سب سے پہلے ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کیجیے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول دنیا میں کس غرض کے لیے بھیجے ہیں۔ دنیا میں آخر کس چیز کی کمی تھی، کیا خرابی پائی جاتی تھی، جسے رفع کرنے کے لیے انبیا کومبعوث کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ کیا وہ یہ تھی کہ لوگ ڈاڑھیاں نہ رکھتے تھے اور انھیں رکھوانے کے لیے رسول بھیجے گئے، یا یہ کہ لوگ ٹمخنے ڈھانکے رہتے تھے اور انبیا کے ذریعے سے انھیں کھلوانا مقصود تھا؟ دو چند سنتیں جن کے اہتمام کا آپ لوگوں میں بہت چرچا ہے، دنیا میں جاری نہ تھیں اور انہی کو جاری کرنے کے لیے انبیا کی ضرورت تھی؟ ان سوالات پر آپ غور کریں گے تو خود ہی کہہ دیں گے که نه اصل خرابیاں یہ تھیں اور نہ انبیا کی بعثت کا اصل مقصد یہ تھا۔ پھر سوال یہ ہے کہ وہ اصل خرابیاں کیا تھیں جنہیں دور کرنا مطلوب تھا اور وہ حقیقی بھلائیاں کیا تھیں جنھیں قائم کرنے کی ضرورت تھی؟ اس کا جواب آپ اس کے سوا اور کیا دے سکتے ہیں کہ خدا کی اطاعت و بندگی سے انحراف، خود ساختہ اصول و قوانین کی پیروی اور خدا کے سامنے ذمہ داری و جواب دہی کا عدم احساس، وہ اصل خرابیاں تھیں جو دنیا میں رونما ہو گئی تھیں۔ انھی کی بدولت اخلاق فاسدہ پیدا ہوئے ، غلط اصولِ زندگی رائج ہوئے اور زمین میں فساد برپا ہوا۔ پھر انبیا علیہم السلام اس غرض کے لیے بھیجے گئے کہ انسانوں میں خدا کی بندگی و وفاداری اور اس کے سامنے جواب دہی کا احساس پیدا کیا جائے ، اخلاقِ فاضلہ کو نشو و نما دیا جائے اور انسانی زندگی کا نظام ان اصولوں پر قائم کیا جائے جن سے خیر و صلاح ابھرے اور شر و فساد دبے۔ یہی ایک مقصد تمام انبیا کی بعثت کا تھا اور آخر کار اسی ایک مقصد کے لیے محمدؐ مبعوث ہوئے۔
(روداد جماعت اسلامی ، حصہ سوم ، ص 250)
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2024