس ایس اور ہندوتوا کی طاقتوں کا طریقہ یہ ہے کہ برسوں پہلے سے ان کا ایجنڈا طے ہے۔ پہلے ان کے کچھ غیر اہم لوگ مسائل کو اٹھاتے ہیں، پھر دھیرے دھیرے وہ پوری تحریک کا اصل مسئلہ بن جاتا ہے اور پھر جب حالات تیار ہو جاتے ہیں تو حکومت اپنا کام کرتی ہے۔
اوقاف کے بارے میں برسوں سے پروپیگنڈا چل رہا تھا کہ یہ جعلی ہیں، وقف بورڈوں نے زبردستی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے، قدیم مساجد اور درگاہیں در اصل مندروں کے ملبے پر بنائی گئی ہیں وغیرہ۔۔ ایسی حالت میں اپنا کیس ٹھیک سے تیار کر کے رائے عامہ اور حکومت کے پاس جاناچاہئے تھا اور ضرورت محسوس ہوتی تو آنے والے طوفان کو روکنے کے لئے کورٹ بھی جانا چاہئے تھا۔ یہی نہیں بلکہ ضرورت محسوس ہوتی تو اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن اور حقوق انسانی کی تنظیموں تک اپنی بات پہچانی چاہیے تھی۔ یہ سب ہمارے یہاں کچھ نہیں ہوا۔ جب پل ٹوٹنے کی کگار پر آیا تو ایمیل بھجوائے جانے لگے اور اب بغیر تیاری کے لوگ سپریم کورٹ بھاگ رہے ہیں۔ ادھر قانون پاس ہوا، اور چند دنوں میں لوگ سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ گہری تیاری نہیں کی گئی ہے بلکہ اخبارات میں خبر چھپوانے اور اپنے مویدین کو دکھانے کے لئے بھاگ دوڑ ہےکہ ہم کچھ کر رہے ہیں، گھبراؤ نہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ عوام احتجاج کریں، “شاہین باغ” دو بارہ کھڑاکریں۔ اگر قائد لوگ اس کی قیادت کریں تو ٹھیک ہے ورنہ ناسمجھ بھیڑ کو کٹنے کے لئے بھیجنا کون سی عقلمندی ہے؟ پھرنمبروں کی لڑائی میں آپ کیسے جیتیں گے؟ اگر آپ ۱۵ سڑک پر لائیں گے تو وہ ۸۰ لائیں گے۔ پھر پولیس اور انتظامیہ ان کے ساتھ ہے۔ مسلمانوں کی ہڈیا ں توڑی جائیں گی، گھر بلڈوز کئےجائیں گے اور جیلیں بھری جائیں گی جبکہ قائد حضرات خوش اسلوبی سے بچ کر نکل جائیں گے۔۔۔یہ کون سی قیادت ہے جو اپنے پیادوں کو جنگ میں جھونک کر اپنے لئے گوشۂ عافیت تلاش کر لیتی ہے۔
اس وقت خوب اچھی طرح تیاری کرکے، عمدہ وکیلوں کے ذریعے سپریم کورٹ کا رخ کرنا چاہئے۔ سڑک پر آنے سے گریز کرنا چاہئے اور اگر آنا ہی ہے تو قائد حضرات صف اول میں کھڑے ہوں اور گرفتاریاں دیں۔
قانون بن جانے کے بعد اس کا فوری نفاذ بھی شروع ہو گیا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک موجودہ حکومت باقی ہے۔ افق پر امیدوں کے بادل یہ دکھا رہے ہیں کہ یہ صورت حال چار سال بعد بدلے گی اور جب دوسری حکومت آئے گی تو اس ظالم قانون کو ختم کر دیا جائے گا۔ ایسا ہونے کا پورا امکان ہے۔ اگر اپوزیشن والے آپس میں لڑنے کی حماقت نہ کریں تو اگلے عمومی الیکشن میں ہندوتوا کو پسپائی ہوگی۔ ابھی سے اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ربط رکھا جائے اور کوشش ہو کہ اپوزیشن پارٹیاں اپنے آنے والے انتخابی منشور میں لکھیں کہ جیتنے اور حکومت بنانے کے بعد وہ یہ ظالم قانون ختم کردیں گی اور اقلیتوں کی ساری اسکیمیں جن کو بی جے پی حکومت نے ختم یا بہت محدود کر دیا ہے، ان سب کو بحال کردیں گی۔
اسی کے ساتھ اوقاف کے متولیان بلکہ مدرسہ و مسجد وغیرہ کے ذمے داران کا فرض ہے کہ اپنے کاغذات ٹھیک کر لیں تاکہ بوقت ضرورت ان کو عدالتوں میں پیش کیا جا سکے۔ کاغذات کا نہ ہونا حکومتی کارندوں کے لئے من مانی کا راستہ کھولتا ہے۔ اسی طرح عام مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے کاغذات جیسے پیدائش سرٹیفکٹ، تعلیمی لیاقت کے سرٹیفکٹ اور گھروں اور جائیدادوں کے کاغذات تیار کرکے رکھیں کیونکہ اگلے دنوں میں کبھی بھی ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور نہ ہونے پر شدید خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
صلاح الدین شبیر[2] (گیا، بہار)
وقف سے متعلق نئے قانون کی منظوری کے بعد ملتِ اسلامیہ ہند ایک بار پھر ایک سنگین سوال سے دوچار ہے: اب ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ قانونی جدوجہد، عوامی احتجاج یا کوئی اور راستہ؟ یہ سوال صرف جذباتی نہیں، بلکہ ایک عملی، سنجیدہ اور دور رس نتائج کا حامل سوال ہے۔ عوام کے دلوں میں غم و غصہ بھی ہے، اور بے یقینی و مایوسی بھی۔ لیکن حالات خواہ جیسے بھی ہوں، دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم جذبات کے بہاؤ میں بہنے کے بجائے ایک ایسی حکمت عملی تیار کریں جو نہ صرف ملت کو نقصان سے بچا سکے بلکہ اس کے مستقبل کو بھی محفوظ بنائے۔ یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ موجودہ احتجاجی صورتِ حال کو کیسے برتا جائے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس سوال کا جواب تلاش کریں، آزاد ہندوستان کی مختلف احتجاجی تحریکوں کا ایک سرسری جائزہ لینا اہم ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ کب، کہاں، اور کیسے عوامی احتجاج موثر یا غیر مؤثر ثابت ہوا ہے۔
جے پرکاش نارائن تحریک: سب سے پہلی تحریک جس کا میں عینی شاہد رہا ہوں اور مقامی سطح پر اس تحریک میں شریک بھی ہوا ہوں اس کی شروعات جئے پرکاش نارائن کے آندولن سے ہوئی۔ اس آندولن نے ملک گیر سطح پر سماج کے تمام طبقات کو متحرک کر دیا تھا۔ ۱۹۷۴ء میں بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کیے گئے۔ بہت سارے مقامات پر پرتشدد راستے بھی اختیار کیے گئے اور مظاہرین پر گولیاں بھی چلائی گئیں۔ میرے شہر میں میری آنکھوں کے سامنے مظاہرین پر گھیرا بندی کرکے گولیاں چلائی گئیں اور لاشوں کو اٹھا کر غائب کر دیا گیا۔ ان لاشوں کو جلانے کی خبر بھی پھیلی جس کی تحقیق کے لیے خود جئے پرکاش نارائن گیا شہر تشریف لائے۔ ہم لوگوں نے ایک بڑے ہجوم کی شکل میں گیا ریلوے جنکشن پر ان کا استقبال کیا۔ جب اس آندولن نے ملک گیر صورت اختیار کرلی تو اقتدار بچانے کے لیے اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کردی۔ معاملہ اقتدار بچانے کا تھا اور اسے بچانے کے لیے ریاستی قوت کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔ اس قوت کا نشانہ تمام سیاسی اور غیر سیاسی پارٹیاں بنیں۔ تمام سیاسی شخصیات اور فعال آندولن کاریوں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ اس جیل بندی کا شکار جماعت اسلامی ہند کے قائدین اور بہت سارے ارکان و کارکنان بھی ہوئے۔ ایمرجنسی کے دوران ہر طرف سناٹا چھایا رہا۔ جب تک ایمرجنسی نافذ رہی عوام اپنے معمولات زندگی میں مصروف رہے۔ جب تک حکومت نے صحیح یا غلط اندازے کی بنیاد پر خود ہی ایمرجنسی نہ اٹھا لی لوگ خاموش تماشائی بنے رہے۔
حاصل: اس طرح یہ تحریک ایک ہمہ گیر عوامی بیداری کا مظہر تھی جس نے اندرا گاندھی کو ایمرجنسی لگانے پر مجبور کر دیا۔ اس تحریک میں ریاستی قوت کا بے دریغ استعمال ہوا، اور بالآخر یہ تحریک اقتدار کی تبدیلی پر منتج ہوئی۔ لیکن اس تحریک کی نوعیت قومی تھی، اور اس میں تمام طبقات شامل تھے۔
شاہ بانو کیس کے خلاف احتجاج: دوسری عوامی تحریک جس کا تعلق صرف مسلمانوں سے تھا وہ شاہ بانو فیصلے کے خلاف چلائی گئی۔ عدالت کے فیصلے کو عام مسلمانوں نے بھی شریعت میں کھلی مداخلت سمجھا۔ پورے ملک میں مسلمان سراپا احتجاج بن گیے۔ ملک کے گوشے گوشے میں مسلمان لاکھوں کی تعداد میں احتجاجی جلوس لے کر نکلے۔ آزاد ہندوستان میں شائد یہ پہلا اور آخری سب سے بڑا ملک گیر عوامی احتجاج تھا جس میں مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تقریبا ہر جگہ اس احتجاج میں ایس آئی او اور وابستگان جماعت کا فعال کردار رہا۔ عام طور پر اتنا بڑا عوامی احتجاج پرامن طور پر کیا گیا، نہ شاہراہیں بند کی گئیں، نہ جلاو ٔگھیراو کیا گیا۔ گیا شہر کا احتجاجی جلوس تقریبا تین میل طویل تھا جو شہر کے گاندھی میدان سے نکلا اور شہر کےآخری سرے تک تا حد نگاہ لاکھوں کا عوامی سمندر تھا۔ اس جلوس کی قیادت بھی ایس آئی او اور وابستگان جماعت نے کی پوری چوکسی کے ساتھ جلوس کی اس طرح نگرانی کی کہ یہ ایک عظیم الشان احتجاج خاموش جلوس بن گیا جس میں نعرہ تو کجا لوگوں نے اپنے منھ سے ہلکی سی آواز بھی نہ نکالی۔ صرف پلے کارڈ تھامے لاکھوں مسلمان ریلی کی صورت میں شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک خاموش احتجاج کا سمند بن گیے۔ لیکن پٹنہ کے پرامن جلوس پر پولس نے فائرنگ کر دی۔ اس جلوس کی قیادت کل ہند صدر ایس آئی او مرحوم اشفاق احمد صاحب کر رہے تھے۔ پولیس فائرنگ کی گونج دہلی تک سنی گئی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے قائدین اور کانگریس کے مسلم رہنماوں نے مرکزی حکومت پر دباؤ بڑھایا۔ کانگریس حکومت نے عدالتی فیصلے کو بے اثر کرنے کے لیے پارلیامنٹ سے نیا ایکٹ منظور کیا۔ اس طرح مسلمانوں کا یہ ملک گیر احتجاج نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ لیکن اس نتیجہ خیزی کی وجہ جو میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ تھی کہ بہرحال کانگریس مجموعی طور پر مسلم مخالف بیانیے پر انتخاب نہیں لڑتی تھی۔ مذہبی اقلیتوں کے مذہبی حقوق سے متعلق دستوری ضمانت کا بھی بڑی حد تک خیال رکھتی تھی۔ انتخاب میں وہ تمام شہریوں بشمول مسلمانوں کا ووٹ بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتی تھی۔
حاصل: یہ تحریک ایک خالص مسلم ردِ عمل کا نتیجہ تھا جو شریعت میں مداخلت کے خلاف تھا۔ ملک بھر میں لاکھوں مسلمانوں نے پرامن طریقے سے مظاہرہ کیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ پارلیمان میں ایک نیا قانون پاس کیا گیا جو مسلمانوں کے موقف کے مطابق تھا۔ اس کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کی حکومت مسلمانوں کے ووٹ کی محتاج تھی۔
بابری مسجد تحریک: تیسری ملک گیر احتجاجی تحریک جو صرف مسلمانوں نے چلائی اس کا تعلق بابری مسجد ی کی بازیابی سے تھا۔ مرحوم سید شہاب الدین صاحب کے جذباتی بیانیے نے جگہ جگہ مسلمانوں میں جلسے جلوس کرنے کے لیے جوش پیدا کیا۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے قانونی لڑائی کے ساتھ عوامی احتجاج کا راستہ بھی اختیار کیا۔ لیکن عوامی احتجاج اور عدالتی چارہ جوئی دونوں کے باوجود بابری مسجد کی بازیابی ممکن نہ ہو سکی۔ اس کی دو بڑی وجوہات نظر آتی ہیں۔ اول یہ کہ مسلمانوں کے احتجاج نے ہندوتوا سیاسی قوت کو جوابی احتجاج کے لیے سازگار ماحول فراہم کر دیا۔ چنانچہ رام جنم بھومی تحریک کے تجربے نے مسلم مخالف بیانیے پر مبنی ہندوتوا سیاست کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
حاصل: یہ تحریک اگرچہ جذباتی اور پرجوش تھی، لیکن اس کا انجام نہایت افسوسناک نکلا۔ مسجد شہید ہو گئی، اور مسلمانوں کے احتجاج سے ہندوتوا طاقتوں کو اپنی سیاست مضبوط کرنے کا موقع ملا۔ عوامی احتجاج ایک طرح سے سیاسی چالوں کا شکار ہو گیا۔
منڈل کمیشن تحریک: چوتھا عوامی احتجاج جس کا میں شاہد رہا ہوں وہ منڈل تحریک ہے۔ اس عوامی احتجاج میں مسلمان شریک نہیں تھے۔ تاہم فرقہ پرست قوتوں کے خلاف ہونے کی بناء پر ان کی اخلاقی تائید اس تحریک کے ساتھ تھی۔ اس تحریک نے سیاسی سطح پر کئی ریاستوں میں پسماندہ ذاتوں کی سیاست کو فروغ بخشا اور انہیں سیاسی اقتدار سے ہم کنار کیا۔ سماجی سطح پر بھی بیک وارڈ، فارورڈ کی کشمکش تیز ہوئی۔ اس تحریک کے تحت امڈنے والے سیاسی احتجاج کو عام طور پر ریاستی جبر کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس تحریک نے بطور خاص شمالی ہندوستان کی سیاست کو متاثر کیا۔ پارلیامنٹ یا ریاستی اسمبلیوں میں پسماندہ و دلت رزرویشن کے خلاف آواز بلند کرنا مشکل ہو گیا۔ پسماندہ و دلت طبقات نے منڈل تحریک کے ذریعے اپنے سیاسی معاشی حقوق کو حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم شدت پسندانہ مسلم مخالف بیانیے پر مبنی کمنڈل تحریک نے سوشل جسٹس کی لڑائی میں شریک پسماندہ اور دلت طبقات کو بڑے پیمانے پر ہمنوا بنانے میں کامیابی حاصل کر لی۔
حاصل: مسلمان اس میں براہ راست شریک نہ تھے۔ اس تحریک نے سماجی انصاف کے نظریے کو فروغ دیا۔ اس تحریک کے ذریعے پسماندہ طبقات نے اپنے حقوق حاصل کیے، کیونکہ ان کی تعداد اور سیاسی اہمیت مسلمہ تھی۔ یہاں ریاستی جبر بھی کم دکھائی دیا۔
کسان تحریک: پانچویں تحریک کا تعلق کسانوں کی حالیہ احتجاجی ریلیوں سے ہے۔ کئی مہینوں پر محیط اس احتجاجی تحریک پر بات چیت اور تشدد کے ذریعے قابو پانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن مسلسل احتجاج کی وجہ سے بالآخر حکومت کو کسان مخالف قانون واپس لینا پڑا۔ اس تحریک سے بھی مسلمانوں کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ کسان احتجاجی تحریک میں جو لوگ پیش پیش تھے ان کا ووٹ بھی حکمراں پارٹی کو درکار تھا۔ کسانوں کے احتجاج کو نظر انداز کرکے سیاست کرنا حکمراں سیاسی جماعت کے لیے مشکل تھا۔ چنانچہ یہ احتجاجی تحریک بھی نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔
حاصل: یہ تحریک بھی پرامن اور طویل المدت تھی، جس نے حکومت کو جھکنے پر مجبور کیا۔ لیکن اس کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ تحریک ان طبقات کی جانب سے تھی جن کا ووٹ حکمراں جماعت کے لیے اہم ہے۔
شاہین باغ / CAA-NRCتحریک: چھٹا ملک گیر احتجاج، جس میں اصلا مسلمان ہی پیش پیش رہے، وہ این آر سی/سی اے اے مخالف تحریک یا شاہین باغ تحریک ہے۔ مسلمانوں کی یہ تحریک بھی پرامن تھی۔ پورے ملک میں کئی مہینوں کے دھرنے کی صورت میں اس تحریک کے ذریعے رائے عامہ کو معقولیت کے ساتھ ہمنوا بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس پرامن احتجاجی تحریک کے دوران بھی جگہ جگہ مسلمانوں کو ہراساں کیا گیا ۔ ریاستی قوت کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسے دبانے کی کوشش بھی کی گئی۔ لیکن کووڈ کی وباء نے کسی بڑی کاروائی کے بغیر ہی اس احتجاجی تحریک کو معطل کر دیا۔ جس قانون کے خلاف طویل مدت تک احتجاج کیا گیا وہ قانون اپنی جگہ برقرار رہا۔ حسب موقع و ضرورت مختلف ریاستوں میں اس کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔ مسلم مخالف قانون کو بدلوانے کے اعتبار سے یہ مسلمانوں کا یہ احتجاج بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمراں سیاسی جماعت کے نزدیک مسلمانوں کا احتجاج ہندوتوا سیاست کے لیے مفید مطلب ہے۔ مسلم ووٹ میں بٹوارہ کرنا تو ہندوتوا سیاست کی ضرورت ہے لیکن فی نفسہ مسلم ووٹ کی فی الحال حاجت نہیں ہے۔
حاصل: یہ ایک مثالی احتجاج تھا جو خواتین کی قیادت میں پرامن انداز سے کیا گیا۔ لیکن حکومت نے اس پر توجہ دینے کے بجائے اسے نظرانداز کیا، اور وبا کا فائدہ اٹھا کر احتجاج کو دبایا۔ اس کا ایک سبب یہ تھا کہ موجودہ حکومت کے لیے مسلم ووٹ کی اس سے زیادہ وقعت نہیں کہ اسے مزید بے اثر بنانے کی کوشش کی جائے۔
ان احتجاجی تحریکوں کے تجربات و نتائج کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے لیے وقف ترمیمی قانون کے خلاف قانونی، سیاسی، عوامی، اور احتجاجی لائحہ عمل بنانے میں آسانی ہوگی۔ہندوستان میں چلنے والی سابقہ عوامی احتجاجی تحریکوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے احتجاج کے تناظر میں درج ذیل متعین سوالوں کامعقول و مناسب جواب میرے نزیک درج ذیل ہے:
ہندوستانی مسلمانوں کے لیے احتجاج کی کون سی شکلیں کم نقصان اور زیادہ فائدہ مند ہو سکتی ہیں؟
جواب: احتجاج کا فیصلہ فرداً فرداً یا تنظیمی سطح پر نہیں، بلکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت اجتماعی مشاورت سے کیا جائے۔ احتجاج کی شکل پرامن، مدلل، اور سیاسی طور پر باخبر بنانے کے لیے ہو۔ ہجوم کی سیاست سے بچا جائے۔ جذباتی نعرے بازی، شاہراہوں کی بندش یا جلاؤ گھیراؤ سے گریز کیا جائے۔ وقف بل کی مخالفت میں بڑے بڑے احتجاجی جلوس نکالے جا چکے۔ جے پی سی کو مدلل طور پر بل کے سلسلے میں مسلمانوں کے اجتماعی موقف پر قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر لی گئی۔ حکمراں سیاسی جماعت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ قانون پاس ہو چکا۔ اس کے خلاف مسلمانوں کا سڑکوں پر احتجاج اس قانون کو واپس لینے پر نہ تو موجودہ حکومت کو قائل کر سکتا ہے، نہ مجبور۔ ممکن ہے حکمراں سیاسی جماعت کو ایسے احتجاج کا انتظار بھی ہو تاکہ ۲۰۲۵ء اور ۲۰۲۶ء کے اسمبلی الیکشن کے موقع پر بہار، مغربی بنگال، آسام، کیرلا، تمل ناڈو، وغیرہ میں مسلم مخالف فرقہ وارانہ بیانیے کو مزید کارگر بنایا جا سکے۔
قانون بن جانے کے بعد وقف املاک کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟
جواب: وقف قانون کا پاس ہو جانا ایک حقیقت ہے۔ لیکن یہ حقیقت ناقابلِ تلافی نہیں، بشرطیکہ ہم ایک منظم، قانونی، اور باشعور لائحہ عمل اختیار کریں۔ سڑکوں پر نکلنے سے پہلے ذہنوں کو تیار کرنا ضروری ہے۔ احتجاج ہو، تو دلیل کے ساتھ ہو۔ خاموشی ہو، تو حکمت کے ساتھ۔ اور جدوجہد ہو، تو قانون اور آئین کے دائرے میں ہو۔ملت کے لیے یہ ایک بڑا امتحان ہے، لیکن ہر امتحان ایک موقع بھی ہوتا ہے—خود احتسابی کا، اپنی صفوں کو درست کرنے کا، اور ایک مضبوط مستقبل کی بنیاد رکھنے کا۔ پروفیشنل انداز میں پٹیشنز، دستخطی مہمات، اور علمی مباحث کے ذریعے رائے عامہ کو متاثر کیا جائے۔ سب سے اہم قدم تو عدالتی چارہ جوئی۔ ہر ریاست میں ماہر وکلاء کی ٹیمیں تیار کی جائیں۔ وقف املاک کی مکمل دستاویز بندی اور ان کی آن لائن دستیابی یقینی بنائی جائے۔ وقف بورڈز کو شفاف اور مؤثر بنایا جائے تاکہ وہ حکومت کے کسی غیر قانونی اقدام کے خلاف فوری ایکشن لے سکیں۔ مختلف ریاستوں میں ‘لیگل سیل’ قائم کیے جائیں جو خاص طور پر وقف قوانین پر کام کریں۔
بی جے پی حکومت والی اور غیر بی جے پی ریاستوں میں مسلمان کیا راہِ عمل اپنائیں؟
جواب: بی جے پی کی زیر حکومت ریاستوں میں احتجاج سے اجتناب کیا جائے، اور قانونی دفاع پر توجہ دی جائے۔ وکلا، بیوروکریٹس، اور غیر مسلم ہمدردوں سے رابطہ کر کے ایک دفاعی حکمت عملی اپنائی جائے۔ ان ریاستوں میں عوامی احتجاج لاحاصل ثابت ہوگا۔ غیر بی جے پی ریاستوں میں پرامن احتجاج، میمورنڈم، اور لابنگ کی گنجائش ہے۔ رائے عامہ کو ہموار کرنے اور حکومتوں کو عملی اقدامات پر مجبور کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ لیکن ان ریاستوں میں بھی احتجاج کی ایسی تمام صورتوں سے گریز کیا جائے جو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے لیے آسانی سے استعمال کیے جا سکتے ہوں۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن پارٹیوں نے اس قانون سے شدیداختلاف کیا اور اس کے خلاف بہت مضبوط بحث کی، اس سےکیا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟
جواب: جس قوت و استدلال کے ساتھ اپوزیشن کی سیاسی پارٹیوں نے مشترک موقف اپنایا ہے اور زور و شور کے ساتھ اس غیر دستوری قانون سازی کی مخالفت کی ہے، اسے وقف کے سلسلے میں رائے عامہ کی ہمواری کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کرنا چاہئے۔ ان کے بیانات، تقاریر، اور تحریروں کو عام کیا جائے۔ مختلف مذہبی گروہوں کے ساتھ مکالمہ کیا جائے، تاکہ معاملہ صرف مسلمانوں کا نہ رہے بلکہ اقلیتوں کے مشترکہ حقوق کا مسئلہ بنے۔ وقف اور ٹرسٹ کے حوالے سے دیگر مذہبی گروہوں کو ساتھ لے کر جلسوں، ملاقاتوں، احتجاجی میمورنڈم، سوشل میڈیا، وغیر ہ کے ذریعے ہندوتوا سیاست کے خلاف رائے عامہ بنانے کی کوشش کی جائے۔ آئندہ انتخابات میں مسلمانوں کو باشعور انداز سے سمجھایا جائے کہ کس جماعت نے ان کے حقوق کے تحفظ میں کیا کردار ادا کیا۔
وقف کے اس پورے قضیے اور اس پر ملی تنظیموں ،سیاسی جماعتوں ،صحافیوں و دانشوروں اورمسلم عوام کے ریسپانس پر آپ کی رائے ،اس پورے معاملے سے ایسے مسائل کے سلسلے میں کیا سبق حاصل ہوتے ہیں؟
جواب: اس پورے معاملے میں جس انداز میں سیاسی جماعتوں، صحافیوں اور دانشوروں نے اظہار خیال کیا ہے اور ہر سطح پر رد عمل دیا ہے اس سے ملک میں وقف کے لیے رائے عامہ ہموار کرنا آسان ہو گیا ہے۔ اس معاملے میں دیگر مذہبی اور اقلیتی گروہوں کے ساتھ مشترکہ محاذبنانے میں آسانی ہوگی۔ مثال کے طور پر، عیسائی اور سکھ تنظیموں کو وقف کے تحفظ کے لیے ساتھ لایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مسلم تنظیموں کے اتحاد اور ان کے اندر سیندھ ماری کی سرگرمیوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تمام مسلم تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنا اور داخلی اختلافات کو کم کرنا بہت ضروری ہے، ورنہ اس بات کا خدشہ ہے کہ مختلف ملی تنظیمیں کریڈٹ کی دوڑ میں اصل مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اسے محض اپنی مقبولیت میں اضافے کا ذریعہ نہ بنا لیں۔ عوام کی جذباتی وابستگی بہت واضح ہے۔ لیکن اس معاملے بھی ہمیں کسی مغالطے کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ عام مسلمان کے نزدیک وقف سے متعلق صرف مسجد، قبرستان اور درگاہ کی جائیداد ہی جذباتی معاملہ ہیں۔ وقف کی دیگر املاک سے عام مسلمانوں کی نہ دلچسپی ہے اور نہ ہی اس سے وہ براہ راست مستفید ہوتے ہیں۔ جہاں تک سوشل میڈیا پر جاری بیانیوں کا تعلق ہے تو ہر معاملے کی طرح اس پر بھی ہر رطب و یابس کی بھر مار ہے۔ ا س کا سنجیدہ تجزیہ ضروری ہے۔ ہر مسئلے کو جذباتی انداز میں پیش کرنے کے بجائے عقلی، قانونی اور پالیسی سطح پر غور و فکر کرنے کی روایت کو مضبوط کرنا چاہئے۔ اسی سے ملت کے لیے موجودہ ہندوستان میں آگے بڑھنے کی راہیں کشادہ ہوں گی۔ سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر مؤثر بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کرنی چاہئے جو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کو کم کرنے میں مددگار ہو۔ نوجوان نسل کو بھی احتجاجی نعرے بازی کے بجائے قانونی، صحافتی، اور پالیسی سازی کے میدان میں تیار کرنا چاہئے۔ جماعت نے جس عرق ریزی کے ساتھ وقف بل پر دستاویز تیار کی اور پارلیامنٹ میں بہت سے ممبران نے جتنے قیمتی نکات وسیع تر تناظر میں پیش کیے، اس کا فہم اور استعداد مسلم نوجوانوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
عبدالجبار صدیقی[3](حیدرآباد)
مسلمان اس بات کو اچھی طرح سمجھ جائیں کہ’’وقف قانون’’کے خلاف ان کی لڑائی بھارت سرکار سے ہے، مودی سرکار سے نہیں ۔ اور یہ حق دستور ہند سے ہر شہری اور گروہ کو دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کا مطالبہ صاف اور واضح ہے:
وقف دین اسلام میں عبادت ہے اور دین میں کسی کی بھی مداخلت ناقابل برداشت ہوگی۔
شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی غیر دستوری ہے۔ اس کے خلاف جدوجہد شروع کی جاسکتی ہے۔
وقف بورڈ کے انتظامی معاملات میں اصلاح اور بہتری کے لیے ہر مناسب تجویز کو مسلمان خوش آمدید کرتا ہے۔
ظلم و ناانصافی کی بنیاد پر بنایا ہوا قانون قابل ردّ ہے اور اس کی تعمیل ظلم کا ساتھ دیناہے، اس لیے احتجاج ضروری ہے۔
مسلمان یہ بات بھی سمجھ لیں کہ یہ جدوجہد طویل ہے، اس لیے وہ اپنے شب و روز کو بھی نئے کام کے لحاظ سے بدل لیں۔
احتجاج منصوبہ بند ہو، پروگرام اور وقت طے ہو۔ بہتر تیاری ہو،انتظامات اور امن وامان کا بندوبست موثر ہوں۔ پولیس سے بھی بات چیت کرلی جائے۔
کسی مقام پراحتجاج کا مقام طے کرلیا جائے۔ ہر دن احتجاجی ریلی نکالی جائے۔ جہاں مسلمانوں کی تنظیمیں، مسجد کمیٹی اور مصلیان، طلبہ، خواتین اور پروفیشنل حضرات باری باری سے احتجاج کریں۔
اپنےمطالبے اور مسائل کا بہتر طور پر اظہار کریں۔ بدزبانی، غصہ وغیرہ سے پاک ماحول ہو۔
روزانہ سیاسی قائدین، سماجی کارکن، مذہبی ذمہ داران اور تمام مذاہب کے افراد کو شامل کریں۔
اسی طرح محلے کی سطح پر کارنر میٹنگیں (مسلم محلوں) میں منعقد کی جائیں۔
کلچرل شوکا بھی اہتمام کیا جائے۔
وکیلوں کی ٹیم بھی تیار رکھی جائے جو ضرورت پر کام آئے۔
آپ کی قوت اور عوامی رابطہ آپ کے احتجاج کو کامیاب بنائے گا۔
وہ جائیداد جو وقف براہ استعمال (Waqf by User) ہیں، ان میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے۔
تنازعے کو روکنے کی کوشش کی جائے۔
دستاویزات درست کرلی جائیں۔
قانونی کارروائی کی جائے۔
تنازعہ ہوجائے تو اسے بڑھنے نہیں دیا جائے، اسے چھوٹے سے چھوٹا بنایا جائے۔
ملک کی٪50 سے زیادہ ریاستوں میں BJP-NDA سرکار میں ہے، جوظلم اور بلڈوزر انصاف کی حامی ہے۔
قانونی چارہ جوئی اور اثرات کے استعمال سے حالات کو قابو میں کرلیا جائے۔
ایسا کوئی اقدام نہ کیا جائے ، جس سے شکست یقینی ہو۔
حزب مخالف کا مظاہرہ بہتر تھا۔ان کا ساتھ دیا جائے۔ NDA میں موجود ان پارٹیوں کو جنھیں مسلم ووٹ کاسہارا حاصل ہے،جم کر کوشش کرکے آئندہ الیکشن میں ہرایا جائے۔ ماہ نومبر 2025 میں بہار میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں۔نتیش بابو کو زیرو کردیا جائے۔
یہ وقت مسلم تنظیموں پر تبصرہ یا تنقید کرنے کانہیں ہے، بلکہ ایک دوسرے سے تعاون لینے کاوقت ہے۔ ہر تنظیم کے ممکنہ کردار پر نظر رکھیں اور اس کام میں بھرپور ساتھ لیں۔
ڈاکٹر سلیم خان[4] (بمبئی)
وقف سے متعلق نئے قانون کی منظوری کے بعد ملت اسلامیہ ہند کا لائحہ عمل بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعہ قانونی لڑائی کے ساتھ عوامی سطح پراحتجاج کرنے کا فیصلہ قابلِ ستائش اور قابلِ عمل ہے۔ ایسے دور میں جب کہ عدلیہ کو بھی اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے سے گریز نہیں کرنے والی گونگی و بہری سرکار سے عوام کا سابقہ پڑ جائے تو مذکورہ بالا دونوں حوالوں سے عوام و خواص کے اندر غم و غصہ اور مایوسی و بے اعتمادی کا پایا جانا فطری ہے۔ اس لیے حزن و یاس پر قابو پاکر آگے بڑھنا حقیقت پسندی کا تقاضا ہے۔ عدالت کا ہر فیصلہ لازماً کسی ایک فریق کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے اور نہ خلاف ہی ہوتا ہے۔ اس لیے چند فیصلوں کو نظیر بناکر یہ رائے قائم کرلینا درست نہیں ہے کہ عدلیہ عام لوگوں کے حق میں اور خاص طور مسلمانوں کی بابت حکومت سے تنازع میں کوئی مثبت فیصلہ کرے گی ہی نہیں اس لیے یہ کوشش فضول ہے۔ اسی کے ساتھ یہ خوش فہمی بھی نقصاندہ ہےکہ یہی راستہ کافی و شافی ہے اس لیے احتجاج کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
عوامی احتجاج کے تعلق سے یہ اندیشے پائے جاتے ہیں کہ وہ بے سود ہیں یا ان میں تشدد کو روکنا ممکن نہیں ہے اور اس صورت میں فائدے سے زیادہ نقصان ہوجاتا ہے وغیرہ۔ سرزمینِ ہند پر ماضی قریب میں دو مزاحمتی تحریکیں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ دونوں تحریکات قانون سازی کے بعد شروع ہوئیں اور انہیں کامیابی و کامرانی بھی عطا ہوئی۔ کسانوں کی بابت حکومت نے جو تین قوانین وضع کیے اس کے خلاف ملک کے مٹھی بھر کسان میدان عمل میں آئے اور انہوں ایک طویل عرصے تک دہلی کی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس کے نتیجے میں حکومت ِ وقت کو اپنی تمام تر چالبازیوں کے بعد جھک کر ان قوانین کو منسوخ کرنا پڑا۔ اس میں شک نہیں کہ کئی سیاسی مجبوریاں مثلاً اترپردیش کا صوبائی انتخاب اس کے پس پشت کار فرما تھا لیکن اگر تحریک نہ چلتی تو وہ سرکاری مجبوری پیدا ہی نہ ہو تی۔ اس لیے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ موجودہ خود سر حکومت ہر مخالفت کو آہنی جوتوں سےروندنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
سی اے اے اور این آر سی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کی وسعت اور مدتِ کار کسان تحریک سے زیادہ تھی۔ ملک بھر کے کسانوں نے تحریک میں قابلِ لحاظ تعداد کے اندر حصہ نہیں لیا تھا کیونکہ اس کا حلقۂ اثر پنجاب، ہریانہ اور مغربی اترپردیش تک محدود تھا۔ اس کے برعکس ملک کے طول و ارض میں تقریباً286شاہین باغ کا قیام ایک منفرد کامیابی تھی۔ اس تحریک نے ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ کو اپنی جانب متوجہ کیا اور پورے عالم میں حکومتِ وقت کے خلاف ایک ماحول بن گیا۔ سرکار کی تمام تر صفائی کے باوجود اس کا امتیازی سلوک کھل کر دنیا کے سامنے آگیا۔ قومی بلکہ عالمی سطح پر سارے انصاف پسندوں نے اس کے حق میں صدائے احتجاج بلند کی۔ یہ ایک ایسی غیر معمولی کامیابی تھی جس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔ اس تحریک نے ملک کی گیارہ صوبائی اسمبلیوں کو اسے مسترد کرنے پر مجبور کیا اور گوکہ یہ قانون منسوخ نہیں ہوا مگر ٹھنڈے بستے میں ضرور چلا گیا۔ اس لیے عوامی احتجاج کی اثر پذیری کا انکار حقیقت پسندی نہیں ہے۔ عدلیہ پر بھی عوامی تحریکات کا دباؤ اثر انداز ہوتا ہے۔ نوپور شرما کی اہانت رسول ﷺ پر عدلیہ کے فیصلے میں مسلمانوں کے غم و غصے کے پاس و لحاظ کا اعتراف موجود ہے۔
عوامی احتجاج کے دوران تشدد کا امکان ہوتا ہے؟ مرشد آباد میں وقف ترمیمی قانون پر تین لوگوں کی ہلاکت مظاہروں سے گریز کا ایک حیلہ بہانہ بن سکتی ہے مگر اس بابت حقائق کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے؟ سب سے پہلی بات تو یہ اس میں جان گنوانے والوں میں جہاں دو غیر مسلم ہیں وہیں ایک مسلمان بھی ہے جو بی ایس ایف نامی نیم فوجی ادارے کی گولی سے ہلاک ہوا۔ دوسری بات ہندو متاثرین کا بھی یہ اعتراف ہے کہ دنگا فساد کرنے والے مقامی لوگ نہیں تھے۔ جن دو فسادیوں کو گرفتار کیا گیا ان میں سے ایک ضلع ویر بھومی اور دوسرا بنگلہ دیش کی سرحد پر پکڑا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فساد کرانے کی خاطر ان دنگائیوں کو باہر سے کون لایا؟ اس میں کس کا سیاسی فائدہ ہے؟ ممتا بنرجی کا تو نہیں ہوسکتا کیونکہ اس بہانے سے مرکزی حکومت ان کی سرکار برخواست کرکے صدر راج نافذ کرسکتی ہے۔ اس میں سیدھے سیدھے بی جے پی کا سیاسی فائدہ ہے اور وہ پہلے بھی باہر سے لوگوں کو لاکر فساد کراتی رہی ہے۔
جرائم پیشہ لوگ ہر سماج میں پائے جاتے ہیں اور تخریب کاری کے لیے مسلمانوں کا بھی استعمال ممکن ہے۔ اس لیے جہاں ترنمول جیسی حکومتوں کا کام خفیہ اداروں کی مدد سے معلومات حاصل کرکے ایسی سازشوں کو ناکام کرنے کا ہے و ہیں مسلم تنظیموں کو بھی ایسی کالی بھیڑیں پکڑ کر انتظامیہ کے حوالے کرنا پڑیں گی تاکہ احتجاج کو بدنامی سے بچایا جاسکے۔ کسان تحریک اور سی اے اے، این آر سی کے وقت یہ کام کامیابی کے ساتھ کیا جاچکا ہے اس لیے اسے ناممکن سمجھ لینا درست نہیں ہے۔ زندہ تحریکات پچھلے سانحہ سے سبق سیکھ کر آئندہ کے لیے ہوشیار ہوجاتی ہیں۔ مرشد آباد کا واقعہ اس بابت ہوشیار رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ دنیا کی ہر مزاحمت واحتجاج قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کے بغیر کسی اہم مہم کو سر کرنا ممکن نہیں ہے۔ احتجاج میں وقت اور محنت کے ساتھ جان و مال کی قر بانی بھی درکارہوتی ہے لیکن مزاحمت کرنے والےجیالے جانتے ہیں کہ کامیابی کی شاہراہ پر یہ نشان راہ ہیں اور ان کے بغیر منزلِ مقصد تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے وہ کبھی بھی پس و پیش کا شکار نہیں ہوتے۔
وقف کے حوالے سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی خاطر ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کیا گیا اس لیے سماجی سطح پر ان غلط فہمیوں کو دور کرنا اسلام کی حقانیت و امتیاز کی ترسیل کے مواقع پیدا کرتا ہے۔ ہندوستان کے غیر مسلمین کو یہ بتانا چاہیے کہ وقف کا بہت زیادہ ہونا کوئی عیب نہیں خوبی ہے۔ یہ مسلمانوں کی سخاوت کا ثبوت ہے اور غیر مسلمین کا اپنی جائیدادیں مسلم اداروں کو وقف کرنا ان پر اعتماد کی دلیل ہے۔ ان سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ آخر ہندو راجاؤں اور سرمایہ داروں نے سماج کی فلاح و بہبود کی خاطر اتنا زیادہ خرچ کیوں نہیں کیا؟ آج بھی روح افزا بنانے والا ہمدرد جیسا وقف کئی تعلیمی و فلاحی ادارہ چلاتا ہے۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والا عظیم پریم جی مسلمان ہے۔ اس کے مقابلے میں گلاب شربت کے لیے دھرم یدھ کرنے والے بابا رام دیو کا پتانجلی اور اڈانی وغیرہ کیوں کوئی فلاحی کام کرنے کے بجائے صرف اپنی تجوری بھرنے میں مصروف رہتے ہیں؟ ایساکرنے سے رائے عامہ نہ صرف ترمیمی قانون بلکہ اس کے بنانے والی حکومت کے خلاف بھی ہوگی۔
رام مندر کی تعمیر میں ہونے والی بدعنوانی اور فوج کی خاطر مختص زمینوں کواپنے چہیتے نجی سرمایہ داروں کے ہاتھ فروخت والی حکومت کے کرتوت اگر عوام کے سامنے لائے جائیں تو حکومت کے ذریعہ وقف تحفظ کا منافقانہ دعویٰ از خود بے نقاب ہوجاتا ہے۔ عوام کو اگر پتہ چلے کہ وزیر اعظم کے چہیتے اوردنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک سرمایہ دارمکیش امبانی کا 15 ہزار کروڑ روپے سے تعمیر شدہ محل اینٹیلیا وقف کے یتیم خانہ پر بنا ہے جسے 1986ء میں کریم بھائی ابراہیم نے وقف بورڈ کو عطیہ کیا تھا۔ 2002ء میں مکیش امبانی نے اسے اونے پونے داموں میں خریدا اور اس غیر قانونی سودے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس طرح کے غاصبین کے قبضے کی راہ آسان کرنے کی خاطر یہ قانون بنایا گیا تو ممکن ہے عام لوگ سرکار کے پاکھنڈ کو سمجھ کر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
وقف بورڈ کو بدنام کرنے کی خاطر اس پر اشرافیہ کے قبضے کا الزام لگانے والوں سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ اس کی تشکیل تو حکومتِ کے نامزدکردہ ارکان سے ہوتی ہے۔ مختلف ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت رہی ہے۔ مرکز میں دوقسطوں کے اندر 17؍ سالوں تک وہ اقتدار میں رہی۔ اس لیےمسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے وہ خود بتائے کہ اس نے نام نہاد پسماندہ مسلمانوں کی نامزدگی کیوں نہیں کی اور دیگر اصلاحات سے اسے کس نے روکا؟ ان موضوعات پر اگر معقول انداز میں پر اعتماد گفتگو کی جائے تو حکومت کے لیے اپنی مدافعت مشکل ہوسکتی ہے اور عوام الناس کے سامنے اس کا جھوٹ کھل کر آسکتا ہے۔ اس لیے رونے دھونے کے بجائے حکمت کے ساتھ مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان ایک وسیع عریض ملک ہے جس میں سیاسی حالات و مواقع مختلف ہیں۔ اس لیے ہر جگہ یکساں سرگرمیاں ممکن نہیں ہیں۔ قومی سطح پر عمومی رہنمائی کے بعد مقامی صائب الرائے لوگوں کو اپنے علاقے میں موجود وسائل، مواقع اور موانع کو پیشِ نظر رکھ کر حکمتِ عملی طے کرنی چاہیے۔ ایسے میں مسلمانوں کی حمایت پر منحصر صوبائی حکومتوں اور ان سے بے نیاز ریاستی سرکاروں کےمختلف رویوں کا پاس و لحاظ کیا جاسکتا ہے کیونکہ پولیس صوبائی حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔ کسی بھی احتجاج میں نہ پوری امت کی شرکت ضروری ہے اور نہ ممکن ہے۔ اس لیے اگر کوئی تنظیم اس سے احتراز کرتی ہے تو اس کے اس فیصلے پر تنازع کھڑا کرنے یا اس سے بددل نہیں ہونا چاہیے۔ وہ ادارے بھی اگر اس کا اعلان کرنے سے گریز کریں تو اچھا ہے کیونکہ اس سےمایوسی پھیلتی ہے اور انتشار کا خطرہ ہوتا ہے۔
قانون بن جانے کے باوجود اس کی تنفیذ کے شر سے بچنے کے لیے اوقاف کی جائیدادوں کے تحفظ کی خاطر ان کے کاغذات (قانونی دستاویزات) کی درستگی اور مقامی سطح پر قانونی لڑائی کے لیے وکلاء کی ٹیم کو پہلے سے تیار کرکے رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آگ لگنے کے بعد کنواں کھودنے کا آغاز غیر مفید ہوسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن پارٹیوں کا اس قانون کی کھل کے مخالفت کرنا خوش آئند ہے۔ بی جے پی نے ایک ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت مسلمانوں کی حمایت کردے تو گویا وہ ہندو مخالف اور قوم دشمن ہے۔ اس کے سبب مختلف متنازع معاملات میں حزب اختلاف کھل کر مسلمانوں کے ساتھ آ نے سے گریز کرکے گول مول باتیں کرتی تھی لیکن اس بار انڈیا محاذ اس احساسِ جرم سے ابھر آیا۔ شیوسینا (یوبی ٹی) اور عام آدمی پارٹی نے جس پر زور انداز میں اس ترمیم کی مخالفت کی وہ بہت حوصلہ افزا سیاسی پیش رفت ہے۔
ماضی قریب میں سیاسی جماعتوں کے اندر خود اعتمادی کا اضافہ پچھلے پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کی اکثریت سے محرومی کا نتیجہ ہے۔ اس بابت ان ارکان پارلیمان سے رابطہ اہم ہے لیکن اگر صوبائی انتخابات میں بی جے پی کو یوپی، بہار اور بنگال کے اندر کراری شکست سے دوچار کردیا جائے تو ازخود وہ لوگ حکومتِ وقت کے سامنے دلیر ہوجائیں گے اس لیے زمینی سطح پر انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونا سب سے اہم ہے۔ عمومی طور پر وقف کے قضیے پر ملی تنظیموں، سیاسی جماعتوں، صحافیوں و دانشوروں اور مسلم عوام کا رویہ مثبت رہا ہے۔ چند ایک بیانات سے کچھ بددلی پھیلی اس میں سبق یہ ہے کہ اظہار خیال میں احتیاط برتی جائے۔ اپنا موقف بیان کرنے سے قبل اس کے مثبت و منفی نتائج پر غور کیا جائے اورحق کی آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ حسبِ ضرورت خاموش رہنے میں بھی حرج نہیں ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ‘‘اور جو لوگ ہماری خاطر جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے راستے دکھا دیتے ہیں’’۔ ہم اگر اخلاص کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ بے شمار راہیں کھول دے گا مگر اس کے لیے اللہ پر توکل کرکے آگے بڑھنے والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ ‘‘بے شک اللہ محسنین کے ساتھ ہے’’۔
عبدالسلام [5](منگلور)
وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 کے خلاف احتجاج کرنا ضروری ہے۔ لیکن اس احتجاج کا حتمی مقصد کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوں، سیاسی پارٹیوں اور معاشرے کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ مسلم ملت اس قانون کو مکمل طور پر ناقابل قبول سمجھتی ہے اور اس کے خلاف متحد ہے۔ تاہم، کیا اس مقصد کے حصول کا واحد راستہ عوامی احتجاج اور عوامی مظاہرے ہیں؟ کیا یہ سب سے مؤثر ذرائع ہیں؟ کیا کچھ دوسرے طریقے اسی مقصد کے حصول میں زیادہ مددگار ہوسکتے ہیں؟
کوئی موقف اختیار کرنے سے پہلے چند حقائق پر غور کرنا ضروری ہے:
ایکٹ کے خلاف مسلم ملت کی مکمل مخالفت مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوں، سیاسی پارٹیوں اور سماج کے لیے پہلے سے ہی اچھی طرح سے معلوم ہے۔ اس میں کسی کو کوئی شک نہیں۔
وقف (ترمیمی) بل 2025 کے منظور ہونے اور نافذ ہونے سے پہلے ہی ملت کی مزاحمت کو تمام متعلقہ حلقوں نے بڑے پیمانے پر تسلیم کیا تھا۔
موجودہ حکومت کے نظریے، پالیسیوں اور چالبازیوں سے واقف لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ پولرائزیشن سے غذا پاتی ہے۔ ماضی میں بھی اس کے بہت سے اقدامات کا مقصد مسلم ملت کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنا تھا، انہیں سڑکوں پر دھکیل کر تصادم کے مواقع پیدا کرنا تھا۔ بڑے پیمانے پر احتجاج اس بات کا اندیشہ رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہیرا پھیری ہوجائے اور کوئی بھی اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ وہ پورے طور پر نظم و ضبط میں رہیں گے، پٹری سے اترنے سے بچیں گے یا تشدد سے باز رہیں گے، خاص طور پر اشتعال انگیز حالات میں۔
ماضی میں، مسلمانوں نے اکثر معمولی اشتعال انگیزیوں پر بڑے پیمانے پر احتجاج کا سہارا لیا اور نادانستہ طور پر سنگھ پریوار کی طرف سے بڑھائے گئے پولرائزیشن کو مزید ہوا دی۔ وقت گزرنے کے ساتھ، ملت کا شعور پختہ ہوا اور وہ اشتعال انگیزیوں کے باوجود سڑکوں پر آنے سے مسلسل انکار کرتی رہی اور اس طرح پریوار کے ایجنڈے کو نامراد کرتی رہی۔ اب بڑے پیمانے پر مظاہروں کا راستہ چن لینے سے خطرہ ہے کہ ملت سنگھ پریوار کے ایجنڈے کا شکار ہوجائے۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف شاہین باغ جیسے مظاہروں کی مزعومہ کامیابی سے تحریک حاصل کرنے کے بجائے، ہمیں ماضی کی متعدد ناکامیوں سے سبق سیکھنا چاہیے، جن میں حالیہ ناکامیاں بھی شامل ہیں، جو سڑکوں پر اس طرح کے احتجاج کے خطرات کو اجاگر کرتی ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملت خاموش رہے اور غیر فعال طور پر حکومت کو یہ دعویٰ کرنے کی اجازت دے کہ مسلمانوں نے وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 کو بخوشی قبول کرلیا ہے۔ عوام کو سڑکوں پر لانے کے بجائے، ملت مؤثر طریقے سے احتجاج کے نمائندہ طریقوں سے اپنا اختلاف رائے درج کرا سکتی ہے۔ مقامی، ضلعی، ریاستی اور قومی سطح پر، مسلم تنظیموں، اداروں اور سرکردہ افراد کے نمائندے بہت سے اجلاس کر سکتے ہیں، متفقہ قراردادیں پاس کرسکتے ہیں اور مختلف طبقوں اور پارٹیوں کے قائدین کو مشترکہ بیانات یا میمورنڈم پیش کرسکتے ہیں۔
وہ انڈور کنونشن منعقد کرسکتے ہیں، ملک گیر دستخطی مہم شروع کرسکتے ہیں، اور اس طرح کی بہت سی چیزیں کرسکتے ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا کے مخالفانہ ومعاندانہ موقف کے پیش نظر، ملت کو سوشل میڈیا سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ایک عمدہ حکمت عملی تیار کرنی چاہیے، اپنے نوجوانوں کو تخلیقی طور پر اور بار بار معاشرے تک اور تمام متعلقہ فریقوں تک اپنا موقف بتانے کے کام میں مصروف کرنا چاہیے۔
میں یہاں ایک سنگین مسئلے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ کم از کم پچھلی چار دہائیوں سے، میں دیکھ رہا ہوں کہ مسلمان متحد ہوتے ہیں اور صرف منفی پیش رفت کے جواب میں اٹھتے ہیں، شاذ و نادر ہی کسی مثبت یا فعال ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں۔ 1985 میں، سپریم کورٹ کے شاہ بانو فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے اٹھے اور اب 2025 میں، وقف (ترمیمی) ایکٹ کی مخالفت کرنے اٹھے ہیں۔ ہم کب اپنا مثبت ایجنڈا تیار کریں گے، اپنے مقاصد اور مطالبات کا تعین کریں گے اور اجتماعی طور پر ان کے لیے مہم چلائیں گے؟
رد عمل کی سیاست پر انحصار کرنے کے بجائے ہمیں اپنی ترجیحات خود طے کرنی چاہئیں۔ مثال کے طور پر:
تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کے لیے ایک جامع منصوبہ بنائیں۔
معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے اجتماعی کوششیں کی جائیں۔
ملک میں امن، سماجی انصاف اور شہری حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کی جائے۔
کیا ہم کبھی اپنے چیلنجوں کو خود ہی حل کرنے کا ذمہ لیں گے؟ یا کیا ہم محض دوسروں کے طے کردہ ایجنڈوں کا جواب دیتے رہیں گے؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
عطیہ صدیقہ [6](ناندیڑ، مہاراشٹر)
امت مسلمہ کی اکثریت وقف کے احکام اور وقف جائیدادوں کی شرعی و قانونی حیثیت سے واقف نہیں ہے۔ ملت میں وقف کے تعلق سے بیداری لائی جائے، پر امن احتجاج ہوں، وقف بل کے نقصانات کے تعلق سے عام فہم انداز میں شارٹ ویڈیوز تیار کرائے جائیں۔ توضیحی لٹریچر نہ صرف اردو میں بلکہ ہندی انگریزی اور مقامی زبانوں میں تیار کیا جائے تاکہ عوام الناس کو اس مسئلے کی حقیقت معلوم ہو۔
اوقاف کی جائیدادوں کی حصار بندی کی جائے۔ وقف رجسٹریشن میں کوئی جھول ہو تو اس کو دور کیا جائے۔ اگر موقوفہ جائیداد نااہل ہاتھوں میں ہے اور بیکار پڑی ہوئی ہے تو کمیٹی تشکیل دی جائے اور ہر طریقے سے وقف جائیداد کی حفاظت وغیرہ کے اقدامات کیے جائیں۔
موقوفہ جائیدادوں کو وقف کے اعلی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ ورنہ خالی زمین پر ناجائز قبضے ہو جاتے ہیں جس کے بعد انھیں خالی کروانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
وقف جائیدادوں پر ہوئے ناجائز قبضوں کو ہٹانے کے لیے منظم طریقے سے ممکنہ قانونی کوششیں کی جائیں۔
پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ایوانوں میں اپوزیشن پارٹیوں نے مضبوط دلائل پیش کیے ہیں یہ ایک نادر موقع تھا کہ اس بہانے کھل کر مسلمانوں پر کی جانے والی ناانصافیوں کو سامنے لایا گیا اس کی ریکارڈنگ موجود ہے اس کے ذریعے ملک کی رائے عامہ کو ہم وار کرنے کی مسلسل منصوبہ بند کوششیں کی جائیں۔
اس موقعہ پر ملی تنظیموں خصوصاً جماعت اسلامی ہند اور مسلم پرسنل لا بورڈ نے جو امت کی رہنمائی کی ہے اور دوسری تنظیموں نے قانونی چارہ جوئی کی ہے اور سیاسی جماعتوں نے خصوصاً اپوزیشن نے جو رول ادا کیا ہے۔ صحافیوں اور دانشوروں نے جو بیداری کا کام کیا ہے اور مسلم مرد و خواتین نے جس بے جگری سے بل کے خلاف احتجاج کیا ہے ان سے سبق ملتا ہے کہ جب مسلم ملت میں بیداری آتی ہے تو بے خوفی، یکجہتی اور سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے یہی دراصل مسلم اتحاد کی طاقت ہے اور اسے برقرار رکھنا ضروری ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو ہمیشہ سامنے رکھیں۔ ہر سطح پر اور ہر موڑ پر حالات کیسے بھی ہوں اللہ کا تقوی اختیار کریں۔ مادی طاقت کتنی ہی کیوں نہ ہو وہ ایمانی اور روحانی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ سے رابطہ مضبوط کریں۔ اللہ کی مدد ضرور آئے گی۔
[1] صدر آل انڈيا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ)
[2]سکريٹري، جماعت اسلامي ہند
[3]سکريٹري ،جماعت اسلامي ہند
[4]معروف صحافي اور دانشور
[5]معروف صحافي اور ايڈيٹر، وارتا بھارتھي (روزنامہ بزبان کنڑ)
[6]رکن مجلس عاملہ (مسلم پرسنل لا بورڈ)
مشمولہ: شمارہ مئی 2025