یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ oأَیَّاماً مَّعْدُودَاتٍ فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیْضاً أَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْْراً فَہُوَ خَیْْرٌ لَّہُ وَأَن تَصُومُواْ خَیْْرٌ لَّکُمْ اِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَo ﴿البقرہ:۱۸۳،۱۸۴﴾
’اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کردیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیائ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقوے کی صفت پیدا ہوگی۔ چند مقررہ دنوں کے روزے ہیں، اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو ، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں ﴿اور پھر نہ رکھیں﴾ تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے۔ لیکن اگر تم سمجھو تو تمھارے حق میں اچھا یہی ہے کہ تم روزہ رکھو۔‘
سورہ البقرۃ کے عمومی مخاطب یہود ہیں۔ مگر اس کے آخری تہائی حصے کے مخاطب مسلمان ہیں جن کو زندگی گزارنے کے جواحکام دیے گئے ہیں ان میں دنیا کی امامت کے لیے نماز، روزہ ، حج، جہاد ، انفاق ، معیشت ، معاشرت وغیرہ شامل ہیں۔ درج بالا آیات میں مسلمانوں کو روزے کے احکام دیے گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔ اس طرح اللہ نے تین باتیں بڑے واضح انداز میں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔ پہلی بات روزے کا فرض ہونا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے اور تیسری بات یہ ہے کہ ان روزوں کا مقصد ایمان والوں میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔
اللہ نے لفظ صیام استعمال کیا ہے۔ یہ عربی لفظ صوم کی جمع ہے۔ صوم کے معنےٰ رکنا یا بند باندھنے کے ہیں۔ جس طرح ایک رواں دواں دریا کے پانی کو روکنے کے لیے دریا پر بند باندھا جاتا ہے اور جب ضرورت نہیں رہتی تو پانی کو رواں رکھنے کے لیے بند کھول دیا جاتا ہے، اسی طرح عام حالات میں جائز و مطلوب عمل کو حسب ضرورت روکنا اور اس سے رکے رہنے کا نام صوم ہے ۔ اس صوم میں کھانا ، پینا اور جنسی تعلقات جیسے جائز کاموں پر عمل کرنے سے انسان کو معینہ اوقات کے درمیان روک دیا جاتا ہے۔ فرض صوم کے لیے یہ معینہ اوقات رمضان کے مہینے میں ہر بستی اور شہر والوں کے لیے مقرر کردیے گئے ہیں۔ روزوں کے لیے ماہ رمضان اور اس کے دنوں میں معینہ اوقات اجتماعی طور پر اختیار کیے جائیں گے۔ کسی فرد کو یہ آزادی نہیں کہ وہ اس فرض عبادت کی ادائی کے لیے اپنی مرضی یا سہولت کی خاطر مہینے یا اس کے اوقات میں تبدیلی کرے۔
انسان جب روزے رکھتا ہے تو اس کا مقصد صرف اللہ کے احکام کی اطاعت ہوتاہے۔ ورنہ اگر وہ چھپ کر سارے ممنوعہ اعمال کرڈالے تو کون ان کو دیکھ سکتا ہے؟ اسی لیے مسلمان کو حکم ہے کہ روزے میں وہ نہائے، دھوئے ، خوشبو لگائے تاکہ اس پر روزے کے اثرات بظاہر نظر نہ آئیں۔ چنانچہ اللہ اس عبادت کو خاص اپنے ساتھ منسوب کرتا ہے اوراس کی جزا کا اعلان کرتا ہے۔ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ ’اللہ کہتا ہے کہ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دیتا ہوں۔‘ ﴿ابوہریرہ، متفق علیہ﴾۔
روزے کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ جسم کی زکوٰۃ ہے۔ مال و اسباب کی زکوٰۃ صاحب نصاب مسلمانوں پر فرض ہے۔ اسی طرح صاحب صحت مسلمانوں پر صحت کی زکوٰۃبھی فرض کی گئی ہے۔ یہ بات ہمیں اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ ’ ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔‘ ﴿ابوہریرہ، ابن ماجہ﴾۔ اس حدیث کو سمجھنے کے لیے اگر انسانی جسم کی ساخت پر ذرا سا غور کیا جائے تو بات آسان ہوجاتی ہے۔ انسانی جسم ایک مشین ہے جس کو ایک عرصے تک کام کرتے رہنے کے بعد مرمت اور اصلاح اور سروسنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسانی جسم جب تھک جاتا ہے تو اسے آرام کی ضرورت ہوتی ہے اور نیند انسانی اعضائ بجز معدے کو یہ آرام فراہم کرتی ہے۔ نظام ہضم چوبیس گھنٹے مصروف کار رہتا ہے۔ روزہ اسے دن میں چند گھنٹے مہیا کرتا ہے تا کہ معدہ بھی آرام کرلے۔ روزے میں چونکہ انسان فطرتاً جائز عادات سے روک دیا جاتا ہے اس لیے یہ اس پر گراں ہوتا ہے اور اسے وہ مشقت گردانتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ مشقت اہل ایمان ہی کیوں برداشت کریں۔ جبکہ دوسرے پیغمبروں کی امتیں بھی گزرچکی ہیں؟ کیا یہ مشقت انھیں بھی اٹھانی پڑی تھی؟ قرآن اس کا جواب ہاں میں دیتا ہے اور بیان کرتا ہے کہ یہ مشقت صرف شریعت محمدی کے ماننے والوں پر نہیں ڈالی جارہی ہے۔ بل کہ ان سے پہلے بھی جو قومیں گزری ہیں ان پر بھی ڈالی گئی تھی۔ یہ ایک خبر تھی ، یہ ایک دعویٰ تھا جو ایک نبی امی کی زبان سے اس سے سینکڑوں سال پہلے گزری ہوئی قوموں کے بارے میں کرایا گیا۔ اس زمانے میں نہ کوئی کتب خانہ تھا اور نہ کوئی مدرسہ ، نہ ٹی وی تھا اور نہ انٹرنیٹ ، نہ اخبارات تھے اور نہ ریڈیو۔ غرض کہ اطلاع و ابلاغ کے ذرائع مہیا نہیں تھے کہ جس سے پرانی تاریخ معلوم ہوتی ، مگر ایسی بات کہلائی گئی جو حق تھی۔ اس سے ضمنی طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے نبی تھے اور اللہ کی طرف سے ان پر وحی نازل ہوا کرتی تھی۔ آج کے حقائق اس دعوے کو ثابت کرتے ہیں کہ پہلی امتوں پر بھی روزے فرض تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جب چالیس دن کوہ طور پر گزار کر آئے تو یہود نے اس دن کو عید منا لیا اورساتویں ماہ کی دس تاریخ کو روزہ رکھنے لگے۔﴿سیرت النبی ، علامہ شبلی نعمانی﴾۔ روایت میں ہے کہ یہ وہی دن ہے جب فرعون غرقاب ہوا اور یہودیوں کو نجات حاصل ہوئی۔ یہ وہی دن ہے جو ہجری سال کے پہلے ماہ کی دس تاریخ کو واقع ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس دن اہل یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی کی خوشی میں روزہ رکھتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ’ موسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں سے زیادہ ہم ماننے والے ہیں لہٰذا مسلمان بھی اس دن روزہ رکھیں مگر یہودیوں سے فرق کرنے کی خاطر نویں کو بھی روزہ رکھیں۔‘ ﴿عبد اللہ ابن عباسؓ متفق علیہ﴾۔ چنانچہ اس طرح پہلی مرتبہ مسلمانوں پر روزہ فرض ہوا۔ بعد میں جب اللہ نے زیر مطالعہ آیات کے ذریعے رمضان میں روزے فرض کیے تو ماہ محرم کے عاشورہ کے ایام کے روزے نفل قرار دیدیے گئے۔ اہم بات جو اللہ تعالی نے ان آیات میں بیان کی ہے وہ ان روزوں کا مقصد ہے۔ درحقیقت روزے کا مقصد اہل ایمان کو صرف مشقت میں مبتلا کرنا نہیں بلکہ اللہ چاہتا ہے کہ اہل ایمان میں تقوی پیدا ہو یعنی یہ احساس اجاگر کرنا ہے کہ انسان پر اس کے معاشرے اور خود اس کے جسم کے حقوق ہیں جن کو احساس ذمے داری اور اس خوف کے ساتھ کہ اللہ کے سامنے جواب دہی کرنی ہے، ادا کرنا اس پر فرض ہے۔ یہی تقوے کی تعریف ہے ۔﴿تفہیم القرآن ﴾
روزہ ایمان کو پختہ کرنے اور عمل کو سدھارنے میں معاون ہے اور اس طرح مغفرت کی سبیل پیدا کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’جس نے روزہ ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھا اللہ اس کے تمام گناہ معاف فرما دے گا۔‘ ﴿ابوہریرہؓ متفق علیہ﴾۔روزہ نہ صرف بھوک اور پیاس پر صبر کراتا ہے بلکہ جنسی تقاضوں پر بھی صبر پیدا کرتا ہے اور اس طرح فحش باتوں سے بھی بچاتا ہے۔ کئی احادیث ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ روزے دار کو فحش باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے ، کسی کو گالی نہ دینا چاہیے۔ کوئی زیادتی کرے تو روزے دار کو یہ کہہ دینا چاہیے کہ وہ روزے سے ہے۔ روزہ ڈھال ہے اور جھوٹ اور غیبت اس میں سوراخ کردیتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’ اگر کوئی روزے کی حالت میں جھوٹ بولے یا اس کے عمل میں کوئی جھوٹ ہو تو اللہ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔‘ ﴿ابوہریرہؓ بخاری﴾۔
روزہ ایمان میں پختگی پیدا کرتا ہے اور اللہ کے ساتھ بندے کے تعلق کو استوار کرتا ہے۔ روزے کی حالت میں کثرت سے نوافل و تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تراویح کا نظام اسی لیے قائم کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’جس نے رمضان میں ایمان اور احتساب کے ساتھ رات میں نماز پڑھی اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‘ ﴿ابوہریرہؓ متفق علیہ﴾ رمضان میں راتوں کو نماز قائم کرنے کے ساتھ اس کی بھی تلقین کی جاتی ہے کہ مسلمان اعتکاف کرے۔ دنیاسے کٹ کراللہ سے تعلق قائم کرنے کا یہ بھی ایک بہت مؤثر طریقہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کو امت مسلمہ کی رہبانیت قرار دیا ہے۔
نفس انسانی اور اللہ کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ روزہ مسلمان کو حقوق العباد کی ذمے داری ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔ جو مال بھی مسلمان کے پاس ہے وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے اور اللہ اس مال کو خرچ کرنے کا ایک اصول بھی بتاتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کے مال میں شریک کرتا ہے۔ چنانچہ ایک مسلمان کو روزہ رکھ کرکثرت سے صدقہ اور خیرات کرنا چاہیے۔ ایک حدیث کے مطابق روزہ داروں کو روزہ افطار کرانا چاہیے خواہ ایک گلاس پانی سے ہی ﴿سلمان فارسیؓ بیہقی﴾۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اس کثرت سے صدقہ اور خیرات کیا کرتے تھے کہ گویا آندھی کا جھکڑ تھا جو چل رہا تھا ﴿عبد اللہ ابن عباسؓ بخاری﴾۔
مختصر یہ کہ روزے اس لیے فرض کیے گئے کہ مسلمان اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرے ، اپنے ایمان کو پختہ کرے ، دوسروں کے حقوق کو بدرجۂ اتم پورا کرے ، اور اپنے کردار کو سنوارے اور ترشی اور تنگی میں صبر اختیار کرے۔حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ روزوں کے اوقات و تعداد کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لوگوں کو وقت اور تعداد کا اختیار دے دینے سے تاویل وفرار کا دروازہ کھل جاتا، ان تعینات سے افراط و تفریط سے بچایا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی اس پر اتنا عمل کرتا کہ کوئی اثر مرتب نہ ہوتا اور کوئی اتنے غلو سے کام لیتا کہ ناطاقتی اور کم زوری حد کو پہنچ جاتی۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دروازہ بند ہوجاتا۔ آگے فرماتے ہیں کہ وقت کا یہ تعین تقلیل غذا کے طریقے کو بھی متعین کردیتا ہے جس کے تحت خوراک کی مقدار کم کرنے کے بجائے شریعت نے کھانوں کے درمیان وقفہ طویل کردیا ہے اس سے حیوانی خواہشات پر چوٹ پڑتی ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ مدت تکلیف ما لا یطاق میں مبتلا کرنے والی نہیں ہے ﴿حجۃ اللہ البالغہ﴾۔
اللہ نے روزوں کے لیے رمضان کا مہینامنتخب کیا ہے۔ اس لیے کہ اسی ماہ میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کے لیے ہدایت اور فرقان ہے۔ اور یہ اس ماہ کی فضیلت ہے۔ اللہ نے فرمایا جو اس ماہ کو پالے وہ اس میں روزے رکھے ۔ ایک مسلمان جس جگہ ہے وہاں اگر رمضان کا مہینا شروع ہوگیا ہے تو وہ روزہ رکھنا شروع کردے اور پورے ماہ روزے رکھے کہ یہی اس کے لیے معینہ دن ہیں۔ اور اگر وہ کسی ایسی جگہ سفر کرکے جاتا ہے جہاں رمضان شروع ہو چکا ہے تو وہاں روزہ رکھنا اس پر فرض ہے۔آگے چل کر اللہ روزوں میں سہولتوں کا ذکر بھی کرتا ہے۔ رمضان میں جو مسلمان اپنے کسی مرض یا سفر کی بنا پر روزہ نہیں رکھ سکتا تو اللہ نے اس کو روزہ نہ رکھنے کی سہولت دی ہے اور جو روزے ان وجوہ کی بنا پر چھوٹ جائیں ان کو بعد میں رکھ لیا جائے۔
مرض اور سفر کے سلسلے میں آیت کے الفاظ مطلق ہیں ان میں کوئی قید اور شرط نہیں۔ یہ حکم مرض کی شدت یا سفر کی مشقت سے مشروط نہیں تاکہ لوگوں کو سہولت ہو اور وہ دشواری میں نہ پڑیں ﴿فی ظلال القرآن ، سید قطب﴾۔ لہٰذا کوئی بھی سفر یا کوئی بھی مرض ہو اس میں روزہ چھوڑا جاسکتا ہے۔ سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آنے والے چند واقعات کا ہم یہاں مطالعہ کرتے ہیں جن سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ اس سہولت سے کس قدر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں ایک شخص روزے کی شدت سے بے ہوش ہوگیا۔ آپ ﷺ کو معلوم ہوا تو آپﷺ نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی کا کام نہیں ہے۔ ﴿جابرؓ متفق علیہ﴾۔
ایک سفر میں چند لوگوں نے روزہ رکھا تھا اور کچھ لوگوں نے روزہ نہیں رکھا تھا۔ جولوگ روزہ نہیں تھے انہوں نے خیمے لگائے اور روزہ داروں پر چادروں سے سایہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’آج روزہ نہ رکھنے والے اجر لے گئے۔‘﴿انسؓ متفق علیہ﴾۔
مریض اور مسافر کی طرح عورتوں کو بھی یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ اگر اپنی ماہواری کی بنا پر روزہ نہ رکھ سکیں تو بعد میں پوراکرلیں۔ ایک حدیث ان عورتوں کو بھی یہ سہولت دیتی ہے جو یا تو حاملہ ہوں یا بچوں کو اپنا دودھ پلارہی ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’بے شک اللہ نے مسافر ، حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی پر سے روزہ ہٹا لیا۔‘ ﴿انسؓ ترمذی و ابو داؤد﴾۔ وہ تمام لوگ جن کو رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی سہولت دی گئی ہے وہ بعد میں روزوں کی تعداد پوری کریں گے۔ اللہ نے فرمایا کہ اور جو طاقت رکھتے ہوں ان کے لیے ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا فدیہ ادا کرنا ہے۔ اللہ نے لفظ ’یطیقونہ‘ استعمال کیا ہے۔ اس کی تشریح میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ اکثر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ جو مشکل سے روزے کی طاقت رکھتے ہوں وہ مسکین کو کھانا کھلائیں لیکن بعد میں یہ رعایت واپس لے لی گئی جب یہ کہا گیا کہ رمضان کے مہینے میں لازماً روزے رکھے جائیں اور رعایت کی وجہ سے چھوٹے ہوئے روزوں کی بعد میں گنتی پوری کی جائے۔ لیکن ایک معنی یہ بھی لیا گیا ہے کہ اس طاقت کا رعایت سے تعلق نہیں بل کہ روزہ چھوڑنے والے کی مالی طاقت مراد ہے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلائے ورنہ مقیم اور صحت مند پر ہر حال میں روزہ فرض ہے۔ غرض جو بات بھی ہو اللہ نیکی کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے زیادہ بھی کرے تو نیکی کرنے والے کے لیے اس میں بہتری ہے۔ روزے کے سلسلے بعض صورت حال میں مزید رعایتیں بھی ملتی ہیں۔ اگر کوئی اتنا بوڑھا ہوچکا ہو کہ روز بروز کم زور ہوتا جارہا ہے اور صحت بحال ہونے کا امکان ختم ہوچکا ہو تو وہ بھی روزہ رکھنے کے بجائے مسکین کو فدیہ دیدے۔بعض امور ایسے بھی ہوتے ہیں جو انسان کی قدرت سے باہر ہوتے ہیں ان حالتوں میں روزہ نہیں ٹوٹتا۔ مثلاً ایک حدیث کے مطابق اگر کسی نے بھولے سے کچھ کھا پی لیا تو وہ روزہ پورا کرے کہ اللہ نے اسے کھلایا پلایا ہے۔ ﴿ متفق علیہ﴾۔ بالکل اسی طرح اگر کسی کو معمولی قے ہوگئی ہے تو وہ بھی اپنا روزہ پورا کرے۔ ﴿ابو داؤد﴾۔ اسی طرح خواب میں بعض دفعہ مرد ناپاک ہوجاتے ہیں کہ اس پر ان کا اختیار نہیں ہوتا ، اس سے بھی ان کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اللہ تو مسلمانوں کے لیے آسانی چاہتا ہے اور ان کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2012