آپ کی رائے

محترم مدیرِ زندگیِ نو!                    السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ’

الحمدللہ ماہنامہ زندگی نواپنے مخصوص انداز فکر کے حامل علمی و تحقیقی مضامین شائع کرکے بتدریج وہی مقام حاصل کررہاہے، جو ترجمان القرآن کو حاصل ہے۔ ‘آپ کی رائے’ عنوان قائم کرکے آپ نے قارئین کے لیے ایک فورم قائم کردیا ہے، جس کا سلسلہ مستقلاً جاری رہناچاہیے۔ ووٹ اور عملی سیاست کے معاملے میں جماعت کی پالیسی حالات وظروف کے لحاظ سے تبدیل ہوتی رہی ہے۔ لیکن تنقید براے اصلاح بہرحال مطلوب ہے۔

اس وقت میرے سامنے زندگی نومئی ۲۰۱۰ کا شمارہ ہے، فکری استقامت کے عنوان سے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کامضمون ان کے دیگر مضامین کی طرح جچا تُلانہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ تحریکی لٹریچر اور افراد کے بارے میں محترم موصوف کامطالعہ محدود ہے۔ اچھا ہوگاکہ دور قدیم کی طرح زندگی کے حروف جلی اور بڑے کردیے جائیں، بالکل اسی طرح جس طرح مولانا سید جلال الدین انصر عمری کے دورِ ادارت میں ہوتاتھا، اس سے مجھ جیسے قاری کو راتوں میں بغیر عینک کے پڑھنے میں سہولت ہوگی۔

ڈاکٹرسید محی الدین علوی

معاون امیرمقامی،چندرائن گٹہ، عظیم ترحیدرآباد،فون:09848119654

 

ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک کے رہ نماؤں کی مساعی نے اصلاح امت کے لیے کیا کچھ کیا اور کس کس طرح کیا اور کیا نتائج بر آئے، ان پر نظرڈالتے ہوئے آگے بڑھیں۔ انگریزوں کے ظلم و جور سے تنگ آکر گاندھی جی کی رہنمائی میں تحریک آزادی اُبھری، علماے امت مسلمہ اور دانش وران ہند بھی اس سے متاثر ہوئے۔ اُدھر سنتِ خالق انس و جن اپنا کام کررہی تھی۔ اُس نے ایک نوجوان عالم دین کو شعور بخشا ۔حکمت و موعظۃ حسنہ کے ساتھ کام کرنے کی توفیق بخشی اور ایسے اسباب فراہم کردیئے کہ اخبار الجمعیۃ میں اپنی فکر عام کرنے کا موقع مِلا۔ نوجوان دیدہ ور نے خدا کی توفیق سے اس وقت کے علمائ و دانشوران امت کی آنکھیں کھول دیں، لوگ آمادہ ہوئے اور ہندوستان کی دوسری اسلامی تحریک وجود میں آئی۔روداد جماعت اسلامی حصہ اول و حصہ دوم وسوم و چہارم اور پنجم کو پڑھ کر جماعت کی تاریخ کو سامنے لائیں پھر آگے بڑھیں۔

مسلم وغیرمسلم کامشترکہ الیکشن ، شجرممنوعہ ہے، جماعت اسلامی کی روداد یں شاہد ہیں کہ کبھی اس مسئلے پر اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ ایک وقت جماعت نے شجرممنوعہ کی حلت کا فتویٰ صادرکردیا۔ یہی وہ چوک ہے جو ہمارے پاؤں کی بیڑی بن گئی اور ہمارا سارا کیا دھرا رائیگاں ہوگیا۔

ایک دور وہ تھا جب غیرمسلم وکلائ، ٹیچران، تھانہ اور پولیس کے لوگ، سب کو ہم نے اصلاحی لٹریچر پڑھایا۔ وہ لوگ اتنے زیادہ قریب ہوگئے تھے کہ جب ہم نہیں چل پاتے تو وہ خود ہمارے پاس آکر کتابیں لے جاتے، یہاں تک کہ ان گنت افراد نے علی الاعلان اسلام قبول کیا اور مسلمانوں کی اکثریت تحریک اسلامی کو سننے، پڑھنے اور سمجھنے کی طرف مائل ہوگئی تھی۔

ذمے داران جماعت کو وہی مراسلات زندگی نو میں شائع کرنا چاہیے، جو ہمیں یکسو کرنے والے ہوں۔ البّتہ الجھانے والے مراسلہ نگاروں کو نجی خطوط کے ذریعے مطمئن کرنا ضروری ہے۔ زندگی نو کااداریہ قابل قدر اور حسب ضرورت ہوتاہے۔ مضامین بھی اداریے کے پس منظر میں منتخب اور شائع کیے جائیں۔

وکیل احمد اصلاحی

مکتبہ اسلامی ،ہرسپور، قادرآباد، ضلع سدھارتھ نگر

 

’’زندگی نو‘‘ برابر زیرمطالعہ رہتاہے، راقم سیاست کاایک طالب علم ہے اور یہ میری دلچسپی کاخاص موضوع ہے۔ یہ جان کر صدمہ ہورہاہے کہ جماعت اسلامی ہند الکشن میں بہ حیثیت جماعت کے حصہ لینے پرسنجیدگی سے غور کررہی ہے، بل کہ بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات میں حصہ لے بھی رہی ہے۔ جماعت اسلامی نے پاکستان، بنگلہ دیش اور جموںوکشمیر سے بھی سبق نہیں لیا۔ میں سمجھتاہوں کہ جماعت میں شامل اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ڈگری ہولڈر جدید طبقہ اس میں کافی دلچسپی لے رہاہے اور علمائ کی کوئی ساکھ نہیں رہی ہے۔ حیران ہوں کہ مولانا جلال الدین عمری کی امارت میں یہ سانحہ بھی ہونے جارہا ہے۔ جماعت اسلامی کابہ حیثیت جماعت کسی بھی انتخاب میں حصہ لینا وہی نتیجہ برآمد کرے گا جو ہماری ریاست میں ہوا۔ جماعت اسلامی جموںوکشمیر نے اب انتخابات کا بائیکاٹ بھی کیا اور آئندہ ان میں حصہ لینے سے توبہ کی، مگر جو نقصان ہوناتھا وہ تو ہوچکا۔

محمد اشرف وانی، بارہ مولہ

 

زندگی نو مئی ۲۰۱۰ کے شمارے میں محترم منظورالحق انصاری، کامٹی کا خط شائع ہوا ہے۔ موصوف کو اس بات کا افسوس ہے کہ اِسلامی ‘ نظام حیات’ اور ‘ اقامت دین ’ سے عام مسلمان معاشرہ ہنوز نا واقف ہے اور یہی بات جماعت اسلامی کی ناکامیوں کا سبب ہے۔اس کی وجوہات اُن کے نزدیک مقامی جماعتوں کی کوتاہیاں،خود اعتمادی کی کمی اور جماعت کے ذمے داروں میں احساس ِ برتری کی موجودگی ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے کہ جماعت اسلامی اقامتِ دین اور اسلامی نظام ِ حیات کو عوام الناس میں متعارف کرانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ تو پھر آپ کی ذمے داری کیا بنتی ہے، یہی کہ خود آگے بڑھ کر اس کام کو کریں۔اس کے بجائے جماعت پرہی گرفت کرتے رہنا، کہاں کی عقلمندی ہے۔

منظور الحق صاحب نے لکھاہیکہ جماعت کے عوامی خطابات نہیں ہوتے اور جماعت فولڈرس تقسیم نہیں کرتی۔یہ بات بالکل غلط ہے،ممکن ہے کامٹی میں خطاب عام نہیں ہوتا ہو، مگر دیگر مقامات پر خطاب عام ہوتے رہتے ہیں۔ابھی حال ہی میں جماعت نے ‘محمد ﷺ سب کے لیے ’ مہم منائی اس دوران مندروںمیں، سڑکوں پر،پولیس اسٹیشن میں اور دلتوں کے بودھ وہاروں میں خطاب عام ہوئے۔ برادرانِ وطن ان خطابات کا پُرزور استقبال کرتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ کئی مقامات پر امت کے افراد نے ہی ان خطابات کی مخالفت کی۔ رہی بات فولڈرس کے تقسیم کی تو یہ بات بھی واضح رہے کہ اسی مہم کے دوران لاکھوں فولڈرس و کتابچوں کو تقسیم کیا گیا۔ان فولڈرس کو گُردواروں،دلتوں کی بستی،پولیس اسٹیشن ،دکانوں اور بازاروں میں بڑی تعداد میں جماعت کے لوگوں نے تقسیم کیا۔

ان حالات میں مخلص افراد سے التماس ہے کے تحریک سے قریب آئیں۔خامیاں،کمیاں ہیں، مگر یہ ساری خامیاں تحریک کے اندر آکر آپ سدھار سکتے ہیں۔ جماعت کے ذمہ داران سے بھی التماس ہے کہ وہ تزکیہ و احتساب کو اور مضبوط و سخت بنائیں تب ہی تحریک میں نکھار پیدا ہوگا۔منظورالحق بھائی سے بھی التماس ہے، کہ وہ تحریک کے اندر جذب ہوکر سارے احباب کی تربیت کا سامان بہم پہنچائیں۔

ملک اکبر،بھانڈوپ،ممبئی

 

معاون مدیر جناب ڈاکٹر تابش مہدی صاحب کا عنایت نامہ موصول ہوا، ہم آپ کے شکرگزار ہیں کہ آپ نے ہمارا غیرقابل اشاعت مراسلہ امیر جماعت تک پہنچانے کی زحمت فرمائی۔

زندگی نو مئی ۲۰۱۰ زیر مطالعہ ہے۔ اس میں جناب شبیر حسین﴿ بریدہ سعودی عرب﴾ کامراسلہ ہے جس میں انھوں نے  ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے مضمون ‘تحریک اسلامی بدلتے ہوئے حالات میں’ اور جناب رافع گیاوی کے مضمون ‘تحریک اسلامی کی امتیاز ی فکر کی بقا’ پر تبصرہ فرمایاہے ، جو صفحہ ۸۲-۸۳ پر شائع ہواہے، اسی تبصرے پر مجھے کچھ عرض کرنا ہے۔

جناب رافع گیاوی کامضمون ہمارے سامنے پہلی بار آیاہے،ان کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک باخبر انسان ہیں اور تحریک اسلامی کے بنیادی لٹریچر کابہت اچھی طرح مطالعہ کیاہے۔ موصوف کے مضمون سے کچھ اقتباسات پیش کرتاہوں اس میں فکر مودودی کی بھی جھلک ہے ملاحظہ فرمائیں:

﴿۱﴾ ’’تحریکات اسلامی قرآن وسنت کے اصولوں کی اساس پر قائم ہوتی ہیں اور ان کے لیے سب سے اہم ان کے داخلی چیلنجز ہوتے ہیں۔‘‘

﴿۲﴾‘’ہرتنظیم و تحریک میں مختلف ذہن وفکر کے لوگ داخل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر تحریک ایسے افراد کے اذہان وافکار کی تربیت کااپنے نصب العین اور مقصد کے مطابق معقول بندوبست نہ کرپائے تو اس کا سخت اندیشہ رہتاہے کہ ایسے افراداپنے پورے خلوص کے باوجود تحریکی سفر کا رخ دوسری سمت موڑدیں۔ ظاہر ہے کہ خلوص کے ساتھ تحریک کے نصب العین اور مقصد کا عمیق فہم وشعور اور اعلیٰ بصیرت کاہونالازمی ہے۔‘‘

﴿۳﴾ ’’عموماً ان اصول و نظریات ہی پر تحریک کے اندر بحث چھڑجاتی ہے جو تحریک کی اساس تھے۔ ایسے حالات میں تحریک کی قیادت کافرض ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں اس فکری و عملی انتشار کو دور کرکے صحیح رہ نمائی کرے۔ ایسے مواقع پر جمہوری اصول کی طرح انچاس ﴿۹۴﴾ عقل مندوں کے خلاف اکیاون ﴿۵۱﴾ بے وقوفوں کے حق میں فیصلے نہیں کیے جائیںگے۔ بل کہ ابوبکر صدیق ؓ  کی طرح کثرت اور قلت کی پروا کیے بغیر فیصلہ کرناہوگا، قرآن وسنت اس خودسری کو بالکل پسند نہیں کرتے، تحریک اسلامی کے افراد دو رخ پر نہیں چل سکتے، قرآن میں حکم دیاگیاہے:

’’اگرکسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ۔‘‘ ﴿النسا:۵۹﴾

﴿۴﴾ ’’بالکل واضح حکم ہے کہ اختلاف کرنے والے دونوں گروہ اپنے اپنے موقف پر قائم نہیں رہ سکتے۔ بل کہ فیصلہ اس کے حق میں ہوگا، جس کی بات قرآن و سنت کے مطابق ہوگی اور اس پر سب کو سرِ تسلیم خم کرنا ہوگا۔

﴿۵﴾ ‘جس تحریک کاطریقۂ کار ہی قرآن وسنت ہو اسی کے افراد قرآن و سنت کے دلائل ماننے کو تیار نہ ہوں اور اپنے عمل کے لیے قرآن و سنت سے ثبوت بھی فراہم نہ کریں تو یہ تشویش کی بات ہوگی۔

﴿۶﴾ ملک کی تقسیم کے بعد اسلامی تحریک نے جو لائحہ عمل بنایاتھا وہ اس وقت بھی مناسب تھا اور درست تھا اور بعد کے حالات میں بھی نہایت موزوں ہے۔‘‘

﴿۷﴾ ’’جب تک کوئی تحریک یہ ثابت نہ کردے کہ وہ کوئی قومی یا گروہی جماعت نہیں ہے بل کہ اصولی و نظریاتی تحریک ہے، اس وقت تک عوام الناس میںاس کے لیے کوئی کشش پیدا نہیں ہوسکتی اور وہ کبھی ہندوستانی عوام کا اعتماد حاصل نہیں کرسکتی۔ کیوں کہ مدعو قوم کے سامنے اس کے بے غرض اور بے لوث ہونے کی پوزیشن بالکل صاف ہونا لازمی ہے۔ قومی کشمکش کاتو خاصّہ ہے کہ دوسری قوم اسے اپنا حریف سمجھتی ہے اور اس سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ انبیاے کرام کی بے داغ سیرت کے باوجود انھیں اعلان کرناپڑا،کہ ’‘میں تم سے اس کام پر کسی اجر کا سوال نہیں کرتا میرا اجر تو بس اللہ کے ذمّے ہے۔‘‘

﴿۸﴾ ’’ہندوستان میںاسلامی نصب العین کی جدوجہد اور مسلمانوں کے حقوق کی جدوجہد دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘

﴿۹﴾ ’’مولانا مودودیؒ نے قیام جماعت کے اولین دنوں ہی میں فرمادیاتھاکہ اگر آپ جماعت کو پسند کرتے ہیں لیکن اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی استطاعت نہیںپاتے تو خیرخواہی کاتقاضا یہ ہے کہ باہر ہی سے جو کچھ ممکن ہو تعاون کریں۔ جماعت کے اندر آکر اپنی پسندیدہ جماعت کو خراب نہ کیجیے… اس تحریک کو ہر طرح کے قومی و وطنی تعصبات اور دلچسپیوں سے پاک رکھناہے، اس سلسلے میں جتنے بھی حیلے پیش کیے جاتے ہیں ، سب کا جواب قرآن وحدیث سے مدلّل جماعت کے لٹریچر میں موجود ہے۔‘‘

ہماری نظر میں جناب رافع گیاوی کی تحریر میں ایک بھی جملہ ایسا نہیں ہے جِسے قرآن وسنت کے خلاف یا خود ساختہ کہاجائے یا تحریک اسلامی کے مزاج کے خلاف کہاجائے۔ اَب مراسلہ نگار برادر شبیر حسین کی تحریرملاحظہ فرمائیں لکھتے ہیںکہ:

’’فاضل مضمون نگار نے نہ تو تحریک اسلامی کو سمجھاہے اور نہ قرآن و سنت سے ہی استفادہ کیا ہے۔ اپنے خود ساختہ خیالات کی بنیادپر مضمون کو لکھا ہے۔‘‘

اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں کہ جناب رافع گیاوی کی تحریر کیاخود ساختہ ہے؟ قرآن وسنت سے بے پروا ہوکر لکھی گئی ہے؟ تحریک اسلامی کے بنیادی لٹریچر سے میل نہیں کھارہی ہے؟ یاتحریک اسلامی کے مزاج کے خلاف ہے؟ شبیر حسین صاحب نے لکھا ہے:

’’ان پریشان کن حالات میں جماعت اسلامی ہند ملک و ملت کی زبوں حالی اور سماج کے مختلف طبقات کی پس ماندگی دور کرنے کی کوشش کررہی ہے تو اس پر یہ الزام لگایاجارہا ہے کہ یہ اپنے نصب العین سے ہٹ گئی ہے اور قرآن وسنت کے خلاف عمل کررہی ہے۔ یہ سراسر بے بنیاد الزام ہے۔ جماعت اسلامی ہند جو کچھ کررہی ہے وہ قرآن وسنت کے عین مطابق ہے۔‘‘

ہماری گزارش یہ ہے کہ صرف اتنا کہہ دیناکافی نہیں ہوگاکہ: ’’جماعت جو کچھ کررہی ہے وہ قرآن وسنت کے عین مطابق ہے۔‘‘ بلکہ اس دعوے کو ثابت کرنا پڑے گا، جب تک ثابت نہیں کیاجاتا۔ یہ سارا منصوبہ غیراسلامی سمجھاجائے گا۔ جس طرح حضرت ابوبکرصدیق(رض) کو مانعین زکوٰۃ سے جنگ کے سلسلے میں قرآن سے ثبوت پیش کرناپڑا، تب مسلمان مطمئن ہوئے۔ مراسلہ نگار بھی قرآن وسنت سے اپنا موقف ثابت کریں۔

ہمیں مراسلہ نگار کی تحریر سے یہ اندازہ ہورہاہے کہ شاید وہ جناب رافع گیاوی کو اور اس خیال کے تمام تحریکی افراد کو سیاست سے اجتناب کرنے والا سمجھتے ہیں۔ ہر صحیح العقیدہ مسلمان خاص طورپر تحریکی مسلمان سیاست کو دین کاحصہ سمجھتا ہے۔ قرآن کا اصل موضوع انسان ہے، اللہ کا پسندیدہ انسان وہ ہے جو سمجھ بوجھ کر خلافت کے منصب کو قبول کرے ’’خلیفہ‘‘ کامنصب اجتماعی و سیاسی منصب ہے۔

ہاں ایک مسلمان مطلق سیاست کاکبھی قائل نہیں ہوسکتا جماعت اسلامی کے اندر جو بحث اس وقت جاری ہے، اُس کا پس منظر یہ ہے کہ بدقسمتی سے جماعت میں عصری علوم سے آراستہ افراد کو داخل تو کرلیاگیا، لیکن ان کی تربیت کاصحیح انتظام نہیں ہوسکا۔ دوسری وجہ مغربی صنعتی انقلاب کے نتیجے میں دنیا بن سنور کر لوگوں کے سامنے آئی ، اس کی چمک دمک اور چکاچوندھ کی زوردار کشش کے سامنے مغربی یونیورسٹیوں سے تعلیم پائے ہوئے تحریکی افراد بہت دیر تک مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، لاشعوری طورپر ان کی ترجیحات پلٹ گئیں، آخرت کی جگہ دنیا آگئی اور وہ یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہماری نظرآخرت پر ہے۔ لیکن ان کاعمل اس بات کی نفی کررہاہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے:

الَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّونَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا عَلَی الاٰخِرَۃِ وَیَصُدُّونَ عَن سَبِیْلِ اللّہِ وَیَبْغُونَہَا عِوَجاً أُوْلَ ٓئِکَ فِیْ ضَلاَلٍ بَعِیْدٍo ﴿سورہ ابراہیم: ۳﴾

’’جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ ﴿ان کی خواہشات کے مطابق﴾ ٹیڑھاہوجائے یہ لوگ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔‘‘

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس آیت کی تشریح کی ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں!

’’یعنی وہ اللہ کی مرضی کے تابع ہوکر نہیں رہنا چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا دین اُن کی مرضی کے تابع ہوکررہے، اس کے ہر خیال، ہر نظریے اور ہر وہم وگمان کو اپنے عقاید میں داخل کرے اور کسی ایسے عقیدے کو اپنے نظام فکر میں نہ رہنے دے جو اس کی کھوپڑی میں نہ سماتا ہو، ان کی ہر رسم، ہر عادت اور ہرخصلت کو سندجواز دے اور کسی ایسے طریقے کی پیروی کا ان سے مطالبہ نہ کرے جو انھیں پسند نہ ہو۔ وہ ان کاہاتھ بندھا غلام ہوکر جدھر جدھر یہ اپنے شیطان نفس کے اتباع میںمڑیں اُدھر وہ بھی مُڑجائے اور کہیں نہ تو وہ انھیں ٹوکے اور نہ کسی مقام پر انھیں اپنے راستے کی طرف موڑنے کی کوشش کرے۔ وہ اللہ کی بات صرف اسی صورت میں مان سکتے ہیں جب کہ وہ اس طرح کادین ان کے لیے بھیجے۔‘‘

تحریک اسلامی کے ذمے دار جلد سے جلد اس مسئلے کو حل کریں ، نہیں تو جماعت میں انتشار کاخطرہ ہے۔

قمرالطاف، جھریا، دھنبار

 

چند ماہ سے جمہوریت، سیکورلزم اور انتخابات جیسے موضوعات پر مختلف اہل نظر کے مراسلے شائع ہورہے ہیں۔ موجودہ جمہوری نظام، نظریۂ سیکولرزم اور انتخابات میں حصے داری کے جائز یا ناجائز ہونے یا ضروری یا غیرضروری ہونے کے سلسلے میں مختلف دلائل اور نقاط نظرسامنے آرہے ہیں۔ دونوں کے مطالعے سے یہ بات تو عیاں ہوجاتی ہے کہ ایک طبقے نے دین و ایمان اور عقیدے کو دلائل کی بنیاد بنایاہے، جب کہ دوسرا طبقہ پیش آمدہ مسائل ، مادّی مشکلات اور آزمائشوں کے خوف سے دوسری راہ کو ترجیح دے رہا ہے۔ جہاں تک دین وایمان و عقیدہ کامعاملہ ہے، اس میں کسی قسم کی مفاہمت یا کمی و بیشی راہ حق سے دور ہونے کاسبب بنتی ہے، جب کہ مسائل و مشکلات اور آزمائشیں مومنوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ ہر دور میں اہل ایمان کو اس سے سابقہ رہاہے اور قیامت تک یہ سلسلہ چلتارہے گا لیکن ان کی بنیاد پر ایمان وعقیدہ میں گنجائش پیداکرنے کی سعی کرنا کسی بھی صورت میں سعادت مندی نہیں ہوسکتی۔

دنیاوی منفعت آرام وآسائش چند مادی فوائد یا مراعات و تحفظات مومن کاکبھی بھی مطمحِ نظرنہیں رہاہے۔ یہ دنیا اور یہاں کی ہر چیز آخرت کے مقابلے میں ہیچ ہے۔ حقیر دنیا کے لیے اپنے مقصد ونصب العین کو فراموش کردینا داعیان حق کاوطیرہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ انبیاے کرام نیز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی باطل سے مصالحت یا مفاہمت نہیں کی حالاں کہ نظام حق کو روکنے کے لیے کئی ایک مفاہمتی فارمولے اور اسکیمیں لائی گئیں اور ہر قسم کی مراعات اور سہولتوں کی پیش کش کی گئی،لیکن انبیاے علیہم السلام نے کسی پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ توحید، رسالت اور آخرت اسلام کی تین اہم بنیادیں ہیں اور اسلام اللہ تعالیٰ کا واحدپسندیدہ دین ہے، ان میں رتی برابر کمی و بیشی کی جرأت کرنا یا کمی و بیشی پر راضی ہوجانا ایمان کی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔انبیاے کرام نے ہمیشہ مکمل نظام اسلامی کی بات کی، ادخلوا فی السلم کافۃ کا نعرہ بلند کیا۔ نہ اقتدار کا خوف کیا نہ باطل کی طاقت و قوت سے خوف کھایا۔کیوںکہ جان، مال کی حفاظت و سلامتی ثانوی چیز ہے اصل چیز ایمان اور عقیدہ ہے، جس کی حفاظت کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔

انبیائی مشن تو یہ ہے کہ توحید رسالت اور آخرت کا پیغام عام کیاجائے۔ سیکولرزم ، نیشنلزم سمیت تمام ادیان و نظریات کو رد کیاجائے اور ان سب کے مقابل نظام اسلامی کو پیش کیاجائے اور اسے نافذکرنے کی سعی وجہد کی جائے۔ موجودہ نظریات اور نظاموں کی خرابیوں کو ایک ایک کرکے واشگاف انداز میں پیش کیاجائے اورحاکم اللہ کے تصور کے فوائید کو انسانیت کے سامنے عام کیاجائے۔ جو نظام خدااور خدا کی حاکمیت کے انکار پر قائم ہو، جس نظام میں اسلامی نظام کی نفی ہوتی ہو، کیسے گوارا کیاجاسکتا ہے۔ دیگر پارٹیوں سے وابستہ مسلمان اگر ملی اور مذہبی مفادات کی حفاظت کے لیے نظام باطل میں شامل ہوتے ہوں تو الگ بات ہے لیکن نظام حق کو نافذ کرنے کا دعویٰ کرنے والے افراد کاباطل نظام سے منسلک ہونا یا اس کامعاون بننا سمجھ سے بالا تر ہے۔

۱۲۰ کروڑ آبادی والے ملک کی موجودہ حالت پرغور کریں تو محسوس ہوگاکہ ملک کی اکثریت مادہ پرستی کی شکار ہے، مذہب بیزار ہے، عیش وعشرت کی غلام ہے، حصول دنیا کی تگ و دو میں جانوروں تک کومات دے دی ہے، ایسے میں پیغام حق کو انسانیت تک پہنچانے کے عظیم کام کو نظرانداز کرکے اپنی محدود افرادی قوت ، صلاحیت، وسائل کو جمہوریت یا سیکولرزم کی بقا کے لیے صرف کردینا کہاں کی دانش مندی ہے۔ لوگوں کی کیفیت اس نادان طبیب جیسی بن گئی ہے جو ایک فالج زدہ مریض کو افاقہ دلانے کے بجائے مریض کے بالوں کے جھڑنے کو لے کر فکرمند ہے اور چاہتاہے کہ اس مریض کے بالوں کا جھڑنا رک جائے!

آخر کس بنیادپر موجودہ نظام جمہور کی تائید کی جائے یا اس میں حصے داری کی کوشش کی جائے ، جب کہ موجودہ جمہوریت کلیۃً خدا کی حاکمیت کے بجائے عوام کی حاکمیت کی علمبردار ہے اور موجودہ جمہوریت نہ اختیارات حکومت کو خدا کی امانت تسلیم کرتی ہے اور نہ اپنے فیصلوں اور معیار قانون میں خدا کی ہدایت کی پابندی کرتی ہے۔ یہ جمہوریت ہی کا فیض ہے کہ حکومت اور اراکینِ ایوان مکمل قانون سازی کالامحدود اختیار رکھتے ہیں۔ جس شئے کو جب چاہیں حلال کرلیں ، جس چیز کو جب چاہیں حرام قرار دیں، جس رویے کو جب چاہیں ترقی و روشن خیالی کا نام دیں اور جب چاہیں پستی یا تاریکی کا نام دیں، جرم و سزا کا تعین بھی وہی کریں چناں چہ کہیں پردہ بھی جرم بن جاتاہے کہیں تبدیلی مذہب جرم بن جاتاہے اور کہیں تبلیغ و دین بھی جرم بن جاتاہے انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ خالق کائنات کی مرضی کیا ہے؟ خالق کائنات کی ہدایات کیا ہیں؟ موجودہ پارلیمانی سیاست میں نہ امانت و دیانت ہے اور نہ ہی سچائی،اخلاق، اقدار، اصول و شرافت سے کسی کو لینا دینا ہے۔

نہ ووٹروں کے لیے کوئی معیار ہے اور نہ ہی امیدواروںکے لیے کوئی ضابطۂ اخلاق اور نہ ہی منتخب وزرائ کے لیے کوئی اصول و ضوابط ہیں، جمہوری نظام میں جو نمائندے منتخب ہوپاتے ہیں وہ کسی نظریے یا اصول کی بنیادپر منتخب نہیں ہوتے، بل کہ انتخابات میں وہی امیدوار کامیاب ہوتاہے، جو روپیوں کے عوض لوگوں کے ضمیر کو خریدسکتا ہو، ووٹروں سے جھوٹے وعدے کرتاہو، ذات برادری اور مذہب کاواسطہ دیتاہو، ووٹروں کو مختلف جذباتی نعروں میں گم کردیتاہو، ووٹروں کو ڈرادھمکاسکتاہو، اپنے کارکنوں کو بوگس ووٹنگ کی تربیت دے کر مخالف امیدوارپر حملے کراسکتاہو، مخالف امیدوار کے کارکنوں کو خریدسکتا ہو، مخالف امیدوار کے خلاف جھوٹ بہتان اور تہمت لگانے میں ماہر ہو، مخالف ووٹروں کو یرغمال بناسکتاہو، مخالف امیدوار کے ہم نواؤں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کا گرجانتاہو، غریب ووٹروں میں روپیہ پیسہ ودیگر ضرورت کی چیزیں تقسیم کرسکتا ہو، شراب و شباب کے دروازے کھول سکتا ہو، انتخابی عملے میں رشوت تقسیم کرکے اپنا ہم نوا بناسکتاہو، پولنگ اسٹیشن پر عملاً قابض ہوسکتا ہو۔ جو امیدوار ان خصوصیات کا حامل ہوگا، وہی کامیاب ہوسکتا ہے، چاہے وہ قاتل، شرابی، زانی، روڈی شیٹر ہی کیوں نہ ہو۔

ان تلخ حقایق کے باوجود ان لوگوں پر تعجب ہوتاہے جوانتخابی سیاست میں حصہ لینے ہی کو وقت کی اہم ضرورت خیال کرتے ہیں اور انتخابی سیاست ہی کو دین و ملت کی بقا کا مسئلہ سمجھتے ہیں، کوئی فرد یہ سوچنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ دعوت دین کتنے افراد تک پہنچائی جائے، کس طرح اس ملک سے شرک و بت پرستی کاخاتمہ کیاجائے، کس طرح خواص کو اسلامی نظام کا موئید بنایاجائے، کس طرح انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلائی جائے کس طرح خدا کی حکمرانی خدا کی زمین پر جاری ہو؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ازسرِ نو غور کریں کہ ان کا مقصد وجودکیاہے، ان کا مشن کیاہے، انبیائ کس کام کے لیے دنیا میں آئے تھے؟ تحریک اسلامی کس غرض کے لیے برپاہوئی تھی، تحریک کی امتیازی خصوصیت اور شان کیاتھی، تحریک اسلامی کا نصب العین کیاہے؟ یقینا ملت کی بقائ اور شناخت کی برقراری بھی اہم کام ہیں لیکن وسعت نظری سے دیکھیں تو کئی ایک لوگ مذکورہ کام کے سلسلے میں متحرک ہیں، ان سے تعاون کردیں اور مناسب رہ نمائی کردیں اور پھر کارکنان تحریک تحریکی مشن پر لگے رہیں تو ممکن ہے کہ اسلامی نظام کے قیام کا خواب ہندوستان میں بہت جلد حقیقت بن پائے ورنہ تحریکِ اسلامی بھی ایک ملی قومی تنظیم بن کر رہ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سوچ اور شعور سے سرفراز فرمائے۔ آمین۔

محمد نصیرالدین،مغل پورہ، حیدرآباد، موبائل: 09848669130

 

گزشتہ ایک سال کے دوران جب سے ماہ نامہ زندگی نو کی ادارت آپ کے سپرد کی گئی ہے اس میں بعض انتہائی مثبت اور مفید تبدیلیاں آئی ہیں مثلاً آپ کا تحریر کردہ ’’اشارات‘‘ کاکالم، جس سے وابستگان تحریک کومختلف مسائل میں بھرپور فکری رہنمائی مل رہی ہے۔ لیکن ان خوش گوار تغیرات کے ساتھ بعض ایسے مضامین، تبصرے اور خطوط بھی شائع ہورہے ہیں، جن کے مطالعے سے کوئی عمدہ اور اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا ہے۔ ان ہی میں چند کی طرف سطور ذیل میںاشارہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔

۱- زندگی نو، تحریک اسلامی ہند کا ترجمان ہے۔ اس کی اشاعت کا مقصد وابستگان تحریک کی فکری رہنمائی اور ان کی علمی ضروریات کی تکمیل کے لیے مختلف قسم کے مواد کی فراہمی ہے۔ ان مقاصد کی تکمیل اگر اس وقت شائع ہونے والے بعض مضامین سے ہورہی ہے تو بعض مضامین بہت ہلکے، غیرعلمی اور معمولی درجے کے ہوتے ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ کسی نے چلتے پھرتے کچھ خیالات قلمبند کرکے ارسال کردیئے ہیں اور مضامین کی قلت کے باعث ان کی اشاعت کی گنجائش نکال لی گئی ہے۔

۲- کسی بھی ماہ نامہ کے لیے مختلف قسم کے متنوع کالمس کی یقینا بے حد اہمیت ہے۔ لیکن کسی فکری و عملی ترجمان کے لیے یہ بھی ضروری ہوتاہے کہ اُس کے ہر کالم سے اُس کی بنیادی اور اساسی فکر کی ترجمانی میں مدد ملے۔ اگر ایسا نہ ہوتو کوئی ضروری نہیںکہ وہ کالم ہر ماہ التزام سے شائع ہو۔، مثلاً تبصرے کے کالم میں مطلقاً شعری وادبی مجموعوں پر تبصروں کی اشاعت کامیں مخالف نہیں ہوں۔ لیکن میری ناقص رائے میں کسی بھی مجموعے یا کتاب پر تبصرے سے پہلے اپنے رسالے کے مقاصد سے اس کی مطابقت کو دیکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح تبصرے کے لیے موصولہ کتب میں سے منتخبہ کتب پر تبصرے سے پہلے مدیر محترم کے لیے اس امر کاجائزہ لینا ضروری ہوتاہے کہ اُس کتاب کا موضوع کیا ہے ؟ اور اس پر اظہار رائے یا تبصرے کے لیے موزوں فرد کون ہے؟ مثلاً مارچ ۲۰۱۰ کے شمارے میں علامہ فراہیؒ سے متعلق ایک کتاب پر آپ کے معاون مدیر کے ذریعے تبصرے کی اشاعت بالکل ناموزوں اور غیرمناسب تھی۔ علامہ فراہیؒ  علم وفکر کے جس مقام پر فائز ہیں اور ان کی تحریروں میں جو گہرائی اور گیرائی ہوتی ہے، اُس تک پہنچنا اور اس کا ادراک کرنا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اُس کے لیے بڑی ریاضت اور محنت درکار ہے، جو آج کے سہولت پسند اور عجلت پسند اہل علم اور اصحاب ِ قلم کے لیے ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اگرمذکور تبصرے پر ایک نظرڈالیں تو ڈھائی صفحے میں سے تقریباً ڈیڑھ صفحے میں اُس کتاب کے مؤلف کی مبالغہ آمیز تعریفیں کی گئی ہیں اور باقی ایک صفحے میں غیرمربوط اور غیرمتعلق باتیں لکھی گئی ہیں۔ جون ۲۰۱۰ کے شمارے میںمولانا صدرالدین اصلاحیؒ کی شخصیت کاتعارف کراتے ہوئے صفحہ ۰۶ پر دو معززافراد کے بارے میں ایسی باتیں آگئی ہیں، جن کاعدم تذکرہ زیادہ مناسب تھا۔

۴- جماعت اسلامی اور اس کے فکری ترجمان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ فقہی مسائل سے تعرض سے اجتناب کرے۔ وابستگان تحریک کی علمی وفکری ضروریات کے تحت عمومی علمی مسائل میں تو رہنمائی فراہم کرنے کاکام کیا گیاہے، جس کے لیے محترم سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور محترم سید عروج احمد قادریؒ کی تحریروں کو بطور مثال پیش کیاجاسکتا ہے۔ لیکن رسائل ومسائل کے کالم کو مستقل کالم کا درجہ دینے اور اس کے لیے کسی ایک فرد ﴿جو خود مصروف ہو اور جس کا رسالے کی ادارت سے تعلق نہ ہو﴾ سے مستقل جوابات تحریر کرانے سے کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا ہے۔ مستقل کالم کی موجودگی ’’فقہی مسائل سے عدم تعرض‘‘ کی ہماری سابقہ پالیسی کے خلاف اور برعکس ہے۔ کسی ایک فرد کی خدمات حاصل کرنے سے ہمارے درمیان ’’قحط الرجال‘‘ کے تاثر کو فروغ ملتاہے۔ جب کہ امر واقعہ ہے کہ جماعت میں درجنوں افراد اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ عام قسم کے مسائل میں رہنمائی فراہم کرنے کا کام انجام دے سکیں۔ پھر اب تو الحمدللہ ہماری زیرنگرانی ایسے علمی ادارے قائم ہیں، جن میں کئی کئی افراد اس صلاحیت کے موجود ہیں۔ جن کا بورڈ تشکیل دے کر ان کی مجموعی آرائ سے استفادہ کیاجاسکتا ہے۔ ۵- ’‘آپ کی رائے‘‘ کے عنوان سے قائم کالم میں شائع ہونے والے خطوط و مراسلات سے قارئین کرام کی آرائ و خیالات سے استفادے کا موقع ملتا ہے، جو بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اس میں اگر دو/تین امور کااہتمام کرلیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ مثلاً جماعت اسلامی ہند کی الیکشن سے متعلق پالیسی اور فیصلوں پر شائع ہونے والے مراسلات میں دلائل کی تکرار ہورہی ہے، انھیں حذف کرنا چاہیے۔ اسی طرح ان مسائل میں اگر کسی مرکزی ذمّے دار کی طرف سے کوئی توضیحی نوٹ شائع ہوجائے تو اس کے کچھ پہلووں کے فہم وآگہی میں مدد ملے گی۔ اسی طرح ایک حقیر رائے یہ ہے کہ کسی ایک مسئلے سے متعلق کسی ایک فرد کا صرف ایک مراسلہ شائع کیاجائے، جواب اور جواب الجواب کی اشاعت سے بحث، کٹ حجتی اور ناپسندیدہ نقد کا دروازہ کھلتا ہے۔                              صفدر سلطان اصلاحی

امیرمقامی جماعت اسلامی ہند،اے ایم یو ایریا، علی گڑھ

 

اسلامی بنک کاری سے متعلق جون ۲۰۱۰کے زندگی نو میں میراجو مراسلہ شائع ہواہے، اس میں ایک غلطی راہ پاگئی ہے۔ لفظ ’’صکوک‘‘ (SUKUK)سکوک ہوگیا ہے۔ صحیح لفظ ’’صکوک‘‘ ہے۔ یہ ’’صُک ’‘ کی جمع ہے ، جس کے معنی دستاویز کے ہوتے ہیں اور اِن دنوں اسے اسلامی بانڈ کے متبادل کے طورپر اصطلاحاً استعمال کیاجارہا ہے۔

وقارانور

دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو،نئی دہلی-۵۲۰۰۱۱

 

ماہ اپریل۲۰۱۰کا شمارہ مِلا۔ محترم احسن مستقیمی صاحب کایہ خیال صحیح نہیں ہے کہ جماعت نے پہلی بار سیکولرزم کے بارے میں نرم گوشے کا اعلان کیا۔ سیکولرزم کے بارے میں جماعت کی مجلس شوریٰ کی اگست ۱۹۷۰کی تفصیلی قرار داد سے قبل اس مجلس نے جو فیصلہ جولائی ۱۹۶۱ میں اس سلسلے میں لیاتھا وہ بھی غالباً ان معنوں میں پہلا اعلان نہیں تھا۔ محترم قائد تحریک نے مئی ۱۹۴۷ کو دارالاسلام پٹھان کوٹ کے اجتماع میں جماعت اسلامی کی دعوت کے عنوان سے جو خطاب شمال مغربی ہندوستان ﴿موجودہ پاکستان﴾ کے ارکان سے کیاتھا اس میں بھی سیکولرزم ڈیماکریسی اور نیشنلزم کے مغربی تصورات پر تنقید کرکے نومولود اسلامی مملکت کو ان سے باز رکھنے کی تاکید فرمائی تھی۔ احقرکی موصوف گزارش ہے:

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا

غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

ساری دنیا میں سیکولرزم کئی معنی ومفہوم میں مروج ہے۔ مغرب، یورپ مسلم ممالک اور مشرق میں اس کی پہچان الگ الگ ہے۔ برطانوی ہند میں ایک علاحدہ ہی مفہوم تھا۔ مولانا مودودیؒ نے سیکولرزم کے الحادی پہلو کو اور وہ بھی نومولود مملکت میں اس کے نظام شریعت سے متصادم ہونے والے پہلو کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایاتھا۔ ہندوستان کے موجودہ سیکولرزم پر موصوف کی وہ تنقید کسی پہلو سے چسپاں نہیں ہوتی۔ صرف اشتراک لفظی کے باعث آپ جیسا دانشور بھی مغالطہ میں پڑجائے گا۔ اس کی احقر کو توقع نہیں تھی۔ آپ براہ کرم یہاں کے سیکولرجمہوری نظام کو جو کہ اب امرواقعہ ہے اور یہاں گزشتہ ۰۶ سال سے قائم ہے نظری و عملی پہلووں کی روشنی میں جانچ کر دیکھیں اور یہاں جو انتخابی نظام مروج ہے اس کی کارکردگی کاجائزہ و احتساب کرکے بتلائیں کہ اس درمیانی مدت میں جب کہ ہمارا مطلوبہ صالح انقلاب برپا نہ ہوا ہو ہمیں تحریک اقامت دین کو کس نہج پر لے چلنا ہے۔ ہمارا مطلوبہ نظام اسلامی ابھی تو ابتدائی دعوت کے مرحلے ہی میں ہے۔ انتخابات کی راہ ایک جمہوری ملک میں تبدیلی لانے اور صالح قیادت کو ابھارنے کا ایک امکانی ذریعہ ہے اس کو اگر ہر صورت حال میں مسترد کردینا ہے جب کہ یہ راہ حرام نہیں بلکہ مباح ہے تو براہ کرم متبادل راہ کی نشان دہی فرمائیں۔

سیدشکیل احمد انور،۹۹۴، پرانی حویلی، حیدرآباد-۲۰۰۰۰۵

 

موقر ماہ نامہ بابۃ جون ۲۰۱۰ میں جناب محمد رافع گیاوی صاحب کا مراسلہ پڑھاموصوف نے محترمہ ثمینہ مظہرفلاحی کے حوالے سے لکھاہے کہ مجلس نمائندگان کے اجلاس میں خواتین ممبروں کو پردے کی قید سے آزاد کرکے بٹھایاگیاتھا۔ اپریل ۲۰۱۰ئ کے شمارے میں محترمہ ثمینہ کے مراسلے میں بھی پردے کی قید سے آزاد کرنے کے الفاظ ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ محترمہ نے کسی سے سن کر یہ باتیں لکھی ہوںگی، حالاں کہ ہم دونوں خاتون ارکان مجلس نمائندگان برقعہ پہن کر بیٹھی تھیں اور ہماری نشستیں اجلاس میں مردوں کی نشستوں سے الگ تھیں۔ کیا برقعہ پہن کر بیٹھنا پردے کی قید سے آزاد ہونا ہے؟ میں سمجھتی ہوں کہ محترمہ کو کسی بات کو لکھنے سے قبل تحقیق کرلینی چاہیے اور اظہار خیالات میں غلط تاثر دینے سے احتراز کرنا چاہیے ورنہ لوگ رافع گیاوی صاحب کی طرح غلط فہمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

ناصرہ خانم، رکن مجلس نمائندگان، حلقہ آندھرا پردیش،حیدرآباد

ہندستانی انتخابات، ہندستانی دستور کی ماتحتی میں منعقد ہوتے ہیں، بلکہ انتخابات ہوتے ہی اس لیے کہ دستور ہند ملک میں نافذ ہو اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دستور ہند کو کسی بھی طرح اسلامی دستور نہیں کہاجاسکتا بلکہ وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں پورے طورپر طاغوت کی تعریف میں آتاہے اور اللہ تعالیٰ نے تمام ایمان والوں کو طاغوت کی اطاعت سے بچنے کاحکم دیا۔ اب ظاہر ہے جو بھی سیاسی پارٹی انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہے، اس کو سب سے پہلے دستور ہند کی بالادستی اور حقّانیت تسلیم کرنی ہوگی، بلکہ وہ سیاسی پارٹی کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہی اس وقت ہوگی، جب کہ وہ دستور ہند کی ماتحتی کوقبول کرے اور یہ بات اسلام کی بنیادی فکر سے ٹکراتی ہے، کیوں کہ دستور ہند کی رُو سے انتخابات میں کامیاب افراد کی اکثریت قانون سازہے، جب کہ اسلامی رُو سے قانون ساز صرف اللہ ہے۔ گویاکہ دستور ہند میں اقتدارِ اعلیٰ انسان کو حاصل ہے اور دستورِ اسلام میں اقتدار اعلیٰ صرف اللہ کو حاصل ہے۔ یہ دو ایسے متضاد عقیدے ہیں،جو ایک مومن کی زندگی میں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ اس سلسلے میں اصل سوال کسی سیاسی پارٹی کے جائز اور ناجائز ہونے کا نہیں ہے، بلکہ اصل سوال سیاسی پارٹی کی ہیئت اور کیفیت کا ہے۔ اگر سیاسی پارٹی اصلاً اِسلام کے غلبے کے لیے ہوتو نہ صرف یہ کہ وہ جائز ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔ تحریک اسلامی اپنے موجودہ دستور اور طریقۂ کار کے مطابق اگر سیاسی پارٹی بن جائے تو کوئی شرعی قباحت نہیں ہوگی، البتہ انتخابات میں حصہ لینا پھر بھی حکمت عملی کے خلاف ہوگا، کیوںکہ فی الحال تحریکِ اِسلامی ہند کے پاس اتنی افرادی قوت نہیں ہے، جس سے وہ انتخابات پراثرانداز ہوسکے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّہَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوت ﴿النحل:۳۶﴾

’’تحقیق کہ ہم نے ہر امت میں رسول کو بھیجاکہ وہ اللہ کی بندگی کا حکم دے اور طاغوت سے بچنے کاحکم دے۔‘‘

قرآن کا صحیح علم رکھنے والے افراد سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ تمام غیراسلامی قوانین اور ان کو نافذکرنے والے افراد و ادارے طاغوت کی تعریف میں آتے ہیں۔ مذکور آیت کی تشریح میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:

’’یہاں صریح طور پر طاغوت سے مراد وہ حاکم ہے ، جو قانونِ الٰہی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور وہ نظامِ عدالت ہے، جو نہ اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ اللہ کی کتاب کو آخری سند مانتاہو۔ لہٰذا یہ آیت اس معنی میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت طاغوت کی حیثیت رکھتی ہو، اس کے پاس اپنے معاملات فیصلے کرنے کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی اقتضایہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کردے۔ قرآن کی رُو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر دونوں لازم و ملزوم ہیں اور خدا اور طاغوت دونوں کےآگے بہ یک وقت جھکنا عین منافقت ہے۔‘‘                                                              ﴿تفہیم القرآن، جلداول، ص:۳۶۷﴾

قرآن کی مذکور آیات اور ان کی تشریح سے یہ بات پورے طورپر واضح ہوجاتی ہے کہ دستورِ ہند اور ا س کو بنانے اور نافذ کرنے والے افراد و ادارے طاغوت کی تعریف میں آتے ہیں اور طاغوت سے اجتناب ایمان کالازمی تقاضا ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچ کر اسلامی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے یہود اور عرب کے مختلف قبائل سے جو سیاسی معاہدات کیے تھے، ان کااطلاق دستور ہند کی ماتحتی میں تشکیل پانے والی کسی سیاسی پارٹی پر نہیںہوسکتا، کیوں کہ ان سیاسی معاہدات میں آنحضور(ص) کے فیصلے کو بالادستی حاصل تھی اور خصوصیت کے ساتھ یہ شرط درج ہوتی تھی کہ اگر فریقین میں کوئی تنازعہ ہوجائے توحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ سبھی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ گویاکہ ان معاہدات میں اسلام کو بالادستی حاصل تھی اور طاغوت اس کے تابع تھا ، لیکن یہاں صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ یعنی طاغوتی نظام کو بالادستی حاصل ہوگی اور سیاسی پارٹی اس کے تابع ہوگی۔

مفتی کلیم رحمانی، رکن جماعت اسلامی ہند،

شاخ پُوسن، ضلع ایوتھل، مہاراشٹر، موبائل:09850331536، گھر:27233-246654

 

زندگی نو ماہ جون ۲۰۱۰ میں میرا ایک مضمون ’’دینی مدارس میں تدریس حدیث‘‘ شائع ہوا ہے، روایتی طور پر مجھے شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ آپ نے ایک نو آموز کا مضمون شائع کرکے عزت افزائی کی ہے، مگر آپ نے حق ایڈیٹری استعمال کرتے ہوئے جگہ جگہ کتر بیونت کی ہے ، خاص طور پر مدارس کے نصاب تعلیم کا مفصل چارٹ حذف کرکے مضمون کو جس طرح مختصر کیا ہے، اس سے کافی تکلیف ہوئی۔ آپ سائنس کے آدمی ہیں، آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تحقیق و تجزیے میں مدار(Factual Basis) کی کیا اہمیت ہے، آپ نے مدار تحقیق حذف کرکے نتیجۂ تحقیق پیش کردیا، مضمون بے معنی ہوگیا، جیسے آپ کے اس بار کے اشارات کا مدار مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کا ایک اقتباس ہے اگر اقتباس کو حذف کرکے آپ کے مضمون کو پڑھنے کی کوشش کی جائے تو اس کا مفہوم واضح نہ ہوگا۔

اشہد رفیق ندوی، علی گڑھ

میں سنگھ پریوار کے اخبار آرگنائزر کی قاریہ ہوں اور اس میں مراسلے بھی لکھاکرتی ہوں۔ یہ لوگ سیکولرزم کے سخت مخالف ہیں اور ہندتوا یا ہندو راشٹر واد کی راہ میں سیکولرجمہوری نظام کو سب سے بڑا روڑا سمجھتے ہیں، وہ اس کو مسلمانوں کی چاپلوسی قرار دیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ آپ کے موقر رسالے کے مضامین نگاربھی سیکولرزم کے شدید مخالف ہیں وہ اس کو الحاد و دہریت کے مماثل سمجھتے ہیں حالاں کہ دستور ہند میں مذہبی آزادی اور تہذیبی اقلیتوں کے حقوق و تحفظات والی دفعات کی موجودگی اور تمام مذاہب سے یکساں باعزت برتاؤ کاپہلو اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ یہاں کا سیکولرزم مخالف مذہب (Anti Religion)ہے۔

ہمیں ملکی نظام کی غیرجانبداری اور اس کے جمہوری مزاج کی قدر پہچاننے میں یہاں کے ہندتو وادی فسطائی عناصر کے طرزِ فکر اور ان کے مخالفانہ ومواقفانہ رویہ کامطالعہ ضرور کرنا چاہیے یہاں جو سیکولر جمہوری عناصر ہیں ان کی پہچان معلوم کرنا بھی ضروری ہے ہمارے پیش نظر جو خدا پرستانہ نظام کا قیام ہے وہ اپنے ابتدائی دعوتی مرحلے میں کس قسم کے ماحول، ملکی نظام اور سماجی صورت حال میں پروان چڑھ سکتاہے اس پر بھی نظررکھنی چاہیے۔ اگر یہاں کے پارلیمانی اداروں میں خدا کے نام پر حلف وفاداری لینے والوں کی اکثریت ہوتو یہاں کے نظام کو ملحدانہ نہیں کہاجاسکتا۔

تنویرفاطمہ، سندیش بھون، لکڑکوٹ، چھتہ بازار حیدرآباد-۲۰۰۰۰۵

مشمولہ: شمارہ جولائی 2010

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau