اللہ نے اس سے قبل سورہ محمد کی ِآیت نمبر ۴ میں فرمایاتھا:
فَإِذا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنتُمُوہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّی تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا ذَلِکَ وَلَوْ یَشَاء ُ اللَّہُ لَانتَصَرَ مِنْہُمْ وَلَکِن لِّیَبْلُوَ بَعْضَکُم بِبَعْضٍ وَالَّذِیْنَ قُتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ فَلَن یُضِلَّ أَعْمَالَہُمْ o
’’پس جب ان کافروں سے تمہارے مقابلہ کی نوبت آئے تو ان کی گردنیں اڑاؤ، یہاں تک کہ جب ان کو اچھی طرح چور کردو تو ان کو مضبوط باندھ لو، پھر یا تو احسان کرکے چھوڑنا ہے یا فدیہ لے کر یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے،یہ ہے (کام تمہارے کرنے کا) اور اگر اللہ چاہتا ہے تووہ خود ہی ان سے انتقام لے لیتا، لیکن (اس نے تم کو یہ حکم اس لیے دیا) کہ ایک کو دوسرے سے آزمائے اور جولوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے اللہ ان کے اعمال ہرگز رائیگاں نہیں کرے گا۔ ‘‘
جب تک دشمن کی اچھی طرح خوں ریزی نہ کردی جائے اس وقت تک قیدی بنانا جائز نہیں کہ قیدیوں کوبلامعاوضہ یا فدیہ لے کر چھوڑا بھی جاسکتا ہے، اس کا اختیار حاکم وقت کو ہے۔
(۱۴) اسلام نے اپنے دفاع میں اور اللہ کے راستے میں جنگ کی دعوت دی ہے کمزور اور مظلوموں کی خاطر بھی جنگ کرنے کو کہاہے:
یہ اس وقت کی بات ہے جب بیشتر مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے جاچکے تھے اور کچھ بے وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَـذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراًo(النساء:۷۵)
’’اورتمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے جودعا کررہے ہیں کہ اے پروردگار ہمیں ان ظالم باشندوں کی بستی (مکہ) سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے مددگار پیدا کر۔ ‘‘
سہارا کمزور مرد، عورتیں اور بچے مکہ میں رہ گئے تھے۔ اس جنگ کے بارے میں عالم عرب کے معروف مصری دانشور اپنی کتاب امنِ عالم میں لکھتے ہیں:
’’اب رہی اس جنگ کی بات، سو یہ جنگ انسانی آزادی کی خاطر ہے۔ یہ جنگ جاگیرداری اور استبدادی نظاموں کے خلاف ہے۔ انسان کی انسان کے لیے غلامی کے خلاف ہے، سرکشی وظلم وستم کے خلاف ہے۔ یہ جنگ ہر معنی اور ہر میدان کے لحاظ سے آزادی کی جنگ ہے۔ اقتصادی ، نسلی، جبری مقاصد سے پاک ہے۔ اس جنگ میں حصہ لینا شرفِ انسانیت کے عین مطابق ہے۔ کیوں کہ یہ انسانی صفات انسانی حقوق اور انسانیت کے بنیادی اصولوں کو قائم کرنے کے لیے لڑی جاتی ہے۔ یہ تووہ جنگ ہے جو اس زمین پر بسنے والی ہر انسانی مخلوق کے لیے اپنے ساتھ مساوات عدل وانصاف اور عزت واحترام دلاتی ہے‘‘۔ (سیدقطب شہید، امن عالم)
الجہاد کے مصنف یحییٰ نعمانی اسلامی جنگوں کے سلسلے میں گویا ہیں:
’’قرآن میں جہاد کی یہ آیتیں ان ظالمانہ حملوں سے دفاع کی تیاری کا حکم لے کر جب آتی ہیں تو یہ بتاتی ہیں کہ تمہاری یہ جنگ اور مال وجان کی قربانی صرف قومی وسیاسی دفاع اور عزت وغیرت کے تحفظ کے لیے نہیں ہے۔ نہ تم اپنی آزادی وخود مختاری کی حفاظت کے لیے لڑرہے ہو، بلکہ قرآن اس کو بار بار یاددلارہا تھا کہ تم اپنی اس پوزیشن کو یاد رکھو کہ تم انسانوں کا کوئی عام گروہ نہیں ہو، تمہاری اٹھان دنیا کی لذتوں میں سے اپنا حصہ لینے کے لیے نہیں ہے۔ تم دنیا سے منھ موڑنے والے گروہ ہو۔ تم عبادت خدا وندی اور ساری انسانیت کو نفع پہنچانے کے لیے ہمارے رسول کی گرد جمع ہوئے ہو۔ تم نے خدا سے عہد باندھا ہے کہ فقیرانہ زندگی کی ضرورت پڑی تو اس کو اختیار کرکے دوسروں کی ہدایت اورنفع رسانی کے لیے قربانیاں دوگے۔ اس لیے تم کو اپنے دفاع کے لیے جس جنگ کا حکم دیا جارہا ہے یہ صرف دنیا کی عام جائز قسم کی بلکہ عام ضروری قسم کی جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یہ یقینا ایک مقدس جنگ ہے جو خدا کے لیے اور اس کے دین کے لیے لڑی جارہی ہے ‘‘۔ (الجہاد، یحییٰ نعمانی صفحہ:۳۰)
(۱۵) مسلمان اللہ کے راستے میں اس کے دین کے دفاع کے لیے جنگ کرتے ہیں جب کہ کافر شیطان کی خاطر جنگ کرتے ہیں:
الَّذِیْنَ آمَنُواْ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُواْ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِیَاءَ الشَّیْطَانِ إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیْفاًo(النساء:۷۶)
’’جولوگ ایمان لائے ہیں اور اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اورجنھوں نے کفر کیا وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، تو تم شیطان کے حامیوں سے لڑو، شیطان کی چال تو بالکل بودی ہوتی ہے۔ ‘‘
برصغیر کے نامور مفکر سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ حق وباطل جنگ کی حد بندی کے سلسلے میں اپنی معرکۃ الآرا کتاب الجہاد فی الاسلام میں رقم طرا ز ہیں:
’’یہ ایک قولِ فیصل ہے جس میں حق وباطل کے درمیان پوری حد بندی کردی گئی ہے۔ جولوگ ظلم وسرکشی کی راہ سے جنگ کریں وہ شیطان کے دوست ہیں جو ظلم نہیں بلکہ ظلم کو مٹانے کے لیے جنگ کریں وہ راہِ خدا کے مجاہد ہیں ہر وہ جنگ جس کا مقصد حق وانصاف کے خلاف بندگانِ خدا کو تکلیف دینا ہو، جس کامقصد حق داروں کو بے حق کرنا اور انھیں ان کی جائز ملکیتوں سے بے دخل کرنا ہو، جس کامقصد اللہ کا نام لینے والے کو بے قصور ستانا ہو، وہ سبیل طاغوت کی جنگ ہے۔ اسے خدا سے کچھ واسطہ نہیں۔ ایسی جنگ کرنا ایمان داروں کا کام نہیں ہے۔ البتہ جولوگ ایسے ظالموں کے مقابلہ میں مظلوموں کی حمایت ومدافعت کرتے ہیں۔ جو دنیا سے ظلم وطغیان کو مٹا کر عدل وانصاف قائم کرنا چاہتے ہیں جو سرکشوں اور فسادیوں کی جڑکاٹ کر بندگانِ خدا کو امن واطمینان سے زندگی بسر کرنے اور انسانیت کے اعلیٰ نصب العین کی طرف ترقی کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ ان کی جنگ راہِ خدا کی جنگ ہے۔ وہ مظلوموں کی مدد کرتے ہیں اور اللہ کی نصرت کا وعدہ انہیں کے لیے ہے۔ ‘‘(سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، الجہاد فی الاسلام، ص:۴۱)
(۱۶) میدان جنگ میں موت سے ڈرنا نہیں چاہیے۔
أَیْنَ مَا تَکُونُواْ یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِیْ بُرُوجٍ مُّشَیَّدَۃٍo(النساء:۷۸)
’’اورموت تم کو پالے گی تم جہاں کہیں بھی ہوگے، اگرچہ مضبوط قلعوں کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘
(۱۷) اگر دشمن صلح وامن کی بات کریں تو ان سے بات کرکے صلح وامن قائم کرنا چاہیے:
وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo (الانفال:۶۱)
’’اور اگر وہ مصالحت کے لیے جھکیں تو تم بھی اس کے لیے جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو، بیشک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ ‘‘
(۱۸) اگر دشمن کی طرف سے خیانت کرکے معاہدہ توڑنے کااندیشہ ہو تومسلمانوں کو نوٹس دے کر معاہدہ ختم کرنا چاہیے:
وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ إِلَیْہِمْ عَلَی سَوَاءٍ اِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ الخَائِنِیْنo(الانفال:۵۸)
’’اگر تمہیں کسی قوم سے بد عہدی کاخطرہ ہو تو تم بھی اسی طرح ان کا عہد ان پر پھینک دو، بیشک اللہ بد عہدوں کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘
(۱۹) اگر کوئی غیر مسلم امن پیش کرتے ہوئے سلام کرے تو یہ کہہ کر اس پر حملہ آور نہ ہونا چاہیے کہ تو مومن نہیں:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَتَبَیَّنُواْ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْکُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِناً تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَعِندَ اللّہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ کَذَلِکَ کُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللّہُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُواْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْراًo (النساء:۹۴)
’’اے ایمان والو، جب تم خدا کی راہ میں نکلا کرو تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو اور جو تم کو سلام کرے اس کو دنیوی زندگی کی خاطر یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے، اللہ کے پاس بہت سامان غنیمت ہے، تمہارا حال بھی پہلے ایسا ہی رہ چکاہے، سو اللہ نے تم پر فضل فرمایا تو تحقیق کرلیا کرو، جوکچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔ ‘‘
(۲۰) دشمن سے بھی عہد کی پاس داری کرنا چاہیے:
وَأَوْفُواْ بِالْعَہْدِ إِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْؤُولاًo(بنی اسرائیل:۳۴)
’’اورعہد کو پورا کرو کیوں کہ عہد کی پرستش ہونی ہے۔ ‘‘
بَرَآءَ ۃٌ مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ إِلَی الَّذِیْنَ عَاہَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَo فَسِیْحُواْ فِیْ الأَرْضِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَّاعْلَمُواْ أَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِیْ اللّہِ وَأَنَّ اللّہَ مُخْزِیْ الْکَافِرِیْنَo(التوبہ:۱۔ ۲)
’’ان مشرکین سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان براء ت ہے جس سے تم نے معاہدے کیے تھے سو اب ملک میں چار ماہ چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کے قابو سے باہر نہیں جاسکتے اور اللہ کافروں کو رسوا کرکے رہے گا۔ ‘‘
مصری عالم سید قطب شہید لکھتے ہیں:
’’یہ ہے ان اسلامی جنگوں کی داستان، جن کا محرک اسلام کا جذبہ تھا کہ انسانیت صراطِ مستقیم پر گامزن ہوجائے۔ اس مقصد کے حصول میں پرامن ذرائع سے کام نہ چلے تو مجبوراً اسلام قوت کا استعمال کرتا ہے اسلام کی یہ جنگیں کسی فوجی قائد کی خود غرضی اور ہوس ملک گیری کی پیداوار نہیں تھیں۔ نہ ان کے پیچھے دوسروں کو غلام بنانے کا جذبہ کارفرما تھا بلکہ یہ جنگیں محض خدا کے لیے لڑی گئیں تھیںان کا اصل مقصود رضائے الٰہی کے حصول کا جذبہ تھا۔ مگر بات صرف جذبے پر ہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اسلام سے ان جنگوں کے لیے باقاعدہ اصول وقوانین بھی مقرر کیے‘‘۔ (اسلام اور جدید ذھن کے شبہات، ص:۹۰)
جنگ وجہاد کے بارے میں بڑی عام غلط فہمی یہ ہے کہ مسلمانوں کی قومی جنگ ہے۔ قومی جنگ وہ ہے جو کوئی قوم اپنی طاقت بڑھانے کے لیے اوردیگر مقاصد کے حصول کے لیے لڑتی ہے۔ اسلام ایسی جنگ کو کرہ ارضی کا بڑا فساد قرار دیتاہے۔ مقاصد حسنہ اور قوانینِ مبارکہ کے خلاف جو جنگ ہوگی فساد ہوگی۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2014