فلاحی ادارے اور اسلامی تحریک

اس شمارے سے ہم ایک نئی بحث کا آغاز کررہے ہیں۔ اس بحث کا تعلق تحریک اسلامی میں فلاحی و رضاکارانہ اداروں کے کردار سے متعلق ہے۔رفاہی و فلاحی اداروں کا تحریک کے ماحول میں تصور بہت قدیم ہے۔ ہندوستان میں بھی اورد نیا کےمختلف ممالک میں تحریکات اسلامی نے ہمیشہ فلاحی اداروں کی ہمت افزائی کی ہے۔ خود بھی ادارے قائم کیے ہیں اور اپنے وابستگان کو بھی اس طرح کے اداروں کے قیام کے لیے ترغیب دی ہے۔اسلامی تحریکات ہی نہیں بلکہ دنیا میں وہ سب نظریاتی تحریکیں جو دنیا کی تعمیر و ترقی کا کوئی منفرد نقشہ رکھتی اور اس کی داعی ہیں ، وہ اداروں کے قیام و انتظام کو اپنا اہم اور ضروری کام سمجھتی رہی ہیں۔ تعلیمی ادارے،اسپتال، معاشی استحکام اور صنعت و تجارت میں مدد فراہم کرنے والے رفاہی ادارے، خدمت خلق کے مراکز،آفات سماوی و ارضی میں مددوبازآباد کاری کا کام کرنے والی تنظیمیں،کوآپریٹیو سوسائٹیاں، ثقافتی ادارے وغیرہ جیسے مختلف النوع ادارے اس وقت دنیا بھر میں فکری و نظریاتی تحریکوں کی سرگرمیوں کا اہم جزوسمجھے جاتے ہیں۔ ساری دنیا میں اسلامی تحریکیں بھی اس طرح کے اداروں کے قیام و انتظام اوران کے ذریعے عوامی فلاح و بہبود کی خدمات کے لیے معروف ہیں۔

ان اداروں نے تحریکوں کو عوامی نفوذمیں مد د دی ہے۔ ان کا وسیع تعارف کرایا ہے۔ تحریکوں کو سماج میں نمایاں کیا ہے۔ ان کا عوامی اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ لیکن ان وسیع فائدوں کے ساتھ ساتھ خصوصاًاسلامی تحریکوں میں ان اداروں کے بعض منفی اثرات بھی ہر جگہ زیر بحث رہے ہیں۔ اداروں کی کثرت ایک رواں دواں تحریک کے پیروں کی بیڑیاں بھی بن سکتی ہے۔ ان کے نظم و انتظام کی مستقل الجھنیں تحریکوں کی اہم تر فکری و دعوتی سرگرمیوں میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ انتظامی بکھیڑوں اور تنازعات و شکایات کے نتیجے میں تحریک اور اس سے وابستہ افراد متنازعہ بن سکتے ہیں ۔ ادارے کی کارکردگی خراب ہو تو اس کا اثر تحریک پر بھی پڑسکتا ہے۔ اداروں اور اس سے متعلق عہدوں کی کشش، افرادِ تحریک کی اُس بے نفسی اور استغنائی کیفیت کو مجروح کرسکتی ہے جو انقلابی تحریکوں کے کارکنوں کی نمایاں صفت اور اہم ضرورت ہوتی ہے۔اداروں کے نظم وانتظام کے عملی تقاضے اور ان کے تحفظ کی ضرورت تحریک کی بے نیازی، بے باکی، اور ارباب اقتدار پر عدم انحصار کی کیفیت کو متاثر کرسکتی ہے۔ ادارے ایسے سفید ہاتھی میں بدل سکتے ہیں جس کی نگہداشت اور نظم و انتظام میں افرادِتحریک کی ساری توانائیاں لگ جائیں اور تحریک کا اصل کام پس پشت چلاجائے۔یہ سارے اندیشے بے بنیاد نہیں ہیں۔ دنیا کی مختلف اسلامی تحریکوں میں یہ سب نقصانات پیدا ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے بعض لوگ ادارو ں کے قیام یا ان کی کثرت کو تحریک کے لیے نقصان دہ بھی سمجھنے لگے ہیں۔

اس سلسلے میں توازن اور صحیح تجزیےاور نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔تحریکوں کاکام ہمیشہ ،مختلف اور کبھی باہم متضاد تقاضوں کو حکمت کے ساتھ بیک وقت نبھانے کا تقاضا کرتا ہے۔ سماج میں ہمہ گیر تبدیلی کا مقصد رکھنے والی کوئی تحریک اداروں سے نہ تو بے نیاز ہوسکتی ہے اورنہ انہیں نظر اندا ز کرسکتی ہے۔اداروں سے ایک انقلابی تحریک کئی مقاصد حاصل کرتی ہے۔ ان مقاصد پر ذیل کی سطروں میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تحریکات کے پاس اداروں سے مکمل طور پرکنارہ کش ہوجانے کا راستہ موجود نہیں ہے اور نہ موجودہ دور میں کسی نظریاتی تحریک نے اس طرح کی کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ اس لیے تحریکوں کو اصلاً یہ سوچنا ہے کہ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ ممکنہ توازن کس طرح پیدا کیا جاسکتا ہے، اداروں کے وجود کو تحریک کے اصل مقصد کے لیے کیسے زیادہ سے زیادہ مفید بنایا جاسکتا ہے اور ان کے نقصان دہ پہلوؤں سے بچنے کی شکلیں اور تدابیر کیا ہوسکتی ہیں۔ اس سلسلہ مضامین میں یہ موضوع مختلف جہتوں سے زیر بحث آئے گا۔ ان شاء اللہ۔

ہمارے خیال میں اصل مسئلہ اداروں کا وجود نہیں ہے، بلکہ اداروں کے مطلوب رول سےمتعلق شعور کی کمی اور ان کے حوالے سے لیڈرشپ اور مینجمنٹ کی کم زوریاں اداروں کی ناکامیوں کے اصل اسباب ہوتے ہیں۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ تحریک کا کوئی بھی جزو جب تحریک کے اصل مقصد سے منحرف ہوجاتا ہے تو وہ تحریک کے لیے بوجھ بن جاتا ہے۔تحریکوں کی اصل روح، ان کا مقصد ونصب العین ، ان کی دعوت اور ان کی مرکزی اقدار (core values) ہوتی ہے۔ ہر کام اور ہرجزو کو تحریک کے مقصد اور اس کی دعوت کے تابع اوراس کو تقویت فراہم کرنے والا ہونا چاہیے۔ ادارے بھی جب تک مرکزی دعوت کے تابع اور انہیں تقویت دینے والے ہوتے ہیں وہ تحریک کی قوت بنے رہتے ہیں اور اس کے کام میں معاون ومددگار ہوتے ہیں۔ مقصدی وحدت ہی نظریاتی تحریکوں سے وابستہ اداروں کو تشخص اور امتیاز فراہم کرتی ہے۔آگے کی سطروں سے واضح ہوگا کہ اس تشخص اور امتیاز کے بغیر ادارے وہ کام نہیں کرسکتے جو تحریکوں میں ان سے مطلوب ہوتا ہے۔ جب ادارے مرکزی مقصد و ہدف اور دعوت سے دانستہ یا نادانستہ طور پر دور ہونے لگتے ہیں یا مرکزی مقصد کا تصور دھندلا جاتا ہے اور محض ’عوامی خدمت‘ یا ’عوام کی خوشنودی‘ اور ’عوامی پذیرائی‘ کے موہوم ذیلی مقاصد کی خاطر ادارے قائم کیے جاتے ہیں یا چلائے جاتے ہیں یا ادارے کا قیام اور حسن انتظام اصل مطمح نظر بن جاتا ہے تو ان تمام صورتوں میں اسٹریٹجی کا بحران (strategic crisis) پیداہوجاتا ہے جو اداروں کے لیے سب سے سنگین بحران ہوتا ہے۔یہ بحران اداروں کو ختم نہیں کرتا لیکن ان کو ایسی زندہ لاشوں میں بدل دیتا ہے جو تحریکوں کی رفتار کو سست کرنے اور اُن کے کندھوں پر فضول بوجھ لاددینے کے سوا ان کے لیے کسی افادیت کے حامل نہیں رہ جاتے۔ اسلامی تحریکوں کے اداروں کی ناکامی میں اکثر جگہوں پر اس بحران نے ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔ تحریک کے مختلف اجزا میں مقصدی وحدت کو یقینی بنانا ایک بڑا مشکل کام ہے اور لیڈرشپ کا اصل چیلنج ہے۔ اس سلسلہ مضامین میں اس حوالے سے بھی ہم اپنے مشاہدات اور تجاویز پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

تحریک اسلامی کا اصل مقصد یا ہدف کیا ہے؟اسلامی تحریک اصلاً ایک نئی دنیا کی تعمیر کا وژن رکھنے والی تحریک ہے۔وہ الہی ہدایات یا اسلام کے ابدی احکام کی روشنی میں پورے تمدنی نظام کی تشکیل نو کی داعی ہے۔ ایک متبادل تمدن کی صورت گری حد درجے کا تخلیقی کام (creative venture) ہے اور غیر معمولی ذہانت اور تخلیقی توانائی کا تقاضا کرتا ہے۔اسلامی ادارے اصلاً اسی متبادل تمدن کے مظاہر ہوتے ہیں۔ معاصر اداروں کی محض نقالی سے یہ کردار ادا نہیں ہوسکتا۔ ادارے تحریک کے مقصد سے ہم آہنگ اسی وقت ہوسکتے ہیں جب ان کی صورت گری اسلام کے احکام اور اصولوں کی روشنی میں بالکل انوکھے انداز میں ہوئی ہو۔ موجود اداروں کی بھیڑ میں وہ بالکل ممتاز اور نمایاں ہوں۔ محض معیار اور حسن کارکردگی کا امتیاز نہیں بلکہ اساسی اصولوں کا امتیاز انہیں منفردحیثیت اور تشخص فراہم کرے اور ہر دیکھنے والا اُن کے اس تشخص کو صاف محسوس کرے۔

ہمارے خیال میں ادارے تین سطحوں پر تحریک کے مقصد اور اس کی اساسی اقدار کی خدمت کرسکتے ہیں اور ان تینوں سطحوں پر ان کا تحریک کے مقصد اور اس کی دعوت سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔

پہلی سطح تو ان کے کام کا میدان ہے۔ اگر وہ تعلیمی ادارے ہیں تو انہیں اسلام کے مطلوب نظام تعلیم کا نمائندہ ، اس کا عملی نمونہ اور اس کا علم بردار بن کر ابھرنا چاہیے۔ اگر وہ اسپتال ہیں تو اسلام کے نظام صحت کا امتیاز ان کے طورطریقوں سے واضح ہونا چاہیے۔ مجموعی طور پر اسلام کا تصور عدل، تصور مساوات، تصور فلاح عامہ، تصور ترجیحات وغیرہ ان کے انداز کارکردگی سے نمایاں ہونا چاہیے۔

دوسری سطح ان کا اندرونی محاذ ہے۔ تحریکات اسلامی موجودہ تمدن کو ایک متبادل قیادت فراہم کرنا چاہتی ہیں۔ ہر ادارہ تمدن کی ایک چھوٹی سی اکائی ہے اورجس ادارے پر بھی کسی تحریک کو تسلط اور غلبہ حاصل ہے وہ تحریکوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ دنیا کو دکھائیں کہ ان کی قیادت دور جدید کی مادہ پرست قیادت سے کیسے مختلف ہوگی؟ جب اسی طرح کا تسلط اور غلبہ انہیں پورے سماج پر حاصل ہوگا تو ان کی قیادت والاسماج کیسے مختلف ہوگا؟ ان کے ادارے میں ہر ایک کو عدل و انصاف کا زیادہ احساس کیسے ہوتا ہے؟ آجر و مستاجر کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ نفع کے محرک اور خدمت کے محرک میں توازن کی شکل کیا ہے؟ امانت داری کا معیار کیسے عام معاصر معیار سے مختلف ہے؟

تیسری سطح دعوتی سطح ہے۔ ہر ادارے کو استفادہ کنندگان کی شکل میں بڑی تعداد میں ایسے افرا د میسر آتے ہیں جن کی سوچ اورکردارپر ادارے کے ذمے داران اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ ادارے کے متوسلین اگر تحریک کے تربیت یافتہ کارکن ہیں تو خدمت کے ساتھ ساتھ وہ دعوت و اصلاح کے فریضے کی طرف بھی پوری طرح متوجہ رہیں گے۔ اسپتالوں میں مریض علاج کے لیے آئیں گے اور ان کے تصورات اور عمل و اخلاق کی اصلا ح بھی ہوگی۔ مالیاتی اداروں سے قرضے لینے والے سود اور دیگر مالیاتی بد اعمالیوں سے تائب ہوکر لوٹیں گے۔ اسکولوں کے ملازمین اور بچوں کے سرپرستوں وغیرہ میں بھی ایک بہتر سماج اور بہتر تمدن کے جذبات اور داعیات کی افزائش ہونے لگے گی۔وغیرہ۔

اس سلسلہ مضامین میں ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اسلامی تاریخ میں اداروں نے کیسے یہ سارے کردار انجام دیے؟ ایک متبادل اسلامی تمدن کی صورت گری میں مسلمانوں کے سماجی اداروں نے کیا کردار کس طرح ادا کیا؟ آج کے احوال میں اس کردار کے زوال کے اسباب کیا ہیں؟ اداروں کی کثرت کے باوجود یہ اہم کردارکیوں ادا نہیں ہوپارہا ہے؟ اس کردار کی بازیافت کا کیا طریقہ ہے؟ اداروں کی لیڈرشپ اور مینجمنٹ کی سطحوں پر اس بازیافت کے لیے کن کوششوں کی ضرورت ہے؟

فلاحی ادارے کیا ہیں؟

فلاحی اداروں سے مراد ”وہ منظم اجتماعی کام ہیں جو عوامی فلاح و بہبود کےکسی خاص مقصد کی خاطر، طے شدہ اصولوں اور ضوابط کے فریم ورک میں ، افرادکی رضاکارانہ شمولیت اور عطیات کے ذریعے ، استقلال وتسلسل کے ساتھ انجام پاتے ہیں“۔[1]اس تعریف کی رو سے پانچ اوصاف ہیں جنہیں ادارے کے امتیازی ترکیبی عناصر قرار دیا جاسکتا ہے۔پہلا وصف ہے منظم اجتماعی کام۔ دوسرا عوامی فلاح و بہبود سےمتعلق کچھ متعین مقاصد، تیسرا طے شدہ اصولوں اور ضوابط کا فریم ورک، چوتھا استقلال وتسلسل اور پانچواں رضاکارانہ سرگرمی اور عطیات کے ذریعے کام۔ ان میں سے بیشتر اجزا خودتحریک کے اجتماعی کام پر بھی صادق آتے ہیں۔اصلاً تحریک عوامی بیداری یا سماجی تبدیلی کی خاطر عوام میں پیدا کی گئی وسیع سرگرمی کا نام ہے۔ لیکن جب عوامی بیداری یا سماجی تبدیلی کا ہدف طویل المیعاد ہوتا ہے تو ایسی تحریکوں کو تسلسل کے ساتھ کام کرنے کے لیے تنظیم کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور یوں اداروں سے یک گونہ مشابہت پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن تحریکوں اوراداروں میں بنیادی فرق وہ ہے جسے اوپر کی تعریف میں دوسرے نمبر پربیان کیا گیا ہے یعنی ادارے عوامی فلاح و بہبود سے متعلق کچھ متعین اہداف کے لیے کام کرتے ہیں جب کہ تحریک اصلاً سماجی تبدیلی اور عوامی بیداری کے وسیع تر نصب العین کی خاطر جدوجہد کرتی ہے۔

تمدنی ترقیوں کے ساتھ سما ج کے دیگر شعبوں کی طرح ادارے بھی پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔آج دساتیر، رجسٹریشن، دفاتر، عملہ، قانونی پیچیدگیاں، منصوبہ بندی اور کام کے ترقی یافتہ منظم طریقے وغیرہ اداروں کی اہم شناخت بن گئے ہیں اور ان کی وجہ سے اداروں کی جو شکل ہم کو نظر آتی ہے وہ سابقہ ادوار سے خاصی مختلف ہے۔اس لیے ذیل میں اسلام کی اولین تاریخ سے جومثالیں پیش کی جارہی ہیں وہ بعض لوگوں کو غیر متعلق محسوس ہوسکتی ہیں۔لیکن یہ پیچیدگی سماجی زندگی کے ہر شعبے میں پیدا ہوئی ہے۔ ریاستیں اور حکومتیں بھی پیچیدہ ہوگئی ہیں۔ دعوت و اصلاح کی تحریکیں بھی تنظیمی اور عملی پہلوؤں سے اولین دور کی سادگی کے ساتھ نہ چلائی جاسکتی ہیں اور نہ چلائی جارہی ہیں۔ یہ عملی پیچیدگیاں اصولی معاملات میں اولین دور کے نمونوں سے استنباط اور رہنمائی میں رکاوٹ نہیں ہیں۔ اداروں کی اصل تعریف وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ یہ خصوصیات قرون اولی کے سادہ اداروں میں بھی پائی جاتی تھیں اور آج کے پیچیدہ اداروں میں بھی موجود ہیں۔

فلاحی ادارے اور اسلامی تاریخ

اسلام کی تاریخ کےمطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ہر زمانے میں ایسے اداروں کو بڑے پیمانے پر عام کیا ہے۔خود قرآن مجیدمیں ایسے بامقصد ، منظم اور مستقل اجتماعی کاموں کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کی معاشی منصوبہ بندی اور انسانوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے منظم کوششوں کا تفصیلی ذکر سورہ یوسف میں موجود ہے۔ اسی طرح سورہ کہف میں ذوالقرنین کا تفصیلی واقعہ موجود ہے، جنھوں نے یاجوج و ماجوج کے فتنے سے مقابلے کے لیے ستم زدہ قوم کے افراد کی رضاکارانہ خدمات کا استعمال کرکے ان کے تحفظ و سلامتی کا انتظام فرمادیا تھا۔ ان تاریخی اشاروں کے علاوہ قرآن مجید میں مسلمانوں کو منظم اصلاحی و فلاحی کاموں کا متعدد جگہوں پر حکم دیا گیا ہے۔ ضرورت مندوں کی کفالت ، غربا و مساکین اور یتیموں کی خبرگیری اور انفاق فی سبیل اللہ سےمتعلق متعدد آیات میں اجتماعی فریضے کی طرف بھی اشارے موجود ہیں۔فقہا نے ایسی متعدد آیات سے اوقاف کے سلسلے میں استدلال کیا ہے جو ایک اجتماعی ادارہ جاتی کوشش ہے ۔[2]

سیرت نبوی ﷺ میں بھی ادارہ جاتی فلاحی کوششوں کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ مدینے میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد تو آپ نے متعدد سرکاری ادارےقائم فرمائے لیکن چونکہ ہماراموضوع رضاکارانہ سماجی اداروں سے متعلق ہے اس لیے سرکاری اداروں کی مثالوں سے ہم زیادہ تعرض نہیں کریں گے۔ لیکن سیرت نبوی ﷺ میں ، قیام ریاست سے قبل اور اس کے علاوہ بھی ادارہ جاتی کوششوں کی کئی مثالیں روایات میں ملتی ہیں۔ مکہ کے قبائلی نظام میں تحفظ و سلامتی اور ایک دوسرے کی خبر گیری اور تکافل باہمی کی بعض اہم ادارہ جاتی شکلیں موجود تھیں۔ خاص طور پر سیرت نگاروں نے حلف، ولاء اور جوار کے نظاموں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ حلف کے نظام میں دو قبیلے یا افرادباہم معاہدہ کرتے تھے، ولاء کےنظام میں ایک کم زور شخص کسی طاقت ور کی پناہ میں آجاتا تھا اور جوار کے نظام میں لوگ عارضی طور پرایک دوسرے کی پناہ اور تحفظ کی ضمانت لیتے تھے۔نبی کریم ﷺ نے سماجی تحفظ کے ان نظاموں کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ ان سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔[3]حلف الفضول مکہ میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے کی ایک بہت ہی اہم منظم اجتماعی کوشش تھی جس کی صورت گری میں آپ ﷺ نے عین نوجوانی میں کلیدی کردار ادا فرمایا تھا [4]اور یہ معاہدہ آپ کو بے حد عزیز تھا۔ مکہ میں اسلام قبول کرنے والوں کے تحفظ اور ان کی کفالت کو یقینی بنانے کے لیے آپ ﷺ نے ‘مواخاة’ کا ایک بڑا مستحکم نظام قائم فرمایا تھا ۔[5]مکی زندگی ہی میں دار ارقم کا مرکز آپ نے قائم فرمایا جو مکہ میں دعوت کا بھی مرکز تھا اور دعوت قبول کرنے والوں کی تعلیم وتربیت کا بھی ۔ [6]سب سے اہم ادارہ مسجد کا ادارہ تھا۔ یہ محض نماز گاہ نہیں تھی بلکہ ایک باقاعدہ ادارہ تھا جہاں سے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو منظم بھی کیا جاتا تھا اور ان کی بہت سی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان بھی ہوتا۔ مکہ میں ہجرت سے قبل ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے مکان سے متصل مسجد قائم فرمائی تھی ۔[7]  لیکن اس کے باوجود جب آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو مدینہ پہنچنے سے پہلے اپنے پڑاؤ پر قبا میں آپ نے مسجد کی تعمیر فرمائی اور پھر مدینے میں بھی مسجد کی تعمیر فرمائی ۔ [8] مدینے میں مہاجرین کی آبادکاری کا بڑا مسئلہ درپیش ہوا تو یہاں بھی آپ ﷺ نے مواخاة کا نظام قائم فرمایا۔ [9] مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مسجد نبوی سے متصل صفہ کے چبوترے پر ایک منفردادارہ قائم کیا جو بیک وقت تعلیم گاہ بھی تھا اور غریب و مسکین مسلمانوں کی اجتماعی کفالت کا مرکز بھی تھا ۔[10]

اسلامی تاریخ میں ادارہ جاتی کاوشوں کا سب سے اہم اور مہتمم بالشان مظہر وقف کا نظام ہے۔ یہ انسانی تہذیب کو اسلام کا بہت بڑا تحفہ ہے۔نبی کریم ﷺ کے عہد ہی میں اس کی ابتدا ہوگئی تھی اور بعد میں اسلامی ملکوں میں یہ باقاعدہ سرکاری اور خانگی زمروں کے ساتھ ایک تیسرے زمرے (third sector)کے طور پر ابھرا اور حکومتوں سے کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر اس نے سماجی و رفاہی خدمات کو انجام دیا اور سماجی عدل اور مساوات کے اسلامی وژن کو بروئے کار لانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔  [11]اوقاف کے ذریعے بڑے پیمانے پر اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ بیت الحکمہ جیسے علمی مراکزکا قیام عمل میں آیا۔ رفاہ عام کا کام کرنے والے اداروں نے کام شروع کیا۔ شفا خانے (بیمارستان) اور مسافر خانے (کاروان سرائے) وجود میں آئے۔صوفیا نے بڑی بڑی خانقاہیں اور لنگر خانے قائم کیے۔ان سب اداروں نے ایک ایسے تمدن کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کیا جس کی اساس توحیداور خدائے واحد کی بندگی،انسانی مساوات، عدل و قسط، کفالت باہمی اور فلاح انسانی جیسے اسلامی اصولوں پر تھی۔ آئندہ ان شاء اللہ ہم اسلامی تاریخ کے مختلف اوقاف کا تفصیل سے جائزہ لے کر بتائیں گے کہ کس طرح ان اداروں نے وہ سارے مقاصد حاصل کیے جن کا تذکرہ ذیل کی سطروں میں کیا جارہا ہے۔

فلاحی اداروں کا کردار

جیساکہ عرض کیا گیا، نظریاتی تحریکوں کے لیے فلاحی ادارے اس لیے ضروری ہیں کہ وہ ایک متبادل نظام تمدن کی تعمیر و ترقی میں کئی پہلوؤں سے اہم کردار اداکرتے ہیں۔ذیل میں ایسے کچھ اہم پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

۱۔ معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار: تحریک اسلامی کا نصب العین اقامت دین ہے۔ اقامت دین کا تعلق صرف ریاست یا حکومت سے نہیں ہے بلکہ جماعت اسلامی ہند کے دستور میں، فرد کے ارتقا اور معاشرے کی تعمیر کو بھی اقامت دین کا اہم حصہ قرار دیا گیا ہے ۔ [12] معاشرے کے عناصر ترکیبی تین ہیں۔ ایک تو خود افراد ہیں جن کے ارتقا کو ایک مستقل پہلو کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور دوسرے معاشرے کی رسوم و رواج اور معمولات ہیں اور تیسرے سماجی ادارے ہیں۔ ریاست کی سطح پر جو کردار مقننہ، عاملہ اور عدلیہ جیسے اداروں کا ہوتا ہے، سماج کی سطح پر وہی کردار سماجی اداروں کا ہوتا ہے ۔[13] یہ فرق ضرور ہوتا ہے کہ ریاست کے پاس قوت قاہرہ و نافذہ ہوتی ہے جوسماج کے پاس نہیں ہوتی۔لیکن سماج معمولات و عرف کی طاقت سے کنٹرول اورنفاذکی اپنی طاقت رکھتا ہے جس کا مرکز سماجی ادارے ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے کوئی مکمل تحریک سماجی اداروں کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اداروں کو درست رخ دیے بغیر اور مثالی اداروں کی نشوونما کے بغیر معاشرے کی تعمیر ممکن ہی نہیں ہے۔گویا مثالی اداروں کا قیام اور اداروں کو درست رخ اور سمت فراہم کرنا اقامت دین کا محض ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ اقامت دین کے وژن کا راست حصہ اور عین مقصد کا جزو ہے۔

۲۔قوت و طاقت اور اثر پذیری :اسلام کے حق میں قوت و طاقت کا حصول ہمیشہ تحریک اسلامی کا اہم ہدف رہا ہے۔ قوت و طاقت صرف سیاسی قوت نہیں ہوتی۔ہر زمانے میں قوت کے متعدد سرچشمے رہے ہیں اور تحریکوں نے ان سب قوتوں کو مناسب رخ دینے اور ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ موجودہ دور میں سماجی ادارو ں کو قوت کے اہم مرکزکے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ سول سوسائٹی کو ایک مستقل سیکٹر (sector)کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا ہے ۔[14]  جو تحریک زندگی کے تمام شعبوں کو اور قوت کے تمام مراکز کو متاثر کرنا چاہتی ہے وہ اداروں کو یعنی قوت کے فوری ممکن الحصول سرچشمے کو کیسے نظر انداز کرسکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام اسلامی تحریکیں بلکہ تمام نظریاتی تحریکیں اداروں کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔

۳۔ متبادل عوامی پالیسیوں اور گورننس ماڈلوں کی پیشکش :سرکاری ادارے رائج الوقت نظام اور مروجہ تمدنی طور طریقوں کے مطابق چلتے ہیں۔ رضاکارانہ سماجی ادارے ان کے مقابلے میں متبادل پالیسیوں اور طور طریقوں کو اپنا کر ایک متبادل تمدنی ڈھانچے کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ تھنک ٹینک جیسے ادارے متبادل طریقوں کو نظریاتی سطح پر پیش کرتے ہیں جب کہ فلاحی ادارے ان طریقوں کو برت کر ان کے فائدوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اسلام کی ابتدائی تاریخ میں اس کا خوبصورت نمونہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کا حلقہ تھا جس نے ایک ادارے کی شکل اختیار کرلی تھی۔ یہ اسلامی تاریخ میں ایک موثر تھنک ٹینک کی اولین مثال تھی۔ مولانا مودودیؒ اس ادارے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

” امام ابو حنیفہ کو ایک بالکل نرالا راستہ سوجھا اور وہ یہ تھا کہ وہ حکومت سے بے نیاز رہ کر خود ایک غیر سرکاری مجلس وضع قانون ( Private Legislature ) قائم کریں ۔ یہ تجویز ایک انتہائی بدیع الفکر آدمی ہی سوچ سکتا تھا اورمزید برآں اس کی ہمت صرف وہی شخص کر سکتا تھا جو اپنی قابلیت پر، اپنے کردار پر اور اپنے اخلاقی وقار پر اتنا اعتماد رکھتا ہو کہ اگر وہ ایسا کوئی ادارہ قائم کر کے قوانین مدون کرے گا تو کسی سیاسی قوت نافذه (Political sanction)کے بغیر اس کے مدون کردہ قوانین اپنی خوبی ، اپنی صحت، اپنی مطابقت احوال اور اپنے مدون کرنے والوں کے اخلاقی اثر کے بل پر خود نافذ ہوں گے ، قوم خود ان کو قبول کرے گی اور سلطنتیں آپ سے آپ ان کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گی…… اس طرح تاریخ کا یہ اہم واقعہ رونما ہوا کہ ایک شخص واحد کی قائم کی ہوئی نجی مجلس وضع قوانین کا مرتب کیا ہوا قانون محض اپنے اوصاف اور اپنے مرتب کرنے والوں کی اخلاقی ساکھ کے بل پر ملکوں اور سلطنتوں کا قانون بن کر رہا ۔ اس کے ساتھ دوسرا اہم نتیجہ اس کا یہ بھی ہوا کہ اس نے مسلم مفکرین قانون کے لیے اسلامی قوانین کی تدوین کا ایک نیا راستہ کھول دیا۔ بعد میں جتنے دوسرے بڑے بڑے فقہی نظام بنے وہ اپنے طرزی اجتہاد اور نتائج اجتہاد میں چاہے اس سے مختلف ہوں ، مگر ان کے لیے نمونہ یہی تھا جسے سامنے رکھ کر ان کی تعمیر کی گئی ۔“[15]

حالیہ تاریخ میں متعدد سماجی اداروں کے نمونے موجود ہیں جنہوں نے ایک متبادل پالیسی فریم ورک فراہم بھی کیا اور حکومتوں پر بلکہ عالمی قوانین اور بین الاقوامی معمولات(international norms)تک کو متاثر کیا ہے۔

شمالی یورپ کے اسکیند ینیفائی ممالک(scandivanian countries)کی فلاحی ریاستیں (welfare states)دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ان ممالک کی پالیسیوں کو فلاحی رخ دینے میں بڑا کردار اُن سماجی اداروں کا ہے جنہوں نے انیسویں صدی اور بیسیوں صدی کے نصف اول میں مغربی یورپ کے ظالمانہ سرمایہ داری نظام کے برخلاف متبادل فلاحی پالیسیوں کے مختلف ماڈل تخلیق کیے اور انہیں رائج کیا۔ ڈنمارک میں گزشتہ صدی کے اوائل میں قائم ہونے والے تعلیمی ادارے ‘لوک اسکول’ Folk School or Folkehøjskolerنے غیر رسمی طریقوں سے سماج کے تمام طبقات کو مساویانہ طور پر تعلیم فراہم کرنے کا تصور عام کیا جس نے بالآخر اس علاقے کے پورے تعلیمی نظام کی شکل بدل ڈالی۔ [16]1923 میں سوئیڈن میں قائم ہونے والی ہاؤسنگ سوسائٹی HSB (Hyresgästernas Sparkasse- och Byggnadsförening)نے امیر و غریب کی تفریق کے بغیر سب کو یکساں رہائش فراہم کرنے کی ایک ایسی انقلابی تحریک شروع کی جس نے بالآخر اس پورے علاقے میں شہری منصوبہ بندی اور ہاؤسنگ کے ایک بالکل منفرد غریب پرور نظام کو رائج کردیا ۔ [17] لوتھیرن فرقے کے چرچوں نے اس علاقے میں جو رفاہی ادارے قائم کیے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سماجی ذمے داری، مساوات، احساس ذمے داری اور محروم وکمزور طبقوں کے تئیں ہم دردی کی وہ عام فضا پیدا کی جس نے یہاں فلاحی ریاستوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ [18]

گزشتہ صدی کے وسط میں اسپین میں ایک عیسائی پادری فادر آرزمندی (Father Arizmendi)نے اپنے طلبہ کی مدد سے ایک چھوٹا سا ادارہ قائم کیا تھا اور سرمایہ داروں کی جانب سے مزدوروں کے استحصال کی صورت حال کو دیکھ کر ایسی انڈسٹری کا تصور پیش کیا تھا جو مکمل طور پر ورکروں کی ملکیت میں ہو۔ آج فادر آرزمندی کی قائم کردہ مونڈریگن کارپوریشن(Mondragon Corporation)اسپین کی سب سے بڑی عالمی کمپنیوں میں سے ایک ہے ۔ [19] اس کے ملازمین کی تعداد اسّی ہزار سے متجاوز ہے جو اس کے مالک بھی ہیں۔ اس کمپنی نے بھی ساری دنیا میں ایک متبادل تجارتی ماڈل کو عام کیا ہے ۔  [20] نوم چومسکی نے مونڈریگن کارپوریشن کے بارے میں یہ بات لکھی ہے کہ یہ ماڈل آئندہ نظام سرمایہ داری کا کام یاب متبادل بن سکتا ہے۔[21]

یہ چند نمونے ہم نے بطور مثال بیان کیے ہیں۔ مختلف شعبوں سے متعلق ایسے بہت سارے نمونے ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں جنہوں نے غیر معمولی تخلیقی طریقوں سے منفرد نمونے تشکیل دیے اور ان نمونوں نے حکومتوں کی پالیسیوں کو بھی متاثر کیا۔ اسلامی اداروں کا اصل مقصد بھی یہی ہونا چاہیے کہ وہ متبادل پالیسیوں کو فروغ دینے کا ذریعہ بنیں۔ وہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایسے اختراعی نمونے تخلیق کریں جن کے ذریعے شریعت اسلامی کے مقاصد کا حصول ممکن ہوسکے اور جو اپنی افادیت اور نافعیت کے باعث دنیا کی توجہ حاصل کریں اور حکومتوں کی پالیسیوں کو متاثر کرسکیں۔ اگلی قسطوں میں ہم تجویز کرنے کی کوشش کریں گے کہ تعلیم، صحت ، ہاؤسنگ، مالیات وغیرہ مختلف شعبوں میں کس طرح کے منفردماڈل تشکیل دیے جاسکتے ہیں۔

۴۔نئے معمولات اور طریقوں کی ترویج: جیسا کہ عرض کیا گیا،معاشرےکے عناصر ترکیبی میں افراد اور اداروں کے ساتھ ساتھ وہ رواج بھی شامل ہیں جنہیں سماجیاتی اصطلاح میں سماجی معمول(social norms)کہا جاتا ہے یا جنہیں ہماری فقہ کی روایتی اصطلاح میں معاشرے کا ‘عرف’ کہا جاتا ہے۔ معاشرے کی تعمیر کا مطلب یہی ہے کہ سماجی معمول اور سماج کے عرف اسلام سے ہم آہنگ ہوجائیں۔ اس مقصد کے حصول میں بھی اداروں کا بڑ ا اہم کردار ہوتا ہے۔ ادارے نئے معمولات(new norms)تشکیل دیتے ہیں اور سماج کے عرف پر اثر انداز ہوکر ان کی تشکیل نو میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ایسے متعدد اداروں کی مثالیں دی جاسکتی ہیں جنہوں نے حالیہ دنوں میں مختلف ملکوں کے اور عالمی رجحانات کو متاثر کیا ہے، نئے معمولات تشکیل دیے ہیں اور قدیم معمولات کو کم زور کیا ہے یا انہیں ختم کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں نے ساری دنیا میں حقوق انسانی کے نئے تصورات کو انسانی ضمیر کا حصہ بنایا ہے ، عالمی قوانین کو متاثر کیا ہےاور حق تلفی کی بہت سی قسمیں جو مختلف سماجوں کا عرف بن چکی تھیں انہیں ختم کرنے میں کام یابی حاصل کی ہے۔ ریڈ کراس جیسی تنظیموں نے ریلیف و باز آباکاری کے نئے عوامی طریقے رائج کیے ہیں اور اس حوالے سے ملکی قوانین میں ٹھوس تبدیلیوں کے بھی محرک بنے ہیں ۔ [22] ڈاکٹرز وتھ آوٹ بارڈرز(Doctors Without Borders or Médecins Sans Frontières) MSF ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم ہے جس نے سیاسی وابستگیوں ،ریاستی کنٹرول اور تجارتی مفادات سے آزاد طبی خدمات کا ایک نیا معمول تشکیل دیا ۔[23]گرین پیس(Green Peace)اور ورلڈوائلڈ لائف فنڈ (WWF) جیسی تحریکوں نے ماحولیاتی مسائل کے سلسلے میں جو بیداری اور حساسیت پیدا کی اور ماحول دوست طرز زندگی اور پالیسیوں کے حوالے سے جن نئے معمولات کو عام کیا انہیں اب علمی حلقوں میں بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے ۔[24]

اخلاقی بحران کی موجودہ صورت حال کو پیدا کرنے میں بھی اصل کردار ان اداروں کا ہے جنہوں نے اپنے تصورات کے مطابق عالم انسانیت کے ذہن و فکر اور رائے عامہ کو متاثر کیا ۔ چنانچہ جنسی بے راہ روی کا عالمی بحران یا خاندان کے ادارے کی بڑے پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ ہو، ہم جنسی اور جنسی رجحان کے عنوانات سے آنے والی اخلاق باختگی ہو یا خواتین کی آزادی کے عنوان سے عریانیت اور بے لباسی کا عالمی طوفان ہو، ان سب رجحانات کی پشت پر متعدد اداروں کی مسلسل کاوشیں ہیں۔ ان اداروں نے مختلف النوع قسم کی سرگرمیوں کے ذریعے انسانی سماجوں کی سوچ ، ان کے تصورات اور ان کی اخلاقی حس کو متاثر کیا، صدیوں پرانے مستحکم معمولات کو ختم کیا اور سماجی کنٹرول کی مضبوط دیواروں کو منہدم کرکے اپنے من پسند رجحانات کی بڑے پیمانے پر ترویج کی ۔[25]

اگر اسلامی ادارے اسلامی تحریک کے اساسی مقصد کے تابع ہوں تو وہ بھی ایسے نئے معمولات تشکیل دے سکتے ہیں۔ اسلام کی بہت سی قدروں کو عا م کرکے نئے معمولات تشکیل دے سکتے ہیں۔ان شاء اللہ اگلی قسطوں کی تفصیلات اور عملی مشوروں سے یہ بات اور زیادہ واضح ہوگی۔

۵۔اسلام کی عملی شہادت اور رائے عامہ پر اثر اندازی:تحریک اسلامی کی مطلوبہ تبدیلی کے لیے اسلام کے حق میں رائے عامہ کی تبدیلی درکار ہے۔ اس کے لیے جہاں دعوت دین یا قولی شہادت کی ضرورت ہے وہیں عملی شہادت بھی درکار ہے، یعنی اپنے کردار اور عمل سے اسلام کی تعلیمات کا نمونہ پیش کیا جائے اور اسلامی تعلیمات کی نافعیت کو اپنے عمل اور نمونے سے واضح کیا جائے۔انفرادی زندگی سے متعلق اسلام کی تعلیمات کی عملی شہادت کا ذریعہ تربیت یافتہ افراد کی زندگیاں ہوتی ہیں اور اجتماعی زندگی سے متعلق اسلام کی عملی شہادت کا اہم ذریعہ ادارے ہوتے ہیں۔ریاست یا حکومت سب سے بااثر اور اہم ترین ادارہ ہوتا ہے۔ اس لیے ایک مثالی اسلامی ریاست اسلام کی عملی شہادت کا موثر ترین ذریعہ ہوتی ہے۔ لیکن اگر ریاست موجود نہ ہو تو جزوی طورپر ہی سہی لیکن اسلامی اجتماعیات کے عملی نمونے اداروں ہی کے ذریعے سامنے آتے ہیں۔ ادارے نہ ہوں تو اسلامی اجتماعیات کی عملی شہادت دشوار ہوجاتی ہے۔اس لیے اسلامی اداروں کی اہم ذمے داری اور اصل کام یہ ہے کہ وہ اسلام کی مختلف تعلیمات کی عملی شہادت دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اسکولوں اور کالجوں سے معلوم ہو کہ اسلام کا مثالی نظام تعلیم کیسا ہوتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ تعلیم و تربیت حاصل کرنے والی جنریشن کیسی ہوتی ہے ۔اسپتال اورطبی ادارے اسلام کے نظام صحت کانمونہ پیش کریں۔ وہ اُن عام اسپتالوں سے مختلف ہوں جو انسان کو محض جسم اور پرزوں کے مجموعے سے بننے والی مشین سمجھتے ہیں۔مالیاتی ادارے اسلام کے منفرد مالیاتی نظام کا شعور عام کریں اور اس کا عملی نمونہ پیش کریں۔

۶۔متبادل قیادتوں کی تیاری: جو ادارے مذکورہ بالا مقاصد حاصل کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں وہ سماج میں ایک متبادل قیادت ابھارتے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کا ایک اہم مقصد صالح قیادت کا فروغ ہے۔ صالح قیادت کی ایک لازمی خصوصیت صالحیت ہے جو اسلامی تحریکوں کے تربیتی نظاموں کے ذریعے فروغ پاتی ہے اور دوسرا اہم پہلو صلاحیت ہے۔ قیادت محض صالحیت کی اساس پر تخلیق نہیں پاسکتی۔ وہ صلاحیت بھی چاہتی ہے۔سماج کی قیادت کے لیے اصلاً سماج کے تمدنی امور کو چلانے کی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ یہ صلاحیت ہوا میں پیدا نہیں ہوسکتی۔ یہ ان اداروں ہی میں فروغ پاتی ہے جو سماج کےتمدنی امور سے متعلق مختلف ذمے داریاں اپنے سر لیتے ہیں اورموجود طریقوں اور رواجوں سے کامیابی کے ساتھ نئے طریقے اور رواج فروغ دیتے ہیں۔ اوپر جن اداروں کا ذکر کیا گیا ہے ان سب کے تفصیلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ملکوں کی اور عالمی لیڈرشپ کے لیے ایک تربیت گاہ کا کردار بھی ادا کیا ہے۔ لوک اسکولوں کے تجربے نے نہ صرف فن لینڈ جیسے ملکوں میں بہت اعلیٰ معیار کے نظام تعلیم کو فروغ دیا بلکہ آ ج اس تجربے سے وابستہ متعدد ماہرین تعلیم پوری دنیا کے نظام تعلیم کی قیادت کررہے ہیں ۔ [26]گرین پیس اور ڈبلیو ڈبلیو ایف جیسے اداروں نے ماحولیاتی جہد کاری کو ساری دنیا میں عام کیا اور وہ ماحولیاتی امور میں ساری دنیا کی قیادت کررہے ہیں ۔ [27]ایم ایس ایف کے ڈاکٹروں نے پوری دنیا کے نظامہائے صحت پر گہرے اثرات ڈالے ہیں اور طب و صحت کے میدانوں میں خدمت اور جہد کاری کو متعارف کراکے ایک نئی قیادت فراہم کررہے ہیں۔[28]

اسلامی اداروں کا اصل کام بھی یہی ہونا چاہیے کہ ان کے زیر سایہ مختلف میدانوں کی اعلیٰ درجے کی صلاحیتیں اور متبادل قیادتیں فروغ پا سکیں۔ایسے مردان کار سامنے آئیں جن کی نافعیت ان کے متعلقہ اداروں میں ثابت ہوجائے ۔

اس دفعہ ہم نے صرف اداروں کے کرداراور مقاصد پر گفتگو کی ہے۔ آئندہ مباحث سے واضح ہوگا کہ اسلامی تاریخ میں اداروں نے یہ کردار کیسے ادا کیا اور آج مختلف میدانوں کے اداروں میں اس طرح کے کردار کے لیے کن جوہری تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اداروں کی قیادت و تنظیم کی کیا شکل مطلوب ہے۔ نیز یہ بھی کہ اس کردار کی ادائیگی کے لیے تحریک اور اداروں کے درمیان تعلق کی احسن اور متوازن شکل کیا ہوسکتی ہے۔ ان سب حوالوں سے قارئین کے تبصروں اور مفید تجاویز کا استقبال ہے۔

   حواشی و حوالہ جات

[1] Salamon, Lester M (1995) Partners in Public Service: Government-Nonprofit Relations in the Modern Welfare State. Johns Hopkins University Press; pages 9-12

[2] إبراهیم البیومی غانم؛ تجدید الوعی بنظام الوقف الإسلامی؛ دار البشیر للثقافة والعلوم؛ القاهره;2016 ;

[3]   اس موضوع کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:

پروفیسر ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی (2002) عہد نبوی میں سماجی تحفظ کا نظام؛ مجلہ تحقیقات اسلامی؛ اکتوبر تا دسمبر 2002؛ ص21-47

[4] عبد الملك بن هشام؛ السیرة النبویة (ابن هشام)؛ مؤسسة علوم القرآن؛ ج1 ص134

[5]  البلاذری، احمد بن یحی، انساب الاشراف (تحقیق محمد حمید اللہ) دارالمعارف مصر، ;1951ج١، ص ٢٧٠، ابن حبیب المحبر، ٧٠، ٧١

[6] ابن سعد ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم ۳/۲۴۲

[7] صحیح البخاری؛ کتاب الصلوٰة،باب المسجد فی الطریق.ح:476

[8] ابن حجر العسقلانی؛ فتح الباری شرح صحیح البخاری؛ باب مسجد قباء؛1134؛3/82؛دارالریان للتراث؛ 1986

[9] صحیح مسلم، فضائل الصّحابة، باب مؤاخاة النبیﷺ بین أصحابه رضی الله عنهم

[10] مفتی مبشر ؛ صفہ اوراصحاب صفہ؛ بیت العلوم؛ لاہور؛ 2007

[11] راغب السرجانی; روائع الأوقاف فی الحضارة الإسلامیة؛ شرکۃ نھضۃ مصر للنشر والتوزیع؛ القاھرہ؛ 2010

[12] دستورجماعت اسلامی ہند؛ مرکزجماعت اسلامی ہند؛ 2017؛ دفعہ 4 ص8

[13] Talcott Parsons;The Social System;Routledge;1991

[14] Civil Society, the Third Sector and Social Enterprise: Governance and Democracy. United Kingdom: Taylor & Francis, 2015.

[15] مولانا سید ابوالاعلی مودودی؛ خلافت و ملوکیت؛ادارہ ترجمان القرآن لمیٹیڈ؛ لاہور؛ 1966؛ ص 238-239

[16]   اس نظام تعلیم اور اس علاقے کے نظام تعلیم پر اس کے اثرات کو سمجھنے کے لیے:

  • Tove Stjern Frones et. al. (edited); Equity, Equality and Diversity in the Nordic Model of Education. Germany: Springer International Publishing, 2021.

[17] Lundquist, Lennart. Housing and the Welfare State: The Development of Housing Policy in Sweden. Nordic Academic Press, 2004

[18] Nelson, Robert H. Lutheranism and the Nordic Spirit of Social Democracy: A Different Protestant Ethic. Denmark: Aarhus University Press, 2017.

[19] Whyte, William Foote., Whyte, Kathleen King. Making Mondragón: The Growth and Dynamics of the Worker Cooperative Complex. United States: Cornell University Press, 2014.

[20] Employee Ownership and Employee Involvement at Work: Case Studies. United Kingdom: Emerald Publishing Limited, 2018.

[21]   https://www.alternativeradio.org/products/chon227/

[22] Hopgood, Stephen. Keepers of the Flame: Understanding Amnesty International. United Kingdom: Cornell University Press, 2006.

[23] اس ادارے کے کاموں کی تفصیل اور اس کے اثرات کے لیے ملاحظہ ہو:

  • Bortolotti, Dan. Hope in Hell: Inside the World of Doctors Without Borders
    United States: Firefly Books, 2011.

[24] عالمی پالیسی سازی پرگرین پیس کے اثرات کو سمجنے کے لیے:

  • Weyler, Rex. Greenpeace. New York: Rodale Books, 2004.

[25]   اس موضوع کو تفصیل سے سمجھنے کےلیے ملاحظہ ہو:

  • سید سعادت اللہ حسینی؛ اصلاح معاشرہ منصوبہ بند عملی طریقے؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز؛ نئی دہلی؛ 2021؛ ص 70-87

[26] کس طرح اس سوسائٹی نے پورے یورپ کی پالیسیوں کو متاثر کیا اس کو سمجھنے کےلیے ملاحظہ ہو:

  • Andersen, Lene Rachel. The Nordic Secret: A European Story of Beauty and Freedom. Denmark: Nordic Bildung, 2024.

[27] Weyler, Rex. Greenpeace. New York: Rodale Books, 2004.

[28] Bortolotti, Dan. Hope in Hell: Inside the World of Doctors Without Borders. United States: Firefly Books, 2011.

مشمولہ: شمارہ جنوری 2025

مزید

حالیہ شمارے

جنوری 2025

شمارہ پڑھیں

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223