ایمان کے معنی بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی پر اس کی جملہ صفات کے ساتھ یقین کرنے کے ہیں، جن کا ذکر قرآن مجید اور احادیث نبویہؐ میں ہوا ہے۔ ایمان باللہ کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے بغیر دین کا تصور ناممکن ہے۔ ایمان کے دیگر اجزاء جیسے قیامت، رسالت، کتاب، ملائکہ یا تقدیر ایمان باللہ کی وسعتیں ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے جس طرح اس کائنات کی تخلیق فرمائی اس طرح وہ ایک دن اس کو ختم کرکے دوسری دنیا پیدا کرے گا ، اس کو ایمان بالآخرۃ کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کی زندگی کے لیے تمام مادی وسائل و ذرائع فراہم کیے ویسے ہی اس کے لیے ہدایت کا سامان بھی فراہم کیا جس کے تحت اس نے سلسلۂ نبوت و رسالت قائم کیا اور کتابیں اتاریں ۔ اس کی بے شمار مخلوقات میں ان ہی ملائکہ یعنی فرشتے بھی ہیں جو غیر مرئی ہیں۔ وہ مدبر الامور ہے اور اس کے تحت اس نے بندوں سے متعلق ان کی پیدائش سے قبل ان کی تقدیر لکھ دی ہے غرض کہ ایمان باللہ دین کا بنیادی پتھر ہے۔ اگر یہ مستحکم ہوتو دیگر اجزاء پر ایمان لانا مشکل نہیںہے۔
ایمان اور کفر باہم متضاد ہیں اور دونوں طاری ہونے والی چیزیں ہیں جس طرح نیند اور بیداری طاری ہونے والی چیز ہے ۔ اسی لئے قرآن مجید میں بار بار ایمان لانے کا حکم دیاگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے معنی یہی ہیں کہ ایمان یعنی ایقان کی کیفیت پیدا کی جائے اور کفر سے بچا جائے، یعنی بے یقینی اور انکار کا رویہ اختیارنہ کیا جائے۔ گویا انسان ایمان لابھی سکتا ہے اورنہیں بھی لاسکتا ہے:
فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوْمِن وَ مَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُر۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ انسان اگر کفر کردے تو اس کے اثرات اس پر نہیں پڑیں گے۔ ایمان سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور کفر سے ناراض ہوتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللہَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ۰ۣ وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِہِ الْكُفْرَ۰ۚ وَاِنْ تَشْكُرُوْا يَرْضَہُ لَكُمْ۔ (الزمر:۷)
’’اگرتم کفر کرو تو اللہ تعالیٰ تم سے بے نیاز ہے ، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر سے راضی نہیں ہوتا۔ اور اگر تم شکر کروتو اسے وہ تمھارے لیے پسند کرتا ہے ۔(یا وہ تم سے راضی ہوگا)
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ’’ایمان ایسے ہی پرانا ہوجاتا ہے جیسے کپڑا پرانا ہوتا ہے‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ ’’ دل میں ایسے ہی زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہے میں زنگ لگتا ہے ‘‘۔ دل ایمان کا مرکز ہے۔ اگر وہ زنگ آلود ہوجائے تو گویا ایمان کمزور ہوگیا۔ صحابہ کرامؓ مستقل اپنے ایمان کا جائزہ لیتے رہتے تھے اور اس میں کمزوری سے ڈرتے تھے۔ ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے تیس سے زائد صحابہ کرامؓ سے ملاقات کی۔ میں نے دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک ایمان میں کمزوری سے ڈرتا تھا۔ (بخاری ،کتاب الایمان)
کمزوری ایمان کے اسباب
ایمان میں کمزوری اور غفلت پیدا ہونے کے اسباب کا جاننا ضروری ہے کیونکہ اگر مرض کے اسباب کا سدباب نہ کیا جائے تو محض تدبیر سے علاج ممکن نہیں ہے۔ سبب موجود ہوتو مرض کا اعادہ ہوتا رہے گا۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ایمان میں کمزوری کے اسباب کو جان لیا جائے۔ ذیل میں قرآن مجید کی روشنی میں چند اسباب کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے:
شیطان
شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔ اس نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انسان کو گمراہ کرے گا اور انھیں جہنم کا ایندھن بنائے گا۔ شیطان انسان کو مختلف برائیوں کا حکم دیتا ہے اور ان کے سامنے انھیں مزین کرکے پیش کرتا ہے۔ برائیاں مختلف قسم کی ہیں۔ کفر وشرک سے لے کر فحش ومنکر کی ہر قسم کی طرف شیطان دعوت دیتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے:
وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۱۶۸ اِنَّمَا يَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْۗءِ وَالْفَحْشَاۗءِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔(البقرہ: ۱۶۹)
’’شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو وہ تمھارا کھلادشمن ہے ۔ تمھیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے (کہ وہ اللہ نے فرمائی ہے)
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو شیطان کے ارادے سے اس طرح آگاہ کیا ہے :
مَثَلِ الشَّيْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ۰ۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللہَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ۔(الحشر:۱۶)
’’ان کی مثال شیطان کی سی ہے کہ وہ پہلے انسان سے کہتا ہے کہ کفر کر اور جب انسان کفر کربیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہو ں،مجھے تو اللہ رب العالمین سے ڈرلگتا ہے۔
آیت کا سیاق بتا رہا ہے کہ یہاں انسان سے مراد صاحب ایمان ہے۔ کیوں کہ کافر تو پہلے سے کفر کا ارتکاب کر رہا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ کفر پر کفر کا ارتکاب کرسکتا ہے مگر شیطان کا اصل ہدف تو اہل ایمان کو ایمان سے پھیرنا یا ان کے ایمان میں کمزوری لانا ہے۔
دنیا پرستی
دنیا اورآخرت کے بارے میں قرآن مجید اور احادیث میں کافی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ اہل ایمان اوراہل کفر دُنیا کے بارے میں مختلف نقطہ ہائے نظر کے حامل ہوئے ہیں۔ اہل کفر دنیا ہی کو اصل زندگی سمجھتا ہے اور دنیا کو پانے کے لیے وہ ہر کچھ کرسکتا ہے جب کہ اہل ایمان دنیا کو امتحان گاہ سمجھ کر صرف اسی کو برتتا ہے۔ اہل کفر کے لیے دنیا جنت کے مانند ہوتی ہے جبکہ ایمان والے کے لیے دنیا قید خانہ کے مثل ہے۔ اس کے باوجود اگر اہل ایمان کے اندر دنیا کے تعلق سے اہل کفر کے اوصاف پیدا ہوجائیں تو یقینی طور پر یہ ایمان کو کمزور کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ۰ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۔(المنافقون)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تمہیں تمہارے مال اورتمہاری اولاد اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے گا وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں‘‘۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَيْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِيْہَا وَہُمْ فِيْہَا لَا يُبْخَسُوْنَ۱۵ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ۰ۡۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْہَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۔ (ہود:۱۵۔۱۶)
’’جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوش حالی کے طالب ہوتے ہیں۔ ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے جو کچھ انھوں نے دنیا میں بنایا ہوگا ملیا میٹ ہوگیا اور اب ان کاسارا کیا دھرا محض باطل ہے‘‘۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہرامت کا ایک فتنہ ہوتا ہے ۔ میری امت کا فتنہ مال ہے‘‘۔ (ترمذی ،کتاب الزھد:۲۳۳۶)
مصائب ومشکلات
ایمان کے ساتھ آزمائش ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ حقیقی ایمان اور محض دعویٰ ایمان کو جانچتا ہے ۔ دونوں کو الگ الگ کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی صراحت کردی گئی ہے۔
الۗمّۗ۱ۚاَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ۲ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ۔ (العنکبوت:۱۔۲)
’’اَ۔لَ۔مَ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا ؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں ۔ اللہ تو ضرور یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟‘‘
ایمان کی خصوصیت ہے کہ وہ مصائب میں صبر کی تلقین کرتا ہے جبکہ کفر کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مشکلات میں بے صبری پیدا کرتا ہے ۔ چنانچہ صاحب ایمان بڑے بڑے مصائب کو جھیل لیتا ہے جبکہ کافر مصائب میں جزع فزع کرنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللہَ عَلٰي حَرْفٍ۰ۚ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِہٖ۰ۚ وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْہِہٖ۰ۣۚ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃَ۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۔ (الحج:۱۱)
’’اور لوگوں میں بعض ایسے ہیں جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتے ہیں، اگر فائدہ حاصل ہوا تو مطمئن ہوگیا اور جو کوئی مصیبت آگئی تو الٹا پھر گیا۔ اس کی دنیابھی گئی اور آخرت بھی ۔یہ ہے صحیح خسارہ‘‘۔
حدیث میں ہے کہ ایمان کا حقیقی مزہ آدمی اسی وقت چکھتا ہے جب وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے راضی رہے۔ آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ذاق طعم الایمان من رضی باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمدﷺ نبیا۔ (مسلم)
’’اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ تعالیٰ سے رب کی حیثیت سے راضی ہوا، اسلام سے دین کی حیثیت سے مطمئن رہا اور محمد ﷺ کو نبی کی حیثیت سے راضی ہوا‘‘
یعنی جیسے بھی حالات ہوں۔ ایمان سے دست بردار نہ ہو نا اور اسلام کی تعلیمات پر جم جانا اور رسول ﷺ کی رسالت کا اقرار کرنا ایمان کی علامت ہے۔
شکوک وشبہات
شک ایک ایسا نفسیاتی اور ذہنی مرض ہے۔ اگر دین اور ایمان کے بارے میں یہ مرض لاحق ہوجائے تو اس کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں جگہ جگہ شک سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور ممکنہ شک کا ازالہ کیاگیا ہے ۔ جو لوگ قرآن مجید کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کے معاملے میں شک کرتے تھے ان سےکہا گیا:
وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّـمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ۰۠ وَادْعُوْا شُہَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۔
(سورہ البقرہ: ۲۳)
’’اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے یہ ہماری ہے یا نہیں؟ تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لائو۔ اپنے سارے ہم نوائوں کو بلا لائو۔ ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہومدد لے لو۔ اگر تم سچے ہو تو یہ کام کرکے دکھائو‘‘۔
اس آیت میں شک کا ازالہ انسان کو چیلنج کرکےکیا گیا ہے کہ وہ قرآن کے مثل آیات بناکر لائیں۔ آخرت کے بارے میں بھی ذہنوں میں شکو ک پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا ازالہ اس طرح کیاگیا ہے:
یَااَيُّہَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَيْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ۰ۭ وَنُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ۔ (الحج:۵)
’’اگر تمہیں زندگی اور موت کےبارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے ، پھرنطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ (یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں) تاکہ تم پر حقیقت واضح کردیں ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک خاص وقت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں (پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو‘‘۔
اس آیت میں آخرت کے بارے میں شک کا ازالہ چند حقائق کو بیان کرکے کیاگیا ہے جن کا تعلق خود آدمی کی اپنی ذات ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان اپنی تخلیق پر شک میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ جب وہ اپنے وجود کو تسلیم کرتا ہے تو اپنی دوسری زندگی کے بارے میں شک میں مبتلا ہونا غیر منطقی ہے۔ قرآن مجید میں منافقین کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ شک و شبہے میں پڑے ہوئے ہیں۔ نہ خالص کفر کی طرف ہیں نہ خالص ایمان کی طرف بلکہ ان کے اوپر میں تذبذب کی کیفیت طاری ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اِنَّمَا يَسْـتَاْذِنُكَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ فَہُمْ فِيْ رَيْبِہِمْ يَتَرَدَّدُوْنَ۔ (التوبہ:۴۵)
’’ایسی درخواستیں تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں رکھتے، جس کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردد ہورہے ہیں‘‘۔
اہل ایمان کی مختلف صفات بیان ہوئی ہیں ان میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ ایمان کے تعلق سے شک میں مبتلا نہیں رہتے۔ ارشاد ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۔ (الحجرات:۱۵)
’’سچے مومن وہی لوگ ہیں جنھوں نے اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر ایمان لایا پھر ان کے بارے میں شک میں نہ پڑے۔ اپنے مالوں سے اورجانوں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کیا۔ یہی لوگ حقیقت میں سچے ہیں‘‘۔
مایوسی
ایمان میں کمزوری پیدا ہونے کاایک سبب مایوسی بھی ہے۔ ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے توقعات بھی وابستہ ہوجاتی ہیں ۔ اگر یہ توقعات پوری نہ ہوں تو انسان پر مایوسی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آدمی کا یہ سوچنا کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا ہوں تو وہ مجھے دنیا میں خوشحالی عطا کرے گا اور مال ودولت سے نوازے گا، لیکن اگر اس کی یہ توقعات پوری نہ ہوں تو اس کے اندر مایوسی کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ یہ چیز کمزوری ایمان کا باعث ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے کفر کاایک سبب مایوسی کو قرار دیا ۔ جب یہ سراپا کفر کا سبب ہوسکتی ہے تو کمزوری ٔ ایمان کا سبب کیوں نہیںہوسکتی۔ ارشاد ہے:
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ وَلِقَاۗىِٕہٖٓ اُولٰۗىِٕكَ يَىِٕسُوْا مِنْ رَّحْمَتِيْ وَاُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۔ (العنکبوت:۲۳)
’’جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا اوراس سے ملاقات کا انکار کیا ہے وہ میری رحمت سے مایوس ہوچکے ہیں۔ اور ان کے لئے دردناک سزا ہے‘‘۔
مایوسی کا ایک موقع آزمائشیں بھی ہیں ۔ اگر ایمان کےراستے میں آدمی کو سخت آزمائشیں آپہنچیں تو وہ گھبرا جاتا ہے اور مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے اور پھر اس کے ایمان میں کمزوری آنے لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ فَاِذَآ اُوْذِيَ فِي اللہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللہِ۰ۭ وَلَىِٕنْ جَاۗءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ۰ۭ اَوَلَيْسَ اللہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِيْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِيْنَ۔ (العنکبوت:۱۰)
’’لوگو ں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر۔ مگر جب وہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا۔ اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح ونصرت آگئی تو یہی شخص کہےگا کہ ’’ہم تو تمھارے ساتھ تھے‘‘ کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم نہیں ہے‘‘؟
اسباب کا ازالہ
اوپر کمزوریٔ ایمان کے جن اسباب کا ذکر ہوا ہے ان کا ازالہ کیسے کیاجائے؟ اس بارے میں تین چار طریقے لازمی اور ضروری ہیں۔ ذیل میں ان کا مختصراً تذکرہ کیاجاتا ہے۔
شعوری ایمان
ایمان اگر نسلی اور روایتی طور پر ہمارے اندر منتقل ہوا ہوتو کافی امکان ہے کہ مذکورہ اسباب یا ان میں سے کوئی سبب پیدا ہوجائے ۔ لیکن اگر کوئی شخص شعوری طور پر ایمان لایا ہو تو اس کے اندر ان اسباب کا پیدا ہونا مشکل ہوگا۔ شعوری طور پر ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ ایمان کے تعلق سے اس نے غوروفکر کرلیا ہو اور اس پر اپنے د ل ودماغ کو مطمئن کرلیا ہو۔ تاریخ انسانی میں اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کے تین طریقے معروف رہے ہیں: ایک طریقہ خالص فلسفیانہ ہے،جس میں محض عقل یا عقلی دلائل کی بنیاد پر خدا کو پانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مگر یہ طریقہ کامیاب نہیں ہوا۔ انسانی عقل نے جتنی بھی قوت لگائی وہ محض ذات و اجب الوجود تک پہنچی اس سے آگے اللہ تعالیٰ کی صفات ، اس کے احکام اور مرضیات کا علم نہیں ہوسکا۔ دوسرا طریقہ اہل تصوف کا ہے،جس میں آدمی دل کے راستے سے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر اس طریقے میں دو بنیادی خامیاں ہیں: پہلی خامی یہ ہے کہ یہ طریقہ سب کے لیے ممکن نہیں ہے جبکہ ایمان کا مطالبہ ہر انسان سے ہے۔ دوسری خامی یہ ہے کہ اہل تصوف ۔ تصوف کے اعلیٰ مدارج طے کرتے ہیں مگر معاشرے میں کفر و شرک اور معصیت کا ارتکاب کیاجاتا ہے تواس کو روکنے کے سلسلے میں ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہوتا۔ تیسرا طریقہ قرآن وحدیث کا ہے جس میں عقل اور دل دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کا طریقہ بتایاگیا ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں توحید رسالت آخرت پر بہت سے عقلی دلائل دیے گئے ہیں تاکہ دل کے ساتھ عقل بھی مطمئن رہے۔
ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا
ازالۂ اسباب کا دوسرا طریقہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن صفات کا حامل ہے ۔ ان کا علم حاصل کیا جائے اور ان کے تقاضوں کو سمجھ کر تعمیل کی جائے ۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کی ایک صفت توحید ہے۔ وہ دوئی کو پسند نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے قرآن مجید اور احادیث میں شرک کی سخت مذمت کی گئی ہے اور اس کوناقابل معافی جرم قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۰ۚ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا۔(النساء:۴۸)
’’اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرےگا۔ اس کےعلاوہ جسے چاہے گا معاف کردے گا‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نفاق کو بھی ناپسند کرتا ہے۔ نفاق انسانی وجود میں ایک سے زیادہ مراکز کی علامت ہے اور اصلاً یہ توحید کی ضد ہے۔ نفاق یہ ہے کہ انسان جو کچھ کہتا ہے وہ کرتا نہیں یعنی اس کے اندرون میں اس کے قول کا مرکز کچھ اور ہے اور عمل کا مرکز کچھ اور ۔ اس کی آرزو کہیں اور سے آرہی ہے اورجستجو کہیں اور سے فراہم ہورہی ہے۔ مسلمانوں میں کفر و شرک کی وہ صورتیں کبھی نہیں پائی گئیں جو دوسری ملتوں میں ہیں مگر عہد نبویؐ سے نفاق ان کے تعاقب میں ہے۔ اگر اہل ایمان نفاق یا دوئی سے اپنے آپ کو بچا لیں تو یقینا ایمان میں کمزوری کا ازالہ ہوسکتا ہے۔
ذکر دائمی
ازالۂ اسباب کی ایک صورت اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر دائمی ہے۔ حدیث میں ہے: ’’جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اورجو یاد نہیں کرتا ہے اس کی مثال زندہ اور مردے کی ہے ۔ یاد کرنے والا زندہ ہے اور یاد نہ کرنے والا مردہ ہے‘‘۔ (بخاری) یعنی اس کے اندر ایمان کی حرکت وعمل موجود نہیں ہے۔
خدافراموشی کی کوئی بھی صورت ایمان کو کمزور کرنے والی ہے ۔ اسی لئے قرآن وحدیث میں ذکر الٰہی کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ قلبی، لسانی، جہری،سرّی، انفرادی ، اجتماعی، نماز، تلاوت قرآن، دعا ،اوراد وغیرہ ان میں سے ہر ایک کی ایک مخصوص شکل ہے۔ ذکر الٰہی کے ان مختلف صورتوں میں ہونے سے اشارہ ملتا ہےکہ انسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ اللہ کا ہر وقت ذکر کرے ۔ ذکر کو کسی ایک صورت میں کردیاجاتا تو اس کے لیے خاص اہتمام کرنا پڑتا۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے:
الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللہَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا۰ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (آل عمران:۱۹۱)
’’وہ (اہل ایمان) اٹھتے،بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں۔ (اور وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) پروردگار یہ سب کچھ تونے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے رب ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے‘‘۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
رِجَالٌ۰ۙ لَّا تُلْہِيْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءِ الزَّكٰوۃِ۰۠ۙ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ۔
(سورہ النور:۳۷)
’’وہ لوگ (ایمان) تجارت اور خرید وفروخت اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور اقامت نماز سے اور ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں ہوتے۔ وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میںدل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آجائے گی‘‘۔
محبت الٰہی
ازالۂ اسباب کاایک طریقہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو تمام محبتوں پر غالب کرنا ہے ۔ انسان کا نفس اور دل مختلف چیزوں کی محبتوں کامرکز ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۰ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۚ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۔(سورہ آل عمران: ۱۴)
’’لوگوں کے لیے مرغوبات نفس۔ عورتیں،اولاد ، سونے ،چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے ، مویشی اور زرعی زمینیں ۔ بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں،مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جوبہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے‘‘۔
یقینی طور پر اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو برتنے کے احکام نازل کیے ہیں اور دنیا میں جیتے بھی لامحالہ ان سے واسطہ پڑتا ہے مگر ان کی محبت اگر دل میں سماجائے اور محبت الٰہی پر غالب آجائے تو یہ چیز ایمان کے لیے نقصاندہ ثابت ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دوسری آیت میں اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کو تمام محبتوں پر ترجیح دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَہَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِيْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۔ (التوبہ: ۲۴)
’’اے نبیؐ! کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں ۔ تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عذر پر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘۔
یہ کمزوریٔ ایمان کے اسباب کے ازالے کی کچھ شکلیں تھیں۔ ان کے علاوہ اور بھی کچھ شکلیں ہوسکتی ہیں۔ جیسے قرآن مجید سے خصوصی تعلق ، موت کی یاد، سیرت رسولﷺ اور سیرت صحابہ کرامؓ کا مطالعہ، تاریخ کا مطالعہ جس میں بُری قوموں اور صالح قوموں کا انجام بیان ہوا ہے۔
اللہ تبارک تعالیٰ ہمیں اپنے ایمان کا جائزہ لینے اور اس کی کمزوریوں کو دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
مشمولہ: شمارہ اپریل 2014