آپ کے بچے پر آپ کی اچھی باتوں اور نصیحتوں کا اثر ضرور پڑتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ان کا اثر گہرا اور دیرپا ہو۔ لیکن آپ کے رویے کا اس کے اوپر بہت گہرا اور تاعمر باقی رہنے والا اثر ہوتا ہے۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کو نصیحتیں کرتے ہیں لیکن ان بچوں کے ساتھ ان کا رویہ ان نصیحتوں کو بے اثر کردیتا ہے۔ والدین کے تربیتی رویے کی خوبی یا خرابی بچے کی شخصیت پر بہت گہرے اثرات ڈالتی ہے۔
پرکیتی پرساد (کلکتہ) سینئر جرنلسٹ اور کالم نگار ہیں، تربیت اولاد ان کا خاص موضوع ہے اور وہ بطور پیرنٹگ کوچ مشہور ہوئیں۔ موصوفہ نے ParenTeen نامی کتاب تصنیف کی، وہ کہتی ہیں:
‘‘مجھے یہ تسلیم کرتے ہوئے افسوس ہورہا ہے کہ والدین ٹاکسک، تکلیف دہ اور اپنے بچے کی نشوونما اور شخصیت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ وہ ٹاکسک جان بوجھ کر ہوتے ہیں یا نہیں یہ جاننا غیر ضروری ہے۔ نتیجہ ہمیشہ ارادے سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ٹاکسک پیرنٹگ ضرر رساں ہوتی ہے اور اکثر بچے پر زندگی بھر کا تاثر چھوڑتی ہے۔’’
اولاد کی تربیت کے سلسلے میں بہت سے والدین اس کا خیال کرتے ہیں کہ خود انھیں کون سی اچھی عادتیں اپنانی چاہئیں لیکن ایسے بھی کچھ کام ہیں جو والدین کو نہیں کرنے چاہئیں مگر اس طرف ان کی توجہ کم ہی جاتی ہے۔ ایسی عادتوں کا شمار Parenting Mistakes میں ہوتا ہے۔ والدین سے لاشعوری طور پر ایسی کچھ غلطیاں ہوتی ہیں جن کے مہلک اثرات و نتائج بچوں کی شخصیت پر پڑتے ہیں۔ ہر ایک عمل میں کرنے اور نہ کرنے کے کام (Do’s and Don’ts)ہوتے ہیں جو اس عمل کو صحیح معنوں میں انجام دینے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ کئی مرتبہ ہم Dos پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں لیکن Don’t s کو ترک نہیں کرپاتے جس کے بعد کام یابی کی مطلوب سطح تک پہنچنا دشوار ہوجاتا ہے۔
ڈائنا بلمرگ (Diana Blumberg Baumrind) اپنی تحقیق Parenting Styles کے لیے پہچانی جاتی ہیں۔ موصوفہ نے نوٹ کیا کہ اسکول جانے والے بچوں میں مختلف عادات پائی جاتی ہیں جو کہیں نہ کہیں والدین کے مخصوص طرز تربیت کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اپنے اس مشاہدے کے تحت متعدد انٹرویو سے ملنے والے نتائج پر غوروفکر کرنے کے بعد وہ 1960 میں کیلیفورنیا یونیورسٹی میں اپنا نظریہ پیش کرنے میں کام یاب رہیں۔ 1980 کی دہائی میں میکوبی اور مارٹن (ماہرین نفسیات) نے اس ماڈل میں اضافہ کیا۔ ماڈل کی بنیاد ان چیزوں پر ہے کہ والدین اپنے بچوں کو کس حد تک کنٹرول کرتے ہیں اور وہ کس حد تک ان کی جذباتی ضروریات کو قبول کرتے ہیں یا سمجھ پاتے ہیں۔
اس تحقیق میں والدین کے تربیت کے انداز کی درجہ بندی کچھ یوں ہے:
تحکمانہ طریقہ تربیت (authoritarian parenting)
آزاد طریقہ تربیت (permissive parenting)
غافلانہ طریقہ تربیت (neglectful parenting)
معتدل قواعد و ضوابط پر مبنی طریقہ تربیت (authoritative parenting)
حالیہ برسوں میں محققین نے اس فہرست چند مزید کا اضافہ بھی کیا، جو یہ ہیں
ہیلی کاپٹر پیرنٹنگ (helicopter parenting)
ٹائیگر پیرنٹنگ (tiger parenting)
اٹیچمنٹ پیرنٹنگ (attachment parenting)
فری رینج پیرینٹنگ (free range parenting)
ان اقسام کے ذریعے والدین کی مخصوص تربیتی سرگرمیوں کی جانب اشارات ملتے ہیں۔ والدین کی کوتاہیوں کا جائزہ لینا آسان ہوجاتا ہے۔ یہ ماڈل والدین کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں۔
تحکمانہ طریقہ تربیت(authoritarian parenting):
اس زمرے میں آنے والے والدین کے پاس اصول و ضوابط کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے جس پر وہ سختی سے عمل کرتے ہیں اور کرواتے بھی ہیں۔ ان سے کسی قسم کی لغزش برداشت نہیں ہوتی۔ یہ اپنے بچوں کے جذبات، عمر، فطرت اور طبیعت کا خیال کیے بنا بس انھیں پابند بنانا چاہتے ہیں۔ یہ بچوں کے احساسات کو سمجھے بنا ان سے توقعات رکھتے ہیں۔ بچے کو اپنی رائے پیش کرنے کی کوئی آزادی نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ صفائی پیش کرنے کو بھی بدتمیزی کہتے ہیں۔ بچوں کے معاملات پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے ان سے بے جا سوالات بھی کرتے ہیں۔ وہ بچوں کے بنیادی کاموں (سونا، کھانا، پینا،پہننا، چلنا) کو اپنے طور سے کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے والدین غصیلے اور سخت مزاج ہوتے ہیں۔ جو بچوں کو ان کی کسی بھی چوک کے عوض ڈانٹ پلاتے رہتے ہیں اور جسمانی سزائیں بھی دیتے ہیں۔ ایسے والدین محبت کا اظہار نہیں کرتے نہ ہی بچوں کے ساتھ کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ Tiger Parenting کو اس طریقہ کار کی ایک مثال سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ کار اس لیے اپنایا جاتا ہے تاکہ بچے کام یابی کی بلندیوں کو چھو سکیں جس کے لیے انھیں اپنے مقصد کو نظر میں رکھتے ہوئے جبراً نیند، کھانے پینے کی، آرام کھیل کود اور تقریبات کی قربانی دینی پڑتی ہے۔
والدین کا رتبہ معتبر بنا کر پیش کیا گیا ہے اس کا لحاظ پہلے والدین کو ہی کرنا چاہیے۔ اونچا مقام ہے تو اونچے کردار کا نمونہ بھی پیش کرنا چاہیے۔ بچوں کو فرماں بردار اس لیے بنایا جائے کیوں کہ ان کے لیے والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنا حکم الٰہی ہے نہ اس لیے کہ والدین کی بڑائی قائم ہو۔ والدین کا رعب جتانا اور دھونس جمانا ان کے مرتبہ پر زیب نہیں دیتا۔ اور بچوں پر بھی اس کا برا اثر پڑتا ہے۔
ایسے والدین کے زیر تربیت بچوں کو آزاد اور فطری ماحول نہیں ملتا اس لیے وہ پر اعتماد اور مضبوط کردار کے نہیں ہوتے۔ خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے ناکامیاں بھی ان کا پیچھا کرتی ہیں۔ ایسے بچے ذہنی الجھنوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ انھوں نے کبھی اپنے جذبات کی ترجمانی سیکھی ہی نہیں ہوتی چناں چہ وہ ورک انوائرمنٹ اور نجی زندگی میں رشتے نہیں نبھاپاتے۔یہ فیصلہ لینے میں بھی کم زور ہوتے ہیں۔ انھیں احساسات بیان کرنے کا سلیقہ نہیں ہوتا اس لیے یہ غصّہ میں آس پاس کے لوگوں پر چیختے ہیں۔ نگراں کا ڈر ذہن میں بیٹھ جاتا ہے تو جھوٹ بھی بولتے ہیں۔ ایسے بچے صرف سخت والدین کے سامنے فرمانبردار ہوا کرتے ہیں اور بعد میں من مانیاں کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے بچپن میں مطیع ہوں مگر جوان ہوکر باغی بن جاتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق بچوں کو دیکھ کر مسکرانا، انھیں گلے سے لگانا، انھیں بوسہ دینا، ان کے ساتھ کھیلنا بچوں سے اظہار محبت کے وہ طریقے ہیں جن سے بچے مثبت توانائی کے ساتھ نگہداشت پاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا رویہ اپنے بچوں اور نواسوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت سے لبریز رہتا۔ آپ نے والدین کو بچوں سے پیار کرنے اور انھیں اپنائیت دینے کی تاکید بھی فرمائی۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے حضرت حسنؓ کو بوسہ دیا۔ وہیں حضرت اقرع بن حابسؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ میرے دس لڑکے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (بخاری 5997)
آزاد طریقہ تربیت (permissive parenting):
اس زمرے میں وہ نرم مزاج والدین آتے ہیں جو بچوں کو ‘‘نہ’’نہیں کہہ پاتے۔ ان کے پاس بہت ہی کم اصول و ضوابط ہوتے ہیں جن پر یہ پابندی کی سختی نہیں کرتے۔ یہ بچوں کے جذبات کو بہت جلدی سمجھتے ہیں لیکن رشتوں میں حدود قائم نہیں کرتے۔یہ بچوں سے بے حد محبت کرتے ہیں اور ان سے دوستی کا رشتہ بناتے ہیں اور ان کی ہر بات مانتے ہیں۔ بچے اور والدین کی کبھی تکرار ہی نہیں ہوتی لہذا ایسی تربیت پانے والے بچے ہمیشہ خود کو صحیح سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے میں ان کا اپنے جذبات پر قابو نہیں ہوتا اس لیے یہ جھگڑالو بنتے ہیں۔
ایسے والدین کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ بچے کو کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو اور وہ بچہ کو اس کی بنیادی ضروریات سے بڑھ کر سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ بچوں کو مایوسی اور احساس کمتری سے بچانے کے لیے ان کی ہر مانگ پوری کرنا غلط ہے۔کیوں کہ اس طرح بچے ‘انکار’ سننے کی استطاعت کھو دیتے ہیں۔ ایسے بچے امتحانات میں کچھ کم نمبرات ملنے پر، کھیل کے میدان میں کبھی ہار جانے پر یا بڑے ہوکر جاب انٹرویو میں سلیکشن نہ ہونے پر یا کہیں شادی کا رشتہ نہ ہونے پر ٹوٹ جاتے ہیں۔ بے جا لاڈ پیار کی وجہ سے جذباتی اور نفسیاتی طور ان کی شخصیت میں اعتدال اور مضبوطی نہیں رہتی ہے۔ وہ قنوطیت کا جلد شکار ہوتے ہیں اور ایسے ماحول میں پرورش پانے والے نوجوان خودکشی کو حل سمجھتے ہیں۔
والدین کا ایک گروہ ہیلی کاپٹر پیرنٹنگ (helicopter parenting)زمرے میں آتا ہے جو بےجا لاڈ پیار والی تربیت سے مماثلت تو رکھتا ہے لیکن اس کا ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اس گروپ کے والدین اپنے بچے کو مصائب و آلام سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس زمرے میں آنے والے والدین بچوں کی حد سے زیادہ حفاظت کرتے ہیں۔ سروے کے مطابق براعظم ایشیا میں بسنے والے خاندانوں میں والدین اپنے بچوں پر اپنا مکمل کنٹرول چاہتے ہیں اس ڈر سے کہ بچے کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں، یا کہیں بھٹک نہ جائیں۔ والدین اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو یاد رکھتے ہوئے بچوں کے بہت سے معاملات میں مداخلت کرنے لگتے ہیں۔والدین کی مداخلت اپنے آپ میں رہ نمائی، رہبری اور مدد ہوتی ہے۔ لیکن اگر وہ حد سے زیادہ ہوجائے تو نقصان دہ ہوتی ہے۔ یہ والدین بچے کی کسی بھی تکلیف پر فوری طور پر ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسی تربیت میں بچوں کو خود سے سیکھنے کے مواقع نہیں مل پاتے۔ ان کے پاس ہنرمندی کا فقدان ہوتا ہے۔ ایسا بچہ جوان ہونے کے بعد بھی بہت سے معاملات میں والدین پر ہی انحصار کرتا ہے۔
اولاد بخل اور بزدلی کا باعث ہے۔ (مشکوٰة: 628)
انسانی فطرت میں سب سے نمایاں جذبہ اولاد سے محبت کا جذبہ ہے۔ اس سے عاری ہونا جہالت ہےاور اس میں غلو کرنا بربادی ہے۔ زندگی آسانی اور تنگی کا نام ہے اور بحیثیت والدین ہمیں بچوں کو زندگی کے نشیب وفراز کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ بچوں کو آرام مہیا کرکے انھیں سست اور کاہل بنانا اور انھیں جذباتی طور پر کم زور کردینا والدین کی ایک بڑی غلطی ہے۔ جب بچہ کم سنی میں ضد کرے کہ فلاں بسکٹ چاہیے، فلاں چاکلیٹ پسند ہے تب بچے کو ہمیشہ ہی اس کی پسند کی چیز مت دیا کریں۔ اس سے پوچھیے اگر یہ بازار میں نہ مل سکا تو دوسرے کون سے متبادل ہیں۔ اس طرح ان کی پسند کی اشیا ہمیشہ نہ دیتے ہوئے انھیں کبھی بدل کر بھی دیجیے۔ اس عمل سے بچے کو تجربہ ہوگا کہ اگر پلان A نہ ہو تو پلان B ہے۔ بچے کے نزدیک کام یابی حاصل کرنے کے لیے کئی راستے ہوں گے۔ وہ ایک ہی بار میں ہار ماننے والوں میں سے نہ ہوگا اور اس طرح بچہ سلجھی ہوئی شخصیت کا مالک ہوگا اور برضا زندگی گزارے گا۔
غافلانہ طریقہ تربیت (neglectful parenting):
یہ والدین اپنے بچے کی زندگی میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔ اپنے بچے کی بنیادی یا جذباتی ضروریات کو پورا نہیں کرتے۔ ان کے پاس نہ ہی حدود متعین ہوتے ہیں نہ نظم و ضبط کا کوئی نظام۔ یہ بچوں کی سرگرمیوں میں حوصلہ افزائی کرنا یا ان کی کارکردگی پر خوشی کا اظہار کرنا جیسے اہم مواقع گنواتے رہتے ہیں۔ایسا کہنا غلط ہوگا کہ ان کی لاپروائی کی وجہ ان کی مصروفیات ہیں۔ اس طرح کے والدین خود بھی ایسی قسم کی تربیت میں پلے بڑھے ہوتے ہیں اور وہ ذہنی تناؤ اور الجھنوں میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ ایسے والدین اکثر نشے کے عادی ہوتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق یہ طریقہ کار سب سے بدترین ہے۔ بچے غافل والدین کی وجہ سے اکیلا پن محسوس کرتے ہیں اور اپنی خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔ انھیں رہ نمائی و رہبری نہیں ملتی اس لیے یہ بارہا ناکام ہوتے رہتے ہیں۔ انھیں نہ خود پر بھروسا ہوتا ہے نہ دوسروں پر بھروسا کرتے ہیں۔ خود کے بارے میں منفی رجحانات رکھنے والے یہ بچے خود کو محبت کے قابل نہیں سمجھتے۔ نشے کے عادی ہوتے ہیں۔
والدین کا ایک گروہ جو فری رینج (free range parenting) میں آتا ہے وہ اپنے بچوں کے لیے روایتی ماحول سے ہٹ کر آزاد ماحول فراہم کرتے ہیں۔ یہاں بچے اپنی زندگی کے فیصلے لینے کے لیے خود ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس خاندانی نظام میں اصول نہ کے برابر ہوتے ہیں جہاں بچے والدین کی نگرانی اور رہبری سے زیادہ اپنے تجربات اور غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔ ایسے والدین کو لاپروا کہاجاسکتا ہے لیکن یہ مکمل طور پر غافل نہیں ہوتے یہ بس اپنے بچوں کو خود سے سیکھنے کے لیے آزادی دینا چاہتے ہیں۔ یہاں بچے بہت سی غلطیاں کرتے ہیں اور بظاہر تو یہ خوش رہتے ہیں لیکن اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں کیوں کہ والدین اپنا کردار یا اپنی ذمہ داری مکمل طور پر ادا نہیں کرتے۔
بہرحال، غفلت سہواً ہو یا یا نہ ہو قابل قبول نہیں ہوتی۔ مفتی محمد شفیع سورة الأنعام کی آیت 151 کی تشریح میں لکھتے ہیں:
‘‘قتل اولاد کا جرم اور سخت گناہ ہونا جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے وہ ظاہری قتل کرنے اور مار ڈالنے کے لیے تو ظاہر ہی ہے اور غور کیا جائے تو اولاد کو تعلیم و تربیت نہ دینا جس کے نتیجے میں خدا اور رسول ﷺ اور آخرت کی فکر سے غافل رہے، بد اخلاقیوں اور بےحیائیوں میں گرفتار ہو یہ بھی قتل اولاد سے کم نہیں۔ قرآن کریم نے اس شخص کو مردہ قرار دیا ہے جو اللہ کو نہ پہچانے اور اس کی اطاعت نہ کرے۔ أَوَمَنْ كَانَ مَیتًا فَأَحْیینَاهُ میں یہی بات بتائی گئی ہے۔ (دیکھیں: سورة الأنعام: 122) جو لوگ اپنی اولاد کے اعمال و اخلاق کے درست کرنے پر توجہ نہیں دیتے، ان کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں یا ایسی غلط تعلیم دلاتے ہیں جس کے نتیجے میں اسلامی اخلاق تباہ ہوں وہ بھی ایک حیثیت سے قتل اولاد کے مجرم ہیں اور ظاہری قتل کا اثر تو صرف دنیا کی چند روزہ زندگی کو تباہ کرتا ہے، یہ قتل انسان کی اخروی اور دائمی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔’’ (معارف القرآن : جلد سوم : ص484)
معتدل قواعد و ضوابط پر مبنی طریقہ تربیت(authoritative parenting):
اس زمرے میں آنے والے والدین اپنے بچوں کی جذباتی، ذہنی، جسمانی ضروریات کو سمجھتے ہوئے ان کی عمر، جنس، فطرت، صحت کو سامنے رکھ کر اصول وضع کرتے ہیں۔ یہ ایسے ضوابط بناتے ہیں جو والدین اور بچے دونوں کے لیے مفید ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسے رشتوں میں مضبوطی ہوتی ہے جس کے باعث بچے پراعتماد خودمختار بن کر پروان چڑھتے ہیں۔ یہ نرم مزاج اور ہمدرد ہوتے ہیں لیکن نظم و ضبط کی پابندی کے معاملات میں کسی حد تک سختی بھی کرتے ہیں۔ یہ ایسا کوئی تشدد نہیں کرتے جس سے بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت و نشوونما متاثر ہوں۔ یہ بچوں کو نظم و نسق میں ڈھلنے کے لیے وقت دیتے ہیں۔ ان کی کوتاہیوں پر ان سے وجہ (صفائی) بھی طلب کرتے ہیں اور آئندہ کے لیے حل بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ والدین دوستانہ روی اختیار کرتے ہوئے بچوں سے ان کی رائے بھی مانگتے ہیں۔ اس لیے ان بچوں میں اپنی بات رکھنے کا شعور ہوتا ہے اور وہ اپنے خیالات کی ترجمانی کا سلیقہ بھی جانتے ہیں۔
ایک طریقہ اٹیچمنٹ یا لگاؤ پر مبنی تربیت (attachment parenting)کے طور پر سامنے آیا ہے، جہاں والدین بچوں کی (خصوصاً نومولود یا کمسن بچوں کی) جذباتی اور حسی ضروریات کا خیال کرتے ہوئے انھیں ان (بچوں) کے قریب رہ کر جسمانی رابطہ کے ذریعے محبت اور اپنائیت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی طریقہ اعتدال پسند والدین بھی اپناتے ہیں اس فرق کے ساتھ کہ وہ ایسی قربت ہر عمر کے بچوں کے ساتھ متعین کردہ حدود میں اختیار کرتے ہیں۔ یہ بچے شفقت کے ساتھ پلے بڑھے ہوتے ہیں اس لیے اوروں کو بھی محبت بانٹتے ہیں۔ یہ ایک خوش حال اور کام یاب زندگی بسر کرتے ہیں۔
ڈائنا بلمرگ کے پیش کردہ نظریہ کے بعد ماہرین نفسیات اور محققین نے مختلف ممالک سے جتنی بھی تحقیقات پیش کیں ان میں اعتدال پسند رویہ کو ہی مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ ایک کام یاب طریقہ کے طور پر مانا جاتا ہے۔
واقعہ یوں ہے کہ والدین پر مذہب، علاقے، خاندان، جنسیت، علمی لیاقت اور تعلیمی قابلیت کا اثر ہوتا ہے اور ایک مخصوص طریقہ رائج ہوتا ہے۔ جیسے چین میں ٹائیگر پیرنٹنگ، اسپین میں اعتدال پسندی کے ساتھ آزاد طریقہ کار، ایشیا میں حاکمانہ طریقہ کار، جنوبی ایشیا میں ہیلی کوپٹر پیرنٹگ، امریکہ میں حاکمانہ طریقہ کے ساتھ اعتدال پسندی کے انداز رائج ہیں۔ والدین اپنے بچوں کا مزاج (غصہ، ضد، پڑھائی میں عدم دل چسپی، کاہلی) کو دیکھ کر ایک پیٹرن میں خود کو ڈھالتے ہیں۔ سارے پیٹرن ہی کارآمد نہیں ہوتے اس لیے ایسے تمام رائج طریقوں کی بنیادی معلومات ہونی چاہئیں۔
والدین کو اپنا تزکیہ کرتے رہنا ہے۔ انھیں اپنے انداز پر غورو فکر کرنا ہے۔ محققین نے کئی برسوں کے مشاہدات کے بعد ہی بہتر اور بدتر تربیت کی نشان دہی کی ہے۔ تربیت کے بدتر طریقے آسان تو ہوں گے لیکن مستقبل تباہ کردیں گے وہیں دوسری طرف ثمرات سے بھرپور خوش حال مستقبل کے لیے بہترین انداز تربیت کو بروئے کار لانے میں صبر اور محنت کرنی ہوگی۔اور یہ محنت ہرگز رائیگاں نہیں جائے گی۔ دنیا وآخرت دونوں جگہ کام آئے گی
۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2022