۲۸، ۲۹ جنوری 2006 جماعتِ اسلامی ہند ، ریاست مہاراشٹر کا اجتماع عام اورنگ آباد میں منعقد ہوا۔اس اجتماع کے ناظم مرحوم مولانا محمد عبدالقیوم صاحب تھے اور ان کی معاونت کی ذمہ داری مجھے دی گئی تھی۔ دسمبر اور جنوری کی کڑاکے کی سردی کے موسم میں اس کی تیاریاں انجام پائیں۔ اورنگ آباد کے ریلوے اسٹیشن کے قریبی گراؤنڈ میں جہاں ہر طرف کھلی زمینیں تھیں اور رات بھر سرد ہوائیں چلتی تھیں، یہ اجتماع منعقد ہوا۔
اجتماع کی تیاریوں میں بزرگوں سے لے کر بچوں تک سبھی مصروف تھے۔ میرے ذہن کے پردے پر ایک بچے کی تصویر نمایاں ہے جو نویں جماعت کا طالب علم تھا اور اس کے والدین نے اجتماع عام کی تیاری کے لیے اسے ایک ماہ قبل دسمبر کے مہینے میں اجتماع گراؤنڈ پر بھیج دیا تھاتاکہ وہ اجتماع کی تیاریوں میں شامل ہو۔ یہ بچہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد اور ماشاءاللہ پڑھے لکھے ثروت مند خاندان کا بچہ تھا ۔ اس بچے نے سب سے زیادہ گرم جوشی کےساتھ کاموں میں حصہ لیا۔ میں دیکھتا تھا کہ یہ بچہ سب سے پہلے فجر میں جاگتا ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے وضو کرتا اور اذان فجرہوتے ہی تمام والنٹیروں کو جگاتا ۔ایسی بلا کی سردی میں بچے کا اجتماع میں سب سے پہلے جاگنا اور تمام لوگوں کو جگانا اور پھر دن بھر پرمشقت کاموں میں تن دہی سے لگے رہنا اورجو معمولی کھانا ملے اسے کھاکر خوش رہنا ، یہ سب کچھ تحریکی والدین کی تربیت وپرورش کا ثمرہ تھا۔ اس اجتماع میں یہ مشاہدہ ہوا کہ جب بزرگ اور نوجوان مل کر کام کرتے ہیں تو جنریشن گیپ کا از خود خاتمہ ہوجاتا ہے۔
یہ مشاہدہ بھی ہوا کہ ایسے ہمارے کئی کارکنان جو روزانہ مزدوری کر کے اپنے گھر کا گزر بسر کیا کرتے تھے، مختلف گاؤں اور دیہاتوں سے آکر اجتماع میں بے غرض خدمات انجام دے رہے تھے ۔ صبح سے شام تک لگاتار گڈھے کھودنا، زمین ہم وار کرنا، جھاڑیاں صاف کرنا، کھمبے کھڑے کرنا اور ٹینٹ لگانا، جیسے سخت محنت کے کاموں میں وہ لگے رہتے ۔ اجرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لیے۔
مولانا محمد عبدالقیومؒ کو میں نے دیکھا وہ اس وقت تقریبًا۷۶ سال کے تھے لیکن اس پیرانہ سالی کے باوجود صبح فجر سے لے کر رات میں 11، 12 بجے تک لگاتار وہ اجتماع کی کامیابی کے لیے فکر مند اور نوجوانوں کی طرح سرگرم عمل رہتے تھے اور اس موقع پر جوحیرت انگیز بات محسوس کی وہ یہ کہ ہر چیز ان کے حافظے میں درج تھی ۔ کوئی اجتماع کا چھوٹے سے چھوٹا کام ایسا نہیں تھا کہ جو ان کی نظروں سے اوجھل ہو ۔ صبح صبح اجتماع گاہ میں پہنچ جاتے اور جو لوگ اجتماع کے سلسلے میں وہاں پر اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں ان کے ناشتے کے بارے میں پوچھتے اور اگر کسی نے ناشتہ نہیں کیا ہوتا تو شہر کے رفقا کے گھر فون کرتے اوران سے بے تکلف کہتے کہ بھائی، ناشتے وغیرہ کا انتظام کر کے رکھو میں پانچ چھ لوگوں کو ساتھ میں لے کر آ رہا ہوں۔وہ سب کے سب مولانا محترم کے اس حکم سے بہت خوش ہوتے اور اپنے دیگر کام کاج کو بالا ئے طاق رکھ کر کھانے پینے کا مناسب اہتمام کرتے ۔ پورے شہر میں کسی بھی رکن جماعت سے ناظمِ اجتماع جب چاہتے بے تکلفی کے ساتھ مطالبہ کرتے اور جس چیز کا مطالبہ کرتے ہمارے رفقا تکمیل کے لیے آخری حد تک کوشش کرتے ۔
اجتماع سے پہلے والی رات مولانا محمد عبدالقیوم صاحب اپنے کچھ رفقا کے ساتھ اجتماع گاہ میں تھے۔ بہت سرد رات تھی لیکن میں نے دیکھا کہ مولانا بار بار اٹھتے ، نماز پڑھتے اور دعا کرتے کہ اے اللہ اپنے مہمانوں کو یہاں بھیج دے تاکہ ہماری محنتیں بار آور ہوجائیں۔ اے اللہ ہماری ٹوٹی پھوٹی کوششوں کو قبول فرمالے۔
صبح سویرے لوگ اتنے نہیں پہنچے تھے۔ لیکن جب دن روشن ہوا تو ایسا لگتا تھا کہ گویا شرکا کا کبھی نا ختم ہونے والا ایک تانتا بندھاہے ۔ مولانا راستے میں کھڑے تھے اور والہانہ انداز میں اجتماع گاہ میں پہنچنے والے مندوبین کا استقبال کر رہے تھے۔ مولانا نے مجھ سے کہا دیکھیے الیاس فلاحی کس طرح سے اللہ تعالی نے دعاؤں کو قبول فرمایا اور کیسے لوگ مہاراشٹر کے مختلف علاقوں سے نکل کر اجتماع گاہ پہنچ رہے ہیں۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس اجتماع کو شہر کے لوگوں کا پورا سپورٹ حاصل تھا۔ اورنگ آباد شہر کے اہم لوگ ، مساجد کے ائمہ کرام، علمائے کرام اور مسلم دانشوران کثیر تعداد میں اس اجتماع کی کامیابی کے لیے فکر مند تھے۔ علاقائی سطح کے اخبارات اورنگ آباد ٹائمز،رہبر،انقلاب اور اردو ٹائمز وغیرہ نےمہینوں تک اپنے صفحات پر اجتماع کی سرگرمیوں خصوصی جگہ دی ۔اجتماع سے متعلق پوری ریاست میں جو سرگرمیاں جاری تھیں انھیں خصوصی کوریج دیا گیا۔ بعض اخبارات نے اپنے خصوصی صفحات اجتماع کے لیے مختص کردیے تھے۔ ان میں صرف اجتماع سے متعلق سرگرمیوں اور اس کی تیاریوں کے تعلق سے خبریں شائع ہوتی تھیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ اخبارات اس کے لیے کوئی پیسہ جماعت سے نہیں لیتے تھے۔ اس وقت یہ محسوس ہوا کہ ہمارے رفقائےتحریک کی مخلصانہ جدوجہدنے ملت کا دل جیت لیا ہے۔
غیر مسلم احباب بھی اس اجتماع میں شریک تھے۔ اجتماع گاہ کے میدان کے لئے جو کھیت حاصل کئے گئے ان کھیتوں میں ہمارے غیر مسلم بھائیوں کے بھی کئی کھیت شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے فصل والے کھیت بھی اجتماع گاہ کو دیے اور کوئی معاوضہ بھی نہیں لیا بلکہ اسے اپنی سعادت قرار دیا ۔ مولانا عبدالقیوم صاحبؒ نے بتایا کہ ہمارے ان غیر مسلم احباب کو سرکاری محکمے کے بعض لوگوں نے ورغلایا کہ تم نے ان لوگوں کو اجتماع کے لیے کیوں زمینیں دیں تو انہوں نے انھیں ڈانٹ دیا اور کہا کہ تم نہیں جانتے یہ بہت اچھے لوگ ہیں ۔ ان کا کام اور پیغام سماج کو جوڑنے والا ہے سماج کو توڑنے والا نہیں ہے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2024