آپ کی رائے

مدیر محترم! السلام علیکم!

The Companianکے اکتوبر کے شمارے کے ابتدائی صفحات نے دماغ میں ہیجان پیدا کردیا کہ دین کے نام پر کام کرنے والی تنظیم کا آرگن کس طرح نوجوانوں میں فکری گمراہی وکجی پیداکررہاہے۔ امن بنیادی ہے کی بات کے تحت آیت کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ امن بنیادی ہے کی بات کے تحت آیت کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ امن کے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا انصاف کے بغیر امن ممکن بھی ہے؟ اگر آج دنیا میں انصاف ہورہاہوتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔

No Compulsionمیں تمام واقعات قبل از اسلام کے quoteکرکے اسے غلط طریقے سے منطبق کیاگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے نزدیک اسلام لانے کے بعد کفر اختیار کرنے کی اجازت اسلام دیتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ارتداد کاکیا مطلب ہوتاہے؟ فتنۂ ارتداد کا مقابلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرامؓ  کے دور سے کیوں کیا جاتا رہاہے؟

پھراپنی فکری کجروی کو معراج پر پہنچاتے ہوئے goodاور bad Muslimکی تقسیم پیدا کی ہے۔ اور برے مسلمانوں کی تعریف آپ نے یہ کی ہے کہ یہ لوٹ مار پر اُترآتے ہیں، ٹریفک روکتے ہیں ، پتھر پھینکتے ہیں، جائداد جلاتے ہیں ۔یہ زیادہ تر جاہل مسلمان ہوتے ہیں۔

”Good Muslim”وہ ہیں جو پرامن احتجاج کرتے ہیں۔

اچھے مسلمان وہ ہیں جوکتاب لکھ کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔ دس روپیہ کے نوٹ پر single linerلکھ کر اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں وغیرہ ۔

عزیز بھائی! حالات کا دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ صحیح سمجھنا اور لکھنا بہت مشکل کام ہوتاجارہاہے۔ سوال یہ ہے کہ چارامریکی قتل ہوگئے ایک رمشہ مسیح پر مقدمہ ہوگیا کچھ سفارت خانوں پر ’’پاگل‘‘ ، ’’جاہل‘‘ ،’’بُرے مسلمانوں‘‘ نے حملہ کردیا تو یہ بہت بڑا جرم سمجھا جارہاہے مگر اس کو جرم بتانے والے جرم کی جڑ کی حفاظت کررہے ہیں اوباما نے کہا کہ ہم اس فلم بنانے کو برا سمجھتے ہیں مگر فلم بنانے والوں کی حفاظت دنیا بھر میں کریں گے۔ خان یاسر صاحب! جب آپ کے سر سے دانشوری کا بھوت اُترجائے تو سوچنے کی زحمت فرمائیں کہ جو شیطانی افعال ، زنا،سود، ہم جنس پرستی ، مادہ پرستی کی تہذیب ہے وہ توحید، عصمت، عزت، حرمت، نکاح، رحمت، کی تہذیب کو کیسے برداشت کرسکتی ہے؟ وہ مختلف حیلے بہانوں سے آپ کو چھیڑتی رہے گی یہاں تک کہ آپ اِس چھیڑچھاڑ کو اس کے لیے تکلیف دہ نہ بنادیں۔ اس کو قرآن ارہاب کہتا ہے اور دورِ حاضر اسے deterrent کہتا ہے۔

کتابوں کی ضرورت کتابیں پورا کرتی ہیں اور ارہاب کی ضرورت ’’قوت‘‘ سے پیدا ہوتی ہے۔ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد۔ اگر آج ایک مسلم مرکز اجتماعیت ہوتا یا کوئی بھی ایک مضبوط مسلم بلاک ہوتا تو یہ ممکن نہیں تھا۔ آخر ہندودیوی دیوتاؤں کا مذاق اڑانے والے امریکی ایک دم معافی کیوں مانگ لیتے ہیں؟ روس میں گیتا پر پابندی کے مقدمہ پر ہندوستان کی حکومت کے دباؤ نے آخر فیصلہ بدلنے پر مجبور کردیا۔

مولانا مودودیؒ  نے کتاب لکھی اس سے پہلے بھی سینکڑوں معرکۃ آلاراء کتب لکھی گئی ہیں کیا ان سے اِن شیطانوں کی شیطنیت پر رول لگی ، جب مغرب حضور کی عائلی زندگی اور کردار پر انگلی اٹھاتا ہے، اُمہات المؤمنین کے کردار پر انگلی اٹھاتا ہے تو اس کا علمی جواب ہزاروں کتابوں میں موجود ہے اب اگر یہ انتہائی بازاری اور گھٹیا فلمیں اور کارٹون بنانے لگیں تو اس کا علمی جواب کیا ہوگا؟

اگر ماحولیات، Child labour، آزاد تجارت، تمباکونوشی، اپاہجوں کی حالت اور نہ جانے کن کن امور پر UNقانون بناتی ہے تو مذاہب کی توہین اور تضحیک کے خلاف قانون کیوں امریکہ اور مغرب نہیں بننے دیتے۔ واضح رہے کہ اس قانون کا مسودہ کئی بار مسلم ممالک پیش کرچکے ہیں مگر یہ قانون بننے نہیں دیا جاتا کیوں؟

پیغمبر آخر الزماں ﷺ  کے کارٹون شائع ہوں گے مگر اسی روز شہزادی کا sunbathلیتے ہوئے فوٹو شائع کرنے سے عدالت روک دیتی ہے؟ کیا اس سے آزادی کا حق متاثر نہیں ہوتا؟ امریکہ کی سیکورٹی پر خطرہ ٓزادی کی آڑ میں برداشت نہیں کیاجاتا۔ مگر خاتم النبینﷺ  کی عزت او رتقدس پر حملے کو آزادی کی آڑ میں جائز رکھا جاتاہے۔ یہ کیا تہذیب ہے؟

کسی بھی کارروائی میں کچھ اَن چاہی کڑیاں جڑجاتی ہیں جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ نبیﷺ  کے زمانہ میں بھی ایسا ہوا تو کیا غزوات بند کردیے گئے؟ مغربی تہذیب تو جنگوں میں کروڑوں معصوموں کو ناپام اور کلسٹربموں اور بارودی سرنگوں کی نذر کرچکی ہے۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے احتجاج میں جو نقصان ہوا ہے کیا وہ مغرب کے اِن جرائم سے بڑا ہے؟ مسلم قیادت اگر شرعی فریضہ ادا کرکے مجرم کو قانون کے سامنے لے آتی تو اس کی نوبت بھی نہ آتی۔ بھائی !قلم کااستعمال سوچ سمجھ کر کریں۔

ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی، دہرہ دون

مکرمی !

زندگی نو، ستمبر۲۰۱۲ ’’آپ کی رائے‘‘ میں محترم عبدالاحد خاں صاحب ﴿سابق امیرحلقہ ایم پی﴾ کا مراسلہ نظرنواز ہوا۔ موصوف نے محسن انسانیت اور سورۂ نساءکی آیت کریمہ نمبر۷۸کے حوالے سے دور اوّل کی تحریک اسلامی کا تذکرہ کرتے ہوئے، فرمایا کہ جب تحریک مرحلہ جہاد  میں داخل ہوئی تو محدود تصورِ دین کے حاملین، ٹھنڈی ٹھنڈی دعوت کامزاج رکھنے والے اقتدار کی کشمکش کے لیے آمادہ نہیں ہوئے۔ بلکہ جولوگ آگے بڑھے ان کی راہ میں یہ رکاوٹ بنے۔

دوراوّل کی تحریک اسلامی کا تذکرہ کرنے کے بعد موصوف فرماتے ہیں کہ’’یہی صورت حال تحریک اسلامی ہند، کو پیش آرہی ہے۔‘‘ اب جو اب طلب امر یہ ہے کہ کیا دوراوّل کی تحریک اسلامی نے مرحلہ جہاد میں جو قدم رکھا تھا اُس کا مقصد’اقتدار کی کشمکش‘‘ تھا یا وہ اقتدار سے کشمکش تھی۔ جو اسلام کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کررہا تھا؟ اور —اب تحریک اسلامی ہند نے جو فیصلہ کیا ہے۔ کیااس کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار اعلیٰ کے لیے ’’اسلامی منشور‘‘ کے ساتھ ہم اس مرحلہ جہاد میں داخل ہوں۔ اگر ایسا ہے تو پھر واقعی وہ لوگ جو اس فیصلے سے مطمئن نہیں، وہ غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ لیکن اگر معاملہ یہ نہیں بلکہ موجودہ نظام کو ’’طاغوت‘‘ سمجھتے ہوئے، اور اسی طرز جمہوری کو اختیار کرکے ایوان میں پہنچ کر ’’اقامت دین‘‘ کی راہ آسان کرنا ہے، تو کیا یہ بھی ایک مبارک اقدام ہوسکتا ہے۔جب کہ قرآن کریم میں ’’طاغوت‘‘ سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔

طاغوت سے اجتناب اور انکار ،ایمان باللہ کا لازمی جز ہے۔ ضرورت ہے کہ حاکمیت الٰہ کا مفہوم اللہ کے بندوں کو بتایا جائے کہ ’’جس طرح اللہ تعالیٰ اس کائنات کا تکوینی حاکم مطلق ہے، ٹھیک اسی طرح تشریعی حاکم مطلق بھی ہے۔ قانون سازی کاحق صرف اُسی کو ہے۔ اللہ کی، یہ تشریعی وقانونی حاکمیت عقیدۂ توحید کا لازمی جز ہے۔ اور اس طرح اس بات میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ غیر اللہ کو مستقل بالذات حاکم اور قانون ساز تسلیم کرنا شرک ہے۔‘‘

فاضل مراسلہ نگار فرماتے ہیں، عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ظالم حکمراں کے سامنے کلمہ حق کہنا بڑا جہاد ہے۔ مگرسوال یہ ہے کہ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عصا لے کر فرعون کی حکومت کا ایک حصہ بن کر فریضہ حق ادا کیا؟ بلکہ سورۂ قصص آیت نمبر۱۷میں ہے: ’’موسیٰ نے کہا اے میرے رب! یہ احسان جوتونے مجھ پر کیا ہے اس کے بعد اب میں کبھی مجرموں کا مدد گار نہ بنوں گا۔‘‘ ابن جریر اور دوسرے مفسرین نے اس کایہ مطلب بالکل ٹھیک لیا ہے کہ اسی روز حضرت موسیٰ نے فرعون اور اس کی حکومت سے قطع تعلق کرلینے کا عہد کرلیا کیونکہ وہ ایک ظالم حکومت تھی اور اُس نے خدا کی زمین پر ایک مجرمانہ نظام قائم کررکھا تھا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ کسی ایمان دار آدمی کا یہ کام نہیں کہ وہ ایک ظالم سلطنت کاکل پرزہ بن کر رہے۔

اسلامی انقلاب، غلبہ اسلام یا ’اقامت دین‘ کے نصب العین ہونے میں کسی قسم کو شبہ نہیں ہے۔ البتہ طریقۂ کار کااختلاف ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی بات کو معقول اور شائستہ اور نرم انداز میں پیش کرتے رہیں۔ کسی کے تعلق سے قطعی فیصلہ نہ کرلیں کہ ’’یہ مرحلہ جہاد‘‘ آتے ہی میدان چھوڑ بیٹھے۔ یا کمزوری دکھانے لگے یا انہیں انقلاب کا پوری طرح شعور نہیں وغیرہ۔ میرا خیال ہے کہ محترم مراسلہ نگار اپنی بات مثبت انداز میں پیش کردیں تو بہتر ہے۔ ساتھ ہی ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ملت اسلامیہ کی صورت حال پر بھی تبصرہ فرمائیں۔ کیونکہ سیاسی انقلاب کے لیے ہمیں افرادی قوت کی ضرورت ہے اور پہلا حق ہمارا ایمان والوں پر ہے۔ اور آج ان ایمان والوں کی کیا کیفیت ہے ملک میں بیس کروڑ کی آبادی کے فکری، نظریاتی، جماعتی، مسلکی انتشار کا عالم یہ ہے کہ بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑ رہے ہیں اور لقمہ تر سمجھ کر نگل رہے ہیں، ہضم کررہے ہیں۔ گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ جیلوں میں سڑ رہے ہیں، عصمتیں لٹ رہی ہیں۔

اے کاش پہلے ہماری صفوں میں مضبوط اتحاد پیدا ہوجائے۔ ہم اپنے اصل مقام کو سمجھ لیں۔ قرآنی نصب العین پر متفق ہوجائیں۔ ’’اقامت دین‘‘ کی جدوجہد کے ساتھ ملی تحفظ کے لیے عملی اقدام ہم کرسکیں۔ تو ان شاء اللہ انسانیت کے لیے بھی ہم خیر امت بن کر اُبھریں گے۔ ورنہ جو اپنے دین کو اپنے اوپر غالب نہیں کرسکتے وہ دنیا میں اسے غالب کیسے کرسکیں گے….؟

محمدابراہیم خاں

افضل باغ، آکوٹ،۴۴۴۴۱۰۱، موبائل نمبر09983449218

مکرمی ایڈیٹر صاحب زندگی نو!      السلام علیکم

عرض مدعایہ ہے کہ جونپور میں کوئی رُکن جماعت پرچے کا خریدار نہیں ہے۔ایسا نہیں کہ جماعت کے لوگ ہیں نہیں ہیں مگر رسالہ نہیں خریدتے۔ غیر جماعتی لوگ اس کو علمی رسالہ سمجھ کر خریدتے رہیں۔ اب ان لوگوں کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے شبنم سبحانی صاحب اورسابق امیر جماعت اسلامی ہند مولاناابواللیث ندوی مرحوم کے مراسلات سے۔ کئی صفحات اسی سے بھرے ہوئے ہیں۔

میں شبنم صاحب کو جانتا ہوں وہ ایک عرصہ تک جونپور رہ چکے ہیں۔ اچھی صلاحیت کے مالک ہیں۔ دوسرا نمبر ڈاکٹر تابش مہدی صاحب کا ہے۔ وہ جون پور میں پڑھتے تھے توایک مسجد میں امامت بھی کرتے تھے۔ یہاں سے جانے کے بعد ماشاء اللہ بہت ترقی کی۔ یہ صاحب بھی جماعت کے مرحوم شخصیات کے اوصاف اور خوبیوں کا تعارف کراتے ہیں۔ اور غیر جماعتی شخصیات پر بھی لکھتے ہیں لیکن غیرجماعتی شخصیات پر مضامین لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس لیے کہ یہاں جماعت کے لوگ خریدار نہیں ہیں میری تجویز ہے جو لوگ غیر جماعتی ہیں ان کے لیے رسائل ومسائل میں اضافہ کردیں تو بہتر ہے۔

حفیظاحمد نعمانی،رکن جماعت اسلامی ہند، جونپور

مکرمی ومحترمی !           السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

یوسف کَنّی صاحب بے حد متحرک اور تحریک اسلامی سے وابستگی رکھنے والے نوجوان ہیں لیکن موصوف نے اپنے مراسلے میں جس غیظ وغضب کا مظاہرہ کیا ہے وہ ایسا ہے جیسے کوئی مرید اپنے مرشد کے خلاف ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتا۔ ماہ اگست میں میرا شائع شدہ مراسلہ دراصل چند یک تجاویز پرمشتمل تھا۔ یہ تجاویز جماعت کی موجودہ حالت میں ترقی سے متعلق ہی ہیں۔یقینا جماعت کے اورنظامِ حکومت کے مراکز قریب ہونے سے جماعت کی کارکردگی متاثر ہوسکتی ہے۔ کنّی صاحب کو اس مسئلے کی نزاکت کو سمجھنا ہوگا۔ مرکزی لیڈر شپ کے احکامات کی تعمیلِ محض سے علاقائی لیڈر شپ کے اُبھرنے کے امکانات باقی نہیں رہتے۔ میرا دعوتی کام فرقہ پرست دانشوروں کو دعوتی مراسلات لکھنا ہے۔ میں نے انگریزی زبان میں تقریباً چالیس تا پچاس ایسے دانشوروں کو خطوط لکھے ہیں جن کی فائل میرے پاس موجود ہے۔

زکوٰۃ کی نصف رقم کے صَرف کا مسئلہ شفافیت سے متعلق ہے اور یہ ایک اسلامی قدر ہے۔ بہتر ہے کہ کارکنان کفاف نہ لیں اور اعزازی خدمات انجام دیں۔ مرکزی دوروں پر اندازاً بیس لاکھ روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ اگر دوروں کو ختم کرکے صرف دلی شہر کو جس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے ہدف بنائیں تو بہت زیادہ کام ہوگا دِلّی وہ شہر ہے جہاں ملک کا حکمراں طبقہ رہتا ہے تمام بڑی سیاسی اور سماجی پارٹیوں کے ذمہ دار رہتے ہیں اگر ان پر دعوتی کام کیاجائے تو تحریک کے لئے زیادہ مفید رہے گا۔ شہر گلبرگہ میں زکوٰۃ پانے کی مستحقین ایک ہزار مسلم خواتین ہیں جوسودی قرض میں پھنسی ہوئی ہیں ان کی موجودگی میں زکوٰۃ کی نصف رقم حلقہ اور مرکز کو ارسال کردی جاتی ہے یہ کہاں تک مناسب ہے۔

ڈاکٹر عبدالحمید مخدومی، گلبرگہ کرناٹک

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2012

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223