آپ کی رائے

مکرمی!                                      السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

محترم عبدالاحد صاحب ، سابق امیر حلقہ مدھیہ پردیش کا مراسلہ ﴿زندگی ٔ نو،ستمبر ۲۰۱۲؁ء، ص:۸۹﴾ زیر نظر ہے۔ مراسلے میں دو باتیں بہت ابھری ہوئی نظر آئیں؛ گویا یہی مراسلے کا ماحصل ہیں۔ ایک : ’’ٹھنڈی ٹھنڈی دعوت‘‘ جو خواہ زندگی بھر دی جائے انقلاب برپا نہیں کرسکتی۔ دوسرے : ’’اقتدار کی کشمکش‘‘ کے بغیربلنددرجات کبھی حاصل نہیں ہوسکتے۔ جہاں اسلام اور کفر کے مابین مقابلہ ہو ﴿لہٰذا تیونس اور مصر میں نہیں﴾ وہاں اسلام کی تاریخ، بالخصوص تاریخ دعوت کے مطالعے سے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انقلاب برپا ہوتا ہی ہے۔ اس کشمکش کے بعد جو دعوت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ ہاں اقتدار کی کشمکش سے تو کوئی انقلاب معکوس ﴿کائونٹرریولیوشن﴾ ضرور بپا ہوسکتا ہے﴿اور ہم بھارت میں اس کا مشاہدہ بصارت اور بصیرت دونوں طرح کی آنکھوں سے کر رہے ہیں﴾۔ بلند درجات سے کیا مراد ہے؟ فلسفے میں اس سے یقینا کوئی بہت عظیم بات مراد ہوگی لیکن اس سے عوامی، عمومی اور قابل فہم مراد اسمبلی و پارلیمنٹ کی ممبری ہے لیکن یہ ممبری نہ ایوان کے ان مسلم ممبروں کو کوئی بلند درجہ دلاسکی اور نہ اس قوم کو بلند درجات عطا کرسکی جو ہرموسمِ انتخاب میں سرگرم ہوکر انھیں سپورٹ کرتی ہے اور نتائج کے اعلان کے بعد جیت جانے والوں کی تعداد گن گن کر چند ایام کے لیے خوش ہو لیا کرتی ہے۔

مذکور بالا پہلی بات میں یہ بات واضح نہ ہوسکی کہ دعوت کا کام فی نفسہ ایک ’’ٹھنڈا ٹھنڈا‘‘ کام مانا جائے گا، یا تحریک اسلامی دعوت کا کام ٹھنڈے ٹھنڈے انداز سے کر رہی ہے۔ اگر دونوں باتیں درست ہوں،یا کوئی ایک تو فاضل مراسلہ نگار کو گرم گرم دعوت پر زور دینا چاہیے تھا اور یہ مفید ہوتا۔ یا پھر اقتدار کی کشمکش کو ہی گرم گرم دعوت کہا جائے گا؟ انبیاء  ؑ  کی دعوت میں جس کی تفصیل ہمیں قرآن حکیم سے ملتی ہے اور خود حضور اکرمﷺ  کی دعوت میں جس کی تفصیل قرآن سے بھی ملتی ہے اور حضور اکرمﷺ  کے اسوے میں بھی، ’’دعوت‘‘ اقتدار کی کشمکش کے قالب میں نظر نہیں آتی۔ ورنہ پھر متعدد انبیاء  مثلاً حضرات ابراہیم، موسیٰ وعیسی علیہم السلام خدا کے تفویض کردہ انبیاء ی مشن میں ﴿نعوذ باللہ﴾ ناکام قرار پائیں گے۔ اس میں یہ بات بھی مضمر ہے کہ پھر نہ انھیں ’’بلند درجات‘‘ حاصل ہوئے نہ ان کے پیروکاروں کو ۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ آخری امت مسلمہ کے لیے اسوہ، سابقہ انبیاء  ؑ  کا نہیں بل کہ آخری نبیﷺ  کا، حجت ہے تب بھی حضور اکرمﷺ  کا پورا مشن اعلائے کلمۃ اللہ ﴿مکمل اظہارِ دین لِیُظْہِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ﴾کا تھا نہ کہ محض اقتدارِ حکومت کی منتقلی اور اس منتقلی کے لیے کشمکش کا۔ آپﷺ  نے نہ تو مکے میں یہ فرمایا کہ ابوجہل! تم ایک پارٹی بنا لو اور میں ایک پارٹی بنا لیتا ہوں۔ مقابلہ کرلو، جو جیت جائے اس کا اقتدار مکے پر، حجاز پر اور جزیرہ نمائے عرب پر قائم ہوجائے اور نہ مدینے میں یہ فرمایا کہ یہود و مشرکین تم ایک پارٹی بنالو، میں انصار و مہاجرین کی ایک پارٹی بنا ہی چکا ہوں۔ مقابلہ کرلو۔ جو جیت جائے اقتدار اس کا۔ آئو کش مکش اقتدار کے مرحلے سے ہم دونوں گزریں اور اسی کش مکش کے نتیجے کو فیصلہ کن عامل (Factor) بنا لیاجائے۔ اگر دونوں کو کچھ کم زیادہ حمایت ملے تو مشترکہ اقتدار ﴿کولیشن گورنمنٹ﴾ میں دونوں شامل ہوجائیں گے۔

الفاظ واصطلاحات ، اپنی عصری معنویت اورتاثیر رکھتے ہیں۔ لہٰذا جب ہم کش مکش اقتدار کی اتنی بلند آہنگ دعوت دیتے ہیں تو ہماری نیتوں اور ارادوں میں کیسا ہی اور کتنا ہی تقدس اور للٰہیت ہو ہمارے اس پرجوش نعرے کا معاصرتی تاثر عامۃ الناس کو ویسی ہی کش مکش اقتدار کی تفہیم کرائے گا، جو مثلاً یو پی اے اوراین ڈی اے کی کشمکش اقتدار سے ذہنوں میں ابھرتا ہے۔ عوامی سوچ، عوامی نفسیات اورعوامی ذہنیت وامنگوں سے صرفِ نظر کرکے، محض فکر وفلسفے کے گوشوں سے، تحریریں اور تقاریر وبیانات کے اسکرپٹ لکھنے کی میز سے اعلیٰ سطحی الفاظ، اصطلاحات اور نعروں کاابلاغ، انقلابی نتائج برآمد کردے تو یہ ایک معجزہ ہی ہوگا۔ دوسری طرف اگر تحریک اسلامی کی دعوت ملکی تناظر میں ’’دعوت اسلامی‘‘ اگر ٹھنڈی ٹھنڈی ہے تو یقینا اسے فعال تر اور گرم گرم بنانے پر زور دینا بھی چاہیے اور زور لگانا بھی چاہیے۔ اس کے لیے موجودہ کیفیت اور کمیت کو ، جو غالباً پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اسی نوے فیصد تک لے جانے میں کوئی امر مانع نہیں ہے خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ اسے ہماری پالیسی کے کتابچے میں اول مقام پر ’’درج‘‘ کیا جاتا رہا ہے۔ اس مرحلۂ آخر تک پہنچ جانے والی دعوت یقینا ، صالح انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ منہج انقلاب نبویﷺ  کا جو ہر یہی ثابت ہوا ہے۔

اسلام کے مزاج سے اوراسلام کے غلبہ ﴿ایوانِ اقتدار تک حاملینِ اسلام کے پہنچ جانے اور وہ بھی یوں کہ دیگر تمام غیر اسلامی عناصر واحزاب پر اُن کے غالب آجانے﴾ کے آخری ہدف سے تحریک اسلامی کا ایک بھی فرد اختلاف رائے نہیںرکھتا۔ لہٰذا اس کے علمی ومنطقی دلائل دینا ایک فعل عبث، وقت و توانائی اور وسائل کا ضیاع ہے۔ لہٰذا غیر ضروری بحثوں میں الجھنے الجھانے نیز تحریک کی صفوں میں نظریاتی محاذ آرائی کرنے کرانے کے بجائے بات یہاں سے آگے بڑھنی اور بڑھانی چاہیے۔ مثلاً : کیا اس وسیع وعریض ملک میں ﴿جو بے شمار عقاید، ان کے لاتعداد ذیلی عقیدوں، متعدد سیاسی نظریات افکار و احزاب، مختلف اخلاقی وسماجی اقدار اور ہزاروں سیاسی و نیم سیاسی اداروں کی آماجگاہ ہے﴾ اسلام کا پیغام تمام باشندگان ملک تک پہنچائے بغیر، اسلام کی بھرپور دعوت کے ذریعے اتمام حجت کے بغیر ’اسلام کے ’’نجات دہندہ ہونے‘‘ سے کثیر آبادی کو مطمئن کرائے بغیر، اسلام کے ایک بہترین نظام ہونے پر شرح صدر دلائے بغیر ﴿خواہ یہ کام ٹھنڈی ٹھنڈی دعوت سے کیے جائیں یا گرم گرم دعوت سے﴾، غلبۂ اسلام کا انقلاب اس بڑے خطۂ ارض پر ممکن ہے؟ اور اگر ممکن نہیں ہے تو کیا ’’اقتدار کی کش مکش‘‘ اسے ممکن بنا دے گی؟ راقم کا خیال ہے کہ اللہ کی سنت ایسی کبھی نہیں رہی ہے اور اگر مراسلہ نگار کا خیال اس کے برعکس ہے تو گزارش ہے کہ انبیاء  ؑ  کی تاریخ، اسلام کی تاریخ، قرآن حکیم کے مواد و اسلوب اور حضور اکرمﷺ  کے منہج کے ٹھوس حوالوں کے ذریعے اور ذرا کچھ معروضی اسلوب میں رہ نمائی فرمائیں۔

محمد زین العابدین منصوری، نئی دہلی۔۲۵                     موبائل نمبر:                   09810972870

محترم مدیر زندگی نو!

زندگی ٔ نو کے جولائی کے شمارے میں سید غلام اکبر: ایک ہردلعزیز شخصیت، مضمون بڑی گہری فکر والا ہے۔ میں بچپن سے ہی مرحوم سید غلام اکبر صاحب کا نام سنتا آرہا تھا۔ کبھی ملنے کا شرف تو میسر نہ ہوا لیکن اُن کی یاد میں جو مضمون لکھا گیا اُس کا کافی اثر مجھ پر ہوا میں نہیں جانتا تھا کہ موصوف اتنی اعلیٰ شخصیت کے حامل تھے۔ جی چاہتا ہے کہ کاش میں بھی اپنا کچھ وقت ان کے ساتھ بتاتا ۔ موجودہ دور میں تحریک اسلامی کو ایسے ہی صالح افراد کی ضرورت ہے۔ جو صلاحیت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر صالحیت پیداکرتے ہوں۔                                           ریاض احمد

روشن منزل، شیوپیٹھ، ۶ کراس ،رون ضلع گدگ ﴿کرناٹک﴾

محترم مدیر زندگی ٔ  نو!                    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ماہ اگست زندگی ٔ نو میں ڈاکٹر عبدالحمید گلبرگہ کا مراسلہ شائع ہوا ہے۔ اس مراسلے کو پڑھ کر نہ حیرت ہوئی اور نہ ہی تعجب، کیوں کہ جماعت کی رکنیت سے اخراج سے قبل بھی موصوف کے خطوط اور مراسلہ دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ ماہ نامہ زندگی ٔ نو جس کو نہ صرف تحریکی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے علماء  اور ملت کے دانشوران بھی پسند کرتے ہیں۔ ایک معیاری مجلہ جسے تحریکی ترجمان بھی کہا جاسکتا ہے، بے بنیاد مراسلوں کو بھی جگہ مل رہی ہے۔ قارئین کی رائے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جھوٹ، غلط بیانی ، نادانی، ناواقفیت اور کج روی کی ذہنیت والے مراسلوں کو بھی شائع کریں۔ اس طرح کے مراسلے آتے ہیں تو مدیرکو ایک سے دومرتبہ دیکھ لینا چاہیے ورنہ غلط فہمیاں پیدا ہوں گی اس کے ذمے دار آپ بھی ہوں گے۔

قرآنی تعلیمات، سیرت رسولﷺ ، تاریخ اسلامی اور ملک میں قائم تحریک اسلامی، موجودہ حالات میں اس کی حکمت عملی سے ناواقفیت کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب اپنی ذہنی اختراع کا انطباق کرناچاہتے ہیں ۔ بند کمرے میں کمپیوٹر کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے، اخبارات کا مطالعہ اور فرقہ پرست وتنگ نظر دانشوران کے مضامین نے ڈاکٹر صاحب کو متاثر کیا ہے اوراس کا عکس مراسلے میں دیے گئے مشوروں میں نظر آتا ہے۔

تحریک اسلامی کے سلسلے میں جب تنگ دلی پیدا ہوتی ہے تو ایک لمبے عرصے سے تحریک سے وابستہ فرد میں فکری انحطاط کا آغاز ہوتا ہے جس کی وجہ سے فرد قنوطیت کا شکار ہوجاتا ہے پھر فکر ونظر بدل جاتی ہے ، ڈاکٹر صاحب کا کچھ ایسا ہی حال نظر آتا ہے۔ موصوف نے لکھا ہے کہ زکوٰۃ کی نصف رقم دوروں اور ہمہ وقتی کارکنان کے کفاف پر خرچ ہوتی ہے۔ بے بنیاد باتیں لکھ کر تحریک اسلامی کے سلسلے میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

جماعت اسلامی ہند ،دعوت کے مختلف محاذوں پر کام کر رہی ہے ، برادران وطن سے انفرادی ملاقاتیں ، نئے بھائی وبہنوں کی تربیت کے مراکز کا قیام، دعوتی کاموں کے لیے افراد کی تیاری، توحید رسالت وآخرت کے پیغام کی پیش کش کے علاوہ ملک میں پریشان حال اور ظلم وزیادتی کے شکار افراد کے درمیان جماعت خدمت اورریلیف کا کام انجام دیتی ہے۔ مصارف زکوٰۃ کے سلسلے میں قرآنی تعلیمات ، احادیث رسولﷺ  کی روشنی میں لکھی گئی علامہ یوسف القرضاوی، مولانا ابوالحسن علی ندویؒ، مولانا شمس پیرزادہؒ، ڈاکٹر حمید اللہ ؒ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتابیں مطالعہ کرنا چاہیے۔

الحمدللہ جماعت اچھی طرح سے واقف ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کوکب اور کہاں خرچ کیا جاسکتا ہے۔ موصوف نے ہمہ وقتی کارکنان کا ذکر بھی کیا ہے، جماعت اپنی ضرورت، تقاضے اور فرد کی صلاحیت پر شوریٰ میں تفصیلی گفتگو کے بعد فرد کا تقرر کرتی ہے ۔ اس تقرر کے بعد بڑی سے بڑی قربانی دے کر جماعت کے لئے اپنا پورا وقت فارغ کرتا ہے تحریکی کام کے علاوہ ان کی اور کوئی مصروفیت نہیں ہوتی۔

تبلیغی جماعت بھی تحریک اسلامی کا حصہ ہے۔ ہمارے بھائی دیہات دیہات جاکر نماز کے علاوہ دین کی بنیادی تعلیمات پیش کرتے ہیں تو یقینا ہمیں خوشی ہونی چاہیے ۔ ان شاء اللہ  ایک وقت آئے گا کہ اقامت دین کے لیے نہ صرف یہ دونوں جماعتیں بل کہ اہل حدیث اور اہل سنت والجماعت ایک ساتھ چلیں گے۔ جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں میں نہ عہدوں کی خواہش ہے نہ منصبوں کا لالچ، یہ دین اسلام کے خادمین ہیں جو اپنی صلاحیت کے اعتبار سے خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے علم میں یقینا یہ بات ہوگی کہ رکن جماعت کو اس کی خواہش کی بنیاد پر ذمے داری تفویض نہیں کی جاتی اور اگر کوئی رکن جماعت بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا اخراج ہوتا ہے۔

ملک میں اسلامی انقلاب کب آئے گا اور کتنی صدیاں گزریں گی، اصل سوال نہیں ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ مخلصانہ جدوجہد ہر سطح پر ہونی چاہیے ۔ ڈاکٹر عبدالحمید صاحب کو مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ اپنے دل کی زمین پر اسلامی تعلیمات کو نافذ کریں، خدا ترس لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں، عمر کے اس آخری حصے میں موت کو قریب سے دیکھیں اور اپنی آخرت کی فکر کریں۔

محمد یوسف کنی، ناظم علاقہ گلبرگہ

مکرمی!

نئی دہلی کے ’’زی سلام‘‘ ٹی وی چینل سے اردو زبان میں متعدد پروگرام نشر ہوتے ہیں جن میں سے ایک کا عنوان ہے : ’’حمد الٰہی ونعتِ رسولﷺ ‘‘۔ اس پروگرام کو بہ روئے کار لانے کے لیے ’’زی سلام‘‘ کا عملہ مختلف شہروں سے نعت پڑھنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کو تلاش کرکے لاتا ہے اور نعت خوانی کا مقابلہ منعقد کرتا ہے۔ پھر اس کی فلم بندی کرکے اُسے ٹی وی پر دکھایا اور سنایا جاتا ہے۔ اس نعت خوانی کے مقابلے میں بچوں کو انعام بھی دیے جاتے ہیں اور انعام سے سرفراز کرنے کے لیے نعت خوانوں کے انتخاب کا تین ججوں کو ٹھیکہ دیاجاتا ہے جن میں سے ایک تو کوئی خالص فلمی گویا ہوتا ہے جو نعتِ رسولﷺ  کے اندر فلمی گانوں کی طرح کے تال، سُر اور زیروبم کی تلاش میں رہتا ہے اور دو جج دوسرے معمولی سطح کے دو شاعر ہوتے ہیں جو اپنے حساب سے جانچ کر کے بچوں کو نمبر دیتے ہیں۔ چوں کہ نعت خالص دینی معاملہ ہے، اس لیے چند باتیں حوالۂ قلم کر رہا ہوں:

﴿۱﴾ اس پروگرام کو دیکھ کر اور سن کر اندازہ ہوا کہ تینوں جج صاحبان جاہل یا بے ایمان تھے۔ اس لیے کہ : ﴿الف﴾ ایک لڑکے نے معیاری نعت پڑھی، اس کا تلفظ بھی سو فیصد صحیح تھا، آواز بھی مناسب تھی اور نعت کو نعت کے لہجے میں پڑھ رہا تھا، مگر انھوں نے کم نمبر دیے ﴿ب﴾ ایک لڑکی نے کئی جگہ تلفظ کی غلطی کی، شعربھی معیاری نہیں تھے لیکن اس کو پورے نمبر عطا فرمائے ﴿ج﴾ ایک نے نہایت بھونڈے طریقے سے نعت پڑھی، اس کو بھی پورے نمبر بخشے گئے۔ ﴿د﴾ شرک آمیز اور جاہلانہ اشعار پر خوب خوب نمبر لٹائے گئے ﴿ہ﴾ صحیح اسلامی عقائد کے مطابق لکھی گئی نعتیں پڑھنے والوں کو نمبر دینے میں کنجوسی کا آخری درجہ بھی نہیں چھوڑا گیا۔

﴿۲﴾ پروگرام کو دیکھ کر اور سن کر ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ یہ پروگرام کسی خفیہ تنظیم کی مدد سے شریعت مخالف طریقوں کو رواج دینے کے لیے چلایاجارہا ہے۔کیوں کہ: ﴿الف﴾ اس پروگرام میں غیر محرم جوان جوان لڑکی، لڑکوں کے جوڑے بناکر ایک ساتھ کھڑا کرکے نعت پڑھوانے کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے ﴿ب﴾ رسول کریم ﷺ  نے ایک بار فرمایا تھا : ’’میں راگ راگنی کومٹانے کے لیے مبعوث ہوا ہوں‘‘۔ مگر نعت خوانی کے اس مقابلاتی پروگرام میں نعت کے ساتھ میوزک بھی دھڑا دھڑ چل رہی تھی۔ نعت کو گانے کے انداز میں اورسنگیت کے ساتھ پڑھنا دونوں باتیں ذکرِ رسول ﷺ کے ادب کے خلاف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے برابر ہیں ﴿ج﴾ کسی محفل یا فنکشن میں تالیاں بجانا ہیجڑوں کا کام ہے یا اسلام کے دشمن یہودیوں اور عیسائیوں کا۔ مگر ’’زی سلام‘‘ والے نعت نبی ﷺ پر بھی پٹا پٹ تالیاں بجا رہے تھے اور بجوا رہے تھے۔ کسی بے غیرت کو یہ خیال نہیں آرہا تھا کہ یہ محفلِ رسول ﷺ  ہے ۔یہ حرکتیں شانِ رسول ﷺ میں بے ادبی کے سوا کچھ نہیں!

رئیس احمد نعمانی،پوسٹ بکس نمبر ۱۱۴، علی گڑھ۔ ۲۰۲۰۰۱

محترمی ومکرمی!                           السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ماہ ستمبر ۲۰۱۲؁ء کا ’’زندگی ٔ  نو‘‘ نظر نواز ہوا۔ یوں تو ہر ماہ کے اشارات میں فکری رہ نمائی وتربیت کا وافر سامان موجود رہتا ہے لیکن اس ماہ کے اشارات بہ عنوان ’’سیکولرزم اور جمہوریت۔ اسلامی تصورات کے تناظر میں ‘‘ خوب ہیں۔ رائج الوقت سیکولرزم اور جمہوریت کے اسلامی تصورات سے صریحاً متصادم ہونے کے سلسلے میں جو دلائل اور وضاحتیں آپ نے پیش کی ہیں نیز مسلم اقلیتی ملکوں اورمسلم اکثریتی ملکوں میں مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں کے لیے جو لائحہ عمل پیش کیا ہے اُس میں کسی کو انگلی اٹھانے کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔

کالم مطالعۂ قرآن اور مطالعۂ حدیث کے تحت محترمی غلام حقانی اور انعام اللہ فلاحی کے مضامین بھی بہت پسند آئے۔

محترمی عبدالاحد خان اور جناب سیدشکیل احمد انور کے مراسلے بھی پڑھے۔

بعض حضرات پر الیکشنی سیاست کا ذوق اس قدر مسلط ہے کہ اس کے خلاف کچھ لکھا یا کہا جائے تو ان پر ہیجانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اس حالت میں وہ اس قسم کی تحریریں لکھنے اور گفتگوئیں کرنے لگتے ہیں جن میں فکری انتشار ہوتا ہے۔ ایک بات کا اقرار اور پھر اس کاانکار، بانی تحریک کی فکر سے انحراف یا غیر معقول اختلاف ، قرآن وسنت وسیرت رسولﷺ اور اسلامی تاریخ سے غلط باتیں منسوب کرنا یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ ان حالات میں اللہ سے ہم صرف دعا ہی کرسکتے ہیں۔

اللّٰہم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ۔

ہندوستان کے بعض دانشوران کہتے ہیں کہ ’’الیکشن لڑنا جہاد ہے‘‘ اور الیکشن ’’میدان جہاد‘‘ ہے۔ لیکن وہ خود اس جہاد میں عملاً شریک نہیں ہوتے۔ بہرحال یہ حضرات ذرا یہ بھی بتائیں کہ اس ’’میدان جہاد‘‘ میں جب دس دس بیس بیس مسلم امیدوار ایک دوسرے کے حریف بن کر صف آراء ہوں گے تو کون ’’شہید‘‘ ہوگا اور کون ’’غازی‘‘ ۔ جب کہ ہر ’’مجاہد‘‘ امیدوار کا دعویٰ یہ ہوگا کہ وہ حق پر ہے اور حق کے لیے یہ ’’جہاد‘‘ کر رہا ہے۔                                                        ایس رحمن ، بی اے

ایل 277، ملا کالونی، ہائوسنگ بورڈ، کروند، بیرسیہ روڈ۔ بھوپال

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2012

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223