نفوذاور اثرپزیری ایک ایسا عمل ہے، جس کاانحصار کئی باتوں پر ہے۔ مثلاً جو بات پیش کی جارہی ہے وہ انسان کے ذہن ومزاج سے کس درجہ ہم آہنگ ہے اور اُسے کس قدر اپیل کرنے والی ہے یا جس کے سامنے بات پیش کی جارہی ہے وہ خود کیساہے، کن حالات سے دوچار ہے، کن مسائل میں گرفتار ہے، اس کے دل کی زمین کیسی ہے اور وہ کن افکار وخیالات کا حامل اور کن عقائد کاماننے والا ہے اور یہ بھی کہ اس کاخاندانی اور معاشرتی بیک گرائونڈ کیاہے؟ اس لیے کہ کسی فرد کے ذہن و دل میں نفوذ کرنا اور اس کے افکار وخیالات پر اثراندازہونا حکیمانہ کوششوں کاطالب اور ضروری تیاریوں کا متقاضی ہوتاہے۔ اس بات کو ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ ایک کسان جب زمین میں کوئی بیج ڈالتاہے تو بیج ڈالنے سے پہلے وہ ضروری تیاریاں کرتاہے۔ پہلے زمین سے جھاڑجھنکاڑ صاف کرتاہے، پھر زمین کو کاکَوڑکر مٹی کو نرم کرتااور کنکرپتھر ہٹاتا ہے۔ جب مٹی نرم اور بھُربھُری ہوجاتی ہے تو اس میں بیج ڈالتا ہے۔ پھر آبیاری کرکے نتیجے کاانتظار کرتا ہے۔ بیج اگر صحیح و درست ہوتا ہے تو وہ زمین کاسینہ چیرکر کونپل نکالتا اور برگ و بار لاتاہے اور اس برگ و بار لانے کے مرحلے میں بھی اس کی مسلسل نگہداشت ، آبیاری اور منفی اثرات سے بچانے کے لیے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ تب کہیں جاکر وہ اپنے ثمرات سے کسان کو فیض یاب کرتا ہے۔
یہی صورت انسانوں میں نفوذ اور اثرپزیری کی بھی ہے۔ اگرضروری تیاریوں کے بغیر انسانوں کو کچھ اچھی باتیں بتابھی دی جائیں تو ان کے وقتی اثرات ہی ہوتے ہیں، جو بہت جلدذہنوں سے محو ہوجاتے ہیں اور زندگی پر ان کے اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔ ان کے فکر و نظر میں تبدیلی کاکوئی عمل واقع نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے دعوت کے کام میں حکمت کو ملحوظ رکھنااوّلین شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت کے کام پر مامور کیا تو فرمایا اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالحِکْمَۃ ’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیجیے حکمت کے ساتھ۔‘‘ حکمت کالفظ بڑا معنی خیز ہے اور اس کا اطلاق بہت سی حالتوں اورصورتوں پر ہوتاہے۔ مثلاً حکمت یہ ہے کہ دعوت پیش کرنے کے لیے مناسب وقت کاانتظار کیاجائے۔ بسااوقات بڑی مفید باتیں بھی بے وقت کی راگنی ثابت ہوتی ہیں۔ یا تو اُن کاکوئی اثر نہیں ہوتا یا مخاطب پر اس کاالُٹا اثر ہوجاتا ہے اور انسان ان سے قریب ہونے کی بہ جاے دور ہوجاتاہے۔ اس لیے قرآن میں فرمایاگیا: فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِکْریٰ ﴿یاددہانی کیجیے اس وقت جب کہ وہ نفع بخش ہو۔﴾
اگر آپ نے کسی شخص کو پکڑکر اس کی ذہنی حالت سمجھے بغیر ، اس کے مسائل اور اس کی ضرورتوں کو جانے بغیر جوش تبلیغ میں نصیحت کرنی شروع کردی تو عین ممکن ہے کہ مخاطب کے اندر رغبت کی بہ جائے وحشت پیدا ہوجائے۔ اس لیے تبلیغ میں اس طرح کی عجلت پسندی غیرحکیمانہ عمل ہے۔
آپ جس شخص کو اپنی دعوت کامخاطب بناناچاہتے ہیں ضروری ہے کہ آپ اس سے گہرے روابط پیداکریں، اس کے ساتھ دوستی کا رویہ اپنائیں، اپنے حسن اخلاق سے اُس کا دل جیتیں اور اس کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ یہاں تک کہ اس کے دل میں ایک بے لوث، مخلص اور ہمدرد و محسن انسان کی حیثیت سے آپ کی تصویر بن جائے۔ اس ربط و تعلق کے دوران یقینا آپ خود بخود اس کے حالات و مسائل سے، اس کے عقاید وخیالات سے، اس کی ذہنی کیفیتوں اور نفسیات سے، اس کے خاندانی اور معاشرتی معاملات سے اور اس کے افراد خاندان سے اچھی طرح واقف ہوجائیں گے اور وہ اور اس کا پورا خاندان بھی آپ سے اچھی طرح واقف ہوجائے گا۔ رفتہ رفتہ خود بخود یہ بات آپ کی سمجھ میں آنے لگے گی کہ مخاطب کوکب اور کیسے اپنی بات کہنی ہے۔ روابط اور تعلقات کے دوران یقینا بہت سے ایسے مواقع آئیں گے جب آپ کو اپنی بات کہنے کاایک مناسب موقع معلوم ہوگا۔ ایسے موقعے سے فائدہ اٹھانا آپ کی حکمت اور دانش مندی پر موقوف ہے۔
بہرحال یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس نے روابط کے ذریعے مخاطب کے دل کی زمین ہموارکرلی، اس نے گویا دعوت کاآدھا کام کرلیا۔ اب دل کی زمین اس کی بات سننے اور قبول کرنے کے لیے بڑی حد تک تیار ہوچکی ہے۔ بس بیج ڈالنے کی دیر ہے۔ بیج ڈالنے کے بعد اگر فوری نتیجہ ظاہر نہ ہوتو عجلت اور بے صبری سے کام نہ لیں۔ مناسب وقت کا انتظار کریں۔ یہاں تک کہ بیج کونپل نکالے اور برگ و بار لائے۔ حکمت یہ بھی ہے کہ مخاطب کی ذہنی سطح کا لحاظ رکھ کر گفتگو کی جائے۔ کسی کم پڑھے لکھے انسان سے عالمانہ زبان میںگفتگو کرنا یا عالمانہ موضوعات پر اظہار خیال کرنا، اسے مرعوب تو کرسکتا ہے لیکن اس کا امکان بہت کم ہے کہ وہ بات سمجھ لے اور راہ یاب ہوجائے۔
حکمت یہ بھی ہے کہ باتیں عام فہم اور مختصر ہوں۔ نصیحت اتنی ہی کی جائے جتنی مخاطب رغبت کے ساتھ سن سکے۔ طویل تقریر یں اور تھکادینے والی گفتگو، ژولیدہ اورپیچیدہ اندازبیان اچھے مواد کے باوجود مخاطب پر اچھے اثرات نہیں ڈالتیں۔ کبھی کبھی مثالیں بھی بات کو واضح کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ لہٰذا مثالوں سے بھی حسب موقع فائدہ اٹھانانا چاہیے۔
نفوذ کے لیے دوسری شرط یا دوسرے لفظوںمیں دوسرا بڑا اہم ہتھیار موعظۂ حسنہ ہے۔ وہ ہے میٹھی زبان اور نرم گفتگو دلوں کو موہ لینے والا انداز بیان۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
قَولٌ مَّعْروْفٌ وّ مَغْفِرَۃٌ خَیْرٌمِّنْ صَدَقَۃٍ یّتْبَعُہآ اَذًی ﴿البقرہ: ۲۶۳﴾
’’ایک میٹھا بول بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے دکھ ہو۔‘‘
تیسری چیز جدال احسن ہے۔ جب گفتگو افہام و تفہیم کے مرحلے میں ہوتو اپنی بات کو مدلل طریقے سے بیان کرو جو دماغوں کو اپیل کرے اورذہنوں میں سماجائے۔ سورہ نسائ آیت ۳۶ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کو ہدایت دی کہ :
وَعِظْہُمْ وَقُل لَّہُمْ فِیْ أَنفُسِہِمْ قَوْلاً بَلِیْغا ﴿النسائ: ۶۳﴾
’’انھیں سمجھائو اور ایسی نصیحت کرو جو دلوں میں اُتر جائے‘‘
غرض زبان و بیان کی شیرینی و حلاوت اور بات کو مدلل طریقے سے پیش کرنے کاسلیقہ جہاں دلوں میں ایک طرف جگہ بناتاہے وہیں دماغوں کو بھی مفتوح کرلیتاہے۔ کلیم عاجز نے کہاہے :
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے
چوتھی چیز جو نفوذ کرنے والی اور دلوں میں جگہ بنانے والی ہے وہ داعی کاحسن کردار ہے۔ اگر داعی حسن کردار کے زیور سے آراستہ نہ ہوتو ساری خوبیوں کے باوجوود نفوذ کی راہ ہموار نہیں ہوسکے گی۔ اس لیے داعی کو حسن اخلاق کا پیکرہوناچاہیے۔ لوگوںکے ساتھ بُرائی کارویہ نہ اپنائے، بل کہ بُرائی کو نیکی سے دفع کرے۔ حسن کردار کا یہ پہلو اتنا شاندار اور تابناک ہے کہ اس کا کوئی جواب نہیں۔ کٹّر سے کٹّر دشمن بھی حسن کردار کے اس پہلو سے موم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺکو کتنی قیمتی بات بتائی ہے، یہ ایسی عمدہ نصیحت ہے جو رہتی دنیا تک تمام داعیان حق کو کامیابی کی راہ دکھاتی رہے گی:
وَلَاتَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَاالسَّیئَۃُ ط اِدْفَعَ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہ‘ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہ‘ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o وَمَایُلَقّٰہَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوا ج وَمَایُلَقّٰہَآ اِلَّاذُوْحَظٍّ عَظِیْمٌ ﴿حٰم سجد: ۳۴،۳۵﴾
’’اور اے نبی! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں، تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہے۔ تم دیکھوگے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں مگراُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔‘‘
بُرائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی کرنا اور درگزر سے کام لینا یہ بھی نیکی کا ایک درجہ ہے۔ مگریہ ایسی صفت ہے جو خال خال ملتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ واقعہ تو آپ کے ذہن میں ہوگاکہ ایک بڑھیا آپ کو ایذا پہنچانے کے لیے راستے میں کوڑے اور گندگی ڈال دیتی تھی۔ آپﷺاس کے جواب میں اسے بُرا بھلا نہیں کہتے تھے، بل کہ خاموشی سے گزرجاتے تھے۔ بڑھیا اپنے معمول کے مطابق آپﷺکے راستے میں کوڑا ڈالتی رہی اور آپﷺخاموشی سے گزرتے رہے۔ ایک روز ایسا ہواکہ آپﷺکے راستے پر کوڑا موجود نہیں تھا۔ آپﷺکو فکر ہوئی۔ آپﷺنے بڑھیا کے متعلق دریافت کیا۔ معلوم ہواکہ وہ بیمار ہے۔ آپﷺاس کی عیادت کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے۔ آپﷺکے اس حسن عمل اور حسن اخلاق کا اس بڑھیا پر جادوئی اثر ہوا اور وہ آپﷺپر ایمان لاکر آغوش اسلام میں آگئی۔ یہی وہ عمل ہے، جس کے بارے میں کہاگیاہے ’’تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔‘‘ یہ وہ صفت ہے جو دلوں کو تسخیرکرتی ہے۔ اس صفت سے ہر داعی دین کو بہرہ مند ہوناچاہیے۔ اگریہ صفت پیدا نہیں ہوئی ہے تو زندگی بھر کی کوششیں لاحاصل ہیں۔
برادرانِ وطن کے ساتھ ہمارا رویہّ
ہمارا وطن ایک بڑا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً سو کروڑ ہے۔ یہاں بے شمار عقائد و مذاہب کے ماننے والے ،مختلف زبانوںکے بولنے والے، مختلف رنگ ونسل ، قبیلوں اور برادریوں سے تعلق رکھنے والے، مختلف معاشرتی رسم رواج کے حامل افراد عرصہ دراز سے رہتے بستے چلے آرہے ہیں۔ ان کے رہنے بسنے کے طریقوں میں عموماً خارج سے کوئی رکاوٹ اور مداخلت نہیں ہے۔ آزادی کے بعد ہمارے ملک کے دستور کی تشکیل بھی کچھ اسی انداز سے کی گئی ہے کہ ہر مذہب و فرقہ کے لوگوں کو اپنے طریقوں پر عمل کرنے کی آزادی ہو اور سب کے لیے ترقی کے مواقع یکساں طورسے حاصل ہوں۔ اظہار خیال ، اشاعت افکار ونظریات اور تبلیغ مذہب و عقاید پر کوئی پابندی نہ ہو۔ یہ صورت حال داعیان دین کے لیے بساغنیمت اور اطمینان بخش ہے اور برادران وطن میںاثر و نفوذ کے لیے بے شمار مواقع مہیا کرتی ہے اور کامیابی کے لیے اپنے اندر امکانات کی ایک وسیع دنیا رکھتی ہے۔ خصوصاً اس پس منظر میں کہ اس ملک میں سماجی نابرابری کا دور دورہ ہے۔ مگر یہ تصویر کاایک رُخ ہے۔
دوسرا رُخ یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمان تقریباً ایک ہزار سال سے آباد ہیں۔ اپنے دور کی حکمرانی میں انہوںنے دعوت دین کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ گزشتہ صدی میں جب کہ ہندو اور مسلمان مل جل کر آزادی کی لڑائی لڑرہے تھے، دونوں کے درمیان قومی کشمکش کی لڑائی بھی شروع ہوگئی اور حالات کے دبائو نے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو پاکستان کے مطالبے پر مجبور کردیا۔ بالآخر ملک دو حصوں میں تقسیم ہوکر آزاد ہوا۔ آزادی ملنے کے ساتھ ہی نفرت کی آندھیاں چلنے لگیں۔ لوٹ مار کا دور شروع ہوا۔ آبادیاں منتقل ہوگئیں، خون کی ندیاں بہیں، بڑی خوں چکاں آزادی تھی جو ہم نے حاصل کی۔ آزادی کے بعد ہندستان میں مسلمانوں کے ساتھ اکثریت کابڑا ناروا سلوک رہا اور فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ مسلمانوں کوسیاسی ، معاشی اور تعلیمی ہر اعتبار سے دبانے کی کوشش کی گئی۔ نصابی کتابوں میںنفرت کی ایک نئی تاریخ رقم کی جانے لگی اور ایسی کٹر ہندو احیائ پرست تنظیمیں زور پکڑنے لگیں جو ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود ایک علاحدہ قوم کی حیثیت سے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں اور آزادی کے ساٹھ سالوں کے بعد یہ تنظیمیں تناور درخت بن کر علی الاعلان مسلمانوں کا وجود ختم کردینے کے درپے ہیں۔ ایسے میںدعوت دین کاکام کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا، پھر بھی مسلمان اپنے پچھلے رویوں سے صرف نظر کرکے اسی ایک کام پر لگ جاتے تو آج صورت حال بدلی ہوئی ہوتی مگر افسوس صدافسوس مسلمان پھر اپنی علاحدہ قومیت کی بنیاد پر حقوق کی جنگ اور مطالبات کی سیاست کرنے لگے جس نے نفرت اور کشمکش کی لَے تیز کردی۔ انھی حالات میں آج ہمیں غورکرنا ہے کہ برادران وطن میں نفوذ کی راہیں کیاہوں۔
واضح ہوکہ صحیح العقاید اور سچے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے مغرب سے درآمد جو اصطلاحیں اہل ملک میں مقبول رہی ہیں، ان میں قدامت پرست (Orthodox)، بنیاد پرست (Fundamentalist)، کٹرپنتھی اور انتہاپسند(Extremist)کی اصطلاحیں ہیں اور پچھلے پانچ سات سالوں سے دہشت گرد (Terrorist)کی ایک نئی اصطلاح مسلمانوں کے لیے بڑے زور و شور سے استعمال کی جارہی ہے اور صورت حال ملک ہی میں نہیں عالمی پیمانے پر بھی اتنی خراب کردی گئی ہے کہ اسلام کی تبلیغ کرنا تو دور کی بات ہے اسلام کا نام لینا بھی ہمت مردانہ کا کام ہے۔
صورت حال کو بدلنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ مسلمان اس ملک میں مطالبات اور حقوق کی سیاست سے کنارہ کش ہوکر دعوت کے کام میں لگ جائیں مگر ظاہر ہے یہ ایسی تمنا ہے جس کے برآنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ یہ پیدائشی مسلمان اپنی روش سے بازآنے والے نہیں ہیں۔ بایںحالات تحریک اسلامی کو جب تنہا اس میدان میں کام کرناہے تو اسے اس کام میں اس طرح لگنا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کی بات کرنا چھوڑدے۔ تاکہ دنیا کو یہ معلوم ہوسکے اور وہ یقین کرسکے کہ دنیا میں کوئی اوراسلام کا نمایندہ ہو یا نہ ہو تحریک اسلامی والے ضرور اسلام کے اصلی نمایندہ ہیں، جو تمام دنیاوالوں کی بھلائی کے لیے برپا کیے گئے ہیں۔ تاکہ وہ انہیں معروف کاحکم دیں اور منکر سے روکیں۔
دوسری بات یہ کہ حسن اخلاق اور خدمت خلق تحریک اسلامی کے لوگوں کے مزاج کاحصہ بنے۔ اس لیے نہیں کہ خدمت خلق دعوت دین کاایک موثر ذریعہ ہے۔ بل کہ اس لیے کہ یہی اس کا فطری کردار اور اس کے کردار کااصلی وصف ہے۔ حسن اخلاق، حسن گفتار اور خدمت حلق اس کے کردار کاوہ جوہر ہے جو اسے جنت میں لے جانے والا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کے بعد سب سے اچھا عمل عام انسانوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا ہے۔ حضرت جابرؓ کی روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ‘‘سب سے اچھا انسان وہ ہے جو انسانوں کو نفع پہنچانے میں سب سے آگے ہو۔’’ اس طرح کی بے شمار حدیثیں اور قرآن کی آیات ہیںجو یہ بتاتی ہیں کہ خدمت خلق اور انسانوں کی بھلائی ہی، مسلمان کا شیوہ اور طرززندگی ہوناچاہیے۔ اس کے بغیر نہ اس کا ایمان مکمل ہوتاہے اور نہ اسلام مکمل ہوتا ہے۔
اس ملک کی اکثریت اچھوت، دلت اور آدی باسی آبادیوںپر مشتمل ہے۔ کروڑوں لوگ سماجی نابرابری کاشکار ہیں۔ بے شمار لوگ غربت، مرض، جہالت اور فاقے سے دوچار ہیں۔ جو کوئی ان کی مصیبتوں میں کام آئے گا اور ان کا دکھ درد دور کرے گا وہی ان کے دل پر حکمرانی کرے گا۔ اچھوتوں اور دلتوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے آج کل بہت سی پارٹیاں خدمت خلق اور مالی تعاون کے پروگرام کے ساتھ ان کے درمیان کام کررہی ہیں۔ اگر آپ بھی محض اسی طرح کے پروگرام کے ساتھ اُن کے درمیان جائیںگے تو آپ ان کامقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ کیوں کہ ان کے پاس وسائل زیادہ ہیں۔ اس لیے آپ کی کوششیں ناقابل توجہ ہوںگی۔ لیکن اگرآپ بھائی چارہ کے رشتے کا ثبوت دیتے ہوئے انھیں اپنے ساتھ بٹھاکر کھلائیں گے اور ان کے ساتھ عزت کاسلوک کریں گے تو پھر آپ کے لیے ان کے دل میں جگہ بن جائے گی۔ گندے لوگوں کے درمیان، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس لوگوں کے ساتھ کیا گندگی جگہوں پر بیٹھنا آپ پسند کریںگے؟ اگر اس کا حوصلہ آپ کے اندر ہے تو بلاشبہ ان کے اندر نفوذکی راہ آپ کے لیے کھلی ہوئی ہے۔ اگر واقعی کام کا حوصلہ آپ کے اندر ہے تو مواقع آپ کاانتظارکررہے ہیں۔ ہسپتالوں میں کتنے بے آسرا مریض آپ کے منتظر ہیں کہ اس موقع پر ہمدردی کے دو بول کہہ دیں اور ان کے لیے کچھ دوا دارو کاانتظام کردیں تو آپ کے لیے وہ اپنا سینہ کھول دیں گے۔جیلوں میں کتنے ہی مجرمین قیدو بند کی زندگی گزارتے ہوئے اس پوزیشن میں ہیں کہ آپ اُن سے ملیں اور خبر گیری کریں تو وہ آپ کی بات توجہ سے سنیں گے یا کوئی کتاب دیں تو وہ پڑھیں گے۔
برادران وطن کے مذاہب اور فلسفوں کاگہرا مطالعہ بھی افہام و تفہیم اور انٹرفیتھ ڈائیلاگ کے لیے ضروری ہے۔ اتنے بڑے ملک میں کام کرنے کے لیے ہمارے درمیان ایسے لوگوں کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں میں ہونی چاہیے جو اُن کے مذاہب کااختصاصی مطالعہ رکھتے ہوں اور ان کی زبان میں کلام کرسکتے ہوں۔
ملک میں سیاسی، اقتصادی اور سماجی سطح پر جو خرابیاں پائی جاتی ہیں، ان کے علاج کے لیے اسلام کو ایک Alternateکی حیثیت سے برابر پیش کرنے کی سعی کی جانی چاہیے اور اس کے لیے ابلاغ کے تمام ذرائع سے کام لیناچاہیے۔ برادران وطن میں نفوذ کے لیے خواتین کا حلقہ بھی ہماری خصوصی توجہ کامحتاج ہے۔ تحریک اسلامی ہند نے چند سالوں سے اس پر خصوصی توجہ دی ہے، مگر ابھی پیش رفت ابتدائی مرحلے میں ہے۔
اسلام کے سلسلے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیاں بھی نفوذ کی راہ میں مزاحم ہیں۔ ان غلط فہمیوں کا ازالہ بڑے پیمانے پر کیاجاناضروری ہے۔ چوں کہ Communicationاور ذرائع ابلاغ پر ان لوگوںکا قبضہ ہے، جو غلط فہمیاں پھیلارہے ہیں اور ہم اپنے محدود وسائل کے ساتھ ان کا تدارک نہیں کرپارہے ہیں، اس لیے ہمیں اس کم زوری پر قابو پانا چاہیے اور تمام صلاحیتیں مجتمع کرکے ذرائع ابلاغ میں طاقت پیدا کرنی چاہیے۔ دشمن اور مخالف طاقتوں کے پاس جو ذرائع موجود ہیں، ان ابلاغ سے فائدہ اٹھانے کا فن بھی ہمیں سیکھنا چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2010