یہ بات ایک واضح حقیقت رکھتی ہے جس سے شاید کسی کو بھی مجالِ انکار نہ ہوگا کہ اس وقت مختلف اسباب و وجوہ کی بنا پر پورے ملک میں یہاں کے مختلف طبقات اور گروہوں میں ایک دوسرے کے بارے میں شک و بدگمانی اور ان کے مابین باہمی نفرت و عناد میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور میں یہ کہنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ بد قسمتی سے ملک کی کچھ جماعتیں مذہب اور دھرم کے نام پر اس شک و بدگمانی اور نفرت و عناد کی آگ بھڑکانے میں سب سے پیش پیش ہیں اور اپنے اس مکروہ و مذموم مشغلہ میں سادہ لوگ اور معصوم نوجوانوں کو خاص طور سے اپنے آلہ کار کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔ حالاں کہ کوئی مذہب صحیح معنوں میں مذہب کہلانے کا مستحق قرار نہیں پاسکتا اگر وہ تمام بنی نوع انسان کو ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کی بنا پر ایک دوسرے کا بھائی بہن نہ قرار دیتا ہو اور ایک خدائے واحد کی پیدا کردہ مخلوق کے درمیان محض نسل و نسب اور زبان و جغرافیہ کی بنیاد پر تفریق وامتیاز کا قائل ہو اور یہ بات بھی کسی شبہ سے بالاتر ہے کہ جہاں کسی کام میں ظلم و زیادتی کا کوئی ادنی عنصر بھی شامل ہوجائے تو وہ مذہب اور فطرتِ انسانی دونوں ہی کے نزدیک یقینًا انتہائی کریہہ اور مبغوض قرار پائے گا۔ مذہب کے نام لیواؤں کے لیے یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ اسی کے ساتھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں اور اس کے نام لیواؤں کو اس بات سے بھی پوری طرح ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کہ اہل سیاست انھیں اپنے دامِ فریب کا شکار بناکر اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کام یاب نہ ہوسکیں جیسا کہ اس زمانے میں بہ کثرت دیکھنے میں آرہا ہے اور جس کی بنا پر مذہب خواہ مخواہ بدنام اور لوگوں کے بے جا طعن و تشنیع کا ہدف بن گیا ہے۔
(خطبات امرائے جماعت اسلامی ہند، ص: ۱۵۰)
مشمولہ: شمارہ جنوری 2022