اِنسان کو فطری طورپر اپنے آباء واجداد سے محبت ہوتی ہے۔ اس محبت کی بناپر وہ دین آبائی سے بھی لگائومحسوس کرتا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کی کامیابی ہدایت الٰہی کے اتباع میں ہے۔ اگر آبائی دین ، الٰہی ہدایت پر مبنی نہ ہو تو اُس کو اختیار کرکے اِنسان کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ہدایت الٰہی کی نشاندہی کرنے والی مستند اور محفوظ کتاب، قرآن مجید ہے۔ قرآن ایک ایسی عظیم کتاب ہے جس میں آسمان کی رفعت اور سمندر کی گہرائی پائی جاتی ہے، جس کی جڑیں پاتال تک پہنچی ہوئی ہیں اور جس کی شاخیں فضائے عالم میں لہرارہی ہیں، جس میں بجلی کی چمک، بادل کی کڑک اور آفتاب و ماہتاب کی تابانی ہے۔ یہ وہ نورِ حیات ہے، جس سے ہرطرح کی ظلمتیں کافور ہوجاتی ہیں۔ اس کی تعریف و توصیف میں جو کچھ بھی کہاجائے اور اس کی تعلیمات کی جتنی کچھ بھی توضیح کی جائے وہ اصل سے کم ہی ہوگی۔ اس کے بارے میں ہرتحقیق نئی تحقیق کادروازہ کھولتی ہے۔ یہ گنجینۂ معارف ہے۔ یہ علم کی طلب پیدا کرتی اور اس کی پیاس بڑھاتی ہے۔
ہم قرآن مجید کھولتے ہیں تو اس کی پہلی سورت (سورۂ فاتحہ) سامنے آتی ہے یہ سورت بتاتی ہے کہ اللہ کیاہے، وہ کن صفات کاحامل اور کن کن خوبیوں کا مالک ہے انسان کااس سے کیا تعلق ہے، انسان کواس کے ساتھ کس طرح کارویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس نے فرداور سماج کی ہدایت کا کیا انتظام کیاہے، کون لوگ ہیں جواس کے انعام واکرام کے مستحق ہو ں گے اور کون ہیں جو راہِ راست سے بھٹک گئے ؟اس طرح پہلے ہی صفحہ میں اللہ تعالیٰ کا تعارف ہوجاتاہے۔ قارئین اسے جان بھی جاتے ہیں اور اس سے تعلق بھی قائم ہوجاتاہے۔ دنیا میں ایسی کوئی کتاب نہیں جس میں سات مختصر جملوں یا سات آیات میں اتنی جامع بات کہی گئی ہو۔
کتابِ الٰہی
اس کے بعد قرآن مجید کا دوسرا صفحہ یا اس کی دوسری سورت الٓمٓ سے شروع ہوتی ہے، جسے سورت کانام کہہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد کے الفاظ پوری شدت سے اِنسان کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔اُسے رکنا اور سوچنا پڑتا ہے۔ اس کا آغاز ’’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ‘‘ سے ہوا ہے۔ یعنی یہ کتاب جو تمھارے ہاتھ میں ہے، یہ کوئی عام کتاب نہیں ہے، یہ کسی دوست کا خط نہیں ہے، یہ کوئی افسانہ اور ناول نہیں ہے، یہ کسی دانشور کی عقلی تگ وتاز اور کسی اسکالر کی تحقیق نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ ان دو لفظوں میں بہت کچھ کہاگیاہے۔ یہ وہ کتاب ہے، جس کے لیے انسان کی فطرت بے چین ہے، جو اِنسان کے ہر سوال کا جواب دیتی، اور الجھے ہوئے مسائل حل کرتی اور راہِ ہدایت دکھاتی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے، جس کا مدت سے چرچا ہورہاتھا اور اللہ کے پیغمبر جس کاحوالہ دیتے آرہے تھے۔
یہ الفاظ پڑھتے انسان کے دل و دماغ کی عجیب کیفیت ہوجاتی ہے اور ذرا سنجیدگی سے غور کریں تو جسم پر رعشہ طاری ہونے لگتاہے۔ آگے ’’لاَرَیْبَ فِیْہِ‘‘ کے الفاظ ہیں یعنی اس کے اللہ کی کتاب ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ جو لوگ قرآن کے اس دعویٰ کو تسلیم نہ کریں وہ چند ہی آیات کے بعد انھیں چیلنج کرتاہے اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ اللہ کی کتاب نہیں ہے بلکہ نعوذباللہ محمدﷺ کی اپنی داستان سرائی ہے اور وہ اپنے خیالات کو اللہ کی طرف منسوب کرکے پیش کررہے ہیں تو تم بھی کوئی ایسی کتاب پیش کرو۔ تم سب مل کر ایسی کتاب دنیا کے سامنے لاسکتے ہو تو لے آئو۔ قرآن شریف نے پہلے ہی پارے کے شروع میں جو چیلنج دیا، اسے باربار اس نے دہرایا ہے۔ اس نے کہا چوں کہ یہ انسان کی کتاب نہیں ہے اس لیے کوئی انسان اس کا جواب فراہم نہیں کرسکتا۔ دنیا میں کسی بھی مصنف اور محقق نے اپنی تصنیف اور تحقیق کو اس چیلنج کے ساتھ پیش کرنے کی جرأت نہیں کی ہے اور نہ کرسکتا ہے کہ اس کی تحقیق لاجواب ہے۔ ایسی تحقیق کسی کے بس میں نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کو زیب دیتاہے کہ وہ اپنی کتاب کے بارے میں اس طرح کا چیلنج کرے۔ چناںچہ دنیا آج تک چیلنج کاجواب فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ یہ قرآن کے من جانب اللہ ہونے کے بہت سے دلائل میں سے ایک زبردست دلیل ہے۔
اس سے آگے کے الفاظ ہیں ’’ھُدًی لِّلْمُتَّقِیٓنَ‘‘ یعنی اس کتاب سے فائیدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے دل میں اللہ کا خوف اور اس کی اطاعت کا جذبہ ہو۔ وہ بعض بنیادی باتوں کو مان کر اپنی زندگی سے اس کا ثبوت فراہم کرنے لگے تو قرآن پوری زندگی کے لیے راہِ ہدایت اُس کے سامنے کھول دے گا اور انسان دن کی روشنی میں اپناسفرِحیات طے کرسکےگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتابِ ہدایت ہے۔ اگر جذبۂ صادق مفقود ہے اور اس ہدایت کی طلب قاری میں نہیں ہے تو آدمی اس پر ریسرچ کرسکتاہے، تحقیق کرسکتا ہے، لیکن اس کے ذریعے راہِ ہدایت نہیں پاسکتا۔ یہ جملہ بڑی بات کہتاہے اور فیصلہ چاہتاہے کہ اسے اللہ کی کتاب مان رہے ہو یا نہیں۔ اس سے ہدایت کے طالب ہو یا نہیں؟ اگر اس کاجواب اثبات میں ہے تو آئو تمھارے لیے تقویٰ اور خدا ترسی کی راہ کھُلی ہے۔
آفاقی پیغام
دنیا میں جو شخص کسی انقلاب کا داعی اور رہنما ہوتا ہے وہ عموماً کسی خاص قوم اور طبقہ کو خطاب کرتا ہے اور انقلاب کے لیے اسے تیار کرتاہے۔ وہ مزدوروں یا سرمایہ داروں کو خطاب کرے گا، اس کا خطاب اونچی ذات والوں سے ہوگا یا وہ نیچی ذات والوں کو مخاطب بنائے گا۔ اسی طرح وہ ہندوستان، ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکہ یا کسی خاص ملک کے باشندوں سے خطاب کرے گا۔ لیکن قرآن وہ عظیم انقلابی کتاب ہے، جو اپنے آغاز ہی میں سارے جہاں کے انسانوں کو اپنا مخاطب بناتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اس کا پیغام دنیا بھر کے تمام انسانوں کے لیے ہے۔ یہ عرب کے لیے بھی ہے عجم کے لیے بھی، ایران کے لیے بھی ہے، ہندوستان کے لیے بھی، روم کے لیے بھی ہے، یونان کے لیے بھی، امریکہ کے لیے بھی ہے افریقہ کے لیے بھی، یورپ کے لیے بھی ہے اور ایشیا کے لیے بھی۔ یہ ہر ملک کے ہر طبقے کے لیے اور ہر انسان کے لیے ہے۔ یہ الفاظ غورطلب ہیں:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ:۲۱)
’’اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو، جس نے تمھیں بھی پیدا کیاہے اور تم سے پہلے کے لوگوں کو بھی۔ امید ہے کہ تم اللہ کی پکڑسے بچ جاؤگے۔‘‘
یہ اس حقیقت کااعلان ہے کہ سارے انسان ایک اللہ کے بندے ہیں، اس اللہ کے جس نے انھیں بھی پیدا کیا اور ان سے پہلے کے لوگوں کو بھی پیدا کیا۔آدم سے لے کر آج تک جتنے بھی انسان پیدا ہوئے سب اس کی مخلوق ہیں اور وہ ان کا خالق ہے۔ اس با ت کو مان کر اگر وہ اس کی عبادت اور فرماں برداری کی راہ اختیار کرلیں تو ان کی زندگی ضلالت اور گمراہی سے محفوظ ہوجائے گی۔ ان کی زندگی کے اندر تقویٰ آجائے گا، وہ نیکوکاروں کی زندگی گزار سکیں گے اور آخرت کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔ یہ ایک بنیادی حقیقت ہے جو قرآن نے بیان کی ہے۔
قرآن کی عظمت کا ایک اور پہلو ہمارے سامنے آتا ہے۔ اگر قرآن بالفرض اس دعوے کے ساتھ سامنے آتاکہ جو بات وہ کہتاہے وہ دنیا میں کسی نے نہیں کہی جو تعلیمات وہ پیش کرتاہے وہ کسی نے نہیں پیش کیں تو بھی بلاخوف تردید کہاجاسکتاہے کہ اس کے دعویٰ پر بہت سے لوگ ایمان لے آتے۔ لیکن یہ کمال ہے قرآن کاکہ وہ کہتا ہے کہ جو باتیں میں پیش کر رہاہوں پہلےبھی کہی جاتی رہی ہیں۔ ان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کتاب کے پیش کرنے والے کوئی نرالے رسول نہیں ہیں۔ جو پیغام ان کاہے اسی پیغام کے حامل اور بھی پیغمبر آتے رہے ہیں:
مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَآ اَدْرِيْ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَلَا بِكُمْ (الاحقاف:۹)
’’اے پیغمبر! آپ ان کو بتادیں کہ میں کوئی نرالا رسول نہیں ہوں، میں نہیں جانتاکہ میرے ساتھ قیامت کے روز کیا معاملہ ہوگا اور نہ یہ جانتا ہوں کہ تمھارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔‘‘
یہ بات ان الفاظ میں بھی کہی گئی ہے:
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ (آل عمران:۱۴۴)
’’محمد تو بس ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں۔‘‘
دنیا میں کتنے رسول آئے، کہاں آئے اور کس دور میں آئے اس کی تفصیل اِنسانوں کو نہیں معلوم۔ البتہ قرآن یہ کہتاہے کہ ہر قوم میں اللہ کے رسول آئے:
وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِيْہَا نَذِيْرٌ۲۴ (الفاطر:۲۴)
’’کوئی قوم ایسی نہیں ہے، جس کے اندر کوئی ڈرانے والا (یعنی رسول) نہ گزرا ہو۔‘‘
قرآن مجید میں ان میں سے صرف چند رسولوں کاذکر ہوا ہے، سب کا نہیں:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ مِنْہُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْہُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ (المومن:۷۸)
’’ہم نے تم سے پہلے بہت سے رسول بھیجے ان میں سے بعض کا حال ہم نے آپ سے بیان کیاہے اور بعض وہ بھی ہیں ، جن کا حال ہم نے آپ سے بیان نہیں کیاہے۔‘‘
قرآن پورے زور سے کہتاہے کہ جو دین محمدﷺ پیش فرمارہے ہیں اس کی تعلیم اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان اللہ کابندہ ہے اور سب انسانوں کو اسی کی بندگی کرنی چاہیے، کسی بھی شخص کے لیے چاہے وہ کسی بھی حیثیت میں ہو، کوئی بھی منصب رکھتاہو، مرد ہو یا عورت، اس کی کوئی بھی جنس ہو، اللہ کی بندگی سے سرتابی جائز نہیں ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کے ان تمام نیک بندوں کی تعلیم رہی ہے جنھیں اس نے اپنے رسولوں کی حیثیت سے اپنی اپنی قوم میں مبعوث فرمایا۔ قرآن کا یہ تاریخی بیان اس قدر مبنی برحقیقت اور معقول ہے کہ کوئی بھی سمجھ دار انسان اس کا انکار نہیں کرسکتا، اس لیے کہ اگر اس کائنات کا ایک اللہ ہے اور اسی کی بندگی ہونی چاہیے تو یہی بات اس کے ہر پیغمبر نے لازماً کہی ہوگی۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری بات پیغمبرکی زبان سے نکل ہی نہیں سکتی۔
سابق کتابوں میں تحریف
یہاں ایک سوال سامنے آسکتاہے۔ وہ یہ کہ اگر سارے پیغمبروں کی ایک ہی تعلیم تھی اور سب ایک ہی بات کہتے رہے ہیں تو محمدﷺ کی بعثت کی کیا ضرورت تھی؟ اگر آدم علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام تک سب نے ایک ہی بات کہی اور ایک ہی دین کی دعوت دی تو آخر محمدﷺ کو رسول بناکر کیوں بھیجاگیا؟ قرآن اس کا جواب صراحت کے ساتھ دیتاہے کہ دنیا میں جتنے رسول آئے بے شک ان سب کا ایک ہی دین تھا اور ان کی تعلیمات بھی ایک ہی تھیں، لیکن وہ صحیح شکل میں محفوظ نہیں رہ سکا۔ مثلاً قرآن مجید سے پہلے آسمانی کتابوں میں سب سے آخر میں حضرت عیسیٰؑ کو انجیل عطا کی گئی تھی، جس کی موجودہ شکل کو عہدنامہ جدید (New Testament) کہاجاتا ہے۔ لیکن کیا کوئی شخص کہہ سکتاہے کہ یہ Testamentوہی انجیل ہے جو حضرت عیسیٰؑ کی زبان سے سنی گئی؟ کیا اس کے الفاظ وہی ہیں جو حضرت عیسیٰؑ نے ادا فرمائے تھے۔ آج تو خود عیسائی دنیا میں یہ بحث جاری ہے کہ حضرت عیسٰیؑ کی زبان کون سی تھی اور جس زبان میں انھوںنے خطاب کیاتھا وہ اب بھی کوئی زندہ زبان ہے؟ موجودہ انجیل، حضرت عیسٰیؑ کے بہت بعد مرتب ہوئی، اس لیے اس طرح کے سوالات کا قطعی جواب نہیں دیاجاسکتا۔
حضرت عیسٰیؑ بارہ تیرہ سو سال قبل حضرت موسٰی نے توریت پیش کی تھی۔ وہ بھی اپنے اصل الفاظ میں نہیں پائی جاتی۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد مرتب ہوئی۔ اس کے مرتب کون تھے اور ان کے حالات کیا تھے۔ انھوںنے توریت ایک عرصہ کے بعد کس طرح مرتب کی، یہ ساری باتیں ہمارے علم میں نہیں ہیں۔ خودحضرت موسٰی کی سوانح حیات بھی پوری طرح محفوظ نہیں ہے۔ ان کے علاوہ دیگر آسمانی صحیفوں کا بھی یہی حال ہے۔ ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہاجاسکتاکہ وہ محفوظ ہیں۔ لیکن قرآن کامعاملہ یہ ہے کہ جس اللہ نے یہ کتاب نازل کی اسی نے یہ وعدہ بھی فرمایاکہ یہ کتاب قیامت تک جوں کی توں محفوظ رہے گی:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۹ (الحجر:۹)
’’ہم نے یہ قرآن اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘
یہ کتاب محمدﷺ نے جس طرح پڑھی اور تلاوت کی، آپ کے ساتھیوں نے ایک لفظ کے فرق کے بغیر اسی طرح اسے پڑھا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بلاخوفِ تردید کہاجاسکتاہے کہ جو قرآن آج پڑھاجاتا ہے وہی ہےجو محمدﷺ کی زبان مبارک سے سنا گیا۔ اس کے ساتھ یہ کتاب پوری کی پوری حفظ کی جاتی رہی۔ دنیا میں اس طرح کی کوئی مثال نہ پہلے تھی اور نہ آج ہے کہ اتنی ضخیم کتاب، دو ایک افراد نہیں ہر دور کےہزاروں لاکھوں انسانوں کے سینوں میں محفوظ ہو اور اسے بے تکلف ازاوّل تاآخر وہ سناسکتے ہوں۔ اس کا تھوڑا بہت حصہ تو ہر اس مسلمان کو جو نماز پڑھتا ہے لازماً حفظ ہوتاہے۔ یہ اہتمام کسی دوسری مذہبی کتاب کے ساتھ دیکھنے میں نہیں آیا۔
اس کے ساتھ اول روز سے قرآن مجیدکی کتابت کابھی اہتمام ہوتا رہا ہے۔ قرآن مجید نہ صرف حفظ کیاجاتاتھا بلکہ اسے تحریری طورپر محفوظ بھی کیاجاتاتھا۔ دور نبوت سے لے کر آج تک اس کے ہزاروں نہیں لاکھوں ایڈیشن چھپ رہے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں چھپ رہے ہیں، ہندوستان میں چھپ رہے ہیں، پاکستان میں چھپ رہے ہیں، عرب دنیا میں چھپ رہے ہیں، امریکہ و یورپ میں چھپ رہے ہیں اور طویل عرصےسے چھپ رہے ہیں۔ وہ نسخے بھی دریافت ہورہے ہیں جو آپﷺ کے صحابہ کرامؓ نے اور ان کے بعد والوں نے لکھے تھے، ان میں اور دنیا میں کہیں بھی چھپنے والے کسی بھی نسخہ میں ایک لفظ بلکہ ایک شوشہ کا فرق نہیں پایاجاتا۔ حجاز میں جو قرآن مجید چھپ رہا ہے وہی قرآن مجید نول کشور کے مکتبہ سے ہندوستان میں چھپتا ہے۔ دونوں میں ذرہ برابر فرق واختلاف نہیں ہے۔ قرآن کے علاوہ کوئی آسمانی کتاب محفوظ نہیں ہے، صرف وہ محفوظ ہے۔
قرآن مجید بتاتاہےکہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں نے حضرت آدمؑ سے حضرت عیسٰیؑ تک انسانوں کو جو راہ ہدایت دکھائی تھی وہ زمانہ گزرنے کے ساتھ گم ہوگئی ۔ان کی تعلیمات میں تحریف ہوتی چلی گئی۔ صحیح باتوں کے ساتھ غلط باتیں بھی ان میں درآئیں، بہت سی غلط باتیں ان کی طرف منسوب ہوگئیں۔ قرآن کادنیا پر ایک بڑا احسان یہ ہے کہ نبیوںکی صحیح تعلیمات کو اس نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا اور غلط باتوں کو خارج کردیا ہے۔ اس نے نبیوں کی بعض تعلیمات میں تحریف کی نشان دہی اور ان کی تصحیح بھی کی۔ اس نے بتایاکہ حضرت آدمؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہ راست کی ہدایت ملی تھی، حضرت نوحؑ کو اس نے اپنی ہدایات سے نوازا تھا، حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسٰی کو واضح تعلیمات عطا کی گئی تھیں۔ ان کے علاوہ دوسرے پیغمبروں کی تعلیم برحق تھی۔ اس کے خلاف جو باتیں کہی جاتی ہیں وہ غلط اور بے بنیاد ہیں، ان کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص جاننا چاہے کہ اللہ کا دین ہمیشہ سے کیارہاہے اور اس کے پیغمبروں کی کیا تعلیم تھی تو اسے قرآن ہی سے معلوم کرناہوگا اور قرآن پر ایمان لاناہوگا۔
قرآن مجید نے یہ بات بھی صراحت کے ساتھ کہی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی پیغمبر آئے وہ اپنے اپنے دور کے لیے، اپنے اپنے زمانے کے لیے آئے۔ اپنے وقت میں انھوںنے بہترین خدمات انجام دیں، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا، اس کی بندگی اور اطاعت کی دعوت دی۔ کوئی پیغمبر عراق میں، کوئی شام میں، کوئی فلسطین میں اور کوئی حجاز میں آیا۔ اس بنیاد پر کہاجاسکتاہے کہ اس کے پیغمبر ہندوستان، چین اور دنیا کے دوسرے ملکوں اور خطوں میںبھی آئے ہوں گے، لیکن یہ سب ایک محدود وقت کے لیے آئے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کادورختم ہوگیا۔ اب ایک ایسے پیغمبر کی ضرورت تھی، جس کی تعلیم عالمگیر ہو، قیامت تک کے لیے ہو، ہر ملک اور ہر خطہ کے انسانوں کے لیے ہو۔ اسی لیے محمدﷺ کی بعثت ہوئی اور آپؐ سارے عالم کے لیے رسول بنائے گئے۔
قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (الاعراف:۱۵۸)
’’اے نبی! کہہ دیجیے، اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بناکر بھیجا گیا ہوں۔ وہ اللہ جس کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت حاصل ہے۔‘‘
تمام انبیاء پر ایمان
قرآن مجیداللہ کی طرف سے آئے ہوئے تمام پیغمبروں کو تسلیم کرتا، ان کی حقیقی تعلیمات کو پیش کرتا اور نوعِ انسانی پر ان کےاحسانات کا ذکر کرتا ہے۔ ان سب پر ایمان کو وہ ضروری قرار دیتاہے۔ ان میں سے کسی ایک کے انکار کو بھی وہ کفر سے تعبیر کرتاہے۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتاہے کہ اللہ کی آخری کتاب ہے۔ اس کے آنے کے بعد سابقکتابیں منسوخ ہوگئیں۔ اب اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
قرآن مجید سے پہلے توریت اور انجیل موجود تھی۔ ان کتابوں کو قرآن آسمانی کتاب مانتا ہے اور ان کے ماننے والوں کو صراحت کے ساتھ اہل کتاب قرار دیتا ہے۔ دنیا کے بڑے علاقے پر اہلِ کتاب کی حکومت بھی تھی۔ ان سے خطاب کرکے قرآن نے کہا:
يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُـبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۰ۥۭ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ۱۵ۙ يَّہْدِيْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَيُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِہٖ وَيَہْدِيْہِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۱۶ (المائدۃ:۱۵،۱۶)
’’اے اہلِ کتاب تمھارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے۔ وہ کتاب (توریت) کی ان بہت سی باتوں کو ظاہر کررہاہے، جنھیں تم چھپاتے تھے اور بہت سی باتوں کو نظرانداز بھی کررہاہے۔ بے شک تمھارے پاس اللہ کی طرف سےنور اور واضح کتاب آچکی ہے۔ اللہ اس کے ذریعے ان لوگوں پر جو اس کی مرضی کی اتباع کریں، سلامتی کی راہیں کھولتاہے اور انھیں اپنے حکم سے ظلمتوں سے نکال کر روشنی میںلاتاہے اور انھیں صراطِ مستقیم دکھاتا ہے۔‘‘
یہ جواب ہے اس سوال کا کہ توریت اور انجیل کے ہوتے ہوئے قرآن کی کیا ضرورت ہے؟ جواب کامنشاء یہ ہے کہ یہ کتابیں آج اپنی حقیقی شکل میں موجود نہیں ہیں۔ قرآن مجید نے ان کی بعض نمایاں تحریفات کی نشان دہی کرکے ثابت کردیاہے کہ ان کو کتابِ محفوظ کا مقام حاصل نہیں ہے۔ انسانی ترمیمات نے اس چشمۂ صافی کو گدلا کردیا ہے، اس لیے ہدایت و رہنمائی کے لیے ان پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا۔ اب اللہ کی آخری کتاب آچکی ہے جو پوری طرح محفوظ ہے۔ اب یہی واحد سرچشمۂ ہدایت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو جو قومی اور نسلی تعصبات سے بلندہوکر صرف اس کی رضا کاطالب ہو، اس کتاب کے ذریعے امن وسلامتی کی راہ دکھائے گا اور اسے ظلمتوں سے نکال کر نورِہدایت عطا کرے گا۔
اخلاق کی حقیقی بنیاد
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ سارے مذاہب ایک ہی راہ دکھاتے ہیں اور ایک ہی منزل تک پہنچاتے ہیں۔ اس کے ثبوت میں وہ مذاہب کی اخلاقی تعلیمات کا، جو تمام مذاہب میں مشترک ہیں، حوالہ دیتے ہیں۔ کوئی بھی مذہب جھوٹ، فریب، خیانت، بدعہدی، ظلم و ناانصافی کی تائید نہیں کرتا۔ کوئی مذہب یہ نہیں کہتاکہ جھوٹ بولنا، چوری کرنا اور کسی کا مال لوٹ لینا اچھا ہے۔ کسی نےدھوکہ فریب، خیانت اور بدعہدی کی تائید نہیں کی ہے۔ سب ہی کے نزدیک کسی کی عزت و آبرو سے کھیلنا اور کسی بے گناہ کی جان لینا پاپ کا کام اور گناہ کا باعث ہے۔ ہرمذہب صداقت اور راست بازی، دیانت و امانت، عفت وعصمت اور جان ومال کے احترام کی تعلیم دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اخلاق کایہ درس ہر مذہب کی تعلیم کاایک لازمی حصہ رہا ہے۔ قرآن نے بھی ان اخلاقیات کی تعلیم دی ہے اور پرزور طریقے سے دی ہے، لیکن اس سے پہلے وہ اللہ کے وجود، اس کی وحدانیت، وحی و رسالت اور آخرت پر ایمان کو ضروری قرار دیتا ہے۔
ان بنیادی حقائق کے انکار کے بعد آدمی اخلاق کاپابند ہوبھی جائے تو وہ حقیقی فلاح کامستحق نہ ہوگا۔ قرآن بتاتاہے کہ ان حقائق پر ایمان کے بعد ہی صحیح معنوں میں اخلاق پر عمل ہوسکتا ہے۔ ایک آدمی کبھی سچ اس لیے بولتاہے کہ اس میں اپنا ذاتی فائیدہ دیکھتاہے، کبھی فوری فائیدہ کی جگہ مستقبل کا فائیدہ اسے نظرآتا ہے وہ سوچتاہے کہ اگر اس وقت میںسوچ بولوں تو تھوڑا سا نقصان برداشت کرنا ہوگا، لیکن آئندہ بڑے فائدے کی توقع ہے۔ کبھی اس لیے سوچ بولتاہے کہ اس میں اس کاکوئی ذاتی فائیدہ تو نہیں ہوتا لیکن اس کے گھر اور خاندان والوں کو نفع پہنچ سکتا ہے۔ اس سے اوپر اٹھ کر کبھی وہ قوم کے فائدے کے لیے صداقت کااظہار کرتا اور اس کے لیے نقصان برداشت کرتا ہے، لیکن جہاں ان میں سے کوئی فائیدہ پیش نظر نہ ہوتو اس کے لیے سچائی کا محرک باقی نہیں رہتا اور اس کے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں۔ اس کے برخلاف اگر اللہ اور رسول پر انسان کا ایمان ہو اور وہ ان کی اطاعت و فرماں برداری کو اپنے لیے لازم قرار دیتا ہو اور اس کے دل و دماغ میں یہ یقین جاگزیں ہو کہ ایک دن اسے اپنے عمل کاجواب دینا ہے تو وہ ہمیشہ اور ہر حال میں سچائی کا پابند رہے گا۔ نفع یا نقصان کوئی چیز اسے صداقت او رراستی سے نہ ہٹاسکے گی۔
قرآن مجید کاایک خاص پہلو جو آدمی کو اپنی طرف متوجہ کرتاہے وہ اس کا طرزِاستدلال ہے۔ وہ جب قرآن پڑھتا ہے تو صاف دیکھتاہے کہ قرآن جو کچھ کہتاہے دلیل کے ساتھ کہتاہے، بے دلیل کوئی بات نہیں کہتا، وہ مختلف مسائل میں اپنا موقف بیان کرتاہے اور کہتاہے کہ اس کےخلاف اگر تمھارےپاس کوئی دلیل ہوتو پیش کرو۔ دلیل کاجواب دلیل سے ہونا چاہیے۔ بغیر دلیل کے قرآنی دعوت کو رد کردینا نامعقولیت ہے۔ چناںچہ وہ جگہ جگہ کہتاہے:
قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (البقرہ:۱۱۱)
’’(اے پیغمبر، اُن سے) کہو کہ تم اگر اپنے دعویٰ میں سچے ہوتو اپنی دلیل پیش کرو۔‘‘
روایت پرستی یا اتباعِ حق
قوموں کی تاریخ میں بعض اوقات ان کی قدیم روایات (Customs) بڑی اہمیت اختیار کرلیتی ہیں۔ وہ انھیں اپنی پہچان سمجھنے لگتی ہیں اور کسی قیمت پر ان سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ کبھی کبھی تو ان روایات کو قانون کادرجہ حاصل ہوجاتاہے جس کی خلاف ورزی کی کوئی شخص ہمت نہیں کرپاتا۔ مذہب کی روایات تو اس کے ماننے والوں کے نزدیک حق و صداقت کااصل معیار بن جاتی ہیں۔ وہ ان میں کسی غلطی کے اِمکان کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ ہر چیز کو باپ دادا کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر حق و ناحق کا فیصلہ کرتے ہیں۔ قرآن مجیدنے کہا قومی اور مذہبی روایات الگ ہیں اور حق و صداقت ان سے بالکل الگ حیثیت رکھتی ہے۔ حق ہر چیز پر مقدم ہے۔ اگر یہ روایات حق کی میزان پر پوری اترتی ہوں تو وہ سرآنکھوں پر رکھنے کے قابل ہیں، ورنہ انھیں رد کردینا چاہیے۔ یہ کوئی دانش مندی نہیں ہے کہ آدمی روایات کے پیچھے حق کو ٹھکرائے اور ضلالت و گمراہی میں بھٹکتا پھرے۔ اس نے روایت پرستوں کے بارے میں کہا:
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ (البقرہ:۱۷۰)
’’جب ان سے کہاجاتاہے کہ اللہ نے جو دین نازل کیاہے اس کی اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم اس طریقے کی اتباع کرتے ہیں، جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ کیا یہ باپ دادا کی اتباع کریںگے، چاہے وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں اور نہ راہِ ہدایت پر ہوں۔‘‘
اہلِ عرب کے نزدیک بھی باپ دادا کے طریقوں کی بڑی اہمیت تھی۔ انھیں وہ سراسر حق سمجھتے تھے۔ وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ باپ دادا سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ قرآن نے ان کے اس جاہلانہ رویے کا جگہ جگہ ذکر کیا ہے۔ اس سے منکرینِ حقکے ذہن اور نفسیات کاپتہ چلتاہے۔ اللہ کے پیغمبروں نے اُن کی نفسیات کی اصلاح کے لیے اُن سے کہا:
قٰلَ اَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِاَہْدٰى مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَيْہِ اٰبَاۗءَكُمْ (الزخرف:۲۴)
’’پیغمبر نے کہاکہ اگر میں تمھارے پاس تمھارے باپ دادا کے طریقے سے بہتر طریقہ لے آئوں تو کیا پھر بھی تم اس کاانکار کروگے۔‘‘
اِس سوال کا مطلب یہ ہے کہ میں تمھارے سامنے ایک بہتر اور معقول بات رکھ رہا ہوں۔ کیا تم اسے محض اس وجہ سے رد کردوگے کہ وہ تمھارے قدیم طریقوں یا روایات کے خلاف ہے؟ لیکن عموماً ان روایات پرستوں نے ایک صحیح نظامِ فکر و عمل کو، جو اپنی پشت پر دلیل و برہان کی قوت رکھتاتھا، رد کردیا اور اپنی روایات پر جمے رہے۔ ان کاجواب تھا:
قَالُـوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ كٰفِرُوْنَ۲۴ (الزخرف:۲۴)
’’انھوں نے کہا جو دین دے کر تم بھیجے گئے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔‘‘
قرآن کی اصل حیثیت یہہے کہ وہ کسی انسان کی تصنیف نہیں بلکہ اللہ کی کتاب ہے۔ کوئی بھی فرد بشر بلکہ ساری دنیا کے انسان مل کر بھی اس جیسی کتاب نہیں پیش کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو پیدا کیا، وہی ان کا خالق اور پروردگار ہے۔ اس نے ان سب کی ہدایت کے لیے یہ کتاب نازل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو پیغمبر تاریخ کے مختلف ادوار میںآئے اور جو کتابیں نازل ہوئیں ان میں سے کسی کی تعلیم اب اپنی صحیح شکل میں باقی نہیں ہے۔ صرف قرآن مجید ہی واحدکتاب ہے جو پوری طرح محفوظ ہے۔ اسی پر اعتماد کیاجاسکتا ہے۔ اِسلام عقیدے کے معاملے میں جبر کاقائل نہیں ہے۔ وہ اپنی بات دلائل کے ساتھ پیش کرتاہے۔ کسی کو اس کے قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ یہ ہے اسلام کے موقف کی معقولیت۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2015