جدید الحاد سے مکالمہ

نہلزم کے حوالے سے

اس سلسلہ مضامین میں جدید الحاد اور اس کی فلسفیانہ بنیادوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے قبل کے مضمون میں اس بات پر تفصیل سے گفتگو آئی کہ جدید الحاد کس طرح سے اس پوری کائنات کی توجیہ نیچری فلسفے سے کرنے کی کوشش کرتا ہے بطور خاص جدید الحاد اس کائنات اور اس میں موجود،پیچیدگی اور رنگا رنگی کی تشریح داروینی ارتقائی فریم ورک کا استعمال کرتے ہوئے کرتا ہے۔ وہ اس کائنات میں عقل کو حیران کر دینے والے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مظاہر فطرت کو محض سائنسی مشاہدے کے ذریعے فیصل کرنے کی بات کرتا ہے۔

جیساکہ اس سے قبل بھی بات آئی کہ جدید الحاد کی تحریک کچھ فلسفیانہ بنیادیں رکھتی ہے ان میں سب سے پہلی بنیاد یہ ہے کہ کائنات کی تشریح اور انسان اور کائنات کے بیچ کے رشتے کی وضاحت بغیر کسی آفاقی مذہب کے کی جاتی ہے۔ جدید الحاد کی دوسری سب سے اہم فلسفیانہ بنیاد نہیلزم ہے۔

نہلزم کیا ہے؟

نہیلزم ایک پرانا فلسفہ ہے اور اس کی جڑیں ابتدائی یونانی فلسفیوں کے یہاں بھی پائی جاتی ہیں نہیلزم دراصل دو لفظوں کا مرکب ہے ایک نہل جس کا مطلب عدم ہے۔ نہیلزم یعنی عدم پرستی۔نہلزم کے فلسفے کے مطابق زندگی اپنے اندر بذات خود کوئی معنی،کوئی مقصد اور سچائی نہیں رکھتی بلکہ یہ سب انسان خود اپنے آپ بناتا ہے۔ یعنی انسان اور اس حیات و کائنات میں موجود زندگی کے سارے آثار، زندگی کی ساری شکلیں جانور پودے بشمول انسان، کسی کا بجائے خود کوئی مقصد نہیں ہے، یہ بجائے خود کوئی قدر یا کسی آفاقی سچائی کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔

نہیلزم کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک قسم میٹا فزیکل نہیلزم ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی شے یا حقیقت بے معنی ہے انسان کے وجود کی کوئی جدا گانہ خصوصیت یا سچائی نہیں ہے۔ دوسرے جانداروں کے مقابلے وہ کوئی امتیازی حیثیت نہیں رکھتا۔

نہیلزم کی دوسری قسم ایپسٹمولوجیکل نہیلزم ہے۔ یعنی اس بات پر یقین رکھنا کہ حقیقت تک رسائی یا مکمل سچائی کو جاننا ممکن نہیں ہے۔

نہیلزم کی ایک اور قسم اخلاقی نہلزم ہے اس کے مطابق کوئی معروضی اخلاقیات،معروضی اقدار اور معروضی اخلاقی اصول موجود نہیں ہیں۔ بلکہ اخلاقیات اضافی ہیں اور انسان نے انھیں اپنی بہتری کے لیے تراشا ہے۔ اخلاقیات کی تراش و خراش ایک طویل عرصے سے جاری و ساری ہے، جس کی ارتقائی صورت ہمارے سامنے ہے۔

نہلزم کی ایک چوتھی قسم وہ ہے جسے وجودی نہیلزم کہا جاتا ہے۔ یعنی زندگی کے اندر بجائے خود کوئی معنی یا قدر موجود نہیں ہے۔

نہیلزم کی اوپر بیان کی گئی اقسام اور ان کی تعریف سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جدید ملاحدہ یا ان کے ماننے والے نہیلزم کی ان چاروں اقسام پر کسی نہ کسی درجے میں یقین رکھتے ہیں اور الحاد کے لیے نہیلزم کی فلسفیانہ بنیادوں کا سہارا لیتے ہیں۔ بطور خاص وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مذہب جن آفاقی سچائیوں کا، زندگی کی قدر و قیمت کا،آفاقی اخلاقی اصولوں کا اور آفاقی اخلاقی قدروں کا حوالہ دیتا ہے، وہ سب کے سب انسانوں کے ذریعے بنائے گئے اخلاقی اصول اور اخلاقی قدریں ہیں۔ وہ کسی خدا کی طرف سے نازل کردہ ہدایات نہیں ہیں بلکہ انسان کے ارتقائی سفر میں جب انسان سماجی جانور بنا تب اس نے اپنی سماجی زندگی کو بہتر طور پر گزارنے کے لیے اور بحیثیت نوع ترقی کرنے کے لیے ان آفاقی اصولوں،اخلاقی اقدار اور سماجی معاہدوں کو تخلیق کیا یا یہ یہ خود ارتقا پذیر ہوئے۔ چوں کہ یہ تمام اصول واقدار اور مختلف سماجی معاہدے انسان کے لیے اور اس کی بہتری کے لیے دوسرے جانوروں کے مقابلے میں ماحول سے بہترسازگاری پیدا کرنے کے معاملے میں فائدہ مند تھے اس لیے وہ باقی رہے اور بتدریج ترقی کرتے رہے۔

اس ابتدائی گفتگو کے بعد اب ہم نہیلزم اور جدید الحاد کے درمیان رشتہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ رشتہ درج ذیل چار نکات پر مشتمل ہے:

  • کسی بھی آفاقیت کا رد
  • کسی بھی معروضی اخلاقیت کا انکار
  • وجودی نہیلزم
  • مذہب کے ذریعے دیے گئے مہابیانیوں(میٹانیریٹو)کا رد۔

کسی بھی آفاقیت کا رد: جدید الحاد نہ صرف خدا کا انکار کرتا ہے بلکہ وہ اس بات کا داعی ہے کہ مذہب انسانوں کے درمیان کشت و خون پھیلاتا ہے۔ مذہبی برتری کا جنون شدت پسندی کو جنم دیتا ہے اور تمام مذاہب عالم بطور خاص یہودیت، عیسائیت اور اسلام دنیا کے بڑے مسائل کی جڑ ہیں۔ جدید الحاد آخرت کا انکار کرتا ہے اور وہ کسی آفاقی سچائی جیسے خدا اور اس کے ذریعے دی گئی ہدایات کا بھی انکار کرتا ہے جن میں مذہب کے ذریعے دیا گیا بہت سی آفاقی حقیقتوں کا تصور ہے۔ جدید الحاد ان تمام حقیقتوں کا انکار کرتا ہے۔ اس طرح سے دراصل وہ کائنات اور انسان دونوں کے کسی متعین مقصد پر یقین نہیں رکھتا۔

جدید الحاد کے ماننے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں معنی اور مقصد کے لیے کسی مذہب کا سہارا لینا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ ہر شخص انفرادی طور پر سائنس اور عقل کا استعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی کے لیے اعلی معنی اور مقصد تشکیل دے سکتا ہے۔ جیسے سیم ہیرس نے اپنی کتاب میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ معنی و مقصد اور اخلاقیات اس بات پر مرکوز رہے کہ انسانوں کے مصائب و مشکلات کو کم کیا جا سکے، بیماریوں کا خاتمہ ہو، تمام لوگوں کو آسائش زندگی مہیا ہو، کوئی ننگا اور بھوکا نہ رہے، کسی کی موت ان بیماریوں سے نہ ہو جن پر قابو پایا جا سکتا تھا یا قابو پایا جا سکتا ہے۔اب ان تمام مقاصد کے لیے مذہب کو درمیان میں لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اخلاقیات کی بنیاد ریزن اور ثبوت پر ہونی چاہیے، یعنی عقل اور سائنسی طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے جو اخلاقیات انسان کے لیے مناسب ہوں وہ اختیار کی جائیں۔

جدید الحاد کے ماننے والے اور اس کی تحریک سے وابستہ افراد کہتے ہیں کہ آخرت کے تصور کے بجائے یہاں اور آج کا تصور رائج کیا جائے اور زندگی کے معنی اور مقصد آج اور آج کی بہتری پر مرکوز رہیں۔

کسی بھی معروضی اخلاقیات کا رد: جدید الحاد کے ماننے والے نہیلزم کے اس اہم حصے پر یقین رکھتے ہیں جسے اخلاقی نہیلزم کہا جاتا ہے۔ اخلاقی نہیلزم کے سادہ معنی یہ ہوتے ہیں کہ کوئی معروضی اخلاقیات دنیا میں موجود نہیں ہے بلکہ عام طور پر اخلاقیات اضافی ہیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے مختلف انسانوں کے درمیان الگ الگ ہوتی ہیں۔ وہ تمام تر معروضی اخلاقیات کا انکار کرتے ہیں حتی کہ ان کا بھی جو تمام انسانوں کے درمیان مسلم ہیں۔

جدید ملاحدہ اخلاقی نہلزم کو تھوڑا تبدیل کر کے استعمال کرتے ہیں وہ اس کے آدھے حصے پر یقین رکھتے ہیں یعنی وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ کسی خدا کے ذریعے کوئی معروضی اخلاقی اصول نہیں دیے گئے، لیکن وہ انسانیت کے فائدے کے لیے اضافی اخلاقیات کو ضروری جانتے ہیں۔ وہ انسانی سماج میں نظم ونسق برقرار رکھنے اور انسانی تہذیب کی بقا اور نشوونما کے لیے سائنس اور عقل کی بنیادوں پر اخلاقی اصول وضع کرنے پر زور دیتے ہیں۔

وجودی نہیلزم: جدید الحاد نہیلزم کی اس قسم کو استعمال کرتا ہے۔ وہ کائنات کی صرف اور صرف مادی توجیہ پر زور دیتا ہے وہ انسان کو ارتقائی عمل کا ایک نتیجہ مانتا ہے اور اس طریقے سے وہ اس کے کسی بھی وجودی مقصد کا انکار کرتا ہے۔

مذہب کے ذریعے دیے گئے مہا بیانیوں کا رد: جدید الحاد نہیلزم کے اس اہم پیراڈائم کابھی استعمال کرتا ہے وہ مذہب کے ذریعے دیے گئے بیانیوں کو مسترد کرتا ہے، جیسے آخرت کا وجود، انسان کا روحانی اور مادی وجود،ظلم اور نا انصافی کے خاتمے کے لیے دی گئی اخلاقیات اور آخرت میں کم زور افراد اور اقوام کے لیے انصاف کا یقین۔

نہیلزم اور جدید الحاد کے آ پسی رشتے کو اوپر کی سطروں میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ بیانیہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ نہیلزم کس طرح سے جدید الحاد کی ایک اہم فلسفیانہ بنیاد ہے۔

اب نیچے کی سطروں میں ہم جدید الحاد اور نہلزم کے ساتھ اس کے رشتے کا تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

1۔ معروضی معنی کی عدم موجودگی

مذاہب میں بھی خاص طور پر توحید پسند مذہب جیسے اسلام میں خدا کا تصور بہت واضح، ٹھوس دلائل پر مشتمل اور سمجھنے کے لیے بہت سہل ہے۔ ایک ایسے واضح، مدلل اور سہل تصور کے بغیر انسان ایک ایسی کائنات میں رہ جاتا ہے جو فطری معنی سے عاری ہے۔زندگی، کائنات اور انسان کا کوئی مقصد نہ ہونے کا تصور انسان کو ایک ایسے نفسیاتی خلا میں لے جاتا ہے جہاں اس کا سکون اور اطمینان چھن جاتا ہے اور وہ گوناگوں نفسیاتی مسائل میں گھر جاتا ہے۔ ایک بے مقصد اندھا دھند اور انجام کار کے اعتبار سے خالی کائنات کا تصور ایک عام انسان کو ایک ایسے اندھے گڑھے میں ڈھکیل دیتا ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ وہ نہیں پاتا۔

رچرڈ ڈاکنز جیسے جدید الحاد کے مبلغین انسانوں کو کائنات میں ’اندھی، افسوسناک بے حسی‘کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ایک ایسی بے حسی جو بغیر کسی خالق کے بے ترتیب اتفاق سے چلتی ہے۔ جدید الحاد اور نہلزم کے اس پہلو کو ماننے کی وجہ سے انسانی وجود حتمی اہمیت سے محروم رہ جاتا ہے اور ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جس میں انسان سوائے ادھر ادھر ٹھوکریں کھانے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ آفاقی ہدایت کا رد کر کے کیا انسان اپنی زندگی، کائنات، کائنات میں موجود تمام اشیا کا کوئی معنی یا مقصد پیدا کر سکتا ہے؟ جواب ہے نہیں۔

اگرچہ نئے ملحدین کا ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ افراد اپنا معنی تخلیق کرسکتے ہیں، لیکن یہ نقطہ نظر ذاتی ہے اور اکثر گہرے وجودی سوالات کو حل کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ معنی کو نظر انداز کرنے سے انسانی مقاصد کے صرف بقا کی جدوجہد کے میکانزم تک محدود ہونے کا خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ وہ بقا کی جدوجہد جس کا تذکرہ بڑے زور و شور کے ساتھ اور بڑے بڑے سائنسی ثبوتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یعنی ڈارونزم کا مشہور زمانہ جملہ سروائیول فار دا فٹسٹ اور سٹرگل فار ایگزسٹنس (یعنی بقائے اصلح اور بقا کی جدوجہد)۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ مشہور وجودی فلسفی فریڈرک نطشے، جس کا مشہور زمانہ جملہ‘ خدا مر چکا ہے‘ ایک عرصے تک زبان زد رہا اور بڑے غیر معمولی زور و شور کے ساتھ استعمال کیا جاتا رہا، اس نے خود اس بات کا برملا اظہار کیا تھا کہ معنی و مقصد کے حوالے سے یہ خلا ثقافتی اور اخلاقی بے راہ روی، یا ’اقدار کی موت‘کا باعث بنے گا۔ آج کی دنیا اس تجربے سے گزر رہی ہے کہ معنی سے عاری تصور حیات کو اگر عمل کی دنیا میں مکمل طور پر نافذ کر دیا جائے تو انسانی تہذیب کا حال کیا ہوگا۔ ابھی وہ تجربہ بہت محدود سطح پر ہے تو دنیا کا یہ حال ہے، اگر دنیا کے تمام انسان اس کو اپنا لیں تو دنیا طاقت ور اور کم زور کی تباہ کن جنگ کا ایک میدان بن کر رہ جائے گی جس میں کم زوروں کے لیے کوئی جگہ نہیں رہے گی۔

جدید الحاد زندگی کا معنی خود تشکیل دینے کی بات کرتا ہے۔ لیکن یہ خود ساختہ معنی زندگی میں کارفرما نہیں ہوپاتا۔ مثال کے طور پر تصورِ موت۔ اگر موت کے بعد کچھ نہیں ہے تو پھرآپ اپنی زندگی کے چاہے جو معنی قائم کریں ان کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ اگر زندگی گمنامی میں ختم ہو جائے اور انسانیت خود ایک دن ختم ہو جائے تو خود ساختہ معنی کیسے دیرپا اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں؟

یعنی اگر موت ہی بالآخر انجام ہے اور موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے،کوئی جزا و سزا نہیں ہے، انسان کے ذریعے کیے گئے اعمال کا کوئی انعام نہیں ہے، برے اعمال کی کوئی پکڑ نہیں ہے، تو پھر کسی بھی خود ساختہ معنی کی اہمیت کیا رہ جائے گی؟

اسی طرح عالمی مصائب کا معاملہ ہے۔ ناانصافی سے بھری دنیا میں بغیر کسی آفاقی رہ نمائی کے ذاتی طور پر اپنی زندگی کا مقصد اور معنی متعین کرنا ان لوگوں کے لیے کتنا مشکل ہو سکتا ہےجو منظم جبر یا مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ کیا سیکولر اخلاقیات کسی فرد کے اندر اتنا مضبوط داعیہ پیدا کر سکتی ہیں کہ وہ اپنا معنی اور مقصد خود متعین کر سکے اور اس کے بعد اس پر عمل پیرا بھی ہو سکے، جب کہ وہ جانتا ہے کہ جو کچھ وہ اپنے آپ تشکیل دے رہا ہے،سب اضافی ہے اور اس کا خود کا بنایا ہوا ہے اور اس کی بنیاد صرف اس کی سوچ اور صرف اس کی اپنی فیصلہ لینے کی صلاحیت تک محدود ہے، اس کے اس ذاتی معنی اور مقصد پر کسی انعام اور کسی جزا و سزا کی امید نہیں ہے۔

انسانی نفسیات کو سامنے رکھیں تو عملی دنیا میں یہ معنی و مقصد کتنے کھوکھلے ہوں گے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

2۔ اخلاقیات کا مسئلہ

جدید ملحدین اصل میں کسی بھی فوق الفطرت اخلاقیات کی تردید کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اخلاقیات ایک اضافی شے ہے۔لیکن وہ اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اختیار کی جانے والی سیکولر اخلاقیات کی بنیاد کیا ہوگی۔ اگر میرا ملک کسی دوسرے ملک کی معدنیات پر قبضہ کر کے ترقی کر سکتا ہے تو اپنے ملک کے لوگوں کا مفاد نظر انداز کرکے میں دوسرے ملک کے لوگوں کے مفاد کا خیال کیوں کر رکھوں گا؟ یہ بہت چھوٹی اور معمولی مثال ہے لیکن اس میں سیکولر اخلاقیات کا کھوکھلا پن سمجھنے کے لیے کافی سامان ہے۔

اخلاقیات کی انفرادیت: ایک ناقابل تغیر فوق الفطرت اور مضبوط مذہبی بنیادوں کے بغیر، اخلاقیات کی بحث افادیت پسندی تک محدود رہ جاتی ہے۔ افادیت پسندی ایک انتہائی اضافی بات ہے۔ وہ چیز جو کسی کے لیے فائدہ مند ہو کسی دوسرے کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے اور کم فائدے والی بھی ہو سکتی ہے۔ جو چیزیں ’’فلاح و بہبود‘‘ کو فروغ دیتی ہیں، وہ ثقافتوں اور افراد کے درمیان مختلف ہوسکتی ہے۔ اس فرق کی وجہ سے عالمگیر اصولوں کو قائم کرنا یا برتناناممکن ہوجاتا ہے۔

طاقت اور عملیت پسندی: سیکولر اخلاقیات، جو الٰہی احتساب سے عاری ہیں، اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے انفرادی فائدے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ اس کے مظاہر ہم آئے دن دیکھ رہے ہیں اور دنیا کی معلوم تاریخ میں اس کا مشاہدہ مسلسل ہوتا رہا ہے۔ واضح رہے کہ بحث اس بات پر نہیں ہے کہ مذہبی حکومتیں بھی تو وہی مظالم ڈھاتی ہیں، جن کا اندیشہ سیکولر اخلاقیات والوں کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ اثرات اور نتیجے کے تناظر میں مذہب پر مبنی اخلاقیات اور سیکولر اخلاقیات کا داعیہ اور سرچشمہ الگ الگ ہو، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اصل بات یہاں فرد کی نہیں ہے بلکہ اصول کی ہے۔ کیا نہیلزم کے اصول ایک پائیدار اخلاقیات کو جنم دے سکتے ہیں؟ یقینًا نہیں۔ رہی یہ بات کہ طاقت ور افراد مذہب کے نام سے ظلم کرسکتے ہیں تو وہ بحث کا ایک الگ موضوع ہے۔

یہ فرق اہم ہے کہ مذہب ہر طرح کے ظلم کو ناجائز قرار دیتا ہے اور سیکولر اخلاقیات اپنے فلسفے کی رو سے ظلم کو جواز فراہم کرتی ہیں۔

یہ فرق بھی اہم ہے کہ مذہبی اخلاقیات آخرت میں جزا وسزا کا طاقت ور اصول پیش کرتی ہیں، جب کہ سیکولر اخلاقیات صرف دنیوی فائدوں کا ذکر کرتی ہیں، جنھیں دیکھنے کا ہر فرد یا گروہ کا زاویہ نظر الگ ہوسکتا ہے۔

اخلاقی فلسفی ایلسڈیئر میک انٹائر نے آفٹر نیچر میں یہ خیال پیش کیا ہے کہ جدید سیکولر اخلاقیات، میں ہم آہنگی اور تحریکی قوت کی کمی ہے۔ نئے ملحد مذہبی اخلاقیات کو تو مسترد کرتے ہیں، لیکن انھوں نے ابھی تک کوئی ایسا نظام پیش نہیں کیا ہے جس میں اس کے مساوی طاقت اور آفاقیت ہو۔

نہلزم اور سماجی ارتباط کا انہدام

پوری انسانی تہذیب مختلف اقدار، رسومات اور مقاصد کے ذریعے باقی رہتی ہے اور نشوونما پاتی ہے۔ جدید الحاد کے ذریعے پیدا ہونے والا نہلزم کسی بھی بامقصد انسانی تہذیب کی نفی کرتا ہے۔ یہ دو سطحوں سے انسان کی اجتماعی بقا پر اثر انداز ہوتا ہے۔

1۔ انسانی اجتماعی کے احساس کا زوال

نہلزم انفرادیت پسندی کی انتہاؤں کو جنم دے سکتا ہے۔ چوں کہ وہاں زندگی کا کوئی آفاقی مقصد نہیں ہوتا اس لیے جدید الحاد کے تحت نہلزم ایک وسیع تر انسانی اجتماعیت کا حصہ ہونے کے احساس کو ختم کر دیتا ہے۔ اسی طرح مذہبی رسومات اور سماج کی آفاقی اقدار جن میں انفرادیت کے مقابلے میں اجتماعیت کی اہمیت جیسے تصورات شامل ہیں، سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ انسانی اجتماعیت سے کٹ جانے کی وجہ سے تنہائی کا ایک نہیں ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ یوروپی ممالک اور امریکہ میں اسے تنہائی کی وبا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس کا تذکرہ امریکہ کے سرجن جرنل نے کیا ہے۔ جس کے مطابق امریکہ میں تنہائی صحت عامہ کا ایک بحران بن چکی ہے۔

2۔ انسانی تہذیبی اداروں اور نظاموں کا عدم استحکام

نہلزم کے نتیجے میں سچائی اور انصاف جیسی قدریں اضافی ہو جاتی ہیں۔ انسانی تہذیب کے اہم سیاسی ادارے جیسے جمہوریت وغیرہ پر یقین اور اس کے لیے جدوجہد کم زور ہوتی جاتی ہے۔ بعض ماہرین امریکہ اور یوروپ میں بڑھ رہی تشدد پسند تحریکات کا سبب نہلزم کے اسی انتہاپسندصورت کو مانتے ہیں۔ نہلزم کا مشہور زمانہ تصور ’’ہر چیز بے معنی ہے‘‘ (nothing matters) کو بہت سی انفرادی اور اجتماعی برائیوں کی جڑ مانا جا رہا ہے۔ بطور خاص نوجوانوں میں لامذہبیت یا روایتی مذہبیت کے فقدان کے سبب تسلیم شدہ انسانی تہذیبی اقدار اور اداروں پر سے یقین اٹھتا جا رہا ہے۔

حقیقی ترقی کا انکار

اگر زندگی بجائے خود اپنے کچھ مقصد نہیں رکھتی ہے تو پھر طویل مدتی سماجی اہداف جیسے انسانیت کی فلاح کے لیے سائنس ترقی، عدل و قسط کے تحت جدوجہد، ظلم و ستم کے خاتمے کے لیے طویل مدتی اقدامات بے معنی ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پرسائنسی ترقی الحادی حلقوں میں بھی ضروری مانی جاتی ہے لیکن خالص نہلزم کے تحت سائنس فطرت پر قابو پانےیا اسے مینیوپلیٹ کرنے کا آلہ بن جاتی ہے۔ کیوں کہ اگر کائنات ایک اندھے حادثے کے طور پر وجود میں آئی ہے تو اس کے راز پر سے پردہ اٹھانے، اس کے وجود میں آنے کے طریقے ڈھونڈنے، اس میں موجود ترتیب اور حسن کو تلاش کرنے کی کوئی طاقت ور وجہ باقی نہیں رہ جاتی ہے۔ یہ تمام مشقیں اسی وقت اہم قرار پاتی ہیں جب ان مشقوں سے کسی خالقِ کائنات کے وجود کا اثبات کرنا ہو، اس کی خلاقی کا اعتراف کرنا ہو اور اس لامتناہی کائنات میں اپنی اہم حیثیت سے واقف ہونا اور اس کے تقاضوں کو سمجھناہو۔

نہلزم اور حقیقی ترقی کے درمیان لاتعلقی کے حوالے سے ایک لطیف نقطہ قابلِ توجہ ہے جسے ماحولیات کے تئیں بے حسی کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ نہلزم چوں کہ کسی مقصد و معنی پر یقین کو غیر ضروری سمجھتا ہے اس لیے اس کے زیر اثر ماحولیات کے سلسلے میں کھلی ہوئی بے حسی جنم لیتی ہے۔ کیوں کہ اگر کائنات ایک حادثہ ہے اور اس کو کسی خالق نے نہیں بنایا ہے تو کرہ ارض یعنی زمین کو بچانا اور مستقبل کی نسلوں کے لیے اسے قابل رہائش بنائے رکھنا، ایک اختیاری معاملہ تو ہوسکتا ہے، لیکن اسے کوئی اخلاقی فریضہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

بہت سے ماہرین ماحولیات امیر ملکوں میں ماحولیاتی تحفظ کے تئیں ان ممالک کی سردمہری کے پیچھے الحاد سے پیدا نہلزم کے اسی پہلوکو وجہ قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح آج کل افراد کے حوالے سے بھی ماحولیاتی جدوجہد کے لیےمفلوج ہو جانے (ecological paralysis) کی کیفیت کو قابل تشویش بتایا جارہا ہے اور اس کی وجہ بھی وہی بتائی جارہی ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ ماحولیاتی بحران کو بڑھاوا دینے میں اس ذہنیت کا بہت بڑا رول ہے۔ بطور خاص جدید نسل الحاد اور اس کے بطن سے جنم لینے والے نہلزم کے نتیجے میں ماحولیات کے تئیں زبردست بے حسی کا شکار ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ماحولیاتی بحران میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ دیگر وجوہات کے ساتھ مل کر اس طرح کا ورلڈ ویو ماحولیات کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی اثر پذیری میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

جذباتی اور وجودی خلا

جدید الحاد کے ماننے والے آزادی کے اس تصور پہ زور دیتے ہیں جو خدا کے خوف اور انعام کی لالچ کے پرے ہو۔ وہ اس بات پر اصرار کرتےہیں کہ خدا کے خوف اور انعام کی لالچ سے پرے جو آزادی وجود میں آتی ہے وہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی ترقی کے لیے غیر معمولی داعیہ فراہم کرتی ہے۔ لیکن یہ ایک کھوکھلا دعوی ہے۔ کرسٹوفر ہچنز جیسی شخصیات کا کہنا ہے کہ خدا کی نگرانی سے آزاد زندگی زیادہ ڈائنامک اور زیادہ اطمینان بخش ہوتی ہے، کیوں کہ افراد خدائی فیصلے کے خوف سے آزادہوکر فیصلہ لے سکتے ہیں۔

اگرچہ یہ آزادی کہنے میں بڑی خوشنما معلوم ہوتی ہے، لیکن یہ مذہب کے مقابلے میں جذباتی اور وجودی ضروریات کی تکمیل میں ناکام رہتی ہے۔ ایک فوق الفطرت ہستی جس کا تصور محفوظ وحی الٰہی میں موجود ہے،انسان کو درج ذیل اہم نفسیاتی شاکلہ فراہم کرتا ہے:

امید: آخرت اور خدائی انصاف پر یقین مصائب اور موت کے حوالے سے سکون فراہم کرتا ہے۔ اس کے برعکس جدید لادینیت کا خالص مادیت پسندانہ نظریہ اپنے وجودکے حوالے سے مایوسی کو بڑھاتا ہے۔

تعلق: عالمی اخوت کا تصور اور تمام انسانوں کے ایک ماں باپ سے پیدا ہونے کا تصور انھیں آپس میں بھائی بھائی بناتا ہے۔یہ تصور ان مصنوعی حد بندیوں کو ختم کرتا ہے جنھیں عام طور پر ضروری مانا جا رہا ہے۔یہ شناختوں کے پیچیدہ جال سے انسان کو نجات دیتا ہے۔ یہ انسان کے بحیثیت نوع ایک ہونے کے تصور کو ٹھوس الہی بنیاد فراہم کرتا ہے۔اس طرح سے مذہب کا تصور سیکولر اخلاقیات میں موجود سب سے گہرے خلا کا جواب ہوتا ہے۔

مصائب کا فریم ورک: سیکولر اخلاقیات مصائب کا سارا بوجھ افراد اور اقوام پر ڈال دیتی ہیں یا وہ اس کے لیے کوئی اسکیپ روٹ تلاش کرتی ہیں۔ مذہب مصائب کو معنی خیز قرار دیتا ہے–بطور خاص اسلام کے نزدیک مصائب ومشکلات میں انسان کی آزمائش ہے، اور ان سے انسان کا تزکیہ مقصود ہے۔ اس فریم ورک کے بغیر، مصائب افراد و اقوام میں اضطراب و بے چینی اور شدید قسم کی مایوسی پیدا کرتے ہیں جو بالآخر مایوسی، بے عملی اورزندگی سے بے زاری اور اس طرح کے دیگر ناروا انسانی رویوں کا باعث بنتے ہیں۔

جدید انسانی نفسیات اور سماجیات کے متعدد تحقیقی مقالے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ خالق الوجود پر یقین ایک ایسا ذہنی شاکلہ بناتا ہے جو ایجابیت سے عبارت ہوتا ہے۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2025

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2025

Dec 25شمارہ پڑھیں

نومبر 2025

Novشمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223