بچوں کو شخصيت کي تعمير کا راستہ دکھائيں

مارشل آرٹ کے اینگلو ملیشین کھلاڑی پِیٹر ڈیوِس نے جب   کتے کے چھوٹے چھوٹےپلّوں کا مشاہدہ کیا کہ وہ محض  تین ہفتوں میں چلنے پھرنے کے قابل ہوجاتے ہیں، ان میں سونگھنے کا حاسّہ پروان چڑھتا ہے اور ان کے دانت نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ پِیٹر  کو محسوس ہوا کہ انسان کسی بھی دوسرے جاندار سے زیادہ بہتر fittestہے تو  انسانی بچہ کیوں جانور کے بچہ کے مقابلے میں  سیکھنے، سمجھنے اوراپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں اتنا وقت لیتا ہے۔ اور یہ تجسس درست بھی ہے کہ آخر کیوں انسانی بچہ ایک لمبے عرصے تک والدین پر منحصر رہتا ہے؟ پیٹر نے دیکھا کہ جانور کے بچے انسانی بچے کے مقابلے میں بہت  جلد ی صلاحیتیوں سے لیس ہوجاتے ہیں، انھوں نے چاہا کہ ان کا بچہ بھی جلد اسمارٹ بنے، بلکہ وہ  انسان ہے اور کرہ ارض پر بسنے والے، نظر آنے والے کسی بھی جاندار سے بہتر ہے، تو سوپر اسمارٹ بنے، ان کی تمنا تھی کہ کم عمری سے ہی بچہ بہت کچھ سیکھ جائے۔  کیا یہ خواہش صرف پیٹر ڈیوس کی ہی تھی؟ بالکل نہیں بلکہ صدیوں سے سنجیدہ  والدین کی ایسی چاہ نے دنیا کو ہنرمند اور قابل نسلیں فراہم کی ہیں۔ اکیسویں صدی کی یہ  ابتدائی  دو دہائیاں، جو ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں، عجیب و غریب،زبردست و زرنگ، ذہین و  فطین، قابل ہنر مند نسل سے مالامال ہیں۔ طرفہ تماشا یوں بھی ہے کہ جس طرح  صلاحیتیں امڈ پڑی ہیں، مختلف میدانوں میں مسابقتی فضا اور مقابلہ آرائی بھی جم کر ہونے لگی ہے۔ والدین کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ بچوں کو ہر ممکن  لیاقت سے آراستہ کیا جائے ورنہ آگے چل کر ان کی نجی زندگی، معاش اور روزگار کی ضروریات اور سماجی سرگرمیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔ اس مضمون میں ہم اس پر بات کریں گے کہ کس طرح بچپن سے ہی بچوں میں ہنرمندی اور لیاقت پروان  چڑھائی جائے۔ 

ابتدائی تین سال 

جب پیٹر ڈیوس اپنا سوال لے کر بچوں کی ماہر نفسیات اور محقق اسٹیسی ٹے کے پاس پہنچے تو موصوفہ نے انھیں سمجھایا کہ دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ زندگی کے ابتدائی دنوں میں انسانی بچے میں بڑی بڑی تبدیلیاں نہیں ہوتیں جیسے جانور کے بچے میں ہوتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ ابتدائی ہزار دن یعنی ابتدائی تین سال میں دماغ کی بناوٹ، جسامت اور ترقی کا جو عمل ہوتا ہے وہ کائنات کے کسی بھی جانور کے ابتدائی دنوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے  زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ محققین اور ماہرین کے نزدیک دماغ کی اہمیت ہمیشہ ہی زیر بحث رہی ہے اور یہاں ڈاکٹر صاحبہ بھی اسی بات پر زور دیتی ہیں کہ ابتدائی ہزار دنوں میں  دماغ میں جو ترقی ہوتی ہے وہ اگلے ہزار مہینوں کے لیے مفید ہے۔ محترمہ نے بتایا کہ ان دنوں جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ ہے غذا۔ یہاں علامہ اقبال کی والدہ ماجدہ کی یاد آتی ہے کس طرح انھوں نے روزی کے ذرائع کے سلسلے میں  شک و شبہ ہونے کی وجہ سے  اپنے نونہال کو اپنے ہی دودھ سے دور رکھا۔  معلوم ہوا کہ  غذا کی غذائیت توانائی دیتی ہے اور غذا کی پاکیزگی روحانی قوت دیتی ہے۔ 

اگرچہ حالیہ برسوں میں سائنس کی دنیا میں انسانی دماغ پر بہت تحقیقات ہوئی ہیں، لیکن پھر بھی ابھی تک ہمارے لیے ہمارا دماغ ایک پراسرار اور پیچیدہ عضو ہے، جس میں  بے شمار پوشیدہ رازہیں۔ پہلے تین برسوں میں دماغ کی ٪90 تکمیل ہوجاتی ہے۔ ان برسوں میں نئی معلومات تیزی سے جذب ہونے لگتی ہے اور آپس میں برقی تار کی طرح خلیات ایک دوسرے سے جڑنے لگتے ہیں۔ 

آج کل مسابقتی دوڑ کے دور میں والدین کی اپنے تین سالہ بچے سے امیدیں بہت بڑھ رہی ہیں۔ وہ بچوں کو اس عمر  میں ہی  بہت کچھ سکھا دینا چاہتے ہیں۔ ان کا یوں پر جوش ہونا غلط نہیں ہے لیکن بچوں کے نازک ذہن پر دباؤ بنانا اور ان کی خود سیکھنے کی آزادی اور خوشی چھین لینا غیر صحت مند ہے۔ آج بچے تین سال کی عمر میں کوئی نہ کوئی ٹیلنٹ تو اپنا ہی لیتے ہیں اور ایسا کہا جاتا ہے کہ بچوں کو کسی فیلڈ میں ماہر بنانا ہو تو اسی عمر سے محنت کی جائے۔  مگر ایسی فکر رکھنے والے بیشتر اداروں کے پاس اپنا کوئی کام یاب ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ البتہ ہارورڈ یونیورسٹی میں ہوئی ایک اسٹڈی کے مطابق بچوں کو لمبی کام یابی اور دیرپا خوشی کے لیے دو چیزیں درکار ہیں، 1 محبت 2 آداب و اطوار۔  والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے نو نہالوں کے لیے گول ضرور سیٹ کرلیں، مقصد کی طرف پلاننگ بھی رکھیں اور ساتھ ہی اس ننھی عمر میں بنا کسی زبردستی کے انھیں سیکھنے اور سمجھنے کی آزادی  اور سازگار ماحول مہیا کریں۔ لوگوں کی تعریف اور تالیوں کے لیے انھیں تیار نہ کریں، نہ ہی  انھیں دکھاوے  اور نمائش کی ڈگر پر بھیجیں، بلکہ بڑے مقاصد کے لیے تحمل و استقامت کے ساتھ ان کی جسمانی و ذہنی عمر کے مطابق انھیں تیار کریں۔ اس عمر میں بچے بات کرسکتے ہیں تو دعائیں، قرآن کی چھوٹی سورتیں، ترانے یاد کروائیں۔ ان کے تجسس کو تسکین دیں اور تجسس کے لیے انھیں ابھاریں۔ ایک ہی شئے کے بارے میں وہ بارہا سوال کرسکتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے؟ اس وقت ہر بار ایک جواب مطلوب نہیں ہوتا، اس چیز کی کچھ معلومات جیسے رنگ، بناوٹ، شکل، استعمال، فائدہ، نقصان بھی بتاتے رہیں۔ بچوں کے لیے سیروتفریح کا انتظام کریں تاکہ وہ قدرت سے قریب آسکیں اور ان کی غور و فکر کی صلاحیت پروان چڑھے۔ 

سات سال کی عمر تک 

بل گیٹس نے ایک مرتبہ کہا تھا ’’ (زندگی کے) پہلے پانچ برسوں کا تعلق اگلے اسّی برسوں سے ہے‘‘ یعنی اس عمر میں سیکھے گئے اطوار آنے والی زندگی پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔  امید کی جاتی ہے کہ اس دور میں بچوں کے لیے کی گئی کوششیں دور رس ثمرات دیں گی۔ والدین کی اپنی کام یابی اور بچوں کی بہتر زندگی کے لیے اس عمر میں بچوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ عمر کے اس دور میں والدین بہ آسانی یہ جان سکتے ہیں کہ ان کے بچے کی دل چسپی کس مضمون میں ہے، بچے کی قابلیت کیا ہے اور آگے چل کر وہ کیا بن سکتا ہے۔ اس لیے سات سال کی عمر تک والدین ایسے ہنر اور صلاحیت سے بچے کو متعارف کرواسکتے ہیں جو بچے کے مستقبل میں کام آنی ہے۔ کوئی بھی آرٹ سکھانے کے لیے بچوں میں استقامت کو بڑھانا لازمی ہے۔ 

اسٹینڈفور یونیورسٹی کی ماہر نفسیات کے سامنے سوال پیش کیا گیا کہ بچوں کو فوکس کرنا کیسے سکھائیں ؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ اکیسویں صدی میں کسی بھی بچے (یا انسان )  کا اپنے مقصد پر نگاہ رکھنا اور راستے سے نہ بھٹکنا سب سے بڑا ہنر ہے اور یہ بچوں کو  ان کے بچپن میں ہی سکھانا چاہیے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی میں بچوں پر ہونے والی ایک تحقیق یہ بتاتی ہے کہ روزمرہ زندگی میں بچوں کو جتنے فیصلے لینے کی آزادی دی جاتی ہے اتنی ہی ان میں خودداری،استقامت اور نظم و ضبط کی پابندی آجاتی ہے۔ مثلاً اپنی پسند کے رنگ کا لباس پہننا، جب والدین ان کی پسند اور مرضی کو قبول کرتے ہیں تب ان میں اپنے آپ کو قبول کرنے اور خودی کو اپنانے کی قابلیت آتی ہے۔ اسٹینڈ فورکی ایک تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ بچے کو سکھانے کے عمل میں نتائج سے زیادہ والدین کو اپنے  رویوں پر غور کرنا ہوتا ہے۔ بچوں میں فوکس کو مضبوط کرنا ہے تو والدین  مثبت روی کو اپناتے ہوئے حوصلہ افزائی کے لیے  اپنا دل بڑا کریں۔ 

اس عمر تک مندرجہ ذیل چند ٹیلنٹ سکھانے چاہیئے: 

ریاضی 

یہ ایک ایسا مضمون ہے جو ہے تو ذرا مشکل لیکن  ہےبہت مفید۔ ریاضی صرف جمع تفریق کا نام نہیں ہے بلکہ اشکال، لوجک، جسامت، بناوٹ، رقبہ اور بہت کچھ شامل ہے۔  یہ ایک ایسا مضمون ہے جسے سکھانے کی ضرورت  ہوتی ہے  اور جو خود سے سیکھا نہیں جاسکتا۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی اس مضمون میں دل چسپی ابھاریں کیوں کہ یہ علم کئ ہنروں کے دروازے کھولتا ہے اور مستقبل میں کیریئر کے لیے اچھا اسکوپ دیتا ہے۔ ریاضی سے ذہنی ورزش ہوتی ہے، یادداشت مضبوط ہوتی ہے۔ یہ مضمون عقل کو دلیل کی کسوٹی سکھاتا ہے۔ ریاضی سے مشکلوں کو حل کرنے کا ہنر آنے لگتا ہے۔ ریاضیات پر بہت سے گیم بھی بنے ہیں جو نفسیاتی اور جذباتی کیفیت کو تسکین دیتے ہیں اس طرح یہ مضمون جذباتی صحت اور کنٹرول کے لیے بھی مفید ہے۔ 

کھیل کود 

ایسے کھیل کود اور ورزش جن سے جسمانی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے وہ صحت و تندرستی کے لیے یقینًا مفیدہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:  قوی مومن کم زور مومن سے بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے۔ حالاں کہ دونوں اچھے ہیں۔‘‘ (مسلم ) جسمانی طاقت کو کیوں بڑھانا ہے یا برقرار رکھنا ہے؟ تاکہ زندگی بہتر طریقے سے گزاری جاسکے، بندگی کے تقاضے ادا کیے جاسکیں، غلط کاموں سے روکنے اور ظلم کے خلاف اٹھنے کے لیے بھی جسمانی طاقت  ضروری ہے۔  حلال روزی کمانے اور سماج کے لیے مفید بننے کے لیے جسمانی صحت بھی مطلوب ہے۔ 

اس عمر میں بچوں کے ایسے پسندیدہ کھیل جو دنیاوی اور دینی دونوں پہلوؤں سے مناسب   اور مفید ہوں، انھیں  کھیلنے کی طرف رغبت دلائی جائے۔ 

کتابوں اور قلم سے دوستی 

اس عمر تک بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھانا چاہیے۔ ایک ایک حرف جوڑ کر لفظ بنانا اور ان  لفظوں کو پڑھنا پھر ان سے جملہ بنانا اور جملوں کو پڑھنا یہ قابلیت بڑے کام کی ہے۔ اس عمر میں پڑھائی کو پرکشش اور بچوں کو سنجیدہ بنانا چاہیے‌۔ تعلیم کے ابتدائی دنوں سے ہی اس دل چسپی کو بنانے سے توجہ دیر تک بنی رہے گی۔ ان کی کتابوں میں جو چیزیں سکھائی جاتی ہیں، مثلاً جنک فوڈ نہیں کھانا چاہیے، اگر  ان باتوں پر بچے عمل کرتے ہیں تو ان کی ہمت افزائی ہونی چاہیے ورنہ انھیں عمل کرنا سکھانا چاہیے اس طرح وہ  کتابوں کی قدر بھی سیکھ سکیں گے۔ 

پودے لگانا اور باغبانی کرنا 

پودے قدرت کا ایسا شاہ کار ہیں جو بچوں کو نہ صرف صحت و سکون عطا کرتے ہیں بلکہ ان میں کچھ کرنے  کی قابلیت کو بڑھاتے ہیں۔ عمر کے اس دورانیے میں بچے بہ آسانی  بیج بو سکتے ہیں، پودا لگا سکتے ہیں، پانی ڈال کر اس  نگہبانی کرسکتے ہیں۔ اس عمل سے بچوں کو وقت گزارنے کے لیے ایک عمدہ سرگرمی مل جاتی ہے جو انھیں سکھاتی ہے بیج بونے کے کتنے دنوں بعد پودا زمین سے سر نکالتا ہے، پودا کیسے بڑھتا ہے، پتے کیسے آتے ہیں، کلی اور پھول کیا ہے؟ سبزی یا پھل کیسے آتے ہیں وغیرہ۔  The book of Gardening Project for kids بچوں میں باغبانی کے شوق کو دل چسپ طریقے سے بڑھانے کے لیے بہت سی ترکیبوں سے مالا مال  عمدہ کتاب ہے۔  باغبانی قدرتی ماحول کو صاف اور خوشگوار رکھنے معاون ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزمرہ زندگی میں بہت سے چیزیں گھر کے کمپاؤنڈ میں ہی دستیاب ہوجاتی ہیں۔ 

آرٹ کرافٹ 

بچوں کے وقت کو خوشگوار اور کارآمد بنانے کے لیے آرٹ کرافٹ عمدہ سرگرمی ہے۔ اس سرگرمی میں بچے کو موقع ملتا ہے کہ وہ مختلف کارآمد اور بے کار اشیاکو کام میں لاکر کے نئی چیزیں  بنائے۔ اس سرگرمی میں بچے کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نیز اس کی تخلیقی اور تخیلاتی صلاحیت کی ذہنی ورزش ہوتی ہے۔ ہاتھ، انگلیاں، آنکھیں، دماغ سب ایک ساتھ کچھ نئی ایجاد کے لیے جٹ جاتے ہیں۔  اس طرح بچوں کو اچھا وقت گزارنے کے لیے بہتر راستہ  مل جاتا ہے۔ 

مسلمان والدین کو 7 برس کی عمر تک مندرجہ ذیل دو چیزیں پر لازماً توجہ دینی چاہیے : 

قرآن مجید کی تلاوت 

ہر مومن کی زندگی کی سب سے قیمتی شئے قرآن مجید ہے، جس کی تلاوت اور تلاوت کے آداب و قواعد بچوں کو بچپن میں ہی سکھائے جائیں تاکہ وہ حسنِ  تلاوت کے زیور سے آراستہ ہوجائیں۔ والدین قرآن حکیم کی تلاوت و قرأت کو بطور فریضہ ایک قابلیت کی طرح اہمیت دیتے ہوئے بچوں میں اس ذوق کو ابھاریں۔ 

نماز کی رغبت 

نماز کا شوق دلانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بچوں کے سامنے نماز پڑھی جائےیا انھیں ساتھ مسجد لے جانے کا اہتمام ہو۔  نماز کا شوق پیدا کرنے  کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔  بچے میں نماز کا ایسا شوق پیدا ہوجائے کہ وہ اسے زندگی کا لازمی کام سمجھ لے۔ 

نو عمری تک 

عمر کے اس دور میں آنے تک بچے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جیسے کہ روز مرہ کے کام کرنا، کپڑے کی تہہ بنانا اور انھیں ترتیب دینا، الماری کی صفائی، موٹر گاڑی اور کار دھونا، قریب کی دکان سے سودالانا، پھل یا سبزی توڑنا، آسان پکوان    وغیرہ۔  روزانہ کے سارے کاموں کا شمار ان قابلیتوں میں ہوتا ہے جو زندگی کو آسان کرتی ہیں۔ اس عمر میں کچھ ایسی صلاحیتوں کا سیکھنا ناگزیر ہے جو معاشی و معاشرتی زندگی کے لیے معاون و مددگار ہوں۔ 

والدین  اور نو عمر بچوں  دونوں کو ہی اس عمر میں صلاحیت اور ہدف کا اندازہ ہوجاتا ہے، ہدف کا حصول ایک مشکل کام ہوتا ہے، تاہم پہلے سے کچھ قابلیتوں سے لیس ہونا اس  سفر کی دشواری کو کم کرتا ہے۔ 

مندرجہ ذیل مہارتوں پر توجہ  نو عمر بچوں کو لائق اور قابل بنانے میں مددگار ہوسکتی ہے۔ 

مختلف زبانوں میں مہارت 

ماہر لسانیات کے مطابق ہر انسان کے دماغ میں زبان کو جذب کرنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدائشی طور پر موجود ہے۔ اسی قدرتی صلاحیت کی وجہ سے انسان زبان کے مختلف الفاظ، جملے نیز قواعد سب کچھ سیکھ جاتا ہے۔ ویسے تو عمر کے کسی حصے میں انسان  کوئی زبان سیکھنا چاہے تو سیکھ سکتا ہے، لیکن ماہرین لسانیات کاماننا ہے کہ بارہ برس کی عمر تک دماغ اس معاملے میں خاصا تیز ہوتا ہے۔ زندگی کے ابتدائی بارہ برسوں میں مختلف زبانیں سیکھنے، سمجھنے، بولنے اور ان پر عبور حاصل کرنے کی جو رفتار ہوتی ہے وہ بارہ برس کے بعد عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔  والدین کو عمر کے اس دورانیے اور قدرتی خاصیت کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ زبان دانی اور مختلف زبانوں کا علم ذہن کو تیز کرتا ہے‌۔ گلوبل ویلیج کے دور میں مختلف زبانیں بولنے والوں سے روابط و تعلقات قائم کیے جاسکتے ہیں۔زیادہ زبانوں کی مہارت انسان کی افادیت میں اضافہ کرتی ہے اور اس کی قابلیت  بڑھانے کے مواقع دو چند کردیتی ہے۔ 

قرآن مجید عربی زبان میں ہے، اسے ترجمے سے  پڑھنے سے بھی بہت فائدہ ہوتا ہے لیکن عربی زبان میں قرآن پڑھنے کی بات اور ہی ہے۔  والدین اپنے بچوں کو عربی زبان سکھا کر انھیں نایاب تحفہ دے سکتے ہیں۔  حسن البنا شہید فرماتے کہ داعی کی زبان فصیح ہونی چاہیے۔  زبان کے قواعد و باریکیوں سے جلد آگاہی بچوں کو فصاحت میں ماہر  بناسکتی ہے۔ایک سے زیادہ  زبانوں کے علم سے ایک مومن کی دعوت و اصلاح کے میدان میں زیادہ لوگوں تک رسائی ہوتی ہے۔ 

مرمت کا ہنر 

کچھ عرصہ قبل تک نو عمر لڑکوں کو گھڑی سازی اور گھڑی کی مرمت کرنا، سائیکل کے پہیوں کی مرمت کرنا، بجلی اور پائپ کے کچھ کام، جب کہ لڑکیوں کو سلائی، بنائی کڑھائی  وغیرہ سکھایا جاتا تھا۔ ان صلاحیتیوں سے روزمرہ کے معاملات میں خود اعتمادی آجاتی تھی۔ آج بدلتے وقت کے ساتھ یہ صلاحیتیں نایاب ہوتی جارہی ہیں اور ان کی جگہ دوسری صلاحیتوں نے لے لی ہیں۔ جیسے روبوٹکس، راکٹ اور سیٹلائٹ کا گیان، ایپ، ویب سائٹ اور سافٹ ویئر کوڈنگ کی تکنیک وغیرہ۔ آج کے ترقیاتی دور میں بچوں میں ان صلاحیتیوں کی آبیاری ان کی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے اور انھیں ہوشیار بنانے کے لیے بھی۔ 

مندرجہ ذیل کچھ ایجنسیاں اور پلیٹ فارم ہیں جو بچوں میں ایسی صلاحیتوں کی ترویج کا کام کررہے ہیں۔ 

Witblox 

یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو ویب سائٹ اور ایپ کی شکل میں موبائل یا کمپیوٹر اسکرین پر آسانی سے مل سکتا ہے۔ یہاں آٹھ تا دس سال سے ہی بچے اپنا نام درج کرواکے ان کے دیے گئے ٹاسک کا حصہ بنتے ہیں اور مقابلوں میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ مقابلے کسی بھی تخلیقی اور تخیلاتی نمونے کےہوتے ہیں۔ بچے یہاں اپنی ایجادات پیش کرتے ہیں، ان کی ایجاد کی نمائش اور حوصلہ افزائی کا انتظام ہوتا ہے پھر یہ بچے اپنے اکاونٹ میں پوانٹس جمع کرتے ہوئے آئندہ پروجیکٹ یا ایجادات میں مستعمل انوکھی اشیا ویب سائٹ سے حاصل کرتے ہیں۔ Witblox  امیزون اور فلپ کارٹ پر بھی آپ کو مل سکتا ہے جہاں سے والدین بچوں کے لیے انوکھے پروجیکٹ نما کھلونے منگا سکتے ہیں، جن سے بچوں میں جدت اور ندرت نمو پاتی ہے۔ 

OLL 

صرف اسکولی تعلیم سے بچوں کو ایک کام یاب زندگی نہیں ملتی،  انھیں کتابوں اورامتحانوں کی دنیا کے باہر بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اسی نظریہ پر OLL نامی پلیٹ فارم یا ادارہ کام کرتا ہے۔ ویب سائٹ پر مخصوص مدت کے مختلف کورس مل جاتے ہیں جنھیں قابل اساتذہ کوچ کرتے ہیں اور کورس کے بعد سرٹیفکیٹ بھی دیے جاتے ہیں۔ یہاں سارے کورس جدید نوعیت کے ہیں۔  حیران کن بات یہ ہے کہ  اٹھارہ سالہ شریان ڈاگا  (श्रेयान डागा)نے اس کی بنیاد ڈالی ہے اور کوئی بھی  شخص  اس کی ویب سائٹ کو دیکھتے ہی اس کی منظم ساخت، بناوٹ اور درجہ بندی سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔ 

اس طرح کے اور بھی پلیٹ فارم موجود ہیں جن سے نو عمر بچے منسلک ہوکر اپنے بچپن کو دل چسپ اور معنی خیز بناسکتے ہیں۔ 

تحریری اور تقریری صلاحیت 

والدین کو اس عمر میں اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کا بچہ  تقریر و تحریر کے کس میدان میں ماہر ہوسکتا ہے۔ کسی بچے کو لکھنے کا شوق ہو تو اسے زبان و ادب سے مانوس کرنا چاہیے۔  تحریری میدان میں بہت سی راہیں ہیں جیسے کہانیاں، افسانے، نظمیں، مضامین، اسکرپٹ رائٹنگ، خاکہ وغیرہ۔ ان ساری راہوں کی ضمنی راہیں بھی ہیں جیسے مضامین میں مزاحیہ مضامین، معلوماتی مضامین، نظموں میں حمد، نعت، غزل، کہانیوں میں چھوٹی بڑی کہانیاں، سبق آموز کہانیاں۔  اگر بچے میں تحریری صلاحیت ہے تو کس راہ کے ساتھ  وہ زیادہ فٹ ہوتی ہے، اس پر پہلے فوکس کریں۔  بچوں کی راہنمائی والدین نہ کرسکتے ہو ں تو کسی کا تعاون حاصل کریں۔ معروف مصنف مائل خیر آبادی کی کتاب ’’ میں نے مضمون نویسی کیسے سیکھی‘‘ ان کے اپنی تحریری سفر‌ اور کام یابی کی روداد ہے۔  اپنے بچوں کی مدد کرنے میں اس سے روشنی ملے گی۔ 

تقریری صلاحیت کے لیے الفاظ کی ادائیگی، لب و لہجہ، اپنی بات کو پہنچانے کا ہنر اور شجاعت و اعتمادی ہونی چاہیے۔ بچوں کی مشق کروانے میں والدین کی طرف سے مثبت روی اور حوصلہ افزائی مطلوب  ہوتی ہے۔ یہ خاصیت بار بار مشق کرنے سے اور سامعین کا سامنا کرنے سے بہتر سے بہتر ہوتی ہے۔ تقریری میدان میں بھی بہت سی راہیں ہیں جیسے کہ قصہ گوئی، تعلیم و تعلم، ڈراما، پریزنٹیشن وغیرہ کس طرح کی تقریر بچوں کے لیے آسان ہے اور والدین کس طرح کی کروانا چاہتے ہیں، دونوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں میں اس صلاحیت کو پروان چڑھائیں۔ 

تحریری اور تقریری صلاحیتیں دینی پہلو سے بھی دنیاوی ترقی کے لیے بھی بہت کارآمد ہیں، بچوں میں  دل چسپی ہو تو اس فن کی مہارت  بڑھانے کا خاص اہتمام کریں۔ 

تجارت و خریداری 

اس عمر تک بچوں کو خریداری کی بنیادی معلومات سکھائی جائیں، مثلاً کون سی چیزیں کہاں سے خریدیں اور ضرورت کے مطابق کیسے چیزوں کی خریداری کی لسٹ بنائیں۔ والدین میں سے کوئی اگر بزنس میں ہے تب اپنے بچوں کو تجارت کی بنیادی معلومات بھی ضرور دیتے رہیں۔  اگر وہ اسکول کے میلے میں اسٹال لگانا چاہتے ہیں یا ہینڈ کرافٹ کی چیزیں  بیچنا چاہتے ہیں تو ان کی مدد کریں۔  یہ تکنیک اس عمر کے لیے کوئی بڑی مشکل بات نہیں ہے سالہاسال سے ہندوستان میں بنیے کی دکان پر اپنے والد، چچا، ماموں کے درمیان چھوٹے بچے بچپن سے ہی تجارت کے گر سیکھتے آرہے ہیں اور وہ کم عمری میں تجارت کے بنیادی اصول اس طرح سیکھ جاتے ہیں کہ آگے چل کر بڑا بزنس بنالیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کو ان کے چچا ابو طالب، (جو کہ تاجر تھے ) کم عمری سے ہی اپنے ساتھ سفر پر لے جایا کرتے تھے۔ 

حال ہی میں ہندوستان میں ملکی سطح پر The Ceo Challenge نامی مقابلہ شروع ہوا ہے جہاں گیارہویں اور بارہویں جماعت کے طلبہ و طالبات انوکھے بزنس آئیڈیا کو پیش کرتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم طلبہ و طالبات میں بزنس کی سوجھ بوجھ کو ایک نئی سطح پر لے جاتا ہے۔ 

فوری علاج – فرسٹ ایڈ 

ایسے حادثات جن میں ڈاکٹر کے پاس جانے سے پہلے جان بچانے کی غرض سے یا تکلیف کم کرنے کے تحت جو علاج کیا جاتا ہے اسے فوری علاج کہتے ہیں۔ اس علاج سے حالات یا حادثے کی بدتری کسی حد تک کنٹرول کی جاسکتی ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے choking  ہوسکتی ہے یعنی کھانا حلق میں پھنس جائے اور سانس لینے میں دشواری ہو، یہ حال دیر تک رہا تو موت کا اندیشہ ہوتاہے۔ کسی سانپ، بچھو یا دیگر زہریلے جانور کا کاٹنا بہت دردناک ہوتا ہے اور فوری طور پر علاج کرنا پڑتا ہے ورنہ جان خطرےمیں رہتی ہے۔ کہیں کوئی جل گیا، یا حادثے میں کسی عضو پر گہرا گھاؤ ہوا، یا کسی کو مرگی کا دورہ پڑ گیا، ایسی کئی صورتیں ہیں جہاں فوری طور پر لیا جانے والا آسان اور ہلکا سا عمل بھی تکلیف میں پھنسے انسان کو کچھ راحت دے سکتا ہے۔ یہ ہنر گھر، خاندان میں، اسکول میں، دوستوں میں، سڑک پر، بازار میں، آفس میں کہیں بھی لوگوں کی مدد کرنے میں کارگر ثابت ہوگا۔ 

کوئز کی مہارت 

چاہے اسلامی کوئز ہو یا جنرل نالج کوئز ہو، کوئز معلومات میں اضافہ کرنے میں ایک بڑا ٹول ہے۔ بچوں کے لیے کوئز کی کتابیں خریدیں، ان کی کوئز کے مقابلوں میں شرکت کو یقینی بنائیں،  ان کے پسندیدہ مضمون کے کوئز گوگل، اخبار یا میگزین سے حاصل کرکے ان کی فائل بنائیں۔کوئز دماغی صحت اور آئی کیو کے لیے مفید ہے۔  کوئز سے معلومات کا خزانہ آسانی سے ذہن میں سماتا ہے جو تعلیم اور روزگار دونوں کے لیے سازگار ہے۔ 

حفظ قرآن 

کسی مسلم ادارے میں ایک ٹیچر  کے پاس گیارہویں جماعت کے طالبعلم سے جماعت قرآن کی تلاوت کے لیے  کہا گیا تو اس نے چڑ کر کہا: ’’مجھے قرآن کی تلاوت نہیں کرنی ہے‘‘۔ ٹیچر کے لیے یہ بات نہ صرف حیران کن بلکہ فکرمندی کی بھی تھی۔ انھوں نے بڑی ہی نرمی سے اس طالبعلم سے وجہ پوچھی، وہ کہنے لگا بچپن سے ہمارے گھر میں صرف قرآن کی تلاوت کی ریکارڈنگ ہی لگائی جاتی تھی، ہمارے اوپر حفظ کرنے  کے لیے دباؤ ڈالا جاتا، حافظہ درست نہ ہونے پر سزا ملتی اور جب بھی ہم کار میں کہیں بھی جاتے تب بھی صرف قرآن کی تلاوت ہی ہمیں سنائی جاتی تھی، غرض یہ کہ صبح شام تلاوت سنتے رہو، مہمانوں کے سامنے بھی تلاوت کرو بس میرے اند چڑ پیدا ہوگئی‘‘۔   یہ ایک اچھے مقصد کے لیے غیر حکیمانہ طرز عمل اختیار کرنے کا نتیجہ ہے۔ 

قرآن مجید سے بچوں کا تعلق ضرور قائم کیجیے، مگر وہ  شوق اور محبت کا تعلق ہو۔ بچوں کے دلوں میں اسے آہستہ آہستہ اطمینان سے اور پیارکے راستے  اتارئیے۔ ان پر جبرنہ کیجیے۔ انھیں اس کی اہمیت بتائیے اور سمجھنے دیجیے، ان کے دل میں اس کا احترام اور محبت قائم کیجیے۔ انھیں اسے اپنانے دیجیے پھر انھیں حفظ بھی کروائیے۔ واضح رہے قرآن حفظ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے یہ دنیا میں دی جانے والی ہر بڑی سے بڑی ڈگری کے لیے کی جانے والی اسٹڈی سے زیادہ بھاری بھرکم  عمل ہے۔ اس لیے اس عمل میں والدین کو بچوں کا بہت ساتھ دینا ہوگا۔ بچپن میں کچھ آسان سورتوں کی یاددہانی سے حفظ کے سفر کی شروعات ہوجاتی ہے۔ اس سفر کو خوشگوار بنانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بچوں کی ذہانت اور یادداشت کی مناسبت سے انھیں مکمل وقت دیا جائے، یہ عمل جاری رہے چاہے اس کی رفتار دھیمی کیوں نہ ہو۔ حفظ قرآن کے تعلق سے کتابیں بھی موجود ہیں والدین ان کتابوں سے رہ نمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ 

مایوس نہ ہوں 

بچوں میں جسمانی نقائص اور معذوری والدین کے لیے بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ ان بچوں کی دیکھ ریکھ کرنا، بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا، ان کی خدمت میں چوبیس گھنٹے حاضر رہنا اور پھر دیگر بچوں کے مقابلے اپنے بچہ کو کم زور اور پیچھے پانا بڑا ہی دل شکن مرحلہ ہے۔ کبھی معذوری دائمی ہوتی ہے اور  کبھی عارضی ہوتی ہے۔ ایسے میں والدین مایوس نہ ہوں۔ ان بچوں کی تربیت میں تعاون کے لیے ایسے ادارے اور اسکول موجود ہیں جو ان میں چھپی ہوئی قابلیت کو ڈھونڈ کر نکھارتے بھی ہیں۔ 

اردن میں حال ہی میں چھبیس سالہ ڈاؤن سنڈروم کی مریضہ نے سات سال میں قرآن حفظ کیا اور اپنی بیماری کے ساتھ  اس کارنامے کی پہلی مثال قائم کی۔ ویسے تو فٹ بال پیروں سے  کھیلنے والا کھیل ہے لیکن 2022 میں فیفا کی افتتاحی تقریب میں غانم مفتاح جاذب نظر رہے۔ درپن انانی بینائی سے محروم ہونے کے باوجود چیس چیمپئن ہیں۔ محسن، ایک ایسا ادارہ ہے جو اس طرح کے بچوں کو نہ صرف قابل بناتا ہے بلکہ ایک اچھا مسلمان بھی بناتا ہے۔ 

 والدین دھیان دیں 

گلین‌ڈومین (1999-2013) ایک ایسا جانا مانا نام ہے جنھوں نے بچوں میں بالخصوص معذور بچوں میں ہنر مندی کے موضوع پر خوب محنت کی، جن کے ادارے آج بھی لاغر اور معذور بچوں کو حوصلہ اور طاقت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کے یہاں عجوبے ہوتے ہیں وہ اس طرح کہ بچہ بالکل ہی کم‌عمری  میں چاہے، جسمانی کم زوری کے ہوتے ہوئے بھی،  ایسا کچھ سیکھتے ہیں کہ آنکھیں دنگ رہ جاتی ہیں یقیناً اس میں گلین ڈومین کی بہت محنت کارفرما تھی، لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ بچوں کو جو بھی معلومات دیتے ہیں اس کا مقصد بچوں کو نوبل پرائز ونر بنانا یا اولمپک میں جتانا نہیں ہے بلکہ ان کے سامنے بہت سی راہیں کھولنا ہے۔ والدین کو یہ بات نوٹ کرنی چاہیے کہ وہ بچوں میں کسی بھی  قابلیت کو بڑھانے کے لیے محنت کریں،  کیرئیر کی اونچی امیدوں کو پرے رکھ کر کریں۔  بچوں کو ہنر دینے کا مطلب انھیں قابل اور لایق بنانا ہے۔ بچوں کو ہنرمند بنانا ضروری ہے لیکن ان پر اپنی  بڑی بڑی توقعات کا  بوجھ مسلط کرنا نا مناسب ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ سیکھنے اور ترقی کرنے کے سفر کو پرلطف بنائیں۔  اپنے بچے  کو سمجھیں کہ اس کی عمر، جنس، جغرافیائی ماحول، خاندانی ماحول، دین و  مذہب وغیرہ عناصر اس کی شخصیت کو کیا روپ دے رہے ہیں اور اس میں چمکنے کے لیے کون سی قابلیت کی روشنی پوشیدہ ہے۔ یہ جسد خاکی ظاہری طور پر سراپا معجزہ ہے، اس کے ایک ایک عضو کی  کاریگری اس کے عظیم خالق کی گواہی  دیتی ہےاور  باطنی طور پر بھی اس میں چھپے عجائب کی آگاہی انسان کوبلند مقامات کی راہ دکھاتی  ہے۔ بچوں کو قابل اس لیے بنایا جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو پہچان سکیں، اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کی قدرکرسکیں، اپنی شخصیت  کی بہتر تعمیر کرسکیں،اور زندگی کو قابل رشک  کاموں سے سجاسکیں۔ 

 

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2023

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau