ملک کے نامساعد حالات اور ملت کے قلیل وسائل کے باوجود حوصلہ مند اور مخلص دردمندان ملت نے ملک میں جگہ جگہ خدمت اور رفاہ کے پودے لگائے، دہائیوں تک انتھک محنتوں اور میسر توانائیوں سے ان کی سینچائی اور نگہبانی کی۔ اللہ کے فضل سے وہ پودے اب تناور اور پاکیزہ درخت بن کر اپنے خوش کن ثمرات سے انسانیت کو فیض پہنچا رہے ہیں۔ ایسے ہی شجر ہائے امید کی جستجو میں یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے، تاکہ امید کے یہ چراغ مایوسی کے اندھیروں کو دور کرنے اور جگہ جگہ امید سے بھرپور نئے منصوبوں کو شروع کرنے کا محرک بن جائیں۔ (ادارہ)
جب گھر میں بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد بڑی ہو کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔ اور رواج کے مطابق اعلیٰ تعلیم کا مطلب ڈاکٹر اور انجینئر بننا ہوتا ہے۔ رنگین اور امید سے بھرپور خوابوں کے ساتھ والدین اپنے بچوں کا داخلہ اسکول میں کرواتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ خواہشات حالات کی نذر ہوجاتی ہیں۔ اور ماں باپ کے خواب تشنۂ تعبیر رہ جاتے ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ بہت سے ذہین طلبا بھی مقابلوں میں کامیاب ہوکر ڈاکٹر اور انجینئر بننے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
اسی اورنوے کی دہائی کو ہم تعلیمی شعور کی بیداری کا دور کہہ سکتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پورے ملک میں تعلیمی شعور اور اور تعلیمی بیداری انگڑائی لے رہی تھی۔ اس سے قبل کا زمانہ وہ زمانہ تھا جب اردو میڈیم اسکولوں میں مشکل سے ذہین اور متمول گھرانے کے بچے ہی ڈاکٹر اور انجینئر بننے کا خواب دیکھ پاتے تھے، اور ان میں سے بھی معدودے چند ہی اس خواب کو شرمندہ ٔتعبیر کرپاتے تھے۔
مسلمانوں میں کیریئر گائیڈنس کا شعور نوے کی دہائی میں شروع ہوا اور پروان چڑھا۔ ان حالات میں پورے ملک میں کچھ ایسی شخصیات اور ادارے ابھر کر آئے جنھوں نے تعلیم اور خدمت خلق کے میدان میں بہت سے کارہاےنمایاں انجام دیے۔ ایک ایسے ہی عظیم شخص کے سفر کی داستان آپ کے سامنے رکھتے ہوئے ہمیں خوشی ہو رہی ہے۔
ریاست کرناٹک کا ایک پچھڑا ہوا علاقہ شہر بیدر ہے جو بیدر شریف کے نام سے مشہور ہے۔ لال مٹی پر سرسبز وادیوں سے گھرا ہوا ایک خوب صورت شہر جو بہمنیوں، بریدوں اور نظام شاہیوں کا پایۂ تخت رہا ہے۔ جہاں خواجہ عمادالدین محمود گاواں کی تعلیمی کاوشوں کی اپنی ایک منفرد تاریخ موجود ہے۔ مسلم تہذیب و تمدن، آثار و باقیات، اقدار و افکار کی قدیم روایات کا حامل شہر۔ عروج اور زوال کی داستانیں اپنی باقیات سے بیاں کرتا ہو ا ایک قابل عبرت شہر۔ اسی شہر کے قلب میں، بالکل مدرسہ محمود گاواں کے سامنے، انجنیئرعبدالقدیر صاحب نے اپنی آرزوؤں کا ایک پودا لگایا تھا، جو آج ایک تناور درخت بن کر اپنی جڑیں مزید گہری کر رہا ہے۔
جناب عبدالقدیر نے سول انجنیئرنگ کرنے کے بعد میروبینی کارپوریشن، جاپان میں اپنی خدمات انجام دیں، اور سعودی عرب منتقل ہوگئے۔ لیکن خدمت انسانیت کے جذبے نے انھیں بہت جلد وطن عزیز لوٹنے پر مجبور کردیا۔
جناب انجینئر عبدالقدیر کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنی متاع عمر کو کسی اچھے کام پر لگایا جائے۔ آپ کے والدین تحریکی فکر سے وابستہ رہے۔ شاید اسی فکر اور تربیت کا نتیجہ رہا ہےکہ آپ میں خدمت انسانیت کا جذبہ فزوں تر ہوتا چلا گیا۔
ہر بڑے کام کے پیچھے کوئی کہانی ہوتی ہے۔ عبد القدیر صاحب کی زندگی میں بھی اسی طرح کی ایک کہانی ہے۔ وہ اپنے بھائی کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے تھے، لیکن بیدر میں اس کی کوئی سہولت نہیں تھی۔ انھوں نے اپنے بھائی کو تحصیل علم کے لیے حیدرآباد بھیج دیا۔ لیکن ان کے چھوٹے بھائی کو گھر کی یاد اتنا ستاتی تھی کہ وہ حیدرآباد سے اپنی تعلیم منقطع کرکے واپس بیدر آگئے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب عبدالقدیر صاحب کو خیال آیا کہ کیوں نہ اسی شہر میں بہتر تعلیم کی تمام سہولتیں فراہم کردی جائیں تاکہ یہاں کے بچے دوسرے شہروں میں جانے پر مجبور نہ ہو ں۔ اس احساس کے تحت آپ نے اگست 1989ء میں اپنے زیر تعمیر چھوٹے سے مکان میں 17 بچوں کے ساتھ اس کام کا آغاز کیا۔ آپ کے بڑے بھائی نے مشورہ دیا کہ ملک میں علامہ اقبال کے نام سے کوئی معروف ادارہ موجود نہیں ہے۔ لہٰذا انھوں نے اپنی سوسائٹی کا نام ’’علامہ اقبال ایجوکیشن سوسائٹی‘‘ رکھا، اور تعلیمی ادارے کا نام ’’شاہین‘‘رکھا۔ اس طرح یہ شاہین اقبال کا شاہین قرار پایا۔ شاہین کی پرواز نے ثابت کردیا کہ ’’شاہیں‘‘کا جہاں اور ہے۔
ایک زمانہ وہ تھا جب علم طب اور انجینئرنگ مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھا۔ اس وقت ساری دنیا میں مسلمان پوری انسانیت کی خدمت کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ لیکن مرور زمانہ سے یہ میدان ہمارے ہاتھوں سے نکل گئے جن کی دوبارہ بازیابی بہت ضروری ہے۔ جناب عبدالقدیر جیسی حرکیاتی شخصیت نے اس کام کا بیڑا اٹھالیا ہے۔
مجھے کیا ملے گا ؟
جب انسان کسی کام کا آغاز کرنے سے پہلے یہ سوچنے لگے کہ مجھے کیا ملے گا، تو وہ کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتا۔ اس کے برعکس اگر اس کا جذبہ یہ ہو کہ اسے کچھ حاصل ہو نہ ہو، لیکن دوسروں کے لیے ضرور نافع بن سکے، تو وہ بہت کچھ دے سکتا ہے۔ عبدالقدیر صاحب اور شاہین کی کامیابی کا اصل راز یہی ہے۔
شاہین کا یہ سفر دراصل عبدالقدیر صاحب کے گھر سے شروع ہوا ہے۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ اگر کسی شخصیت کا ساتھ رہا ہے تو وہ آپ کی بہن مہر سلطانہ صاحبہ ہیں۔ بقول عبدالقدیر صاحب، ان کے پاس صرف ارادے تھے، لیکن ان کی بہن نے ان ارادوں کو عملی جامہ پہنایا۔ یہاں بھی کامیابی کے پیچھے ایک پرعزم خاتون کابڑا کردار نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
17 بچوں سے شروع کیا گیا یہ سفر آج 2019ء میں اس مقام پر آپہنچا ہے کہ پورے ملک میں شاہین گروپ کے تحت پڑھنے والے جملہ پندرہ ہزار طلبا ہیں۔ ملک کی 23 ریاستوں میں 43 شاخیں ہیں جن میں ملت کے نوجوانوں کو ڈاکٹر اور انجینئربننے کے لیے کوچنگ دی جاتی ہے۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے علاوہ یو پی ایس سی کی تیاری کے لیے کوچنگ کلاسز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اب تک ہزاروں طلبا اس ادارے سے مستفید ہوچکے ہیں۔ بقول عبدالقدیر صاحب، میڈیکل کالج کھولنے سے بہتر ہے کہ ہم میڈیکل کالج میں داخلے کی اہلیت رکھنے والے ہزاروں بچوں کو تیار کریں۔ لہٰذا شاہین نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ جونیئر کالج کی سطح پر طلبا میں انجینئرنگ اور میڈیکل کے داخلہ امتحان کی تیاری کی نہ صرف دل چسپی پیدا کی جائے، بلکہ طلبا کو اعلیٰ معیار کی کوچنگ فراہم کی جائے۔ اعلی درجے کی کوچنگ عام لوگوں کے بس کی بات نہیں تھی، لیکن شاہین نامی ا س ادارے نے لوگوں کی مشکل آسان کر دی۔ اب تو ملک بھر سے اور بیرون ملک سے بھی میڈیکل اور انجینئرنگ کے انٹرنس کی تیاری کے لیے دور دور سے طلبہ آنے لگے ہیں۔ یہ صرف اور صرف شاہین کی محنت کا کمال ہے۔
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
شاہین کے سفر میں میں بہت سی مشکلات آئیں۔ سب سے بڑی مشکل معاشرے کی تنقید رہی۔ کسی نے لٹیرا کہا، تو کسی نے بدمعاش۔ کسی نے طعنہ دیا کہ تعلیم کو محض پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ لیکن عبدالقدیر صاحب کے بقول عوام کی مخالفتوں نے ان میں ایک نیا جذبہ اور ولولہ پیدا کردیا۔ جب انسان کی مشکلیں بڑھ جاتی ہیں تو وہ بڑے بڑے کام کرنے لگتا ہے۔ شاہین اس کی عمدہ مثال ہے۔
نیا دورنئی الجھنیں۔ راستے بنتے گئے
جب میڈیکل کے داخلے کے لیے حکومت ہند نے نیٹ امتحان کا آغاز کیا تو ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اب مسلم اداروں سے فارغ طلبا شاذ ہی ملک گیر سطح کے مقابلوں میں کامیاب ہو سکیں گے۔ لیکن’شاہین‘نے ان خدشات کو غلط ثبت کردیا۔ ہرسال ایک کثیر تعداد میں طلبا اس امتحان میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ JEE کا ریکارڈ بھی ہرسال بہتر ہورہا ہے۔ اس ادارے کے تحت CET، IAS، IPS کے لیے بھی طلبا کو تیار کیا جارہا ہے۔
مذہب کی پابندی کے ساتھ مذہبی رواداری
عبدالقدیر صاحب نے اپنے ادارے کو اسلامی اقدار کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ مخلوط تعلیم سے گریز کیا ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ کیمپس بنائے گئے ہیں۔ اس کے باوجود غیر مسلم طلبا کی ایک کثیر تعداد پورے اعتماد کے ساتھ اس ادارے میں داخلہ لے رہی ہے۔ بہت سے سرپرست حضرات اپنی لڑکیوں کو یہاں داخلہ دلوا کر اطمینان محسوس کر تے ہیں۔ مختلف مذاہب اور مختلف تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والے طلبا کو ایک کیمپس میں جمع کرکے مذہبی رواداری کی بہترین مثال پیش کی گئی ہے۔ اس عمل سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اگر ہم دنیا کو دینے کے قابل بن جائیں تو اس ملک کے لوگ مذہبی عصبیت کو بھلا کر آپ کے ساتھ آنے کو تیار ہوجائیں گے۔ اس کے برخلاف اگر ہم ہمیشہ اپنے حقوق کا رونا روئیں گے اور مطالبات کرتے رہیں گے اور محض لینے کے لیے ہاتھ پھیلاتے رہیں گے، تو کم زور اور پسماندہ ہی رہیں گے۔ اس لحاظ سے شاہین کا کارنامہ قابل ستائش ہے۔
شاہین مدرسہ پلس
شاہین مدرسہ پلس کے تحت حفظ القرآن پروگرام میں 12 سے 17 سال کے حفاظ طلبا، جو عصری تعلیم سے ناواقف ہوتے ہیں انہیں تعلیم سے جوڑنے کے لیے ایک خصوصی پروگرام حفظ قرآن پلس شروع کیا گیا۔ یہ ایک چار سالہ انٹیگریٹیڈ کورس ہے جس میں حفاظ طلبا کو بنیادی عصری تعلیم، انگریزی اور علاقائی زبان پر عبور کے علاوہ ریاضی، سائنس اور سماجی علوم جیسے مضامین کی تعلیم دیتے ہوئے جماعت دہم کے امتحان کے قابل بنایا جاتا ہے۔ دہم جماعت میں کامیاب ہونے کے بعد جونیر کالج سال اول اور سال دومCET، اور NEET کی کوچنگ بھی دی جاتی ہے۔ جونیر کالج کی تعلیم میں کامیابی کے بعدصرف میڈیکل اور انجنیئرنگ ہی نہیں بلکہIPS ، IAS اور دیگر مسابقتی کورسوں میں داخلے کا اہل بنایا جاتا ہے۔ حفظ القران کورس کے تحت ملک بھر میں تقریباً 6 سے زائد مراکز کا آغاز ہوچکا ہے۔ اسی طرح شاہین مدرسہ پلس کے تحت فضلاے مدارس کے لیے عالم پلس پروگرام کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔
شاہین شعبہ حفظ القران
اس شعبہ کے تحت دوم جماعت کے کامیاب طلبا کے حفظ کا نظم کیا گیا ہے۔ حفظ کے ساتھ روزانہ انگریزی اور ریاضی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے، اور ششم جماعت میں یہ حافظ طلبا عام بچوں کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں۔ اب تک 509 سے زیادہ حفاظ فارغ ہوچکے ہیں اور انجنیئرنگ، میڈیکل کے علاوہ دوسرے پروفیشنل کورسوں میں داخلہ لے چکے ہیں۔
عالم پلس کورس
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کے زیر سرپرستی عالم پلس کورس کا آغاز کردیا گیا ہے۔ 19 اور 22 سال کی عمر کے عالمیت کے فارغ علماےکرام اس میں داخلے کے اہل ہوتے ہیں۔ ان کے لیے تین سال چھ ماہ کا انٹیگریٹیڈ گریجویٹ کورس شروع کیا گیا ہے۔ جو طالب علم دو سال CLAT کے امتحان کے ساتھ پاس کرتا ہے اس کو lawمیں داخلہ دیا جاتا ہے اور کورس کی تکمیل تک اسکالرشپ دی جاتی ہے۔ شاہین کے ذمہ داران تعلیمات اور صحافت کے میدان میں بھی طلبا کی تیاری کا عزم رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ مختلف اداروں کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ نرسری تا دہم جماعت اردو اور انگریزی میڈیم اسکول۔
٭ شاہین پی یو سی سال اول و دوم کالج، لڑکیوں اور اور لڑکوں کے لیے علیحدہ کیمپس۔
٭ شاہین ویمنس ڈگری کالج، صرف طالبات کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ بی ایس سی کی تعلیم کے ساتھ ضروری دینی تعلیم۔ (ڈپلومہ ان عالمہ کورس ) مکمل کیا جاتا ہے۔
٭ تین سالہ خصوصی عالمہ کورس مع رہائش، جس میں ششم سے نہم جماعت کے درمیان کورس مکمل کرکے طالبات دہم جماعت میں مقابلہ کے لیے تیار ہوجاتی ہیں۔ اس کورس میں تفسیر قران پر زور دیا جاتا ہے۔
٭ نونہالوں کے لیے شاہین کڈس کے نام سے نرسری کا نظم ، جس میں بچوں کی ہمہ جہت ترقی کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔
٭ جونیر کالج پلس ڈگری کالج، انٹیگریٹیڈ کورس براے طلباجس میں سول سرو سزپر زور دیا جاتا ہے۔
کامیابیوں کی ایک جھلک
2012 سے اب تک شاہین سے 1000 سے زائد طلبا نے فری میڈیکل نشستیں حاصل کی ہیں۔
2018 میں شاہین نے 304 میڈیکل نشستیں حاصل کیں۔
اس کے علاوہ درجنوں ایوارڈوں سے ادارے اور اس کے ذمہ داران کو نوازا جا رہا ہے۔
پیغام عمل
دنیا کا ہر بڑا کام آہنی عزم اور بے لوث خدمت کا متقاضی ہوتا ہے۔ شاہین کا سفر بھی آہنی عزم اور بے لوث خدمت کی ایک مثال ہے۔ تنقید پہلے بھی کی جاتی تھی، اب بھی کی جاتی ہے۔ تنقید سے ڈرنے والے اپنی منزل سے بہت پہلے ہی ڈیرا ڈال دیتے ہیں۔ لیکن مخالفتوں کو خاطر میں نہ لانے والے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ شاہین کی مثال اس کا بہترین مظہر ہے۔ ہرچند کہ مخالفین آج بھی باز نہیں آتے لیکن سفر جاری ہے۔ ہر بڑے کام کو کرنے کے لیے پروفیشنلزم کی بہت ضرورت ہے۔ شاہین نے اعلیٰ درجے کے انتظام کو محض پروفیشنلزم کے ذریعہ پروان چڑھایا ہے۔ آزادی کے بعد پورے ملک میں سیکڑوں ایسے کام ہوئے ہیں جنھیں آٹھ سو سالہ مسلم حکومت کے دوران بھی انجام نہیں دیا جاسکا تھا۔ ضرورت ہے کہ ان کاموں کا ادراک کیا جائے اور ان سے حوصلہ پاکر ہر آدمی کے دل میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ انگڑائی لے۔ قوموں کے عروج کا راستہ پھولوں کے فرش سے ہوکر نہیں بلکہ خار زاروں سے ہوکر گزرتا ہے۔ تین سو برسوں کے خواب غفلت کے بعد ملت نے ایک بار پھر تعلیم کی اہمیت کو پہچانا ہے، ہزاروں شاہین پروازکے لیے اپنے پر تول رہے ہیں۔ بعید نہیں کامیابی کا آسمان ان کی راہ تک رہا ہو۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2019