بچوں کی پختہ تربیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین کے بچوں سے گہرے اور پائے دار تعلقات ہوں۔ رشتوں میں ہونے والی اونچ نیچ دوریوں کی وجہ بنتی ہے۔ بچوں کے بچپن سے لے کر جوانی تک والدین اور بچوں کے درمیان چھوٹے بڑے بہت سے فاصلے آتے رہتے ہیں۔ انھیں نظر انداز کرنا درست نہیں ہے کیوں کہ پھر یہ ایک بڑے فاصلے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جسے جنریشن گیپ کہتے ہیں۔
جنریشن گیپ، دو نسلوں کے درمیان نظریات، فکر وافکار، طور طریقوں کے تنازعات و اختلافات کو لے کر پیش آنے والی دوری کو کہتے ہیں۔ یہ محض دوری نہیں ہوتی، بلکہ بڑے خسارے کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ والدین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ دوریاں آتی کیوں ہیں، ان دوریوں کو کیسے پہچانا جائے اور انھیں مٹانے کی تدابیر کیا ہوسکتی ہیں؟
والدین اور اولاد کے درمیان گیپ کی تشخیص
جنریشن گیپ کا مسئلہ نومولود بچوں اور والدین کا نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ مخصوص عمر کے بچوں اور ان کے والدین میں رونما ہوتاہے۔ اس کے لیے دو پہلوؤں پر دھیان دینا ضروری ہے، اول تو یہ کہ کس عمر کے بچوں میں والدین کے ساتھ فاصلہ بننے لگتا ہے اور دوم یہ کہ دوری کے کیا مظاہر ہیں۔
محققین نے عمر کے مختلف مراحل میں بدلتے نظریات اور رویوں نیز نو عمر اور نوجوانوں کی ذہنی کشمکش اور والدین اور بچوں کے درمیان بڑھتی دوری پر اپنی تحقیقات پیش کی ہیں۔ جنریشن گیپ کی نشان دہی کے لیے بچوں کی بڑھتی عمر اور ان میں آنے والی تبدیلیاں معنی رکھتی ہیں۔
10سال سے 12 سال : اس عمر میں بچے اپنی پسند ناپسند، اپنا مشغلہ، اپنی دل چسپی چننے کی سمجھ رکھتے ہیں اور اس لیے والدین اور بچوں کے درمیان تکرار کے مواقع آتے ہیں۔
13 سال سے 19 سال کی عمر : اس میں بچے جسمانی تبدیلیوں کی وجہ سے ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ سن بلوغت میں چڑچڑاپن، تذبذب، جذباتیت، غصہ آنا عام ہے۔ اس عمر میں بچے اپنی جگہ چاہتے ہیں اپنے فیصلے خود سے لینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح بچوں اور والدین کے درمیان تصادم کے مواقع پیش آتے ہیں۔
20 سال سے 30 سال کی عمر: اس عمر میں والدین اور بچوں میں نظریاتی اختلافات کا ہونا عام بات ہے۔
درج بالا عمر کے ادوار کا تعلق بچوں کی عمر سے تھا لیکن والدین کے اندر بھی عمرکے ساتھ کچھ تغیرات آتے ہیں۔
40 سال سے 60 سال کی عمر : جن والدین کا اپنے بچوں سے رابطہ گہرا نہیں ہوتا وہ بچوں سے دوری محسوس کرتے ہیں اور عمر کے اس دور میں مایوسی انھیں گھیرتی ہے۔
60 کے بعد : اس عمر کو ریٹائرمنٹ کی عمر بھی کہا جاتاہے۔ روٹین بدلنے سے، لوگوں سے میل ملاپ ٹوٹ جانے سے اور برسوں سے چلے کسی کام پر بریک لگ جانے سے ریٹائرمنٹ کے بعد کی اس عمر میں ڈپریشن عام ہے۔ اب اگر والدین شروع سے ہی (بچوں کے بچپن سے ہی) اپنی جاب کو بچوں پر ترجیح دیتے رہے ہوں تو ریٹائر منٹ کے بعد والدین اور بچوں میں واضح طور پر اجنبیت ہوگی۔
ہم یہاں کچھ ایسے مظاہر ذکر کریں گے جو والدین اور بچوں کے درمیان خلا کی عکاسی کرتے ہیں:
والدین اور بچوں کے درمیان بات بات پر بحث ہونا
بچوں کا والدین پر دوستوں کو ترجیح دینا
بچوں کا والدین سے باتیں چھپانا
والدین کو یہ احساس کھائے جانا کہ بچے ان کی بات نہیں مانتے
ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کی قدر نہ کرنا
جسمانی تکلیف، بیماری اور پریشانی کے دنوں میں ساتھ نہ دینا
ہمدردی کو احسان سمجھنا اور بارہا احسان جتا نا
خوشیوں کے مواقع پر بھی (جیسے تہوار، تقریبات) میں آپس میں رنجش ہونا
آپس میں اعتماد کی کمی
والدین اور بچوں کے درمیان یہ حالات بڑے گیپ کی خبر دیتے ہیں۔ والدین اور بچوں کے درمیان بڑا گیپ آنے کی صورت میں آپسی تعلق خراب ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے نہ بچوں سے والدین کو سکون ملتا ہے نہ والدین کو بچوں سے فرحت و طمانیت ملتی ہے۔
جنریشن گیپ کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
والدین اور بچوں کے درمیان عمر کا طویل فاصلہ
والدین کا اپنی مرضی پر اصرار
مصروفیات کا ہجوم
مذہبی معاملات میں سختی اور لاپروائی
جسمانی سزا اور اذیتیں
معاشی حالات
والدین میں سے کسی ایک سے محرومی
ایک سے زائد نکاح
یہاں ہم ان اسباب پر مختصر روشنی ڈالیں گے:
والدین اور اولاد کے درمیان طویل عمر کا فاصلہ
ایسا مانا جاتا ہے کہ مختلف ادوار میں پیدا ہونے کی وجہ سے سوچ کے زاویے اور گزربسر کے طریقے مختلف ہوجاتے ہیں۔ والدین ذہنی طور پر ماضی میں رہنے کی وجہ سے حال اور مستقبل کو قبول نہیں کرپاتے اور اس لیے والدین اور بچوں کے درمیان دوری آجاتی ہے۔ مثال کے طور پر ٹیکنالوجی نوجوان نسل اور ان کے والدین کے درمیان فرق کرتی ہے۔ نوجوان نسل ٹیکنالوجی کے عادی ہیں جب کہ بیشتر والدین ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال نہیں کرپاتے۔ ہر دور میں نئے تصورات متعارف ہوتے ہیں جو والدین کی بہ نسبت نوجوان نسل کو جلد متاثر کرتے ہیں اور یہ بھی والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے بناتے ہیں۔
تدارک : زمانہ صرف وہ نہیں ہے جس میں والدین کی نوجوانی گزری، بلکہ وہ بھی ہے جس میں وہ آج جی رہے ہیں۔ انھیں اپنے آپ کو اپنے بچوںکے زمانے سے الگ نہیں سمجھنا ہے بلکہ بچے تو ان کے اس دور کا حصہ ہے جس میں وہ باشعورہیں اور بچوں میں ابھی شعور نہیں آیا یا کم آیا ہے۔ ایسے میں بچوں کو والدین کی رہ نمائی کی ضرورت ہے۔ والدین کو اپنے بچوں سے مضبوط تعلق بنانے کے لیے وقت کو اور وقت کی ساری تبدیلیوں کومثبت طریقے سے سمجھنا ہوگا۔ وہ صرف ماضی میں نہیں رہ سکتے انھیں حالیہ دور کے نئے تصورات کا مطالعہ کرنا ہوگا۔والدین کو اپنے آپ کو اپڈیٹ رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کو سمجھنا اور سیکھنا ہوگا۔ بچوں کے ساتھ گہرا رابطہ بنانے کے لیے ان کو اپنی سرگرمیوں میں شریک کرنا اور ان کے خوابوں کی تکمیل میں خود کو شامل کرنا ہوگا۔ ابراہیم علیہ السّلام اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے درمیان عمروں کا طویل فاصلہ انھیں خانہ کعبہ کی تعمیر جیسے عظیم کام سے روک نہ سکا۔ والدین کو یہ جاننا ہوگا کہ عمر تو بس نمبر ہے جس سے ان کا مقام متاثر نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے بچوں پرکوئی فرق پڑتا ہے۔ والدین کی بچوں کے ساتھ فعال شمولیت عمر کے فاصلے اور زمانے کے فرق کو مٹاتی ہے۔
والدین کا اپنی مرضی پر اصرار
سخت مزاج والدین کی پاس یہ روایت عام ہے کہ وہ بچوں کی زندگی کے تمام فیصلے بچوں کی مرضی جانے بنا خود ہی کرتے ہیں اور مسلسل بچوں پر نگاہ رکھتے ہیں اور بات بے بات بچوں کو ٹوکتے ہیں۔ والدین کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو مزاجاً کٹھور تو نہیں ہوتا لیکن انھیں اپنے بچوں پر اعتماد نہیں رہتا اس لیے وہ بچوں کے تمام معاملات میں اپنی مرضی چلانے کو بچوں کے مفاد کا تحفظ سمجھتے ہیں۔
ان گھرانوں میں بچوں کے جذبات دبائے جاتے ہیں، بچے والدین سے اپنی بات کہنے کی ہمت نہیں کرتے اور پھر دھیرے دھیرے انھیں اپنے احساسات کی کوئی پہچان بھی نہیں ہوتی اور نہ وہ ان کا بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس طرح والدین اور بچوں کے درمیان دوریاں قائم ہوجاتی ہیں۔
ایسے گھرانوں کی فضا میں منفیت کی بو ہوتی ہے جو بچوں کی شخصیت کو الفاظ اور رویوں سے گھائل کرتی ہے۔
تدارک: ڈاکٹر مسارُو ایموٹو جاپانی سائنس دان کا نام ہے جو ان کے water experiment کے لیے مشہور ہیں۔ انھوں نے اس بات پر تحقیق کی ہے کہ پانی ہر چیز کے اثرات کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ پانی دیگر غیر جاندار شئے کی طرح نہیں ہے، وہ ایک مخلوق کی طرح احساسات رکھتا ہے، منفی اور مثبت باتوں کا اثر لیتا ہے اور ردعمل بھی دیتا ہے۔ ڈاکٹر مساور یہیں نہیں رکے بلکہ انھوں نے چاول پر بھی تجربہ کیا۔ اس تجربہ کے ذریعے والدین کو یہ پیغام دیا جاتا کہ بچوں سے مثبت سلوک کرنا چاہیے۔ منفی الفاظ اور ردعمل سے گریز کرنا چاہیے جن سے بچوں کی شخصیت پر داغ لگتے ہیں۔ دوستانہ روی والدین اور بچوں کو ان کا رشتہ آزادی اور آسانی سے نبھانے دیتی ہے۔ مثال کے طور پر حضرت داؤدؑ اپنی رائے رکھنے کے بعد اپنے فرزند حضرت سلیمانؑ کو اپنی رائے رکھنے کی آزادی دیتے ہیں اور صحیح رائے کو قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
بعض گھرانوں میں معاملہ بالکل برعکس ہوتا ہے۔ بچے بے راہ روی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور انھیں نصیحت کرنا، روکنا ٹوکنا، مختلف پابندیاں لگانا لازمی ہوجاتا ہے۔ ان معاملات میں بھی والدین کو تحمل مزاجی کے ساتھ حکمت ودانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ نوح علیہ السّلام آخری لمحات تک اپنے بیٹے کو پکارتے رہے اور اس کے لیے دعا بھی کرتےرہے۔ والدین کو اپنے بچوں کی خوب سے خوب تر رہ نمائی کے لیے مسلسل جتن کرنا ہوگا۔
مصروفیات کا ہجوم
والدین اپنی مصروفیات کی وجہ سے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے۔ بچوں سے گفتگو نہیں ہوپاتی یا بہت ہی کم ہوتی ہے، وہ بچوں کے مسائل سے نا آشنا رہتے ہیں، انجام کار بچوں اور والدین میں فاصلہ آنے لگتا ہے۔
تدارک: ہسپانوی خاندانوں میں ایک دل چسپ سزا رائج تھی۔ جب بہنیں آپس میں جھگڑتیں یا ایک دوسرے کو مارتیں، تو ماں ان کے بالوں کی چوٹیاں گوندھ کر آپس میں باندھ دیتیں۔ اور انھیں مجبور کیا جاتا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں اور بات کریں۔اسے ’’go along hair ties‘‘ کہا جاتا تھا، ماں ان کی چوٹیاں اس وقت تک نہیں کھولتیں جب تک انھیں دوبارہ ہنستے اور آپس میں خوش گپیاں کرتے نہ سن لیتیں۔ اس منفرد اور مزاحیہ طریقے کا مقصد بہنوں کے درمیان رنجشوں کو ختم کرنا اور ان کے تعلقات کو بہتر کرنا ہوتا۔ ایسی سرگرمیوں کے لیے والدین کو الگ سے گھنٹے صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے بس صحیح وقت پر مناسب تدبیر کی ضرورت ہے۔کوالٹی ٹائم کسی مشقت بھرے وقت کا نام نہیں ہے جہاں خون پسینہ ایک کرنا پڑے، بلکہ بچوں سے اپنا تال میل بنائے رہنے کے لیے چند کارآمد سرگرمیوں کا انتظام کرنا ہے جیسے :
بچوں کو سونے سے پہلے کہانی سنانا
ساتھ مل کر کھیلنا
ساتھ مل کر کام کرنا
جب والدین بچوں کے ساتھ اس طرح وقت گزارتے ہیں تب وہ بچوں سےکافی قریب ہوجاتے ہیں۔ والدین کو بچوں کو سمجھنے اور ان کو سمجھانے کے بہت سے مواقع ملتے ہیں۔ اپنے رشتے کو اٹوٹ بنانے کے لیے والدین کو ایسی کارآمد ترکیبیں ضروری کرنی چاہئیں۔
مذہبی معاملات
مذہب والدین اور بچوں کو حقوق اور فرائض دیتا ہے اور ان دونوں کو مضبوط رشتے میں باندھے رکھتا ہے۔ لیکن مذہبی معاملات میں سختی یا لاپروائی سے بچوں اور والدین کے درمیان دوریاں آتی ہیں۔
سختی :
بعض والدین مذہب کے معاملات میں شدت پسند ہوتے ہیں۔ وہ خدا کا تعارف ہی خوف کے حوالے سے کراتے ہیں اور کسی بھی معاملہ میں ہلکی سی بھی کوتاہی کو نظرانداز کرنے کے بجائے زبردستی کھینچ تان کر سنگین کردیتے ہیں۔ ایسے والدین دین کو جبراً تھوپتے ہیں اور بہت مشکل بنا کر لاد دیتے ہیں۔
بتدریج بچے دین سے دور نکل جاتے ہیں اور چوں کہ دین ہی بچوں کو فرمانبرداری سکھاتا ہے اس لیے دین سے دوری والدین سے دوری بناتی ہے۔ دین اسلام انسان میں انسانیت، ہمدردی اور انسیت کے جذبات کی پرورش کرتا ہے اور سماج کے دیگر افراد کے ساتھ جینے کے آداب سکھاتا ہے۔ دین اسلام انسان کو انسان سے قریب کرتا ہے۔ لیکن جب بچے دین سے دور ہوجاتے ہیں تب ان کے پاس والدین کا مقام اور وزن بھی نہیں رہ جاتا۔
تدارک : دینی معاملات میں بچوں کو آسانی کے پہلو دکھائیں۔ بچوں کو دین دل چسپ انداز میں سکھایا جائے۔چند دل چسپ سرگرمیاں ہیں جیسے کہ گھر کی کسی دیوار پر ہر بچے کے نام کا ایک نیکی چارٹ لگا ہو جس میں نماز کا کالم ہو، حفظ قرآن کا کالم ہو، چند سنتوں کا کالم ہو، چند اچھی عادتوں کا کالم ہو اور ان تمام کالموں میں نمبرات دیے جائیں اور ہر ماہ بچوں کی مناسب انداز سے ہمت افزائی کی جائے۔
لاپروائی
کسی اسلامی اسکول میں بچوں کا داخلہ ہوگیا یا کسی مسجد میں مکتب کا انتظام ہوگیا تو والدین سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنا تمام تر دینی فریضہ انجام دے دیا،اب انھیں کچھ فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بچوں کو گھر میں دینی ماحول دینے کی انھیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔ پھر یہ والدین اخلاقی نمونہ پیش کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ یہ گھر کے باہر تو با اخلاق وبا کردار بنے پھرتے ہیں لیکن گھر میں ان کی تنک مزاجی اور چڑچڑے پن سے ہر کوئی پریشان رہتا ہے۔ ان کے رشتے داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ روابط درست نہیں ہوتے۔ اس طرح جو لوگ دین سے لاپروا ہوتے ہیں وہ اپنے بچوں کے لیے خود کو پرکشش نہیں بناپاتے اور ان کے بچے ان سے دور ہونے لگتے ہیں۔
تدارک: والدین کی پرکشش شخصیت بچوں کو قریب رکھتی ہے۔ مسلمان ہوتے ہوئے یہ ذمہ داری ہم پر آتی ہے کہ ہم اپنا احتساب کرتے رہیں اور اپنے کردار کو سنوارتے رہیں۔ اچھی عادات اختیار کریں اور انھیں اپنی نسلوں میں منتقل کریں، نیز اپنی کم زوریوں پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ نیک صحبت اختیار کریں، انبیائے کرام، صحابہ کرام اور دیگر دینی شخصیات کی زندگیوں کا مطالعہ کریں، شخصیت سازی پر مرکوز کورس، تربیتی کیمپ اور ورکشاپ میں شرکت کیا کریں۔ اس طرح ان کی شخصیت دل کش ہوگی جو ان کے بچوں کو ان سے ہمیشہ ہمیشہ باندھے رکھیں گی۔
جسمانی سزا اور اذیت
جن والدین کو زیادہ غصہ آتا ہے اور وہ بچوں پر ہاتھ اٹھائے بنا نہیں رہ پاتے وہ اپنے بچوں کو خود ہی اپنے آپ سے دور کردیتے ہیں۔ بچوں کو باربار مارنے، سخت جسمانی سزا دینے، انھیں کسی بھی طرح ذلیل کرنے سے ان کے دل میں والدین کی عزت ختم ہوجاتی ہے اور دونوں کے درمیان ناقابل عبور فاصلہ وجود میں آجاتا ہے۔ ان بچوں کو محبت کی طلب اور ضرورت ہوتی ہےاور وہ اس کی کھوج میں بھٹک بھی سکتے ہیں۔ بڑے ہوکر وہ بھی ویسے ہی والدین بنتے ہیں اور اذیتیں نسل در نسل منتقل ہوتے رہتی ہیں۔
تدارک: والدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے بچوں کو ان کی محبت اور توجہ کی بہت ضرورت ہے۔انھیں اپنے چڑچڑے پن پر قابو پانے میں محنت کرنی ہوگی۔ والدین کے غصیلے برتاؤ کی وجہ سے ان کو مختلف بیماریاں ہوسکتی ہیں اور وہ بچوں کو بھی کھو سکتے ہیں۔ بچوں سے دوستی کرنے کے لیے ان میں وہ سارے گن ہونے چاہئیں جو ایک قابل اور ہمدرد دوست میں ہوتے ہیں۔ جسمانی سزا سے روکنے کے لیے اپنے اندر مصمم ارادہ کرنا ہوگا۔ انھیں وہ طریقے سیکھنے ہوں گے کہ بچوں کی تادیب بھی ہوجائے اور ان کو اپنی غلطی سدھارنے کا سبق بھی ملے۔ ظالم انسان کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا اس لیے اپنے آپ کو بچوں کی چاہت کے قابل بنانے کی خاطر والدین کو جسمانی سزاؤں سے خود کو روکنا ہوگا۔
معاشی حالات
والدین بچوں کے لیے جس قسم کی سہولیات کا چناؤ کرتے ہیں وہ ان کے رشتے پر اثر کرتی ہیں۔ مثلاً والدین اگر بچوں کو ہر قسم کی آرائش مہیا کریں اور بچوں کی بےجا تمناؤں کو پورا کریں تو بچے اپنی دنیا میں اتنا مگن ہوجاتے ہیں کہ بچوں اور والدین کے درمیان ایک فاصلہ بن جاتا ہے۔
والدین اگر بچوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے معاملہ میں کنجوس ہوں تو والدین اور بچوں کے رشتے میں دوری آنے لگتی ہے۔
تدارک: والدین کو بچوں پر خرچ کرنے کے معاملہ میں اپنی جیب کی مناسبت سے پلاننگ کرنی ہوگی۔ انھیں بچوں پر اس انداز میں خرچ کرنا ہوگا کہ سہولیات سے ان کی شخصیت کو فائدہ ہو۔ اسراف اور بخل کی درمیانی راہ اپناتے ہوئے انھیں بچوں کے لیے بہتر معاشی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
والدین میں سے کسی ایک سے محرومی
بچے والدہ سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں کیوں کہ وہ ان کی بنیادی ضروریات اور روزنہ کے کاموں کو کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ لیکن بچوں کو اپنے والد سے بھی لگاؤ ہوتا ہے۔ منظم تربیت کے لیے دونوں ہی کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔
طلاق یا خلع کی صورت میں جب گھر ٹوٹ جاتے ہیں تب سب سے زیادہ متاثر بچے ہوتے ہیں جنھیں اپنی زندگی کے دو اہم رشتوں میں سے کسی ایک ہی کے ساتھ گزارا کرنا ہوتا ہے۔ اور جس سے وہ الگ ہوجاتے ہیں، عام طور سے اس کے سلسلے میں ان کے معصوم ذہن بدگمانی اور نفرت سے بھر دیے جاتے ہیں۔ اس طرح اپنے ہی والدین میں سے کسی ایک رشتے سے وہ بہت دور ہوجاتے ہیں۔
باپ کا اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے دور رہنا
جاب کی وجہ سے بیشر باپ اپنی فیملی سے دور شہر یا ملک سے باہر رہتے ہیں۔یہ بچے باپ کی کمی کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ بچوں کو پیسوں سے زیادہ رشتوں کے لمس اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ رشتے قربت سے مضبوط ہوتے ہیں اور جب گھر میں باپ نہ ہوتو بچوں اور باپ کے درمیان دوریاں آتی ہیں۔
تدارک: اس صورت میں بچوں کو والدین میں سے ایک ہی کو زیادہ سے زیادہ وقت دینا پڑتا ہے۔ ان کی ذہنی صحت کو سمجھنا اور ان کے قریب رہنا ضروری ہوتا ہے۔ دوسرے کردار کی جگہ لینے کی کوشش میں ایسا نہ ہو کہ بے جا لاڈپیار سے بچے بگڑ ہی جائیں بلکہ اپنے کردار کو بہتر سے بہتر ادا کرنا ہوتا ہے تاکہ بچوں کی بہتر پرورش ہوسکے۔
اگر کسی بھی باپ یا ماں کو تنہا پرورش کرنی پڑرہی ہو تو خاندان کے افراد،رشتے داروں اور دوستوں کو ان کا تعاون کرنا چاہیے۔ ہر مسلم بچہ ہماری امت کا حصہ ہے اور ایسے حالات اور خاندانوں میں تعاون امت کے افراد کا فرض ہے۔
ایک سے زائد نکاح
ہندوستان میں زیادہ تر ایک سے زائد نکاح کو بیوی کے ساتھ دھوکہ اور ظلم گردانا جاتا ہے اس لیے باپ سے بدگمانی اور بددلی کی صورت پیدا ہوجاتی ہے اور بچوں اور باپ کے درمیان فاصلہ آجاتا ہے۔ یہ ساری منفیت صرف اس لیے آتی ہے کیوں کہ سماج کی نگاہ میں حلال احکامات اور امور کو کریہہ اور ناپسندیدہ بنادیا گیا ہے۔
تدارک: اس دوری کا اول علاج یہ ہے کہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کی خاطر ماں بچوں کی صحیح ذہن سازی کرے۔ بچوں اور ان کے باپ کے رشتے میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بچوں کے سامنے ان کے والد کی شکایت یا سوکن کا شکوہ کرنے سے مطلق پرہیز کرنا چاہیے۔ حلال احکام اور سنت کی خاطر اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنائیں کہ آپ کے بچے آپ کو دیکھ کراچھی زندگی گزارنے کا حوصلہ پائیں۔ اور اس طرح باہر کے دیگر افراد کی منفیت آپ کے خاندان کی بنیادوں کو ہلا نہیں سکے۔
بچے امت کا مستقبل ہیں اس لیے مسلم سماج کے افراد کو اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ وہ اپنی زبان و عمل سے بچوں پر ایسا منفی اثرنہ ڈالیں جو بچوں کو ان کے والدین یا کسی ایک سے دور کرتا ہو۔
ہمیں اپنی نسلوں سے بہتر تعلق کی ضرورت کیوں ہے ؟
بلّی ایک جانور ہے اور اس کا اس کی ماں سے رشتہ تین چار مہینوں کا ہوتا ہے، چڑیا کا اپنے والدین سے رشتہ تین چار ہفتوں کے لیے ہوتا ہے،شارک مچھلی پیدا ہوتے ہی اپنے والدین سے جدا ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے، دنیا میں صرف ایک فی صد کیڑے مکوڑے ہیں جنھیں کچھ دنوں کے لیے والدین کی ضرورت پڑتی ہے، گویا حیوانات چاہے زمین پر رہتے ہوں، آسمان میں اڑتے ہوں یا پانی میں رہتے ہوں ان کا ان کے والدین سے مختصر سے دورانیے کے لیے رشتہ ہوتا ہے یا وہ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن انسان کا اپنی اگلی اور پچھلی نسل سے ہمیشہ کا رشتہ ہوتا۔
نبی کریم صلی اللہ وسلم فرماتے ’’ میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا کا نتیجہ ہوں۔‘‘
ابراہیم علیہ السّلام کی دعا اور اس کی تعبیر تمام والدین کے لیے یادہانی ہے کہ ان کا پیدا ہونا اور ان کے بچوں کا پیدا ہونا بلا مقصد نہیں ہے۔ سب کا ایک مشترک مقصد ہے اور وہ ہے’اللہ کی عبادت ‘یہ بہت ہی وسیع ہدف ہے۔عبادت کا مقصد اپنے اندر بڑی بڑی ذمہ داریاں سمیٹے ہوئے ہے۔
والدین کو اپنی زندگی کا مقصدخود سمجھنا ہوگا اور اپنی اولاد کو سمجھانا ہوگا۔ اپنے آباء واجداد سے وراثت میں ملی خوبیوں کو اپنی طاقت بنانا ہوگا، اپنی نسلوں میں ان طاقتوں کو منتقل کرنا ہوگا۔ والدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ کسی جانور کی طرح زندگی بسر نہیں کرسکتے۔ وہ انسان ہیں، وہ مسلمان ہیں اور ان کے بڑے اہداف ہیں۔ انھیں پورا کرنے کے لیے انھیں اپنے کردار کو سنوارنا ہوگا کہ رسول اللہ صلّی اللہ وسلم اخلاق و کردار کی بلندی و تکمیل کے لیے دنیا میں تشریف فرما ہوئے۔ بعثت نبوی کے اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنے بچوں کے لیے اخلاق کا بہترین نمونہ بننا ہوگا تاکہ وہ بھی اپنی نسلوں کے بہترین امام بنیں۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2025